بینکرز کو معلوم تھا کہ قرضے کی ضرورت جتنی جنگ میں ہوتی ہے کسی اور وقت نہیں ہوتی۔ جنگ عظیم اوّل میں جرمن راتھ شیلڈ نے جرمنی کو قرضہ دیا‘ برطانوی راتھ شیلڈ نے برطانیہ کو دیا‘ فرانسیسی نے فرانس کو دیا ‘جبکہ امریکہ میں مارگن سامانِ جنگ کی خریداری کے لیے فرانس اور برطانیہ دونوں کا ایجنٹ تھا۔ چھ ماہ کے عرصے میں وہ دنیا کا امیر ترین شخص بن گیا۔ وہ ایک دن میں ایک کروڑ ڈالر خرچ کرتا تھا۔ وہ راتھ شیلڈ کا ساتھی تھا۔ صدر ولسن نے بروخ (Baruch) کو جنگی صنعت کے بورڈکا صدر بنا دیا۔ بروخ اور راتھ شیلڈ نے جنگ کے دوران 20کروڑ ڈالر نفع کمایا۔
ان کا مقصد زار روس سے انتقام لینا بھی تھا ‘کیونکہ اس نے پرائیویٹ بینکوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ جیکب شف (Jacob Schiff) نے زار کو شکست دینے کے لیے دو کروڑ ڈالر خرچ کیے۔ بینکرز بالشویک کے ذریعے روس میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے۔
لیکن کیا امیر لوگ کمیونزم کی حمایت کریں گے‘ جو سرمایہ داری کو تباہ کرنے کا دعوے دار تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ کمیونزم سرمایہ داروں کا پیدا کردہ تھا۔
گیری ایلن (Garry Allen) کہتا ہے:
’’سوشلزم دولت کی مساوی تقسیم کا پروگرام نہیں بلکہ دولت کو جمع کرنے اور کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ ہے‘ اس لیے سرمایہ دار اس کو پسندکریں گے‘‘۔
لوئی میکفیڈن کہتا ہے:
’’روسی تاریخ کو بینکرز نے بہت متأثر کیا ہے۔ روس کو فیڈ نے چیزبینک (Chase Bank) کے ذریعے فنڈ دیے ہیں اور انگلینڈ نے فیڈرل ریزرو بینک کے ذریعے امریکہ سے قرضہ لے کر زیادہ سود پر روس کو دے دیا‘‘۔
روس جرمنی کے بعد امریکہ سے توازن رکھنے کے لیے مفید تھا۔ 1989ء میں اس کے خاتمہ پر چین نیا توازن ہے اور اسے 10کروڑ ڈالر کی تجارت کے ذریعے مدددی جا رہی ہے۔ اس توازن کا مطلب یہ ہے کہ بینکرز کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ملک ان کے خلاف کرے تو وہ اس کے مخالف کو مدد دے کر نقصان پہنچائیں گے۔روسی سوشلزم میں بھی راک فیلر کا سٹی بینک برقرار رہا‘ جبکہ باقی قومیائے گئے۔ (پاکستان میں بھٹو نے بینک کو قومیا لیا‘ لیکن بیرونی بینکوں اور صنعتوں کو رہنے دیا) روس میں کئی اور مغربی بینک بھی کام کرتے رہے۔ لڑائی کے زمانے میں ڈالروں کی مقدار دوگنی ہو گئی اور ڈالر کی قیمت نصف ہو گئی۔
ہنگامہ پرور تیسری دہائی اور عظیم کساد بازاری
پہلی عالمی جنگ کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ منی چینجرز کا بشمول امریکہ ہر ملک کی اکانومی پر کنٹرول ہے ‘اور اب وہ اپنی ایک عالمگیر حکومت بنانے کی کوشش کریں گے۔چنانچہ پیرس امن کانفرنس میں لیگ آف نیشنز کے نام سے نئی عالمی حکومت کی تجویز پیش ہوئی اور صدر ولسن کے ساتھ برنارڈ بروخ (Bernard Baruch) جس نے جنگ کے دوران کروڑوں ڈالرنفع کمایا تھا‘ بھی کانفرنس میں شامل ہوا لیکن دنیا ابھی اس کے لیے تیار نہ تھی‘ ابھی وطنیت کا تصور ذہنوں میں جاگزیں تھا۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ لارڈ کرزن نے اسے ایک اچھا مذاق کہا۔ امریکی کانگریس نے اس کی تائید نہ کی۔ تائید اور مالی امداد کے بغیر لیگ خود ہی مر گئی۔
