امام جلال الدین سیوطی

سورۃ البقرہ
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٧٥؁
يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ٢٧٦؁
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٢٧٧؁
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٧٨؁
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ٢٧٩؁
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٢٨٠؁
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٢٨١؁ۧ

جو لوگ گھاتے ہیں سود وہ نہیں کھڑے ہوں گے مگر جیسے کہ کھڑا ہوتا ہے وہ شخص جسے شیطان لپٹ کر مخبوط بنا دے، یہ اس لئے کہ انہوں نے کہا کہ بیع تو سود ہی کی طرح سے ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال قرار دیا اور سود کو حرام قرار دیا، سو جس کے پاس آگئی نصیحت اس کے رب کی طرف سے پھر وہ باز آگیا تو اس کے لئے وہ ہے جو گزر چکا، اور اس کا معاملہ اللہ کی طرف ہے اور جو شخص پھر عود کرے سو یہ لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ مٹاتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے صدقات کو، اور اللہ دوست نہیں رکھتا کسی کفر کرنے والے، گناہ کرنے والے کو۔
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی سو ان کے لئے ان کا ثواب ہے ان کے رب کے پاس نہ وہ خوفزدہ ہوں گے اور نہ غمگین۔
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ، اگر تم ایمان والے ہو،
پس اگر تم نہ کرو تو جنگ کا اعلان سن لو اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے، اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لئے اصل مال ہیں نہ تم ظلم کرو گے نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینا ہے آسودہ ہوجانے تک، اور یہ بات کہ تم صدقہ کر دو تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔
اور ڈرو تم اس دن سے جس میں لوٹائے جاؤ گے اللہ کی طرف، پھر ہر جان کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا جو کچھ اس نے کسب کیا، اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

سود خوری کی مذمت
(١) ابو یعلی نے کلبی کے طریق سے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الذین یاکلون الربوا لا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطن من المس “ سے مراد ہے کہ وہ لوگ اس کے ساتھ قیامت کے دن پہچانے جائیں گے وہ کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جیسے خبطی اور گلا گھٹا ہوا کھڑا ہوتا ہے۔ (پھر فرمایا) لفظ آیت ” ذلک بانہم قالوا انما البیع مثل الربوا “ (یعنی یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے کہا خریدو فروخت سود کی طرح ہے) اور انہوں نے (یہ کہہ کر) اللہ پر جھوٹ بولا ( پھر فرمایا) لفظ آیت ” واحل اللہ البیع وحر م الربوا “ (یعنی اللہ تعالیٰ نے خریدو فروخت کو حلال فرمایا اور سود کو حرام فرمایا) اور جو آدمی (حرام ہونے کے بعد) پھر سود کھائے گا لفظ آیت ” فاولئک اصحب النار ہم فیھا خلدون “ یعنی یہی لوگ (دوزخ والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے) اور اس آیت ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا “ کے بارے میں ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت قبیلہ بنو ثقیف کے بنو عمرو بن عوف اور قبیلہ بنو مخزوم کے بنو صغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی اور بنو صغیرہ سود لیتے تھے ثقیف والوں سے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ پر غلبہ عطا فرمایا اور اس دن تمام سود ختم کر دئیے گئے طائف والوں نے اس شرط پر صلح کرلی کہ ان کے لیے سود ہوگا اور جو ان پر سود ہے وہ ختم ہوگا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی کتاب کے آخر میں یہ لکھ دیا کہ ان کے لیے وہ تمام حقوق ہیں جو مسلمانوں کے لیے ہے اور ان پر دہ تمام واجبات ہوں گے جو مسلمانوں پر ہے کہ وہ نہ سود کھائیں گے اور نہ کھلائیں گے (اس کے بعد) بنو عمر و بن عمیرہ بنو صغیرہ کے ساتھ عتاب بن اسید (رض) کے پاس آئے جو مکہ کے حکمران تھے بنو صغیرہ نے کہا ہم نے لوگوں سے سود ختم کردیا بنو عمرو بن عمیر نے کہا انہوں نے ہم سے اس بات پر صلح کرلی کہ ہمارے لیے ہمارا سود ہوگا عتاب بن اسید (رض) نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لکھ کر بھیجی تو اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں لفظ آیت ” فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب “ آخر تک۔
(٢) الاصبہانی نے ترغیب میں انس (رض) سے کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سود کھانے والا قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے عضو بیکار ہوں گے اور اپنی دونوں جانبوں کو کھینچ رہا ہوگا پھر یہ آیت آپ نے تلاوت فرمائی لفظ آیت ” لا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطن من المس “۔
(٣) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ سود کھانے والا قیامت کے دن مجنون اور گلا گھٹے ہوئے کی طرح اٹھایا جائے گا۔
(٤) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن المنذر نے وجہ آخر سے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ اس وقت ہوگا جب وہ اپنی قبر سے اٹھایا جائے گا۔
(٥) ابن ابی الدنیا اور بیہقی (رح) نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ ارشاد فرمایا اور سود کا قبیح ہونا بیان فرمایا پھر فرمایا ایک آدمی سود میں سے ایک درہم پاتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی آدمی کا چھتیس بار زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے اور سب سے بڑھ کر سود کسی مسلمان کی ناحق عزت بگاڑتا ہے۔
(٦) عبد الرزاق، ابن ابی الدنیا، اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا کہ عبد اللہ بن سلام (رض) نے فرمایا کہ خوری بہتر گناہوں کے برابر ہے سب سے چھوٹا گناہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص مسلمان ہوتے ہوئے اپنی ماں سے زنا کرے۔ اور سود کا ایک درہم تیس سے زائد مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے پھر فرمایا قیامت کے دن نیک اور گنہگار لوگوں کو کھڑے ہونے کی اجازت دی جائے گی مگر سود کھانے والے کو نہیں کیونکہ وہ کھڑے نہیں ہو سکیں مگر اس شخص کی طرف جس کو شیطان نے چھونے سے خبطی بنا دیا ہو۔
(٧) بیہقی نے روایت کیا کہ عبداللہ بن سلام (رض) نے فرمایا کہ سود خوری ستر گناہوں کے برابر ہے اس کا اور سب سے بڑھ کر سود یہ ہے کہ کسی مسلمان بھائی کی ناحق عزت بگاڑے۔
(٨) عبد الرزاق، احمد، اور بیہقی نے روایت کیا کہ کعب (رض) نے فرمایا کہ میں تینتیس (٣٣) مرتبہ زنا کروں گا یہ مجھے زیادہ محبوب ہے اس سے کہ میں ایک درہم سود کا کھاؤں اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ وہ درہم میں نے بطور سود کھایا ہے۔
