سید قطب شہید

سورۃ البقرہ
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٧٥؁
يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ٢٧٦؁
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٢٧٧؁
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٧٨؁
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ٢٧٩؁
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٢٨٠؁
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٢٨١؁ۧ

جو لوگ سود کا مال کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھوکر باؤلا کردیا ہو اور اس کی حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں : تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے “ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے ۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت آپہنچے اور آئندہ وہ سود خواری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا ، سو کھاچکا اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے ، وہ جہنمی ہے ، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا ۔
اللہ سود کا مٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔
جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ، ان کا اجر بیشک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقعہ نہیں ہے ۔
اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے ، اسے چھوڑ دو ، اگر وقعی تم ایمان لائے ہو ۔
لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے ۔ اب بھی توبہ کرلو اور سود چھوڑدو تو اپنا اصل سرمایہ تم لینے کے حق دار ہو نہ تم ظلم کرو ، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو اور جو صدقہ کردو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو ۔
اس دن کی رسوائی اور مصیبت سے بچو ، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہوگے ۔ وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہوگا۔
اسلامی نظام زندگی میں انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ کا دستور اور طریقہ بیان کیا گیا تھا۔ یہاں انفاق اور صدقے کا عین صفحہ بالمقابل الٹا جاتا ہے ۔ یعنی نظام ربا اور اس کے ظالمانہ اور سیاکارانہ نتائج صدقہ میں تو داد وہش ، احسان و پاکیزگی ہے اور طہارت وجوانمردی ہے ۔ باہم تعاون اور تکافل ہے ۔ جبکہ سود خوری میں بخل اور کنجوسی ، گندگی اور نجاست ، خود غرضی اور ذاتی مفاد ہے ۔
صدقہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں دنیا میں مال کو ترک کرلیا جاتا ہے ۔ اور بظاہر اس کا کوئی عوض یا بدلہ نہیں لیا جاتا اور ربا کا خلاصہ یہ ہے قرض روپیہ واپس لینے کے ساتھ ساتھ سود خور کچھ زیادہ بھی وصول کرتا ہے ۔ یہ زائد دولت مدیون کی محنت یا اس کے گوشت اور خون سے لی جاتی ہے ۔ محنت سے اس صورت میں جب مدیوں نے مال لیا ، اس کے ساتھ محنت کی اور اس کی محنت کے نتیجے میں اسے منافع حاصل ہوا ۔ اس صورت میں تو زائد دولت محنت کا حصہ ہوگی لیکن اگر اسے منافع نہ ہوا یا اسے خسارہ ہوگیا تو اس صورت میں اس کے خون پسینہ کا حصہ ہوگی ۔ یا مثلاً قرض اس نے ذاتی اخراجات یا اپنے خاندان کے ضروری اخراجات کے لئے لیا ہو اور اسے نفع بخش کاروبار میں لگایا ہی نہ ہو تو اس صورت میں بھی سود کی رقم گویا ، اس شخص کی ذات سے وصول ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ اگر صدقہ روشن صفحہ ہے تو ربا اس کے بالمقابل ایک تاریک صفحہ ہے ۔ انفاق کرنے والے کا چہرہ اگر روشن ہے تو سود خور کا چہرہ تاریک اور سیاہ ہے ۔ اس لئے کہ اس حسین و جمیل اور پاک وصاف اور رحیم وکریم چہرے کے بیان کے متصلاً بعد سود خور کے بدنما چہرے کو بھی پیش کردیا گیا ۔ اس چہرے کو ایسے انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ جس سے سودی کاروبار کی تمام اندرونی برائیاں اور قباحتیں اس چہرے سے عیاں ہوگئیں ، افراد کا سنگدلانہ طرز عمل ، ناداروں کی ہلاکت اور معاشرہ میں اس سودی نظام سے پیدا ہونے والی تمام برائیاں اور فسادات ظاہر ہوگئے۔
اسلام نے دورجاہلیت کی تمام برائیوں کو ختم کیا ، لیکن اسلام نے جس قدر مذمت سودخوری کی کی ہے ، اس قدر مذمت کسی دوسری برائی کی نہیں کی ہے ۔ نیز اسلام نے سود خوری کے خلاف جس طرح لفظی اور معنوی دھمکی دی ہے ، اس قدر کسی بھی دوسری برائی کے ارتکاب کرنے والے کو نہیں دی گئی ۔ ان آیات میں بھی اور ان کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی ۔ اور اللہ کی ذات یقیناً دوررس حکمتوں کا احاطہ کرنے والی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دور جاہلیت میں جو سودی نظام جاری وساری تھا اس کے اپنے مفاسد اور قباحتیں بھی تھیں ، لیکن آج ہمارے دور سرمایہ داری میں جس طرح اس کے نتائج اور فسادات کھل کر سامنے آگئے ہیں اور اس کا یہ بدنما چہرہ جس خوش اسلوبی سے بےنقاب ہوکر سامنے آگیا ہے ، دور جاہلیت میں ایسا کبھی نہ تھا۔ اس دور میں یہ مکروہ چہرہ اس طرح بدنما ، بدشکل اور پھر تیوری چڑھائے ہوئے نہ تھا ، جس طرح وہ آج ہے ۔ اور ہمارے اس جدید دور میں وہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔
اس وقت کے غالب سودی معیشت پر ، اس آیت میں جو خوفناک حملہ شروع کیا گیا ہے ، اس کی حقیقی حکمت و افادیت ، دورجاہلیت کے مقابلے میں آج بھی اچھی طرح ظاہر ہورہی ہے جبکہ پوری انسانیت آج اس نظام کی چکی میں پس رہی ہے ۔ جو شخص اسلامی نظام زندگی کی اصل حکمت ، اس کی حقیقی عظمت اور اس کی جامعیت اور اس کی باریک بینی پر اچھی طرح غور وفکر اور تدبر کرنا چاہتا ہے ، وہ ان آیات و نصوص پر غور کرکے وہ کچھ پاسکتا ہے ، جو ان لوگوں کے لئے ممکن نہ تھا ، جنہوں نے سب سے پہلے ان آیات کا مطالعہ کیا تھا۔ اس لئے کہ آج پوری انسانی معیشت ان نصوص کے ایک ایک حکم کی براہ راست تصدیق کررہی ہے ۔ آج کی پوری انسانیت جو سود کھلاتی ہے اور سودکھاتی ہے ، اس پر مصائب وشدائد کے وہ پہاڑ ٹوٹ چکے ہیں ، جنہوں نے اس کی کمر توڑ دی ہے اور اسے پیس کر رکھ دیا ہے ۔ اس نظام نے اس کے اخلاق کو بگاڑ دیا ہے۔ اس کی صحت کا معیار گرادیا ہے ، اس کا اقتصادی نظام درہم برہم ہوگیا ہے اور سب سے بڑی خرابی یہ کہ اس کے دین کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔ آج دنیا خالق حقیقی کے ساتھ برسر پیکار ہے۔ جس کی وجہ سے وہ عذاب الٰہی میں مبتلا ہے ۔ ایک فرد ہے تو وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہے۔ کوئی قوم ہے یا امت ہے تو وہ بھی اس مصیبت میں گرفتار ہے ۔ لیکن نہ تو اس عذاب میں کمی آتی ہے اور نہ ہی کوئی قوم یا امت عبرت پکڑتی ہے۔
گزشتہ سبق میں قرآن نے جو دستور انفاق فی سبیل اللہ وضع فرمایا تھا ، تو وہ دراصل اسلام کے اجتماعی اور اقتصادی نظام کا اصل الاصول تھا ، مطلوب یہ تھا کہ ایک اسلامی معاشرہ کا اقتصادی نظام باہم برد احسان اور صدقہ وانفاق پر قائم ہو اور اس کے سائے میں لوگ باہم شفیق وہمدرد بن کر رہیں ۔ جبکہ جاہلی نظام ، اس کے بالمقابل سود خوری کے ظالمانہ اور گھٹیا درجے کی اخلاقیات پر قائم ہوتا ہے ۔ جس میں احسان اور رحم کی گنجائش نہیں ہوتی ۔
یہ دونوں نظام دراصل ایک دوسرے کے بالمقابل نظام ہیں ۔ ایک اسلامی نظام ہے اور دوسرا سودی نظام ہے ۔ اپنے اساسی فکر کے اعتبار سے یہ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے ۔ کسی اساس پر یہ متحد نہیں ہوسکتے ۔ نہ اپنے اثرات ونتائج کے اعتبار سے وہ ایک جیسے ہوسکتے ہیں ۔ ہر ایک اپنے مخصوص تصورحیات ، اپنے اہداف ومقاصد کے پیش نظر کام کرتا ہے اور یہ دونوں نظام پوری طرح ایک دوسرے سے متضاد ہیں ۔ ان دونوں کے نتائج بھی ایک دوسرے سے مختلف مرتب ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے چھوٹتے ہی اس نظام پر یہ خوفناک حملہ کیا گیا اور جو لوگ نظام سود خوری کے کل پرزے ہیں انہیں خوفناک نتائج کی دہمکی دی گئی ۔
اسلام اپنے اقتصادی نظام ، بلکہ اپنے پورے نظام کی بنیاد اس سچائی کے تصور پر رکھتا ہے جو اس کائنات میں موجود ہے ۔ یہ سچائی ذات باری ہے ۔ وہ اس کائنات کی خالق ہے ۔ وہ اس زمین کی خالق ہے ۔ وہ اس انسان کی خالق ہے ۔ وہی تو ہے جس نے ہر موجود کو انور وجود سے آراستہ کیا ۔ وہی تو ہے جو ہر موجود کا مالک ہے ۔ اس لئے کہ وہی ہر موجود کا موجد ہے۔ اس نے اس کائنات میں ہر بنی نوع انسان کو اپنا جانشین بنایا ۔ اس کائنات میں اس نے جو قوتیں اور جو ضروریات ودیعت کئے تھے ، اس نے انہیں بنی نوع انسان کے تصرف میں دیا ۔ لیکن یہ اختیارات ایک وعدے اور ایک شرط کے ساتھ مشروط تھے ۔ یہ عظیم کائنات اس حضرت انسان کے تصرف میں بےقید وبے شرط نہیں دے دی کہ جو چاہے اس میں کرتا پھرے ۔ یہاں زندگی بسر کرنے کے لئے ، اس نے انسان کے لئے کچھ حدود وقیود واضح طور پر متعین کردیئے تھے ۔ اس نے اسے خلافت فی الارض اس شرط پر دی کہ وہ الٰہی نظام حیات کے مطابق یہاں اپنی زندگی بسر کرے گا ۔ وہ اللہ کی شریعت کا پیروکار ہوگا۔ اس لئے یہاں اس کے وہ تمام فیصلے ، اعمال ، اخلاق اور عبادات جو اس کے عہد کے مطابق ہوں گے وہ نافذ العمل اور معتبر ہوں گے ۔ اور اس کے جو کام اس عہد کے مخالف اور شریعت سے متضاد ہوں گے وہ باطل ، کالعدم اور موقوف ہوں گے ۔ اور اگر وہ خلاف شریعت کسی اصول واخلاق کو زبردستی یہاں نافذ کرتا ہے تو وہ ظلم وعدوان ہوگا۔ اور انہیں نہ مسلمان تسلیم کریں گے اور نہ ہی اللہ انہیں قبول کرے گا ۔ لہٰذا اس کرہ ارض پر حاکمیت صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے ۔ جس طرح اس کائنات میں حاکمیت صرف اللہ کی جاری وساری ہے۔ رہے انسان تو وہ حاکم ہوں یا محکوم ، ان کی حاکمیت کا ماخذ اور منبع اسلامی نظام زندگی اور اسلامی شریعت کا نفاذ ہے ۔ پوری کی پوری انسانیت بھی اگر فیصلہ کردے تب بھی اسے یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں کہ اب وہ اتباع شریعت سے آزاد ہے ۔ اس لئے کہ انسان بحیثیت حاکم ومختار یہاں اللہ کا نائب اور ایجنٹ ہے اور اسے یہ ایجنسی ایک چارٹر کے تحت دی گئی ہے۔ جس کی پابندی اس کے لئے ضروری ہے ۔ انسان بذات خود اس دولت کا مالک نہیں ہے جو اس کے تصرف میں ہے۔
اس عہد اور چارٹر کی دفعات میں سے ایک اہم دفعہ یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر وہ تمام لوگ جو اپنے خالق پر ایمان لانے والے ہیں ، باہم تعاون اور تکافل سے زندگی بسر کریں ۔ وہ ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہوں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جو وسائل رزق عطا کئے ہیں ان سے سب کے سب فائدہ اٹھائیں ۔ باہمی تعاون ونکافل کی اساس پر ۔ اس اساس پر نہیں کہ یہ تمام وسائل مطلقاً مشترک ہیں ۔ جس طرح مارکسیت جدیدہ کا تصور ہے ۔ یہ تکافل و تعاون محدود انفرادی ملکیت کی اساس پر ہے ۔ اس محدود ملکیت کی اساس پر اگر کسی کی محنت پھل لائے اور اس کے پاس وافر دولت جمع ہوجائے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اللہ کے دیئے میں سے ان لوگوں پر خرچ کرے جو نادار ہیں اور جن کے وسائل محدود ہیں لیکن انفاق کے ساتھ ساتھ تمام افراد معاشرہ اپنی طاقت ووسعت کے مطابق کسب وعمل فرض کیا گیا ہے ۔ جس قدر وسائل اسے میسر ہیں ۔ کسی کے لئے جائزیہ نہیں قرار دیا گیا کہ وہ دوسروں پر بوجھ بنے ۔ یا باوجود اس کے کہ وہ کسب وعمل پر قادر ہو اور پھر بھی معاشرے سے اجتماعی کفالت کا طالب ہو ۔ جیسا کہ اس سے قبل ہم بیان کرچکے ہیں ۔ اسلامی نظام کے اس اجتماعی کفالتی نظام کے لئے ہر شریعت نے زکوٰۃ کو فرض قرا ردیا ہے اور صدقہ اور انفاق فی سبیل اللہ کو نفلی مدد قرار دیا ہے ، جس کی کوئی انتہاء اور کوئی حد نہیں ہے ۔
اسلام نے اپنے اقتصادی نظام کے اصول وضع کرتے وقت میانہ روی اور اعتدال کو پیش نظر رکھا ہے ۔ اس نظام میں انفاق فی سبیل اللہ میں بھی اسراف اور ظلم اور حد سے تجاوز کو منع کیا گیا ہے ۔ نیز جو پاک چیزیں یہاں انسان کے لئے جائز قرار دی گئی ہیں ، ان سے انتفاع اور تلذذ میں بھی اسراف سے منع کیا گیا ہے ۔ اس لئے کہ انسان کی ضروریات زندگی کی مد میں اخراجات کے دائرے کو محدود کردیا گیا ہے ۔ اور اسے دائرہ اعتدال میں محدود کیا گیا ہے ۔ محدود ضروریات کے جو بچ جاتا ہے ، اس پر زکوٰۃ اور صدقات نافلہ کا ہر وقت تصرف رہتا ہے ۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ ایک مومن کو یہ حکم بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی دولت کو نفع بخش کاروبار میں لگائے اور اس میں اضافہ کرتا رہے ۔
