مولانا اسحاق مدنی

سورۃ البقرہ
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٧٥؁
يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ٢٧٦؁
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٢٧٧؁
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٧٨؁
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ٢٧٩؁
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٢٨٠؁
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٢٨١؁ۧ

جو لوگ ناجائز نفع [ لینے کے عادی ہوں وہ قیامت کے روز اپنے رب کے سامنے اس طرح کھڑے ہوں گے جیسے شیطان کے اثر سے مخبوط الحواس آدمی کھڑا ہوتا ہے اس لیے کہ انہوں نے کہا خریدو فروخت کرنا بھی ایسا ہی ہے جیسے قرض دے کر اس پر (الربوا) زائد مال لینا حالانکہ خریدو فروخت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور (الربوا) ناجائز نفع کو حرام ، ہاں ! اب جس کسی کو اس کے رب کی یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ اپنی اس حرکت سے باز آگیا البتہ جو پہلے لے چکا اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے لیکن جو شخص باز نہ آیا وہ یقینا دوزخی گروہ سے ہے جو ہمیشہ عذاب میں رہے گا
اللہ الربوا کو مٹاتا ہے اور صدقہ و خیرات کو بڑھاتا ہے اور اللہ ایسے ناقدر شناسوں ، منکروں اور نافرمانوں کو کبھی پسند نہیں کرتا

جو لوگ (سچے دل سے) اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور پھر اچھے کام کرتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں تو بلاشبہ ان کے رب کے ہاں ان کا اجر موجود ہے (اور آخرت میں) ان کیلئے کسی طرح کا خوف و ڈر نہیں اور نہ ہی وہ رنجیدہ خاطر ہوں گے
اے مسلمانو ! اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو جس قدر زائد مال نادار مقروضوں کے ذمہ لازم بنا رکھا ہے اسے چھوڑ دو

اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کیلئے تیار ہوجاؤ اور اگر تم اپنی روش سے توبہ کرتے ہو تو پھر اپنا اصل زر لے لو اور زائد چھوڑ دو اس طرح نہ تم کسی پر ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا
پھر اگر کوئی مقروض تنگ دست ہے تو چاہیے کہ اسے فراخی حاصل ہونے تک مہلت دے دو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو تمہارے لیے یہ عمل بہت ہی بہتر ہے کہ تم ایسے تنگ دست بھائی کو ادھار دیا ہوا بالکل ہی معاف کر دو یعنی بطور خیرات بخش دو
اور اس دن کی حاضری سے ڈرو جب تم سب اللہ کے حضور لوٹائے جاؤ گے اور پھر ایسا ہوگا کہ ہر جان کو جو کچھ اس نے کمایا ہوگا اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کی بھی حق تلفی نہیں ہو گی

جو لوگ حاجتمندوں کے لیے تنگی کا باعث ہوتے ہیں ، صحیح معنوں میں وہی الرابوا خور ہیں :
481: ” الربوا “ کا مادہ ر ب و ہے۔ اس مادہ کے درج ذیل الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں :
ربت۔ یربو۔ رابیا۔ رابیۃ۔ اربی۔ یربی۔ ربیانی۔ نربک۔ ربا۔ الربا۔ ربوۃ۔
مادہ (ر ب و) کے لغوی معنی ہیں : اُگنا ، بڑھنا ، پھولنا ، پالنا ، نشو ونما پانا ، پرورش کرنا ، زیادتی اور بڑھوتری۔
ربت کے لیے دیکھیں : سورة الحج ٢٢ : ٥ ، سورة حم السجدۃ ٤١ : ٣٩ (دو بار)
یربو کے لیے دیکھیں : سورة الروم ٣٠ : ٣٩ ، مکرر (د و بار)
رابیا کے لیے دیکھیں : سورة الرعد ١٣ : ١٧ (ایک بار)
رابیۃ کے لیے دیکھیں : سورة الحاقہ ٦٩ : ١ (ایک بار)
اربی کے لیے دیکھیں : سورة النحل ١٦ : ٩٣ (ایک بار)
یربی کے لیے دیکھیں : سورة البقرہ ٢ : ٢٧٦ (ایک بار)
ربیانی کے لیے دیکھیں : سورة بنی اسرائیل ١٧ : ٢٤ (ایک بار)
نربک کے لیے دیکھیں : سورة الشعراء ٢٦ : ١٨ (ایک بار)
ربا کے لیے دیکھیں : سورة الروم ١٣٠ : ٣٩ (ایک بار)
الربوا کے لیے دیکھیں : سورة البقرہ ٢ : ٢٧٥ ، مکرر ٢٧٦ ، ٢٧٨ ۔ آل عمران ٣ : ١٣٠ ، النساء ١٤ : ١٦١ (سات بار)

ربوۃ کے لیے دیکھیں : سورة البقرہ ٢ : ٢٦٥ ، سورة المؤمنون ٢٣ : ٥٠ (ایک بار)
خیال رہے کہ ” الربوا “ کے معنی سود صحیح نہیں۔ ” سود “ فارسی زبان کا لفظ ہے اور اردو زبان میں بھی اس کا استعمال بالکل ان ہی معنوں میں ہوتا ہے جو فارسی زبان میں اس کے معنی ہیں اور فارسی زبان میں اس کے معنی ” نفع “ کے کیے جاتے ہیں اور ” سود “ کا متضاد زیاں ہے اور ” نفع “ کا متضاد نقصان ہے۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ نفع اور سود دونوں مترادف ہیں۔ اسی طرح زیاں اور نقصان بھی مترادف ہیں متضاد نہیں اور الربوا کا عربی مترادف ” ربح “ ہے ” ربا “ نہیں۔ اس لیے ” ربا “ کا ترجمہ سود کسی حال میں بھی درست نہیں بلکہ بہت سے دوسرے الفاظ کی طرح ” الربوا “ کا ترجمہ کسی بھی ایک لفظ میں ممکن نہیں اس لیے سب سے پہلی ضروری اور یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ” ربا “ یا ” الربوا “ کا ترجمہ ” سود “ نہ کیا جائے بلکہ ” ربا “ اور ” الربوا “ ہی رہنے دیا جائے۔ گویا ” الربوا “ کا لفظ اصطلاحاً استعمال ہوتا ہے جس کو حرام کہا گیا ہے کہ وہ غریبوں کا خون چوسنے کے مترادف ہے۔
علاوہ ازیں علمائے کرام نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ ” الربوا “ کا ترجمہ ” سود “ صحیح نہیں ہے ، جیسا کہ مولانا مودودی (رح) نے اپنی کتاب ” سود “ میں اور مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے اپنی کتاب ” سود کیا ہے ؟ “ میں درج کیا ہے۔ وضاحت کے لیے مؤلف کی کتاب ” سود کیا ہے ؟ “ ملاحظہ فرمائیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ اردو زبان میں بیشمار ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں جن کا ترجمہ ایک لفظ میں ممکن نہیں اسلئے وہ الفاظ بدستور اسی طرح مستعمل ہیں جس کی مثالیں تجارت کی ناجائز صورتوں میں بھی موجود ہیں ، جیسے بیع مزابنہ ، محاقلہ ، مخابرہ ، معاومہ ، بیع سنین ، ثنیا ، بیع عرایا یا عریہ ، بیع حصاۃ ، بیع حبل الحیلہ ، منابذہ ، ملامسہ ، بیع حصاۃ ، بیع غررء ، بیع مضطر ، بیع نجش وغیرہ اور اسی طرح علاوہ ازیں دوسری زبانوں کے الفاظ مثلاً : مرگھٹ ، فاروق ، تہذیب ، رشک ، تہوار ، پنشن ، مؤلف ، کنول ، صبا ، شمیم ، باؤلی ، بیرنگ ، اوپلا ، کلالہ اور ایلا وغیرہ۔

جس طرح یہ تمام الفاظ من و عن استعمال ہوتے ہیں اسی طرح اردو زبان میں استعمال کیے جاتے ہیں ، کہیں ان کا ترجمہ محض ایک لفظ میں نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی صحیح تفہیم کرانا مقصود ہو تو ایک جملہ یا عبارت تحریر کی جاتی ہے ورنہ اسی طرح ان کو استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح ” الربوا “ کے لفظ کو بھی من و عن اسی طرح استعمال کرنا چاہیے تاکہ ” الربوا “ کو حرام تصور کیا جائے نہ کہ ” سود “ کو کیونکہ سود اور نفع دونوں ایک ہی حیثیت کے حامل ہیں اور دونوں مترادف ہیں۔ اندریں وجہ میں نے تفسیر میں ” الربوا “ ہی کا لفظ استعمال کیا ہے اگر کہیں ” سود “ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو وہ رواجاً ہوا ہے لہٰذا معذرت خواہ ہوں ، تفصیل کے لیے میری کتاب ” سود کیا ہے ؟ “ کو دیکھیں۔

خیال رہے کہ نیکی کی راہ میں خرچ کرنے کی استعداد نشو ونما نہیں پا سکتی تھی ، اگر اس کا حکم دیتے ہوئے ان باتوں سے روک نہ دیا جاتا جو ٹھیک ٹھیک اس کی ضد ہیں ، پس انفاق فی سبیل اللہ کے حکم کے ساتھ ہی ” الربوا “ کی ممانعت کردی گئی جو دنیا میں دوسری قوموں کی طرح عرب میں بھی رائج تھی۔

دین حق انسانوں میں باہمی محبت و ہمدردی پیدا کرنا چاہتا ہے اس لیے اس نے خیرات کا حکم دیا کہ ایک انسان دوسرے انسان کی حاجت روائی کرے اور اس کی احتیاج کو اپنی احتیاج سمجھے لیکن الربوا خور کی ذہنیت بالکل اس کی ضد ہے۔ ” الربوا “ خور ایک انسان کو حاجتمند دیکھتا ہے تو اس کی مدد کا جذبہ اس میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ ” الربوا خور “ چاہتا ہے اس کی احتیاج اور بےبسی سے اپنا کام نکال لے اور اس کی محتاجی کو اپنی دولت مندی کا ذریعہ بنائے۔ خودغرضی کا یہ جذبہ اگر بےروک بڑھتا رہے تو پھر اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ انسان میں انسانی ہمدردی کی بوباس تک باقی نہیں رہتی۔ وہ ایک بےرحم درندہ بن جاتا ہے۔

مشہور و معروف ” دین “ یعنی قرض کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ قرض جو اپنی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے مجبور اور حاجت مند لوگ لیتے ہیں۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے کاموں میں خرچ کرنے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم کے قرض کو تو ایک دنیا جانتی ہے کہ اس پر ” الربوا “ حاصل کرنے کا طریقہ نہایت تباہ کن ہے۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس میں مہاجن افراد اور مہاجن ادارے اس ذریعے سے غریب مزدوروں ، کاشتکاروں اور قلیل المعاش عوام کا خون نہ چوس رہے ہوں۔ ” الربوا “ کی وجہ سے اس قسم کا قرض ادا کرنا ان لوگوں کے لیے سخت مشکل بلکہ بسا اوقات ناممکن ہوجاتا ہے پھر ایک قرض کو ادا کرنے کے لیے وہ دوسرا ، پھر تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں۔ اصل رقم سے کئی کئی گنا زیادہ دے چکنے پر بھی اصل رقم جوں کی توں باقی رہتی ہے۔ محنت پیشہ آدمی کی آمدنی کا بیشتر حصہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے بھی روپیہ نہیں بچتا۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اپنے کام سے کارکنوں کی دلچسپی ختم کردیتی ہے کیونکہ جب ان کی محنت کا پھل دوسرے لے اڑیں تو وہ کبھی دل لگا کر محنت نہیں کرسکتے ، پھر اس قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر اور پریشانی اس قدر گھلا دیتی ہے اور تنگدستی کی وجہ سے ان کے لیے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہوجاتا ہے کہ ان کی صحت کبھی درست نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح اس قرض کا ماحاصل یہ ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں بلکہ کروڑوں آدمیوں کا خون چوس چوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کی پیدائش دولت اپنے امکانی معیار کی بہ نسبت بہت ہی گھٹ جاتی ہے اور مال کار وہ خون چوسنے والے افراد بھی اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے کیونکہ ان کی اس خودغرضی سے غریب عوام کو جب تکلیفیں پہنچتی ہیں تو مالدار لوگوں کے خلاف غصے اور نفرت کا ایک طوفان غریبوں کے دلوں میں اٹھتا اور گھٹتا رہتا ہے اور کسی انقلابی ہیجان کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو تک سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔

ان آیات ِکریمات میں جس الربوا کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی الربوا ہے جو اس وقت کے لوگوں میں وبائی مرض کی طرح پھیلا ہوا تھا ، جب قرآن کریم کا نزول ہوا جس کا ذکر پوری تفصیل کے ساتھ قرآن کریم نے کردیا اور مختلف مقامات پر اس کی دنیوی اور اخروی سزا کا ذکر بھی کیا گیا ، باقی جتنی صورتیں الربوا خوری کی ہیں وہ سب کی سب بعد کی بنائی ہوئی ہیں اور آئے دن نئی نئی صورتیں اور شکلیں پیدا ہو رہی ہیں اور لوگ علماء کے گرد جمع ہیں کہ کونسا ” الربوا “ جائز ہے اور کونسا ناجائز اور علماء بھی وقت کی رعایت کے ساتھ کسی کو ” الربوا “ یعنی سود اور کسی کو نفع کا نام رکھ دیتے ہیں ، جس کی تفصیل بہت لمبی ہے۔

الربوا خور قیامت کے روز اس طرح ہوگا جیسے کوئی مخبوط الحواس ہوتا ہے :
482: اس جگہ چھ آیتیں ہیں جن میں ” الربوا “ کی حرمت کے احکام بیان کیے گئے ہیں یعنی آیت 275 سے 280 تک ۔ قرآن کریم نے اس پہلی آیت یعنی آیت 275 ہی میں اسی حالت کو جو الربوا خور کی حالت ہوتی ہے مرگی کے مرض سے تشبیہ دی ہے جسے عرب میں لوگ شیطان کے مَس سے تعبیر کرتے تھے یعنی مال و زر پرستی کے جوش سے تمام انسانی احساسات فنا ہوجاتے ہیں اور وہ پیسے کے پیچھے اندھا دھند دوڑتے ہیں۔ گویا اس آیت میں ان کی رسوائی اور گمراہی کا ذکر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ ” الربوا “ کھاتے ہیں وہ قیامت کے روز اپنے رب کے ہاں اس طرح کھڑے ہوں گے جس طرح شیطان کے اثر سے مخبوط الحواس آدمی کھڑا ہوتا ہے۔ یعنی مرگی کے روگ والا۔