(٩) طبرانی نے اوسط میں اور بیہقی نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سود کا ایک درہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک چھتیس بار زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے اور فرمایا کہ جس شخص کے گوشت نے حرام مال سے پرورش پائی ہو تو آگ اس کے لیے زیادہ لائق ہے۔
(١٠) حاکم اور بیہقی نے عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سود کے تہتر دروازے ہیں ان میں سے آسان ترین کی مثال یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے بدکاری کرلے اور سب سے بڑھ کر سود یہ ہے کہ کسی مسلمان کی ناحق عزت بگاڑے۔
(١١) حاکم اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سود کے ستر دروازے ہیں (یعنی ستر قسم کے گناہ ہیں) اس میں سے سب سے کم درجے کا گناہ مثل اس آدمی کے ہے جو اپنی ماں پر واقع ہوجائے اور سب سے بڑھ کر یہ سود ہے کہ کسی مسلمان کی ناحق عزت بگاڑے۔
سود کا ایک درہم چھتیس مرتبہ زنا سے بڑا گناہ ہے
(١٢) ابن ابی الدنیا نے کتاب ذم الغیبۃ میں اور بیہقی نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ایک مرتبہ) خطبہ ارشاد فرمایا اور سود کا بڑا گناہ ہونا بیان فرمایا پھر فرمایا کہ ایک درہم جو آدمی کو سود میں سے پہنچتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی آدمی کا چھتیس بار زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے اور سب سے بڑھ کر سود کسی مسلمان کی ناحق عزت بگاڑتا ہے۔
(١٣) الطبرانی نے عوف بن مالک (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان گناہوں سے بچو جن کی مغفرت نہیں کی جاتی مال غنیمت میں خیانت کرنا جو شخص کسی چیز کی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اس کو لے آئے گا اور سود کھانے سے بچو جو شخص سود کھائے گا وہ مجنون اور خبطی ہو کر اٹھایا جائے گا پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” الذین یاکلون الربوا لا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطن من المس “۔
(١٤) ابو عبیدہ اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” الذین یاکلون الربوا لا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطن من المس “ فرمایا کہ یہ قیامت کے دن ایسا ہوگا۔
(١٥) ابن جریر نے ربیع (رح) سے اس آیت میں روایت کیا ہے کہ (وہ لوگ) قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے (اس حال میں) کہ شیطان کے چھونے کی وجہ سے ان کے اعضاء بیکار ہوں گے بعض قراۃ میں یوں ہے لفظ آیت ” لا یقومون یوم القیمۃ “ کہ وہ قیامت کے دن نہیں کھڑے ہو سکیں گے۔
(١٦) عبد الرزاق احمد بخاری اور مسلم اور ابن المنذر نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب سورة بقرۃ کی آخری آیات سود کے بارے میں نازل ہوئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور ان آیات کو لوگوں کے سامنے پڑھیں پھر شراب کی تجارت بھی حرام کردی گئی۔
(١٧) الخطیب نے اپنی تاریخ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب سورة بقرہ نازل ہوئی تو اس شراب کی حرمت بھی نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا۔
(١٨) ابو داؤد اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) حضرت جابر (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” الذین یاکلون الربوا لا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطن من المس “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس آدمی نے مخابرہ (یعنی زمین کو بٹائی پر دینا) نہ چھوڑا تو اس کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگ ہے۔
(١٩) احمد، ابن ماجہ، ابن الضریس، ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سود کی آیت ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تفسیر ہم کو بتلانے سے پہلے اس دنیا سے چلے گئے۔ اس لیے سود اور جس میں سود کا شبہ ہو دونوں کو چھوڑ دو ۔
(٢٠) ابن جریر، ابن مردودیہ نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت کیا کہ انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ نزول کے اعتبار سے آخری آیت ہے۔
(٢١) ابن جریر، ابن مردودیہ نے حضرت عمر بن خطاب (رض) سے روایت کیا کہ انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ قرآن کی آخری آیت نازل ہونے کے اعتبار سے سود کی آیت ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا سے کوچ فرما گئے۔ جبکہ آپ نے ہمارے لیے اس کی وضاحت نہ بیان فرمائی۔ سو چھوڑو تم اس چیز کو جو شک میں ڈالے اور اس چیز کو اختیار کرو جو شک میں نہ ڈالے۔
(٢٢) بخاری، ابو عبیدہ، ابن جریر، بیہقی نے دلائل میں شعبی کے طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ آخری آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائی وہ سود والی آیت ہے۔
(٢٣) بیہقی نے دلائل میں سعید بن المسیب (رح) کے طریق سے روایت کیا کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا آخری آیت جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی وہ سود کی آیت ہے۔
قرض میں زائد رقم وصول کرنا بھی سود ہے
(٢٤) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں کسی آدمی کا قرض ہوتا تھا تو مقروض قرض خواہ سے کہتا تھا میں تجھ کو اتنا زائد دوں گا تو مجھ سے (قرض کو) مؤخر کر دے تو وہ اس سے مؤخر کردیتا تھا۔ یہ سود ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
(٢٥) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا زمانہ جاہلیت میں سود اس طرح سے ہوتا تھا کہ ایک آدمی ایک مدت تک کوئی چیز بیچ دیتا تھا۔ جب مدت پوری ہوجاتی اور قرض دار کے پاس کوئی چیز ادا کرنے کو نہ ہوتی وہ رقم میں اضافہ کردیتا تھا اور قرض کی مدت کو مؤخر کردیتا
(٢٦) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کہ لفظ آیت ” الذین یاکلون الربوا “ یعنی وہ لوگ جو سود کو حلال سمجھ کر کھاتے ہیں لفظ آیت ” لا یقومون “ یعنی وہ کھڑے نہ ہوں گے یعنی قیامت کے دن اور یہ اس وجہ سے ان پر مصیبت آئے گی کیونکہ انہوں نے کہا کہ خریدوفروخت بھی سود کی طرح سے ہے۔ اس کی صورت یہ تھی جب قرض کی ادائیگی کا وقت ہوجاتا تو مقروض قرض خواہ سے یہ کہتا تھا میرے لیے مدت زیادہ کر دے تو میں تیرا مال زیادہ کر دوں گا، جب اس نے ایسا کردیا تو ان سے کہا گیا کہ یہ (زیادہ کرنا) سود ہے، وہ کہتے ہم پر برابر ہے کہ ہم اول بیع میں زیادہ کردیں یا مال کے ادا کرنے کے وقت زیادہ کردیں دونوں صورتیں برابر ہیں (اس پر) اللہ تعالیٰ نے ان کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” واحل اللہ البیع وحرم الربوا فمن جاءہ موعظۃ من ربہ “ (اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا اور سود کو حرام فرمایا سو کون شخص ہے جو اپنے رب کی نصیحت پر آئے) یعنی یہ وہ بیان ہے جو سود کے حرام ہونے کے بارے میں قرآن میں ہے (پھر فرمایا) لفظ آیت ” فانتھی فلہ ما سلف “ یعنی حرمت سود سے پہلے جو کچھ وہ لے چکا ہے وہ اسی کا ہے لفظ آیت ” وامرہ الی اللہ “ (اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے) یعنی حرمت کے بعد اور اس کے ترک کرنے کے بعد بھی۔ اگر چاہے اس سے بچا لے اور اور چاہے تو نہ بچائے۔ لفظ آیت ” ومن عاد “ یعنی جس آدمی نے سود کے حرام کیے جانے کے بعد سود کو زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی وجہ سے حلال کرلیا کہ خریدوفروخت مثل سود کے ہے (پھر فرمایا) لفظ آیت ” فاولئک اصحب النار ہم فیھا خلدون “ (یہی لوگ ہیں دوزخ والے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) اور وہاں ان پر موت طاری نہ ہوگی۔