کاروباری زندگی میں اہل اسلام پر یہ قید لگائی گئی ہے کہ وہ اپنی کاروباری جدوجہد میں کسی کے لئے اذیت اور مضرت کا باعث نہ بنیں ۔ اور ایسا کاروبار نہ کریں جس کے نتیجے میں لوگوں تک ان کی ضروریات کی رسد میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہو۔ نہ ایسا کاروبار کریں جس کے نتیجے میں دولت بالا بالا چند ہاتھوں تک محدود ہوجائے اور اس کا دائرہ محدود ہوجائے كَيْ لا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأغْنِيَاءِ مِنْكُمْ……………. ” تاکہ وہ تمہارے مالداروں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے ۔ “
اسلام نے معاشی جدوجہد میں فکر وعمل کی طہارت و پاکیزگی کو بھی لازم قرار دیا ہے ۔ اس نے کاروبار میں وسائل ونتائج کی پاکیزگی پر بہت زور دیا ۔ کاروبار کی ترقی اور دولت میں اضافہ کرنے کے بارے میں ایسے ضابطے اور قاعدے وضع کئے ہیں جن کے نتیجے میں انسانی ضمیر اور انسانی اخلاق پر برے اثرات نہیں پڑتے ۔ نہ ان سرگرمیوں سے معاشرے کے اجتماعی وجود اور اجتماعی زندگی متاثر ہوتی ہے (تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں میری کتاب العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام)
یہ سب اصول اور سرگرمیاں اس سچائی کی اساس پر ہیں جو اس پوری کائنات میں جاری ہے ۔ یعنی تصور الٰہ اور پھر اس عہد کے دائرے کے اندر موجود جو انسان اور حقیقت وجود کے درمیاں طے پایا جو خلیفہ بننے والے انسان کے تمام تصرفات اور سرگرمیوں پر حاوی ہے ، جو اللہ کی مملوکہ سرزمین پر فرائض خلافت سرانجام دے رہا ہے۔
یہ وجوہات ہیں جن کے نتیجے میں سود خوری ایک ایسا عمل قرار پاتی ہے ، جو اساسی طور پر پوری پوری طرح ایمانی تصور حیات کے ساتھ متصادم ہے ۔ اس لئے کہ سودی نظام بالکل ایک علیحدہ تصور حیات پر مبنی ہے ۔ ایک ایسا تصور جس میں عقیدہ توحید اور وجود باری کے لئے ” تاکہ وہ تمہارے مالداروں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے ۔ “
اسلام نے معاشی جدوجہد میں فکر وعمل کی طہارت و پاکیزگی کو بھی لازم قرار دیا ہے ۔ اس نے کاروبار میں وسائل ونتائج کی پاکیزگی پر بہت زور دیا ۔ کاروبار کی ترقی اور دولت میں اضافہ کرنے کے بارے میں ایسے ضابطے اور قاعدے وضع کئے ہیں جن کے نتیجے میں انسانی ضمیر اور انسانی اخلاق پر برے اثرات نہیں پڑتے ۔ نہ ان سرگرمیوں سے معاشرے کے اجتماعی وجود اور اجتماعی زندگی متاثر ہوتی ہے (تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں میری کتاب العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام)
یہ سب اصول اور سرگرمیاں اس سچائی کی اساس پر ہیں جو اس پوری کائنات میں جاری ہے ۔ یعنی تصور الٰہ اور پھر اس عہد کے دائرے کے اندر موجود جو انسان اور حقیقت وجود کے درمیاں طے پایا جو خلیفہ بننے والے انسان کے تمام تصرفات اور سرگرمیوں پر حاوی ہے ، جو اللہ کی مملوکہ سرزمین پر فرائض خلافت سرانجام دے رہا ہے۔
یہ وجوہات ہیں جن کے نتیجے میں سود خوری ایک ایسا عمل قرار پاتی ہے ، جو اساسی طور پر پوری پوری طرح ایمانی تصور حیات کے ساتھ متصادم ہے ۔ اس لئے کہ سودی نظام بالکل ایک علیحدہ تصور حیات پر مبنی ہے ۔ ایک ایسا تصور جس میں عقیدہ توحید اور وجود باری کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ وہ ایک بے خدا تصور حیات ہے ۔ اس لئے سودی نظام میں اصول واخلاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس اصول اور اخلاق کی اساس اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کی تنظیم چاہتے ہیں۔
سودی نظام کا اساسی تصور یہ ہے کہ انسانی زندگی اور اراہ الٰہی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے ۔ انسان بتداء ہی سے کرہ ارض کا مالک ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی عہد و پیمان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے جاری کردہ احکام کا سرے سے پابند ہی نہیں ہے ۔
اسی تصور حیات کے مطابق انسان ان تمام ذرائع کے استعمال میں آزاد ہے ، جن کے ذریعہ وہ دولت جمع کرسکے ۔ وہ دولت کے بڑھانے اور ترقی دینے میں بھی کسی اصول کا پابند نہیں ہے ۔ اسی طرح وہ دولت کے استعمال میں بھی کسی حد وقید کا پابند نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں اللہ کے ساتھ کسی عہد و پیمان کا بھی پابند نہیں ہے ۔ نہ وہ اس بات کا پابند ہے کہ دوسرے لوگوں کی مصلحتوں کو خاطر میں لائے ۔ اس لئے اس پر اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اگر اس کی ذخیرہ اندوزی اور سرمایہ میں بےپناہ اضافے کے نیتجے میں لاکھوں انسانوں کو تکلیف پہنچے ۔ بعض اوقات انسان کے بنائے ہوئے قوانین ، ایسے شخص کی آزادی پر بعض جزوی پابندیاں عائد کرکے ، دولت کی لامحدود ارتکاز کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مثلاً سود کی شرح پر پابندی عائد کردی جاتی ہے ۔ بعض اوقات انسان کے بنائے ہوئے قوانین بعض مالی چالبازیوں ، ظلم و زیادتی ، دھوکہ بازی اور مالی ضرر انسانی پر پابندیاں عائد کردیتے ہیں ۔ لیکن یہ پابندیاں ایک روٹین بن جاتی ہیں اور لوگ اپنی اصلی عادت کی طرف لوٹ آتے ہیں ۔ اس لئے وہ وہی کام کرنے لگتے ہیں جن کی خواہش ان کے دلوں میں بھی رچی بسی ہوتی ہے ۔ یہ انسانی قوانین معاشرے میں وہ اصول رائج اور راسخ نہیں کرسکتے جو خداوند قدوس کی طرف سے نازل کردہ قوانین انسان کے دل میں پیدا کردیتے ہیں ۔ غرض سودی نظام کی نیو ایک غلط اور فاسد اساس پر اٹھائی جاتی ہے ۔ اور وہ یہ کہ اس جہاں میں انسان کا مقصد اعلیٰ صرف یہ ہے وہ مال و دولت جمع کرتا پھرے ۔ چاہے اس کے لئے جو مکروہ ذریعہ اسے اختیار کرنا پڑے ۔ اور پھر وہ اس دولت سے فائدہ اٹھائے اور اسے جس طرح چاہے خرچ کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مادہ پرست شخص کے دل میں اسقدر لالچ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ کتوں کی طرح دولت پر ٹوٹ پڑتا ہے ۔ اور سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس سے ہر طرح کے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ یوں وہ تمام اصولوں کو پامال کرکے اور تمام جہاں کے مفادات کو قربان کرکے بھی دولت جمع کرنے میں لگارہتا ہے ۔
نظام ربا کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام بشریت کو پیس کر رکھ دیتا ہے ۔ اس میں افراد اور معاشرے کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں اقوام وملل تباہ ہوجاتی ہیں ۔ اور یہ تباہی صرف ان مٹھی بھر لوگوں کے مفاد کے لئے ہوتی ہے جو اس نظام میں روپیہ فراہم کرتے ہیں ۔ جو اقوام اس نظام کی زد میں آجاتی ہیں وہ اخلاقی ، نفسیاتی اور اعصابی اعتبار سے بھی گرجاتی ہیں ، ان اقوام کا مالی نظام خراب ہوجاتا ہے ، اور انسانی اقتصادیات میں مناسب نشوونما نہیں ہوتا ۔ اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پوری انسانیت پر حقیقی اور عملی اقتدار چند ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے ، جو اللہ کی اس پوری مخلوق میں ذلیل ترین لوگ ہوتے ہیں ۔ اس کے ساتھ وہ پرلے در جے کے فسادی ہوتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا طبقہ ہوتا ہے جو انسانیت کے لئے اس کرہ ارض پر کسی قسم کی دوستی ، ہمدردی یا ذمہ داری کا کوئی پاس نہیں رکھتا ۔ جیسا کہ ہمارے اس جدید دور میں انسانیت کو ایسے ہی ایک گروہ سے واسطہ پڑا ہوا ہے ۔ یہ گرہ جس طرح افراد کو روپیہ فراہم کرتا ہے اسی طرح حکومتوں اور اقوام کو بھی روپیہ فراہم کرتا ہے ۔ اپنے وہ ممالک جہاں یہ گروہ رہائش پذیر ہوتا ہے ، ان کے اندر یہ کاروبار کرتا ہے اور بیرونی دنیا میں بھی یہ کام کرتا ہے ۔ اور تمام انسانیت کو محنت کا پھل اسے ملتا رہتا ہے ۔ اور لوگوں کی خون پسینے کی کمائی غیر محسوس طور پر ان کی تجوریوں کی طرف لوٹتی رہتی ہے ۔ اور یہ فائدہ انہیں محض اپنے اس سودی کاروبار کی وجہ سے ملتا رہتا ہے ، جس میں خود ان کی محنت ومشقت کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔
نہ صرف یہ کہ لوگوں کی دولت اس گروہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے بلکہ اس گروہ کو اس معاشرہ میں مکمل اثر ورسوخ بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس گروہ کے پیش نظر نہ اصول ہوتے ہیں ، نہ وہ کسی اخلاقی نظام کا پابند ہوتا ہے ، نہ وہ کسی دین و مذہب پر یقین رکھتا ہے بلکہ وہ مذہب واخلاق اور اصول اور کردار کا مذاق اڑانے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال میں لاتے ہیں ۔ جو اس سودی معاشرے میں انہیں حاصل ہوتا ہے اور اس خوفناک اثر ورسوخ کے نتیجے میں وہ ایسے حالات پیدا کرتے ہیں اور ایسے ایسے منصوبے روبعمل لاتے ہیں اور ایسی فکری فضا پیدا کرتے ہیں جس کے اندر رہ کر وہ اس سودی نظام کی وجہ سے عوام الناس کا مزید استحصال کرتے ہیں ۔ ان حالات میں ان کی خساست اور قابل نفرت لالچ کی راہ میں رکاوٹ نہیں رہتی ۔ اور ان کے تمام مقاصد پورے ہوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایسے لوگوں کا بہترین اور آسان طریقہ یہ ہوتا ہے وہ عوام کو جنسیت اور لذتیت کا خوگر بناکر انسانی اخلاق اور عفت کو ختم کرکے انسان کو شہوات ولذتیت کے گندے نالے میں گرادیتے ہیں ۔ اور وہ اس کے اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ اپنی آخری کوڑی بھی اس میں صرف کردیتے ہیں ۔ چناچہ ان کی دولت ان کے اقتصادی جال میں پھنستی چلی جاتی ہے ۔ یہ کام یوں سر انجام دیا جاتا ہے کہ یہ سودی کاروبار کرنے والے تمام عالمی اقتصادی نظام کو اپنی محدود مصلحتوں کے موافق چلاتے ہیں ۔ چاہے ان کے ان اقدامات کی وجہ سے عالمی اقتصادی پیداوار عوام الناس اور پورے انسانی معاشرے کے مفاد کے مقابلے میں چند سرمایہ داروں کے مفاد میں محبوس ہوجاتی ہے جو سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور جن کے ہاتھ میں عالمی سرمایہ کی باگیں آجاتی ہیں اور وہ سب تاریں اپنے مفاد میں ہلاتے ہیں ۔
یہ اندوہناک واقعہ ہمارے ، اس جدید دور میں یوں پایہ تکمیل کو پہنچا کہ دورجاہلیت میں بھی وہ ایسی خوفناک صورت میں نہ تھا ۔ اس لئے کہ قرون اولیٰ کے سود خور ، جو ایک فرد کی صورت میں یا ایک ادارے کی صورت میں ہوتے تھے وہ اس قدر موثر نہ تھے ، جیسا کہ جدید دور کے بینک اور مالی ادارے کام کرتے ہیں ۔ ان جدید مالی اداروں کو پوری دنیا میں بڑی بڑی حکومتوں کے اندر اثر ورسوخ حاصل ہوتا ہے ۔ وہاں حکومتوں کی خارجہ پالیسیوں اور تجارتی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ پھر وہ صحافت اور نشر و اشاعت کے عالمی اداروں پر قابض ہیں ۔ اپنے مزاج اور نظریات کے مطابق تصانیف لکھواتے ہیں ۔ اساتذہ اور یونیورسٹیوں پر ان کا قبضہ ہوتا ہے ۔ اور میڈیا پر مکمل طور پر وہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ان وسائل وذرائع سے وہ عامۃ الناس میں ایک ایسی ذہنیت پیدا کرتے ہیں کہ وہ عوام جن کا گوشت و پوست وہ کھا رہے ہوتے ہیں ۔ ان کا خون چوس رہے ہوتے ہیں اور اس سودی نظام کی وجہ سے ان کی محنت کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں وہ ان کے ذہنوں کو اس طرح مسخر کردیتے ہیں کہ یہ سودی نظام ان کی نظروں میں ایک معقول نظام اور لازمی نظام بن جاتا ہے جو بالکل معقول نظر آتا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سودی نظام کے بغیر دنیا اقتصادی ترقی سے محروم رہے گی ۔ اور یہ کہ مغربی دنیا کی اقتصادی ترقی محض اس سودی نظام کی وجہ سے ہوئی ہے اور یہ کہ جو لوگ سودی نظام کے خاتمہ کے لئے جدوجہد کررہے ہیں وہ عملی لوگ نہیں ، محض خیالی گھوڑے دوڑاتے ہیں ۔ اور یہ کہ ان کے خیالات و تصورات کی اساس محض اخلاقی نظریات پر ہے یا محض نظریاتی اصولوں پر ہے ۔ جن کا عملی دنیا میں کوئی نمونہ موجود نہیں ہے ۔ اور نہ ان کے نفاذ کی کوئی راہ ہے ۔ اور اگر ایسا کوئی نظام وضع کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتیجے میں پوری دنیا کا اقتصادی نظام تباہ ہوجائے گا ۔ پھر یہ سود خور ان لوگوں کو مزاح کا نشانہ بناتے ہیں جو موجود سودی اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہیں ۔ اور یہ مزاح ان لوگوں کے ذریعہ سے کرایا جاتا ہے ، جو خود اس سودی نظام کے ڈسے ہوئے ہیں اور صرف اس نظام کی وجہ سے وہ مفلوک الحال ہیں جس طرح آج کا پورا عالمی اقتصادی نظام اس سودی نظام کی وجہ سے خستہ اور تباہ وبرباد ہوگیا ہے اور سود خوروں کی یہ عالمی تنظیمیں اس اقتصادی نظام کو محض اپنی نہج اور اپنی منشاء کے مطابق چلاتی ہیں اور جب وہ ان کی منشاء کے خلاف جائے ، یہ اسے ایسے جھٹکے دیتی ہیں اور ایسے مالی بحران پیدا کرتی ہیں کہ ماہرین اقتصادیات کے دماغ درست ہوجاتے ہیں اور وہ اس پورے عالمی مالی نظام کو از سر نو مٹھی بھر سود خوروں کی جماعت کے مفاد کے مطابق استوار کردیتے ہیں ۔
