Jamy Tirmizi

جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 646 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ الصَّدَقَةَ وَيَأْخُذُهَا بِيَمِينِهِ فَيُرَبِّيهَا لِأَحَدِکُمْ کَمَا يُرَبِّي أَحَدُکُمْ مُهْرَهُ حَتَّی إِنَّ اللُّقْمَةَ لَتَصِيرُ مِثْلَ أُحُدٍ وَتَصْدِيقُ ذَلِکَ فِي کِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا وَقَدْ قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَمَا يُشْبِهُ هَذَا مِنْ الرِّوَايَاتِ مِنْ الصِّفَاتِ وَنُزُولِ الرَّبِّ تَبَارَکَ وَتَعَالَی کُلَّ لَيْلَةٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْيَا قَالُوا قَدْ تَثْبُتُ الرِّوَايَاتُ فِي هَذَا وَيُؤْمَنُ بِهَا وَلَا يُتَوَهَّمُ وَلَا يُقَالُ کَيْفَ هَکَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِکٍ وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّهُمْ قَالُوا فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ أَمِرُّوهَا بِلَا کَيْفٍ وَهَکَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ وَأَمَّا الْجَهْمِيَّةُ فَأَنْکَرَتْ هَذِهِ الرِّوَايَاتِ وَقَالُوا هَذَا تَشْبِيهٌ وَقَدْ ذَکَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ کِتَابهِ الْيَدَ وَالسَّمْعَ وَالْبَصَرَ فَتَأَوَّلَتْ الْجَهْمِيَّةُ هَذِهِ الْآيَاتِ فَفَسَّرُوهَا عَلَی غَيْرِ مَا فَسَّرَ أَهْلُ الْعِلْمِ وَقَالُوا إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَخْلُقْ آدَمَ بِيَدِهِ وَقَالُوا إِنَّ مَعْنَی الْيَدِ هَاهُنَا الْقُوَّةُ و قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ إِنَّمَا يَکُونُ التَّشْبِيهُ إِذَا قَالَ يَدٌ کَيَدٍ أَوْ مِثْلُ يَدٍ أَوْ سَمْعٌ کَسَمْعٍ أَوْ مِثْلُ سَمْعٍ فَإِذَا قَالَ سَمْعٌ کَسَمْعٍ أَوْ مِثْلُ سَمْعٍ فَهَذَا التَّشْبِيهُ وَأَمَّا إِذَا قَالَ کَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَی يَدٌ وَسَمْعٌ وَبَصَرٌ وَلَا يَقُولُ کَيْفَ وَلَا يَقُولُ مِثْلُ سَمْعٍ وَلَا کَسَمْعٍ فَهَذَا لَا يَکُونُ تَشْبِيهًا وَهُوَ کَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَی فِي کِتَابهِ لَيْسَ کَمِثْلِهِ شَيْئٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ صدقہ قبول کرتا ہے اور اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتا ہے اور اسے پالتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ لقمہ احد پہاڑ کے مثل ہوجاتا ہے۔ اس کی تصدیق اللہ کی کتاب (قرآن) سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ألم يعلموا أن اللہ هو يقبل التوبة عن عباده ويأخذ الصدقات»
” کیا انہیں نہیں معلوم کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے ” اور «‏ (يمحق اللہ الربا ويربي الصدقات‏» ” اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے “۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ١- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢- نیز عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح روایت کی ہے، ٣- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں نے اس حدیث کے بارے میں اور اس جیسی صفات کی دوسری روایات کے بارے میں اور باری تعالیٰ کے ہر رات آسمان دنیا پر اترنے کے بارے میں کہا ہے کہ ” اس سلسلے کی روایات ثابت ہیں، ان پر ایمان لایا جائے، ان میں کسی قسم کا وہم نہ کیا جائے گا، اور نہ اس کی کیفیت پوچھی جائے۔ اور اسی طرح مالک، سفیان بن عیینہ اور عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے، ان لوگوں نے ان احادیث کے بارے میں کہا ہے کہ ان حدیثوں کو بلا کیفیت جاری کرو ١ ؎ اسی طرح کا قول اہل سنت و الجماعت کے اہل علم کا ہے، البتہ جہمیہ نے ان روایات کا انکار کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ان سے تشبیہ لازم آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے کئی مقامات پر ” ہاتھ، کان، آنکھ ” کا ذکر کیا ہے۔ جہمیہ نے ان آیات کی تاویل کی ہے اور ان کی ایسی تشریح کی ہے جو اہل علم کی تفسیر کے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا، دراصل ہاتھ کے معنی یہاں قوت کے ہیں۔ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں : تشبیہ تو تب ہوگی جب کوئی کہے : «يد كيد أو مثل يد» یا «سمع کسمع أو مثل سمع» ” یعنی اللہ کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کی طرح ہے، یا ہمارے ہاتھ کے مانند ہے، اس کا کان ہمارے کان کی طرح ہے یا ہمارے کان کے مانند ہے ” تو یہ تشیبہ ہوئی۔ (نہ کہ صرف یہ کہنا کہ اللہ کا ہاتھ ہے، اس سے تشبیہ لازم نہیں آتی) اور جب کوئی کہے جیسے اللہ نے کہا ہے کہ اس کے ہاتھ کان اور آنکھ ہے اور یہ نہ کہے کہ وہ کیسے ہیں اور نہ یہ کہے کہ فلاں کے کان کی مانند یا فلاں کے کان کی طرح ہے تو یہ تشبیہ نہیں ہوئی، یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا : «ليس کمثله شيئ وهو السميع البصير» ” اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سمیع ہے بصیر ہے “۔ تخریج دارالدعوہ : تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف : ١٤٢٨٧) ، وانظر : مسند احمد (٢/٢٦٨، ٤٠٤) (منکر) (” و تصدیق ذلک “ کے لفظ سے منکر ہے، عباد بن منصور اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے اور دوسرے کی روایتوں میں اس اضافہ کا تذکرہ نہیں ہے، یعنی اس اضافہ کے بغیر حدیث صحیح ہے)
وضاحت : ١ ؎ : یعنی ان پر ایمان لاؤ اور ان کی کیفیت کے بارے میں گفتگو نہ کرو۔ یہاں آج کل کے صوفیاء و مبتدعین کے عقائد کا بھی رد ہوا ، یہ لوگ سلف صالحین کے برعکس اللہ کی صفات کی تاویل اور کیفیت بیان کرتے ہیں۔

Sayyidina Abu Hurayrah (RA) narrated that Allah’s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, “Surely Allah accepts sadaqah and causes it to grow for one of you just as one of you looks after his colt till the morsels grow like (mount) Uhud. The confirmation for it is found in the Book of Allah, the Glorious, the Majestic:

And He is (Allah) Who accepts repentance from His servants. (42 : 25) and take the alms (9 : 104)

Allah blots out usury and augments charity (2 :276)

جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1220 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَکَاتِبَهُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَأَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے ١ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ١ – عبداللہ بن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے، ٢ – اس باب میں عمر، علی، جابر اور ابوجحیفہ (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ : سنن ابی داود/ البیوع ٤ (٣٣٣٣) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ٥٨ (٢٢٧٧) ، (تحفة الأشراف : ٩٣٥٦) ، مسند احمد (١/٣٩٩٣، ٤٠٢) (صحیح )
وضاحت : ١ ؎ : اس سے سود کی حرمت سے شدت ظاہر ہوتی ہے کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ گواہوں اور معاہدہ لکھنے والوں پر بھی لعنت بھیجی گئی ہے ، حالانکہ مؤخرالذ کر دونوں حضرات کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ، لیکن صرف یک گو نہ تعاون کی وجہ سے ہی ان کو بھی ملعون قرار دے دیا گیا ، گویا سودی معاملے میں کسی قسم کا تعاون بھی لعنت اور غضب الٰہی کا باعث ہے کیونکہ سود کی بنیاد خود غرضی ، دوسروں کے استحصال اور ظلم پر قائم ہوتی ہے اور اسلام ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد بھائی چارہ ، اخوت ہمدردی ، ایثار اور قربانی پر ہو۔

Sayyidina Ibn Mas’ud (RA) reported that Allah’s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) cursed the receiver of interest, its payer, the witnesses (to the deal) and the scribe who writes it down.