یہ ایک حالت تھی جو اس جنونی کی بیان کی گئی ہے جس کو مال بڑھانے کا خبط ہے اور اس کو حق و ناحق اور جائز و ناجائز سے کوئی بحث نہیں۔ وہ دولت کے پیچھے ایسا اندھا دھند لگ گیا ہے کہ اس کو کچھ سجھائی نہیں دیتا ، اس کے دل و دماغ میں صرف اور صرف ایک ہی بات پیوست ہوچکی ہے کہ ہائے مال۔ جس کی حالت یہ ہے کہ : ا۟لَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَهٗۙ٠٠٢ (الہمزۃ ١٠٤ : ٢) ” وہ مال جمع کرنے اور اس کو گن گن کر رکھنے میں مصروف رہتا ہے۔ “
ایک جگہ ارشاد ہوا : اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ٠٠١ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ٠٠٢ (التکاثر ١٠٢ : ١۔ ٢)
” (اے لوگو ! ) تم کو کثرت مال کی طلب نے غفلت میں ڈال دیا۔ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے۔ “

یہ ان پیسے کے پجاریوں کی حالت تھی جو مختلف تماثیل میں بیان کی گئی تاکہ قوم مسلم کے افراد ان کی اس حالت سے نفرت کریں اور ان کو اچھی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے بری نظروں سے دیکھیں۔ ان عادات و خصائل کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے تاکہ مسلم قوم کے کسی فرد کو یہ بیماری لگ نہ جائے کیونکہ اکثر ایسی بیماریاں نسلی ہوتی ہیں جو نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ ” الربوا “ کھانے اور مال جمع کرنے کا مرض بھی ان ہی مہلک امراض میں سے ایک ہے۔ جس طرح کفر ، شرک اور منافقت ایمان کو جلا کر خاکستر بنا دتی ہیں اسی طرح ایک بیماری ” الربوا “ کی بھی ہے۔ الربوا خور خود ہو یا کوئی ادارہ ، ان کے ایمان کا بھی جنازہ نکل چکا ہوتا ہے۔

یہاں جس حالت کو : ” یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ١ؕ “ کے الفاظ سے بیان کیا گیا تھا۔ ہمارے مفسرین کی اکثریت اور علمائے کرام کی کثیر تعداد نے اس سے یہ مسئلہ اخذ کرلیا کہ جنات و شیاطین انسان میں حلول کر جاتے ہیں اور ان سے ایسے ایسے فعل سرزد کراتے ہیں۔ بس پھر کیا ہوا کہ قوم کے نوجوانوں (زیادہ تر نوجوان عورتوں ) کو جنات کی زد میں لے آئے اور مختلف طریقوں سے ان کے نام رکھ لیے۔ پھر جِنّ ڈالنے اور نکالنے والے پیدا ہوگئے اور قوم کو ایسا بیوقوف بنایا کہ ان الربوا خوروں سے بھی بڑھ گئے جن کی مذمت میں یہ الفاظ بیان کیے گئے تھے۔

قوم مسلم کا ایک دکھ دور کرنے کی قرآن کریم نے کوشش کی اور ان دکھ دینے والوں کو انسایت سے خارج کردینے والی حرکت سے باز رکھنے کے لیے ان کو جن الفاظ سے یاد کیا تھا ان ہی الفاظ سے قوم کو ایک کی بجائے بیسیویں دکھ دینے والے لوگ خود ہوگئے ، جن کی طرف قرآن کریم جیسی ہدایت کی کتاب آئی تھی۔ اب مولویوں ، پیروں اور عالموں نے اس کاروبار کو اتنی ترقی دی کہ الربوا خوری کا کاروبار کرنے والوں کو شکست دے کر بہت پیچھے چھوڑ گئے۔ الربوا خوروں کی قرآن کریم نے مذمت کی اور قوم کے ہر فرد خواہ وہ الربوا خور ہو یا ” الربوا “ دینے والا سب نے اس فعل کو برا جانا ، مانا اور سمجھا لیکن ان شاطروں نے اتنی چالاکی اور بےباکی سے کام لیا کہ اس کو قرآن کریم سے ثابت کر دکھایا اور اپنے پیٹ کی خاطر ان الربوا خوروں سے نجات دلانے کی بجائے نئے الربوا کی راہیں کھول دیں۔ وہ الربوا خور تو کچھ رقم صرف کر کے بڑھوتری کے نام پر ” الربوا “ لیتے تھے ، ان الربوا خوروں کی نہ ہلدی لگی نہ پھٹکری اور ” الربوا “ کی ایسی راہیں نکالیں کہ دَم چھو کو رأس المال بنا کر من مانا ” الربوا “ کھایا اور ایسی شاطرانہ چال چلی کہ ” الربوا “ بھی ثابت نہ ہونے دیا بلکہ ہم خرما و ہم صواب کے مصداق ہوگئے۔

اس وقت پوری قوم کے اندر پھر کر دیکھ لو شہر ہو یا دَہ ، بستی ہو یا گاؤں ، جنگل ہو یا ڈیرہ کوئی جگہ بھی ان ساحروں کی الربوا خوری سے بچی ہوئی نظر نہیں آئے گی۔ قوم کے بڑے بڑے مترفین اور و ڈیرے ، اس ” الربوا “ کا کاروبار کرنے والے حتیٰ کہ ڈاکو اور لٹیرے بھی ان کے چنگل سے بچ نہ سکے۔ آج اگر سارا ” الربوا “ کا نظام ختم کردیا جائے تو بھی ان الربوا خوروں کا کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ اس ” الربوا “ کی سند جواز انہوں نے قرآن کریم سے اخذ کرلی ہے اور پھر جتنے مکاتب فکر اس ملک کے اندر موجود ہیں ، ان سب کے مذہبی راہنماؤں کی تائید بھی ان کو حاصل ہے ، الا ماشاء اللہ۔ یا للعجب۔

تعجب ہے کہ آج عالم اسلام میں کتنی پریشانیاں ہیں ، اگر ان کو شمار کرنا شروع کیا جائے تو کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ اگر ان الربوا خور ساحروں اور سحر زدہ مولویوں ، پیروں اور صوفیوں کے پاس خبطی کردینے والے جنات و شیاطین موجود ہیں تو یہ کیوں ان عالم اسلام میں پریشانیاں پیدا کرنے والوں پر نہیں چھوڑتے تاکہ یہ ان کو تہس نہس کریں اور عالم اسلام کو ان پریشانیوں سے بچا لیں۔ آخر ان کے جنات و شیاطین مسلم قوم کی جوان عورتوں اور مردوں ہی پر کیوں کام کرتے ہیں ؟

: حالانکہ دوسری جگہ قرآن کریم نے یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ١ؕ کی تشریح خود کردی جہاں مشرکین کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ

قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤى اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ہَدٰىنَا اللّٰهُ کَالَّذِی اسْتَهْوَتْهُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ ١۪ لَهٗۤ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَهٗۤ اِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ١ؕ قُلْ اِنَّ ہُدَى اللّٰهِ ہُوَ الْهُدٰى١ؕ وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ٠٠٧١ (الانعام ٦ : ٧١

” ان لوگوں سے پوچھو کیا تم چاہتے ہو ہم اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکاریں جو نہ تو ہمیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ؟ اور باوجودیکہ اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھا چکا ہے لیکن ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ؟ اور ہماری مثال اس آدمی کی سی ہوجائے جسے شیطان نے بیابان میں گمراہ کردیا ہو حیران و پریشان پھر رہا ہے اور اس کے ساتھ ہیں جو اس راہ کی طرف بلا رہے ہیں کہ تو کدھر کھو گیا ؟ اِدھر آ ! کہہ دو اللہ کی ہدایت وہی { اَلْھُدٰی } ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تمام جہانوں کے پروردگار کے آگے سر اطاعت جھکا دیں۔ “

اس آیت میں جس طرح ایک منکر حق کی مثال بیان کی گئی ہے اور زیر نظر آیت میں جس کی یہاں تشریح کی جا رہی ہے اس میں الربوا خور کی مثال بیان کی ہے۔ یہاں بھی یہی ارشاد ہو رہا ہے کہ مؤمن وحی و نبوت کی ہدایت اور علم یقین کی روشنی اپنے سامنے رکھتا ہے ، اس لیے فلاح وسعادت کی شاہراہ سے وہ کبھی نہیں بھٹک سکتا لیکن منکر حق کے سامنے کوئی روشنی نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی بیابان میں کھویا گیا ہو اور حیران و سرگرداں پھر رہا ہو کبھی ایک طرف کو دوڑے کبھی دوسری طرف کو کوئی معین اور یقینی راہ اس کے سامنے نہ ہو۔ ایمان و کفر کو سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کرو ، جس قدر غور کرتے جاؤ گے حقیقت کی وضاحت خودبخود ہوتی چلی جائے گی۔
الربوا خور مخبوط الحواس کیوں ہوگا ؟

: 483
کسی مریض کا علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مرض کا کھوج لگایا جائے۔ وجہ معلوم کی جائے کہ یہ مرض کیوں ہے ؟ جب تک یہ معلوم نہ ہو اس وقت تک علاج کوئی علاج نہیں بلکہ ایک تکہ ہے کہ لگ گیا تو لگ گیا۔ اگر نہ لگا تو طبیب کی بلا سے۔ اس کی غرض تو پوری ہوگئی کہ پیسہ اس کو مل گیا۔ الربوا خور کی بیماری بھی بالکل اس طرح کی بیماری ہے کہ اس نے اس بیماری کو کبھی بیماری تسلیم ہی نہیں کیا اور یہی اس کے شیطان سے خبطی ہونے کی علامت ہے۔ اس لیے اس کا یہ روگ کبھی جانے والا نہیں۔ یہاں دراصل شیطان اس کی اپنی ہی قوت وہمہ کو کہا گیا ہے اور وہم کا مریض ہمیشہ اپنے وہم کے ساتھ ہی قبر کے گڑھے میں دفن ہوتا ہے۔ فرمایا الربوا خور بھی اس وہم میں مبتلا ہوتا ہے کہ ایک تاجر تجارت پر پیسہ خرچ کر کے دوگنا کرتا ہے تو وہ حلال ہے اور ایک الربوا اپنے روپے کو خرچ کر کے سوا یا ڈیوڑھا کرلیتا ہے تو وہ حرام کیسے ہوگیا ؟ اس طرح کی دلیلیں قائم کر کے وہ دراصل الربوا کے ناجائز ہونے سے انکاری ہے ، اس کو جواب دیا جاتا ہے کہ اللہ نے خریدو فروخت کو حلال ٹھہرایا ہے اور ” الربوا “ کو حرام تو پھر دونوں باتیں ایک طرح کی کیسے ہو سکتی ہیں ؟
یہ جواب اس کو کیوں دیا گیا ؟ اس لیے کہ موضوع تھا صدقات و خیرات کار اور ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا۔ ایک انسان پر دوسرے انسان کے حقوق کا ، الٰہی رضامندی حاصل کرنے کا۔ بتایا یہ جا رہا تھا کہ ” الربوا “ کی لعنت وہ لعنت ہے جو صدقات و خیرات کے جذبہ کو روکتی ہے۔ دوسروں کی ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرنے سے مانع ہے۔ انسان کے انسان پر جو حقوق ہیں ، ان کی نفی کرتی ہے اور رضائے الٰہی کی جگہ خواہش نفس کی پرستار بناتی ہے اس لیے وہ حرام ہے۔ لیکن الربوا خوری کے وہم و گمان نے ان سب باتوں کو چھوڑ کر مثال میں منطبق کرنے کے لیے تجارت کے موضوع کو تلاش کیا ، ان ساری باتوں کو کیوں چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ خواہش نفس کا پرستار اصل موضوع کو خلط ملط کر کے اپنا مطلب حاصل کرتا ہے اور قرآن کریم ایسے لوگوں سے کبھی الجھنا پسند نہیں کرتا وہ صرف اپنا مؤقف بیان کر کے آگے بڑھ جاتا ہے اور یہاں بھی اس نے یہی کیا ہے۔

کسی بات کو سمجھانا اس جگہ مفید ہوتا ہے جب مخاطب بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور جب مخاطب سمجھنے کی بجائے الجھنے کی کوشش کرے ، وہاں سمجھانا کبھی مفید نہیں ہوتا۔ یہ وہ نکتہ یا اصول ہے جس کو قرآن کریم نے اختیار کیا ہے اور وہ کسی موقعہ پر بھی اس کو نہیں چھوڑتا بلکہ وہ اپنے قارئین کو یہ اصول اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ امید ہے کہ اب بات سمجھ میں آجائے گی کہ الربوا خور مخبوط الحواس کیوں ہوگا ؟

جیسا جرم ویسی سزا قانون الٰہی کے عین مطابق ہے :
484: جرم و سزا میں مناسبت ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو سزا کسی شخص یا جماعت کو کسی جرم کے مقابلہ میں دی جاتی ہے وہ یقیناً اس جرم کے مناسب ہوتی ہے۔ اس لیے الربوا خوروں کو خبطی بنا کر محشر میں اٹھانا شاید اس کا اظہار ہے کہ الربوا خور روپیہ پیسہ کی حرص میں اس قدر مدہوش ہوتا ہے کہ اس کو نہ کسی غریب پر رحم آتا ہے ، نہ کسی کی شرم مانع ہوتی ہے وہ چونکہ اپنی زندگی میں درحقیقت بےہوش و بدمست تھا اس لیے محشر میں بھی اسی حالت میں اٹھایا جائے گا ، گویا یہ سزا اس لیے دی گئی کہ دنیا میں اس نے اپنی بےعقلی کو عقلی رنگ میں ظاہر کیا کہ بیع کو مثل ” الربوا “ قرار دیا اس لیے اس کو بےعقل ہی اٹھانا چاہیے تھا گویا اس کے ساتھ وہی ہوا جو اس نے خود اپنے لیے اختیار کیا تھا اور آخرت میں ہے ہی کیا ؟ اپنے کیے کی جزا۔

اب دو صورتوں میں سے ایک ضرور ہوگی یا تو الربوا خور ” الربوا “ کی ناپاکی و خبث کو سمجھ کر سود لینا چھوڑ دے گا ہاں ! جو پہلے لے چکا وہ لے چکا اور پھر اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ، اس کے ذمہ صرف معافی کی درخواست کرنا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ” الربوا “ کو بزعم خویش بیع و شرا پر منطبق کر کے کھاتا رہے گا یعنی وصول کرتا رہے گا۔ یاد رہے کہ اگر دوسری صورت اختیار کی یعنی ” الربوا “ لیتا ہی رہا تو وہ اب دوزخی گروہ میں ہوگیا۔ یہ سزا تو اس کی آخرت کی سزا ہے لیکن دنیا میں بھی وہ کبھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا کیونکہ اس کی پیٹھ پیچھے تو ہر کوئی اس کو برا کہے گا۔

الربوا خور کا انجام یقیناً برا ہے :
485: ذرا غور کریں کہ برے کام کا انجام کبھی اچھا بھی ہو سکتا ہے ؟ الربوا خور تو دوہرے جرم کا مجرم ہے ، اس نے بیک وقت دو جرم کیے۔ ایک تو بذریعہ ” الربوا “ حرام مال کھایا اور دوسرے اس کو حلال سمجھا اور حرام کہنے والوں کے جواب میں یہ کہا کہ بیع و شراء بھی تو ” الربوا “ ہی کی مثل ہے ، جس طرح ربا کے ذریعہ نفع حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح بیع و شراء کے ذریعہ نفع لیا ہے۔ اگر ” الربوا “ حرام ہے تو بیع بھی حرام ہونی چاہیے حالانکہ اس کو تو کوئی بھی حرام نہیں کہتا۔ اس جگہ بظاہر مقتضائے مقام یہ تھا کہ وہ اس طرح کہتا کہ ربوا بھی تو مثل بیع کے ہے جب بیع حلال ہے تو ربا بھی حلال ہونی چاہیے مگر اس نے طرز بیان بدل کر حرام کہنے والوں پر ایک قسم کا استہزاء کیا ، کہ تم ربا کو حرام کہتے ہو تو بیع کو بھی حرام کہو۔

فرمایا کہ عجیب منطق ہے ، ان لوگوں کی کہ یہ بیع کو ربوا کی مثل اور برابر قرار دیتے ہیں حالانکہ عنداللہ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے کہ اللہ نے ایک کو حلال قرار دیا ہے اور دوسرے کو حرام ، پھر دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟

اگر ان سے یہ پوچھ لیا جائے کہ دنیا کے علائق و تعلقات میں ایک کو تم ماں یا بہن کہتے ہو اور ایک کو بیوی۔ آخر عورت ہونے میں ان کا ذرا فرق واضح کر دو ، اپنی نظر دوڑاو جہاں تک دوڑانا چاہتے ہو ایک بار نہیں بار بار دوڑاؤ اور فرق بیان کرو۔ اگر بیوی عورت ہے تو کیا ماں یا بہن عورت نہیں ؟ پھر ایک کو حلال اور دوسری کو حرام کیوں کہتے ہو ؟

اگر ان سے پوچھ لیا جاتا ہے کہ جانوروں میں سے جو حلال کہتے ہیں جیسے گائے ، بھینس ، بکری تم نے اپنے گھر رکھ کر پرورش کیا لیکن مشیت ایزدی کے مطابق ان میں سے ایک کی موت واقع ہوگئی۔ جس کی موت واقع ہوئی اس کو تم کیا کہتے ہو ؟ حلال یا حرام ؟ انہی جانوروں میں سے آپ نے ایک جانور کو پکڑا اور اپنی ضرورت کے لیے اس پر چھری چلا کر اللہ کے نام سے ذبح کرلیا۔ ذرا بتاؤ کہ حلال ہوا یا حرام ؟ کس کو کھاؤ گے اور کس کو نہیں ؟ اگر طبعی موت مرے ہوئے کو نہیں کھا رہے تو کیا ذبح شدہ زندہ ہے ؟ کیا دونوں مر نہیں گئے ؟ ہاں ! ایک کو اللہ نے مارا ہے اور دوسرے کو تم نے۔ کیا اللہ کا مارا حرام اور تمہارے مارا حلال ہے ؟

تم خود ہی بتاؤ کہ الربوا خور کا انجام برا کیوں نہ ہوگا ؟ جو شخص نصیحت سن کر بھی اسی قول و فعل کی طرف عود کرے جس سے اللہ نے منع فرمایا اور اللہ کے منع فرمانے میں ایک نہیں سو حکمت ہوگی۔ اگر اس نے غور نہیں کیا یا سمجھ کا اتنا بودا ہے کہ حکمت کی بات کو وہ سمجھ ہی نہیں سکتا۔ اللہ کا حکم اس کے گلے میں اس لیے اٹک گیا ہے کہ اس کی خواہش نفس کے خلاف ہے۔ گویا وہ اللہ کی بجائے اپنے نفس کا پجاری ہے۔ اس نے اپنی خواہش ہی کو اپنا معبود بنا لیے ہے اور اسی وجہ سے تو وہ دوزخ کا مستحق قرار پایا ؟ کیا دوزخی فرد ہو یا جماعت اس کا انجام اچھا ہے ؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو الربوا خور کا انجام بھی یقیناً برا ہے۔

سود کیا ہے ؟ ” اللہ سود کو مٹاتا ہے “ کا مطلب ؟
486: سود کیا ہے ، سود کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :
الامر الذی کان مشھورا متعارفا فی الجاھلیۃ انھم کانوا یدفعن المال علٰی ان یاخذوا کل شھرا قدرا معینا و یکون رأس المال باقیا ثم إذا حل الدین طالبوا المدیون برأس المال فان تعذر علیہ الاداء ازدادوا فی الحق والاجل . (کبیر رازی)

زمانہ جاہلیت میں ربوا ایک مشہور و متعارف امر تھا۔ جس میں امیر غریب کا کوئی تصور موجود نہ تھا ، ان کا قاعدہ یہ تھا کہ وہ اس شرط پر قرض دیتے کہ ہر ماہ ایک معین رقم وصول کرلیا کریں گے اور اصل رقم بدستور باقی رہے گی۔ پھر جب قرض کے ادا کرنے کا وقت آجاتا تو قرضدار سے رأس المال طلب کرتے۔ اگر وہ اصل رقم کے ادا کرنے ہی سے اپنے آپ کو معذر پاتا تو رقم اور مدت دونوں میں اضافہ کردیتے۔ ظاہر ہے کہ یہ مقروض ایسا ہی مقروض ہو سکتا ہے جو قرض لے کر کھاچکا ہے اور اب واپسی اس کے بس میں نہیں ہے اور اس لیے اسلام نے اس کو صدقہ و خیرات دینے کا حکم دیا ہے ، نہ کہ قرض کا۔

ہماری سمجھ کے مطابق پاک و ہند میں بھی بالکل اسی طرح کیا جاتا ہے۔ عرب اس کو ربا کہتے ہیں اور یہاں اس کو سود اور بیاج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، یہاں بھی شیخ و خواجہ اور ساہوکار ، مہاجن یہی کچھ کرتے ہیں کہ سود و بیاج کو اپنی سہولت کے اعتبار سے ماہوار یا سوال کے ختم پر کاغذی طور سے وصول کر کے رأس المال میں شامل کرلیتے ہیں اور جب یہ صورت ہوجاتی ہے تو پھر اس کو سود در سود کہنے لگتے ہیں۔ اس مسئلہ کے متعلق کوئی اختلاف عرب و عجم میں نہیں۔ ہاں ! جوں جوں زمانہ ترقی پذیر ہے توں توں ربوا کے بھی نئے نئے طریقوں میں اضافہ ہو رہے۔ نئے نئے نام اور نئی نئی ترکیبوں سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ نزول قرآن کے وقت تو اس کو مَس شیطان سے تعبیر کیا گیا تھا لیکن آج لوگوں نے ایسی ایسی ترکیبیں نکال لیں ہیں کہ شیطان کو بھی کان پکڑوا دیتے ہیں اور اگر یہ صحیح نہیں ہے تو پھر لوگ گویا خود ہی شیطان ہوگئے ہیں۔ خصوصاً وہ علماء حضرات جنہوں نے محض نام بدل کر ” اسلامی بنک “ کے نام سے لوگوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔

” الربوا “ کیا ہے ؟ خوب سمجھ لو کہ کسی حاجتمند و ضرورتمند کی حاجت و ضرورت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا نام ربوا ہے۔ ہم جنس اشیاء میں سے کم دے کر زیادہ و صول کرنے کا نام ربوا ہے۔ دھوکا اور فریب کر کے مال کمانا ربوا ہے۔ سرمایہ کاری کا ہر وہ طریقہ جس سے سرمایہ دار کا سرمایہ اس طرح بڑھے کہ غریب پہلے سے بھی غریب تر ہوتا جائے ایسی سرمایہ کاری ربوا کی سرمایہ کاری ہے۔ ” اللہ ” الربوا “ کو مٹاتا ہے “ یہ فقرہ ” الربوا “ کی ممانعت کی علت ظاہر کرتا ہے اور لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ اللہ تمہارے ” الربوا “ لینے سے خوش نہیں اور نت نئے طریقے نکالنے کا یہ مطلب نہیں کہ اب ” الربوا “ ، ” الربوا “ نہیں رہا۔ دین اسلام کا مقصد یہ ہے کہ ” الربوا “ کو مٹائے اور اس کے مٹانے کا طریقہ یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کے جذبہ کو ترقی دی جائے۔ جس قدر صدقہ و خیرات میں ترقی ہوگی ، ” الربوا “ اتنا ہی مٹتا چلا جائے گا۔ اللہ ” الربوا “ کو مٹاتا ہے یعنی تم کو صدقہ و خیرات کا حکم دیتا ہے اور ” الربوا “ لینے کی عادت بد سے منع کرتا ہے۔ اگر خیرات کا جذبہ پوری طرح ترقی کر جائے تو سوسائٹی کا کوئی فرد محتاج و مفلس ہو ہی نہیں سکتا۔

” اللہ ” الربوا “ کی خواہش کو مٹا کر صدقہ و خیرات کی خواہش کو نشو ونما دینا چاہتا ہے “ اس آیت میں ایک ایسی صداقت بیان کی گئی ہے جو اخلاقی و روحانی حیثیت سے بھی سراسر حق ہے اور معاشی اور تمد ّنی حیثیت سے بھی۔ اگرچہ بظاہر ” الربوا “ سے دولت بڑھتی نظر آتی ہے اور صدقات سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے ، اللہ کا قانون فطرت یہی ہے کہ ” الربوا “ اخلاقی و روحانی ، معاشی اور تمد ّنی ترقی میں نہ صرف مانع ہوتا ہے بلکہ تنزل کا ذریعہ بنتا ہے اور اس کے برعکس صدقات ہیں جن میں قرض حسنہ بھی شامل ہے ، ان میں اخلاق و روحانیت اور تمد ّن و معیشت ہرچیز کو نشو ونما نصیب ہوتی ہے۔
اخلاقی و روحانی حیثیت سے دیکھیے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ ” الربوا “ دراصل خودغرضی ، بخل ، تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کو جنم دیتا ہے اور انہی صفات کو انسان میں نشو ونما بھی دیتا ہے۔ اس کے برعکس صدقات و خیرات نتیجہ ہیں ، فیاضی ، ہمدردی ، فراخ دلی اور عالی ظرفی جیسی صفات کا اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر پرورش پاتی ہیں۔ کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموعہ کو بدترین اور دوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو۔ دُور نہ جاؤ کسی الربوا خور ہی سے پوچھ کر دیکھ لو۔

تمد ّنی حیثیت سے دیکھئے تو بادنیٰ تا مل سے یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آجائے گی کہ جس سوسائٹی میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ خودغرضی کا معاملہ کریں۔ کوئی شخص اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے۔ ایک آدمی کی حاجت مندی کو دوسرا آدمی اپنے لیے نفع اندوزی کا موقع سمجھے اور اس کا پورا فائدہ اٹھائے اور مالدار طبقوں کا مفاد عامۃ الناس کے مفاد کی ضد ہوجائے۔ ایسی سوسائٹی کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اس کے افراد آپس کی محبت کی بجائے باہمی بغض و حسد اور بےدردی و بےتعلقی میں نشو ونما پائیں گے۔ اس کے اجزاء ہمیشہ انتشار و پراگندگی کی طرف مائل رہیں گے اور اگر دوسرے اسباب بھی اس صورتحال کے لیے مددگار ہوجائیں تو ایسی سوسائٹی کے اجزاء کا باہم متصادم ہوجانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس سوسائٹی کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو ، جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں ، جس میں ہر شخص دوسرے کی حاجت کے موقع پر فراخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے اور جس میں باوسیلہ لوگ بےوسیلہ لوگوں سے ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں ، ایسی سوسائٹی میں آپس کی محبت ، خیر خواہی اور دلچسپی نشو ونما پائے گی ، اس کے اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ اور ایک دوسرے کے پشتبان ہوں گے۔ اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقعہ نہ مل سکے گا ، اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلی قسم کی سوسائٹی کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہوگی۔

” اللہ ایسے ناقدر شناسوں ، منکروں اور نافرمانوں کو کبھی پسند نہیں کرتا “ اس فقرہ میں دونوں قسم کے نافرمان آگئے۔ وہ جو ” الربوا “ کا کاروبار کرتے ہیں اور وہ جو اپنے عمل کے ساتھ ساتھ حرمت ” الربوا “ عقیدتاً بھی منکر ہیں۔ ” كَفَّارٍ “ کافر سے صیغہ مبالغہ ہے یعنی ناشکرے اور کفران نعمت کرنے والے۔ مراد وہ لوگ ہیں جو ” الربوا “ کے جواز کے قائل ہیں ، یعنی ” الربوا “ کو بیع و شراء کی مانند بتاتے ہیں۔ جس شخص پر اللہ اپنا فضل کرے کہ اسے اس کی اپنی ضروریات سے زیادہ مال دے اور پھر وہ اس مال کو بندوں کی ایذاء رسانی پر صرف کرے تو اس سے بڑھ کر سوء ضروریات کی مثال اللہ کے فضل کی اور کیا ہوگی اور ایسے بدبخت سے بڑ ھ کر ناشکرا اور کون قرار پائے گا ؟ ” اَثِیْمٍ “ بڑے گنہگار ، یعنی الربوا خوری جیسی شدید معصیت میں مبتلا ، ایسا گنہگار جو دین و دنیا دونوں میں رسوائی سے دوچار ہوگا۔ یعنی بےلذت گناہ کرنے والا اور الربوا خور ہی دنیا میں وہ انسان ہے جو صحیح معنوں میں لذت گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ جس کی حقیقت یہ ہے کہ الربوا خور کو مال کے خرچ ہونے کا غم ہمیشہ بےقرار رکھتا ہے ، جس سے اس کو دن کا آرام اور رات کا چین کبھی نصیب نہیں ہوا اور یہ بھی اس کے گنہگار ہونے کی خاص علامت ہے۔

اللہ والوں کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ کبھی بےچین نہیں ہوتے :
487: اس معاشرہ میں رہنے والوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا پرست ، فیاض اور انسانوں کے نہایت ہی ہمدرد ہوتے ہیں ، مخلوق اور اللہ دونوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔ اپنی قوت بازو سے کما کر خود بھی کھاتے اور استعمال کرتے ہیں اور دوسروں کو کھلاتے اور استعمال کراتے ہیں۔ وہ رضائے الٰہی کے لیے جب خرچ کا وقت آتا ہے تو دل کھول کر مال کو خرچ کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن سے صالح سوسائٹی تشکیل پاتی ہے ، جس میں ان کو خاص مقام حاصل ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے مال موجب فلاح ہے۔ اللہ کے خاص فضل و کرم سے یہ لوگ نہ تو دنیا میں ہی کبھی بےچین ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی ان شاء اللہ ان کے لیے بےچینی نہیں ہوگی۔ ایسے خادم خلق انسانوں کی خوش انجامی تو ظاہر ہی ہے لیکن دنیا میں بھی جو سکون قلب ، یکسوئی ، طمانیت خاطر اور قناعت کی مسرتیں ایسے لوگوں کو حاصل رہتی ہیں ، ان کا اندازہ وہ بدنصیب کر ہی نہیں سکتے جو چوبیس گھنٹہ آئی پائی کی میزان لگاتے رہتے ہیں۔ جو مخلوق کی ایذاء رسانی کا خوگر ہو کر پیسہ پیسہ گنتے رہتے ہیں اور جن لوگوں پر ہر گھڑی ” بہی کھاتہ “ سنبھالے رہنے کا بھوت سوار رہتا ہے ، ان کی دولت نہ ان کے کام آتی ہے اور نہ ہی دوسروں کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔

اس کے برعکس زکوٰۃ ، خیرات اور صدقات سے تمام ملک یکساں طور پر فائدہ اٹھاتا ہے ، فقراء اور مساکین اپنی حالت کو درست کرلیتے ہیں۔ دولت کا ایک خاص حصہ تقسیم ہوجاتا ہے اور اس طرح دولتمندوں اور غریبوں کا باہمی کشمکش کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے کسی طرح کا خوف و ڈر نہیں ہوگا اور وہ ماشاء اللہ کبھی کبیدہ خاطر بھی نہیں ہوں گے۔
ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ حرمت ” الربوا “ کے بعد طے شدہ ” الربوا “ بھی چھوڑ دیا جائے :
488: الربوا کی حرمت نازل ہونے سے پہلے عام عرب میں ” الربوا “ کا رواج پھیلا ہوا تھا ، اس آیت سے پہلی آیتوں میں جب اس کی ممانعت آئی تو حسب عادت تمام مسلمانوں نے ” الربوا “ کے معاملات ترک کردیئے لیکن کچھ لوگوں کے مطالبات ” الربوا “ کی بقایا رقموں کے دوسرے لوگوں پر تھے۔ اس میں یہ واقعہ پیش آیا کہ بنی ثقیف اور بنی مخزوم کے آپس میں الربوا کے معاملات کا سلسلہ تھا اور بنو ثقیف کے لوگوں کا کچھ الربوا مطالبہ بنی مخزوم کی طرف تھا۔ بنو مخزوم مسلمان ہوگئے تو اسلام لانے کے بعد انہوں نے ” الربوا “ کی رقم ادا کرنا جائز نہ سمجھا۔ ادھر بنو ثقیف کے لوگوں نے مطالبہ شروع کیا کیونکہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر مسلمانوں سے مصالحت کرلی تھی۔ بنو مخزوم کے لوگوں نے کہا کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ہم ان پر اسلامی کمائی کو ” الربوا “ کی ادائیگی میں خرچ نہ کریں گے۔

یہ جھگڑا مکہ مکرمہ میں پیش آیا اور اس وقت مکہ فتح ہوچکا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مکہ کے امیر حضرت معاویہ اور ایک روایت کے مطابق عتاب بن اسید (رض) تھے انہوں نے اس جھگڑے کا قضیہ بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بغرض دریافت حکم لکھ بھیجا اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ” الربوا “ کے تمام سابقہ معاملات ختم کردیئے جائیں۔ پچھلا ” الربوا “ بھی وصول نہ کیا جائے صرف رأس المال وصول کیا جائے۔ بشرطیکہ وہ لینے والے کے پاس موجود ہو۔

یہ اسلامی قانون رائج کیا گیا تو مسلمان تو اس کے پابند تھے جو غیر مسلم قبائل بطور صلح و معاہدہ اسلامی قانون کو قبول کرچکے تھے وہ بھی اس کے پابند ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجود جب حجۃ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قانون کا اعلان کیا تو اس کا اظہار فرمایا کہ یہ قانون کسی خاص شخص یا قوم یا مسلمانوں کے مالی مفاد کے پیش نظر نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تعمیر اور اصلاح و فلاح کے لیے جاری کیا گیا ہے اس لیے ہم سب سے پہلے مسلمانوں کی بہت بڑی رقم ” الربوا “ جو غیر مسلمانوں کے ذمہ تھی اس کو چھوڑتے ہیں تو اب ان کو بھی اپنے بقایا ” الربوا “ کی رقم چھوڑنے میں کوئی عذر نہ ہونا چاہیے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی خطبہ میں ارشاد فرمایا :

(الا ان کل ربا کان فی الجاھلیۃ ) موضوع عنکم کلہ لکم رؤس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون واول ربا موضوع ربا العباس بن عبدالمطلب کلہ) (ابن ابی حاتم) یعنی زمانہ جاہلیت میں جو الربوا کے معاملات کیے گئے سب کا ” الربوا “ چھوڑ دیا گیا اب ہر شخص کو اصل رقم ملے گی وہ بھی اس صورت میں کہ وہ لینے والے کے ہاں موجود ہو لیکن ” الربوا “ کی زائد رقم نہ ملے گی ، نہ تم زیادتی کر کے کسی پر ظلم کرسکو گے اور نہ کوئی اصل اصل رأس المال میں کمی کر کے تم پر ظلم کرسکے گا اور سب سے پہلے جو ” الربوا “ چھوڑا تھا وہ عباس بن عبدالمطلب کا ” الربوا “ ہے جس کی بہت بھاری رقمیں غیر مسلموں کے ذمہ بطور ” الربوا “ کے عائد ہوتی تھیں۔ قرآن کریم کی زیر نظر آیت میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور بقایا ” الربوا “ چھوڑنے کا حکم مذکور ہے۔

اس آیت کو شروع اس طرح کیا گیا کہ مسلمانوں کو خطاب کر کے اول ” اتَّقُوا اللّٰهَ “ کا حکم سنایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو ، اس کے بعد اصل مسئلہ کا حکم سنایا گیا یہ قرآن کریم کا وہ خاص طرز ہے جس میں وہ دنیا بھر کے قانون کی کتابوں سے ممتاز ہے کہ جب کوئی ایسا قانون بنایا جاتا ہے جس پر عمل کرنے میں لوگوں کو کچھ دشواری معلوم ہو تو اس کے آگے پیچھے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش اعمال کے حساب اور آخرت کے عذاب وثواب کا ذکر کر کے مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں کو اس پر عمل کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے ، اس کے بعد حکم سنایا جاتا ہے یہاں بھی پچھلے عائد شدہ ” الربوا “ کی رقم کا چھوڑ دینا انسانی طبیعت پر بار ہو سکتا تھا ، اس لیے پہلے ” اتَّقُوا اللّٰهَ “ فرمایا اور اس کے بعد حکم دیا کہ ” جس قدر ” الربوا “ مقروضوں کے ذمہ لازم بنا رکھا ہے اسے چھوڑ دو “ اور آیت کے آخر میں فرمایا کہ : ” اگر تم ایمان والے ہو “ جس میں اشارہ کردیا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ حکم خداوندی کی اطاعت کی جائے اس کی خلاف ورزی ایمان کے منافی ہے۔ یہ حکم چونکہ طبائع پر بھاری تھا اس لیے حکم سے پہلے ” اتَّقُوا اللّٰهَ “ اور حکم کے بعد ” اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ “ کے ارشادات ملا دیئے گئے۔

اگر ” الربوا “ کی رقم کو چھوڑنا مشکل ہے تو اللہ اور رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ :
489: غور کرو قرآن کریم نے انسانی معاصی و جرائم کے متعلق طرح طرح کی وعیدیں فرمائی ہیں لیکن ” الربوا “ کے متعلق جو سخت وعید سنائی ہے وہ آپ نے سن لی اور اس سے سخت تر وعید اور کسی سخت سے سخت جرم و معصیت کی بھی نسبت نہیں آئی۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کا کوئی فعل طلب نفع اور غرض خویش سے خالی نہیں ہوتا یا کم ہی ہوتا ہے اور اس خود غرضی کا ایک بدترین ظہور جمع و حصول مال کی بھوک ہے۔ اگر غور سے دیکھیے تو عالم انسانیت میں اس مرض کا کوئی ظہور اس درجہ انسان کے ملکوتی فضائل کے لیے مہلک اور اس کی قوت بہیمی کے لیے اس سے زیادہ کوئی مقوی فعل نہیں ہے جتنا کہ ” الربوا “ کو لینا یہ ایسا بدترین فعل ہے کہ اسلام کی ہیئت اجتماعیہ اور پوری انسانیت کی صحت کے لیے سم قاتل ہے۔ یہ عالم انسانیت کا ایک خوفناک درندہ بنا دینے کے لیے کافی و وافی ہے۔ ” الربوا “ سے زیادہ بڑھ کر کوئی عمل السحر نہیں ہے ” الربوا “ اور ” الربوا خوری “ کی مختلف شکلیں اس پر کھلی شہادت پیش کر رہی ہیں۔ پھر اس نامراد بیماری سے جس جس طرح کے سوتے پھوٹتے ہیں اس کا مسلسل ذکر آپ پڑھتے آ رہے ہیں۔ یہ معاشرہ اسلامی کے لیے سرطان کے نامراد مرض سے کچھ کم نہیں۔ جو اس کی زد میں ایک بار آیا وہ زندگی میں مشکل ہی سے اس سے نجات حاصل کرسکا۔
یقیناً تمام انسانی گناہوں میں صرف یہی وہ معصیت ہے جس کو ” بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ١ۚ “ کہا گیا ہے کیونکہ اور سی معصیت میں انسان اللہ کے بندوں کے لیے اس درجہ بےرحم اور خونخوار نہیں ہوجاتا جس درجہ ” الربوا “ کو اپنا وسیلہ معاش بنا لینے کے بعد ازسرتاپا مجسمہ شقاوت و قساوت اور بہیمی قوتوں کا مجمسہ بن جاتا ہے اور اللہ کے بندوں کے آگے بےرحمی سے مغرور ہونا فی الحقیقت خدائے قدوس کے آگے مغرور ہو کر آمادئہ جنگ و پیکارہونا ہے۔

ایک شخص چور ہے ، ڈاکو ہے ، قاتل ہے تو قانون اس کو سزا دے گا اور انسانی آبادی اس سے پناہ مانگے گی لیکن ایک الربوا خور کہتا ہے کہ ” اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ١ۘ “ گویا اس نے ایک تجارت کی دکان کھول دی ہے اور ضرورت و احتیاج پہلے ہی وہ چیز ہے جو انسان کے ہوش و حواس معطل کردیتی ہے۔ ڈاکو سے انسان بھاگتا ہے مگر مظلوم ، قرضدار خود دوڑ کر اس کے پاس جاتا ہے۔ پس فی الحقیقت قتل و غارت کسی قانون اور مذہب کے لیے اس درجہ سختی کی مستحق نہیں ، جس قدر ” الربوا “ اور الربوا خوری کی مہیب زندگی ، پھر کیا ” بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ١ۚ“ سے اس کی تعبیر صحیح نہیں ہے۔

دنیا میں خودغرضی کے جس قدر اعمال کیے جاتے ہیں ، ان میں سے کسی میں بھی اس درجہ استمرار اور مداومت نہیں جیسی اس کاروباری بےرحمی میں۔ الربوا خور کا عمل ظلم دائمی اور انسانی عمروں ، خاندانوں اور نسلوں تک جاری رہتا ہے اور وہ اس جس شکار کو پکڑتا ہے اس کی بےکسی اور مظلومی کا نظارہ برسوں تک دیکھتا رہتا ہے اور جب تک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے تڑپنے ، لوٹنے اور کر اہنے کے نظارہ کا تحمل اپنے اندر نہ پیدا کرے وہ الربوا خور نہیں بن سکتا۔ اس لیے صرف اور صرف اس معصیت کو ” بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ١ۚ “ سے تعبیر کیا ہے۔ ہاں ! اگر توبہ وانابت الیٰ اللہ کر کے آئندہ ” الربوا “ کو بالکل ترک کردینے کا عہد کرلے تو اپنا رأس المال لینے میں کوئی گناہ نہیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ربا کی ہر شاخ کو حرام قرار دیا اور الربوا خوروں کو اس کے نتائج المیہ سے ڈرایا لیکن افسوس کہ مسلمان کہلوانے والوں نے ” الربوا “ کی نت نئی صورتیں وضع کرنا شروع کردیں اور سب سے بڑھ کر تعجب یہ ہوا کہ ” الربوا “ حرام ، ” الربوا “ حرام کا شور کرنے والوں نے خود ” الربوا “ کی ایسی ایسی صورتیں ایجاد کرلیں کہ پہلے الربوا خوروں کو وہ شکست دے گئے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے ” الربوا “ کو پاکیزہ بنا لیا اور اپنی دکانداریوں کو خانقاہوں ، مقدس مقاموں اور مسجد کے حجروں میں سجایا اور بغیر ہلدی ، پھٹکڑی کے کروڑوں کمانے شروع کردیئے اور بلّی سو چوہے کھانے کے بعد پھر پاک کی پاک اور صاف کی صاف رہی۔

زیر نظر آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی اور مضمون کی مناسبت سے اس سلسلہ کلام میں داخل کردی گئی یعنی موجودہ ترتیب میں اس کو اس جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم الٰہی سے رکھوا دیا۔ اس کے نزول سے قبل اگرچہ ” الربوا “ ایک ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا تھا مگر قانوناً اسے بند نہیں کیا گیا تھا۔ اس آیت کے نزول کے بعد اسلامی حکومت کے دائرے میں سودی کاروبار ایک فوجداری جرم بن گیا۔ عرب کے جو قبیلے الربوا کھاتے تھے اور جو افراد بھی اس بیماری میں مبتلا تھے ان سب کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اعمال کے ذریعے سے آگاہ فرما دیا کہ اگر اب وہ اس لین دین سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ نجران کے عیسائیوں کو جب اسلامی حکومت کے تحت اندرونی خودمختاری دی گئی تو معاہدے میں یہ تصریح کردی گئی کہ اگر تم الربوا کا کاروبار کرو گے تو معاہدہ فسخ ہوجائے گا اور ہمارے اور تمہارے درمیان حالت جنگ قائم ہوجائے گی۔ آیت کے آخری الفاظ کی بناء پر کہ ” اِنْ تُبْتُمْ “ بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم کی رائے یہ ہے کہ جو شخص دارالاسلام میں ” الربوا “ کھائے اسے توبہ پر مجبور کیا جائے اور اگر باز نہ آئے تو آخر الکلام اس کو ختم کردیا جائے اور بعض کی رائے یہ ہے کہ اسے قید کردیا جائے اور جب تک وہ ” الربوا “ خوری چھوڑ دینے کا عہد نہ کرے اسے قید سے رہا نہ کیا جائے۔

امام احمد نے اپنی مسند میں اور دارقطنی نے عبداللہ بن حنظلہ سے روایت کیا ہے کہ : ” درہم ربوا یاکلہ الرجل وھو یعلم اشد من ستۃ و ثلثین زینۃ “ جو شخص معلوم ہونے کے باوجود ” الربوا “ کا ایک درہم کھاتا ہے اس کو چھتیس بغایا کی اجرت کھانے والے سے بھی زیادہ گناہ ہوتا ہے۔
ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ (قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ۔ الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا أَیْسَرُهَا أَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ ) (ابن ماجہ : ٤٣٢) ” الربوا کے گناہ کے ستّر اجزاء ہیں اور ان میں سے ادنیٰ ترین جزء یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے نکاح کرے۔ “ یہ ایک محاورہ ہے جو عربوں میں عام بولا جاتا ہے جبکہ کوئی شخص وہ کام کرے جس سے اس کو منع کیا گیا ہو۔ اس محاورہ میں نکاح کا ترجمہ ” زنا “ کرنا ایک ادبی غلطی ہے۔

توبہ کے ” الربوا “ کو چھوڑ دو اور اصل زر اگر موجود ہے تو وصول کرلو یہ تمہارے حق میں بڑی رعایت ہے :
490: اگر تم توبہ کرلو اور آئندہ کے لیے ” الربوا “ کی بقایا رقم چھوڑنے کا عزم کرلو تو تمہیں تمہارے اصل زر یعنی رأس المال مل جائیں گے۔ نہ تم اصل زر سے زائد حاصل کر کے کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ کوئی اصل زر میں کمی یا پورے کا پورا غصب کر کے تم پر ظلم کرنے پائے گا۔ اس میں اصل زر واپس دینے کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ تم توبہ کرلو اور آئندہ کو ” الربوا “ چھوڑ دو ، تب اصل زر ملے گا ورنہ اصل زر بھی بحق سرکار ضبط ہوجائے گا۔

جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر مسلمان ہونے کے باوجود ” الربوا “ کو حرام ہی نہ سمجھے اور ” الربوا “ لیتا رہے یعنی ” الربوا “ باقاعدہ وصول کرتا رہے تو اس حرکت سے وہ شخص اسلام سے خارج ہوگیا اور اس پر ارتداد کا قانون نافذ ہوجائے گا اور اس کی ایک سزا اس کو یہ بھی ملے گی کہ اصل زر بھی ضبط کرلیا جائے گا جو بیت المال میں جمع ہوگا۔ اگر وہ عملاً باز بھی نہیں آتا اور اسلامی حکومت کے خلاف کسی قسم کی تحریک اٹھاتا ہے اور مقابلہ کرتا ہے تو وہ باغی ہے اور اس پر بغاوت کا مقدمہ چلے گا اور اس کی کُل جائیداد بھی بیت المال میں داخل کردی جائے گی جو بطور امانت ہوگی۔ جب وہ توبہ کرے گا تو اس کا مال اس کو واپس دیدیا جائے گا اور یہ کام حکومت اسلامی سر انجام دے گی افراد کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے قانون نافذ کرنا شروع کردیں اور سب حدود اللہ میں یہی حکم ہے۔

غریب اور نادار مقروض کے ساتھ مساھلت کا سلوک کرنے کی ہدایت
491: الربوا خوری کی انسانیت سوز حرکت سے توبہ کرلی ہے اور توبہ بھی سچے دل کی توبہ ہے تو اب غریب اور نادار مقروض کے ساتھ مساھلت کا سلوک کرو یعنی اگر تمہارا مدیوں تنگدست ہے کہ تمہارا قرض ادا کرنے پر فی الوقت قادر نہ ہو تو تمہارے لیے حکم یہ ہے کہ اس کو فراخی اور آسودگی کے وقت تک مہلت دے دو اور اگر سمجھتے ہو کہ وہ اتنا غریب ہے کہ بظاہر کوئی صورت اس کی ادائیگی کی نظر نہیں آتی تو اپنا قرض معاف ہی کر دو تو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہوگا کہ تم نے اس کی آسانی کا خیال رکھا ہے تو یقیناً تمہاری آسانی کا بھی قانون الٰہی میں خیال رکھا جائے گا۔

الربوا خوروں کی عادت تو یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی مدیون مفلس ہے اور معیاد مقرر پر وہ قرضہ اد نہیں کرسکتا تو ” الربوا “ کی رقم اصل زر میں جمع کر کے ” الربوا “ در ” الربوا “ کا سلسلہ چلاتے ہیں اور ” الربوا “ کی مقدار بھی اور بڑھا دیتے ہیں۔

لیکن احکم الحاکمین نے یہ قانون بنا دیا کہ اگر کوئی مدیون واقعی مفلس ہے اور ادائے قرض پر قادر نہیں تو اس کو تنگ کرنا جائز نہیں بلکہ اس کو اس وقت مہلت دینی چاہیے کہ جب تک وہ اد کرنے پر قادر نہ ہوجائے اور ساتھ ہی اس کی ترغیب بھی دی جائے کہ اس غریب کو اپنا قرض ہی معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے اور بھی بہتر ہے۔

اس جگہ معاف کرنے کو قرآن کریم نے بلفظ صدقہ تعبیر فرمایا ہے جس میں ارشاد ہے کہ یہ معانی تمہارے لیے بحکم صدقہ ہو کر موجب ثواب ہوگی پھر یہ جو فرمایا کہ معاف کردینا تمہارے ہی لیے زیادہ بہتر ہے حالانکہ بظاہر تو ان کے لیے نقصان کا سبب ہے کہ ” الربوا “ تو چھوڑا ہی تھا اصل زر بھی گیا لیکن قرآن کریم نے اس کو بہتر بتایا۔ اس کی دو وجوہات ہیں ، پہلے تو یہ کہ یہ بہتری اس دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد مشاہدہ میں آجائے گی ، دنیا میں تمہیں اس عمل کی بہتری کا مشاہدہ ہوجائے گا کہ تمہارے مال میں اس طرح برکت ہوگی کہ تمہیں معلوم بھی نہیں ہوگا۔ برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ تھوڑے مال میں بہت کام نکل جائیں ، یہ ضروری ہیں کہ مال کی مقدار یا تعداد بڑھ جائے اور یہ بات روزمرہ زندگی میں کئی بار مشاہدہ ہوجاتی ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے والوں کے مال میں بیشمار برکت ہوتی ہے۔ ان کے تھوڑے مال سے اتنے کام نکل جاتے ہیں کہ حرام مال والوں کے بڑے بڑے اموال سے وہ کام نہیں نکلتے۔

اور جس مال میں بےبرکتی ہوتی ہے اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے خرچ کرتا ہے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا اور اکثر غیر مقصود چیزوں میں مثلاً دوا ، علاج اور ڈاکٹروں کی فیسوں میں ایسے مالداروں کی بڑی رقمیں خرچ ہوجاتی ہیں جن کا غریبوں کو کبھی سابقہ نہیں پڑتا۔ اول تو اللہ تعالیٰ ان کو تندرستی کی نعمت عطا فرماتا ہے تاکہ علاج میں کچھ خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے اور اگر کبھی بیماری آ بھی گئی تو معمولی اخراجات سے تندرستی حاصل ہوگئی۔ اس لیے مدیون مفلس کو قرض معاف کردینا جو بظاہر اس کے لیے نقصان دہ نظر آتا تھا قرآن کریم کی تعلیم کے پیش نظر وہ ایک مفید و نافع کام بن گیا۔

مفلس مدیون کے ساتھ نرمی و مساھلت کی تعلیم کے لیے احادیث صحیحہ میں جو ارشادات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اقدس سے نکلے ہوئے درج ہیں ان کے چند جملے بھی آپ اپنی زبان سے سن لیجیے۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ : ” جو شخص یہ چاہے کہ اس کے سر پر اس روز اللہ کی رحمت کا سایہ ہو جب کہ اس کے سوا کسی کو کوئی سایہ سر چھپانے کے لیے نہ ملے گا تو اس کو چاہیے کہ تنگ دست مقروض کے ساتھ نرمی اور مساھلت کا معاملہ کرے یا اس کو بالکل ہی معاف کر دے “ بالکل اسی مضمون کی ایک حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے۔

مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ : ” جو شخص کسی مفلس مدیون کو مہلت دے گا تو اس کو ہر روز اتنی رقم کے صدقہ کا ثواب ملے گا جتنی اس مدیون کے ذمہ واجب ہے اور یہ حساب معیاد قرض پورا ہونے سے پہلے مہلت دینے کا ہے اور جب معیاد قرض پوری ہوجائے اور وہ شخص ادا کرنے پر قادر نہ ہو اس وقت اگر کوئی مہلت دے گا تو اس کر ہر روز اس کی دوگنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔ “ (مرویات عثمان ح : ٥١٤

ایک حدیث میں ہے کہ : ” جو شخص یہ چاہے کہ اس کی دعا قبول ہو یا اس کی مصیبت دور ہو تو اس کو چاہیے کہ تنگ دست مدیون کو مہلت دیدے۔ “

احکام ” الربوا “ کی آیات کے ختم پر و بارہ بارگاہ ایزدی کا حکم :
492: احکام ” الربوا “ پر نازل کی گئی چھ آیات ختم ہوچکی ہیں اور اب اس ساتویں آیت میں اہل ایمان کو مخاطب فرما کر کہا جاتا ہے کہ اس دن سے ڈرتے رہو جس میں تم سب اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہاں تم سب کی اپنے اپنے اعمال کی پیشی ہوگی پھر ہر شخص کو اس کا معاوضہ یعنی کیے کا بدلہ پورا پورا ملے گا اور ان پر ظلم ذرا بھی نہ ہوگا کہ کسی کا عمل بلا معاوضہ رہ جائے یا کسی کے نامہ اعمال میں کوئی بدی خواہ مخواہ لکھ دی جائے۔ ” تُوَفّٰى کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ “ یعنی اعمال کا پورا پورا معاوضہ دیا جائے گا اور یہ بات اپنی جگہ پر حق ہے کہ کسی کو پورا پورا معاوضہ ادا کردینے کے بعد اس کو جتنا کچھ زیادہ عطا کیا جائے تو یہ عطا کرنے والے کی مزید عطا ہے اس کو معاوضہ میں کمی بیشی نہیں کہا جاسکتا یا یہ بات پورا پورا معاوضہ ادا کرنے کے کسی حال میں بھی منافی نہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت نزول کے اعتبار سے سب سے آخری آیت ہے اس کے بعد کوئی آیت اس سلسلہ میں نازل نہیں ہوئی۔ اس کے اکتیس روز بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال ہوگیا اور بعض روایات میں صرف نو دن بعد وفات ہونا بھی مذکور ہے۔

ربوا کے متعلق سورة بقرہ کی آیات ختم ہوئیں جو اس آخری ہدایت کی آیت کو ملا کر سات آیات کریمات ہوتی ہیں اور سورة آل عمران میں ایک اس حکم ربا کے متعلق موجود ہے اور سورة نساء میں بھی دو آیتیں اس مضمون کی ہیں اور ایک آیت سورة روم میں بھی ہے جس کی تفسیر میں اگرچہ اختلاف ہے۔ بعض نے اس کو بھی اس ” الربوا “ یعنی بیاج کے مفہوم میں شمار کیا ہے اور بعض نے اس کی تفسیر میں خاندانی رسم و رواج کے لین دین کے متعلق بیان کیا ہے۔ اس طرح گویا قرآن کریم کی دس آیات کریمات میں ” الربوا “ و رباء کے احکام بیان ہوئے ہیں۔
اس ضمن میں قرآن کریم کی دوسری آیات

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ٠٠١٣٠ (آل عمران ٣ : ١٣٠

” اے مسلمانو ! حرام کی کمائی [ 3 ] سے اپنا پیٹ مت بھرو جو دوگنی چوگنی ہوجایا کرتی ہے اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔ “
ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے :

فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَ بِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ کَثِیْرًاۙ٠٠١٦٠ وَّ اَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُهُوْا عَنْهُ وَ اَكْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ١ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ٠٠١٦١ (النساء ٤ : ١٦٠۔ ١٦١

” یہودیوں کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے اچھی چیزیں ان پر حرام کردیں ، جو حلال تھیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہت روکنے لگے تھے۔ اور وہ الر بوا کھانے لگے تھے حالانکہ اس سے روکے گئے تھے اور یہ بات کہ ناجائز طریقہ پر لوگوں کا مال کھانے لگے اور ان میں جو لوگ منکر ہوگئے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “
اس آیت میں یہود کو ” الربوا “ سے روکنے کا ذکر آیا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تصدیق کے لیے یہود کی کتاب سے کوئی عبارت بتائی جائے جس میں یہ حکم موجود ہو تاکہ قرآن کریم کا کلام الٰہی ہونا واضح ہوجائے۔ تورات میں اگرچہ بیشمار تحریف ہوچکی اور قوم یہود کے علماء نے دل کھول کر اس کتاب الٰہی میں ردوبدل کیا تورات کی اصل ہدایات کو حذف کر کے اپنی طرف سے عبارات کی عبارات داخل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تاہم تورات کے اندر آج تک یہ احکامات موجود ہیں ، چناچہ لکھا ہے کہ :

” اگر تو میرے لوگوں میں سے جس کسی کو جو تیرے آگے محتاج ہے کچھ قرض دیدے تو اس سے بیاجیوں کی طرح سلوک مت کر اور ” الربوا “ مت لے۔ “ (خروج ٢٢ : ٢٥)
” تو اس سے ” الربوا “ اور نفع مت لے ، اپنے خدا سے ڈر تاکہ تیرا بھائی تیرے ساتھ زندگی بسر کرے تو اسے ” الربوا “ پر روپیہ قرض مت دے ، نہ اسے نفع کے لیے کھانا کھلا۔ “ (احبار ٣٥ : ٣٦۔ ٣٧

واضح ہوگیا کہ یہود کو ” الربوا “ سے روکا گیا تھا لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس دنیا میں سب سے زیادہ ” الربوا “ خور قوم خود یہی یہود ہیں اور ان کے ” الربوا “ دنیا کے ادبیات میں ضرب المثل بن گئے ہیں۔

لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کریم کی آیات میں مسلمانوں کو اس لعنت سے بچنے کی صرف تلقین ہی نہیں بلکہ ان کو دنیوی اور اخروی دونوں عذابوں کے متعلق پوری وضاحت سے سمجھایا گیا۔ نتیجہ کیا ہوا ؟ یہی کہ آج اس قوم میں بھی ان لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو کھلے بندوں سودی کاروبار کرتے ہیں اور کوئی بستی یا شہر ایسا نہیں ملتا جہاں یہ مہاجن موجود نہ ہوں۔ یہ دوسری بات ہے کہ انہوں نے اپنا نام مہاجن کی بجائے شیخ یا سیٹھ رکھ لیا ہو ، اس کی وضاحت ہماری کتاب ” سوال اٹھتا ہے نمبر ٢ “ میں دیکھیں۔

اور آج جو ” الربوا “ کی نئی نئی شکلیں اور نئے نئے نام رکھ لیے گئے ہیں ، ان کا ذکر بھی آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں اور وہ اس ” الربوا “ کو ” الربوا “ ماننے کے لیے تیار کب ہیں ؟ اور وہ آخر مانیں گے بھی کیوں ؟ اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں ماریں ؟ ان کو بغیر پیسہ لگائے مال ملتا ہے پھر ” الربوا “ خور بھی کوئی نہیں
کہتا۔ عزت الگ ہوتی ہے لیکن خوب سن لو کہ اگر یہ مال کھانے کا طریقہ باطل نہیں تو دنیا میں کوئی طریقہ بھی باطل نہیں ہوگا اور یہ راز اس وقت کھلے گا جب ان سارے ” الربوا “ خوروں کے ہاتھ خالی ہوچکے ہوں گے خواہ وہ کسی قوم سے بھی تعلق رکھتے ہوں۔
سورئہ روم کی ” اختلافی آیات “
کہ اس کا حکم کس طرح کے ” الربوا “ سے ہے ؟

وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ١ۚ وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ ٠٠٣٩ (الروم ٣٠ : ٣٩

” اور جو تم زیادہ حاصل کرنے کے لیے دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال سے مل کر (تمہارا مال) بڑھتا رہے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو تم پاک دل سے واپس لینے کے لیے نہیں صرف اللہ کی رضامندی کے لیے دیتے ہو پس وہی لوگ ہیں جو اپنے مال کو دو چند کریں گے (اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا مال دوچند ہوگا) ۔ “

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے دو اقوال ہیں : ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد وہ معروف ربا یا ” الربوا “ ہے جسے شریعت نے بعد میں مکمل طور پر حرام ٹھہرایا ہے اور یہاں صرف ترغیب ہے کہ اس طریقہ سے مال نہیں بڑھتا۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہاں ربا سے مراد وہ ” الربوا “ نہیں ہے جو شرعاً حرام کیا گیا ہے بلکہ وہ عطیہ یا ہدیہ و تحفہ ہے جو اس نیت سے دیا جائے کہ لینے والا بعد میں اس سے زیادہ واپس کرے گا جیسے شادی بیاہ یا دوسری لین دین کی رسومات میں لیا دیا جاتا ہے یا اس لیے کہ معطی کے لیے کوئی مفیدخدمت انجام دے گا ، جیسے حکومتی افسروں ، مولوی اور پیروں کو یا اس کا خوش ہوجانا معطی کی اپنی ذات کے لیے نافع ہوگا۔ ابن عباس (رض) ، مجاہد (رح) ، ضحاک (رح) ، قتادہ (رض) اور محمد بن کعب القرظی اور حضرت شعبی کا قول بھی یہی ہے اور یہ تفسیر دوسری تفسیر کی نسبت زیادہ مشہور بھی ہے اور صاف بھی۔

اس جگہ الربوا کی بات ختم کر کے آگے ایمان والوں کو مخاطب کر کے ادھار یعنی قرض جس کو عربی میں ” دین “ کہا جاتا ہے کہ بات شروع کی جا رہی ہے اور یہ معاملہ تجارت یا برابری کا ہے ، اس سے اس بات کو ایک انسان سمجھنا چاہے تو ” الربوا “ کی مکمل حقیقت کو سمجھ سکتا ہے۔ کیسے ؟ ایسے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کے مطابق ” الربوا “ کی تحریر کرنا ، کرانا ، اس پر گواہ بننا ، بنانا ” الربوا “ لینا یا دینا سب کی ممانعت ہے اور سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں ، کیوں ؟ محض اس لیے کہ ” الربوا “ صدقہ و خیرات کی ضد ہے اور صدقہ و خیرات چیز ہی ایسی ہے کہ جس کو صدقہ و خیرات دیا جائے گا اس سے واپس لیا ہی نہیں جاسکتا ، تو پھر اس کی تحریر کیسے ؟ یہ تو قرض حسنہ ہے اور قرض حسنہ کا قرآنی مفہوم یہ ہے کہ جس کو دیا جائے اس سے واپس نہ لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اعظم و آخر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح فرمایا کہ ” الربوا “ ہمیشہ ادھار ہی ہوتا ہے اور قرض حسنہ ادھار کو نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی وضاحت مطلوب ہو تو ہماری کتاب ” سود کیا ہے ؟ “ اور ” سوال اٹھتا ہے نمبر ٢ “ کا مطالعہ کریں ، ان شاء اللہ عقل و فکر پر پڑے ہوئے تمام پردے اٹھ جائیں گے۔

سورہء آل عمران
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ١٣٠؁ۚ
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ١٣١؁ۚ

اے مسلمانو ! حرام کی کمائی سے اپنا پیٹ مت بھرو جو دوگنی چوگنی ہوجایا کرتی ہے اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ
اور اس آگ کے عذاب سے ڈرو جو منکرین حق کیلئے تیار کی گئی ہے
: مسلمانوں کو سود کی کمائی سے باز آنے کا حکم دیا جاتا ہے

: 243
” اَضْعَا فَا مُضَاعَفَۃ “ سود در سود کو کہا گیا ہے۔ عربوں میں دستور تھا اور غالباً ایسا ہی دستور تمام سود خواروں میں ہے کہ جب قرضہ کی میعاد پوری ہوجاتی ہے اور قرضہ ادا کرنے والا قرضہ ادا نہیں کرسکتا تو سود کو اصل رقم میں بڑھا کر دوبارہ میعاد مقرر کرلی جاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص نے اپنی مجبوری کے باعث ایک بنئے سے سو روپے قرض لیے اور ایک سال کے بعد ایک سو بیس ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ سال گزر گیا لیکن وہ قرض ادا نہ کرسکا تو اب بنئے کی طرف سے 120 روپے اصل زر ہوگیا اور سال کے لیے جو رقم طے ہوئی اب وہ ایک صد بیس روپے پر ادا کرنا پڑے گا اس طرح رقم بڑھتے بڑھتے چار چھ سال میں مقروض کو اس قدر دبا کر بیٹھ گئی کہ اس کو زمین ، مکان ، جانور ، غلہ جو کچھ اس کے پاس ہے سب دینا پڑا اور آہستہ آہستہ وہ ساری چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھا اور آیت کا یہ مطلب نہیں کہ کئی گنا کر کے سود نہ کھاؤ لیکن تھوڑا تھوڑا کھالو بلکہ مراد اس سے مذمت یا تو بیخ سود ہے کہ تم سود مت کھاؤ ۔
انسان جب اصل راہ سے ہٹ جائے تو اس کے لیے ہلاکت و پریشانی اور نقصان ہی نقصان ہوتا جاتا ہے۔ دراصل مسلمانوں کو یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ جنگ احد میں تم نے ایک غلطی کی اور غلطی کا نتیجہ کیا رہا ہے ؟ اور کتنی تکلیف اٹھانی پڑی ہے ؟ پھر یہ کہ انسان جب ایک قدم غلط اٹھا بیٹھتا ہے تو وہ غلط پر مزید غلط قدم اٹھاتا ہی جاتا ہے اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ میں نے ایک غلطی کی اس کا یہ نتیجہ پایا تو اب باز آجاؤں اعتراف کرلوں اور مزید غلط قدم نہ اٹھاؤں۔ لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے ، کیوں ؟ اس لیے کہ غلطی کا اعتراف اس کو دل پر شاق گزرتا ہے۔

یہاں یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ سود اور جنگ عملاً لازم و ملزوم ہیں۔ جس قوم کو یہ بیماری لگ جاتی ہے وہ ہمیشہ جا بجا انسانی خون سے ہاتھ رنگتی رہتی ہے۔ کفار مکہ نے جو جنگیں لڑیں دراصل ان کی بھی اصل وجہ یہی تھی۔ مشرکین نے جو مال اکٹھا کیا وہ سارے کا سارا اسی طرح کا مال تھا کہ و ڈیرے قوم کے غریبوں کو سود پر روپیہ دیتے اور ان سے سود کی رقم اکٹھی کر کے اصل زر خود رکھتے تاکہ ان کا کوئی نقصان نہ ہو اور سود کا روپیہ جن سے کماتے انہی لوگوں پر وہ روپیہ خرچ کر کے ان کو آمادہ پیکار کرتے اور اسی طرح قوم کے غریب و نادار لوگ اپنے ہی روپے سے میدان کارزار میں لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے۔
آج بھی اگر آپ دیکھیں گے تو آپ کو یہی صورت حال نظر آئے گی ان دنیا کے وڈیروں نے غریب ملکوں کو کیا دیا ؟ سود پر قرض دیا اور پھر سود در سود قرض بڑھتا گیا بلکہ ان کی ضرورت کو دیکھ کر مزید ان کو قرض لینے کی راہیں بتائیں کہ اگر تم یہ کرو گے تو تمہیں اتنا قرض مزید مل جائے گا اس طرح غریب ملکوں نے قرض لے لے کر اتنا قرض بڑھا لیا کہ اب اس سے نکلنے کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہی۔ جن ملکوں کے پاس ایسے وسائل تھے کہ ان کو قرض لینے کی ضرورت نہ تھی ان کو ایسی ایسی الجھنوں میں مبتلا کردیا کہ ان کے ان قدرتی وسائل پر قبضہ کرلیا۔ اب وسائل رکھنے والے برائے نام ان کے مالک ہیں اصل مالک ان کے وہ خود قرار پا گئے۔

جوں جوں آگے بڑھتے گئے حالات بدلتے گئے اور سود کی نئی نئی راہیں کھلتی گئیں۔ ان کے ہاتھ اس سود در سود سے اتنے مضوط ہوگئے ان غریب ملکوں میں سے جس کو جی چاہا قرض دینا بند کردیا اور اگر ضرورت پڑ تو پچھلے قرض مانگنے شروع کردیے۔ ملک کی پوری پیداوار وہ اٹھا کرلے گئے۔ کسی ملک نے اگر پھر بھی برداشت رکھی تو اس کے خلاف کسی ہمسائے ملک کو اکسا دیا اور شرارت شروع کرا دی حتیٰ کہ وہ پہلا ملک ہاتھ جوڑنے پر مجبور ہوگیا۔
اس طرح کے گٹھ جوڑ اور ان سودی کاروباروں نے سارے اسلامی ممالک کا ستیاناس کردیا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ ہمرے ہاں اتنا اسلحہ ہوگیا کہ اب اس کی کوئی کھپت نہ ہوئی تو یہ پڑا پڑا بےکار ہوگا اور ہمیں خسارہ اٹھانا پڑے گا فوراً کسی مسلک سے اسلحہ بیچنے کے لیے اس کو قرض کی پیش کش کردی اگر ایک ملک متوجہ نہ ہوا تو دوسرے کے ساتھ کاغذی معاہدہ کرلیا پھر اس کے ہمسایوں میں کھسرپھسر شروع ہوگئی تو ان پر بھی احسان کی ٹانگ رکھ دی۔
اس سودی کاروبار نے ہمارے سارے اسلامی ممالک کو اس مقام پر پہنچا دیا اور اس وقت تقریباً سب دیوالیہ ہیں اور جو اپنے پاؤں پر کھڑے تھے ان کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑا کر اور ان کو اسلحہ دے کر کنگال کردیا حتیٰ کہ آہستہ آہستہ ان کے وسائل پر قبضہ کر کے ان کی حفاظت کے ٹھیکہ دار بن گئے۔

اسلام نے جہاں ایک طرف جنگ کو تسلیم کیا ہے خصوصاً ان حالات میں جب ایک قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہو تو اسے نہایت ضروری قرار دیا ہے تو دوسری طرف ان موجبات جنگ کو جو بلا ضرورت جنگ جاری رکھنے کا موجب ہو سکتے ہیں دور یا کم کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جب بھی جنگ لڑی ہے دفاعی جنگ لڑی ہے ملک گیری کی ہوس میں ایک جنگ بھی نہیں لڑی گئی اور مخالفین نے جو بھی جنگ بھی لڑی ہے صرف ملک گیری کی ہوس میں لڑی ہے۔ اب مسلمانوں کو مل کر دنیا کے ان و ڈیرے مہاجنوں کے خلاف جنگ لڑنے کی ضرورت شدید نظر آرہی ہے اور یہ اس دفاع میں لڑی جانی چاہیے تاکہ ان کے چنگل سے قوم مسلم نجات حاصل کرے اور ان کی اپنی بھڑکائی ہوئی آگ ان کو بھسم کر کے رکھء دے۔ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ہر حال میں اس کا علاج یہی ہے اور یہی ہوگا وقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس کے لیے کون سا مقرر کیا گیا ہے ؟
حرمت سود کا صرف دو موقعوں پر ذکر کیا گیا ہے ایک اس جگہ جہاں انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کیا ہے اور دوسری وہ جگہ جہاں جنگوں کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے کہ سود ایک طرف انفاق فی سبیل اللہ کے جذبہ سے روکتا ہے اور دوسری طرف جنگ بھڑکانے کے لیے نئے نئے طریقے سجھاتا ہے اور اسلام ایک طرف انفاق فی سبیل اللہ پر زور دیتا ہے اور اس میں یہ حکمت سکھاتا ہے کہ اس طرح اموال بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے اور قوم میں خوشحالی آتی ہے اور اس کی تنگی دور ہوتی ہے اور سود سے اموال کم ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ پوری قوم سے سمٹ کر چند افراد کے ہاتھوں میں جمع ہوجاتے ہیں جس سے قومی خوشحالی کو اور قوم دن بدن بدحالی کی طرف بڑھنے لگتی ہے اور جن ہاتھوں میں دولت سمجٹ کر رہ جاتی ہے وہ اس دولت سے جنگ کے جھونکے تیز کردیتے ہیں تاکہ ان کے سود پر قرض دینے کی راہیں نکلتی رہیں اور اس طرح پوری قوم کا امن برباد ہوجاتا ہے اور پھر انجام کار وہ وقت آجاتا ہے کہ یہ جنگ بھڑکانے والے خود اپنی ہی بھڑکائی ہوئی آگ کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اس طرح نہ بانس رہتا ہے نہ بانسری بجتی ہے۔

آگ کا عذاب ان ہی کے لیے ہے جو حق کا انکار کرتے ہیں :
245: بلاشبہ جہنم کی آگ اصولاً ان ہی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو حق سے انکاری ہیں اور اگر تم نے وہ اعمال شروع کردیے جو کافروں کے اعمال ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ تم بھی اس کی لپیٹ میں آجاؤ گے۔ گویا یہ ان لوگوں کے لیے وعید ہوئی جو سود خوری کو چھوڑنے کے لیے اتیار نہیں بلکہ اس کے جواز کے فتوے صادر کرتے ہیں جس کا صف صاف مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام اور اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حلال نہیں سمجھتے وہ گویا عذاب الٰہی کو خود دعوت دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایک چیز اپنی جگہ پر قائم بھی رہے تو دوسری اس کی طرف بڑھتی ہی رہے تو ملاقات یقینی ہے۔ اس طرح گویا اللہ کا عذاب ان کی طرف نہیں بڑھتا بلکہ یہ کم بخت خود عذاب الٰہی کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور پھر انجام اس کا واضح ہے۔

سورۃالنساء
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا ١٦٠؀ۙ
وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ١٦١؁

یہودیوں کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے اچھی چیزیں ان پر حرام کردیں ، جو حلال تھیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہت روکنے لگے تھے
اور وہ الربا کھانے لگے تھے حالانکہ اس سے روکے گئے تھے اور یہ بات کہ ناجائز طریقہ پر لوگوں کا مال کھانے لگے اور ان میں جو لوگ منکر ہوگئے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے

:یہود کی اس گمراہی کا ذکر جس کے نتیجہ میں ان پر حلال چیزوں کو حرام کردیا گیا
251: یہ مضمون قرآن کریم میں تین مقامات پر بیان ہوا ہے سورة ال عمران میں جہاں فرمایا ” کھانے کی یہ ساری چیزیں جو شریعت محمدی و احمدی میں حلال ہیں نبی اسرائیل کے لئے بھی حلال تھیں۔ البتہ بعض چیزیں تھیں جنہیں توراۃ کے نازل کئے جانے سے پہلے اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ ” ان سے کہو کہ لائو توراۃ اور پیش کرو اس کی کوئی عبارت اگر تم اپنے اعتراض میں سچے ہو۔ “ (ال عمران 3:93) اس زیر نظر آیت میں فرمایا ” یہود کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نیکتنی اچھی چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے حلال تھیں اور اس وجہ سے بھی کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہت روکنے لگے تھے۔ “ اور سورة الانعام میں فرمایا کہ ” ان کی سر کشیوں کی پاداش میں ہم نے ان پر تمام ناخن والے جانور حرام کئے اور بکری اور گائے کی چربی بھی ان کے لئے حرام ٹھہرا دی۔ “ (الانعام 6:146) ان تینوں آیتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی اور یہودی فقہ کے درمیان حیوانی غذائوں کی حلت و حرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پر مبنی ہے۔ ایک یہ کہ نزول تورات سے صدیوں پہلے یعقوب (علیہ السلام) نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی حتیٰ کہ یہودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حرمت تورات میں لکھ دی اور جن اشیاء کو تورات میں لکھ لیا گیا ان میں اونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں۔ آج بائبل میں توراۃ کے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں ان میں ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ ” جانوروں میں جن کے پائوں الگ اور چرے ہوئے ہیں اور وہ جگالی کرتے ہیں تم ان کو کھائو۔ مگر جو جگالی کرتے ہیں یا جن کے پائوں الگ ہیں ان میں سے تم ان جانوروں کو نہ کھائو یعنی اونٹ کو کیونکر وہ جگالی کرتا ہے پر اس کے پائوں الگ نہیں۔ سو وہ تمہارے لئے ناپاک ہے اور سافان کو کیونکہ وہ جگالی کرتا ہے پر اس کے پائوں الگ نہیں وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہے اور خرگوش کو کیونکر وہ جگالی تو کرتا ہے پر اس کے پائوں الگ نہیں وہ تمہائے لئے ناپاک ہے اور سور کو کیونکر اس کے پائوں الگ اور چرے ہوئے ہیں پر وہ جگالی نہیں کرتا وہ بھی تمہارے لیے ناپاک ہے تم ان کا گوشت نہ کھانا اور ان کی لاشوں کو نہ چھونا وہ تمہارے لئے ناپاک ہیں۔ “ (الاحبار 11:4 تا 8) اور ایک جگہ ہے کہ ” اور چوپایوں میں سے جس جس کے پائوں الگ اور چرے ہوئے ہیں۔ اور وہ جگالی کرتا ہو تم اسے کھا سکتے ہو لیکن ان میں سے جو جگالی کرتے ہیں یا ان کے پائوں چرے ہوئے ہیں تم ان کو یعنی اونٹ اور خرگوش اور سافان کو نہ کھانا کیونکہ یہ جگالی کرتے ہیں لیکن ان کے پائوں چرے ہوئے نہیں ہیں سو یہ تمہارے لئے ناپاک ہیں اور سور تمہارے لئے اس سبب سے ناپاک ہے کہ اس کے پائوں تو چرے ہوئے ہیں پر وہ جگالی نہیں کرتا۔ تم نہ تو ان کا گوشت کھانا اور نہ ان کی لاش کو ہاتھ لگانا۔ “ (الاستثناء 14:7 تا 8) اس سے مولوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے کیونکہ اگر اس وقت توراۃ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لاکر پیش کردیتے۔

اور دوسرا فرق اسی وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور آپ اپنے شارع بن بیٹھے تو انہوں نے بہت سی پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے حرام کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا۔ ان اشیاء میں ایک تو ناخن والے جانور شامل ہیں یعنی شتر مرغ قاز اور ربط وغیر دوسرے گائے اور بکری کی چربی بائبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکام توراۃ میں داخل کردیا گیا ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ ” ساری چربی خداوند کی ہے۔ یہ تمہاری سب سکونت گاہوں میں نسل درنسل ایک دائمی قانون رہے گا کہ تم چربی یا خون مطلق نہ کھائو۔ “ (احبار 3:17) سورة النساء کی یہ آیت جس کی تفسیر یہ رہی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود پر پہلے یہ چیزیں حلال تھیں حرام نہ تھیں بلکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حرام ہوئیں اور تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ موجودہ یہودی شریعت کی تدوین دوسری صدی عیسوی کے آخر میں ربی یہود کے ہاتھوں مکمل ہوئی۔ رہی یہ بات کہ پھر ان چیزوں کی متعلق اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ” حرمنا “ ہم نے حرام کیا کا لفظ کیوں استعمال کیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ الٰہی تحریم کی صرف یہی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلط کر دے اور وہ ان طیبات کو حرام کردیں پہلی قسم کی تحریم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دوسری قسم کی تحریم اس کی پھٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کری ہے اور یہی کچھ یہاں ہوا۔
: یہودیوں کو سود منع کیا گیا تھا لیکن وہی دنیا کی پہلی قوم ہے جس نے سود کے طریقے ایجاد کئے

: 252
توراۃ ہونے کے باوجود آج تک سود کی حرمت اس میں موجود ہے چناچہ تحریر ہے کہ ” اور اگر تیرا کوئی بھائی مفلس ہوجائے اور وہ تیرے سامنے تنگ دست ہو تو اسے سنبھالنا۔۔ تو اس سے سود یا نفع مت لینا بلکہ اپنے خدا کا خوف رکھنا تاکہ تیرا بھائی تیرے ساتھ زندگی بسر کرسکے تو اپناروپیہ اسے سود پر مت دینا اور اپنا کھانا بھی اسے نفع کے خیال سے نہ دینا۔ (احبار 25:35 ‘ 37) ” تو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا خواہ وہ روپے کا سود ہو یا اناج کا سود یا کسی ایسی چیز کا سود ہو جو بیاج پر دی جایا کرتی ہے۔ “ ( استثناء 23:19 ‘ 20) میں تمہاری منت کرتا ہوں کہ ہم سب سود لینا چھوڑدیں۔ “ (نحمیاہ 5:13) تو نے بیاج اور سود لیا اور ظلم کر کے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا۔ “ (حزقی 22:13) اس جگہ ان کی زیادتیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ یہ اسلام کے دشمن کیوں ہیں ؟ محض اس لئے کہ قرآن کریم ان کی ان زیادتیوں کی نشاندہی کرتا ہے اور ان کی انگلی پکڑ کر اس مقام پر رکھ دیتا ہے جس مقام دیتا ہے جس مقام میں انہوں نے ترمیم کر کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا تھا اور ان کو اس بات کی دلیل مہیا کردی کہ جو شخص یا قوم اپنے رب کے ساتھ دھوکا سے باز نہیں آئی اس کو لوگوں کے ساتھ زیادتی کرتے کیا دیر لگے گی ؟ اور اس طرح مسلمانوں کے لئے ابھی اس میں بیشمار اسباق موجود ہیں کہ یہود و نصاریٰ کو جو سزا ملی وہ ان کی زیادتیوں کا نتیجہ تھی اور اگر تم نے زیادتی کی اس کا نتیجہ تم بھی دیکھ لو گے کیونکہ اللہ کے ہاں اندھیر نگری نہیں کہ کسی کے جرم میں اس کو سزا دے اور کسی کو ان کے جرم پر انعام و اکرام دیتا چلاجائے۔ کل انہوں نے اپنے اعمال کا بدلہ پالیا تو آج یقینا تم بھی اپنے اعمال سے دوچار ہوگے اور اگر غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہماری کوتاہیوں اور بد عملیوں ہی کا نتیجہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں۔

یہود کی ان گمراہیوں کا ذکر قرآن کریم کے مختلف مقامات پر کیا گیا اور ہر جگہ یہ بات بھی سمجھائی گئی کہ ان کی انہی کوتاہیوں کے نتیجہ میں ان پر ضلالت آئی اور تم خیال رکھنا کہ ان امراض کو قریب نہ آنے دینا جو اس قوم کو لاحق ہوگئے تھے۔ پھر ان امراض کا بھی ذکر فرمایا جن میں سب سے بڑا مرض یہ قرار دیا گیا کہ ان کے علماء نے ان کو ان کوتاہیوں سے باز رہنے کا حکم دینا بھی چھوڑ دیا جیسا کہ ایک جگہ ارشاد فرمایا :
” اور تم ان میں سے بہتوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور ظلم اور مال حرام کھانے میں تیز گام ہیں ‘ کیا ہی برے کام ہیں جو وہ شب وروز کر رہے ہیں۔ ان کے عالموں اور پیروں کو کیا ہوگیا ہے کہ انہیں جھوٹ بولنے اور مال حرام کھانے سے روکتے نہیں ؟ کیا ہی بری کار گزاری ہے جو یہ کر رہے ہیں۔ “ (المائدہ 5:62 ‘ 63) ان علماء اور پیروں پر تو افسوس کیا جا رہا ہے جو قوم کو جھوٹ بولتے اور حرام کھانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ کیا پہلوں کو عذاب اور پچھلوں کو انعام دیا جائے گا ؟ افسوس کہ ہم کو کیا ہونا چاہئے تھا اور کیا ہوگئے ؟
: ایک جگہ ارشاد ہوا

” اے پیغمبر اسلام ! یہ لوگ جھوٹ کے لئے کان لگانے والے اور برے طریقوں سے مال میں بےباک ہیں۔ “ (المائدہ 5:42) مثلا سرکاری ملازم اور سیاسی لیڈر ہیں کہ رشوت لیتے ہیں اور رشوت کو رشوت نہیں کہتے بلکہ حق سمجھتے ہیں اور اس طرح علماء ‘ پیر ‘ مفتیان ہیں کہ نذرانے وصول کرتے اور فتوے بیچتے ہیں اور ذراجھجک بھی محسوس نہیں کرتے۔ ” یہی لوگ ہیں کہ اللہ کے دلوں کو کبھی پاک نہیں کرے گا ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب ہوگا۔ “ (المائدہ 5:41) ایک جگہ ارشاد فرمایا :
ناجائز طریقہ پر لوگوں کا مال کھانے لگے اور یاد رکھو ان میں جو لوگ ‘ منکر ہوگئے ہم نے ان کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

سورۃالروم
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ 39؀

اور جو تم زیادہ حاصل کرنے کے لیے دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال سے مل کر (تمہارا مال) بڑھتا رہے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو تم پاک دل سے واپس لینے کے لیے نہیں صرف اللہ کی رضامندی کے لیے دیتے ہو پس وہی لوگ ہیں جو اپنے مال کو دو چند کریں گے (اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا مال دوچند ہوگا)
: سود اور زکوۃ کی وضاحت اور زکوۃ ادا کرنے والوں کے مال کے اضافہ کی تشریح

٣٩۔ سورة الروم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکہ مکرمہ میں بعثت کے چھٹے یا ساتویں سال نازل ہوئی اور سود کی حرمت مدینہ منورہ میں بعد از ہجرت ہوئی ہے ، قرآن کریم کی زیر نظر آیت میں سود کی حرمت کا اعلان نہیں ہے بلکہ سود کی مذمت کا ذکر کیا گیا ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ جس مقصد کے لئے تم لوگ سود لیتے دیتے ہو وہ مقصد اللہ تعالیٰ کے نزدیک پورا نہیں ہوتا کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کا نفع کم اور نقصان زیادہ ہے اور جس چیز میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہو وہ کبھی کسی بھی عقل مند کے نزدیک درست نہیں ہو سکتی اس لئے اس بات کا اعلان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جس مقصد کے تحت تم سود کو لیتے دیتے ہو وہ پورا نہیں ہوتا بلکہ وہ مقصد زکوۃ کے ادا کرنے سے پورا ہوتا ہے باوجود اس کے کہ تمہارے خیال میں زکوۃ سے مال کم ہوتا ہے اور سود سے بڑھتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا نہیں ہے ۔ سود کیا ہے ؟ ہم نے کیا سمجھا ہے ؟ یہ کیونکر ہے کہ سود سے مال نہیں بڑھتا بلکہ زکوۃ سے مال بڑھتا ہے ؟ یہ سوالات اور علاوہ ازیں بہت سے سوالات کے جواب سورة البقرہ کی آیت ٢٧٥ تا ٢٨١ عروۃ الوثقی جلد اول میں اور جلد دوم میں سورة آل عمران کی آیت ١٣٠ میں بیان کئے گئے ہیں اور رہی سود کی حرمت کیوں ‘ اور کیسے ؟ یہ بھی بحث پیش کردی گئی ہے ۔ زیر نظر آیت میں بعض مفسرین کے بیان کے مطابق ایک دوسرے کے درمیان تحفہ وتحائف اور رسومات شادی بیاہ اور اس طرح کے دوسرے معاملات میں لینے دینے کے جو معروف طریقے ہیں ان میں سے اس غرض کے پیش نظر دیتے وقت یہ خیال رکھ کردینا کہ کل ہمارے ہاں بھی اسی طرح کی تقریب ہوگی تو جس کو ہم آج دے رہے ہیں کل ہم کو زیادہ ادا کرے گا اس نیت سے لینا دینا صحیح نہیں ہے ہاں ! تحفہ وتحائف کا لینا دینا بالکل جائز اور صحیح ہے لیکن عمل کا تعلق بہرحال نیت سے بھی ہوتا ہے لہذا نیت میں یہ بات نہیں ہونا چاہئے اگر کسی کی نیت میں یہ بات ہوگی تو گویا نہ اس کی نیت درست ہے اور نہ ہی اس عمل کا نتیجہ کبھی اچھا ہو سکتا ہے اور بلاشبہ یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح اور درست ہے لیکن ہمارا وطیرہ آج بھی وہی ہے جو شرعا صحیح اور درست نہیں ہے کیونکہ ہم سب مسلمان ہیں اور ہم نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ جو بات شرعا صحیح ہے اس کو ہم نہیں کریں اور کبھی نہیں کریں گے اور جو بات شروع صحیح اور درست نہیں ہے اس کو ہم ضرور کریں گے اور اس کے باوجود ہم پکے مسلمان کے مسلمان بھی رہیں گے کیونکہ ہمارے باپ دادا بھی یہ سب کچھ کرتے تھے اور اس کے باوجود وہ مسلمان تھے لہذا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اب ہم یہ سب کچھ کریں اور ہمارے اسلام میں ذرہ برابر بھی فرق آئے آخر کیوں اور کیسے ؟ افسوس ہے ہماری حالت پر کہ ہم کرتے کیا ہیں اور کہتے کیا ہیں اور آج ہماری مجموعی حالت ایسی ہی ہے البتہ نیک اور صالح انسان آج بھی موجود ہیں اگرچہ وہ گنتی کے اعتبار سے چند معدودے آدمی ہی کیوں نہ ہوں ۔

” جو تم پاک دل سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے دیتے ہو زکوۃ ادا کرتے ہو تو یہی لوگ ہیں جو مال کو دو چند کر رہے ہیں ۔ “ اس میں اصلیت یہ ہے کہ ایک آدمی اس دنیا کے مال سے جس کو وہ اپنا مال سمجھتا ہے اپنی ذات کے لئے اپنی مرضی کے مطابق جیسے چاہتا ہے خرچ کرتا اور جیسے چاہتا ہے کماتا ہے اگر اس کو ورثہ میں مال مل گیا ہے تو گویا بغیر محنت کئے مل گیا اور اگر اس نے محنت کرکے خود کمایا ہے اور اس طرح مال جمع ہوگیا ہے دونوں صورتیں ممکن ہیں اور دونوں صورتوں میں مال جمع ہوجاتا لیکن ایک دوسرا آدمی ہے جو اس کے مقابلہ میں مال کماتے وقت بھی خیال رکھتا ہے کہ آیا اس طرح مال کمانے کی اسلام مجھے اجازت دیتا ہے یا نہیں اور اسی طرح وہ وہ طریقہ اختیار کرتا ہے جس طریقہ کے اختیار کرنے کی اس کو اجازت ملتی ہے عین ممکن ہے کہ ایک آدمی کو یہ فکر اپنانے کے باوجود مال دے دے تو اب دونوں کے مال میں از روئے اسلام بہت بڑا فرق ہوگیا اس طرح خرچ کرنے کا وقت آیا تو ایک کو خیال آیا کہ میں تو اس جگہ مال خرچ کروں گا جہاں خرچ کرنے کی اسلام اجازت دے گا اور وہاں خرچ نہیں کروں گا جہاں مال خرچ کرنے کی اسلام اجازت نہ دے تو ظاہر ہے کہ دونوں کے خرچ میں بہت بڑا فرق ہوگیا ۔ مال تو دونوں کا خرچ ہوا لیکن ایک کو صرف دنیوی زندگی کی خوشی حاصل ہوئی اور دوسرے نے دنیوی زندگی کے ساتھ اپنی آخری زندگی کا سامان بھی کرلیا اور ادھر اس دنیا میں جو مال اس نے اپنی نجی ضروریات پر صرف کیا اس کے صرف کرنے سے بھی اس کو مسرت حاصل ہوئی اور جتنا مال اس نے رضائے الہی کے لئے غریبوں ‘ مسکینوں ‘ اور یتیموں میں تقسیم کیا ان غریبوں ‘ یتیموں اور مسکینوں کی طرف سے جو اس کو دعائیں ملیں یہ وہ صلہ ہے جو کچھ ختم ہونے والا نہیں اور چونکہ اس نے ان لوگوں میں جو مال خرچ کیا ان سے کچھ عوض نہیں چاہا اس لئے جو اس نے خالصتا اللہ کی رضا کے لئے دیا تو بلاشبہ جو رضائے الہی اس کو حاصل ہوئی یہ اتنا بڑا انعام ہے کہ دنیا کا کوئی انعام بھی خواہ وہ کروڑوں روپے کا ہو اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا لکنج اس بات کو وہی سمجھ سکتا ہے جس آدمی کا ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہو اور آخرت پر وہ پختہ یقین رکھتا ہو اور اس دنیوی زندگی کو ایک عارضی اور ناپائیدار زندگی سمجھتا ہو جس کا آخرت پر یقین ہی نہ ہو اور وہ دنیوی زندگی ہی کو اصل زندگی سمجھے وہ کچھ بھی کہتا رہے لیکن اس کی حقیقت کو وہ نہیں پاسکتا ۔ اب آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ زکوۃ دیا گیا مال کس طرح بڑھتا ہے اور اس کی افزائش کس طرح ہوتی ہے بات واضح ہوگئی کہ ایسے مال کی افزائش اسی طرح ہوئی کہ مال ایسی جگہ محفوظ ہوگیا جس جگہ اس کا اجر ان روپوں اور نوٹوں میں نہیں دیا گیا بلکہ اس کو اس صنف مال میں مل جائے گا جس کی اس وقت اس انسان کو ضرورت ہوگی لیکن وہ ملا کس کے عوض میں ؟ ظاہر ہے کہ وہ اسی مال کے عوض میں ملا جس مال کو اس نے رضائے الہی حاصل کرنے کے لئے خرچ کیا تھا اور بلاشبہ یہی اس بات کا اصل مطلب ہے اور یہی وہ مال کا دوگنا یا زیادہ گنا ہو کر ملنے کا مطلب ہے اور بعینہ یہ مفہوم سود کے لینے دینے میں استعمال ہوتا ہے کہ جس نے سود لیا اس نے اپنے پیسے کو بڑھایا لیکن آخرت کے خسارہ کو بھی ساتھ ہی بڑھا دیا حالانکہ آخرت کا خسارہ وہ چیز ہے جس کو کوئی مال بھی پورا نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی مال اس کا عوض ہو سکتا ہے اس طرح اس نے مال کو کیا بڑھایا کہ آخرت کے خسارے کو بھی بڑھا دیا جس کو دنیا کی کوئی چیز بھی پورا نہیں کرسکتی یہی وجہ ہے کہ وہ عنداللہ نہیں بڑھتا ۔ لوگ اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور صرف دولت اور مال کی گنتی کو گنتے رہتے ہیں اس لئے یہ کم ہونا اور زیادہ ہونا ان کی سمجھ میں نہیں آتا حالانکہ اصل تجارت تو وہ ہے جس کا سارا نفع ونقصان دیکھا جائے دیکھا جائے صرف ایک طرف ہی کو ذہن میں نہ رکھا جائے ، حدیث میں آتا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) نے ایک بکری صدقہ میں تقسیم کرنا چاہی تو اس کو ذبح کیا اور تقسیم کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ اس کا ایک بازو رہ گیا باقی سب تقسیم ہوگیا ۔ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ عائشہ اس بکری کا کیا ہوا ؟ سیدہ نے صورت حال بتاتے ہوئے فرمایا کہ ایک بازو رہ گیا باقی سب ختم ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اچھا بازو تو ختم ہوگیا اور باقی سب باقی رہا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ تھی کہ جو رضائے الہی کے لئے دوسرے لوگوں میں تقسیم ہوا وہ تو عند اللہ باقی ہے اور یہ جو بازو باقی رہ گیا اس کو جب ہم کھالیں گے تو ظاہر ہے کہ یہ ختم ہوجائے گا ۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں : عن عائشۃ (رض) انھم ذبحوا شاۃ فقال البنی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ما بقی منھا ؟ قالت ما بقی منھا الا کتفھا قال بقی کلھا غیر کتفھا ۔ (ترمذی حدیث ٢٤٧٢ وسندہ صحیح) تصدقوا بھا الا کتفھا قال بقیت لنا فی الاخرۃ الا کتفھا ۔ (ریاض الصالحین مصری ص ٢٦٢) اس طرح کے اور بھی بہت سے ارشادات ہیں جن سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تفہیم کرائی ہے کہ عند اللہ بڑھنے کا اصل مطلب کیا ہے ۔ لیکن افسوس کہ ہمارے علماء کرام لوگوں کو وضاحت سے آگاہ نہیں کرتے اور لوگ صرف لفظی بحث ہی سے گھبرا کر کہہ دیتے ہیں کہ یہ ایسی ہی باتیں ہیں جو ان لوگوں نے خواہ مخواہ بنا لی ہیں ورنہ سود لینے والوں کا مال سود لینے سے زیادہ نہ ہوتا تو وہ آخر سود کیوں لیتےٓ اور زکوۃ سے اگر فی الواقع مال بڑھتا ہوتا تو زکوۃ دینے سے لوگ انکار کیوں کرتے اور جب وہ یہ بات کہتے ہیں تو ہمارے پاس ان کے لئے کفر کا فتوی موجود ہوتا ہے ہم فورا ان پر داغ دیتے ہیں اور وہ پہلے ہی کیا روٹھ چکے تھے کہ اب وہ بگڑ جائیں گے اور اس طرح دین سے وہ اس قدر دور ہوجائیں گے کہ کبھی قریب آنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوں گے لیکن بعض ایسے بھی ہوں گے جو زبان سے تو نہیں بولیں گے لیکن اندر سے نفرت کرنے لگیں گے اور نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ وہ کبھی ایک پائی بھی خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا ذہن اس فارمولے کو تسلیم ہی نہیں کرے گا ۔ رہے وہ لوگ اور مفسرین کرام جنہوں نے اس سود سے مراد تحفہ تحائف لیا ہے تو بلاشبہ ان کی تفہیم بھی بالکل صحیح ہے اور جو چیز کسی کو زیادہ طلب کرنے کے لئے دی جائے وہ تحفہ تحائف کہلا ہی نہیں سکتی بلکہ اس کو قرض مع سود سے تعبیر کیا جاتا ہے اس لئے یہ زیادہ چاہنے کے لئے دینا تحفہ کی مد میں نہیں آتا ۔ تحفہ ہدیہ کی تو تعریف ہی یہ ہے کہ وہ ایک طرفہ ہوتا ہے اور دینے والا اپنی مرضی سے دے دیتا ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہدیہ پیش کرنے والوں کو ہدیہ پیش کرنا ہی چاہئے لیکن اس میں کمی بیشی کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا یہ اپنی اپنی حالت اور گنجائش سے ہوتا ہے ۔ اس کو طلب نہیں کیا جاسکتا اور یہ رسم و رواج میں جو گن کر اور حساب کرکے لیا دیا جاتا ہے وہ تحفہ کیونکر رہ گیا ذرا غور کرو گے تو حقیقت انشاء اللہ سمجھ میں آجائے گی بشرطیکہ تم نے غور وفکر کرنے کو جائز قرار دے دیا کہیں اس کو حرام ہی نہ سمجھ رکھا ہو۔