خاص اقتصادی نقطہ نظر سے بھی ، یہ سودی نظام ایک ناقص نظام ہے ۔ بعض مغربی ماہرین اقتصادیات پر بھی اس کے مفاسد آشکارا ہوچکے ہیں ، حالانکہ یہ لوگ اس سودی نظام میں پروان چڑھے ۔ اور خود مغربی علوم و ثقافت اور اخلاق و تصورات میں مغربی مالیاتی اداروں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے سود کا تصور رچابسا تھا ۔ وہ ماہرین اقتصادیات جو محض اقتصادی نظام کے نقطہ نظر سے سود کے خلاف ہیں ، ان میں سرفہرست جرمنی کے ڈاکٹر شاخت ہیں ۔ وہ جرمنی بینک ” رائخ “ کے سابق ڈائریکٹر تھے ۔ ١٩٥٣ ء میں انہوں نے دمشق میں جو تقاریر کیں ان میں یہ ایک اہم نتیجہ حیرت انگیز ہے کہ ایک گہرے اور مسلسل شماریاتی عمل سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پوری دنیا کی دولت آخر کار چند مٹھی بھر سود خوار مالی اداروں کی طرف لوٹتی نظر آتی ہے ۔ اس لئے کہ اس نظام میں روپیہ فراہم کرنے والا فائدہ ہی اٹھاتا چلا جاتا ہے جبکہ قرض لینے والا ہر وقت خسارہ اٹھاتا ہے ۔ لہٰذا آخر کار شماریات کے عمل کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ دولت ہمیشہ قرض دینے والے سود خواروں کی طرف لوٹتی رہتی ہے ۔ ہمارے دور میں شاخت کا نظریہ پوری طرح ثابت ہوچکا ہے ۔ اس لئے کہ اس وقت کرہ ارض کی پوری دولت کا حقیقی مالک چند ہزار افراد اور ادارے ہیں ۔ دوسرے وہ افراد جو مالک تصور ہوتے ، یاکارخانوں کے مالک جو بینکوں سے قرضہ لیتے ہیں یا وہ لوگ جو ان کارخانوں میں کام کرتے ہیں ، یہ سب لوگ دراصل ان مالی اداروں کے کارکن اور ملازم ہیں اور ان کے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں یہ چند ہزار افراد اور ادارے اس پوری دنیا کے کارکنوں کے محنت کے نتائج وصول کرتے ہیں ۔
سودی اقتصادی نظام کی یہ صرف ایک کمزوری ہے ۔ جو نظام بھی سودی لین دین پر مبنی ہوگا ، اس میں رقم ادا کرنے والے اور صنعت وتجارت کے میدانوں میں کام کرنے والوں کے درمیان ہمیشہ مخالفت اور تضاد کا تعلق ہوگا اور وہ ایک جواری کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں اور مسلسل ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں ۔ قرض دہندہ ہر وقت زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے درپے ہوتا ہے ۔ اس لئے وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ دولت کو سمیٹے رکھے اور تجارت اور صنعت کو اس کی بےحد ضرورت ہوجائے اور یوں ایک تاجر اور ایک صنعت کار اسے زیادہ سے زیادہ نفع دینے پر آمادہ ہوجائے ۔ وہ شرح سود مسلسل بڑھاتا رہتا ہے یہاں تک کہ قرض لینے والے تاجر اور صنعت کار یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کام میں انہیں کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اس لئے وہ جو کام کرتے ہیں ، اس کے نتائج قرض اور سود میں چلے جاتے ہیں ، ان کے لئے کچھ نہیں بچتا ۔ ایسے وقت میں مال کا پھیلاؤ ختم ہوکر سکڑتا ہے ۔ کارخانے پیداوار بند کردیتے ہیں ۔ کارکن بےروزگار ہوجاتے ہیں ۔ لوگوں کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے ۔ اور جب اقتصادی بحران اس مقام تک پہنچ جاتا ہے تو سود خور اب محسوس کرتا ہے کہ دولت کی طلب ختم ہوگئی ہے ، سرمایہ بےکار پڑا ہے تو وہ مجبوراً پھر سود کی شرح کم کردیتا ہے بلکہ کم کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ اور صنعت کار اور تاجر پھر اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور پھر زندگی میں خوشحالی عود کر آتی ہے ۔ یوں دنیا عالمی اقتصادی بحرانوں کا شکار ہوتی رہتی ہے اور ایک عام آدمی اس چکی میں پستا رہتا ہے اور ایک مویشی کی طرح بیخبر رہتا ہے۔
اس نظام میں ہر صارف بالواسطہ سودخوروں کو ان کے حصے کا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اس لئے تاجر اور صنعت کارسود خوروں کو جو نفع ادا کرتے ہیں وہ انہیں اپنی جیب سے نہیں ادا کرتے ۔ وہ یہ نفع ایک صارف سے وصول کرتے ہیں ۔ وہ اشیائے صرف کی قیمت بڑھاتے ہیں اور یوں یہ سودی رقم پوری انسانیت پر تقسیم ہوتی ہے اور ان سے وصول ہوکر آخرکار سود خوار کے ہاں جمع ہوتی ہے ۔ رہے وہ قرض جو حکومتیں ان مالی اداروں سے لیتی ہیں یعنی اصلاحات اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے ، تو ان کا بوجھ بھی آخر کار ایک عام آدمی پر پڑتا ہے۔ اس لئے کہ حکومت ان قرضوں کا سود ادا کرنے کے لئے لوگوں پر مزید ٹیکس عائد کرتی ہے ۔ اور ایک عام آدمی یہ بوجھ بھی اٹھاتا ہے ۔ غرض آخرکار ہر شخص سود خوروں کو شرح سود ادا کرنے میں اپنے حصے کا بوجھ اٹھاتا ہے ۔ لیکن اس حد تک بھی یہ معاملہ رکتا نہیں ۔ یہ استعماریت صرف سودی لین دین پر آکر نہیں رکتی ۔ اس کے اس استحصال کے لئے جنگیں شروع ہوتی ہیں ۔
یہاں فی ظلال القرآن میں ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ سودی نظام کے مفاسد گنوادیں۔ اس کے لئے ایک مستقل بحث کی ضرورت ہے (اس سلسلے میں وہ قیمتی مباحث ملاحظہ ہیں جو المسلم العظیم سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام اور جدید اقتصادی نظریات کے نام سے لکھیں ہیں۔ سید قطب) اس لئے ہم یہاں صرف اس قدر تلخیص پیش کرتے ہیں تاکہ جو لوگ صحیح مسلمان بننا چاہتے ہیں ، انہیں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ اساسی حقائق کیا ہیں جن کی وجہ سے اسلام نے اس مکروہ سودی نظام کو حرام قرار دیا ہے :
١۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں اپنے دل و دماغ کو صاف کرلینا چاہئے ۔ وہ یہ کہ اسلام کے ساتھ کسی بھی جگہ سودی نظام جمع نہیں ہوسکتا ۔ اس کے علوہ جو عالم ، جو مفتی بھی جو بات کہے گا وہ فریب کاری ہے ۔ اور صریح دھوکہ ہے ۔ اس لئے کہ اسلامی تصور حیات بنیادی طور پر سودی نظام سے متصادم ہے ۔ سودی نظام کے نتائج جو عوام کے فکر وعمل میں پیدا ہوتے ہیں یا اس کے نتیجے میں جو اخلاقیات پیدا ہوتی ہیں وہ اسلام کے خلاف ہیں ۔
٢۔ سودی نظام پوری انسانیت کے لئے ایک مصیبت ہے ۔ صرف ایمان اخلاق ، اور تصور حیات کے میدان ہی میں نہیں بلکہ خالص اقتصادی زندگی کی گہرائیوں میں بھی ایک عذاب ہے ۔ یہ نظام انسان کی خوشحالی اور فلاح پر ڈاکہ ڈالتا ہے اور انسانیت کی متوازن نشوونما کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ حالانکہ بظاہر اس نظام پر یہ جعلی لیبل لگایا گیا ہے کہ وہ پوری انسانیت کی اقتصادی ترقی کے لئے وضع کیا گیا ہے۔
٣۔ اسلام میں عملی نظام اور اخلاقی نظام کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ اسلام میں تصور یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات اور تصرفات میں انسان اس عہد کا پابند ہے کہ وہ اس کرہ ارض پر اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے ۔ اور اس کے تمام تصرفات شرط خلافت سے مشروط ہیں ۔ اور یہ کہ یہاں اس کی پوری زندگی امتحان گاہ میں ہے ۔ وہ بطور آزمائش بھیجا گیا ہے ۔ اور اس نے اپنی پوری زندگی کا حساب و کتاب ایک دن دینا ہوگا۔ اسلامی نظام زندگی نہ تو صرف اخلاقی نظام ہے جو صرف چند اخلاقی ہدایات پر مشتمل ہو اور نہ ہی صرف عملی نظام ہے ، یہ بیک وقت اخلاقی اور عملی ہدایات پر مشتمل نظام زندگی ہے ۔ اگر اس نے اچھی طرح اس نظام کو اپنایا تو اسے اس کی پوری زندگی پر اس طرح اجر ملے گا ، گویا اس نے عبادت کی ۔ اور اگر اس نے اسے ترک کیا تو بعینہٖ اسی طرح اسے آخرت میں ان دو پہلوؤں پر سزا دی جائے گی ۔ چناچہ اسلام کا اقتصادی نظام اس کے اخلاقی پہلو کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔ اور اسلام کے اقتصادی اخلاقیات کوئی غیر لازم عمل نہیں ہے بلکہ اسلام کے قتصادی نظام کا لازمی جزو ہیں ۔ ان کے بغیر اسلام کا عملی اقتصادی نظام چل ہی نہیں سکتا۔
٤۔ چوتھی بات یہ کہ سودی کاروبار کے نتیجے میں لازماً انسانی ضمیر مردہ اور خراب ہوجاتا ہے ۔ انسان کے اخلاق خراب ہوجاتے ہیں ۔ دوسرے بنی نوع انسان کے حق میں ایک سود خور کا رویہ اور اس کے جذبات اچھے نہیں رہتے ۔ انسانی معاشرہ کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے ۔ معاشرے کی اجتماعی کفالت کا انتظام خراب ہوجاتا ہے ۔ سودی نظام کی وجہ سے عوام کے اندر طمع ، لالچ ، خود غرضی ، دھوکہ بازی اور قمار بازی کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ دور جدید کے ماہرین اقتصادیات سود خوری کو اس بات کی بڑی وجہ تصور کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے سرمایہ گھٹیا درجے کی غیر پیداواری مصارف کی طرف بہہ نکلتا ہے ، تاکہ سرمایہ کاری پر یقینی فائدہ حاصل ہو ۔
اور سود ادا کرنے کے بعد اس سے قرض حاصل کرنے والے کے لئے بھی کچھ بچ جائے ۔ یہی جذبہ ہے کی وجہ سے گھٹیا درجے کی گندی فلموں ، گندی صحافت ، رقص گاہوں ، عیاشی کے اڈوں ، شراب خانوں اور تمام مصارف میں سرمایہ لگایا جاتا ہے جو اخلاق کے لئے تباہ کن ہوتے ہیں اور جن کے ذریعہ اخلاقی توڑ پھوڑ کا عمل جاری رہتا ہے اور سودی نظام کے تحت ایسے کاموں میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی جو انسانیت کے لئے مفید ہوں بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسے منصوبوں میں سرمایہ لگایا جائے جن سے زیادہ سے زیادہ نفع ملے ۔ آج کی عالمی اقتصادیات میں یہ روزآنہ کا مشاہدہ ہے ۔ اور اس کا پہلا سبب سودی کاروبار کا موجودہ نظام ہے ۔
٥۔ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نظام ایک مکمل نظام حیات ہے جو باہم مربوط ہے ۔ وہ جب سودی کاروبار حرام قرار دیتا ہے تو وہ ایک ایسا نظام تیار کرتا ہے ، جس میں اس سودی کاروبار کی طرف سے کوئی احتیاج ہی نہیں رہتی ۔ وہ اقتصادی زندگی کی تشکیل وتنظیم یوں کرتا ہے کہ کسی شعبے میں سرے سے اس کی ضرورت ہی نہ رہے۔ اور اس سے انسان کی معاشی ترقی کا کوئی گوشہ بھی متاثر نہیں ہوتا ۔ اجتماعی اقتصادی ترقی جاری رہتی ہے ۔
٦۔ ششم نکتہ یہ ہے کہ جب اسلامی نظام زندگی کو اپنا نظام نافذ کرنے کا موقعہ ملے گا ، تو اس کی پالیسی یہ نہ ہوگی کہ وہ اجتماعی ترقی کے اداروں کو سرے سے ختم کردے بلکہ پالیسی یہ ہوگی کہ ان اداروں کو سود سے پاک کردیا جائے ۔ چناچہ ان اداروں سے سودی نجاستوں کو ختم کردیا جائے گا ۔ یہ ادارے بعض دوسرے اصولوں پر منظم ہوں کے اور اجتماعی ترقی کے لئے کام کرتے رہیں گے ۔ ان اداروں میں بینک ، کمپنیاں اور جدید اقتصادی ادارے سب شامل ہیں ۔
٧۔ یہ نہایت ہی اہم نکتہ ہے ۔ ایک مسلمان کو یہ پختہ یقین کرلینا چاہئے کہ یہ بات بالکل محال ہے کہ اللہ تعالیٰ سودی کاروبار کو حرام کردیں اور پھر صورتحال یہ ہو کہ انسان کی اجتماعی زندگی غیر سودی کاروبار کے ذریعے چل ہی نہ سکے ۔ اس طرح یہ بھی محال ہے کہ ایک ناپاک ، نجس اور مضر چیز ہو انسانی زندگی اس کے بغیر استوار نہ ہوسکتی ہو۔ اس لئے اللہ ہی اس کرہ ارض پر حیات انسانی کا خالق ہے ۔ اسی نے اس کرہ ارض پر انسان کو اپنا خلیفہ قرار دیا ہے اور خود ذات باری کا حکم ہے کہ اس کرہ ارض پر حیات انسانی کو ترقی دی جائے اور انسان کو سہولیات فراہم کی جائیں ۔ ہر کام اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہی سرانجام پاتا ہے ۔ وہی ہے جو انسان کو توفیق دیتا ہے کہ وہ اس جہاں میں بھلائی کرے ۔ اسی لئے نظریاتی حوالے سے یہ بات محال ہے کہ کوئی چیز اللہ کے ہاں حرام ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ زندگی کی ترقی اور نشوونما کے لئے ضروری ہو ۔ اس کے سوا زندگی میں ترقی نہ کی جاسکتی ہو ۔ یا کوئی بھی گندگی اور خبیث چیز ایسی ہو ، جس کے سوا زندگی قائم نہ رہ سکتی ہو یا اس کے سوا اس جہاں میں زندگی کو ترقی نہ دی جاسکتی ہو جو شخص یہ سوچ رکھتا ہو ، یقیناً اس کی یہ سوچ غلط ہے اس کا یہ دعویٰ زہر آلود اور یہ تصور غلط ہے ۔ جسے نسل بعد نسل پھیلایا گیا ہے ۔ یعنی یہ کہ سودی نظام دنیا کی ترقی اور نشوونما کے لئے سنگ میل ہے ۔ اور یہ کہ سودی نظام ایک قدرتی نظام ہے ۔ اس تصور کو دراصل ایک منظم سازش کے ذریعہ تعلیم و ثقافت کے سرچشموں میں داخل کردیا گیا ہے اور شرق وغرب میں علوم اور تربیت کے منابع کے اندر سے سے داخل کردیا گیا ہے پھر دور جدید میں ، زندگی کی اساس اس نظام پر استوار کردی گئی ہے ۔ اور یہ کام ان افراد اور ایجنسیوں نے کیا ہے جو اس نظام میں سرمایہ فراہم کرنے والی ہیں ۔ مشکل یہ درپیش ہے کہ ہر کسی کو زندگی کا نظام سود کے سوا کسی دوسری اساس پر قائم کرنا مشکل نظر آتا ہے ۔ یہ مشکل اس ایک بھیانک شکل اختیار کرلیتی ہے جب ایک انسان دولت ایمان سے محروم ہو ۔ پھر ذہنی غلامی اور آزادنہ غوروفکر نہ کرنے کی وجہ سے بھی یہ کام مشکل نظر آتا ہے ۔ اس لئے کہ سرمایہ فراہم کرنے والی ایجنسیوں نے یہ وہم انسانی دل و دماغ میں یقین کی صورت میں جانشین کردیا ہے۔ اس لئے کہ ذرائع علم ومعرفت پر ان کا مکمل کنٹرول ہے ۔ بین الاقوامی اداروں اور حکومتوں پر ان ایجنسیوں کو مکمل کنٹرول حاصل ہے ۔ عام اور خاص نشر و اشاعت کے اداروں پر ان سود خوروں کا مکمل قبضہ ہے ۔