(٢٧) احمد اور البزار نے رافع بن خدیج (رض) سے روایت کیا پوچھا گیا یا رسول اللہ ؟ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے ؟ آپ نے فرمایا آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہر خرید وفروکت جو (شرعا) قبول ہو۔
(٢٨) مسلم اور بیہقی نے ابو سعید (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھجور لائی گئی آپ نے فرمایا یہ ہماری کھجوروں میں سے تو نہیں ہیں تو آدمی نے کہا یا رسول اللہ ہم نے اپنی دو صاع کھجوروں کے دو صاع اس کھجور کے ایک صاع کے بدلے میں بیچے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ سود ہے اس کو لوٹا دو پہلے اپنی کھجوروں کو بیچو پھر اس کی قیمت سے ہمارے لیے اس سے کھجورخریدو۔
(٢٩) عبد الرزاق اور ابن ابی حاتم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا کہ ایک عورت نے ان سے کہا میں نے ایک غلام زید بن ارقم کو ادھار آٹھ سو میں بیچا ہے پھر زید بن ارقم کو اس غلام کی قیمت کی ضرورت پڑگئی تو میں نے ادھار کی مدت مکمل ہونے سے پہلے اس کو چھ سو میں خرید لیا حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا برا کیا جو تو نے بیچا اور برا کیا جو تو نے خریدا زید (رض) کو یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر اس نے توبہ نہ کی تو جو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کیا تھا اس کو وہ ضائع کر رہے ہیں اس عورت نے کہا آپ مجھے بتائیے اگر میں دو سو چھوڑ دوں اور صرف چھ سو لوں ؟ تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ہاں (یہ ٹھیک ہے) (اور یہ آیت پڑھی) لفظ آیت ” فمن جاءہ موعظۃ من ربہ فانتھی فلہ ما سلف “ (یعنی جس کے پاس اس کے رب کی طرف نصیحت آگئی اور وہ اس سے باز آگیا تو حرمت سود سے پہلے جو کچھ وہ لے چکا ہے وہ اسی کا ہے۔
(٣٠) ابو نعیم نے الحلیہ میں جعفر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے سود کو کیوں حرام فرمایا۔ انہوں نے فرمایا تاکہ لوگ نیکی کرنے سے نہ رک جائیں۔
(١) ابن جریر اور ابن المنذر نے ابن جریج کے طریق سے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یمحق اللہ الربوا “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتے ہیں اور لفظ آیت ” ویربی الصدقت “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھاتے ہیں۔
(٢) احمد ابن ماجہ ابن جریر اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سوداگر چہ زیادہ بھی ہو مگر اس کا انجام کمی کی طرف جائے گا۔
(٣) عبد الرزاق نے معمر (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم نے یہ بات سنی ہے سود خور پر چالیس سال نہیں گذرتے تو وہ سود خود مٹ جاتا ہے۔
صدقہ کا اجر بڑھتا رہتا ہے
(٤) عبد الرزاق، عبد بن حمید، اور بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص حلال کمائی میں سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ حلال کمائی کو ہی قبول فرماتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے داہنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور اس کو بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی ایک اپنے بچھڑے کو پالتا ہے اور یہاں تک کہ وہ (صدقہ) احد پہاڑ کے برابر ہوگا (قیامت کے دن) ۔
(٥) شافی، احمد، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید اور ترمذی نے (اس کو صحیح کہا) ابن جریر، ابن خزیمہ ابن المنذرابن ابی حاتم اور دار قطنی نے الصفات میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ صدقہ قبول فرماتے ہیں اور اس کو اپنے داہنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں پھر اس کو بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی ایک اپنے بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ ایک صدقہ کا لقمہ احد پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں ہے لفظ آیت ” الم یعلموا ان اللہ ھو یقبل التوبۃ عن عبادہ ویاخذ الصدقت “ اور ” یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقت “۔
(٦) البزار، ابن جریر، ابن حبان اور طبرانی نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تبارک وتعالیٰ صدقہ کو قبول فرماتے ہیں اور صدقہ میں قبول نہیں فرماتا مگر پاکیزہ کو اور صدقہ کرنے والے کے لیے اس کو بڑھاتے رہتے ہیں جیسا کہ تم میں سے کوئی گھوڑے کے بچے اور اونٹ کے بچے کو پالتا ہے یہاں تک کہ ایک لقمہ احد کے برابر ہوجاتا ہے اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں ہے یعنی لفظ آیت ” یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقت “۔
(٧) الحکیم الترمذی نے نوادر الاصول میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ مومن ایک کھجور یا اس کے برابر پاکیزہ حلال مال میں سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ حلال مال کو ہی قبول فرماتے ہیں پھر وہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں آجاتا ہے اور وہ اس کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جیسا کہ تم میں سے کوئی اونٹ کے بچے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ بڑا ٹیلہ بن جاتا ہے تم یہ آیت پڑھو لفظ آیت ” یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقت “
(٨) ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یمحق اللہ الربوا “ سے مراد ہے سود دنیا میں بڑھتا ہے اور زیادہ ہوتا ہے لیکن اس کو اللہ تعالیٰ آخرت میں مٹا دیں گے اور اس میں سے اپنے مالک کے لیے کچھ نہ بچے گا اور لفظ آیت ” ویربی الصدقت “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے سے کہتے ہیں جس پر صدقہ کیا گیا تھا اس تک پہنچنے سے پہلے اور اللہ تعالیٰ برابر اس کو بڑھاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب صدقہ کرنے والا اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اس کو دے دیں گے صدقہ کھجور کا ہو یا اس طرح کا کوئی اور ہو اللہ تعالیٰ برابر اس کو بڑھاتے رہتے ہیں یہا (١) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا “ عباس بن عبد المطلب اور بنو صغیر کے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی زمانہ جاہلیت میں دونوں سود (کے کاروبار) میں شریک تھے یہ دونوں قبیلہ ثقیف کے لوگوں کو سود پر ادھار دیتے تھے ثقیف سے مراد بنو عمر وبن عمیر ہیں (جب) اسلام آیا تو ان دونوں کا سود پر دیا ہوا مال بہت زیادہ مال تھا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتار دی لفظ آیت ” وذروا ما بقی “ یعنی چھوڑدو جو زمانہ جاہلیت کا بچا ہوا ہے لفظ آیت ” من الربوا “ یعنی سود میں سے۔