جنگ کے بعد امریکہ پر قرض دس گنا ہو گیا لیکن اکانومی درست رہی۔ دوسرے ممالک خاص طور پر برطانیہ سے سونا لڑائی کے زمانے میں اور بعد میں بھی آتا رہا۔ صدر نے ٹیرف بڑھا کر آمدنی بڑھائی۔
لیگ آف نیشنز کے بے معنی ہو جانے کی وجہ سے منی چینجرز نے دوسری عالمی جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ چنانچہ انہوں نے امریکن اکانومی کو تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ فیڈرل ریزرو نے روپے کی افراط شروع کر دی اور اسے 67 فیصد بڑھا دیا۔ بزنس بڑھ گیا لیکن وہ سب ادھار پر تھا۔سب خوش تھے مگر یہ محل ریت پر بنا تھا۔
اپریل 1929ء میں فیڈرل ریزرو کے سربراہ واربرگ (Warburg) نے اپنے دوستوں کو وارننگ بھیجی کہ سرد بازاری کا آنا یقینی ہے۔ اگست 1929ء میں فیڈ نے روپیہ کھینچنا شروع کر دیا‘ اور یہ محض اتفاق نہیں کہ سٹاک مارکیٹ کریش ہونے سے پہلے راک فیلر‘ مارگن اور بروخ وغیرہ نے اپنے حصے بیچ دیے۔
24اکتوبر1929ء کو بڑے بینکروں نے اپنے قرضے واپس مانگ لیے۔ لوگوں کو اپنے سٹاک معمولی قیمتوں پر بیچنے پڑے اور مارکیٹ بیٹھ گئی۔ اس دن کو ’’تاریک جمعرات‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ حادثہ روپیہ کھینچ لینے کی وجہ سے ہوا۔
چند ہفتوں میں تین بلین ڈالر کم ہو گئے‘ ایک سال میں 40بلین کم ہو گئے اور بالآخر زراعت اور متوسط طبقے کے ہاتھوں سے200 بلین ڈالر نکل گئے۔ آج حالت یہ ہے کہ 65 سا ل کی عمر میں بھی لوگوں کے پاس نہ مکان ہیں ‘نہ کھیت اور ان کے قرضے کی رقم نکال دیں تو ان کے پاس کچھ بھی نہیں رہتا۔
فیڈرل ریزرو نے مارکیٹ کو روپیہ سپلائی کرنے کی بجائے مزید 33 فیصد کم کر دیا لیکن روپیہ ختم نہیں ہوا‘ بلکہ ان کے پاس چلا گیا جنہوں نے کریش سے پہلے بانڈ خریدلیے تھے‘ پھر انہوں نے امریکہ ہی خرید لیا‘ علاوہ ازیں روپیہ یورپ کو ٹرانسفر ہونا شروع ہو گیا۔
ہٹلر کے پولینڈ پر حملے سے آٹھ سال پہلے کرنسی کمیٹی کے صدر میکفیڈن نے کانگریس کو تنبیہہ کی کہ ہٹلر کے عروج کی ادائیگی امریکہ کر رہا ہے۔
’’پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی انٹرنیشنل بینکرز کے قبضے میں آ گیا‘ اب وہ اس کے مالک ہیں۔ وہی اس کی صنعت کے مالک ہیں‘ اس کی پیداوار اور مفادِ عامہ کو کنٹرول کرتے ہیں‘ وہ گورنمنٹ کو امداد دیتے ہیں اور ہٹلر کو اوپر لانے کے لیے انہوں نے ہی روپیہ دیا ہے۔ فیڈرل ریزرو کے ذریعے 30بلین ڈالر جرمنی میں ڈال دیے گئے۔ وہاں کی فیکٹریاں‘سڑکیں‘ مکان‘ پارک اور جمنازیم ہمارے روپے سے بنے ہیں‘‘۔
صدر ہوور (Hoover) نے چھوٹے بینکوں کو اوپر لانے کی کوشش کی مگر کچھ نہ بنا۔ روزویلٹ (Rosevelt) اسی سال 1932ء میں صدر بنا تو فیڈرل ریزرو نے بٹوا کھولا اور کچھ روپیہ نکالا۔