٨۔ آٹھویں بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ خیال رکھتے ہیں کہ دور جدید میں سودی نظام کے علاوہ کسی اور نظام پر اقتصادی نظام استوار نہیں ہوسکتا ، دراصل ایک بےحقیقت وہم ہے ۔ یہ دراصل ایک بہت بڑا جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ اس لئے رائج ہے کہ بعض طاقتور بین الاقوامی ادارے اسے محض اپنی مصلحت کے لئے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ جس وقت بھی بین الاقوامی مالی اداروں کی نیت درست ہوگی ۔ جس وقت بھی پوری انسانیت اس نظام کو بدلنے کا عزم کرے گی یا کم ازکم امت مسلمہ اس کی تبدیلی کا ارادہ کرلے گی اور یہ ٹھان لے گی کہ اب وہ بین الاقوامی مالی اداروں کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتی ہے اور وہ اپنی بھلائی کا انتظام خود کرتی ہے ، اپنی خوشحالی اور ترقی کے نظام کی اساس ، اخلاق اور پاکیزگی پر استوار کرتی ہے تو اسی وقت دنیا کے سامنے بالکل ایک نیا مالی نظام استوار ہوکر سامنے آجائے گا ۔ یہ اسلامی نظام ہوگا اور جسے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کے لئے پسند کیا ہوا ہے ۔ جس کا نفاذ عملاً ہوچکا ہے ۔ اس کے سائے میں زندگی نے بھرپور مظاہرہ کیا ہوا ہے ۔ اب بھی یہ نظام قابل نفاذ ہے اور اس کے تحت اقتصادی نظام منظم ہوسکتا ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ لوگ سمجھیں اور راہ ہدایت پالیں۔
یہاں ہم وہ تفصیلات نہیں دے سکتے جن سے اس نظام کی مکمل تفصیلات اور جزئیات سے بحث کی جاسکے ۔ ہمارے لئے یہ اجمالی اشارات ہی کافی ہیں ان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سود خوری کی یہ برائی اقتصادی زندگی کی ضروریات میں سے نہیں ہے ۔ تاریخ انسانیت میں اس سے پہلے بھی سودی نظام چھا گیا تھا اور اسلام نے انسانیت کو اس کے چنگل سے آزاد کرایا تھا ۔ آج بھی انسانیت نے اقتصادی بےراہ روی اختیار کرلی ہے ۔ اور اسے اس بےراہ روی سے صرف اسلام کا مستحکم ، رحیمانہ اور سلیم الفطرت نظام نجات دلاسکتا ہے۔
اب ذرا تفصیل سے ملاحظہ کیجئے کہ سود کے تلخ اقتصادی نظام پر اسلام کس طرح حملہ آور ہوتا ہے ۔ اس نظام نے انسانیت کو ان تلخیوں سے دوچار کردیا ہے ۔ جس سے زیادہ کوئی اور تلخی انسانیت کو کبھی نصیب نہیں ہوئی ۔
یہ ایک خوفناک جملہ ہے اور دہشناک تصویر کشی ہے ۔ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لا يَقُومُونَ إِلا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ……………. ” ان کا حال اس شخص جیسا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کردیاہو۔ “
قرآن کریم نے سود خور کی جو تصویر کھینچی ہے جس طرح سود خوار کو زندہ اور متحرک شکل میں پیش کیا ہے۔ اس جیسی تاثیر اور تنبیہ حسین سے حسین معنوی اور نظری پیرایہ اظہار میں نہیں پیدا کی جاسکتی ۔ یہ ایسی تصویرکشی ہے جس کے نتیجے میں سود خوار کی تصویر الگ محسوس اور پیش پا افتادہ پیرائے میں نظر آتی ہے۔ اس تصویر کے ذریعے معروف اور عام طور پر تجربے میں آنے والے کرداروں کو ظاہر کیا گیا ہے ۔ قرآن لوگوں کے اس دیکھے ہوئے کردار کو ان کی نظروں سے تازہ کرتا ہے تاکہ یہ کردار انسانی احساس میں خوف پیدا کرے ، سرمایہ کاری کرنے والے سود خوروں کے انسانی جذبات جاگیں اور متحرک ہوں ۔ انہیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر ان کے مروج اور عادی سودی نظام اقتصادیات سے انہیں نکالاجائے ۔ اور انہیں لالچ اور خود غرضی کی اس فضاء سے نکالا جائے جس میں انہیں بہت سے فائدے نظر آتے ہیں ۔ اپنی جگہ یہ انداز تربیت بہت ہی مفید ہوتا ہے جبکہ یہ پیرایہ بیان اپنی جگہ حقیقت پسندانہ اور واقعی بھی ہوتا ہے۔
اکثر تفاسیر میں لا يَقُومُونَ…….. کا مفہوم یہ بیان ہوا ہے کہ اس سے مراد روز قیامت کا قیام اور حشر ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر ہماری زندگی میں بھی خوفناک تصویر عملاً موجد ہوتی ہے ۔ نیز یہ مفہوم کہ دنیا میں سود خوار کی حالت ایسی ہوتی ہے اگلے فقرے کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہوتا ہے کہ جو لوگ سودی نظام ترک نہیں کرتے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلان جنگ کررہے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ عالم اقتصادیات میں یہ جنگ مسلسل لڑی جارہی ہے اور گم کردہ راہ انسانیت پر یہ جنگ مسلط ہے اور اس نظام میں ایک سود خور اسی طرح دیوانہ وار تگ ودو میں مصروف ہے جس طرح شیطان کا چھوا ہوا شخص دیوانہ ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم سود خور کی دیوانگی کو زندگی کے عملی نظام میں تلاش کریں ذرا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں نزول قرآن کے وقت سودی اقتصادی نظام جس نہج پر چل رہا تھا ذرا اس کی تصویر کشی کردیں ۔ نیز یہ کہ اس سودی نظام کے بارے میں اہل جاہلیت کے ماہرین اقتصاد کے تصورات کیا تھے ۔
سودی نظام عرب اقتصادیات میں نزول قرآن کے وقت ایک معروف نظام تھا اور اس وقت اچھی طرح مروج تھا ۔ جس سودی نظام کو ان آیات میں باطل قرار دیا گیا ہے اس کی بڑی دو صورتیں اس وقت رائج تھیں ۔ ایک ” ربائے معیاد “ اور دوسری ” ربائے فاضلہ “ ربائے معیاد کے بارے میں حضرت قتادہ فرماتے ہیں ” یوں ہوتا کہ ایک شخص کسی پر کچھ فروخت کرتا اور ادائیگی ثمن کے لئے وقت مقرر ہوجاتا ۔ “ جب مقررہ وقت آپہنچتا تو مدیوں کے پاس رقم نہ ہوتی تو قرض خواہ میعاد میں اضافہ کردیتا لیکن زر ثمن میں بھی اضافہ کردیتا۔ “…….. اور حضرت مجاہد فرماتے ہیں ” جاہلیت میں ایسی صورت پیش آتی کہ ایک شخص کا دوسرے کے ذمہ قرض ہوتا تو قرض دار قرض خواہ کے سامنے یہ تجویز پیش کرتا کہ آپ قرض میں تاخیر کردیں اور اس کے عوض آپ کے لئے یہ رقم ہوگی چناچہ قرض خواہ قرض موخر کردیتا ۔ “ امام ابوبکر الجصاص اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں ” یہ بات طے شدہ ہے کہ جاہلیت میں مروج ربا کی حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک قرض ہوتا تھا اور اس میں ایک مقرر شرح کے عوض میعاد مقرر ہوتی تھی اور شرح سود کا اضافہ اس معیاد کا اضافہ ہوتا تھا جو مدیون کو دی جاتی تھی ، اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا۔ “
رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ” معیادی رباوہ تھی جو جاہلیت میں معروف اور مروج تھی ۔ ان میں سے کوئی اپنا مال دوسرے پر ادھار فروخت کرتا اور ہر مہینہ میں ایک مقرر شرح سے سود وصول کرتا اور اصل زرثمن اپنی جگہ قائم رہتا جب بھی معیاد پہنچی سرمایہ دار سرمایہ کی واپسی کا مطالبہ کرتا ۔ اگر مدیون ادا نہ کرسکتا تو وہ سرمایہ اور معیاد دونوں میں اضافہ کردیتا۔ “
حضرت اسامہ بن زید (رض) کی حدیث میں یہ بات آئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لَا رِبَا اِلَّا فِی النِّسیئَتَہِ……………. ” سود صرف معیاد میں ہوتا ہتے “ (بخاری ، مسلم)
” ربائے فاضلہ “ دراصل اجناس کے باہم تبادلہ میں ہوتی یعنی ایک جنس کاتبادلہ اسی جنس سے ہورہاہو ، مثلا سونے کا تبادلہ سونے سے روپے کا تبادلہ روپے سے ، گندم کا تبادلہ جو سے ہورہا ہو تو اگر اس میں اگر کوئی فریق زیادہ لے گا تو وہ سود ہوگا۔ اس قسم کے تبادلہ اجناس کو سود میں اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ یہ سودی کاروبار کے بالکل ہم جنس اور ہم شکل ہے ۔ اس میں وہی جذبات کار فرماہوتے ہیں جو سودی کاروبار کرنے والے تجار کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ جدید سودی نظام اقتصادیات پر بحث کرتے وقت ہمیں ” ربائے فاضلہ “ کے متعلق وارد ہونے والی حرمت پر زیادہ غور کرنا ہوگا۔
حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” سونا سونے کے عوض ، چاندی چاندی کے بدلے ، گندم گندم کے بدلے ، جو جو کے بدلے کھجور کھجوروں کے بدلے ، نمک نمک کے بدلے برابر ہوں گے اور دستی ہوں گے ، جس شخص نے اضافہ کیا یا اضافے کا مطالبہ کیا تو گویا اس نے سود لیا۔ سودی معاملات میں لینے اور دینے والا دونوں برابر ہیں “ (شیخان) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے ایک دوسری روایت میں مروی ہے فرماتے ہیں :” حضرت بلال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ” برنی “ کھجور لے کر آئے ۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلال ! یہ کہاں سے لائے ہو ؟ فرمایا ہمارے پاس ردی قسم کی کھجوریں تھیں تو ہم نے انہیں ایک صاع کے بدلے دو صاع کے ساتھ تبادلہ کرلیا ۔ تو آپ نے فرمایا ” بہت افسوس “ یہ تو عین ربا ہے۔ ایسا نہ کیا کرو اگر کبھی تمہیں بدلنے کی ضرورت پڑے تو ردی کھجوروں کو علیحدہ سودے میں فروخت کردو اور پھر رقم کے عوض اچھی خرید لو۔ “ (بخاری ، مسلم)
ربائے معیادی (رباالنسیہ) بالکل واضح ہے ، اس کے بارے میں کسی قسم کی تشریح کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اسی میں سودی معاملہ کے تمام اجزاء بالکل واضح نظر آتے ہیں یعنی یہ کہ اصل زر پر اضافہ وہ معیاد جس کی وجہ سے یہ اضافہ کیا گیا اور یہ کہ اس اضافے کا سودی معاہدہ بطور شرط طے پانا یعنی سرمایہ کی وجہ جلب از بوجہ معیاد اور مدت ایک خالص سودی معاملہ ہے ۔
رہی دوسری قسم یعنی ربائے فاضلہ تو یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس میں ہم جنس تبادلہ میں آنے والی اشیاء کی نوعیت اور قیمت میں بنیادی طور پر فرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے اضافہ کا تقاضا پیدا ہوتا ہے ۔ حضرت بلال (رض) کے واقعہ سے یہ بات واضح ہوکر آجاتی ہے کہ انہوں دو ردی صاع کھجوریں دیں اور ایک صاع اعلیٰ قسم کی لے لیں لیکن دو قسم کی کھجوریں چونکہ ہم جنس ہیں اور دونوں پر کھجور کا اطلاق ہوتا ہے اسی لئے ان میں اضافہ سودی کاروبار کا شبہ پیدا کرتا ہے کیونکہ کھجور کے بدلے کھجور ہی آتی ہے اور اضافے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ربا قرار دیا اور اس سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ پہلے ردی اور گھٹیا چیز کو فروخت کرکے نقد وصول کرو اور پھر نقد دے کر اچھی چیز لے لو ، چاہے اس میں کمی بیشی ہو تاکہ بظاہر معاملے میں سودی کاروبار کا شبہ نہ رہے ۔
اسی طرح ایسے تبادلے میں یہ شرط لگائی کہ ایک تو مقدار کے برابر ہو اور دوسری یہ کہ ہم جنس اشیائے مبادلہ کو حالاً اپنے اپنے قبضے میں لے لیا جائے ۔ اس سلسلے میں کوئی معیاد مقرر نہ ہو یعنی اگر زیادت نہ بھی ہو تو قبضہ فوری ضروری ہے ۔ اس لئے کہ مدت اور معیاد سودی کاروبار کا اہم جز ہے …….. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاروبار میں سودی عنصر کے خلاف کس قدر حساس تھے ۔ آپ نے اس معاملے میں بےحد سختی کرکے اس وقت نظام جاہلیت میں رائج وشائع سودی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔
ہمارے زمانے میں مغرب کے سرمایہ دارانہ نظاموں کے مقابلے میں شکست خوردہ بعض ماہرین اقتصادیات یہ کوشش کرتے ہیں کہ سودی عمل ونظام کو صرف اس شکل میں محدود کردیا جائے جسے اسلامی اقتصادیات میں ” ربائے معیاد “ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ حضرت اسامہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں یا ان آثار سے استدلال کرتے ہیں جن میں بعض سلف صالحین نے دورجاہلیت میں مروج ربا کی شکلوں کو بیان کیا ہے۔ یہ لوگ اسلامی نقطہ نظر سے جدید دور کے سودی نظام کو ان تمام جدید شکلوں کو جائز گردانتے ہیں جو حرف بحرف دور جاہلیت میں مروج شکلوں کے ساتھ منطبق نہ ہوں۔
ان لوگوں کی یہ حرکت اور سعی لاحاصل صرف اس بات کا اظہا کردیتی ہے کہ یہ لوگ روحانی اور ذہنی طور پر مغربی سودی نظام کے مقابلے میں بری طرح شکست کھاچکے ہیں ۔ اسلام کوئی ایسا نظام نہیں ہے جس میں معاملات کی صرف ظاہری شکل دیکھ کر فیصلہ کردیا جاتا ہو۔ یہ نظام ایک حقیقی تصور حیات پر قائم ہے ۔ اس نے جب ربا کو حرام قرار دیا تو مقصد یہ نہ تھا کہ ربا کی صرف ایک شکل کو حرام قراردیدیا جائے اور دوسری شکلوں کو ترک کردیاجائے ۔ اسلام ہر اس تصورحیات کا مقابلہ کرتا ہے جو اس کے اپنے تصور حیات کے خلاف ہو ۔ وہ ہر اس ذہنیت سے برسرپیکار ہوتا ہے جو اس کی ذہنیت کے مطابق نہ ہو۔ اس نے ” ربائے فاضلہ “ کو محض اس لئے حرام قرار دیا کہ اس میں بظاہر سودی ذہنیت کی ایک مماثلت پائی جاتی تھی اور بالکل ایک معمولی سودی شعور پایا جاتا تھا۔
اس لئے ہمارے نزدیک تمام سودی معاملات حرام ہیں ۔ چاہے وہ ان سودی معاملات سے ہم شکل ہوں جو دور جاہلیت میں مروج تھے یا جاہلیت جدیدہ میں نئی شکلوں میں سامنے آئے ہیں ۔ بشرطیکہ ان شکلوں میں سودی معاملہ کے اساسی عنصر ترکیبی پائے جاتے ہوں یا ان میں سودی ذہنیت کارفرما ہو اور یہ سودی ذہنیت کیا ہے ؟ وہ خود غرضی ، لالچ ، انفرادیت اور قمار بازی ہے جن میں یہ خبیث شعور اور بری نیت پائی جاتی ہے کہ جس طرح ہو فائدہ حاصل کیا جائے چاہے جس طرح بھی ہو۔
اس لئے دورجدید میں اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح پالیں اور اس بات کا یقین کرلیں کہ کہیں وہ اپنے معاملات میں سودی کاروبار کرکے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ تو نہیں کررہے۔