(٢) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اتقوا وذروا ما بقی من الربوا ان کنتم مؤمنین “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ قبیلہ ثقیف والوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر صلح کی کہ جن لوگوں نے ان کو سود دینا ہے وہ انہیں ملے گا اور جن لوگوں کا ان پر سود ہے وہ ختم ہوجائے گا جب مکہ فتح ہوا تو عتاب بن اسید (رض) کو مکہ کا امیر بنایا گیا اس وقت بنو عمرو بن عوف بنو صغیرہ سے سود لیتے تھے اور بنو صغیرہ ان کو زمانہ جاہلیت میں سود دیتے تھے جب اسلام کا دور آیا تو بنو عمرو بن عمیر کی بنی مغیرہ پر بہت زیادہ رقم تھی تو بنو عمرو نے اپنے سود کا مطالبہ کیا بنو صغیرہ نے اسلام (کے زمانہ) میں ان کو سود دینے سے انکار کردیا یہ معاملہ عتاب بن اسید (رض) کی طرف لے جایا گیا عتاب (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لکھا تو (اس پر) نازل ہوا لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا سے ولا تظلمون “ تک۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عتاب کی طرف (یہ آیتیں) لکھ کر بھیجیں۔ اور فرمایا اگر وہ لوگ (اللہ کے حکم پر) راضی ہوجائیں (تو ٹھیک ہے) ورنہ ان کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے۔
(٣) عبد بن حمید، اور ابن جریر نے ضحاک (رح) سے لفظ آیت ” وذروا ما بقی من الربوا “ کے بارے میں روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں آپس میں سود کا لین دین ہوتا تھا۔ جب وہ لوگ اسلام لے آئے تو ان کو ان کے اصل مال لینے کا حکم دیا گیا۔
(٤) آدم، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم، اور بیہقی نے اپنی سنن میں مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا “ کے بارے میں آپس میں سود کا لین دین ہوتا تھا۔ جب وہ لوگ اسلام لے آئے تو ان کو ان کے اصل مال لینے کا حکم دیا گیا۔
(٥) مالک اور بیہقی نے اپنی سنن میں زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں سود یوں ہوتا تھا کہ ایک آدمی کا حق دوسرے آدمی پر ایک مدت مقرر تک ہوتا تھا جب حق ادا کرنے کا وقت آجاتا تھا تو وہ مقروض سے کہتا تھا قرضہ ادا کرو گے یا بڑھاؤ گے ؟ اگر وہ ادا کردیتا تھا تو اس کو لے لیتا تھا ورنہ اس کے حق میں زیادتی کردیتا تھا اور اس کی مدت بھی بڑھا دیتا تھا۔
(٦) ابو نعیم نے المعرفۃ میں بہت ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت قبیلہ ثقیف کے چند لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جن میں یہ افراد بھی تھے مسعود اور ربیعہ اور حبیب اور عبد یا لیل اور یہ بنو عمرو بن عمیر بن عوف ثقفی تھے اور قریش میں سے بنو المغیرہ کے متعلق نازل ہوئی۔
(٧) ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت بنو عمرو بن عمیر بن عوف ثقفی کے افراد مسعود بن عمرو بن عبد یا لیل ابن عمرو۔ ربیعہ بن عمرو اور حبیب بن عمرو کے بارے میں نازل ہوئی یہ سب بھائی تھے اور وہ طلب کرنے والوں میں سے تھے۔ اور مطلوب بنو صغیرہ کے لوگ تھے جو بنو مخزوم میں سے تھے۔ بنو صغیرہ زمانہ جاہلیت میں سود پر قرضہ لیا کرتے تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثقیف والوں سے صلح فرمالی اور انہوں نے اپنا سود بنو صغیرہ والوں سے طلب کیا۔ اور وہ بہت بڑا مال تھا بنو صغیرہ والوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم زمانہ اسلام میں سود نہیں دیں گے اللہ اور اس کے رسول نے مسلمانوں پر سود کو ختم فرما دیا ہے وہ اپنا معاملہ معاذ بن جبل (رض) کے پاس لے گئے اور بعض نے کہا عتاب بن اسید (رض) کے پاس لے گئے تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لکھا کہ بنو عمرو اور عمیر کے بیٹوں نے اپنا سود بنو صغیرہ سے طلب کیا ہے (اس پر یہ آیت) اللہ تعالیٰ نے اتاری لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربوا ان کنتم مؤمنین “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (یہ آیت) معاذ بن جبل (رض) کو لکھ بھیجی۔ کہ ان پر یہ آیت پیش کرو اگر وہ مان لیں تو ان کے لیے ان کے اصل مال ہیں۔ اگر وہ انکار کریں تو ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ ہے۔
سود خور کے خلاف جہاد کرنا امام مسلم پر لازم ہے
(٨) ابن جریر ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رض) سے لفظ آیت ” فاذنوا بحرب “ کے بارے میں روایت کہ جو آدمی سود لینے پر قائم رہے اور اس سے نہ ہٹے تو مسلمانوں کے امام پر یہ واجب ہے کہ وہ اس کو روکے اگر وہ رک جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کی گردن ماردے اور لفظ آیت ” لا تظلمون “ سے مراد ہے کہ تم سود لے کر (لوگوں پر) ظلم نہ کرو اور ” ولا تظلمون “ سے مراد ہے کہ تمہارے اصل مالوں میں کمی نہ کی جائے گی۔
(٩) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ قیامت کے دن سود کھانے والوں سے کہا جائے گا جنگ کے لیے اپنا ہتھیار لے لے۔
(١٠) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذنوا بحرب “ سے مراد ہے (قیامت کے دن) جنگ کا یقین کرلو۔
(١١) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاذنوا بحرب “ سے مراد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو قتل کی دھمکی دی۔
(١٢) ابو داؤد اور ترمذی نے (اس کو صحیح کہا) نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے اپنی سنن میں عمرو بن احوص (رض) سے روایت کیا جو حجۃ الوداع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے کہ آپ نے فرمایا خبردار زمانہ جاہلیت والا ہر سود ختم کردیا گیا (اب) تمہارے لیے اصل مال ہیں نہ تم (کسی پر) ظلم کرو اور نہ تم پر ظل کیا جائے گا۔ پہلا سود جو ختم کردیا گیا وہ حضرت عباس (رض) کا سود ہے
(١٣) ابن منذر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ یہ آیت ” وان تبتم فلکم رءوس اموالکم “ ربیعہ بن عمرو اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔
(١٤) مسلم اور بیہقی نے جابر عبد اللہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود کھانے والے اور کھلانے والے، اس کے گواہوں پر اس کے لکھنے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا وہ (گناہ میں) سب برابر ہیں۔
