ضیاء القرآن – پیر کرم شاہ

سورۃ البقرہ
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٧٥؁
يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ٢٧٦؁
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٢٧٧؁
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٧٨؁
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ٢٧٩؁
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٢٨٠؁
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٢٨١؁ۧ

جو لوگ کھایا کرتے ہیں سود وہ نہیں کھڑے ہوں گے مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے وہ جسے پاگل بنا دیا ہو شیطان نے چھو کر یہ حالت اس لیے ہوگی کہ وہ کہا کرتے تھے کہ سوداگری بھی سود کی مانند ہے حالانکہ حلال فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجارت کو اور حرام کیا سود کو پس جس کے پاس آئی نصیحت اپنے رب کی طرف سے تو وہ (سود سے) رک گیا تو جائز ہے اس کے لیے جو گزر چکا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو شخص پھر سود کھانے لگے تو وہ لوگ دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
مٹاتا ہے اللہ تعالیٰ سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ تعالیٰ دوست نہیں رکھتا ہر ناشکرے گنہگار کو۔
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور کرتے رہے اچھے عمل اور صحیح صحیح ادا کرتے رہے نماز کو اور دیتے رہے زکوٰۃ کو ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس نہ کوئی خوف ہے انھیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اے ایمان والو ! ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود سے اگر تم (سچے دل سے) ایمان دار ہو۔
اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اعلان جنگ سن لو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اور اگر تم توبہ کرلو تہ تمہیں (مل جائیں گے) اصل مال نہ تم ظلم کیا کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
اور اگر مقروض تنگدست ہو تو مہلت دو اسے خوشحال ہونے تک اور بخش دینا اسے (قرض) بہت بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم جانتے ہو۔
اور ڈرتے رہو اس دن سے لوٹائے جاؤگے جس میں اللہ کی طرف پھر پورا پورا دے دیا جائے گا ہر نفس کو جس اس نے کمایا ہے اور ان پر زیادتی نہ کی جائے گی۔
پہلے سخی اور کریم الطبع لوگوں کا ذکر فرمایا جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے لوگوں کی امداد کرتے ہیں اور کسی معاوضہ بلکہ شکریہ کی بھی تو قع نہیں رکھتے۔ اب ان لوگوں کا ذکر ہے جو دولت مند ہونے کے باوجود اتنے تنگ دل بلکہ سنگ دل ہیں کہ اپنے مجبور اور معذور بھائی کی ویسے امداد تو کجا، قرض بھی دیتے ہیں تو سود کا مطالبہ پہلے کرتے ہیں۔ ان آیات میں ربا (سود) کو حرام کردیا گیا۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس وقت کے اہل عرب کس چیز کو ربا کہا کرتے تھے اور اس کی کیا کیا شکلیں رائج تھیں۔ لغت عرب میں ربا کا معنی زیادتی ہے۔ اصطلاح میں اس مقررہ زیادتی کو ربا کہا جاتا تھا جو کسی رقم کی ادائیگی میں دیر کرنے پر ادا کی جاتی تھی۔ اس کی مروجہ شکلیں یہ تھیں کہ کسی نے کوئی چیز خریدی۔ قیمت اگر وہ نقد ادا نہ کرسکتا تو ایک میعاد مقرر کی جاتی۔ اگر وہ اس میعاد پر بھی قیمت ادا نہ کرسکتا تو میعاد بھی لمبی کردی جاتی اور قیمت میں بھی اضافہ کردیا جاتا۔ مثلاً دس روپیہ کی کوئی چیز لی۔ اور ایک ماہ کے بعد قیمت ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ مہینہ گزرنے کے بعد اگر اسے دس روپے میسر نہ آئے تو وہ ایک ماہ کی مزید مہلت طلب کرتا اور دس کی بجائے بارہ روپیہ ادا کرنے کا اقرار کرتا۔ ایک شکل یہ بھی تھی کہ کسی سے سوروپیہ مثلاً قرض لیا اور طے یہ پایا کہ مقروض ہر سال سو کے ساتھ دس روپیہ زائد ادا کرے گا۔ ان دونوں شکلوں کو اس وقت ربا کہا جاتا۔ یہاں ایک چیز اور تحقیق طلب ہے۔ کیا اس وقت کے لوگ صرف نجی ضروریات کے لئے ہی سودی قرض لیا کرتے تھے یا کاروبار کرنے کے لئے بھی سودی قرض کا اس وقت عام رواج تھا۔ بعض لوگ جنہیں عرب کے حالات اور رسم و رواج کے تفصیلی مطالعہ کی فرصت نہیں ملی، کہتے ہیں کہ اس وقت صرف ذاتی ضروریات کے لئے ہی قرض لیا جاتا تھا اور کاروبار کے لئے قرض لینے کا اس قدیم غیر متمدن معاشرہ میں کوئی تصور نہ تھا۔ لیکن اگر وہ دنیا کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس وقت جب کہ نہر سویز نہیں کھدی تھی جب کہ بڑے بڑے بحری جہاز معرج وجود میں نہیں آئے تھے۔ مشرق ومغرب کی تجارت خشکی کے راستہ سے ہوتی تھی۔ اور اس امر کا تذکرہ تو خود قرآن حکیم میں ہے کہ اہل مکہ کے تجارتی قافلے سردیوں میں یمن وفارس کی طرف اور گرمیوں میں شام وروم کی طرف باقاعدگی سے جاتے تھے اور یہی ان کا ذریعہ معاش تھا اور تاریخ اس پر اٹل شاہد ہے کہ جو قافلہ شام سے ابو سفیان کی قیادت میں مکہ واپس جارہا تھا جس کا مسلمانوں نے مدینہ طیبہ سے نکل کر محاصرہ کرنے کا ارادہ کیا تھا اس میں تمام اہل مکہ کا سرمایہ تھا۔ مکہ میں کوئی گھر ایسا نہ تھا جس نے اس میں اپنا حصہ نہ ڈالا ہو۔ اور حصہ کی دونوں مختلف شکلیں رائج تھیں۔ یا تو سرمایہ دینے والا نفع میں شریک ہوتا تھا یا وہ اپنا مقررہ حصہ ٹھہرا لیا کرتا خواہ قرض لینے والے کو نفع ہو یا نقصان۔ ان تاریخی حقائق کی موجودگی میں یہ فرض کرلینا کب روا ہے کہ اس وقت کے اہل عرب کاروبار کے لئے سودی قرض نہیں لیا کرتے تھے۔ قرآن نے ہر ربا کو حرام کیا۔ کہیں آپ کاروباری سود لینے کی اجازت نہیں دکھا سکتے۔
ان کلمات میں سود خوار کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے۔ فرمایا جیسے آسیب زدہ اور پاگل آدمی عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے جنہیں دیکھ کر انسان ہنسی ضبط نہیں کرسکتا اسی طرح یہ سود خوربایں حشمت وجاہ، دولت کی محبت میں یوں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اور ان سے ایسی نامعقول باتیں اور ناشائستہ حرکتیں سرزد ہوتی ہیں کہ دیکھنے والے کو گمان ہوتا ہے کہ شاید ان پر کسی چیز نے تسلط جما رکھا ہے۔ ان کی دنیاوی زندگی بھی یونہی گزرے گی اور قیامت کے روز بھی ان کا یونہی حشر ہوگا۔
سود کے جواز کے لئے جو دلیل آج پیش کی جاتی ہے بعینہ یہی استدلال چودہ صدیاں پیشتر غیر متمدن عرب کے سود خوار پیش کیا کرتے تھے۔ یعنی جب دوسری اجناس کے لین دین میں نفع حاصل کرنا درست ہے تو روپیہ جو ایک جنس ہی ہے اس کے لین دین میں اگر نفع لیا جائے تو اسے حرام کیوں قرار دیا جائے۔ اس کا جواب قرآن حکیم نے یہ دیا کہ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ بیع کو اللہ تعالیٰ نے اس کے فوائد کی وجہ سے حلال کردیا ہے اور سود کو اس کے نقصانات کی وجہ سے حرام کیا ہے۔ اس لئے ان دو چیزوں کو یکساں کیسے تصور کیا جاسکتا ہے۔ سود کی حرمت کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ لیکن جو فاضلانہ بحث حجۃ الاسلام الامام غزالی (رح) نے کی ہے اس کا جواب نہیں۔ بحث کی اہمیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ غزالی کے کلام کا پورا ترجمہ نقل کیا جائے لیکن مقام کی تنگ دامانی اس کی متحمل نہیں۔ اس لئے نہایت اختصار سے اس بحث کا ماحصل ہدیہ قارئین ہے۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں :۔
فرض کرو تمہارے پاس زعفران ہے اور ایک دوسرے شخص کے پاس اونٹ ہے۔ تم اونٹ لینا چاہتے ہو لیکن اونٹ والے کو زعفران کی ضرورت نہیں۔ اب تم اونٹ کیونکر حاصل کرسکتے ہو۔ یا تمہارے پاس کپڑے ہیں اور دوسرے شخص کے پاس کھانا ہے۔ تمہیں بھوک لگی ہے تمہیں کھانا چاہئے لیکن کھانے والے کو کپڑوں کی ضرورت نہیں۔ اب تم کھانا کیونکر خریدو گے۔ اس لئے قدرت نے ایک ایسی جنس (سونا چاندی) کی تخلیق فرما دی جس کے ذریعہ ہر شخص اپنی ضرورت کی چیز خرید سکے۔ اگر آپ ذرا سا تامل فرمائیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ سونے چاندی کی تخلیق اس حکیم ودانا رب نے اسی مقصد کے لئے فرمائی ہے۔ اور ان کا اور کوئی فائدہ نہیں۔ ایک تو یہ کمیاب ہیں دوسرا ان میں وہ صلابت اور سختی نہیں جو لوہے اور تانبہ وغیرہ میں ہے تاکہ ان کی جگہ استعمال ہو سکیں۔ اب اگر روپیہ پر سود لینے کی اجازت دی جائے تو روپیہ پھر صرف تبادلہ اشیاء کا ذریعہ نہیں رہے گا بلکہ اس کی اپنی ذات کا سب اور نفع خیز بن جائے گی اور لوگ دوسرے سامان تجارت کی طرح اس کی ذخیرہ اندوزی شروع کردیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بازار میں سے یہ غائب ہوتا چلا جائے گا۔ اور جب روپیہ بازار سے غائب ہونا شروع ہوگیا تو صنعتی ترقی رک جائے گی تجارتی سرگرمی ختم ہوجائے گی اور دوسری اشیاء کی قیمتوں میں وہ اتار چڑھاؤ شروع ہوگا جس سے سارا اقتصادی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ شریعت اسلامیہ نے ان مفاسد کے سد باب کے لئے سود کو حرام کردیا۔
افلاطون نے بھی اپنی کتاب ” السیاسۃ “ میں یہی لکھا ہے کہ روپیہ کڑک مرغی ہے جو انڈے نہیں دیتی۔
سود کی حرمت کی حقیقی وجہ سمجھ لینے کے بعد اب ہمیں یہ بھی سمجھنا ہے کہ تجارت اور سود میں کیا فرق ہے جس کی طرف قرآن کا اشارہ فرمایا ہے۔ یہ بالکل واضح فرق ہے کہ تجارت میں انسان روپیہ لگاتا ہے۔ پھر محنت کرتا ہے۔ اپنی ساری ذہنی قابلیتیں صرف کرتا ہے اور وقت خرچ کرتا ہے۔ اس کے باوجود نفع یقینی نہیں۔ اسے نفع بھی ہوسکتا ہے اور نقصان بھی۔ لیکن سود خور جو صرف اپنا فالتو روپیہ دیتا ہے۔ نہ وقت، نہ محنت نہ کاوش ! وہ یقینی نفع کا خواستگار کیوں ہو۔ اسلام نے سرمایہ دار کے لئے دو ہی راستے تجویز کئے ہیں یا تو اپنے بھائی کو اپنا زائد از ضرورت روپیہ بطور قرض حسنہ دے ورنہ کاروبار میں شریک ہوجائے اور نفع و نقصان میں حصہ دار بنے۔ اس کے لئے تیسرا کوئی راستہ نہیں۔
المحق محو الشیی والذھاب بہ کمحاق القمر۔ کسی چیز کے مٹ جانے اور غائب ہونے کو محق کہتے ہیں۔ چاند کی آخری دو تاریخوں کو محاق کہا جاتا ہے۔ کیونکہ چاند ان راتوں میں بالکل روپوش ہوجاتا ہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ قاعدہ مقرر فرما رکھا ہے کہ سود خور کو برکت نہیں ہوگی اور مال سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ نہ اس کی سوسائٹی میں کچھ عزت ہوگی نہ اس کو قلبی سکون نصیب ہوگا۔ یہ اس کی حالت دنیا میں ہوگی اور آخرت میں وہ ثواب و رضائے خداوندی سے محروم ہوگا۔
سود خور کے برعکس صدقہ و خیرات کرنے والا دنیا میں بھی باعزت زندگی بسر کرے گا اور آخرت میں بھی اجر عظیم کا مستحق ہوگا۔
سود کے اخلاقی، معاشرتی اوراقتصادی ناقابل تلافی نقصانات کے باعث اس کی حرمت کو اتنے شدید پیرائے میں بیان کیا گیا جس کی مثال نہیں۔ ارشاد ہے جو ان احکام کے بعد بھی سود لینے کی جرات کرے گا اس کے خلاف اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلان جنگ ہے۔
مکارم اخلاق کا ایک اور درس ہے۔ جو قوم ایسے ضابطہ اخلاق کی پابند ہو اس کے غریب و امیر افراد میں حسدو عناد کی آگ نہیں بھڑک سکتی۔ اور یہ خونی انقلاب روپذیر نہیں ہوسکتے جن سے آج ساری دنیا لرزہ بر اندام ہے۔ کاش مسلمان اپنے فرض کو پہچانیں اور ان اخلاقی اصولوں کو اپنانے کی کوشش کریں۔

سورہء آل عمران
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ١٣٠؁ۚ
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ١٣١؁ۚ

اے ایمان والو ! نہ کھاؤ سود دوگنا چو گنا کرکے اور ڈرتے رہو اللہ سے تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔
اور بچو آگ سے جو تیار کی گئی ہے کافروں کے لیے۔
سود اور سود کی حرمت پر مفصل بحث سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ نزول کے اعتبار سے یہ آیت سورة بقرہ کی آیات سے مقدم ہے۔ یہاں اس سودی نظام کو حرام کیا جا رہا ہے جس کا اس وقت عام رواج تھا۔ رواج یہ تھا کہ کسی نے ایک مدت مقررہ تک قرض لیا۔ جب وہ مدت ختم ہوئی اور قرض خواہ نے رقم کا مطالبہ کیا تو مقروض کہا کرتا کہ تم میعاد بڑھا دو میں رقم میں اضافہ کردیتا ہوں۔ یہ سلسلہ مدت تک جاری رہتا۔ یہاں تک کہ اصل رقم کئی گنا بڑھ جاتی۔ جسے سود در سود یا سود مرکب کہا جاتا ہے۔ اس ظالمانہ نظام کو اسلام نے ختم کردیا۔ کیونکہ اس سے اگر ایک طبقہ میں تن آسانی، حرام خوری، حرص وبخل کے جذبات پرورش پاتے ہیں تو قوم کے دوسرے طبقہ میں حسد وعناد اور منافرت کی تخم ریزی ہوتی ہے۔ وہ امت جسے دنیا میں تبلیغ توحید و ہدایت کا ایک عظیم المرتبت مشن سر انجام دینا ہو اس میں ایسے عناصر کو کب برداشت کیا جاسکتا ہے جو ملی وحدت کو پارہ پارہ کردیں۔ اس لئے اگلی آیتوں میں یہاں تک فرما دیا کہ اگر تم نے اس سودی کا روبار کو نہ چھوڑا تو اس عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے جو کفار کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
بیشتر افراد اور قومیں اپنی فلاح و کامرانی کو دولت کی فراوانی میں مضمر سمجھتی ہیں اور اس کے حصول کے لئے جائز وناجائز، حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر کوشاں رہتی ہیں۔ مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ دوسروں کی طرح تم بھی اس فریب میں مبتلا نہ ہوجانا۔ حقیقی فلاح متقی بننے سے نصیب ہوتی ہے۔

سورۃالنساء
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا ١٦٠؀ۙ
وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ١٦١؁

سو بوجہ ظلم ڈھائے یہود کے ہم نے حرام کردیں ان پر وہ پاکیزہ چیزیں جو حلال کی گئی تھیں ان کے لیے اور بوجہ روکنے یہود کے اللہ کے راستے سے بہت لوگوں کو۔
اور بوجہ ان کے سود لینے کے حالانکہ منع کیے گئے تھے اس سے اور بوجہ ان کے کھانے کے لوگون کے مال ناحق ار تیار کر رکھا ہے ہم نے کافروں کے لیے ان میں سے عذاب دردناک۔
اور بوجہ ان کے سود لینے کے حالانکہ منع کیے گئے تھے اس سے اور بوجہ ان کے کھانے کے لوگون کے مال ناحق اور تیار کر رکھا ہے ہم نے کافروں کے لیے ان میں سے عذاب دردناک۔

فبما نقضہم کا بدل ہے۔ ابھی ذکر یہود کی نافرمانیوں کا چلا آرہا ہے انہیں عصیاں شعاریوں کے باعث اللہ تعالیٰ نے کئی ایک حلال و پاکیزہ اشیا کو بطور سزا ان پر حرام فرمایا۔
یہ کوئی معمولی جرم نہیں کہ انسان خود اطاعت خداوندی سے محروم رہے لیکن جو شخص دوسروں کے لئے ہدایت کا راستہ بند کرتا ہے اور دعوت حق قبول کرنے سے روکتا ہے اس سے بڑھ کر اور کون مجرم ہوگا۔ دین سے روکنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ انسان زبان اور قوت سے لوگوں کو سچا دین قبول کرنے سے روکے۔ اس کے علاوہ ایک دوسری صورت بھی ہے جو زیادہ خطرناک ہے وہ یہ کہ انسان دین حق کو قبول تو کرلے لیکن اس کے احکام، اس کے ضابطہ اخلاق اور اس کے قواعد معاشرت وغیرہ پر عمل کر کے اپنی حالت کو نہ سنوارے تو دوسری قومیں خود بخود اس دین سے متنفر ہوجائیں گی کہ جب اس کے قدیم ماننے والے کسی حیثیت سے بھی دوسری قوموں سے بلند اور بہتر نہیں تو پھر اس دین کو کیوں قبول کیا جائے۔ کیا ہم مسلمان کہلانے والے اپنی زشتی اعمال سے دوسری قوموں کے لئے اسلام قبول کرنے میں حجاب اور رکاوٹ تو نہیں ؟ یہ غور طلب مسئلہ ہے۔
اگرچہ آج یہود دنیا میں سب سے بڑی سود خور قوم ہے اور دولت جمع کرنے میں ہر حیلہ و فریب سے کام لینے میں ضرب المثل ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے دین نے ان کو ایسے قبائح کی اجازت دی۔ اس لئے قرآن نے بتایا کہ ان باتوں سے انہیں منع کیا گیا تھا لیکن باز نہ آئے۔ ان کی تورات میں اب بھی ایسی واضح آیات موجود ہیں جن میں انہیں سود لینے سے روکا گیا ہے۔ ” اگر تو میرے لوگوں میں سے کسی محتاج کو جو تیرے پاس رہتا ہو کچھ قرض دے تو اس سے قرض خواہ کی طرح سلوک نہ کرنا اور نہ اس سے سود لینا۔ (خروج 22: 25) ۔

سورۃالروم
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ 39؀

اور جو روپیہ تم دیتے ہو بیاج پر تاکہ وہ بڑھتا رہے لوگوں کے مالوں میں (سُن لو ! ) اللہ کے نزدیک یہ نہیں بڑھتا اور جو زکوٰۃ تم دیتے ہو رضائے الہی کے طلبگار بن کر پس یہی لوگ ہیں (جو اپنے مالوں کو) کئی گنا کرلیتے ہیں
اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ ” ربا “ سے مراد یہاں اس کا مشہور معنی سود ہے اور حرمت سود کا حکم جو بڑی وضاحت سے مدینہ طیبہ میں ہجرت کے بعد نازل ہوا۔ اس آیت میں اس حکم کی طرف پہلا قدم ہے۔ قرآن کریم کا یہ دستور ہے کہ وہ برائی جس کی جڑیں اس معاشرہ میں بڑی گہری چلی گئی ہوں۔ اس کی حر مت کا یک لخت حکم نہیں دے دیا جاتا بلکہ تدریجی احکام سے پہلے ایسی فضا تیار کی جاتی ہے کہ لوگوں کی وابستگی اس سے ختم ہوجائے۔ اور اس سے نفرت کے جذبات پیدا ہوجائیں، پھر اس کی حرمت کا قطعی حکم صادر فرمایا جاتا ہے جس طرح شراب وغیرہ کے احکام میں آپ ملا خطہ فرماچکے ہیں۔ سود عرب کے جاہلی معا شرہ میں مرذج تھا اور لوگ اپنی نجی اور کاروباری ضروریات کے لیے سودی قرض مکہ کے بڑے بڑے ساہوکاروں سے لیا کرتے تھے اس آیت میں سود کے متعلق اس تصور کا بطلان کیا کہ اس سے مال بڑھتا ہے اور دولت میں زیادتی ہوتی ہے، بتادیا کہ سودی کاروبار سے مال و دولت میں اضافہ نہیں ہوتا اور نہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دیتا ہے بلکہ جو لوگ محض رضائے الٰہی کے لیے صدقہ خیرات کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہی اپنی برکتوں سے مالامال فرما دیتا ہے۔
اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ تحفے اس لیے دیتے ہیں کہ تحفہ لینے والا اس سے کئی گنا زیادہ اس کے بدلے میں انہیں تحفہ دے۔ اگرچہ ایسا کرنا حرام نہیں لیکن معیوب ضرور ہے۔ فرمادیا کہ ایسے تحفے دینے سے مال میں برکت نہیں ہوتی۔