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لا يَقُومُونَ إِلا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ…………….

” جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کردیا ہو ۔ “ اس سے مراد صرف وہ لوگ نہیں جو سودی منافع کماتے ہیں اگرچہ اس خوفناک دہمکی کا پہلانشانہ یقیناً وہی ہیں اس آیت کے مفہوم میں وہ معاشرہ بھی شامل ہے جس کا تمام لین دین سودی اصولوں پر ہوتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سود کھانے والے سود کھلانے والے ، سودی معاہدے کے دوگواہوں اور سودی دستاویز لکھنے والے سب پہ لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب کے سب برابر ہیں ۔ “ (مسلم ، احمد ، ابوداؤد ، ترمذی)
یہ تو تھے وہ لوگ جو فرداً سودی معاملات کرتے ہیں ۔ رہا وہ معاشرہ جس میں سودی کاروبار ہوتا ہے جس کا اقتصادی نظام اصول ربا پر قائم ہے تو اس معاشرے کے تمام افراد قابل لعنت وملامت ہیں ۔ وہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور بیشک وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہیں ۔
ایسے لوگوں کی حالت یہ ہوئی کہ وہ اس زندگی کے ہر موقف میں یوں نظر آتے ہیں کہ گویا آسیب زدہ ہیں ۔ پریشان اور مضطرب نظر آتے ہیں ایک نامعلوم خوف اور خطرہ ہر وقت ان کے چہروں سے عیاں ہوتا ہے اور دولت اطمینان سے محروم اور مخبوط الحواس نظر آتے ہیں ۔ آج سے چار صد سال قبل جب سودی اصول پر مبنی نظام سرمایہ داری وجود میں آیا ۔ اس نظام کی ان مضرتوں میں شک وشبہ کی گنجائش موجود تھی لیکن گزشتہ چارسو سالوں کے تجربے نے اس شک کے لئے اب کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔
آج ہم جس جہاں میں رہ رہے ہیں ۔ اس کے اطراف واکناف میں قلق و اضطراب اور خوف و خطرات کا دور دورہ ہے ، لوگوں کے اعصاب شل ہوچکے ہیں اور وہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں ۔ ہماری اس ترقی یافتہ دنیا کے عقلاء ، مفکرین علماء اور پروفیسر کھلے بندوں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں اور جن لوگوں نے مغربی تہذیب اور مغربی معاشروں کا مشاہدہ کیا ہے وہ بچشم سران بیماریوں اور اعصاب شکن حالات کا مشاہدہ کرچکے ہیں ۔ اس کے باجود کہ مغربی معاشرہ ، مغربی تہذیب کے زیر سایہ اپنی مادی ترقیات کے حوالے سے آج بھی بام عروج پر ہے ۔ ان ممالک میں مجموعی پیداوار کا گراف بہت ہی اونچا ہے ۔ ہر طرف خوشحالی اور مادی عروج کے مظاہرے ہیں اور نظروں کو چکا چوند کررہے ہیں ۔ اعصابی اور نفسیاتی بیماریوں کے علاوہ یہ معاشرے ہر وقت عالم گیر جنگوں کے خطرات سے دوچار ہیں ۔ حکومتوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی اعصابی کشمکش جاری ہے اور وہ معاشرے ایک نہ ختم ہونے والی اضطراری کیفیات کا شکار ہیں اس لئے کہ ان کے سر پر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
مصائب سے پر اور ہر بھلائی سے محروم ایک ہمہ گیر شقاوت وبدبختی جو جہان مغرب پر چھائی ہوئی ہے اور مغرب کی خالص مادی تہذیب و تمدن کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ مادی خوشحالی اور مادی زندگی کی ہمہ گیر سہولتوں اور مغربی ممالک کی اکثریت جہاں زندگی نہایت آسان ہے اور اشیاء ضرورت کی فراوانی ہے اس میں ان بیماریوں کا کوئی علاج نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تمام سہولیات اور فراوانیوں کی کیا قدر و قیمت رہ جاتی ہے ۔ اگر ان کی وجہ سے نفس انسانی کو تسلیم ورضا اور طمانیت اور سکون حاصل نہ ہو ؟
دور جدید میں یہ ایک عظیم حقیقت ہے جسے اگر کوئی چاہے تو مشاہدہ کرسکتا ہے ۔ بشرطیکہ وہ خود اپنی آنکھوں پر از خود وہ مصنوعی پردے نہیں ڈالتا جو اس نے خود اپنے لئے تیار کئے ہیں تاکہ وہ بھیانک منظرنہ دیکھے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کرہ ارض کے وہ تمام ممالک جو مادی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں ۔ جہاں زندگی کی تمام سہولیات وافر مقدار میں فراہم کی جارہی ہیں ۔ مثلاً امریکہ ، سوئٹزر لینڈ ، وغیرہ جہاں مادی سہولیات کے دریا بہہ رہے ہیں ، وہاں کے لوگوں کو دیکھو تو وہ خوشحال ہونے کے بجائے پریشان حال ہیں ۔ وہ گہرے قلق میں مبتلا ہیں ۔ یہ اندرونی رنج والم ان کی نظروں سے آنسوؤں کی طرح ٹپک رہا ہے ، حالانکہ بظاہر وہ بڑے دولتمند ہیں ۔ وہ رات دن پیداوار کے اضافے میں مصروف ہیں لیکن یہ اندرونی قلق ان کی زندگی کو گھن کی طرح کھائے چلا جارہا ہے ۔ اس قلق کو کبھی تو وہ بداخلاقیوں کا ارتکاب کرکے چھپاتے ہیں کبھی شور وشغب میں اسے بھلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کبھی وہ عجیب و غریب حرکات کا ارتکاب کرکے اسے بھلانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو وہ جنسی آوارگی میں پناہ لیتے ہیں۔ اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو پھر وہ اس ترقی یافتہ اور آسائشوں سے بھرپور زندگی سے فرار اختیار کرتے ہیں ۔ اپنے آپ سے بھاگتے ہیں ۔ اس خلاء سے بھاگنا چاہتے ہیں جس میں وہ جی رہے ہوتے ہیں ۔ انہیں اس پرکشش اور سہولیات سے بھرپور زندگی میں اس قلق و اضطراب کا کوئی منطقی سبب بھی نظر نہیں آتا چناچہ یا تو وہ پاگل ہوکر اس سے نجات پاتے ہیں اور پھر بھی نہ ہو تو وہ خودکشی کرکے نجات پاتے ہیں ۔ جنسی بےراہ روی تو ایک عام بات ہے ۔ غرض قلق و اضطراب کا خلا اور گمشدگی کا یہ بھوت بدستور ان کا پیچھا کرتا رہتا ہے اور کسی وقت بھی ان کو چین لینے نہیں دیتا۔
سوال یہ ہے کہ یہ مغربی مادی معاشرہ اس صورت حال سے کیوں دوچار ہے اسکا بڑا سبب یہ ہے کہ اپنی مادی ترقیات کے باوجود مغرب کی روح اندر سے خالی اور تہی دامن ہے ۔ وہ سرگرداں ، گم کردہ راہ ہے اور یہ روح اطمینان سے محروم ، اہل مغرب کو روحانی غذاء اور دوا کی ضرورت ہے اور روحانی علاج بغیر ایمان کے نصیب نہیں ہوسکتا ۔ اطمینان صرف ذکر الٰہی سے نصیب ہوتا ہے جس سے روح مغرب محروم ہے ۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اہل مغرب انسانیت کے مقاصد بلند سے تہی دامن ہیں جو صرف ایمان کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں ۔ جن کے خدوخال ایمان سے متعین ہوتے ہیں ۔ ان کا تعین اس معاہدہ خلافت سے تصور ہوتا ہے جس کے امر سے انسان کو اسی کرہ ارض پر اللہ کا نائب بنایا گیا ہے۔
اس بڑے سبب کے ضمن میں پھر مغرب کا سودی نظام بھی ان مصائب کا ایک اہم سبب ہے ۔ سودی نظام ایک ایسی مصیبت ہے جس میں اقتصادیات بطاہر تو ترقی پذیر نظر آتی ہیں لیکن دراصل ان میں کوئی ترقی نہیں ہوتی ۔ اس لئے کہ سودی نظام میں ترقی میں اعتدال ، توازن اور وسعت نہیں ہوتی ۔ اس ترقی کے ثمرات عامۃ الناس تک نہیں پہنچتے ۔ بلکہ تمام انسانیت کے مقابلے میں اس کے ثمرات اور اس کی برکات سے سود خور فائدہ اٹھاتے ہیں اور سود خوروں کا بھی ایک قلیل گروہ جو سرمایہ فراہم کرتا ہے اور جو بینکوں اور مالی اداروں کے پس منظر میں ہر وقت روپے کھرے کرتا رہتا ہے ۔ جو صنعتی اداروں ، تجارتی اداروں کو ہر قوت مجبور کرتا ہے اور جو بینکوں اور مالی اداروں کے پس منظر میں ہر وقت روپے کھرے کرتا رہتا ہے۔ جو صنعتی اداروں ، تجارتی اداروں کو ہر وقت مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ ان کے پسندیدہ پروگرام کے مطابق چلتے رہیں اور ان کے مفادات کے لئے کام کریں ۔ ان سودخوروں کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم کریں یا ایسی پیداوار سامنے لائیں جس میں معاشرے کا اجتماعی مفاد ہو یا یہ کہ عملاً منظم طریقے سے عامۃ الناس کے لئے فراہمی رزق کا بندوبست کریں یا وہ عامۃ الناس کا اطمینان قلب اور سوشل سیکورٹی کے کوئی مقاصد سامنے رکھتے ہوں بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ایسی پیداوار مارکیٹ میں لائی جائے جس سے انہیں زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل ہو۔ اگرچہ اس پیداوار کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں افراد شکست وریخت کا شکار ہوں اور لاکھوں کی زندگی تباہ ہوجائے یالاکھوں افراد شک ، بےاطمینانی اور خوف و خطرے سے دوچار ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بالکل برحق ہے کہ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لا يَقُومُونَ إِلا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ……………. ” وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھوکر باؤلا کردیاہو۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں سود خوروں نے سود کی حرمت پر سخت اعتراض کئے تھے ۔ ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ سودی اقتصادیات کو حرام قرار دینے اور تجارتی لین دین کو جائز قرار دینے کی کوئی حقیقی وجہ ان کے فہم میں نہیں آتی ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ……………. ” اس حالت میں مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں ” تجارت بھی تو دراصل سود ہی جیسی چیز ہے ۔ “ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ “
وہ جس اعتراض اور شبہ پر اعتماد کرتے تھے وہ یہ تھا کہ تجارت بھی ایک نفع بخش عمل ہے اور سود خوری بھی ایک نفع بخش عمل ہے حالانکہ یہ ایک بالکل واہیات قسم کا استدلال تھا ۔ اسی لئے کہ تجارتی عمل میں نفع ونقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے ۔ پھر اس میں شخصی محنت اور مہارت کا بھی دخل ہوتا ہے تجارت میں قدرتی حالات یہ فیصلہ کرتے کہ تاجر کو فائدہ یا نقصان ہو لیکن سودی کاروبار میں ہر حالت اور ہر صورت میں فائدہ اور سود متعین ہوتا ہے۔ یہ تجارت اور ربا میں ایک بنیادی فرق ہے اور یہی وہ بڑی علت ہے جس کی وجہ سے ایک کو حلال اور دوسری کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ ہر وہ کاروبار جس میں ہر صورت اور ہر حال میں فائدہ متعین کردیا گیا ہو وہ حرام ہے اس لئے کہ وہ ربا ہے ۔ اس لئے کہ اس میں فائدہ محفوظ ومامون ہے اور مقرر ہے ۔ اس میں کسی ہیر پھیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے

۔
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا …………….

” اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور ربا کو حرام قرار دیا ہے۔ “ اس لئے کہ سود کے اساسی عناصر ترکیبی تجارت میں نہیں پائے جاتے ۔ نیز تجارت کے جواز کے لیے بہت سے دوسرے اسباب وعلل بھی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ تجارتی سرگرمیاں بنیادی طور انسانیت کے لئے مفید ہیں اور سودی لین دین اپنی اصل کے اعتبار سے انسانیت کے لئے تباہ کن ہے ۔
جب اسلام آیاتو اس دور میں سودی اقتصادیات جس حالت میں فی الواقعہ رائج تھیں اس نے ان کی حقیقت پسندانہ اصلاح کی ۔ ایسی اصلاح جس کی وجہ سے نہ کوئی اقتصادی بحران پیدا ہوا نہ اجتماعی نظام میں کوئی اکھاڑ پچھاڑ ہوا۔ فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ…………… ” لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لئے وہ سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا سو کھاچکا ، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ “
اسلام نے اپنے نظام کا دارومدار وعظ ونصیحت اور اصلاح پر رکھا ہے اور اسی مقصد سے اسلام قانون سازی کرتا ہے ۔ جو شخص نصیحت پکڑے ۔ اللہ کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے سود خوری سے باز آجائے تو اسلام وہ دولت اس سے واپس نہیں لیتا جو وہ کھاچکا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔ قیامت کے دن اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا ۔ وہ جو چاہے فیصلہ کرے گا۔ اس انداز بیان سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ایام ماضیہ میں جو سود کھایا جاچکا ہے اس کا فیصلہ اللہ کی رضا اور مشیئت پر ہے ۔ اس سے ایک مسلمان اور خطاکار مسلمان کے دل میں ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا وہ بہر حال غلط تھا ۔ وہ سوچے گا جو سرمایہ گناہ وہ جمع کرچکا ہے بس وہ اس کے لئے کافی ہے اور اگر میں نے آئندہ اس برے عمل سے توبہ و استغفار کے ساتھ اجتناب کیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سابقہ گناہوں کو معاف فرمادے گا ۔ اس لئے مجھے اس سرمایہ میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہئے ۔ یوں قرآن مجید اپنے اس منفرد انداز اصلاح کے ساتھ انسانی قلوب و شعور کی تربیت کرتا ہے ۔

وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ……………

” اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے وہ جہنمی ہے ، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ “
یہ تہدید اور تنبیہ کو جو دوبارہ اس حرکت کا ارتکاب کرے گا وہ عذاب کا مستحق ہوگا ۔ یہ بتاتی ہے کہ قرآن کریم کا انداز تربیت کیا ہے ۔ قرآن کریم انسان کے دل میں خوف آخرت پیدا کرکے اس کی اصلاح کرتا ہے ۔
بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں شاید یہ طویل ڈھیل غرہ میں مبتلاکردے۔ شاید وہ وعدہ آخرت کا علم ویقین نہ رکھتے ہوں اور شاید ان کے حساب و کتاب میں عذاب آخرت کا کوئی مقام نہ ہو ، س لئے قرآن انہیں اس حقیت سے آگاہ کرتا ہے اس دنیا میں بھی سودی نظام نیست ونابود ہوگا اور آخرت میں بھی وہ کالعدم تصور ہوگا۔ قرآن مجید یہ قرار دیتا ہے کہ یہ نظام صدقات ہی ہے جو اس دنیا میں بھی نشو ونما پائے گا اور ایک پاکیزہ نظام ہوگا اور آخرت میں بھی وہ موجب اجر ہوگا۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ان ہدایات کو تسلیم نہیں کرتے وہ گناہ گار ہیں اور کفریہ اعمال کے مرتکب ہیں اور اللہ تعالیٰ کافروں اور گناہ گاروں سے نفرت کرتے ہیں ۔