(١٥) عبد الرزاق اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت علی (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس آدمیوں پر لعنت کی ہے سود کھانے والا، کھلانے والا، اس پر گواہی دینے والا لکھنے والا، گود نے اور گدوانے والی عورت، صدقہ کو روکنے والا اور حلالہ کرنے والا اور جس کے لیے حلالہ کیا گیا۔
(١٦) البیہقی نے ام درداء (رض) سے روایت کیا کہ موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب کل (یعنی قیامت کے دن) کون بہشت میں ٹھہرے گا اور کون تیرے عرش کا سایہ حاصل کرے گا جس دن تیرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ ! یہ وہ لوگ ہوں گے کہ ان کی آنکھیں زنا نہیں دیکھتی ہیں اور وہ اپنے اپنے مالوں میں سود طلب نہیں کرتے اور اپنے احکام میں رشوت نہیں لیتے ان کے لیے خوشخبری ہے اور اچھا ٹھکانہ ہے۔
(١٧) مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن حبان اور بیہقی نے ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر کھلانے والے پر اس پر گواہی دینے والوں پر اور سود لکھنے والوں پر۔
(١٨) بخاری اور ابو داؤد نے ابو جحیفہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی گود نے اور گدوانے والی عورت پر سود کھانے والے پر کھلانے والے پر اور کتے کی قیمت (لینے) سے منع فرمایا اور بدکاری کی کمائی سے (منع فرمایا) اور تصویر بنانے والوں پر بھی لعنت فرمائی۔
سود خود ملعون ہے
(١٩) احمد، ابو یعلی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ سود کھانے والا کھلانے والا اس پر گواہی دینے والا اور اس کو لکھنے والا جبکہ وہ جانتے ہوں اور خوبصورتی کے لیے گودنے والی اور گدوانے والی عورت صدقہ (یعنی زکوٰہ) دینے سے ٹال مٹول کرنے والا اور وہ دیہاتی جو ہجرت کے بعد مرتد ہوجائے (یہ سب لوگ) قیامت کے دن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر لعنت کیے جائیں گے۔
(٢٠) حاکم نے (اس کو صحیح کہا) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چار آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر حق ہے ان کو جنت میں داخل نہیں کرے گا اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں کا مزا چکھائے گا ہمیشہ شراب پینے والا سود کھانے والا اور ناحق یتیم کا مال کھانے والا اور والدین کی نافرمانی کرنے والا۔
(٢١) الطبرانی نے عبد اللہ بن سلام (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک درہم جو آدمی سود میں سے پاتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام میں (٣٣) بار زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔
(٢٢) احمد طبرانی نے عبد اللہ بن حنظلہ (غسیل الملائکہ) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سود کا ایک درہم جو آدمی جانتے ہوئے کھاتا ہے وہ چھتیس بار زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔
(٢٣) الطبرانی نے الاوسط میں براء بن عازب (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سود کے بہتر دروازے ہیں اس کا ادنی گناہ اپنی ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے اور سب سے بڑا سود کسی دوسرے کی ناحق عزت بگاڑنا ہے۔
(٢٤) حاکم نے (اس کو صحیح کہا) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھل کو پکنے سے خریدنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود غالب ہوجائے تو انہوں نے اپنی جانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو حلال کرلیا۔
زنا اور سود کا وبال
(٢٥) ابو یعلی نے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس قوم میں زنا اور سود عام ہوجائے تو انہوں نے اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے لئے حلال کرلیا۔
(٢٦) احمد نے عمرو بن عاص (رض) سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس قوم میں سود غالب ہوجائے تو ان پر قحط آجاتا ہے اور جس قوم میں رشوت غالب ہوجائے تو وہ رعب (یعنی خوف) میں مبتلا کئے جاتے ہیں۔
(٢٧) الطبرانی نے قاسم بن عبد الواراق (رح) سے رورایت کیا ہے کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفی (رض) کو بازار میں دیکھا وہ فرما رہے تھے اے سنارو ! تم کو خوشخبری ہو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ تجھ کو جنت کی خوشخبری دے آپ ہم کو کس چیز کے ساتھ خوشخبری دے رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سناروں کو آگ کی خوشخبری دے دو ۔
(٢٨) ابو داؤد اور ابن ماجہ بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ضرور ضرور آئے گا لوگوں پر ایسا زمانہ کہ سود کھانے سے کوئی بھی نہیں بچے گا جو شخص اس کو نہیں کھائے گا تو اس کو دھواں تو ضرور پہنچے گا۔
(٢٩) مالک، شافعی، عبد الرزاق، عبید بن حمید، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی نے مالک بن اوس بن حدثان (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے طلحہ بن عبیداللہ (رح) سے سونے کو چاندی سے بدلنا چاہا تو طلحہ (رح) نے فرمایا مجھے مہلت دو یہاں تک کہ ہمارے پاس ہمارا خازن الغابہ (جگہ کا نام) سے آجائے اس بات کو حضرت عمر (رض) سے سن لیا تو انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم ! تو اس سے جدا نہ ہونا یہاں تک کہ اس سے اپنا سونا چاندی پورا کرلو کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سونا کا چاندی سے تبادلہ سود ہے مگر جب ہاتھوں ہاتھ ہو، گیہوں کے بدلہ میں گیہوں سود ہے مگر دست بدست ہو اور جو کے بدلہ میں جو سود ہے مگر دست بدست ہو۔
(٣٠) عبد بن حمید، مسلم، نسائی اور بیہقی نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سونے کے بدلہ میں سونا برابر اور ہاتھ در ہاتھ ہو چاندی کے بدلہ میں چاندی برابرسرابر اور ہاتھ در ہاتھ ہو اور کھجور کے بدلہ میں کھجور برابر سرابر اور ہاتھ در ہاتھ ہو اور جو کے بدلہ میں جو برابر سرابر اور ہاتھ در ہاتھ ہو اور نمک کے بدلہ نمک برابر سرابر اور ہاتھ در ہاتھ ہو۔ جس شخص نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سود لیا لینے والا اور دینے والا دونوں (گناہ میں) برابر ہیں۔
(٣١) مالک، شافعی، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی اور بیہقی نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہ بیچو سونے کو سونے کے بدلہ میں مگر برابر ہو اور بعض کی بعض پر زیادتی نہ کرے اور نہ بیچو چاندی کو چاندی کے بدلہ مگر برابر برابر اور بعض کی بعض پر زیادتی نہ کرے اور نہ بیچو غالب کو نقد کے بدلے میں۔
(٣٢) شافعی، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ بیہقی نے عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہ بیچو سونے کو سونے کے بدلہ میں، چاندی کو چاندی کے بدلہ میں، گیہوں کو گیہوں کے بدلہ میں، جو کو جو کے بدلہ میں، کھجور کو کھجور کے بدلہ میں، نمک کو نمک کے بدلہ میں مگر برابر سرابر نقد اور ہاتھ در ہاتھ جس طرح تم چاہو کمی بیشی کے ساتھ بیچو جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا وہ سود میں مبتلا ہوا۔
(٣٣) مالک، مسلم اور بیہقی نے حضرت عثمان بن عفان (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہ بیچو تم ایک دینار کو دو دینار کے بدلہ میں اور ایک درہم کو دو درہم کے بدلہ میں۔
(٣٤) مالک نے نسائی اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک دینار ایک دینار کے بدلہ میں ہونا چاہیے ان دونوں کے درمیان زیادتی نہ ہو اور ایک درہم ایک درہم کے بدلہ میں ہونا چاہیے ان کے درمیان زیادتی نہ ہو۔
(٣٥) مسلم اور بیہقی نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک دینار ایک دینار کے بدلہ میں ایک درہم ایک درہم کے بدلہ میں برابر وزن کے ساتھ ہو ان کے درمیان زیادتی نہ ہو اور نقد کو ادھار کے بدلے میں نہ بیچا جائے گا
(٣٦) بخاری، مسلم، نسائی، بیہقی نے ابو المنال (رح) سے روایت کیا کہ میں نے براء بن عازب اور زید بن ارقم (رض) دونوں حضرات سے بیع صرف (یعنی سونے چاندی کی خریدوفروخت) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تاجر تھے تو ہم نے آپ سے بیع صرف کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا جو اس میں سے ہاتھ در ہاتھ ہو اور اس میں کوئی حرج نہیں اور جو اس میں سے ادھار ہو تو وہ جائز نہیں۔
(٣٧) مالک، شافعی، ابو داؤد، ترمذی اور (اس کو صحیح کہا) نسائی، ابن ماجہ اور بیہقی نے سعد بن وقاص (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تازہ پکی ہوئی کھجور کو خشک کھجور (یعنی چھواروں) کے بدلہ میں خریدنے کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے فرمایا کیا تازہ کھجور کم ہوجاتی ہے جب سوکھ جاتی ہے صحابہ نے عرض کیا ہاں تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔
(٣٨) البزار نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا سونا سونے کے بدلہ میں اور چاندی چاندی کے بدلہ میں برابر سرابر ہو زیادہ دینے والا اور زیادہ طلب کرنے والا دونوں آگ میں ہوں گے۔
(٣٩) البزار نے ابوبکر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی وفات سے دو ماہ پہلے بیع صرف (یعنی سونے چاندی کی خریدو فروخت) سے منع فرمایا۔
ں تک کہ وہ بڑے پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔
(٩) الطبرانی نے ابو برزہ اسلمی (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ بندہ تھوڑا سا ٹکڑا صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ احد پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔
تنگدست کو مہلت دینا باعث اجر ہے
(١) سعید بن منصور، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے مجاہد کے طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ یہ آیت ” وان کان ذوعسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ “ سود کے بارے میں نازل ہوئی۔
(٢) ابن المنذر نے عطا کے طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ “ سے مراد سود میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تنگدست کو مہلت دی جائے اور امانت میں دینا نہیں ہے لیکن امانت اہل امانت کے سپرد کی جائے گی۔
(٣) ابن المنذر نے عطا کے طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ” وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ “ سود کے بارے میں نازل ہوئی پھر فرمایا لفظ آیت ” وان تصدقوا “ یعنی اگر تنگدست کو صدقہ کرنا اور اس کو چھوڑ دینا تمہارے لیے بہتر ہے۔
(٤) عبد الرزاق، سعید بن منصور، عبد بن حمید، نحاس نے اپنی ناسخ میں ابن جریر نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا ہے کہ آدمی قاضی شریح (رح) کے پاس (اپنے) حق کے بارے میں جھگڑا لے گئے اس پر شریح (رح) نے مقروض کے خلاف فیصلہ کردیا اور اسے قید کرنے کا حکم فرمایا ایک شخص جو اس کے قریب تھا اس نے کہا کہ یہ آدمی تنگدست ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” وان کان ذوعسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ “ (یعنی اگر وہ تنگدست ہے تو اس کو خوشحالی تک مہلت دے دو )
(٥) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے علی طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ “ سے مراد مقروض ہے۔
(٦) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ “ یعنی اگر مقروض تنگدست ہو تو اصل مال کے میسر آنے تک اس کو مہلت دے دو پھر فرمایا لفظ آیت ” وان تصدقوا “ یعنی اپنے اصل مال کو فقیر پر صدقہ کر دو لفظ آیت ” فھو خیرلکم “ (تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے) تو حضرت ابن عباس (رض) نے اس مال کو صدقہ کردیا۔
(٧) عبد بن حمید اور ابن جریر نے ضحاک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا جو شخص تنگدست ہو تو قرض خواہ اس کو خوشحالی تک مہلت دے اور اسی طرح پر قرضہ کا حکم ہے جو کسی مسلمان پر ہو کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ اس کا (کسی مسلمان) بھائی پر قرضہ ہو اور وہ جانتا ہو کہ وہ تنگدست ہے تو اس کے لیے اسے قید کرنا جائز نہیں وہ اس سے نہ مانگے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو خوشحال کر دے پھر فرمایا لفظ آیت ” وان تصدقوا “ یعنی اپنے اصل مال کو تنگدست پر صدقہ کر دے تو لفظ آیت ” خیرلکم “ یہ بہتر ہے تمہارے لیے فراخدستی تک مہلت دینے سے تو (گویا) اللہ تعالیٰ نے مہلت دینے کی بجائے صدقہ کردینے کو پسند فرمایا۔
(٨) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے لفظ آیت ” وان تصدقوا خیر لکم “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یعنی جس شخص نے اپنے قرضہ کو ایسے شخص پر صدقہ کردیا جو غریب اور نادار تھا تو اس کے لیے بڑا اجر ہوگا اور جو شخص اپنا قرضہ صدقہ نہ کرے تو وہ گنہگار ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وجہ سے کہ فرمایا لفظ آیت ” فنظرۃ الی میسرۃ “ (کہ تنگدست کو فراخدستی تک مہلت دے دو ) اور جس شخص کے پاس اتنے پیسے موجود ہوں کہ وہ اپنے قرضہ کو ادا کرسکتا ہے اور اس نے ایسا نہیں کیا تو ظالم لکھا جائے گا۔
(٩) احمد، عبد بن حمید نے اپنی مسند میں مسلم ابو الیسر (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دے دی یا اس کا قرضہ معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ اس کو اس دن اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے۔ جس دن ان کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔
(١٠) احمد، بخاری، مسلم نے حذیفہ (رض) سے روایت کیا کہ ایک آدمی اللہ تعالیٰ کے پاس لایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا دنیا میں تو نے کیا عمل کیا ؟ اس آدمی نے کہا میں نے ذرا برابر بھی کوئی خیر کا کام نہیں کیا۔ اس سے تین مرتبہ اللہ تعالیٰ نے پوچھا تو اس نے تیسری مرتبہ میں فرمایا کہ تو نے مجھے دنیا میں وافر مال عطا کیا تھا تو میں لوگوں سے لین دین کیا کرتا تھا تو اس میں خوشحالی پر آسانی کیا کرتا تھا اور تنگ دست کو مہلت دیا کرتا تھا۔ (یہ سن کر) اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا میں تجھ سے زیادہ لائق ہوں کہ اپنے بندوں سے معاف کر دوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرمادی۔
(١١) احمد نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کا کسی آدمی پر کوئی حق تھا اور اس نے اس کو موخر کردیا تو اسے ہر دن صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔
(١٢) احمد۔ ابن ابی الدنیا نے کتاب اصطناع المعروف میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص یہ ارادہ کرے کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور اس کی مصیبت اور سختی دور ہوجائے تو اس کو چاہیے کہ تنگدست کی تنگدستی دور کردے۔
(١٣) الطبرانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے کسی تنگدست کو اس کی خوشحالی تک مہلت دے دی۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ تک اس کے گناہوں پر مہلت دیتے ہیں۔
(١٤) احمد۔ ابن ماجہ اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) بیہقی نے شعب الایمان میں بریدہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے تنگ دست کو مہلت دی۔ تو ہر دن اس کے لیے اس کے قرضہ کے برابر اس کو صدقہ کرنے کا ثواب ہوگا۔ پھر انہوں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص کسی تنگدست کو مہلت دے گا تو اس کے لیے ہر دن اس قرضہ کے دو مثل (یعنی دگنے) کے برابر اس کو صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا آج آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہر دن قرضہ کے دوگنا کے برابر صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔ آپ نے فرمایا اگر قرض کی ادائیگی کا وقت آنے سے پہلے اس نے تنگدست کو مزید مہلت دے دی تو اس کو ہر دن قرض کے دوگنا کے برابر صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔
(١٥) ابو الشیخ نے الثواب میں، ابو نعیم نے حلیہ میں، بیہقی نے شعب میں، طستی نے ترغیب میں، ابن لال نے مکارم الاخلاق میں، حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو سن لیں۔ اور آخرت میں اس کی مصیبت اور سختی کو دور فرما دیں تو اس کو چاہیے کہ تنگدست کو مہلت دے دے یا اس کو بالکل ہی چھوڑ دے (یعنی اس کا قرضہ معاف کر دے) اور جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کی گرمی سے (بچاتے ہوئے) اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمادیں۔ تو اس کو ایمان والوں پر سختی نہیں کرنی چاہیے لیکن ان پر رحم کرنے والا ہوجائے۔
(١٦) مسلم نے ابو قتادہ (رض) سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن کی سختی سے نجات عطا فرمادے۔ تو اسے چاہیے کہ تنگدست پر آسانی کرے اور اس کا قرضہ معاف کر دے۔
(١٧) احمد، دارمی، بیہقی نے شعب میں ابو قتادہ (رض) سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے اپنے قرض خواہ کو آسانی دے دی یا اس کا قرضہ معاف کردیا تو وہ قیامت کے دن عرش کے سایہ کے نیچے ہوگا۔
(١٨) ترمذی نے (اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دے دی یا اس کو معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن اپنے عرش کے نیچے ایسے دن جگہ عطا فرمائین گے کہ اس دن ان کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
تنگدست کو مہلت دینے والا عرش کے سایہ میں
(١٩) عبد اللہ بن احمد نے زوائد المسند میں حضرت عثمان بن عفان (رض) سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو اس دن اپنے عرش کے سایہ میں جگہ فرمائیں گے جس دن ان کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ جو بندہ کسی تنگدست کو مہلت دے گا یا قرضہ کو معاف کر دے گا۔
(٢٠) الطبرانی نے الاوسط میں شداد بن اوس سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا (قرضہ کی رقم کو) اس پر صدقہ کردیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے۔
(٢١) الطبرانی نے الاوسط میں ابو قتادہ و جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو یہ بات خوش لگے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی سختیوں سے نجات عطا فرمادیں۔ اور اپنے عرش کے نیچے اس کو جگہ عطا فرمادیں تو اس کو چاہئے کہ تنگدست کو مہلت دے دے۔
(٢٢) الطبرانی نے الاوسط میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دی اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے۔
(٢٣) الطبرانی نے الاوسط میں کعب بن عجرہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے کس تنگدست کو مہلت دی اور اس پر آسانی کردی تو اللہ تعالیٰ اس کو اس دن اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے جس دن ان کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔
(٢٤) الطبرانی نے الکبیر میں ابو درداء (رض) سے روایت کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اس کا قرضہ معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے۔
(٢٥) الطبرانی نے اسعد بن زرارہ (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ بات خوش لگے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایسے دن میں اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے کہ اس دن ان کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ تو اس کو چاہیے کہ تنگدست پر آسانی کر دے یا اس کا قرضہ معاف کر دے۔
(٢٦) الطبرانی نے ابو الیسر (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں، میں سب سے پہلا آدمی جس کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے۔ وہ ہوگا جس نے کسی تنگدست کو مہلت دی ہوگی اس کے خوشحال ہونے تک یا اس پر قرض صدقہ کر دے جس کا وہ مطالبہ کیا کرتا تھا۔ اور یوں کہے جو کچھ میرا تجھ پر ہے وہ صدقہ ہے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خاطر اور اپنے حساب کے رجسٹر کو پھاڑ دے۔
(٢٧) احمد ابن ابی الدنیا کتاب اصطناع المعروف میں حضرت عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اس سے قرضہ معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کی تپش سے محفوظ فرمائے گا۔
(٢٨) عبد الرزاق، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیا کی مصیبت کو دور کردیا اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبت کو دور فرما دیں گے اور جس شخص نے کسی تنگدست پر دنیا میں آسانی کردی اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی فرما دیں گے اور جس شخص نے دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت میں پردہ پوشی فرمائیں گے اور اللہ تعالیٰ اس شخص کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔
تنگدست کو مہلت دینے پر مغفرت
(٢٩) بخاری، مسلم، نسائی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک آدمی نے کبھی کوئی خیر کا کام نہیں کیا مگر وہ لوگوں کو قرضہ دیتا تھا اور اس نے اپنے بیٹے کو کہہ رکھا تھا کہ جب کوئی تنگدست آجائے تو اس سے درگذر کردینا شاید کہ اللہ تعالیٰ ہم سے بھی درگذر فرما دے جب اس نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی (مرنے کے بعد) تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے درگذر فرما دیا۔
(٣٠) مسلم اور ترمذی نے ابو مسعود بدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک آدمی کا حساب کیا گیا جو تم سے پہلے تھا اس سے کوئی خیر کا عمل نہیں پایا گیا مگر وہ لوگوں سے لین دین کیا کرتا تھا اور وہ مالدار تھا اس نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ تنگدست کو معاف کردیا کریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم اس کو (معاف کرنے) کے زیادہ حق دار ہیں لہٰذا فرشتوں سے فرمایا کہ اس کو معاف کر دو ۔
(١) ابو عبید، عبد بن حمید، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن الانباری نے المصاحف میں، طبرانی، ابن مردویہ، بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آخری آیت جو قرآن میں نازل ہوئی وہ یہ آیت تھی لفظ آیت ” واتقوا یوما ترجعون۔۔ الخ “۔
(٢) ابن ابی شیبہ نے سدی وعطیہ عوفی سے اسی کی مثل نقل کیا ہے۔
(٣) الفریابی عبد بن حمید ابن المنذر بیہقی نے دلائل میں کلبی کے طریق سے ابو صالح سے اور انہوں نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ آخر آیت جو نازل ہوئی وہ لفظ آیت ” واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ “ ہے یہ آیت منیٰ میں نازل ہوئی اس آیت کے نازل ہونے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات حسرت آیات کے درمیان اکاسی دنوں کا فاصلہ تھا۔ ابن الانباری نے ابو صالح وحضرت سعید بن جبیر (رض) سے اسی کی مثل روایت کیا ہے۔
(٤) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) وسلم سے روایت کیا ہے کہ سارے قرآن میں سے آخر میں یہ آیت ” واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ “ نازل ہوئی اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نوراتیں زندہ رہے، پھر آپ نے پیر کے دن ربیع الاول کی دو تاریخ کو وفات پائی۔
(٥) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) وسلم سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ثم توفی کل نفس ما کسبت “ یعنی جو کچھ تم نے عمل کیا خیر میں یا شر میں سے (اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا) پھر فرمایا لفظ آیت ” وہم لا یظلمون “ یعنی ان کے اعمال میں نہ تو اس کی نیکیوں میں کوئی کمی کی جائے گی اور نہ ان کی برائیوں میں کوئی زیادتی کی جائے گی۔

سورہء آل عمران
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ١٣٠؁ۚ
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ١٣١؁ۚ

اے ایمان والو مت کھاؤ سود چند در چند بڑھا کر اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
اور ڈرو آگ سے جو تیار کی گئی ہے کافروں کے لئے۔
(١) ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ مدت تک کے لیے آپس میں معاملہ کرتے تھے جب وہ مدت آجاتی تو وہ قیمت میں اضافہ کردیتے اور مدت میں بھی اضافہ کردیتے تو اس پر نازل ہوا لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا لا تاکلوا الربوا اضعافا مضعفۃ “۔
(٢) ابن جریر اور ابن المنذر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ قبیلہ ثقیف بنو مغیرہ والوں سے ادھار بیع کرتے تھے زمانہ جاہلیت میں جب مدت پوری ہوجاتی تو وہ لوگ کہتے کہ ہم رقم میں اضافہ کردیتے اور مدت میں اضافہ کر دو (اس پر یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” لا تاکلوا الربوا اضعافا مضعفۃ “۔
دوگنا سود کی صورت
(٣) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ایک آدمی کا کسی آدمی کے ذمہ مال ہوتا تھا جب مدت پوری ہوجاتی تو وہ قرضدار سے مطالبہ کرتا تھا اور مطلوب کہتا تھا مجھ سے قرضہ موخر کر دے تو میں تیرے مال میں اضافہ کردوں گا تو دونوں ایسا کرلیتے تھے یہ ہے لفظ آیت ” الربوا اضعافا مضعفۃ “ (یعنی دوگنا در دوگنا) (اس پر) اللہ تعالیٰ نے نصیحت فرمائی اور فرمایا ” واتقو النار “ سود کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کو نہ کھاؤ ” لعلکم ترحمون “ تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ (پھر فرمایا) لفظ آیت ” واتقو النار التی اعدت للکفرین “ پس ڈرایا گیا سود کھانے والوں کو ایمان والوں میں سے آگ سے جو کافروں کے لیے تیار کی گئی (پھر فرمایا) لفظ آیت ” واطیعوا اللہ والرسول “ یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو سود کو حرام قرار دینے میں ” لعلکم ترحمون “ یعنی تاکہ تم رحم کئے جاؤ اور تم کو عذاب نہ دیا جائے۔
(٤) ابن المنذر اور بن ابی حاتم نے معاویہ بن قرہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لوگ یعنی علماء اس آیت کی تاویل کرتے تھے لفظ آیت ” وتقوا النار التی اعدت للکفرین “ یعنی ڈرو تم عذاب دوں گا میں تم کو تمہارے گناہوں کے سبب اس آگ میں جس کو میں نے کافروں کے لیے تیار کر رکھی ہے۔

سورۃالنساء
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا ١٦٠؀ۙ
وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ١٦١؁

سو جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ہم نے ان کے ظلم کی وجہ سے ان پر وہ پاکیزیں چیزیں حرام کردیں جو ان کے لئے حلال کی گئیں تھیں اور اس وجہ سے کہ وہ اللہ کے راستہ سے روکنے میں زیادہ مشغول رہے ہیں
اور اس وجہ سے کہ وہ سود لیتے رہے حالانکہ اس سے منع کیا گیا تھا اور اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقے پر کھاتے رہے اور ہم نے کافروں کے لئے دردناک عذاب تیار کیا ہے
(١) سعید بن منصور وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” طیبت کانت احلت لہم “ پڑھا، (یعنی احلت لہم سے پہلے کانت پڑھا) ۔
(٢) عبدبن حمید وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا لفظ آیت ” فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیہم طیبت احلت لہم “ سے مراد ہے کہ قوم یہود کو سزا دی جائے گی اس ظلم کے بدلے میں جو انہوں نے ظلم کیا اور اس بغاوت کے بدلے میں جو انہوں نے بغاوت کی ان پر کچھ اشیاء حرام کردی گئیں ان کی سرکشی اور ان کے ظلم کی وجہ سے۔
(٣) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وبصدہم عن سبیل اللہ کثیرا “ یعنی اپنے آپ کو اور دوسروں کو حق سے روکنا۔

سورۃالروم
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ 39؀

اور جو بڑھنے والی چیز تم دو گے تاکہ وہ لوگوں کے مالوں میں شامل ہو کر بڑھ جائے سو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھے گی اور جو بھی زکوٰۃ تم دو گے جس کے ذریعہ اللہ کی رضا چاہتے ہو سو یہ وہ لوگ ہیں جو بڑھانے والے ہیں