[Ahmed 3737, Abu Dawud 3333, Ibn e Majah 2777]

جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 1260 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ أَنَّهُ قَالَ أَقْبَلْتُ أَقُولُ مَنْ يَصْطَرِفُ الدَّرَاهِمَ فَقَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَرِنَا ذَهَبَکَ ثُمَّ ائْتِنَا إِذَا جَائَ خَادِمُنَا نُعْطِکَ وَرِقَکَ فَقَالَ عُمَرُ کَلَّا وَاللَّهِ لَتُعْطِيَنَّهُ وَرِقَهُ أَوْ لَتَرُدَّنَّ إِلَيْهِ ذَهَبَهُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَرِقُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَمَعْنَی قَوْلِهِ إِلَّا هَائَ وَهَائَ يَقُولُ يَدًا بِيَدٍ

مالک بن اوس بن حدثان (رض) کہتے ہیں کہ میں (بازار میں) یہ کہتے ہوئے آیا : درہموں کو (دینار وغیرہ سے) کون بدلے گا ؟ تو طلحہ بن عبیداللہ (رض) نے کہا اور وہ عمر بن خطاب (رض) کے پاس تھے : ہمیں اپنا سونا دکھاؤ، اور جب ہمارا خادم آ جائے تو ہمارے پاس آ جاؤ ہم (اس کے بدلے) تمہیں چاندی دے دیں گے۔ (یہ سن کر) عمر (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا تم اسے چاندی ہی دو ورنہ اس کا سونا ہی لوٹا دو ، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ” سونے کے بدلے چاندی لینا سود ہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو ، دوسرے ہاتھ سے لو ١ ؎، گیہوں کے بدلے گیہوں لینا سود ہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو ، دوسرے ہاتھ سے لو، جو کے بدلے جو لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو ، دوسرے ہاتھ سے لو، اور کھجور کے بدلے کھجور لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو ، دوسرے ہاتھ سے لو “۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ١ – یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ – اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ «إلاھاء وھاء» کا مفہوم ہے نقدا نقد۔ تخریج دارالدعوہ : صحیح البخاری/البیوع ٥٤ (٢١٣٤) ، و ٧٤ (٢١٧٠) ، و ٧٦ (٢١٧٤) ، صحیح مسلم/المساقاة (البیوع ٣٧) ، (١٥٨٦) ، سنن ابی داود/ البیوع ٣٣٤٨) ، سنن النسائی/البیوع ١٧ (٣٨) ، (تحفة الأشراف : ١٠٦٣٠) ، مسند احمد (١/٢٤، ٢٥، ٤٥) ، سنن الدارمی/البیوع ٤١ (٢٦٢٠) (صحیح ) وضاحت : ١ ؎ : چاندی کے بدلے سونا ، اور سونا کے بدلے چاندی کم و بیش کر کے بیچنا جائز تو ہے ، مگر نقدا نقد اس حدیث کا یہی مطلب ہے ، نہ یہ کہ سونا کے بدلے چاندی کم و بیش کر کے نہیں بیچ سکتے ، دیکھئیے حدیث (رقم ١٢٤٠ ) ۔

Maalik ibn Aws ibn Hadathan (RA) narrated: I advanced (into the market) saying, “Who will exchange my dinars for dirhams?” Talhah ibn Ubaydullah who was sitting by Umar ibn Khattab said (to me), “Show me your gold and come back (after a while) when my servant comes and I will pay you by silver.” Umar ibn Khattab exclaimed, “Certainly not! By Allah, you will pay him the dirham (now) or return to him his gold. For, Allah’s Messenger said, ‘Silver for gold is interest unless it is prompt and on spot (payment), and wheat for wheat is interest unless it is prompt and on spot (payment), and barley for barley is interest unless it is prompt and spot (payment), and dates for dates is interest unless it is prompt and spot (payment)’.”

[Bukhari 1081, Muslim 1586]

جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 644 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ وَأَبُو أُسَامَةَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ قَالَ يَهُودِيٌّ لِصَاحِبِهِ اذْهَبْ بِنَا إِلَی هَذَا النَّبِيِّ فَقَالَ صَاحِبُهُ لَا تَقُلْ نَبِيٌّ إِنَّهُ لَوْ سَمِعَکَ کَانَ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ فَأَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَاهُ عَنْ تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَقَالَ لَهُمْ لَا تُشْرِکُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيئٍ إِلَی ذِي سُلْطَانٍ لِيَقْتُلَهُ وَلَا تَسْحَرُوا وَلَا تَأْکُلُوا الرِّبَا وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً وَلَا تُوَلُّوا الْفِرَارَ يَوْمَ الزَّحْفِ وَعَلَيْکُمْ خَاصَّةً الْيَهُودَ أَنْ لَا تَعْتَدُوا فِي السَّبْتِ قَالَ فَقَبَّلُوا يَدَهُ وَرِجْلَهُ فَقَالَا نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ قَالَ فَمَا يَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِي قَالُوا إِنَّ دَاوُدَ دَعَا رَبَّهُ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ تَبِعْنَاکَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ وَفِي الْبَاب عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ وَابْنِ عُمَرَ وَکَعْبِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا : چلو اس نبی کے پاس لے چلتے ہیں۔ اس کے ساتھی نے کہا ” نبی ” نہ کہو۔ ورنہ اگر انہوں نے سن لیا تو ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی، پھر وہ دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، اور آپ سے (موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئیں) نو کھلی ہوئی نشانیوں کے متعلق پوچھا۔ آپ نے ان سے کہا ( ١ ) کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ ( ٢ ) چوری نہ کرو ( ٣ ) زنا نہ کرو ( ٤ ) ناحق کسی کو قتل نہ کرو ( ٥ ) کسی بےگناہ کو حاکم کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے ( ٦ ) جادو نہ کرو ( ٧ ) سود مت کھاؤ ( ٨ ) پارسا عورت پر زنا کی تہمت مت لگاؤ ( ٩ ) اور دشمن سے مقابلے کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ اور خاص تم یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ «سبت» (سنیچر) کے سلسلے میں حد سے آگے نہ بڑھو، (آپ کا جواب سن کر) انہوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا : ” پھر تمہیں میری پیروی کرنے سے کیا چیز روکتی ہے ؟ ” انہوں نے کہا : داود (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نبی رہے۔ اس لیے ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع (پیروی) کی تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ١ – یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ – اس باب میں یزید بن اسود، ابن عمر اور کعب بن مالک (رض) سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج دارالدعوہ : سنن ابن ماجہ/الأدب ١٦ (٣٧٠٥) ، وأعادہ المؤلف في التفسیر (٣١٤٤) والنسائی فی الکبری فی السیر (٨٦٥٦) وفی المحاربة (٣٥٤١) (تحفة الأشراف : ٤٩٥١) وأحمد (٤/٢٣٩) (ضعیف) (سند میں ” عبد اللہ بن سلمہ “ مختلط ہوگئے تھے )

Sayyidina Saf wan ibn Assal (RA) reported that a Jew said to his friend that he should accompany him to the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) His friend said, “Do not call him a Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) because if he hears that, he would be overjoyed.” They met the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and asked him about the nine clear signs. So, he said, to them (that they are): Do not associate anything with Allah, Do not steal Do not kill anyone whom Allah has made sacred except when that is rightful Do not take an innocent man to the ruler that he may slay him. Do not practice magic. Do not devour interest. Do not accuse an innocent woman of indecency. Do not flee on the day of the battle. And particularly for you, O Jews do not transgress in the matter of Sabath (sabt).” They kissed his hands and his feet and said, “We bear witness that you are a Prophet.” He asked. “Then what pervents you from following me”? They said, “Dawood had prayed that Prophets should not cease to come from his progeny and we fear that if we follow you then the Jews will kill us.”

[Nisai 4089, Ibn e Majah 3705,Ahmed 18114]

جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1029 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ حَدَّثَنَا أَبِي أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ وَذَکَّرَ وَوَعَظَ ثُمَّ قَالَ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ قَالَ فَقَالَ النَّاسُ يَوْمُ الْحَجِّ الْأَکْبَرِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَإِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا فِي بَلَدِکُمْ هَذَا فِي شَهْرِکُمْ هَذَا أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَی نَفْسِهِ وَلَا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَی وَلَدِهِ وَلَا وَلَدٌ عَلَی وَالِدِهِ أَلَا إِنَّ الْمُسْلِمَ أَخُو الْمُسْلِمِ فَلَيْسَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ مِنْ أَخِيهِ شَيْئٌ إِلَّا مَا أَحَلَّ مِنْ نَفْسِهِ أَلَا وَإِنَّ کُلَّ رِبًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ لَکُمْ رُئُوسُ أَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ غَيْرَ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ کُلُّهُ أَلَا وَإِنَّ کُلَّ دَمٍ کَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ دَمٍ وُضِعَ مِنْ دِمَائِ الْجَاهِلِيَّةِ دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ کَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي لَيْثٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ خَيْرًا فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٍ عِنْدَکُمْ لَيْسَ تَمْلِکُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِکَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا أَلَا إِنَّ لَکُمْ عَلَی نِسَائِکُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِکُمْ عَلَيْکُمْ حَقًّا فَأَمَّا حَقُّکُمْ عَلَی نِسَائِکُمْ فَلَا يُوطِئْنَ فُرُشَکُمْ مَنْ تَکْرَهُونَ وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِکُمْ لِمَنْ تَکْرَهُونَ أَلَا وَإِنَّ حَقَّهُنَّ عَلَيْکُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي کِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ

سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ موجود تھے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی، اور وعظ و نصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا : ” کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس والا ہے ؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس ہے ؟ کون سا دن سب سے زیادہ حرمت و تقدس والا ہے ؟ ” لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! حج اکبر کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا : ” تمہارا خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں سب تم پر حرام ہیں جیسے کہ تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے، تمہارے اس شہر میں تمہارے اس مہینے میں، سن لو ! کوئی انسان کوئی جرم نہیں کرے گا مگر اس کا وبال اسی پر آئے گا، کوئی باپ قصور نہیں کرے گا کہ جس کی سزا اس کے بیٹے کو ملے۔ اور نہ ہی کوئی بیٹا کوئی قصور کرے گا کہ اس کی سزا اس کے باپ کو ملے۔ آگاہ رہو ! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں ہے سوائے اس چیز کے جو اسے اس کا بھائی خود سے دیدے۔ سن لو ! جاہلیت کا ہر سود باطل ہے تم صرف اپنا اصل مال (اصل پونجی) لے سکتے ہو، نہ تم کسی پر ظلم و زیادتی کرو گے اور نہ تمہارے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی۔ سوائے عباس بن عبدالمطلب کے سود کے کہ اس کا سارا کا سارا معاف ہے۔ خبردار ! جاہلیت کا ہر خون ختم کردیا گیا ہے ١ ؎ اور جاہلیت میں ہوئے خونوں میں سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب کا خون ہے، وہ قبیلہ بنی لیث میں دودھ پیتے تھے، تو انہیں قبیلہ ہذیل نے قتل کردیا تھا، سنو ! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک (و برتاؤ) کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے پاس بےکس و لاچار بن کر ہیں اور تم اس کے سوا ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو، مگر یہ کہ وہ کوئی کھلی ہوئی بدکاری کر بیٹھیں، اگر وہ کوئی قبیح گناہ کر بیٹھیں تو ان کے بستر الگ کر دو اور انہیں مارو مگر ایسی مار نہ لگاؤ کہ ان کی ہڈی پسلی توڑ بیٹھو، پھر اگر وہ تمہارے کہے میں آ جائیں تو ان پر ظلم و زیادتی کے راستے نہ ڈھونڈو، خبردار ہوجاؤ! تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں، اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں، تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ جنہیں تم ناپسند کرتے ہو انہیں وہ تمہارے بستروں پر نہ آنے دیں، اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں میں آنے کی اجازت دیں جنہیں تم برا جانتے ہو، اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انہیں اچھا پہناؤ اور اچھا کھلاؤ”۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ١ – یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ – اسے ابوالا ٔحوص نے شبیب بن غرقدہ سے روایت کیا ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢١٥٩ (حسن ) وضاحت : ١ ؎ : یعنی معاف کردیا گیا ہے ، اب جاہلیت کے کسی خون کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔

Sayyidina Amr ibn Ahwas (RA) narrated: I was with Allah’s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) during the farewell pilgrimage. He praised and glorified Allah, gave advice and delivered the sermon, asking, “Which day is it that I declare sacred?” He asked this thrice. The people responded, “The day of Hajj Akbar (great pilgrimage), O Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .” He said, “Your blood, your property and your honour are sacred to all of you as the sanctity of this your day in this your city in this your month. Know that a soul commits offence only against himself. No father commits a crime calling for punishment on the son and no son commits a crime for which his father is punished. Know that a Muslim is a brother of another Muslim , so nothing of his brother is lawful to a Muslim save what he makes lawful. Know, all interest of the jahiliyah is written off, for you is only the principal amount. Do not wrong anyone, nor should you be wronged. And the interest of Abbas ibn Abdul Muttalib is abolished, all of it. Know that all blood of the jahiliyah is abolished, and the first blood that I abolish of the blood of jahiliyah is the blood of Harith ibn Abdul MuttalibO who was suckled among the Banu Layth, Hudayl having killed him. Know that I instruct you about women be good to them, for, they are with you under Allah’s security. You own nothing of them save that if they commit open indecency. If they do that then separate them from your bed and beat them lightly. And if they obey you then do not seek pretext against them. Know that you have right over your women and your women have right over you. As for your right over your women, it is that they should not allow those people to come near your bed whom you dislike and allow no one in your house whom you dislike. And know that their right over you is that you be good to them in regard to their clothing and their food.”

[Bukhari 4406,Abu Dawud 3334, Ibn e Majah 3055,Ahmed 15507]

جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1089 حدیث مرفوع
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَأَبُو الْوَلِيدِ وَاللَّفْظُ لَفْظُ يَزِيدَ وَالْمَعْنَی وَاحِدٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَنَّ يَهُودِيَّيْنِ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ اذْهَبْ بِنَا إِلَی هَذَا النَّبِيِّ نَسْأَلُهُ فَقَالَ لَا تَقُلْ نَبِيٌّ فَإِنَّهُ إِنْ سَمِعَهَا تَقُولُ نَبِيٌّ کَانَتْ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَاهُ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَی تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُشْرِکُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَسْحَرُوا وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيئٍ إِلَی سُلْطَانٍ فَيَقْتُلَهُ وَلَا تَأْکُلُوا الرِّبَا وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً وَلَا تَفِرُّوا مِنْ الزَّحْفِ شَکَّ شُعْبَةُ وَعَلَيْکُمْ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ خَاصَّةً لَا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ فَقَبَّلَا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ وَقَالَا نَشْهَدُ أَنَّکَ نَبِيٌّ قَالَ فَمَا يَمْنَعُکُمَا أَنْ تُسْلِمَا قَالَا إِنَّ دَاوُدَ دَعَا اللَّهَ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ أَسْلَمْنَا أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

صفوان بن عسال (رض) سے روایت ہے کہ یہود میں سے ایک یہودی نے دوسرے یہودی سے کہا : اس نبی کے پاس مجھے لے چلو، ہم چل کر ان سے (کچھ) پوچھتے ہیں، دوسرے نے کہا : انہیں نبی نہ کہو، اگر انہوں نے سن لیا کہ تم انہیں نبی کہتے ہو تو (مارے خوشی کے) ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی۔ پھر وہ دونوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول «ولقد آتينا موسیٰ تسع آيات بينات» ” ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دیں ” (اسرائیل : ١٠١) ، کے بارے میں پوچھا کہ وہ نو نشانیاں کیا تھیں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، زنا نہ کرو، ناحق کسی شخص کا قتل نہ کرو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو، کسی بری (بےگناہ) شخص کو (مجرم بنا کر) بادشاہ کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے، سود نہ کھاؤ، کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت نہ لگاؤ، دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے بڑے لشکر سے نکل کر نہ بھاگو “۔ شعبہ کو شک ہوگیا ہے (کہ آپ نے نویں چیز یہ فرمائی ہے) اور تم خاص یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ ہفتے کے دن میں زیادتی (الٹ پھیر) نہ کرو، (یہ جواب سن کر) ان دونوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا : ” پھر تمہیں اسلام قبول کرلینے سے کیا چیز روک رہی ہے ؟ ” دونوں نے جواب دیا داود (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی نبی ہوگا (اور آپ ان کی ذریت میں سے نہیں ہیں) اب ہمیں ڈر ہے کہ ہم اگر آپ پر ایمان لے آتے ہیں تو ہمیں یہود قتل نہ کردیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج دارالدعوہ : انظر حدیث رقم ٢٧٣٣، سنن ابن ماجہ/الأدب ١٦ (٣٧٠٥) ، والنسائی فی الکبری فی السیر (٨٦٥٦) وفی المحاربة (٣٥٤١) (تحفة الأشراف : ٤٩٥١) وقد أخرجہ : مسند احمد (٤/٢٣٩) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن سلمہ صدوق ہیں، لیکن حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی)

Sayyidina Safwan ibn Assal al-Muradi reported that of two Jews one said to the other, “Come let us go to this Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that we may question him.” The other said, “Do not call him a Prophet, for, if he hears you say Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) he will be overjoyed.’ So they came to him and asked him about the words of Allah the Exalted: “And certainly we gave Musa nine manifest signs.” (17:101)

He said that they were: (1) Associate nothing with Allah, (2) Do not commit fornication, (3) Do not unjustly take the life of one whose killing has been forbidden by Allah, (4) Do not steal, (5) Do not practice magic, (6) Do not take an innocent to the king with false charges) that he might execute him, (7) Do not devour interest, (8) Do not accuse a chaste woman falsely of fornication, (9) And, do not desert the battlefield.

Shu’bah was unsure if this was included: And particularly for you, O Jews, that you do not contravene (the injunctions on) the Sabbath (Saturday). So, they kissed his hand and his feet, saying, “We bear testimony that you are a Prophet. He asked. ‘Then what prevents you from submitting (in Isaim)?” They said, ‘Dawood had prayed that Prophets should not cease to come in his offspring and we fear that if we submit the Jews will kill us.’

[Ahmed 18814]