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ……………

” اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا ۔ “
اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی سچا ہے اور اس کی وعید بھی یقینی ہے ۔ ہمارے اس دور میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج کے دورجدید میں جو معاشرے بھی سودی کاروبار کرتے ہیں ان کے افراد کے دلوں میں سکون اور اطمینان نصیب نہیں ہے ان معاشروں سے برکت اٹھ گئی ہے اور خوشحالی اور اطمینان قلب ختم ہے ۔
اللہ تعالیٰ ربا کو محو کرنا چاہتا ہے اس لئے وہ ایسے معاشرے پر اپنے فیوض وبرکات نازل نہیں فرماتا جس میں ربا کی گندگی پائی جاتی ہو ۔ ایسے معاشروں کو وہ قحط اور بدنصیبی سے دوچار کرتا ہے بظاہر تو یوں نظرآتا ہے کہ معاشرے میں ہر سو خوشحالی ہی خوشحالی ہے ۔ ہر طرف وافر پیداوار نظر آتی ہے ۔ ہر طرف سے وافر مقدار میں آمدن ہورہی ہے لیکن جس قدر زیادہ آمدن ہورہی ہے اس قدر برکت نظر نہیں آتی ۔ اس طرح کہ انسان اس وافر آمدنی سے پاکیزہ طریقے سے امن و اطمینان کے ساتھ فائدہ اٹھائے ۔ اس سے پہلے ہم اس محرومی اور بدنصیبی کی طرف اشارہ کرچکے ہیں جو مغرب کے مالدار اور کثیر آمدنیوں والے ممالک میں لوگوں کے چہروں سے ٹپکی پڑتی ہے اور اس روحانی قلق اور پریشانی کا بیان بھی ہم اس سے قبل بیان کرچکے ہیں ۔ جس میں زیادہ دولت مندی کی وجہ سے اضافہ ہی ہورہا ہے ، کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ ان ممالک کی جانب سے یہ قلق و اضطراب اور یہ محرومی اور بدحالی تمام دنیا میں پھیل رہی ہے ۔ اس لئے کہ ان ممالک میں انسانیت ایک دائمی اور مسلسل مہلک جنگ میں مصروف ہے ۔ وہاں کے لوگ صبح وشام سرد جنگ میں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ یہ شب وروز کے بعد ان اعصاب پر زندگی کا بوجھ بھاری ہوتا جارہا ہے۔ چاہے انہیں اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ اس ذہنی اور اعصابی کشمکش کی وجہ سے نہ ان کے مال میں برکت ہوتی ہے ، نہ عمر میں برکت ہوتی ہے ، نہ ان کی صحت قابل رشک ہوتی ہے اور نہ ان کے دل مطمئن ہوتے ہیں ۔
اس کے برعکس جو معاشرہ اجتماعی تعاون اور باہم کفالت پر استوار ہو ، چاہے یہ تعاون بذریعہ سدقات واجبہ ہو یا صدقات نافلہ ہو اور اس معاشرے میں باہم محبت ، باہم احسان ، باہم رضامندی کی روح کارفرما ہو اور جس میں ہر فرد تگ و دو محض اس لئے ہو کہ وہ اللہ کی رضامندی حاصل کرکے اس کے اجر کا مستحق بنے اور جسے ہر وقت اطمینان ہو کہ اللہ اس کا مددگار ہے اور وہ صدقہ اور احسان کا اجر اس سے کئی گنا دے گا تو ایسے تمام معاشروں پر اللہ تعالیٰ اپنی برکت نازل کرتا ہے ، جو معاشرے کے افراد پر بھی برکات نازل ہوتی ہیں اور ایسے معاشرہ کی جماعتوں پر بھی فیوض نازل ہوتے ہیں ۔ ان کے مال میں برکت ہوتی ہے ، ان کے رزق میں فراوانی ہوتی ہے ، ان کی صحت میں برکت ہوتی ہے ، ان کی قوت میں برکت ہوتی ہے اور ان کے دل اطمینان سے سرشار ہوتے ہیں اور دل برقرار ہوتے ہیں ۔
جن لوگوں کو انسان کی موجودہ صورتحال میں یہ حقائق نظر نہیں آتے ، وہ اس قسم کے لوگ ہیں جو ان حقائقب کو درحقیقت دیکھنا ہی نہیں چاہتے ، اس لئے کہ ان کی نفسانی خواہشات یہ تقاضا کرتی ہیں کہ وہ ان حقائق کو نہ دیکھیں ۔ یہ لوگ ایسے ہیں جن کی آنکھوں پر پردے پڑگئے ہیں اور یہ پردے انہوں نے قصداً ڈالے ہوئے ہیں اور یہ لوگ وہ سود خوار ہیں جن کی ذاتی مصلحت اس میں ہے کہ یہ سودی نظام دائم وقائم رہے ، اس لئے ان حقائق کو نہ دیکھ سکے ۔
وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ…………… ” اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے ، بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا ۔ “ اس تعقیب اور اس نتیجے سے یہ بات قطعی طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ سودی نظام اقتصادیات کی حرمت کے بعد بھی اگر کچھ لوگ اسے جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں تو وہ گناہ گار اور کفار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے محبت نہیں کرتا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قراردیتے ہیں ان پر کفر اور گناہ گاری کی صفت کا اطلاق ہوتا ہے اگرچہ وہ اپنی زبان سے ایک ہزار مرتبہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُولُ اللّٰہِ…………… کہتے رہیں ، اس لئے کہ اسلام صرف زبانی کلمات کا نام نہیں ہے وہ تو ایک مکمل نظام حیات اور طریقہ عمل ہے اور اس کے سوا کسی ایک جزو کا انکار اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ سب کا انکار کردے ۔ ربا اور سود خوری کی حرمت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے اور اسے حلال تصور کرنے اور اس کی اساس پر اپنی اقتصادیات کو استوار کرنے پر یقیناً ایک شخص گناہ گار ہوتا ہے اور کفر کا ارتکاب کرتا ہے ۔ نعوذ باللہ منہ ۔
اس کفریہ اور غیر صالح نظام زندگی کے بالمقابل اور سودی اقتصادیات کے حاملین اور حامیوں کے لئے اس حقارت آمیز ڈراوے کے مقابلے میں ، قرآن کریم اور عمل صالح کے باب کا آغاز کرتا ہے جو اس معاملے میں جماعت مسلمہ کی اہم خصوصیات ہیں اور اس ظالمانہ سودی نظام کے بالمقابل جو صالح اسلامی نظام ہے ، اس کا مرکزی نکتہ یہاں بیان کیا جاتا ہے ، یعنی نظام ربا کے مقابلے میں نظام زکوٰۃ ۔
نظامِ ربا کے صفحہ بالمقابل کا بنیادی عنصر زکوٰۃ ہے اور زکوٰۃ کی ماہیت یہ ہے کہ وہ ایک قسم کا خرچ اور انفاق ہے ، جس کا کوئی عوض اس جہاں میں نہیں ہے نہ اس خرچ کے نتیجے میں کچھ واپس ہوتا ہے اور سیاق کلام میں زکوٰۃ کے ذکر سے مقصد یہ ہے کہ یہاں مومنین کی اس اہم صفت کو بیان کردیا جائے نیز اسلامی معاشرہ کی اس اہم صفت کو بیان کردیا جائے اور یہ بتایاجائے کہ سودی معاشرہ کے مقابلے میں اس ایمانی معاشرہ میں اطمینان قلب ، امن وامان ، اللہ کی رضامندی اور برکات الٰہی کے کیا کیا نظارے ہیں اور کس قدر پر کیف منظر ہے اس معاشرہ کا ۔
زکوٰۃ دراصل ایک ایسے معاشرے کا اصل الاصول ہے جو باہم تضامن اور باہم کفالت پر مبنی ہوتا ہے اور اس معاشرے کے کسی بھی شعبے اور کسی بھی پہلو میں سودی اقتصادیات کانہ وجود ہوتا ہے اور نہ وہ اقتصادیات سے کوئی ضمانت طلب کرتا ہے ۔
امت اسلامیہ کے احساس اور خود ہمارے احساسات میں زکوٰۃ کی اصل صورت پریشان اور گم ہوگئی ہے ۔ امت مسلمہ کی بدبخت نسلوں نے صدیاں گزرگئیں کہ اسلام کے اقتصادی نظام کو عملاً چلتا ہوا نہیں دیکھا ہے۔ اس نے اسلامی نظام زندگی کا عملی مشاہدہ نہیں کیا کہ وہ خالص ایمانی تصور حیات ، خالص نظریاتی تربیت اور نظریاتی اخلاق کی اساس پر قائم ہوا ہو اور وہ انسانیت کو اور انسانی نفسیات کو ایک خاص نہج پر ڈھال رہا ہو اور خود یہ نظام اس طرح ہو کہ اس میں اس کے صحیح تصورات زندہ ہوں ، پاک اخلاق نظام رائج ہو اور اونچی اقدار حیات قائم ہوں اور اس میں اسلام کے اقتصادی نظام کا مرکزی نکتہ زکوٰۃ ہو جبکہ اس کے مقابلے میں تمام دوسرے نظام عملاً ربا کی اساس پر قائم ہوں اور پھر امت دیکھے کہ انسانی زندگی نشو ونما پارہی ہو اور اقتصادی نظام انفرادی سعی وجدوجہد پر قائم ہو اور اگر باہم تعاون کی کوئی اجتماعی شکل ہو تو وہ ربا سے پاک ہو ۔
زکوٰۃ کی اصل شکل و صورت ہمارے دور کی بدبخت اور ہدایت سے محروم نسلوں کے دل و دماغ میں مشتبہ ہوگئی ہے ، اس لئے کہ ان نسلوں نے انسانیت کی وہ بلندو برتر خوبصورت تصویر دیکھی ہی نہیں جو نظام زکوٰۃ کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ موجودہ نسلیں جدید مادی نظام کے اندر پیدا ہوئیں اور اسی کے سائے میں پروان چڑھیں اور یہ جدید نظام خالص سودی تصور پر قائم ہے ۔ ان نسلوں نے صرف بخل اور کنجوسی ، حرص و لالچ اور انفرادیت اور خود غرضی ہی دیکھی ہے جو دورجدید میں ہر کسی کے دلوں پر حکمران ہے ۔ اس دور میں دولت محتاجوں اور غریبوں تک صرف قابل نفرت سودی نظام ہی کے ذریعے پہنچ رہی ہے ۔ لوگ بغیر کسی اجتماعی کفالتی نظام کے زندگی بسر کررہے ہیں ۔ صرف اس صورت میں انہیں تحفظ ملتا ہے جب وہ خود سرمایہ رکھتے ہوں یا انہوں نے اپنی دولت کا ایک معتدبہ حصہ خرچ کرکے موجودہ سودی نظام کے تحت اپنے آپ کو انشور کرالیا ہو ۔ آج صنعت اور تجارت کو صرف اس صورت میں سرمایہ دستیاب ہوتا ہے۔ جب وہ اسے سودی نظام کے واسطہ سے لیں ، اس لئے جدید نسلوں کے دل و دماغ پر یہ بات چھاگئی ہے کہ ماسوائے سودی نظام اقتصادیات کے اور کوئی اقتصادی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور یہ کہ صرف اسی نظام کے تحت زندگی بسر ہوسکتی ہے۔
جدید دور کے انسانوں کے ذہن سے زکوٰۃ کا حقیقی تصور یوں مٹ گیا ہے کہ وہ اسے صرف ایک انفرادی احسان اور نیکی سمجھنے لگے ہیں اور یہ کہ اس کی اساس پر کوئی اجتماعی نظام استوار نہیں ہوسکتا لیکن یہ لوگ حاصلات زکوٰۃ کے عظیم حجم کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اڑھائی فیصد زکوٰۃ اصل سرمایہ اور منافع دونوں پر واجب ہے اور وہ لوگ بڑی خوشی سے یہ شرح ادا کرتے ہیں جن کی تربیت اسلام نے کی ہوئی ہوتی ہے اور اپنے مخصوص انداز میں کی ہوئی ہوتی ہے۔ وعظ و ارشاد کے ذریعہ ، قانون سازی کے ذریعہ اور ایک ایسے نظام زندگی کے ذریعے جس کا تصور ان کے دل و دماغ پر چھایا ہوتا ہے اور اس شرح زکوٰ ۃ کو ایک اسلامی حکومت بطور ایک لازمی حق کے وصول کرتی ہے ، یوں نہیں کہ کوئی چیز بطور خیرات یہ حق ادا کرے اور اس عظیم فنڈ سے ان تمام لوگوں کی کفالت ہوتی ہے ، جن کے لیے اپنے ذاتی وسائل ناکافی ہوجائیں اور حالت یہ ہوتی ہے کہ کہ معاشرے کا ہر فرد یہ ضمانت پالیتا ہے کہ اس کی زندگی اور اس کی اولاد کی زندگی محفوظ ہے اور ہر حالت میں محفوظ ہے ۔ اس فنڈ میں سے ان لوگوں کے قرضے بھی ادا کئے جاتے ہیں جو قرضوں کے بوجھ تلے دب جائیں چاہے یہ تجارتی قرضے ہوں یا غیر تجارتی ہوں۔
اسلام میں اہمیت اس بات کو حاصل نہیں ہے کہ کسی نظام کی ظاہری شکل و صورت کیسی ہے ۔ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ کسی نظام کی روح کیسی ہے ۔ اسلام اپنی تربیت اور ہدایت ، اپنے قانونی نظام اور ضابطہ بندی اور اپنے پورے نظام کے ذریعہ جس قسم کی سوسائٹی وجود میں لانا چاہتا ہے ۔ وہ سوسائٹی اسکے نظام کی شکل و صورت ، اس کے اجزاء اور اداروں اور اس کی حکمت عملی کے ساتھ مکمل طور پر متناسب اور متناسق ہوتی ہے ۔ وہ سوسائٹی اس کے قانون کا تکملہ ہوتی ہے ۔ اس سوسائٹی کے افراد کے ضمیر کی گہرائیوں میں سے ایک اجتماعی کفالتی نظام وجود میں آتا ہے ۔ اس کے تمام ادارے اور حکمت عملیاں ایک اجتماعی کفالت وجود میں لاتی ہیں ۔ اس نظام میں فرد اور ادارہ باہم معاون اور باہم کفیل ہوتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ان لوگوں کے فہم وادراک سے بہت بلند ہے جو جدید مادی نظام زندگی میں پروان چڑھے ہیں لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم مسلمان بخوبی جانتے ہیں ۔ اور ہمارا ذوق ایمانی اس کی مٹھاس محسوس کرتا ہے ۔ جبکہ جدید دور کے باسی اپنی بدبختی اور بد ذوقی کی وجہ سے یہ مٹھاس نہیں محسوس کرتے ۔ جدید دور کا انسان اس محرومی اور بدبختی میں اس لئے مبتلا ہے کہ اس کی باگ دوڑ اس جدید مادی نظام کے ہاتھ میں ہے ۔ خدا کرے یہ اسی طرح محروم ہوں اور یہ اس خیر سے دور ہی رہیں جس کی خوشخبری اللہ ان الفاظ میں دیتے ہیں ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ…………… ” جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ، ان کا اجر بیشک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقعہ نہیں “ ایسے لوگ جو ان آسمانی ہدایات سے محروم ہیں ۔ وہ قلبی اطمینان اور سکون سے بھی محروم رہیں گے ۔ جبکہ اجر وثواب سے تو وہ محروم ہیں ہی۔ اس لئے کہ وہ اپنی جہالت ، اپنی جاہلیت ، اپنی ضلالت اور اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تو وہ محروم ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے پختہ عہد کرتا ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی کو ایمان اور عمل صالح پر استوار کریں گے ۔ باہم اقتصادی تعاون کرکے اپنی معیشت کو درست کریں گے ۔ ان کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے ۔ وہ امن میں رہیں گے ، وہ کسی خوف و خطرے سے دوچار نہ ہوں گے ۔ وہ خوش قسمت ہیں ۔ محروم نہیں ہیں ۔ اس لئے وہ ہر قسم کے اندیشوں سے محفوظ ہوں گے لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ…………… ” ان کا اجر بیشک ان کے رب کے پاس ہے ، ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ “
ایسے حالات میں جبکہ ایک سودی نظام اقتصادیات والی سوسائٹی اللہ کے قہر وغضب کی مستحق قرار پاتی ہے ۔ اس کے افراد مخبوط الحواس اور گم کردہ راہ ہوتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں وہ روحانی خوف اور رنج والم کا شکار ہوتے ہیں ۔
انسانی تاریخ میں انسانیت نے صحیح اسلامی معاشرہ میں یہ نظام امن و سکون بچشم سر دیکھا ہے ۔ اور وہ رنج والم اور خوف وبے اطمینانی کی عام فضاء وہ جدید سودی معاشرہ میں بھی دیکھ رہی ہے ۔ اے کاش کہ ہم ہر حساس دل کو پکڑ کر جھنجھوڑ سکتے ۔ تو اسے خوب جھنجھوڑتے اور وہ خواب غفلت سے بیدار ہوکر اس حقیقت کو پالیتا ۔ اے کاش ! کہ اگر ممکن ہوتا تو ہم سوتی آنکھ کو جگاتے ۔ اسے کھولتے اور وہ اس عظیم حقیقت کو پالیتی ۔
افسوس کے ہمارے پاس وہ قوت نہیں ہے ۔ اگر ہوتی تو ہم ایسا کر گزرتے …….. ہم صرف حقیقت کی طرف اشارہ ہی کرسکتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ اللہ اس گم کردہ راہ اور بدنصیب انسانیت کو اس طرف متوجہ کردیں ۔ اور دل تو اللہ تعالیٰ کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں وہ جدہر چاہے پھیردے ۔ اور ہدایت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہی میں ہے جسے چاہے عطاکرے ۔ ان حالات میں امن وفراوانی ، جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ایک اسلامی سوسائٹی کے ساتھ کررہا ہے ۔ جو اپنی زندگی سے ربا کو نکال دیتی ہے ۔ یوں وہ گویا کفر اور معصیت کو اپنی زندگی سے نکال پھینکتی ہے ۔ اور اپنی زندگی کو ایمان ، عمل صالح اور اللہ کی بندگی اور نظام زکوٰۃ پر قائم کرتی ہے ۔ غرض ایسے حالات میں امن وفراوانی میں اللہ تعالیٰ اپنی جانب لوگوں کو پکارتے ہیں ۔ جو ایمان لے آئے ہیں اور یہ پکار دراصل آخری وارننگ ہے ۔ انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو نجس اور مفلس سودی اقتصادی نظام سے پاک کردیں اور اگر وہ اس کام کے لئے تیار نہیں ہیں تو یہ گویا ان کی جانب سے اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اعلان جنگ ہے ۔ بغیر کسی نرمی کے ، بغیر مہلت کے اور بغیر کسی تاخیری حربے کے۔
اس آیت میں ان لوگوں کو جو ایمان لاچکے ہیں ۔ اس بات سے متعلق کردیا گیا ہے کہ وہ اس سود کو چھوڑدیں جو باقی رہ گیا ہے ۔ وہ اس وقت تک صحیح مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ اللہ سے ڈریں گے نہیں اور باقی ماندہ سودی رقم کو ترک نہ کردیں گے وہ صحیح مومن نہیں ہیں اگرچہ وہ اپنے ایمان کا اعلان کرتے پھریں ۔ اس لئے کہ اللہ کے احکام و فرامین کی اطاعت وانقیاد کے بغیر ایمان کے کیا معنی ہیں ۔ آیت انہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھتی نہ وہ کسی بھی شخص کو اس شب ہے میں چھوڑتی ہے ، جو ایمان کے اعلان کے پردے میں چھپ کر اپنی حقیقت پر پردہ ڈالتا ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ نہ تو وہ مطیع فرمان ہوتا ہے اور نہ راضی برضائے شریعت ہوتا ہے ۔ وہ اپنی زندگی میں شریعت کو نافذ نہیں کرتا ۔ وہ اپنے معاملات میں شریعت کو حکم نہیں بناتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ دین اسلام میں اعتقادات اور اعمال میں فرق کرتے ہیں وہ صحیح مومن نہیں ہیں ۔ اگرچہ وہ طویل و عریض دعوائے ایمان کریں ۔ زبان سے ایمان کا اعلان کریں ، یہاں تک کہ وہ دوسری عبادات میں پابند صوم وصلوٰۃ کیوں نہ ہوں ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ……………. ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ۔ اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے ۔ اسے چھوڑ دو ، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو ۔ “
یہ وہ خوشگوار دادوہش ہے جسے اسلامی نظام انسانیت کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ وہ یہ گھنی چھاؤں ہے جس میں ، خود غرضی ، لالچ ، بخل اور مفاد پرستی کی تپش میں تھکی ماندی انسانیت پناہ لیتی ہے اور سکون کا سانس لیتی ہے ۔ یہ قرضدار کے لئے بھی رحمت ہے اور قرض خواہ کے لئے بھی رحمت ہے ۔ اور اس پورے معاشرہ کے لئے بھی رحمت و شفقت ہے ۔ جس میں یہ دونوں رہتے ہیں ۔
ہمیں یقین ہے دور حاضر کی مادی جاہلیت کے زیر سایہ پلنے والے جدید مفلوک الحال لوگ ہماری یہ باتیں لایعنی تصور کریں گے اور یہ باتیں انہیں نامعقول نظر آئیں گی ۔ ان کے منہ کا بگڑا ہوا ذائقہ ، ان باتوں کے مٹھاس کا احساس ہر گز نہیں کرسکتا ۔ خصوصاً وہ وحشی سود خوارجو اس کرہ ارض کے کونے کونے پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ جو اپنے شکار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں ۔ جو ایسے محتاجوں اور مفلوک الحال لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ چکے ہیں ۔ جو روٹی کپڑے اور علاج معالجے کے ضرورت مند ہیں ۔ تاکہ ان کا استحصال کریں ۔ بعض اوقات ان کے پاس اس قدر رقم نہیں ہوتی کہ وہ اپنے مردے دفن کرسکیں اور ان لوگوں کو اس کنجوس اور بخیل دنیا میں کوئی نہیں ملتا ۔ جو ان کے لئے بےلوث معاون ثابت ہو ۔ اس لئے وہ مجبور ہوکر ان وحشی سودخوروں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ ان کی حالت ایک ایسے شکار جیسی ہوتی ہے جو خودچل کر دام میں اپنے آپ کو پھنساتا ہے ۔ ضرورتمندی اور مجبوری انہیں دھکیل کر ان سودخوروں کی طرف لے جاتی ہے ۔ بعض اوقات یہ سود خور تو ایسے بیت المالوں کی صورت میں منظم ہوتے ہیں جو سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور بعض اوقات بینکوں کی شکل میں کام کرتے ہیں ۔ یہ سب کے سب اسلام کی نظر میں برابر ہیں ۔ ہاں فرق صرف اس قدر ہے کہ ان کی پشت پر سود کی اقتصادی نظریات کی قوت ہوتی ہے ۔ بڑی بڑی علمی کتابیں ان کے اس کاروبار کی تائید میں ہوتی ہیں ۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور انسٹی ٹیوٹ ان کی حمایت میں لگے ہوتے ہیں ۔ عدالتیں اور بڑی بڑی فوجیں اس نظام کی مؤید ہوتی ہیں ۔ یہ تمام ادارے جرم سود خوری کے لئے جواز فراہم کرتے ہیں ، ان کے حامی ان کو تحفظ دینے کے لئے ایک وسیع قانونی نظام اور ضابطے کا کررہے ہوتے ہیں اور مددگار ہوتے ہیں ۔ اور جو لوگ انہیں سود ادا نہیں کرتے ۔ اس قانونی نظام کے ذریعہ وہ ان کی پکڑ دھکڑ شروع کردیتے ہیں ۔ اور یہ سب داروگیر نصاف کے نام پر ہوتی ہے ۔
ہمیں پورا یقین ہے کہ ہماری یہ باتیں ہرگز ایسے لوگوں کے دلوں میں نہیں اترتیں ۔ لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حق ہے اور ہمیں بھی یہ یقین ہے کہ تمام انسانیت کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ ان باتوں پر کان دھرے ، اور ان پر عمل کرے یعنی وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ……………. ” تمہارا قرضدار اگر تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو ، اور جو صدقہ کرو تمہارے لئے یہ بہتر ہے ۔ اگر سمجھو۔ “
اسلامی نظام زندگی میں ضابطہ یہ ہے کہ تنگ دست کا تعاقب نہ کیا جائے ۔ نہ تو قرض خواہ یہ کرے گا اور نہ ہی قانون اور عدالتوں کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ تنگ دست مقروض کا تعاقب کریں ۔ بلکہ اسے اس وقت تک مہلت دی جائے گی جب تک اس کے حالات اچھے نہیں ہوجاتے ۔ پھر اسلامی سوسائٹی مقروض کو اپنے حال پر نہیں چھوڑتی ۔ پہلے تو قرض خواہ سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اسے معاف کردے ۔ اگر وہ ایسا کرسکے ۔ وہ خود اس کے لئے بھی بہتر ہے اور مدیوں کے لئے بھی خیر ہے۔ یہ اس سوسائٹی کے لئے بھی بہتر ہے جو اپنے افراد کے لئے تکافل فراہم کرتی ہے ۔ بشرطیکہ داین ومدیون دونوں اس بات کو سمجھیں کہ اللہ کے علم میں جو کچھ ہے وہ ان کے لئے مفید ہے ۔
اگر قرض خواہ کو یہ اجازت دیدی جائے کہ وہ مدیون پر عرصہ حیات تنگ کردے اور اس کا تعاقب کرے تو اس صورت میں تحریم ربا سے جو فوائد مطلوب تھے ، وہ سب فوت ہوجائیں گے ۔ اس لئے کہ مدیون تنگ دست ہے اس کے پاس کچھ نہیں ۔ دوسری جانب سے قرض خواہ ازروئے قانون اسے تنگ کرنے کا مجاز ہے ۔ چناچہ یہاں شرط و جواب شرط کی شکل میں یہ حکم دیا گیا کہ اگر تنگ دست ہے تو اسے اس وقت تک مہلت دی جائے جب تک اس کے مالی حالات اچھے نہیں ہوجاتے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تنگدستی کی صورت میں قرض خواہ کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ اگر وہ ایسی صورت میں کچھ معاف کردے یا سب کچھ معاف کردے تو اس کے لئے یہ بہت اچھا ہے ۔
مہلت کے علاوہ قرآن کریم نے دوسری جگہ ایسے نادار قرض داروں کے لئے زکوٰۃ فنڈ سے بھی ایک مد فراہم کی ہے ، تاکہ وہ اپنا قرضہ ادا کرسکے ۔ اور اس کی زندگی کا بوجھ اترجائے۔ اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلفُقرَآءِ وَالمَسَاکِینِ…….. وَالغَارِمِینَ……………. ” بیشک صدقات کے حق دار فقراء مساکین ،…….. اور قرضدار ہیں ۔ “ الغارمین سے مراد وہ قرضدار ہیں جو قرضوں کے بوجھ تلے دب گئے ہوں ۔ وہ نہیں جنہوں نے قرضے لے کر عیاشی اور لذت پرستی کی ہو ۔ بلکہ انہوں نے جائز مدات میں اخراجات کئے ہوں یا وہ معقول وجوہ کی بنا پر قرضدار ہوگئے ہوں ۔ اور ان کے حالات خراب ہوگئے ہوں۔
اب آخر میں قرآن کریم ۔ خاتمہ کلام پر ، ایک نہایت موثر اور گہرا اشارہ دیتا ہے جس سے ایک مومن پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے ۔ وہ تمنا کرنے لگتا ہے کہ کاش وہ سب ہی قرضہ معاف کردے ۔ اور قیامت کے دن اللہ کے ہاں فلاح پالے ۔
یہ وہ دن ہوگا ، جس میں سب اللہ کی طرف لوٹیں گے اور ہر شخص کو اس کی کمائی پوری پوری دی جائے گی ۔ وہ دن بڑا مشکل ہوگا۔ اس دن کی بابت دل مسلم میں بڑا خوف پایا جاتا ہے ۔ مومن کے ضمیر کی گہرائیوں میں شاید قیامت کا نقشہ اور اس کی ہولناکیاں موجود ہوتی ہیں ۔ اس لئے کہ باری تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کا تصور ہی اس قدر خوفناک ہوتا ہے کہ اس سے انسان کا پورا وجود کانپ اٹھتا ہے ۔ یہ خاتمہ کلام ایسا ہے جو مذکورہ معاملات کی فضا کے ساتھ متناسق ہے ۔ یہ فضا لینے اور دینے کی فضا ہے ۔ کسب اور جزاء کی فضا ہے ۔ اس فضا میں انسان کی پوری زندگی کا تصفیہ ہورہا ہے ۔ انسان کی پوری زندگی کے فیصلے کی فضا ہے ۔ اس فضا سے دل مومن خائف ہوتا ہے اور اپنے آپ کو اس کی ہولناکیوں سے بچاتا ہے ۔
تقویٰ اور خدا خوفی وہ چوکیدار ہے جو انسانی ضمیر کی گہرائیوں میں بیٹھا ہوتا ہے ۔ اسلام ہر مومن کے دل کی گہرائیوں میں یہ چوکیدار بٹھا دیتا ہے۔ تاکہ دل مومن کے فرار کی کوئی راہ ہی نہ رہے ۔
یہ ہے اسلامی نظام جو ایک مضبوط اور قوی نظام ہے ۔ یہ ایک سنجیدہ اور زندگی سے بھرپور نظام زندگی ہے اور ایسا نظام ہے جو اس کرہ ارض پر عملاً چلنے کے قابل ہے ۔ انسانیت کے لئے یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ورأفت ہے ۔ یہ انسانیت کے لئے ایک اعزا ہے ۔ یہ ایک ایسی بھلائی ہے جس سے انسانیت کو دور رکھا جارہا ہے ۔ اور اللہ کے دشمن اور انسانیت کے دشمن انسانوں کو اس کی طرف آنے سے روکتے ہیں۔

سورہء آل عمران
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ١٣٠؁ۚ
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ١٣١؁ۚ

اے ایمان لانے والو ! یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو ‘ امید ہے کہ فلاح پاؤگے ۔
اس آگ سے بچو جو کافروں کے لئے مہیا کی گئی ہے
یہ تمام ہدایات یہاں عین اس وقت جاری ہیں کہ سیاق کلام میں جنگی معرکہ پر بحث شروع ہونے والی ہے ۔ اور ان سے یہاں اسلامی نظریہ حیات کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت کی طرف اشارہ مطلوب ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات انسانی شخصیت اور اس کی سرگرمیوں کو ایک جامع نقطہ نظر سے دیکھتا ہے ۔ اور انسان اور اس کی تگ ودو کو ایک ہی محور کے گرد گھماتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی پوری زندگی میں اللہ وحدہٗ لاشریک کی اطاعت اور پرستش کرنی ہے ۔ ہر معاملے میں صرف اس کی طرف متوجہ ہونا ہے ۔ اور صرف اسلامی نظام حیات ہی پوری زندگی پر حاوی کرنا ہے اور انسانی شخصیت کے تمام احوال اور تمام حالات پر اسلامی نظام حیات کو غالب کرنا ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں میں اسے رائج کرنا ہے۔ اس کے بعد یہ ہدایات انسانی زندگی کی بوقلمونیوں کے درمیان اس ربط کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور سعی انسانی کے آخری نتائج میں اس ربط کے اثرات بھی بیان کئے جاتے ہیں ‘ جیسا کہ اس سے قبل ہم بیان کر آئے ہیں ۔
اسلامی نظام زندگی نفس انسانی کے ہر پہلو کو اپنی گرفت میں لیتا ہے ‘ وہ جماعت مسلمہ کی زندگی کو پوری طرح منظم کرتا ہے ۔ وہ اس کے درمیان بخرے بخرے کرکے کوئی فیصلہ نہیں کرتا ۔ اس لئے وہ میدان کارزر کے لئے سازوسامان بھی تیار کرتا ہے اور افراد کار کے اندر صلاحیت جنگ بھی پیدا کرتا ہے ۔ وہ اہل ایمان کے دلوں کو بھی پاک کرتا ہے ۔ ان کے ذہنوں کی تطہیر کرتا ہے ‘ انسان کے اندر ایسی اخلاقی قوت پیدا کرتا ہے کہ وہ ہوائے نفس اور جسمانی خواہشات پر قابو پاسکیں ۔ جماعت مسلمہ کے اندر محبت ‘ ملنساری پیدا کی جاتی ہے اور یہ تمام اوصاف ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں ۔ جب ہم ان تمام خصوصیات پر تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے اور ان ہدایات میں سے ہر ایک کی تفسیر کریں گے تو معلوم ہوگا کہ تمام اوصاف وہدایات کا جماعت مسلمہ کی عملی زندگی کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ اور یہ اوصاف میدان جنگ اور میدان حیات دونوں میں جماعت مسلمہ کی تقدیر کے ساتھ مربوط ہیں ۔
سود اور سودی نظام معیشت پر بحث فی ظلال القرآن پارہ سوئم میں تفصیل کے بیان ہوچکی ہے ۔ اس لئے یہاں ہم اس پوری بحث کو دہرانا مناسب نہیں سمجھتے ۔ لیکن یہاں اضعاف مضاعفہ کے الفاظ پر غور کرنا مناسب ہوگا۔ اس لئے کہ ہمارے زمانے کے بعض لوگ ان الفاظ کی آڑ لے کر یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ جو چیز حرام کی گئی ہے وہ اضعاف مضاعفہ ہے ۔ رہا وہ سود جو چار فیصد ہو ‘ پانچ فیصد ہو ‘ سات فی صد ہو ‘ نوفی صد ہو تو وہ اضعاف مضاعفہ نہیں ہے ‘ لہٰذا وہ حرام نہیں ہے ۔
اس کی تردید میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ اضعاف مضاعفہ کی قید دراصل نزول قرآن کے وقت موجود واقعی صورتحال کا اظہار کرتی ہے ‘ یہ قید اس حکم کو محدود اور مشروط نہیں کرتی ۔ سورة بقرہ میں جو آیت وارد ہے وہ قطعی ہے ۔ اور ربا کی ہر صورت کو حرام قرار دیتی ہے ۔ اس لئے اس میں کوئی قید وحد نہیں ہے ۔ وہاں یہ الفاظ نہیں وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا…………… ” سود میں سے جو کچھ باقی ہے اسے چھوڑدو۔ “ چاہے وہ سود جس شرح سے بھی ہو۔ “
اس اصولی بحث کے بعد اب ہم بتائیں گے کہ ربا کے ساتھ اس صفت اضعاف مضاعفہ کی قید کیوں عائد کی گئی ہے ؟ صرف یہ کہ یہ صفت سودی نظام کی تاریخ کی طرف اشارہ کررہی ہے جس میں سودی کاروبار دوچند چہار چند شرح سے کیا جاتا تھا۔ بلکہ یہ بتاتی ہے کہ سود کی شرح جو بھی ہو سود کے تباہ کن نظام کے ساتھ یہ صفت اضعاف مضاعفہ ایک لازم صفت ہے ۔
سودی نظام کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی سوسائٹی میں پوری دولت کی گردش اس نظام کے مطابق شروع ہوتی ہے ‘ اس لئے سودی کاروبار میں سرگرمیاں سود مفرد کی طرح سادہ سرگرمیاں نہیں ہوتیں۔ اس گردش کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس نظام میں مال کی منتقلی بار بار ہوتی رہتی ‘ اس لئے وہ سود مرکب میں تبدیل ہوجاتا ہے ‘ اس لئے بار بار سودی چارج کی وجہ سے بالآخر سود کی رقم کئی گنا ہوجاتی ہے ۔ اور وہ بلاجدال اضعافاً مضاعفہ بن جاتی ہے ۔ اس لئے اپنے مزاج کے اعتبار سے سودی نظام میں دولت دوگنی چوگنی بنتی جاتی ہے۔ اس لئے اضعاف مضاعفہ کا اطلاق اس صورت حال کے اندر منحصر نہ ہوگا جو نزول قرآن کے وقت عرب سوسائٹی میں مروج تھی بلکہ ہر دور میں ہر قسم کے سودی نظام کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ دوگنا چوگنا ہوتا رہتا ہے۔
اور جیسا کہ ہم نے تیسرے پارے میں تفصیلات دی ہیں ‘ اس نظام کی خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ لوگوں کی نفسیات اور اخلاق پوری طرح بگاڑ دیتا ہے ۔ نیز یہ نظام ملک کی اقتصادی اور سیاسی صورت حال کو بھی پوری طرح خراب کردیتا ہے ۔ اس لئے اس سودی نظام کے اثرات امت کی اجتماعی زندگی پر پڑتے ہیں اور امت کے انجام پر اس کے اثرات ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے تیسرے پارے میں ذکر کیا ہے۔
اسلام جس وقت امت مسلمہ کی تخلیق کررہا تھا ‘ وہ اس امت کے لئے ایک اخلاقی اور نفسیاتی نظام حیات کی بنیاد بھی رکھ رہا تھا ‘ وہ اس نئی امت کی سیاسی اور اقتصادی زندگی کو بھی صحت مندانہ اصولوں پر استوار کررہا تھا ‘ اس سلسلے میں اس نئی امت کو معرکے درپیش ہوئے اور ان کے جو اثرات مرتب ہوئے وہ تاریخ اسلام کے معروف ومشہور واقعات ہیں ‘ اس لئے جنگی واقعات کے درمیان میں اچانک حرمت ربا کا ذکر بھی قابل فہم ہے اس لئے کہ اسلامی نظام حیات ایک جامع اور حکیمانہ نظام ہے ۔ نیز ربا کی ممانعت کے بعد یہ کہنا کہ اللہ سے ڈرو اور یہ امید رکھو کہ تم پر رحم کیا جائے گا اور پھر یہ کہنا کہ اس آگ سے اپنے آپ کو بچاؤ جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ‘ یہ دونوں باتیں بھی اس نقطہ نظر سے قابل فہم ہوجاتی ہیں ۔
مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی اللہ سے ڈرتا ہو اور اس کے دل میں اللہ کا خوف ہو وہ ہرگز سود نہیں کھاسکتا ‘ نیز جس شخص کے دل میں عذاب جہنم کا خوف ہو ‘ وہ بھی ہر گز سود خور نہیں ہوسکتا ۔ بالفاظ دیگر جو شخص بھی ایمان رکھتا ہو اور اپنے آپ کو کافروں کی لائن سے نکالنا پسند کرتا ہو وہ کبھی سود خور نہیں ہوسکتا ۔ ایمان صرف خالی خولی باتوں کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اسلامی نظام حیات کے قیام اور پوری زندگی کو اسلام کے رنگ میں رنگنے کے لئے ایمان کو ہر اول دستہ قرار دیا گیا ہے۔
یہ بات محال ہے کہ ایمان اور سودی نظام ایک جگہ جمع ہوجائیں جہاں سودی نظام قائم ہوگا ‘ وہ سوسائٹی پوری کی پوری دین اسلام سے خارج تصور ہوگی اور اس کا انجام اس آگ میں ہوگا جسے فی الحقیقت کافروں کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔ اس مسئلے میں جو بھی بحث کی جائے وہ غیر ضروری بحث ہوگی ‘ اس لئے کہ اس آیت میں پہلے سودی کاروبار کی ممانعت کی گئی ہے ۔ اس کے بعد اہل ایمان کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ اللہ کا خوف کریں اور اس حکم پر عمل کریں اور اس آگ سے بچیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ یہ مضمون اس نہج پر بےمقصد نہیں لایا گیا نہ اتفاقیہ طور پر اس طرح بیان کردیا گیا ہے ۔ یہ سب ہدایات بامقصد ہیں ‘ بطور تاکید لائی گئی ہیں اور مسلمانوں کے ذہن میں اس حقیقت کو اسی مفہوم میں بٹھانا مقصود ہے ۔
انہیں یہ امید دلائی گئی ہے کہ اگر وہ سودی کاروبار ترک کردیں گے تو وہ امید کرسکتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوں گے ‘ اس لئے کہ کامیابی صرف اللہ کے تقویٰ کے نتیجے میں مل سکتی ہے ۔ تقویٰ کا طبعی انجام فلاح ہے۔ اور فلاح اس لئے کہ انسانوں کی زندگی میں اسلامی نظام قائم کیا جائے ۔ پارہ سوئم میں ہم تفصیل سے بیان کر آئے ہیں کہ اس منحوس سودی نظام نے انسانی معاشروں کو کس طرح تباہ کیا ہے ۔ اور پوری انسانیت کو اس نظام نے کن کن مصائب میں مبتلا کئے رکھا ہے ۔ مناسب ہے کہ پارہ سوئم میں دی گئی مباحث کو ایک بار پھر ذہن نشین کرلیاجائے تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ اسلامی نقطہ نظر سے فلاح کا تصور کیا ہے اور یہ کہ کس طرح فلاح اس بات پر موقوف ہے کہ ہم اس خبیث سودی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔

سورۃالنساء
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا ١٦٠؀ۙ
وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ١٦١؁

غرض ان یہودیوں کے اسی ظالمانہ رویے کی بناء پر اور اس بناء پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں
اور سود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں ‘ ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کیلئے حلال تھیں ‘ اور وہ لوگ جو ان میں سے کافر ہیں ان کیلئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

(آیت) ” فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم طیبت احلت لھم وبصدھم عن سبیل اللہ کثیرا ‘(١٦٠) واخذھم الربوا وقد نھو عنہ واکلھم اموال الناس بالباطل واعتدنا للکفرین منھم عذابا الیما (١٦١) (٤ : ١٦٠۔ ١٦١)

(۔ غرض ان یہودیوں کے اسی ظالمانہ رویے کی بناء پر اور اس بناء پر کہ یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ‘ اور سود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں ‘ ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کیلئے حلال تھیں ‘ اور وہ لوگ جو ان میں سے کافر ہیں ان کیلئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ )
چناچہ اس آیت کے ذریعے ان کے سابقہ منکرات میں کچھ مزید منکرات کا اضافہ کردیا گیا ۔ اور یہ بتا دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں سے لوگوں کو روکنے کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہیں ہے ۔ گویا وہ رات دن ایسی کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ نیز یہ رات دن سودی کاروبار میں لگے رہتے ہیں اور یہ کام وہ محض کم علمی کی وجہ سے نہیں کر رہے یا یہ کہ انہیں اس سلسلے میں متنبہ نہیں کیا گیا ‘ بلکہ انہیں صاف الفاظ میں اس سے روکا گیا تھا لیکن انہوں نے پھر بھی اس پر اصرار کیا اور لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھاتے رہے ۔ یہ ربا کے ذریعے بھی کھاتے رہے اور دوسرے ذرائع سے بھی ۔
ان منکرات اور اس سے پہلی سورتوں میں مذکورہ جرائم کی وجہ سے اللہ نے ان پر بعض حلال چیزوں کو حرام کردیا جوان کیلئے حلال تھیں اور یہ کہ اللہ نے کافروں کیلئے سخت دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
یہودیوں کے خلاف اس مہم میں یہودیوں کے چہرے سے نقاب اتار کر پھینک دیا گیا ‘ اور اس ان کے تاریخ سے بعض واقعات بھی پیش کئے گئے تاکہ معلوم ہو کہ ان کی تاریخ کیا ہے ۔ ان کی بہانہ سازیوں اور ان کی ہٹ دھرمی کا پردہ چاک کیا کیا اور یہ بتایا گیا کہ وہ کسی طرح مان کردینے والے نہیں ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنے قائد ‘ اپنے نجات دہندہ اور اپنے عظیم نبی کے ساتھ یہی رویہ اختیار کئے رکھا ان کی عادت یہ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ صالحین اور انبیاء کے ساتھ برے سلوک اور ان کے خلاف بدگوئی کرنے میں بہت ہی جری وسریع رہے ہیں ۔ وہ انبیاء کو بھی قتل کرتے رہے ہیں اور پھر ندامت کے بجائے اس قتل پر فخر کرتے رہے ہیں ۔ ان جملوں کے نتیجے میں ‘ یہودیوں کے مکروفریب کا جال تار تار ہوگیا جو انہوں نے اسلامی صفوں کے خلاف بچا رکھا تھا ۔ ان کی سازشیں ناکام ہوگئیں اور مسلمانوں کے ساتھ انکی خفیہ دوستیاں کٹ گئیں ۔ یوں اہل اسلام نے یہودیوں کے اصل مزاج کو اچھی طرح جان لیا۔ اسلام کے خلاف ان کی سازشوں اور ان میں استعمال ہونے والے وسائل وذرائع کو پہچان لیا ۔ اس بات کا انہیں علم ہوگیا کہ وہ کس طرح ہر سچائی کے مقابلے میں جتھہ بندی کرلیتے ہیں چاہے یہ سچائی خود ان کے اندر انکی اپنی صفوں سے اٹھے یا ان سے باہر دوسری اقوام کے اندر پائی جائے ۔ اس لئے کہ وہ ہمیشہ سچ اور اہل حق کے دشمن رہے ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہدایت اور ہادیوں کی بیخ کنی کرتے رہے ہیں ۔ ہر دور میں اور ہر زمانے میں وہ یہ کام کرتے رہے ہیں ۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ تو ان کا یہ رویہ بہرحال تھا ہی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں ‘ اس لئے ہر دور میں ہر اسلامی تحریک اور اسلامی سوسائٹی کا یہ فرض ہے کہ وہ یہودیوں سے چوکنا رہے اس لئے کہ ان کی جبلت ہی ایسی ہے کہ وہ ذاتی طور پر سچائی کے دشمن ہیں ۔ ان کے دل کے اندر حق کی دشمنی بھری ہوئی ہے ۔ ان کے کلیجے سخت ہوگئے ہیں ۔ وہ اپنے سر صرف اس شخص کیلئے جھکاتے ہیں جو ان پر ڈنڈے برسائے اور وہ سچائی کو تب تسلیم کرتے ہیں جب ان کے سروں پر تلوار لٹک رہی ہو ۔
اس قسم کے لوگوں کا یہ تعارف صرف اس جماعت اسلامی کیلئے نہ تھا جو مدینہ طیبہ میں کام کر رہی تھی اس لئے کہ قرآن اس امت کے لئے گائیڈ ہے جب تک کہ یہ امت موجود رہے گی ۔ اگر قرآن سے یہ امت اپنے دشمنوں کے بارے میں ہدایات لینا چاہے تو اس میں اسے ہدایات مل جائیں گی ، اس سے جب بھی یہ امت کوئی نصیحت لینا چاہے یہ کتاب اسے نصیحت دیتی ہے ۔ اس کتاب نے امت کو یہودیوں کے بارے میں ہدایت دی ۔ نصیحت کی اور فہم دیا تو اس کے نتیجے میں یہودیوں کی گردنیں مسلمانوں کے مقابلے میں جھک گئیں ۔ جب اس امت نے قرآن مجید کو چھوڑا تو یہ امت یہودیوں کی غلام بن گئی ، ہم دیکھتے ہیں کہ یہ امت پوری طرح جمع ہوتی ہے اور یہودیوں کی ایک مختصر جمعیت اس پر غالب آجاتی ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ اپنی کتاب اور گائیڈ بک سے غافل ہے ۔ وہ قرآن کی ہدایات سے دور بھاگ رہی ہے ۔ اس نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے ۔ اور یہ امت فلاں اور فلاں کے اقوال کی اطاعت کر رہی ہے ۔ یہ امت اسی طرح یہودی سازش کا شکار رہے گی اور اسی طرح وہ یہودیوں کے عتاب میں رہے گی جب تک وہ قرآن کی طرف نہیں لوٹتی ۔
یہ بیان اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک یہودیوں میں سے نکل کر آنے والے بعض اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کردی جاتی اور ان کی جرات راندانہ کہ تعریف کی جاتی ہے کہ چھلانگ لگا کر نکل آئے اور سچائی کو قبول کرلیا ۔ قرآن کریم ان لوگوں کے علم و ایمان کی تصدیق کرتا ہے جن کی وجہ سے وہ اہل اسلام میں داخل ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ دین کو قبول کیا ۔ یہ علم وہ تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترا اور جو آپ سے قبل انبیاء پر اترا تھا ۔ وہ اس علم میں زیادہ رسوخ رکھتے تھے جس کی وجہ سے ایمان لے آئے۔

سورۃالروم
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ 39؀

جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے ، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا ، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو ، اسی کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں