ڈاکٹر اسلم صدیقی

سورہ البقرہ
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ  ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا  ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا  ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ  ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ  ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ  ٢٧٥؁

(جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر اس شخص کی طرح جسے شیطان نے چھو کر بائولا کردیا ہو۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے۔ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ وہ لے چکا وہ اس کے لیے ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو پھر اس کا ارادہ کریں تو وہی لوگ جہنمی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ط وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ط فَمَنْ جَآئَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَـہٗ مَا سَلَفَ ط وَاَمْرُہٗٓ اِلٰی اللّٰہِ ط وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِط ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ ۔

(جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر اس شخص کی طرح جسے شیطان نے چھو کر بائولا کردیا ہو۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے۔ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ وہ لے چکا وہ اس کے لیے ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو پھر اس کا ارادہ کریں تو وہی لوگ جہنمی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) (٢٧٥)

ربطِ کلام

اس سے پہلے دو رکوعوں میں انفاق کی ترغیب دی ‘ فضیلت بیان کی ‘ ضرورت کا احساس دلایا ‘ جن قباحتوں سے انفاق کے مقصد کو نقصان پہنچتا ہے ان کا ذکر فرمایا ‘ اللہ کے راستے میں جن چیزوں کا انفاق کرنا چاہیے ان کی پہچان بتائی اور پھر یہ بھی واضح فرمایا کہ انفاق جس طرح مسلمان معاشرے میں غربا اور ملک و ملت کی ضرورتوں کی طلب ہے اسی طرح انفاق مسلمانوں کی تربیت کا ذریعہ بھی ہے۔ جن محرکات سے انسان بگڑتا اور برائی پھیلتی ہے ان محرکات میں سے ایک اہم محرک ہوس زر اور حبِّ زر بھی ہے۔ جب تک اس محبت کا امالہ نہ کیا جائے یعنی اس کا رخ خیر ‘ مقاصد خیر اور اللہ کی طرف نہ موڑا جائے اس وقت تک اس کی برائی سے معاشرے کو بچانا ناممکن ہے۔ اور پھر اسی مضمون کی اختتامی آیت میں انفاق کے حوالے سے ان مسلمانوں کو اسوہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو جذبہ انفاق سے وجود میں آتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ وہ اسی دنیا کے رہنے والے ‘ انہی مسائل سے دوچار اور طبیعت کے انہی جذبات سے بہرہ ور جس سے معاشرے کے باقی افراد سروکار رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے مال و دولت کو رات اور دن خفیہ اور علانیہ یعنی ہر وقت اور ہرحال میں اللہ کی رضا کے حصول اور بندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمان معاشرے کا سرمایہ اور اسلامی تربیت کا نمونہ ہیں۔ انہی سے معاشرے کی آب و تاب اور اسلامی جذبات کی صحیح عکاسی ہوتی ہے۔ اور ایسے ہی لوگوں کا پیدا کرنا اسلام کا مقصد ہے۔

تُعْرَفُ الْاَشْیَـآئُ بِاَضْدَادِہَا

انسانی فطرت یہ ہے کہ اسے کسی بات کا صحیح احساس اور مکمل شعور اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس کے سامنے اس چیز کی ضد اور مقابل کو لایا جاتا ہے۔ آدمی کو اس وقت تک حسن کا احساس مکمل نہیں ہوتا جب تک بدصورتی اس کے سامنے نہیں آتی۔ اندھیرے کا شعور روشنی سے اور روشنی کا احساس اندھیرے سے ہوتا ہے۔ راحت کی قدر اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک آدمی مصیبت میں گرفتار نہیں ہوتا ‘ ضدین کا وجود ایک دوسرے کے تعارف کے لیے ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ قرآن کریم کا اسلوب انسانی فطرت کا عکاس ہے۔ اس لیے وہ کسی کو سمجھانے کے لیے عموماً اس کی ضد کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ جنت کے ساتھ جہنم ‘ خیر کے ساتھ شر ‘ روشنی کے ساتھ تاریکی ‘ نعمت کے ساتھ سختی یا اس کے برعکس ضـدین کا ذکر اس کا خاص اسلوب ہے تاکہ مخاطب کو بات سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔ اسی اسلوب کے مطابق انفاق اور اس کے تمام لوازمات کو ذکر کرنے کے بعد اب اس کی سب سے بڑی ضد ربا یعنی سود کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

سود کھانے والوں کا انجام

سب سے پہلی بات جو ارشاد فرمائی گئی ہے وہ سودی کاروبار کرنے والوں کا انجام ہے کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں یعنی سودی کاروبار کرتے ہیں یا سود سے کسی طرح بھی متعلق ہیں ‘ ان میں سے کچھ تو وہ لوگ ہیں جو کسی سخت مجبوری کے باعث سود میں ملوث ہوگئے ‘ لیکن ان کے دلوں میں سود کے بارے میں نفرت اور کراہت موجود ہے اور وہ اس کا یقین رکھتے ہیں کہ سود کو واقعی اللہ نے حرام کیا ہے۔ تو ایسے لوگ اگر سود سے بچنے کے لیے اللہ سے توفیق مانگیں گے تو امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی نہ کبھی اس سے نکلنے کا راستہ پید افرما دیں گے۔ اور اگر وہ اسے حرام سمجھتے ہوئے ساری عمر اس میں ملوث بھی رہے تو قیامت کے دن اس کی سزا پالینے کے بعد کبھی نہ کبھی جنت میں بھیج دیئے جائیں گے۔ لیکن جن لوگوں نے سود کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ‘ سودی کاروبار یا سودی ملازمت کو نہایت آسودگی کے ساتھ زندگی کا ہدف بنائے رکھا اور اسی پر خوش رہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سود کی محبت ان کے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ اس کی حرمت اور اس سے نفرت کا احساس دل سے مٹ جاتا ہے۔ دل و دماغ اسی کے تصورات سے معمور اور اعضاء وجوارح اسی کے حصول اور ترقی میں ڈوب جاتے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس کو قرآن کریم برائی کے احاطہ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اور اسی طرح وہ لوگ جو سرے سے اس کو حرام ہی نہیں سمجھتے ان کی عقل کا فیصلہ یہ ہے کہ جس طرح تجارت میں اپنے مال سے نفع کمایا جاتا ہے اسی طرح سود بھی آدمی کے اپنے مال کا نفع ہے۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک نفع حلال ہو اور دوسرا حرام ہو۔ ان لوگوں نے چونکہ اپنے دل و دماغ میں سود کی افادیت اور محبت کو بسا لیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ رفتہ رفتہ دونوں کا فرق بھی ان کے احساس سے اتر گیا ہے۔ ایسے لوگوں کا انجام دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ایک پاگل اور دیوانہ اپنی دیوانگی میں ایسی حرکتیں کرتا ہے کہ جسے وہ اپنے تئیں ضروری اور مفید سمجھتا ہے لیکن انسانی معاشرے اور انسانیت کے لیے وہ تباہ کن اور اذیت کا باعث ہوتی ہیں ‘ لیکن اسے اس کا بالکل احساس نہیں ہوتا۔ اس کا گھر اخلاقی لحاظ سے دیوالیہ ہوجائے ‘ اس کے اپنے اندر سے اور اس کے اہل خانہ سے غیرت و حمیت نکل جائے ‘ اپنے اعزہ و اقرباء سے تعلقات ختم ہوجائیں ‘ اس کے احباب مایوس ہو کر اس کے پاس آنا جانا چھوڑ دیں ‘ لیکن اسے کسی بات کی بھی پرواہ ہوتی ہے نہ ہوش۔ اس کے سامنے دیوانوں کی طرح صرف ایک ہی ہدف ہوتا ہے کہ وہ مال و دولت کی دیوانگی میں جس طرح منہ اٹھائے بھاگا چلا جا رہا ہے ‘ بس اس کے اس راستے میں کسی چیز کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔ ہر رشتہ خیر کی محبت اس کے دل سے نکل جائے اسے پروا نہیں۔ کیونکہ اسے اب ایک ہی رشتہ عزیز ہے وہ ہے مال و دولت کا رشتہ ‘ حب زرہر چیز کی محبت پر غالب آجاتی ہے۔ دنیا میں اس دیوانگی کو اب اس لیے زیادہ محسوس نہیں کیا جاتا کہ ایسے دیوانوں کی اکثریت ہوگئی ہے۔ بلکہ اب اس شخص کو محسوس کیا جاتا ہے ‘ جس میں مال و دولت کی محبت کم ہوجاتی ہے اور اقدارِ انسانیت کی محبت بڑھ جاتی ہے۔ انہی احساسات کا نتیجہ اس کی زندگی کے اعمال اور مصروفیات پر بھی پڑتا ہے۔ اب اس کا وقت نیکی کے کاموں میں اور نیکی کے مراکز میں زیادہ صرف ہوتا ہے تو دنیا کے دیوانے اسے دیوانہ سمجھنے لگتے ہیں۔ بالکل اس شخض کی طرح جو نک کٹوں کے ہجوم میں ایک ہی ناک والا ہو تو تمام ناک سے محروم اسے ناک والا ناک والا کہہ کر چھیڑتے ہیں۔ اکثریت ہمیشہ اپنے آپ کو برحق سمجھتی ہے۔ آج چونکہ ایسے ہی دیوانوں کی اکثریت ہے تو انھیں کون بتائے کہ تمہاری ناک کٹ چکی ہے۔ لیکن جب کبھی انسانیت اور انسانیت کی قدریں اور اللہ کی معرفت کا احساس ایک زندہ حقیقت تھی تو اس دیوانگی کو بڑی شدت سے محسوس کیا جاتا تھا۔ چناچہ یہی دیوانے جب قیامت کو اٹھیں گے تو ان کو اس ہیئت کذائی میں اٹھایا جائے گا جو ان کی اصلی حالت کا نمونہ ہوگی۔ یہاں اس آیت کریمہ میں ان کی اسی اصل حالت کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ جس طرح کسی شخص کو آسیب لاحق ہوجائے یعنی جن اسے چھو جائے تو وہ دیوانوں کی طرح حرکتیں کرتا ہے (آسیب زدہ آدمی کو دیوانوں کی طرح حرکتیں کرتے اکثردیکھا گیا ہے) اللہ نے جن کے دلوں میں نور ایمان رکھا ہے اور جن کا نیکی سے رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور وہ شریعت کے احکام کے مطابق زندگی گزارتے ہیں کسی جن کی چھوت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی بجز اس کے کہ وہ انھیں کسی بیماری یا تکلیف میں مبتلا کر دے۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کی ابلیس اور اس کی ذریت کو مہلت ملی ہوئی ہے۔ لیکن جن لوگوں کے دل پہلے ہی شیطان کے قبضے میں ہوں اور وہ شریعت کی مخالفت کی وجہ سے پہلے ہی اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کرچکے ہوں تو شیطان کے لیے انھیں پاگل اور بائولا کردینا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ تو قیامت کے دن یہ اپنی اسی صحیح شکل و صورت میں اٹھیں گے اور دیکھنے والوں کو اس وقت احساس ہوگا کہ دنیا میں بھی ان کی دیوانگی کی یہی کیفیت تھی ‘ لیکن اس وقت اس کا پوری طرح ادراک نہیں ہوسکا۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ آدمی اپنے عقیدہ و عمل سے جس طرح زندگی گزارتا ہے اسی طرح کی زندگی اسے قیامت کے دن ملے گی۔ وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ اَعْمٰی ( جو دنیا میں عقل اور دل کا اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی اٹھے گا) لیکن میرا ناقص گمان یہ ہے کہ آخرت میں وہ آنکھوں سے بھی اندھا ہوگا تاکہ لوگوں کو اندازہ ہو سکے کہ دنیا میں یہ دل سے اندھا تھا لیکن ہم اسے آنکھوں سے بینا ہونے کی وجہ سے پہچان نہ سکے لیکن آج اس کی پہچان مکمل ہوچکی ہے۔ کیونکہ اصل بینائی تو دل کی بینائی ہے ‘ آنکھوں سے تو حیوانات بھی بینا ہیں ‘ اسی لیے اقبال نے کہا ؎

دل کا نور کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

انفاق سے دلوں کو زندگی ملتی ہے تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ سے یہی مراد ہے اور سود خوری سے دلوں کی زندگی مرجاتی ہے اور انسان بائولا ہوجاتا ہے اور قیامت کے دن اسی کا اظہار ہوگا اور اس دن ان کا جرم بھی کھول کر بیان کردیا جائے گا کہ یہ سزا ان کو اس بات کی ملی ہے کہ یہ کہتے تھے کہ تجارت تو سود کی مانند ہے۔ تو تجارت حلال ہے تو سود کیسے حرام ہوسکتا ہے ؟ حالانکہ انھیں یہ خوب معلوم تھا کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ اور جس آدمی کی عقل موت کا شکار نہیں ہوئی اسے اور کچھ نہیں تو یہ بات سمجھنے میں تو کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ حلت و حرمت کا حق اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں۔ وہ جس چیز کو چاہے حلال کر دے اور جسے چاہے حرام کر دے۔ اس کے حکم کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں یہ اس کا ذاتی اختیار ہے جس میں کسی بحث کی گنجائش نہیں۔ تو جب اس نے سود کو حرام کیا تو وہ حلال نہیں ہوسکتا۔ اور جب اس نے تجارت کو حلال کیا تو وہ حرام نہیں ہوسکتی۔ قطع نظر دوسری بحثوں کے جو شخص اس بنیادی بات کو نہیں مانتا یقینا اس کی عقل پر شیطان کا غلبہ ہوگیا ہے اور ویسے بھی دیکھا جائے تو تجارت اور سود میں آخر کیا مماثلت ہے ؟ لیکن اس کی وضاحت سے پہلے ضروری ہے کہ سود کی تعریف کے بارے میں کچھ عرض کردیا جائے۔

سود اور ربا کا مفہوم

جامع صغیر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک ارشاد منقول ہے جسے ماہرین حدیث نے حسن قرار دیا ہے۔

کل قرضٍ جرَّ نفعاً فھو ربا

(جو قرض نفع حاصل کرے وہ ربا ہے) ابن عربی نے احکام القرآن میں اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا

الربوٰ فی اللغۃ الرباوۃ والمراد بہ فی الاٰیۃ کل زیادۃ لا یقابلہا عوض

(یعنی ربا کے معنی اصل لغت میں زیادتی کے ہیں۔ اور آیت میں اس سے مراد وہ زیادتی ہے جس کے مقابلہ میں کوئی مال نہ ہو بلکہ محض ادھار اور اس کی میعاد ہو) اور امام جصاص نے احکام القرآن میں ربا کے معنی بیان کرتے ہوئے کہا

ھوالقرض المشروط فیہ الاجل و زیادۃ مالٍ علی المستقرض

( وہ قرض ہے جس میں کسی میعاد کے لیے اس شرط پر قرض دیا جائے کہ قرض دار اس کو اصل مال سے زائد کچھ رقم دے گا) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد اور ابن عربی اور امام جصاص کی وضاحت سے ربا کی تعریف یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد وہ معین اضافہ ہے جو ایک قرض دینے والا مجرد مہلت کے عوض اپنے مقروض سے اپنی اصل رقم پر وصول کرتا ہے۔ اسلام سے پہلے بھی اور اسلام میں بھی یہ اصطلاح اسی مفہوم کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے اور آج بھی اسی کو سود کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت سودی معاملات کی دو شکلیں رائج تھیں جنھیں اہل عرب ربا کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک مدت مقرر کردیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کردیتا اور دوسری صورت یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص کو قرض دیتا اور اس سے طے کرلیتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہوگی۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدت کے لیے ایک شرح طے ہوجاتی تھی اور اگر اس مدت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادانہ ہوتی تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی۔ لیکن تمام صورتوں میں اصل حقیقت ایک ہی تھی کہ قرض دینے والا قرض دار سے معین شرح پر صرف اس حق کی بنا پر اپنے دیے ہوئے روپے کا منافع وصول کرے کہ اس نے ایک خاص مدت کے لیے اس کو روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ اور اس بات کو اس حقیقت کے تعین میں کوئی دخل نہیں تھا کہ قرض کسی غریب و نادار کو دیا گیا ہے یا کسی امیر و تاجدار کو اور نہ اس بات سے اس میں کوئی فرق واقع ہوتا تھا کہ قرض کسی میت کی تجہیز و تکفین کے لیے دیا گیا ہے یا کسی رفاہی اسکیم کے لیے دیا گیا ہے ‘ یا تجارت ‘ زراعت اور صناعت کے کسی انفرادی یا اجتماعی منصوبے کے لیے دیا گیا ہے۔ جاہلیت اور اسلام دونوں میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ قرض لینے والا امیر ہے یا غریب اور دینے والا کاروبار کے لیے دے رہا ہے یا ذاتی ضرورت کے لیے۔ جس قرض پر یہ ایک متعین اضافہ طے کیا گیا ہے اسے جاہلیت میں بھی اور اسلام میں بھی ربا کہا گیا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں نہ جانے آج تک یہ بحث کیوں جاری ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں جس سود کو حرام قرار دیا گیا تھا وہ دراصل مہاجنی سود تھا جو ایک ضرورتمند اپنی انتہائی ضرورت پورا کرنے کے لیے کسی ساہوکار سے قرض لیتا تھا اور کسی کی ضرورت سے اس طرح فائدہ اٹھانا کہ اصل زر سے زائد وصول کرنا اور اگر وہ وقت پر ادا نہ کرے تو شرح سود کو بڑھاتے جانا یہ یقینا ایک ایسا ظلم ہے جسے کوئی معاشرہ بھی پسند نہیں کرتا۔ لیکن کاش سود کی وکالت کرنے والے اس کی طرف توجہ دے سکیں کہ تم بینکوں اور کاروباری سود کو حلال کرنے کے لیے جو اس طرح کی مو شگافیاں کرتے ہو اس کے نتیجے میں سود کی حرمت کا تصور ہی دماغوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ کیونکہ جب اصل حرمت ہی باقی نہ رہی تو پھر کون اس بکھیڑے میں پڑے کہ کونسا سود ظلم ہے اور کونسا نہیں۔ چناچہ آج بھی کاروباری سود کے ساتھ ساتھ مہاجنی سود بھی پوری طرح ان معاشروں میں جاری وساری ہے جن میں سود کی حرمت کا احساس مرچکا ہے۔

عہد نبوت کو سمجھنے میں کو تاہی

خرابی کی بنیاد یہ ہے کہ کچھ دانشوروں نے عہد نبوت کو سمجھنے میں سخت ٹھوکر کھائی ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ وہ زمانہ انتہائی پسماندگی کا زمانہ تھا۔ عرب صحرا نشین تھے ‘ انتہائی سادہ اور معمولی زندگی گزارتے تھے۔ گلہ بانی پر ان کا گزارہ تھا۔ اگر کہیں کوئی تجارت ہوتی بھی تھی تو گندم اور جو وغیرہ کی۔ یہ جنسیں ایک دوسرے کے تبادلے میں بکتی تھیں۔ اس کے علاوہ ان میں تجارت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی۔ تو جب ان میں تجارت ہی سرے سے مفقود تھی تو کمرشل لون یا کمرشل انٹرسٹ کا اس زمانے میں کیا تصور ہوسکتا ہے۔ حالانکہ اس زمانے کے حالات سے جو شخص کسی حد تک بھی واقف ہے وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے کہ نہر سویز کے وجود میں آنے سے پہلے تک اور بڑے بڑے بحری جہازوں کی ایجاد سے قبل مشرق و مغرب کی تجارت خشکی کے راستے سے ہوتی تھی اور اس وقت تجارتی کاروانوں کی راہ گزر جزیرہ نما عرب تھا۔ عرب کے لوگ عموماً اور اہل مکہ خصوصاً تجارت میں خوب حصہ لیتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے سردیوں میں یمن وفارس کی طرف اور گرمیوں میں شام و روم کی طرف باقاعدگی سے جاتے تھے اور یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ اور تاریخ اس پر شاہد ہے کہ جو قافلہ شام سے ابو سفیان کی قیادت میں مکہ واپس آرہا تھا اور جو جنگ بدر کا سبب بنا اس میں تمام اہل مکہ کا سرمایہ تھا۔ مکہ میں کوئی گھر ایسا نہ تھا جس نے اس میں اپنا حصہ نہ ڈالا ہو۔

ہر قبیلہ جائنٹ اسٹاک کمپنی تھا

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے ” جائنٹ اسٹاک کمپنیاں جدید دور کی پیداوار ہیں اور اس سے پہلے ان کا تصور تک نہیں تھا “ یہ بالکل غلط ہے۔ عرب کا ہر قبیلہ ایک مستقل ” جائنٹ اسٹاک کمپنی “ تھا۔ بلکہ مختلف قبائل مل کر بھی ایک کمپنی کی صورت اختیار کرلیتے تھے۔ پورے مکہ والوں نے جائنٹ اسٹاک کمپنی کی طرز پر ایک ایک دینار اکٹھا کر کے ایک تجارتی کارواں تیار کیا تھا۔ جسے ابو سفیان ملک شام لے کے گئے تھے۔ اور یہ اتنا بڑا کاروان تھا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اور مقصود صرف یہ تھا کہ اس سے حاصل ہونے والے نفع سے مسلمانوں کا استیصال کیا جائے۔ اس قافلے کے علاوہ بھی عرب کا ہر قبیلہ اسی طرز پر اپنا کاروبار کرتا تھا کہ قبیلہ کے تمام لوگ مقدور بھر اپنی پونجی لا کر ایک جگہ جمع کرتے اور پھر اس سے ایک قافلہ تجارت وجود میں آتا تھا۔ اندازہ فرمایئے کہ جس شخص کو پورا قبیلہ اپنے قرض کا امین بنا کر تجارت کے لیے بھیجتا تھا کیا وہ ایک غریب آدمی کو قرض دیتے تھے۔ اور ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو مستقلاً تجارت پیشہ لوگوں کو تجارت کے لیے قرض دیتے۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ جب سود حرام کیا گیا تو بعض لوگوں کا سودی کاروبار دور دور تک پھیلا ہوا تھا اور یہ سارا تجارتی سود تھا۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ حجۃ الوداع میں سود کی حرمت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں آج کے دن جن جن لوگوں کا سود دوسروں کے ذمے ہے وہ ختم کرتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سود ختم کرتا ہوں۔ اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت عباس ( رض) کا سود جو دوسروں کے ذمے تھا وہ دس ہزار مثقال سونا تھا۔ اور ایک مثقال تقریباً چار ماشے کا ہوتا ہے۔ اور یہ دس ہزار مثقال اصل سرمایہ نہیں تھا بلکہ یہ وہ سود تھا جو لوگوں کے ذمے اصل رقوم پر واجب الادا تھا۔ اس سے اندازہ لگایئے کہ وہ قرض جس پر دس ہزار مثقال سونے کا سود لگ گیا ہو کیا وہ قرـض صرف کھانے کی ضروریات کے لیے لیا گیا تھا ؟ یقینا وہ قرض تجارتی مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔

عہد صحا بہ ( رض) میں بینکاری کی مثال

عہد صحابہ ( رض) میں تو ہمیں بینکاری کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ حضرت زبیر بن عوام (رض) عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اپنا حواری فرمایا تھا۔ انھوں نے اپنے پاس بالکل ایسا نظام قائم کیا ہوا تھا جیسے آج کل بینکنگ کا نظام ہوتا ہے۔ لوگ جب ان کے پاس اپنی امانتیں لا کر رکھواتے تو یہ ان سے کہتے کہ میں یہ امانت کی رقم بطور قرض لیتا ہوں تاکہ اگر یہ ضائع ہوجائے تو میرے ذمے اس کی ادائیگی ضروری ہو۔ اور پھر آپ ( رض) اس رقم کو تجارت میں لگاتے ‘ چناچہ جس وقت آپ ( رض) کا انتقال ہوا تو اس وقت جو قرض ان کے ذمہ تھا اس کے بارے میں ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر ( رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ان کے ذمہ واجب الادا قرضوں کا حساب لگایا تو بائیس لاکھ دینار نکلے۔ اس ایک مثال سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس زمانے میں تجارتی قرضوں کا لین دین تھا۔ اور قرآن کریم نے اسی پر زیادتی کو سود قرار دے کر حرام ٹھہرایا ہے۔ اس لیے سود کی حرمت سے راستہ نکالنے کے لیے اس طرح کے مفروضے قائم کرنا کہ اس زمانے میں کمرشل لون نہیں ہوتے تھے یہ سراسر ایک عذر لنگ ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کمپائونڈ انٹرسٹ یعنی مرکب سود تھا۔ اور قرآن کریم نے اسی کو حرام قرار دیا ہے۔ سود مفرد یعنی سمپل انٹرسٹ اس زمانے میں نہیں تھا اور نہ قرآن کریم نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ حالانکہ آگے قرآن کریم میں آیت آرہی ہے اس میں فرمایا گیا ہے کہ جو تمہارا سود باقی ہے اسے چھوڑ دو ۔ اس میں کم یا زیادہ ہونے کا کوئی سوال نہیں۔ اور اگر تم سود سے توبہ کرلو تو تمہارا جو راس المال ہے وہ تمہارا حق ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کوئی سی بھی زیادتی تمہارے لیے ناجائز ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے ہر طرح کے سود کو حرام قرار دیا ہے چاہے وہ سود مفرد ہو یا مرکب ‘ وہ ذاتی ضرورتوں کے لیے دیا جائے یا تجارتی اغراض کے لیے ‘ سود کی حرمت پر ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

بینکنگ انٹرسٹ بھی حرام ہے

جہاں تک بینکنگ انٹرسٹ کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سالوں تک یہ بحثیں ہوتی رہی ہیں کہ جس سود کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے ان میں بینکنگ انٹرسٹ بھی شامل ہے یا نہیں ؟ لیکن اب ساری دنیا کے علماء اور ماہرین معاشیات اور مسلم بینکرز بھی اس بات پر متفق ہیں کہ بینکنگ انٹرسٹ بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح عام قرض کے لین دین پر سود حرام ہوتا ہے۔ اور اب اس پر اجماع ہوچکا ہے کسی قابل ذکر شخص کا اس میں اختلاف نہیں ‘ غالباً 1990 ء یا کم و بیش جدہ میں مجمع الفقہ الاسلامی کا ایک اجتماع ہوا تھا جس میں تقریباً پینتالیس مسلم ملکوں کے دو سو جلیل القدر علماء شریک ہوئے تھے۔ سب نے بالاتفاق یہ فتویٰ دیا تھا کہ بینکنگ انٹرسٹ بالکل حرام ہے ‘ اس کے جائز ہونے کا کوئی راستہ نہیں۔

تجارت اور سود میں فرق

اس آیت کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کی عقلیں اس حد تک مائوف ہوجاتی ہیں کہ وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ آخر ربا میں اس کے سوا کیا چیز ہے کہ اپنے پیسے کے ذریعے آدمی دوسرے سے پیسہ کماتا ہے ؟ جس طرح ایک تاجر تجارت کے ذریعے پیسہ کماتا ہے اور اپنے مال کو تجارت میں صرف کر کے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح سود لینے والا بھی اپنا مال قرض دے کر اس کے بڑھانے کی تدبیر کرتا ہے۔ آج کل بھی سود کو جائز سمجھنے والے اسی دلیل کا سہارا لیتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے سود کو بیع پر قیاس کرنے والوں کی نسل دنیا میں نئی ہے۔ یہ ایک دیوانگی ہے کیونکہ اگر ان پر حب دنیا دیوانگی کی شکل اختیار نہ کرے تو وہ بھی بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک تاجر اور سود خور میں آخر کیا نسبت ہے ؟ ایک تاجر اپنا سرمایہ ایک ایسی چیز کی تجارت پر لگاتا ہے جس کی لوگوں کو طلب ہوتی ہے اور وہ اس کے لیے صرف مال ہی کو حرکت میں نہیں لاتا بلکہ رات دن اس کے لیے محنت کرتا ہے ‘ زحمت اٹھاتا ہے ‘ دوڑ بھاگ کرتا ہے ‘ وقت صرف کرتا اور نیندیں حرام کرتا ہے اور مسلسل محنت کے بعد لوگوں کو وہ اشیائے ضرورت فراہم کرتا ہے کہ لوگ اگر اس کو خود حاصل کرنا چاہتے تو کبھی حاصل نہ کرسکتے اور اگر حاصل کرتے تو کم از کم اس قیمت پر حاصل نہ کرسکتے جس قیمت پر ایک تاجر انھیں مہیا کرتا ہے۔ پھر اس محنت و ریاضت کے ساتھ ساتھ وہ اپنے سرمائے کو تجارت کے اتار چڑھائو کے سپرد کردیتا ہے۔ وہ یقینا اپنا مال تجارت بازار میں نفع کی نیت سے لاتا ہے ‘ لیکن بازار کا اتار چڑھائو تو اس کے قبضہ میں نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سامان کی قیمتیں گرجائیں اور تاجر نقصان کا شکار ہوجائے ‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ قیمتیں مستقیم رہیں اور بازار ایک روش پر چلتا رہے تو تاجر اپنے مال تجارت سے نفع کمالے۔ لیکن اس کو ملنے والا نفع جن خطرات سے گزرتا ہے اور جس محنت کے سہارے آگے بڑھتا ہے اس کا یقینا یہ صلہ ہونا چاہیے کہ تاجر کو یہ نفع ملے اور وہ بجا طور پر جائز سمجھا جائے۔ لیکن اس کے بالمقابل سود پر قرض دینے والا اس کے سوا اور کچھ نہیں کرتا کہ وہ اپنے مال کو حرکت میں لاتا ہے اور طے شدہ نفع پر مال کسی شخص یا کسی پارٹی کے حوالے کرتا ہے۔ اگر یہ مال کسی کی ذاتی ضرورت کے لیے دیا جاتا ہے تو پھر تو اس پر سود لینے کی شناعت اور کراہت میں کلام ہی نہیں کہ مریض اپنے علاج میں اس مال کو صرف کرتا ہے ‘ بھوکا اپنے طعام میں ‘ ننگا اپنے کپڑوں ‘ بےمکان مکان بنانے میں ‘ لیکن یہ شخص آرام سے اپنے گھر میں بیٹھا صرف اصل زر نہیں بلکہ اس کا سود بھی وصول کرتا ہے۔ اور بعض دفعہ ضرورت مند وقت پر مال ادا نہیں کرسکتا تو اس کا سود بڑھتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قرض دار کا گھردر ‘ اس کے اثاث البیت اور اس کے زن و فرزند ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اور خاندان کے خاندان کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ قرض لینے والے پر قیامت گزر جائے سود لینے والے کی ایک دمڑی کم نہیں ہوتی۔ اسے نہ بازار کے اتار چڑھائو سے واسطہ پڑتا ہے ‘ نہ اسے کوئی زحمت اٹھانا پڑتی ہے ‘ ہر صورت میں اس کا نفع مستحکم ہے۔

اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ رفاہی کاموں ‘ اجتماعی منصوبوں اور ملکی اسکیموں کے لیے حکومت امراء سے قرض لیتی ہے اور یہ قرض بھی سود پہ دیا جاتا ہے۔ مثلاً ملک میں سیلاب آگیا۔ اب سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے حکومت ضروری انتظامات کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے حکومت کے خزانے میں گنجائش نہیں۔ تو ملک کے امراء سے قرض لیتی ہے۔ ابھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے بند بنائے جا رہے تھے ‘ پلوں کی مرمت ہو رہی تھی ‘ کنارے دریائوں کے اونچے کیے جارہے تھے اور ضروری انتظامات کا سلسلہ جاری تھا کہ بارشیں شروع ہوگئیں اور بارشوں کی شدت سے دریائوں میں سیلاب آگیا۔ جتنا کام ہوا تھا وہ سب سیلاب کی نذر ہوگیا لیکن جو اس کام کے لیے قرض لیا گیا تھا اس کی ادائیگی سود سمیت حکومت کے ذمے لازم ہے۔ اور یہ قرض دینے والے اسی ملک کے رہنے والے ہیں جس کی منصوبہ بندی پر یہ خرچ ہو رہا تھا ‘ لیکن اس نقصان کی تلافی کا بوجھ پورے ملک کے امیروں اور غریبوں پر پڑے گا۔ لیکن یہ قرض دینے والے ‘ قرض چھوڑنا تو دور کی بات ہے اپنی سود کی معین شرح میں کوئی کمی کرنا بھی گوارا نہیں کریں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کا سود بڑھتا چلا جائے گا۔ اندازہ فرمایئے کہ ایسے سودی کاروبار کا تجارتی کاروبار سے کیا مقابلہ ؟ اور ان کی آپس میں کیا مشابہت ؟ دنیا میں ہر کاروبار محنت چاہتا ہے اور ہر سرمایہ نقصان کے خطرے سے دوچار ہوتا ہے اور کسی بھی کاروبار میں حتمی منافع کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ‘ لیکن ایک قرض دینے والا ایسا کاروباری ہے کہ جس کے سرمائے کی حفاظت یقینی ہے اور جس کا متعین نفع کبھی نقصان سے دوچار نہیں ہوتا۔ اگر دنیا میں انصاف کی کوئی رمق بھی باقی ہے تو انھیں خود سوچنا چاہیے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت ‘ اپنی محنت ‘ اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپا رہے ہیں اور جن کی سعی و کوشش کے بل پر ہی اس کاروبار کا بار آور ہونا موقوف ہے ‘ ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو ‘ بلکہ نقصان کا سارا خطرہ بالکل انہی کے سر پر ہو ‘ مگر جس نے صرف اپنا روپیہ انھیں قرض دے دیا ہو وہ بےخطر ایک طے شدہ منافع وصول کرتا چلا جائے ‘ آخر کس عقل ‘ کس منطق ‘ کس اصول انصاف اور کس اصول معاشیات کی رو سے درست ہے ؟

تجارت اور سود کے درمیان اصولی فرق کی وجوہ

صاحب تفہیم القرآن نے تجارت اور سود کے اصولی فرق کے حوالے سے چار بنیادی باتیں کہی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان سے استفادہ کیا جائے :

1 تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے ‘ کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اٹھاتا ہے جو اس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اس محنت ‘ ذہانت اور وقت کی اجرت لیتا ہے ‘ جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیا کرنے میں صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے سودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے ‘ جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے ‘ لیکن اس کے مقابلے میں سود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے ‘ جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔ اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مہلت اس کے لے قطعی نافع نہیں ہے۔ اور اگر وہ تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے ‘ یا ایک کے یقینی اور متعین فائدے اور دوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔

2 تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے ‘ بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے ‘ ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مدیون نے اس کے مال سے خوہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو ‘ بہرطور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اٹھاتا ہے اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مدیون کی پوری کمائی ‘ اس کے تمام وسائل معیشت ‘ حتیٰ کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کرلے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے۔

3 تجارت میں شے اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی۔ مکان یا زمین یا سامان کے کرائے میں اصل شے ‘ جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے ‘ صرف نہیں ہوتی ‘ بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ مالک جائیداد کو واپس دے دی جاتی ہے۔ لیکن سود کے معاملے میں قرض دار سرمایہ کو صرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ مال دوبارہ پید اکر کے اضافے کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے۔

4 تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت ‘ ذہانت اور وقت صرف کر کے اس کا فائدہ لیتا ہے۔ مگر سودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کربلا کسی محنت و مشقت کے دوسرے کی کمائی میں شریک غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اصطلاحی ” شریک “ کی نہیں ہوتی جو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے ‘ بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظ تناسبِ نفع اپنے طے شدہ منافع کا دعوے دار ہوتا ہے۔ “

ان وجوہ سے تجارت کی معاشی حیثیت اور سود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم الشان فرق ہوجاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل ‘ خود غرضی ‘ شقاوت ‘ بےرحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے اور ہمدردی و امدادباہمی کی روح کو فنا کردیتا ہے۔ اس بنا پر سود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے۔ (ماخوذ از : تفہیم القرآن)

سود کے نقصانات

بعض لوگ مسلمان کہلاتے ہوئے بھی جو صرف عقل سے سوچتے ہیں اور عقل ہی کے ترازو میں مذہب کو بھی تولتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ تجارت اور سود یکساں نہیں ‘ ہر لحاظ سے ان میں بڑا فرق ہے ‘ لیکن اگر ایک شخص کسی کو اپنا سرمایہ قرض پردے کر اسے کاروبار کرنے کی سہولت مہیا کرتا ہے اور وہ اس سے ڈھیروں کماتا ہے ‘ اس میں سے سرمائے کا مالک اگر ایک متعین حصہ لے لیتا ہے تو اس میں آخر حرج ہی کیا ہے ؟ گذارش یہ ہے کہ اس میں سب سے بڑا حرج تو یہ ہے کہ یہ اللہ کے احکام کی صریح نافرمانی ہے۔ حلت و حرمت کا اختیار اور جائز و ناجائز کی اتھارٹی سراسر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا حکم آخری حکم ہے۔ جس میں اس کا رسول بھی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ سود کو چونکہ وہ حرام کرچکا ہے اور جان بوجھ کر اس کی نافرمانی کرنے والے کو جہنم میں بھیجنے کی دھمکی دیتا ہے تو جو شخص اپنا سرمایہ کسی بھی سودی کاروبار میں لگاتا ہے وہ اللہ کے حکم کو توڑتا ہے اور اس کا نقصان یہ ہے کہ ایسا شخص جہنم کا ایندھن بنے گا۔ لیکن محض سمجھانے کے لیے میں عرض کرتا ہوں کہ اسلام کا نقطہ نگاہ بالکل واضح ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ جب تم کسی شخص کو قرض دیتے ہو تو تمہاری نیت کیا ہے ؟ تم اس کی مدد کرنا چاہتے ہو تو پھر اس پر معاوضہ کیسا ؟ مدد کی صورت میں عوض اور معاوضہ بےمعنی چیز ہے۔ اور اگر تم اسے قرض دے کر کاروبار میں شریک ہونا چاہتے ہو تو پھر تمہیں معقولیت اور سیدھے طریقے سے کاروبار میں شریک ہونا چاہیے۔ کاروبار میں شریک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ تمہارا ہو اور محنت دوسرے کی اور نفع میں تم دونوں طے شدہ تناسب سے شرکت کرو۔ یہ وہ معقول بات ہے جس کی طرف اسلام دعوت دیتا ہے۔ لیکن اسے وہ غور کے قابل بھی نہیں سمجھتا کہ ایک شخص دوسرے کو کاروبار کے لیے سرمایہ دیتا ہے اور پھر اسے یہ کہتا ہے کہ میں اتنے فیصد تم سے نفع لوں گا۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اسے کاروبار میں نفع ہوتا ہے یا نقصان۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دینے ولا اپنا سرمایہ اور اس پر متعین نفع تو محفوظ رکھنا چاہتا ہے لیکن محنت کرنے والا اور جان مارنے والا جس کی روزی کا دارومدار ہی اس کاروبار پر ہے اس کے لیے کوئی ضمانت نہیں۔ اگر وہ گھاٹے کا شکار ہوجاتا ہے تو نقصان سارا اس کی گردن پر ہوگا۔ یہ وہ ظلم ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔

ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ آج کل جو انٹرسٹ کا نظام رائج ہے اس میں آپ جانتے ہیں کہ ایک متعین شرح سود پر کاروبار کے لیے بینک قرض دیتا ہے۔ فرض کیجئے بینک نے اسے ایک کروڑ روپیہ قرض دیا۔ ذرا غور کیجئے یہ ایک کروڑ روپیہ کہاں سے آیا ؟ یہ ایک کروڑ روپیہ بینک کا نہیں بلکہ ڈیبازیٹرس کا ہے۔ یعنی قوم کے ان افراد کا ہے جنھوں نے بینک میں اپنے اکائونٹس کھلوا رکھے ہیں۔ کاروبار کرنے والے کو سو فیصد نفع ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ایک کروڑ پر ایک کروڑ کمایا۔ اس نے بینک سے پندرہ فیصد شرح سود سے قرض لیا تھا۔ چناچہ اس نے پندرہ لاکھ بینک کو ادا کیا اور پچاسی لاکھ کا اسے فائدہ ہوا۔ بینک نے اس میں سے اپنے اخراجات نکال کر باقی سات فیصد یا دس فیصد ڈیبازیٹرس کو دیا۔ یعنی جن لوگوں کے سرمائے سے یہ کاروبار کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کاروبار کرنے والے نے تو سو فیصد فائدہ اٹھایا اور کھاتہ دار کے حصے میں دس فیصد آیا۔ لیکن وہ سو میں سے دس روپے لے کر بھی خوش ہے کہ مجھے دس روپے نفع ہوا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کے پیسوں سے سو فیصد کمایا گیا اور اسے دس فیصد پر ٹرخا دیا گیا ہے۔ اس پر بھی مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض دفعہ یہ دس روپے جو نفع میں دیے گئے ہیں قرض لینے والا یہ بھی وصول کرلیتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ قرض لینے والا ان دس روپوں کو پیداواری اخراجات یعنی کا سٹ آف پروڈکشن میں شامل کرلیتا ہے۔ فرض کیجئے اس نے ایک کروڑ روپیہ بینک سے قرض لے کر ایک فیکٹری لگائی یا کوئی چیز تیار کی۔ تو تیاری کے مصارف میں پندرہ فیصد بھی شامل کردیے جو اس نے بینک کو ادا کیے تھے۔ تو اب جو چیز تیار ہوگی اس کی قیمت پندرہ فیصد بڑھ جائے گی لہٰذا ڈیبازیٹر جسے ایک سو کے ایک سو دس روپے ملے تھے جب وہ بازار سے کپڑا خریدے گا تو اس کو اس کپڑے کی قیمت پندرہ فیصد زیادہ دینی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیبازیٹر کو جو دس فیصد منافع دیا گیا تھا وہ دوسرے ہاتھ سے پندرہ فیصد وصول کرلیا گیا۔ ڈیبازیٹر بچارہ خوش ہے کہ مجھے سو کے ایک سو دس روپے مل گئے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کو سو روپے کے بدلے پچانوے روپے ملے۔ اس لیے کہ وہ پندرہ فیصد کپڑے کی کا سٹ میں چلے گئے۔ اور دوسری طرف پچاسی فیصد منافع اس قرض لینے والے کی جیب میں چلا گیا۔ اگر یہ سارا کاروبار شرکت کی بنیاد پر ہوتا اور یہ پہلے سے طے کرلیا جاتا کہ پچاس فیصد نفع سرمایہ لگانے والے کا ہوگا اور پچاس فیصد کام کرنے والے کا تو اس صورت میں کھاتہ داروں کو پندرہ فیصد کی بجائے پچاس فیصد نفع ملتا۔ اس ایک مثال سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کھاتہ دار ہر صورت میں نقصان میں رہتا ہے۔ لیکن بظاہر اسے سود کے نام پر دھوکا دیا جاتا ہے۔ اور یہ سب کچھ بینکنگ سسٹم کے تحت ہو رہا ہے۔ اور اسی پر بس نہیں بعض دفعہ تو یہ ظلم اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے کہ فرض کیجئے کہ کسی نے ایک کروڑ روپیہ بینک سے قرض لے کر تجارت کی۔ اس تجارت میں اس کو نقصان ہوگیا۔ اور بینک اس نقصان کے نتیجے میں دیوالیہ ہوگیا۔ غور کیجئے بینک کے دیوالیہ ہونے کے نتیجے میں روپیہ کس کا گیا۔ ظاہر ہے کہ وہ ڈیبازیٹرس یعنی عوام کا روپیہ تھا ‘ نقصان ہونے کی صورت میں وہ سارا روپیہ ڈوب گیا۔ کس قدر اندھیر نگری ہے کہ اگر نفع ہے تو سارے کا سارا قرض لینے والے کا اور اگر نقصان ہے تو سارے کے سارا ڈیبازیٹرس یعنی عوام کا۔

مشارکت

اس لیے اسلام بالکل سیدھی بات کہتا ہے کہ تم کاروبار کو کاروبار کے طریقے سے کرو۔ سود کے حامیوں نے یہ بھی سمجھ رکھا ہے کہ آج کے دور میں کاروبار شاید سود کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ لیکن اسلام نے اس کے متبادل بھی تجویز کیے ہیں۔ یہ اگرچہ تفصیل طلب بحث ہے اور نہایت ٹیکنیکل بھی۔ اس لیے ہم صرف نام کی حد تک اس کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں کہ انٹرسٹ کا اصل متبادل جسے کاروبار کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے وہ مشارکت ہے۔ یعنی جب کوئی شخص کاروبار کے لیے قرض لے رہا ہے تو قرض دینے والا یہ کہے کہ میں تمہیں قرض حسنہ نہیں دے رہا اور نہ تمہیں سود پر قرض دوں گا۔ بلکہ میں تمہارے کاروبار میں حصہ دار بننا چاہتا ہوں ‘ اگر تمہیں نفع ہوگا تو میں اس نفع میں شریک ہوں گا اور اگر نقصان ہوگا تو میں نقصان میں بھی شامل ہوں گا۔ اس طرح کاروبار کے نفع اور نقصان میں شرکت پر مبنی کاروبار مشارکت کہلاتا ہے۔ یہی سب سے بہتر متبادل ہے۔ اور اسی کی بنیاد پر آج دنیا میں سو سے زیادہ بینک اور سرمایہ داری کے ادارے قائم ہوچکے ہیں اور وہ نہایت کامیابی سے چل رہے ہیں۔ اور بعض جگہ مذہبی نگران کمیٹیاں بن چکی ہیں جن میں اقتصادی ماہرین کے ساتھ ساتھ علماء بھی موجود ہیں جو باقاعدہ اس کاروبار کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس میں اگرچہ عملی دشواریاں ہیں لیکن اگر کوئی ملک پوری کمٹمنٹ کے ساتھ اس طریقے کو اپنا لے تو بڑی آسانی سے ان دشواریوں پر قابو پاسکتا ہے۔

اجارہ

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اصل متبادل تو مشارکت ہی ہے لیکن وقتی طور پر اجارہ یعنی لیزنگ کو بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور طریقہ مرابحہ یعنی فائینانسنگ بھی ہے۔ اجارہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص نے بینک سے قرض مانگا ہے تو بینک نے اس سے پوچھا کہ آپ کی ضرورت کیا ہے ؟ اس نے بتایا کہ میں اپنے کار خانے کے لیے باہر سے مشینری منگوانا چاہتا ہوں۔ تو بینک اگر اسے پیسے دینے کی بجائے مشینری خرید کر اسے کرایہ پردے دے تو اسے اجارہ یا لیزنگ کہتے ہیں۔

مرابحہ

اسی طرح کوئی شخص بینک سے اس لیے قرض لینا چاہتا ہے کہ وہ خام مال خریدنا چاہتا ہے تو بینک اس کو خام مال خریدنے کے لیے پیسے دینے کی بجائے خود خام مال خرید کر اسے نفع پر بیچ دے اسے مرابحہ کہتے ہیں اور شریعت نے اسے جائز رکھا ہے۔ کیونکہ شریعت کے قانون کے مطابق روپیہ کے اوپر روپیہ نہیں لیا جاسکتا اور اسی طرح روپیہ پر منافع بھی نہیں لیا جاسکتا ‘ لیکن اگر درمیان میں کوئی چیز یا مال تجارت آجائے اور اس کو فروخت کر کے نفع حاصل کرے اس کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے۔ مرابحہ کے اندر بھی درمیان میں مال آجاتا ہے۔ اس لیے شریعت کے اعتبار سے وہ سودا جائز ہے۔

امرہ الی اللّٰہ کا مفہوم

اس آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا گیا کہ جس شخص کے پاس یہ نصیحت پہنچ گئی اور کلام کے تیور دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ موعظۃ کا لفظ تنبیہ یا وارننگ کے معنی میں ہے۔ تو اس نے اب تک جو سودی کاروبار کیا ‘ جو سود لیا ‘ جو سود کھایا اور جتنا اس سے فائدہ اٹھایا وہ اس کے لیے ہے ‘ یعنی اس پر قانونی گرفت نہیں ہوگی۔ اسلامی حکومت اس سے نہیں پوچھے گی کہ تم اپنے پچھلے کھاتے ہمیں دکھائو اور جن جن لوگوں سے تم نے سود لیا ان کا حساب دو تاکہ ان کی لی ہوئی رقمیں انھیں واپس دلائی جاسکیں۔ اگر ایسا ہوتا تو لامتناہی مقدمات کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ اس لیے اسلام نے اس قانونی رعایت کا احترام کرتے ہوئے اس حکم کے بعد نئی کاروباری زندگی کے آغاز کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سود لینے والے کو اطمینان سے بیٹھ جانا چاہیے۔ اب اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی حکومت سے تم چھوٹ گئے لیکن اب تمہارا معاملہ جس کے ساتھ ہے وہ تمہارے ایک ایک عمل سے واقف ہے۔ اس لیے اس کے سامنے جوابدہی کی تیاری کرو۔ اس کے سامنے جوابدہی کے لیے کم سے کم تیاری یہ ہے کہ اپنا معاشی اور اخلاقی نقطہ نظر پوری طرح اسلام کے مطابق ڈھال لو۔ اور اس سے پہلے جو کچھ ہوچکا اس کے اثرات جہاں تک ختم کیے جاسکتے ہیں انھیں ختم کرنے کی کوشش کرو۔ یعنی حرام ذرائع کی آمدنی کو اپنی ذات اور اپنے بچوں پر خرچ کرنے سے گریز کرو۔ اور جن جن لوگوں سے یہ حرام سرمایہ حاصل کیا گیا تھا اگر وہ مل جائیں تو انھیں واپس کرو۔ اور اگر اس کے مستحقین نہ ملیں تو کسی اجتماعی فلاح و بہبود پر اسے صرف کرو۔ اس سے امید ہے کہ اللہ کے یہاں جواب دہی آسان ہوجائے گی۔

اس کے بعد آخری وارننگ دیتے ہوئے فرمایا کہ سود کی حرمت کے نازل ہوجانے کے بعد اور اسلامی حکومت کی طرف سے پوری طرح اس کی تبلیغ و اشاعت کے بعد اب بھی اگر کسی نے اس حرام فعل کا اعادہ کیا اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے سودی کاروبار میں ملوث رہا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا جہنم ہے۔ اور یہ وہ وقتی سزا نہیں بلکہ اس جرم کے نتیجے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا پڑے گا۔ جس آدمی کے دل میں ایمان کی کچھ رمق بھی باقی ہے اسے اس سزا کے سن لینے کے بعد کبھی جرم کا تصور بھی نہیں کرنا چاہیے۔

يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ٢٧٦؁

اللہ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اور اللہ ناشکروں اور حق تلفی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ ط وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ ۔

(اللہ سود کو گھٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اور اللہ ناشکروں اور حق تلفی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا) (٢٧٦)

اس آیت کریمہ میں اللہ نے ایک ایسی بات ارشاد فرمائی ہے جو نظر بہ ظاہر خلاف عقل معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہاں ربا کے مقابلے میں صدقات کا لفظ آیا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ صدقات صدقہ کی جمع ہے اور صدقہ اپنے مال میں سے ایک حصہ یا اپنی اشیاء میں سے کوئی چیز اللہ کے راستے میں دینے کا نام ہے۔ اور ربا اپنے مال پر نفع لینے کا نام ہے۔ اصل راس المال محفوظ رہے اور اس کے ساتھ منافع بھی وصول ہو تو صاف نظر آتا ہے کہ مال بڑھ رہا ہے۔ لیکن اگر اصل مال میں سے بھی کچھ حصہ اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے تو یقینا اصل مال میں کمی آجائے گی۔ لیکن اس آیت کریمہ میں اس کے برعکس ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ تم جسے اضافہ کا باعث سمجھتے ہو وہ کمی کا باعث ہے۔ اور جسے تم کمی کا سبب جانتے ہو وہ برکت اور اضافے کا سبب ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے گہری نگاہ کی ضرورت ہے۔ ایک بات تو بالکل سامنے کی ہے کہ پروردگار جب کسی مال کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ وہ بڑھتا ہے اور دوسرے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ گھٹتا ہے اور پھر ایسا بھی نہیں کہ مال خود بخود گھٹتا یا بڑھتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ایک مال کو بڑھاتے ہیں اور ایک مال کو گھٹاتے ہیں تو اسے دیکھتے ہوئے ایک مسلمان اس بات میں تو شبہ نہیں کرسکتا کہ پروردگار کا یہ ارشاد غلط بھی ہوسکتا ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ ہمیں سمجھنے میں دشواری پیش آئے یا ہماری عقل نارسا ثابت ہو لیکن اس حقیقت کے صحیح ہونے میں کسی شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اللہ کا یہ ارشاد اپنے اندر کیا معنویت رکھتا ہے۔

صدقات کے بڑھنے اور سود کے گھٹنے کا مفہوم

بعض اہل علم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ گھٹنا اور بڑھنا دنیوی زندگی کے محدود تصور کے لحاظ سے نہیں ہے ‘ بلکہ دنیا اور آخرت دونوں کی مجموعی زندگی کے لحاظ سے ہے۔ کیونکہ دنیا کی زندگی ہی ّحقیقی اور مکمل زندگی نہیں بلکہ اس زندگی کی تکمیل قیامت کو ہوگی۔ اور دوسرا یہ کہ یہ زندگی تو چند روزہ اور فانی ہے اور دوسری زندگی حقیقی اور ابدی ہے۔ یہاں کسی فائدے کا مل جانا ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی کو چار دن کی چاندنی مل جائے اور اس کے بعد اسے لمبی رات سے واسطہ پڑے۔ لیکن اگر کسی شخص کو دوسری اور اخروی زندگی میں کوئی نعمت نصیب ہوتی ہے تو درحقیقت وہ نعمت ہے جو ہمیشہ رہے گی اور جو قابل ذکر بھی ہے اور قابل فخر بھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیوی زندگی کا خاتمہ ایسا ہی ہے جیسے آدمی سو جاتا ہے اور اخروی زندگی کا طلوع ایسے ہی ہے جیسے آدمی نیند سے بیدار ہوجاتا ہے۔ ایک سودی کاروبار کرنے والا جب اخروی زندگی کے ظہور کے بعد اپنی نیند سے بیدار ہوگا تو اس کے ذہن میں یقینا یہ تصور موجود ہوگا کہ بنکوں میں میرا لاکھوں کا سرمایہ موجود ہے ‘ لیکن جیسے ہی حقیقت اس کے سامنے ظاہر ہوگی تو وہ دیکھے گا کہ خدا کے بنک میں اس کی ایک کوڑی بھی نہیں۔ لیکن اس کے مقابل جب اللہ کے راستے میں انفاق کرنے والا اخروی زندگی میں اٹھے گا تو وہ دیکھے گا کہ اس نے جو اپنی بساط کے مطابق اللہ کے راستے میں ایک محدود مال خرچ کیا تھا اس کے بدلے میں ابدی قدروقیمت رکھنے والے جواہرات کے انبار اس کے انتظار میں ہیں۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگا کہ اس کے خزف ریزے آخرت میں موتیوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سود لینے والے کا مال نہ صرف اللہ کم کرتا ہے بلکہ آخرت میں بالکل تباہ کردیا جائے گا۔ البتہ اس کا اثر سود خور کے انجام پر یہ پڑے گا کہ وہ صدیوں تک اس کی سزا بھگتے گا۔ لیکن اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والا ‘ اللہ کی طرف سے بیش بہا اجر وثواب سے نوازا جائے گا۔ اسی لیے سورة روم کی آیت ٣٩ میں ارشاد فرمایا ہے

وَمَا اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبَا لِّیَرْبُوَ فِی اَمْوَالِ النَّاسِ فَلاَ یَرْبُوْا عِنْدَاللّٰہِ وَمَا اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَّکٰوْۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ المُضْعِفُوْنَ

(جو مال تم سود کے لیے دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مال میں پل کے بڑھے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور یہ جو تم زکوۃ دیتے ہو اس کی رضا طلبی میں تو یہی لوگ خدا کے ہاں بڑھانے والے ہیں) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ارشادِ گرامی سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ صدقہ کو قبول کرتا ہے اور اس کو اپنے داہنے ہاتھ سے لیتا ہے اور پھر وہ اس کی تمہارے لیے اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ تمہارا دیا ہوا ایک لقمہ خدا کے ہاں احد پہاڑ کی مانند بن جائے گا۔ “

سود کے مضر اثرات مختلف پہلوئوں سے

جہاں تک آخرت میں اللہ کے بندوں کو دیا ہوا قرض اور اللہ کے راستے میں دیے گئے صدقات کا تعلق ہے اس کے بڑھنے میں تو کوئی شبہ نہیں ‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں سود سے کمایا ہوا مال و دولت اور سودی کاروبار اپنے حقیقی نتائج کے اعتبار سے بڑھتا نہیں بلکہ کم ہوتا ہے۔ البتہ ہمیں اسے سمجھنے کے لیے اس کے مختلف پہلوئوں پر غور کرنا ہوگا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں کی نگاہ مال و دولت کے اعتبار سے صرف اعداد و شمار پر رہتی ہے وہ تو یقینا اسی نقطہ نگاہ سے قوم کی ترقی اور ملک کے وسائل کی افزائش کو جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ ان کا معیار صرف یہ ہوتا ہے کہ ملک میں لگائے گئے ٹیکسوں سے کتنی آمدنی ہوئی ‘ سی بی آر نے کتنا کسٹم اکٹھا کیا ‘ ہمارے کھیتوں نے کتنا غلہ اگلا ‘ ہمارا زر مبادلہ کس سطح تک پہنچ گیا ہے ‘ ان کے لیے یہ بات سمجھنا تو واقعی مشکل ہے۔ البتہ جو لوگ دولت کو اخلاق اور تمدن سے الگ رکھ کر نہیں بلکہ اس کے خادم کے طور پر دیکھتے ہیں وہ سب سے پہلے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ کمایا اس کے ملک و ملت پر کیا اثرات پڑے ؟ ہماری قوم کے افراد میں کس طرح کی ذہنیت پیدا ہوئی ؟ اس مال و دولت کی وجہ سے کس طرح کے اخلاق وجود میں آئے ؟ کیونکہ مال افراد اور قوم کی ضرورت کے تحت وجود میں آیا ہے بجائے خود اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ملک کا زر مبادلہ بڑھتا جائے لیکن ساتھ ساتھ غریب کے جھونپڑے میں چراغ کی لو مدھم پڑتی جائے تو اسے بڑھنا نہیں گھٹنا کہتے ہیں۔ مال و دولت میں وسعت آئے لیکن طبیعتوں میں بخل ‘ سنگدلی ‘ خودغرضی جیسی صفات پیدا ہوجائیں تو دولت کے ان خزف ریزوں کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے گا ؟ اس لیے جو دولت اور جو کمائی اخلاق کے زوال تمدن میں انتشار اور باہمی تعلقات کے بگاڑ کا سبب بنے ‘ اسے بڑھنا نہیں گھٹنا کہنا چاہیے۔ اس لحاظ سے اگر آپ دیکھیں تو آپ اتفاق کریں گے کہ صدقات انفاق فی سبیل اللہ اور دوسروں کے کام آنے کا جذبہ افراد میں فیاضی ‘ ہمدردی ‘ فراخدلی اور عالیٰ ظرفی جیسی صفات پیدا کرتے ہیں۔ اور جیسے جیسے یہ بےغرض لین دین بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے افراد ایک دوسرے کے قریب آتے جاتے ہیں اور قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس سود انسانوں میں بالکل دوسری طرح کی صفات پیدا کرتا ہے۔ سود کمانے والا شخص کبھی فیاض نہیں ہوسکتا۔ دوسرے کی مصیبت دیکھ کر اس کے دل میں کبھی رحمدلی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ وہ اتنا تنگ دل اور سنگدل واقع ہوتا ہے کہ ملک و ملت کی بڑی سے بڑی ضرورت ‘ اس کی تجوری کا دروازہ نہیں کھول سکتی۔ اسے انسانوں سے نہیں اپنی دولت سے واسطہ ہوتا ہے۔ ملک کدھر جا رہا ہے ؟ ملک کے حالات کیسے ہیں ؟ غربت کہاں تک پہنچ گئی ہے ؟ خود اسکے ہمسائے کس حال میں ہیں ؟ یہ باتیں اس کے لیے اجنبی ہوتی ہیں۔ وہ رات دن اپنی دولت کو نشو و نما دینے کی سوچ میں ڈوبا رہتا ہے۔ ایسے لوگ اگر سوسائٹی میں ایک بڑی تعداد میں پھیل جائیں اور معاشرہ انہی افراد کے زیر اثر پرورش پائے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس قوم کے تمدن کا کیا بنے گا۔ ایسی قوم میں طبقات میں اضافے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ مالدار طبقہ روز بروز مالدار ہوگا اور غریب طبقہ میں غربت بڑھتی چلی جائے گی۔ دونوں کے درمیان پہلے تعلقات ٹوٹیں گے ‘ پھر اس کی جگہ نفرتیں لیں گی۔ افراد میں آپس کی محبت کی بجائے باہمی بغض و حسد اور بےدردی و بےتعلقی نشو و نما پائے گی۔ اس معاشرے کے افراد کسی بھی وقت باہمی تصادم کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اور اگر ایسانہ بھی ہو تو خدا نہ کرے کہ اس قوم پر باہر سے حملہ ہوجائے تو ملک کی اکثریت مالداروں کے ظلم میں پسنے اور ریاست کی بےتعلقی کے باعث ریاست سے بےتعلق ہوجائے گی اور وہ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے ہاتھ ہلانا بھی گوارا نہ کرے گی۔ ملک کی سا لمیت تباہ ہوجائے گی اور قوم انسانوں کی بھیڑ بن کے رہ جائے گی۔ اندازہ فرمایئے ایسی صورت حال میں کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ سودی کاروبار میں اضافہ ہوا۔ اور وہ اضافہ ملک کے لیے خیر و برکت کا باعث بنا۔

جس قوم کی کوئی اخلاقی اقدار نہ ہوں ‘ روحانی تصورات نہ ہوں ‘ اور اس کے پاس کوئی منزل من اللہ دین نہ ہو اس کی اخلاقیات اور اس کی اقدار کاروبار کے نشیب و فراز سے وجود میں آتی ہیں۔ اور وہ قوم از اول تا آخر ایک کاروباری قوم ہوتی ہے۔ ان کے یہاں سودی کاروبار ایک عرصے تک پھل پھول سکتا ہے ‘ لیکن دیرپا کبھی نہیں ہوسکتا۔ وہ بھی اپنے سارے وسائل کے باوجود غربت کا علاج کرنے سے قاصر رہتی ہیں اور مجموعی طور پر ایسی قومیں دوسری قوموں کے لیے عذاب بن جاتی ہیں۔ آج دنیا کی بالا دست قومیں اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ لیکن جس قوم کا ایک روحانی نظام ہو ‘ اس کے خاص تصورات ہوں ‘ اس کی اخلاقی اقدار ہوں ‘ وہ ایک منزل من اللہ دین رکھتی ہو ‘ وہ کبھی اپنے احساسات ‘ اپنے مقاصد ‘ اپنی اقدار اور اپنے تصورات سے ہٹ کر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس کے یہاں کاروبار ‘ ان تصورات سے الگ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کاروبار کا جو طریقہ ان تصورات کو نقصان پہنچاتا ہے وہ تصادم کو جنم دیتا اور قوم کی وحدت کو تباہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ ربا اور سود قومی وحدت کو توڑنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر امت مسلمہ کو اپنی وحدت عزیز ہے تو اسے اس طرح کی ہر اسکیم ‘ ہر کاروبار اور ہر کوشش کو قبول کرنے سے انکار کردینا چاہیے۔

معاشی نقطہ نظر سے

معاشی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو سودی کاروبار ترقی اور اضافے کا باعث نہیں ہے۔ بلکہ نقصان اور تنزل کا باعث ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشیات کے نقطہ نگاہ سے سودی قرض کی دو قسمیں ہیں ‘ ایک وہ قرض جو ضرورت مند اور حاجت مند لوگ اپنی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ساہوکاروں سے لیتے ہیں۔ اور دوسرا وہ قرض جو تجارت ‘ صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں۔ جہاں تک پہلی قسم کے قرض کا تعلق ہے اس سے تو شاید کسی کو اختلاف نہ ہو کہ یہ ایک تباہ کن قرض ہے جس میں قرض دینے والے ادارے پلتے ‘ بڑھتے اور ترقی پاتے ہیں۔ لیکن قرض لینے والے غریب ‘ مزدور ‘ کاشتکار اور بےوسیلہ لوگ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ اصل قرض ادا کرنا ہی مقروض کے لیے آسان نہیں ہوتا چہ جائیکہ اس پر سود کا بوجھ لاد دیا جائے۔ اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سود کی رقم میں اضافہ بھی ہوتا جائے۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ مقروض اپنی ہمت سے بڑھ کر محنت کرتا ہے ‘ اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر قرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی صحت روز بروز گرتی چلی جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب وہ صحت کی توانائی کے ساتھ قرض ادا نہ کرسکا اور سود ادا کرتے کرتے اس کی کمر ٹوٹ گئی تو اب وہ کمزور صحت اور علاج کے اخراجات کے بوجھ سمیت کس طرح سودی قرض ادا کرسکے گا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ محنت سے روزی کمانے والوں کی ہر معاشرے میں اکثریت ہوتی ہے جب وہ اس طرح کی مصیبتوں میں ڈوب کر صحت کھو دیتے ہیں تو محنت کرنے والے ہاتھ روز بروز کم ہوتے جاتے ہیں۔ ہاتھوں کی کمی کے باعث ملکی معیشت تنزل کا شکار ہوجاتی ہے۔ غیر جانبداری سے غور فرمایئے کہ ملکی معیشت کے تنزل کا سبب کون بنا ؟ اگر اس معاشرے میں صدقات کا چلن ہوتا ‘ ہمدردی اور خیر خواہی ہوتی ‘ ایک دوسرے کے کام آنے کا جذبہ ہوتا ‘ بلا سود قرض ملنے کے امکانات ہوتے تو غریب لوگ اپنی حالت بہتر بنانے کے امکانات سے مایوس نہ ہوتے۔ ان کے کام کی صلاحیت میں کمی نہ آتی۔ ان کی صحتیں ضرورت سے زیادہ محنت کے کام نہ آتیں۔ سرمایہ بہت سے ہاتھوں میں پھیل کر ملکی معیشت میں ترقی کا باعث ہوتا ‘ لیکن جب اس کے بالکل برعکس ہم نے ان لوگوں کو سود کے حوالے کردیا تو اس کا نتیجہ تنزل کی شکل میں نکلا۔ اور بعض دفعہ تو صورت حال اور بھی خطرناک ہوجاتی ہے کہ اگر کبھی ایسے ملک میں کسی انقلاب کی فضا پیدا ہوجائے تو دولت مندوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگ اپنی محرومیوں کا حساب ان دولت مندوں سے لیتے ہیں۔ پھر کوئی محل کھڑا نہیں رہتا ‘ کوئی تجوری سلامت نہیں رہتی ‘ سڑکوں پہ خون بہتا ہے۔ یہ انجام ہوتا ہے غریب معاشرے میں سود اور سودی ذہنیت کے عام ہونے کا۔

جہاں تک دوسری قسم کے سود کا تعلق ہے جو تجارت ‘ صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ پر دیا جاتا ہے ‘ اس کی صورت حال بھی بہت دلچسپ ہے۔ سود دینے والے ادارے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ سود پر قرض لینے والا ہمارا سرمایہ کس طرح کے منصوبے پر خرچ کرنا چاہتا ہے ؟ اگر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ جس منصوبے کے لیے قرض مانگا جا رہا ہے وہ ملک و ملت کے لیے چاہے جتنا بھی ضروری ہو لیکن منافع کے نقطہ نگاہ سے اس میں افزائش کے امکانات بہت کم ہیں تو وہ ایسے کام کے لیے قرض دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ وہ تو ایسے کاموں پر قرض دیتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ منافع لاسکتے ہیں ‘ چاہے ان کی ملک کو ضرورت ہو یا نہ ہو ؟ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کے تمام مالی وسائل کا بہائو ایسے کاموں کی طرف ہوجاتا ہے جو اجتماعی حیثیت سے انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یا کم از کم مفید نہیں ہوتے۔ آپ خود اندازہ فرمایئے کہ ایسے سودی قرض کے نتیجے میں یہ تو ہوسکتا ہے کہ قرض دینے والوں کو فائدہ پہنچے اور قرض لینے والے بھی ذاتی طور پر کچھ کما لیں لیکن اگر ملکی معیشت چند افراد کا نہیں پوری ملک کی نسبت سے دیکھی جاتی ہے تو غیر ضروری کاموں پر خرچ ہونے والا سرمایہ نہ صرف کہ ملکی معیشت کو کوئی سنبھالا نہیں دیتا بلکہ ملک کو ترقی دینے والے کام اور اجتماعی ضرورتیں دیکھتی رہ جائیں گی اور سرمایہ کسی اور طرف نکل جائے گا۔ اس لیے جب ملکی حیثیت سے دیکھا جائے گا تو صاف معلوم ہوگا کہ سودی ذہنیت اور سودی قرض نے اس ملک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

اس کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ کہ سود پر قرض دینے والا شخص یا ادارہ کاروبار کے نفع نقصان سے زیادہ اپنے سود کی حفاظت کی فکر کرتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ قرض لینے والوں نے سرمایہ ایک ایسے کاروبار پر لگایا ہے جس میں کساد بازاری کا حملہ ہونے والا ہے تو وہ صرف اس اندیشے سے ہی اپنا روپیہ کھینچنے کی فکر کرنے لگتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی خود غرضی کے باعث تجارت کی دنیا پر واقعی کساد بازاری کا حملہ ہوجاتا ہے۔ اور اگر کہیں کسی دوسرے سبب سے کساد بازاری آگئی ہے ہو تو سرمایہ دار کی خود غرضی اس کو بڑھا کر نتہائی تباہ کن حد تک پہنچا دیتی ہے۔ اندازہ فرمایئے کہ ایسی صورت حال میں معیشت میں اضافہ ہوگا یا دھچکا لگے گا اور سرمایہ بڑھے گا یا کم ہوگا۔

ان میں سب سے زیادہ سہل اور آسان بات یہ ہے کہ بعض دفعہ سودی سرمایہ خود بخود ہلاک ہوجاتا ہے اور پچھلے مال کو بھی ساتھ لے ڈوبتا ہے ‘ جس طرح ربا اور سٹہ کے بازاروں میں ہمیشہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بڑے بڑے کروڑ پتی اور سرمایہ دار دیکھتے دیکھتے دیوالیہ اور فقیر ہوگئے۔ بلا سود تجارت میں بھی اگرچہ نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ نقصان ہو بھی جاتا ہے لیکن ایسا نقصان کبھی نہیں ہوتا کہ کل کروڑ پتی تھا اور آج ایک ایک پیسہ کا محتاج ہوجائے۔ یہ صرف سود اور سٹہ کے بازاروں میں ہوتا ہے۔ حضرت معمر ( رح) نے فرمایا کہ ہم نے بزرگوں سے سنا ہے کہ سود خور پر چالیس سال گزرنے نہیں پاتے کہ اس کے مال پر تباہی آجاتی ہے۔

حاصل کلام یہ کہ سود بظاہر ایک منافع کا نام ہے۔ سرمایہ دار اپنے سرمائے پر ایک متعین شرح سے سود لے کر اپنے سرمائے میں اضافہ کرتا ہے لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے ایک ذہنیت کارفرما ہے۔ جس ذہنیت کے پیدا ہوجانے کے بعد سرمایہ انسان کی ضرورت نہیں رہتا ‘ بلکہ مقصد زندگی بن جاتا ہے۔ اور مقصد زندگی بھی ایسا جس کی پوجا کی جاتی ہے ‘ جس کے سامنے ایمان کو قربان کردیا جاتا ہے۔ تمام انسانی رشتے اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ‘ اخلاقی اقدار اس کے سامنے دم توڑ جاتی ہیں ‘ ایک فرد فرد سے غیر متعلق ہوجاتا ہے اور قوم قوم سے رشتہ توڑ لیتی ہے ‘ دو دوست آپس میں اس وقت تک دوست رہتے ہیں جب تک ان میں مالی ضرورت پیدا ہونے کے باعث قرض لینے یا دینے کی نوبت نہیں آتی۔

قومیں اگر فضائل اخلاق سے زندہ رہتی ہیں اور مال ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے اور مقاصد کو جلا دیتا ہے اور معاشرتی رشتے اگر معاشرتی اخلاق سے وجود پذیر ہوتے اور باقی رہتے ہیں اور انسان انسانوں کے کام آنے کی وجہ سے انسان کہلاتا ہے تو پھر جو قوم بھی ان بنیادی احساسات کی حامل ہے کہ وہ اپنا ایک مقصد زندگی رکھتی ہے اس کے یہاں حقوق و فرائض کا ایک سلسلہ ہے اور اسے زندگی کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد آخرت میں اللہ کے حضور حاضر بھی ہونا ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ مال و دولت کا بڑھنا ‘ اس میں برکت کا پیدا ہونا اور لوگوں کو اس مال و دولت سے حقیقی فائدہ پہنچنا اور مال و دولت کے حقیقی مقاصد سے بہرہ ور ہونا یہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو دلوں کو غربت میں بھی سکون عطا فرما دیتا ہے اور نہ چاہے تو مال و دولت کی فراوانی بھی زندگی میں راحت کا سامان نہیں بن سکتی ‘ ایسی قوم سب کچھ ہوسکتی ہے لیکن وہ سودی ذہنیت کو قبول نہیں کرسکتی۔ اور اگر اس کے افراد اس میں ملوث ہوتے ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ قوم تنزل کی راہ پر چل نکلی ہے۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتی جائے گی ویسے ویسے فضائل اخلاق سے دور ہوتی جائے گی اور ویسے ویسے اس کے قومی شعور کو گھن لگتا جائے گا۔ اور اس کے اجتماعی جسد میں دراڑیں آنا شروع ہوجائیں گی۔ اس کی عظیم قومی عمارت تباہی کے خطرے سے دوچار ہونے کے قریب پہنچ جائے گی ‘ یہ وہ خطرناک نتائج ہیں جس سے بچانے کے لیے پروردگار نے سود کی ہر صورت کو ناقابل برداشت قرار دیا۔ اور اس کے ارتکاب کو فوجداری جرم قرار دے دیا۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی حقیقت کے پیش نظر کلام کے تیور بھی تیکھے ہوگئے ہیں اور اللہ کا کلام اسلامی ریاست کی زبان بن کر پورے جلال کا اظہار کر رہا ہے۔

کفاراثیم کا مفہوم

آیتِ کریمہ کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ” کفاراثیم “ کو پسند نہیں فرماتا۔ کفار کا ایک معنی ہے کفر کرنے والا۔ اور اثیم کا معنی ہے گناہگار۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص جو سود کی حرمت سے انکار کرتا ہے اور سرے سے اس کو حرام ہی نہیں جانتا اور دوسرا وہ شخص ہے جو اس کو حرام تو جانتا ہے ‘ لیکن اس کا ارتکاب بھی کرتا ہے تو ایسا شخص جو کسی حکم کو تسلیم کرے لیکن اس کا عمل اس کے خلاف ہو اسے کافر نہیں گناہگار یعنی فاسق کہا جاتا ہے۔ دونوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کے ناپسندیدہ لوگ ہیں۔

دوسرا معنی یہ ہوسکتا ہے کہ ” کفار “ کا معنی ہے ناشکرا اور ” اثیم “ کہتے ہیں دوسروں کے حق تلف کرنے والے کو۔ تو اس صورت میں اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ناشکرے اور اللہ کے بندوں کے حقوق تلف کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو اس کی ضرورت سے زائد مال دیتا ہے تو وہ اس پر احسان کرتا ہے اور یہ احسان اس لیے کرتا ہے تاکہ وہ اس کا شکر گزار بندہ بنے اور وہ اپنے مال کو اللہ کی بندگی میں صرف کرے اور دوسرا یہ کہ وہ اللہ کے بندوں کے لیے سہارا بنے اور ان کی ضرورتوں کے لیے انھیں قرض دے یا صدقہ دے ‘ لیکن جو شخص اللہ کے اس فضل کا شکر گزار بننے کی بجائے اسے سودی کاروبار میں لگاتا ہے تو اس سے زیادہ ناشکری اور کیا ہوگی کہ وہ اللہ کے ایک نہایت اہم حکم کو توڑ رہا ہے اور دوسرا اس کا جرم یہ ہے کہ جو مال اللہ کے بندوں کی ضرورت میں استعمال ہونا چاہیے تھا اسے وہ ان کے خون چوسنے اور حقوق تلف کرنے کا ذریعہ بناتا ہے تو ایسا سنگ دل اور ناشکرا شخص اس بات کا سزاوار ہے کہ اللہ کے یہاں اس کا مال اس کے لیے وبال کا باعث بنے۔ اور اسے اس سے اس طرح محروم کردیا جائے کہ محرومی کے سوا اس کے نصیب میں کچھ نہ ہو۔

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ  ٢٧٧؁

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے ‘ نماز کا اہتمام کیا اور زکوۃ ادا کی ‘ ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔ نہ ان کے لیے کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ ان کو کوئی غم لاحق ہوگا

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ط وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا یَحْزَنُوْنَ ۔

(بےشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے ‘ نماز کا اہتمام کیا اور زکوۃ ادا کی ‘ ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔ نہ ان کے لیے کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ ان کو کوئی غم لاحق ہوگا) (٢٧٧)

قرآن کریم نے اپنے اسلوب کے مطابق سود خوروں کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد ان لوگوں کا انجام ذکر فرمایا ہے جو بالکل ان بدبختوں کے برعکس اللہ کے ایک ایک حکم پر یقین رکھتے ہیں ‘ پنج وقتہ نماز میں اس سے وفاداری کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے مال سے زکوۃ دیتے ہیں اور اس طرح ثابت کرتے ہیں کہ وہ مال ان کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ کا ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں کے اجر کا ذکر فرمایا ہے اور یہ وہ تعبیر ہے جس کی اس سے پہلے کئی دفعہ وضاحت ہوچکی ہے۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ  ٢٧٨؁

اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔

یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ج وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَـکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ ج لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَاتُظْلَمُوْنَ ۔

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر واقعی تم ایمان لائے ہو، پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں۔ نہ تم کسی کا حق مارو ‘ نہ تمہارا حق مارا جائے گا) (٢٧٨ تا ٢٧٩)

سود چھوڑنے کا قطعی اور آخری حکم

اس سے پہلے آیت نمبر 276 میں ارشاد فرمایا گیا تھا کہ جس شخص کو سود کے بارے میں یہ نصیحت یا تنبیہ پہنچ گئی کہ سود کھانے والے کا انجام قیامت کے دن بہت ہولناک ہوگا تو وہ اس تنبیہہ سے اثر قبول کر کے سود لینے سے رک گیا تو اس کے لیے ہے جو اس سے پہلے ہوچکا۔ اس آیت کریمہ سے مسلمان یہ سمجھ گئے کہ سود خوری ایک بدترین فعل ہے جو اللہ کی نگاہوں میں سخت مبغوض ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والا قیامت کے دن بہت خطرناک صورت حال سے دوچار ہوگا۔ چناچہ مسلمان اس کے بعد سے سود خوری اور سودی کاروبار کرنے سے پرہیز کرنے لگے۔ جہاں تک سود کی ناپسندیدگی کا تعلق ہے اس کا اظہار تو قرآن کریم نے مکی زندگی میں ہی شروع کردیا تھا۔ سود خوری کی مذمت کی گئی تھی اور صدقات کے فضائل بیان کیے گئے تھے اور سورة روم جو مکی صورت ہے اس کی ایک آیت میں صاف صاف بتایا گیا تھا کہ سود اللہ کے یہاں نہیں بڑھتا ‘ البتہ اس کے یہاں زکوۃ اور صدقات بڑھتے ہیں۔ لیکن کھل کے اس کی حرمت کا اعلان نہیں فرمایا گیا تھا۔ سابقہ آیت کریمہ میں حرمت کا حکم تو نہیں دیا گیا لیکن بہت حد تک اس کی وضاحت کردی گئی۔ اس آیت کریمہ میں صاف صاف حکم دیا گیا ہے کہ نہ صرف اب تمہیں سودی کاروبار کرنے کی اجازت نہیں بلکہ اب تک تمہارے مقروضوں کے ذمے جتنا سود باقی ہے اس سب کی وصولی سے تمہیں روکا جا رہا ہے۔ اللہ سے ڈرو یعنی اس کی احکام کی نافرمانی سے ڈرو ‘ سودی کاروبار سے ہاتھ اٹھانا اب اس کا حکم ہے اس لیے دیکھنا اب اس کی نافرمانی نہ ہونے پائے۔ اور اب تک سود پر جو قرض دے چکے ہو تم اپنا راس المال واپس لے سکتے ہو لیکن اس پر جتنا سود تمہارے قرض داروں کے ذمے ہے اسے لینے کی ہرگز کوشش نہ کرنا۔ غور فرمایئے ایک ایسے کاروبار سے روکا جا رہا ہے ‘ صدیوں سے جس کا رواج چلا آرہا تھا ‘ مسلمان جاہلیت کے زمانے میں بھی اور اسلام لانے کے بعد بھی اس کاروبار میں شریک رہے۔ اور پھر یہ کوئی ایسا جرم نہیں جس کا سر رشتہ ایک آدمی کے ہاتھ میں ہو۔ شراب تو ایک آدمی پیتا ہے ‘ شراب حرام ہوئی تو پینے والا شراب سے رک گیا۔ لیکن سود کا تعلق دو فریقوں سے ہے کہ ایک سود دیتا ہے دوسرا لیتا ہے۔ ایک ایسا معاملہ جو فریقین کے درمیان دائر ہو جب اس سے روکا جائے تو معاشرتی مفاسد پیدا ہونے کا اندیشہ ہی نہیں یقین ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ قوموں کی تاریخ میں ایسی اصلاحی کوششیں بڑی مشکلات سے دوچار ہوتی رہی ہیں لیکن پروردگار اپنی حکمت تربیت سے سب سے پہلے ذہنوں کو تیار فرماتے ہیں اور اس کے بعد حکم جاری فرماتے ہیں۔ شراب کی حرمت میں بھی تدریج کی یہی حکمت تھی اور یہاں بھی حکم اچانک نہیں آیا ‘ پہلے نفرت پیدا کی گئی پھر اخروی انجام سے متنبہ کیا گیا اور پھر حکم دیا کہ اب کاروبار کو اسی مقام پر روک لو جو لے چکے ہو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اسلامی ریاست تجسس نہیں کرے گی اور جو ابھی کسی کے ذمے ہے اس کا مطالبہ مت کرو۔ سود لینے والوں کو تو مطالبہ کرنے سے روک دیا اور دینے والوں کو ایک طرح سے اطمینان ہوگیا لیکن یہ بات ان پر واضح ہوگئی کہ اصل راس المال کو وہ نہیں روکیں گے۔ اور ساتھ ہی فرمایا کہ دیکھو دونوں فریقوں میں سے کسی فریق کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ قرض دار یہ دیکھ کر کہ اب مجھ سے سود کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا تو وہ راس المال کو بھی دبانے کی کوشش کرے اور قرض خواہ یہ سمجھ کر کہ اب سود تو گیا میں کیوں نہ کسی طریقے سے سود کا کچھ نہ کچھ حصہ اصل مال میں شامل کرلوں۔ اس طرح دونوں فائدے کی حرص میں مبتلا ہو کر دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔ اس سے دونوں کو روک دیا۔ کہ جانبین میں سے کسی کو بھی دوسرے کا حق مارنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

سود خوروں کو الٹی میٹم

بعض قبیلے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن مسلمان ریاست کے شہری ہونے کی وجہ سے وہ اسلامی قانون کی پابندی کو قبول کرچکے تھے ان کے ساتھ مسلمانوں کے سودی معاملات تھے انھیں بھی صاف صاف فرما دیا کہ اب یہ سودی کاروبار نہیں چلے گا ‘ چناچہ ایک ہی حکم سے پورے ملک میں اس اصلاحی حکم کو نافذ کردیا گیا ‘ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جزوی طور پر کہیں نہ کہیں اس کی مخالفت کا اندیشہ ہوسکتا تھا اس لیے پروردگار نے پورے جلال سے فرمایا کہ اگر تم اس حکم کے بعد بھی سود کے لین دین سے نہیں رکتے ہو تو پھر یاد رکھو کہ اب یہ اسلامی ریاست کے آئین کا ایک حصہ ہے اور اس کی مخالفت ایک فوجداری جرم ہے۔ اس لیے جس قبیلے یا جس فرد نے بھی اس کا ارتکاب کیا قانون پوری قوت سے حرکت میں آئے گا۔ اور اگر کسی گروہ نے اس کے لیے طاقت استعمال کرنا چاہی تو یہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے مترادف ہوگا اس لیے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہم خود اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہیں۔ ان دونوں آیتوں پر غور کیجئے کہ سودی کاروبار سے بچنے کو ایمان کا لازمہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سود کو حرام سمجھے ‘ کبھی اس کے قریب نہ جائے اور اگر وہ اس سے پہلے اس کاروبار میں ملوث رہ چکا ہے اور اس کا سود اس کے قرضداروں کے ذمے ہے تو لینے سے ہاتھ اٹھا لے۔ اور دوسری بات جو اس سے بھی زیادہ سخت ہے وہ یہ کہ اگر وہ مسلمان کہلانے والا سودی کاروبار سے باز نہیں آتا تو حضرت ابن عباس ( رض) حضرت حسن بصری ( رح) اور حضرت ابن سیرین ( رح) وغیرہ بڑے بڑے فقہاء یہ کہتے ہیں کہ ایسے شخص کو قتل کردیا جائے۔ لیکن دوسرے فقہاء کی رائے یہ ہے کہ قتل تو نہ کیا جائے البتہ اس وقت تک اسے محبوس رکھا جائے جب تک وہ سود خوری چھوڑنے کا عہد نہ کرے۔ اور گرفتار کرنے والے اس کے عہد کو قابل اطمینان نہ سمجھیں۔ اور اگر کوئی گروہ یا کسی علاقے کے رہنے والے لوگ یا کوئی صوبائی حکومت سودی کاروبار میں ملوث ہو اس کے یہاں سودی سکیمیں چلتی ہوں ‘ وہ ترقیاتی کاموں کے لیے سود پر قرض لینے یا دینے کو ایک مجبوری سمجھتی ہو تو مرکزی اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اس کے خلاف طاقت استعمال کرے۔ جس طرح پاکستانی تاریخ میں ایک سے زیادہ دفعہ بلوچستان پر بمباری کی گئی اور فوجی اقدام کیا گیا صرف اس الزام پر کہ وہاں وفاقی اقتدار کو بعض حوالوں سے چیلنج کیا گیا ہے۔ اللہ کا اقتدار انسانی حکومتوں کے اقتدار سے زیادہ عظیم اور زیادہ محترم ہے۔ اسلامی حکومت کو اس کی پاسداری اور نگرانی کا فرض سونپا گیا ہے۔ یوں تو اللہ کا ہر حکم واجب الاطاعت ہے لیکن سود کو بطور خاص فوجداری جرم قرار دیا گیا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجران کے عیسائیوں کو جب ایک معاہدہ کے تحت اسلامی حکومت میں اندرونی خودمختاری دی تو معاہدے میں یہ تصریح کردی گئی کہ اگر تم سودی کاروبار کرو گے تو معاہدہ فسخ ہوجائے گا اور ہمارے اور تمہارے درمیان حالت جنگ قائم ہوجائے گی۔ اے کاش مسلمان اس حکم کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھیں اور اس کے اندر جو خطرناکی چھپی ہوئی ہے اس کو محسوس کریں تو باقی تمام پالیسی امور چھوڑ کر سب سے پہلے اس کی طرف توجہ دیں۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جس ملک کو کسی دوسری ملک کے ساتھ جنگ درپیش ہو اس کی ساری توجہ جنگی کاروائیوں پر ہوتی ہے۔ تمام معمول کے کام رک جاتے ہیں۔ ترقیاتی کام ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب تک ہم جنگ سے عہدہ برآ نہ ہولیں اس وقت تک کسی بڑے کام کو چھیڑا نہیں جاسکتا۔ جنگ کی یہ اہمیت اس صورت میں ہے کہ جب کسی دوسرے ملک سے جنگ ہو۔ اور یہاں تو معاملہ اللہ اور رسول سے جنگ کا ہے۔ جس قوم کو اللہ اور رسول سے لڑنا پڑے میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے تباہی سے بچا سکتی ہے۔ ہم مسلمان ہوتے ہوئے اور ایک ایسے ملک کے باسی ہوتے ہوئے جو ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا اللہ سے جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں رتی بھر خیال نہیں کہ اللہ سے لڑنے کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔

فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ   ٢٧٩؁

پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں۔ نہ تم کسی کا حق مارو ‘ نہ تمہارا حق مارا جائے گا

وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ     ٢٨٠؁

اور اگر مقروض تنگدست ہو تو فراخی تک اس کو مہلت دو ۔ اور جو صدقہ کردو تو تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو

وَاِنْ کَانَ ذُوْعُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ ط وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌلَّـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔

(اور اگر مقروض تنگدست ہو تو فراخی تک اس کو مہلت دو ۔ اور جو صدقہ کردو تو تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو) (٢٨٠)

گزشتہ آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے قرضداروں سے اس حکم کے بعد سود تو نہیں لے سکتے البتہ اصل رقم واپس لے سکتے ہو ‘ یہ تمہارا حق ہے اور کسی کو بھی اسے روکنے کا حق نہیں ہے۔ کاروباری زندگی میں اس طرح کے واقعات معمول کا حصہ سمجھے جاتے ہیں کہ ایک شخص نے کاروبار کے لیے قرض لیا ‘ لیکن سوئے اتفاق سے کساد بازاری نے اس کے کاروبار پر اثر ڈالا اور وہ کاروبار میں اس قدر نقصان کا شکار ہوا کہ قرض کی ادائیگی اس کے لیے مشکل ہوگئی۔ اس آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ اگر ایسی صورت حال پیش آجائے تو تمہیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کے دکھ درد میں شریک ہے۔ اس کے غم ‘ اس کے غم ہیں۔ اگر وہ کاروباری حادثے میں دیوالیہ ہوگیا ہے یا کاروبار میں نقصان کا شکار ہوگیا ہے تو اس کا فرض ہے کہ قرض کی ادائیگی کے لیے اس پر دبائو نہ ڈالے۔ بلکہ اسے مہلت دے اور اگر وہ محسوس کرے کہ مہلت کے بعد بھی شاید اس کے لیے ادائیگی آسان نہ ہو تو پھر بہتر یہ ہے کہ وہ قرض معاف کر دے۔ اور یہ قرض کی معافی اللہ کے یہاں بےحد اجر وثواب کی حامل ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے اور امام مسلم نے اس کو روایت کیا ہے کہ جو شخص کسی مفلس مدیون کو مہلت دے گا تو اس کو ہر روز اتنی رقم کے صدقہ کا ثواب ملے گا جتنی اس مدیون کے ذمہ واجب ہے۔ اور طبرانی کی ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ اس کے سر پر اس روز اللہ کی رحمت کا سایہ ہو جب کہ اس کے سوا کسی کو کوئی سایہ سر چھپانے کے لیے نہ ملے گا تو اس کو چاہیے کہ تنگدست مقروض کے ساتھ نرمی اور مساہلت کا معاملہ کرے یا اس کو معاف کر دے۔

عہد نبوت میں سودی کاروبار کے بارے میں ایک غلط دعویٰ اور اس کا جواب

بعض کم سواد یہ سمجھتے ہیں کہ عہد نبوت میں جس قرض پر سود کو حرام کیا گیا ہے یہ قرض وہ تھا جو غریب کسی ساہوکار یا مہاجن سے اپنی ذاتی ضرورتوں کے لیے لیتے تھے۔ رہا یہ قرض جو کاروبار ‘ صنعت و حرفت یا زراعت کے لیے لیا جاتا ہے اس کا اس زمانے میں کوئی تصور نہ تھا۔ اس لیے اسلام نے جس سود کو حرام کیا ہے وہ مہاجنی سود ہے۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ صاف صاف بتارہی ہے کہ یہاں ذکر غریب لوگوں کا نہیں بلکہ کاروباری لوگوں کا ہو رہا ہے کہ جو اپنے کاروبار کے لیے قرض لیتے تھے اور پھر کسی نقصان کا شکار ہونے کی وجہ سے بروقت ادا نہ کر پاتے تھے۔ احادیث میں ایک سے زیادہ واقعات ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک صحابی آئے اور انھوں نے بتایا کہ میرے کاروبار میں اس قدر نقصان ہوگیا ہے کہ میں وعدے کے مطابق قرض ادا نہیں کرسکتا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو ان کی مدد کرنے کی ترغیب دی۔ لوگوں نے ہرچند ہمت سے بڑھ کر ان کی مدد کی ‘ لیکن ان کا قرض پھر بھی ادا نہ ہوسکا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرض خواہوں سے فرمایا کہ بس اس سے زیادہ ادا نہیں کیا جاسکتا تم اپنے بھائی کو قرض معاف کردو۔ غور فرمایئے کیا یہ قرض کسی غریب کا قرض ہے ؟ اور میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ حضرت عباس ( رض) کا جو سود ختم کیا گیا اس کی مقدار دس ہزار مثقال سونا تھی۔ اس سے اصل رقم کی مقدار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر اس آیت کریمہ کے بعض الفاظ کی معنویت پر غور کیا جائے تو ہمارے نقطہ نظر کی مزید تائید ہوتی ہے۔ آیت میں ” ان “ حرف شرط کا استعمال ہوا ہے اور ” اِن “ کا استعمال عام اور معمول کے معاملات میں نہیں ہوتا۔ بلکہ شاذ و نادر حالات کے لیے ہوتا ہے۔ عام معاملات کے لیے ” اذا “ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں عام طور پر قرض لینے والے خوشحال یعنی ” ذومیسرہ “ تھے۔ غریب لوگ بھی اپنی ضرورتوں کے لیے قرض لیتے تھے ‘ لیکن ان کی تعداد اس قدر زیادہ نہ تھی۔ ایسے واقعات شاذ و نادر تھے۔

وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ   ٢٨١؁ۧ

اور ڈرو اس دن سے جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے۔ پھر ہر شخص کو جو اس نے کمائی کی ہے پوری پوری مل جائے گی اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا )

وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ قف ق ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ہُمْ لَا یُْظْلَمُوْنَ ۔ ع

(اور ڈرو اس دن سے جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر ہر شخص کو جو اس نے کمائی کی ہے پوری پوری مل جائے گی اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا) (٢٨١)

قرآن کریم نے اپنے اسلوب کے مطابق سود کی بحث کو ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس دن کی جوابدہی سے ڈرنے اور اس کی فکر کرنے کا حکم دیا ہے جس کی طرف پورا انسانی قافلہ اپنے اپنے وقت کے مطابق بڑھ رہا ہے۔ برزخی زندگی کے بعد ایک وقت ایسا آئے گا جب اس دن کا اعلان ہوگا جسے قیامت کہتے ہیں۔ پھر نفخہ ثانیہ کے بعد ہر مرنے والا زندہ ہو کر اس محشر کی طرف بڑھے گا جہاں اللہ کے انصاف کی عدالت قائم ہوگی ‘ جہاں ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ اس دن نہ نسب کا تفاخر کام آئے گا نہ حسب کے دعوے کام آسکیں گے ‘ نہ مال و دولت سے کام لیا جاسکے گا ‘ نہ اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش بروئے کار آسکے گی۔ وہاں ایک ہی سکہ چلے گا جس کا نام ایمان و عمل ہے۔ وہاں ہر زبان گنگ ہو کر رہ جائے گی صرف کردار کی زبان کام دے گی۔ یوں تو اللہ تعالیٰ کسی قانون کے پابند نہیں کیونکہ ہر قانون اللہ کا پابند ہے۔ لیکن انھوں نے محض اپنے فضل و کرم سے اس دن کی عدالت کا اصول یہ ٹھہرایا کہ جو شخص ایمان و عمل کی پونجی لے کر آیا اس کے اعمال کا پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ اور کسی شخص کے اجر وثواب اور صلے میں کمی نہیں کی جائے گی۔ جس طرح ایک سود خور اپنے سرمائے پر بےجا اضافہ کا خواہش مند رہتا ہے اور جس طرح خائن تاجر دوسرے کو نقصان پہنچانے کی فکر میں رہتا ہے ‘ ان سب کو اس عدالت میں جس انصاف سے واسطہ پڑے گا اس کی بنیاد ہی یہ ہوگی کہ تمہیں یہاں اسی انجام سے دوچار ہونا ہے جس کا تم نے استحقاق پیدا کیا۔ تمہیں جو ملے گا تمہارے عمل کے صلے کے طور پر ملے گا۔ لیکن یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ تمہارے کسی عمل کے بدلے میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ ترازو کے دونوں پلڑے ہمیشہ برابر رہیں گے۔ جن لوگوں نے زندگی میں ایمان کے چراغ روشن کیے اور عمل کی عمارت تعمیر کی انھیں یقینا ایک ایک چیز کا صلہ ملے گا اور ان کے اجر وثواب میں کسی طرح کی کمی نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح جن لوگوں نے کفر ‘ شرک اور فساد فی الارض سے اپنا نامہ عمل تیار کیا ‘ انھیں یہ جھوٹی آرزو نہیں پالنی چاہیے کہ ہم شاید اپنے برے انجام سے کسی طرح بچ نکلیں۔ عدل گستری اور انصاف پروری کا اولین تقاضا یہ ہے کہ نہ کوئی نیک اپنی نیکی کے صلے سے محروم رہے اور نہ کوئی ظالم ظلم کی سزا سے بچ سکے۔ جس عدالت کی غیر جانبداری اور انصاف پسندی کا یہ عالم ہے اور جس کا آنا بھی یقینی ہے اور جس سے ہم سب کو دوچار ہونا ہے ‘ اگر ہمیں اپنے ہولناک انجام کی کچھ بھی فکر ہے اور ہم اپنی بداعمالیوں سے کسی حد تک بھی واقف ہیں تو پھر ہمیں اس دن کی تیاری کو سب سے پہلی ترجیح بنانا چاہیے تاکہ ہم اپنی سرخروئی کا سامان کرسکیں۔

سورہ آل عمران
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً  ۠  وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ    ١٣٠؁ۚ

(اے ایمان والو ! سود نہ کھائو دگنا چوگنا بڑھتا ہوا اور ڈرو اللہ سے تاکہ تم فلاح پاو

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنَوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْحَافًا مُّضٰعَفَۃً ص وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ ج وَاتَّقُوا النَّارَالَّتِیْٓ اُعِدَّتْ لِلْـکٰفِرِیْنَ ۔ ج وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّـکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ ج

(اے ایمان والو ! سود نہ کھائو دگنا چوگنا بڑھتا ہوا اور ڈرو اللہ سے تاکہ تم فلاح پائو۔ اور بچو اس آگ سے جو کافروں کے لیے تیار ہے۔ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے) (١٣٠ تا ١٣٢)

جنگ احد کی شکست کے مضمر اسباب

پیشِ نظر آیات کریمہ اپنے مفہوم میں عموم بھی رکھتی ہیں اور خصوص بھی۔ عموم تو یہ ہے کہ ان آیات میں جو احکام دیے گئے ہیں وہ تمام مسلمانوں کے لیے ہیں اور قیامت تک کے لیے ہیں اور خصوص ان معنوں میں کہ گزشتہ آیات کریمہ میں جنگ احد کے حالات پر تبصرہ ہے اور اس وقت کے مسلمانوں کی کمزوریوں پر توجہ بھی دلائی گئی ہے اور یہ تبصرہ قرآن کریم کے اپنے اسلوب کے مطابق ہے، مختلف وادیوں سے گذرتا ہوا ابھی آگے بڑھ رہا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان آیات کریمہ میں مسلمانوں کو جو احکام دیے گئے ہیں اس میں مسلمانوں کی کمزوریوں کی طرف اشارے بھی ہیں۔ جنگ احد میں جس طرح اللہ کی تائید و نصرت سے مسلمانوں کو فتح ہوئی اور دشمن اپنی برتر افرادی قوت اور بہتر اسلحہ جنگ کے باوجود شکست کھا کر سر پر پائوں رکھ کر بھاگا۔ لیکن جلدی ہی بعد خالد بن ولید کے مسلمانوں کے لشکر کے عقب سے اچانک حملے نے صورت حال بدل دی اور ایک جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہوگئی اور ایک فاتح لشکر شکست خوردہ لشکر میں بدل گیا۔ اس کے اسباب کیا تھے ؟ ان آیات کریمہ میں دو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ میں پہلے یہ بات عرض کرچکا ہوں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقب لشکر سے حملے کا خطرہ محسوس فرماتے ہوئے ایک ٹیلے پر مسلمانوں کو مقرر کیا تھا تاکہ اس درے اور راستے پر نگاہ رکھیں جس سے مسلمانوں کی پشت پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ پچاس تیر اندازوں کو اس ٹیلے پر مقرر فرمایا اور یہ حکم دیا کہ ہمیں فتح ہو یا شکست تمہیں کسی صورت بھی اپنے مورچے چھوڑ کر آنے کی اجازت نہیں۔ حضور نے یہاں تک فرمایا کہ اگر تم یہ دیکھو کہ ہماری بوٹیاں نوچی جا رہی ہیں، یعنی کافر لشکر مسلمان لشکر کو تہِ تیغ کر رہا ہے تو تم ایسے حالات میں بھی اپنی جگہ چھوڑ کر ہماری طرف آنے کی کوشش نہ کرنا۔ لیکن جب قریش مکہ شکست کھا کر بھاگے اور ابھی اس کی بعض ٹکڑیاں ادھر ادھر میدانِ جنگ میں بکھری ہوئی تھیں کہ مسلمانوں نے لڑائی روک دی اور دشمن کا سامان اور ان کا مال و دولت لوٹنے میں لگ گئے۔ جبل الرماۃ کے تیر اندازوں نے جب دیکھا کہ لڑائی رک گئی ہے اور مسلمان سامانِ غنیمت اکٹھا کر رہے ہیں تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر مسلمان لشکر کی طرف بڑھے لیکن ان کے سالار حضرت جبیر بن مطعم ( رض) نے انھیں روکا اور یاد دلایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ہر قیمت پر اپنے مورچوں پر قائم رہنے کی نصیحت فرمائی تھی۔ لیکن ان کے ساتھیوں نے ان کی ایک نہ سنی۔ چند سپاہیوں کے علاوہ تمام سپاہی مال غنیمت کی محبت میں اپنے مورچے خالی چھوڑ کر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوگئے۔ خالد بن ولید کی عقابی نگاہوں نے جب اس مورچے کو خالی دیکھا اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ مسلمان مال غنیمت لوٹنے میں مصروف ہیں اور ہتھیار اتار چکے ہیں۔ انھیں اس سے بہتر موقع کیسے ہاتھ آسکتا تھا۔ انھوں نے نہایت بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے پہاڑ کا چکر کاٹا اور مسلمانوں کی پشت پر حملہ کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک افراتفری مچ گئی، مسلمان چونکہ خالی ہاتھ تھے۔ اس اچانک حملے سے بچنے کے لیے ادھر ادھر تلواروں کی تلاش میں بھاگے۔ فوج ایک بھیڑ کی شکل اختیار کرگئی۔ ایسی مصیبت آئی کہ اپنے اور پرائے کی پہچان بھول گئی۔ حضرت حذیفہ ( رض) کے والد خود مسلمانوں کے نرغے میں آگئے۔ مسلمانوں نے انھیں کافر لشکر کا سپاہی سمجھ کر تلواریں برسانا شروع کردیں۔ حذیفہ ( رض) چیختے ہی رہے کہ مسلمانو ! یہ میرے والد ہیں، لیکن اس ہنگامے میں کون سنتا تھا۔ چناچہ ان کے والد شہید ہوگئے اور حضرت حذیفہ ( رض) صبر کی تصویر بنے صرف یہ کہہ سکے کہ مسلمانوں تمہیں اللہ معاف فرمائے۔ تم نے بیخبر ی میں میرے والد کو قتل کر ڈالا اور پھر اس کے نتیجے میں ستر (٧٠) صحابہ شہید ہوئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا اور حضرت عبداللہ ابن جحش ( رض) کی لاشوں کو مثلہ کیا گیا۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بری طرح زخمی ہوئے۔ خود کی کڑیاں روئے مبارک میں گھس گئیں۔ چار دانت متأثر ہوئے۔ چہرہ مبارک پر زخم آئے اور خون بہنے لگا۔ دشمن کی کھودی ہوئی کھائیوں میں سے ایک کھائی میں آپ گرگئے۔ اس طرح سے آنکھوں سے اوجھل ہوجانے کے باعث مسلمانوں میں یہ بات مشہور کردی گئی کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے اپنی جانوں پر کھیل جانا اتنا گراں نہ تھا جتنا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ سننا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں نہیں رہے۔ بڑے بڑے جی داروں نے حوصلے ہار دئیے اور زبان پر ایک ہی بات تھی کہ وہ ذات عزیز جس کی نظیر پوری کائنات میں نہیں اور جو مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی زندگی تھی، جب وہ دنیا میں نہ رہے تو اب آخر کس کے لیے لڑا جائے۔ ایسی ابتر اور تشویشناک صورت حال اور قیامت کا سماں صرف اس لیے پیش آیا کہ مسلمانوں نے حب زَر میں مبتلا ہو کر اپنی جگہ چھوڑ دی اور اللہ کے رسول کے احکام سے سرتابی عمل میں آئی چناچہ ان آیات میں انہی دونوں غلطیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً کا مفہوم

سب سے پہلے یہ ارشاد فرمایا گیا کہ مسلمانو ! سود مت کھائو دوگنا چوگنا بڑھتا ہوا۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ سود کھانے میں تو کوئی حرج نہیں لیکن اس کو دوگنا چوگنا بنانے کی فکر میں رہنا شاید اس سے روکا گیا ہے۔ اصل بات یہ نہیں

اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً

کے اضافے سے محض صورت حال کی تصویر اور اس کے گھنائونے پن کو نمایاں کرنا مقصود ہے اور قرآن کریم کے اسلوب کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ بعض دفعہ کسی حکم کے ساتھ ایسی قیود کا ذکر کرتا ہے جو مقصود نہیں ہوتیں بلکہ صرف یہ دکھانا ہوتا ہے کہ اس کی بدترین شکل درحقیقت یہ ہے۔ اس لیے تمہیں اس سے بچنا اور نفرت کرنا چاہیے۔ جس طرح فرمایا گیا ہے :

وَلَا تُـکْرِہُوْا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَـآئِ اِنْ اَرَدْنَ تَحُصُّنًا

( اپنی لونڈیوں کو پیشہ کرنے پر مجبور نہ کرو، اگر وہ قید نکاح میں آنا چاہتی ہوں)

اس میں

اِنْ اَرَدْنَ تَحُصُّنًا

کی شرط مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود اس سے صرف حال کی تصویر اور اس کی شناعت کو نمایاں کرنا ہے۔ یہی بات اس آیت میں بھی پیش نظر ہے۔ مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خالق فطرت نے کچھ فطری اشارے بھی فرمائے ہیں۔ ایک اشارہ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سود کو اگر بروقت نہ روکا جائے تو یہ ایک ایسا وبائی مرض ہے اور اس حوالے سے انسان میں ایسی کمزوری ابھرتی ہے کہ پھر یہ سود دوگنا چوگنا بڑھے بغیر نہیں رہتا بلکہ اس کے بڑھنے کی کوئی انتہا ہی نہیں رہتی۔ تو جو نتیجہ آگے چل کر نکل سکتا ہے اسے تعبیر کے انداز میں پہلے واشگاف کردیا گیا ہے تاکہ قرآن کے قاری اس سے فائدہ اٹھائیں۔

سود انفاق کا متضاد ہے

دوسرا اشارہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی اور اس کے علاوہ متعدد جگہ قرآن کریم نے سود کو انفاق کے متضاد کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اللہ کے راستے میں انفاق تو عین مطلوب ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہر صاحب ایمان اپنی ہمت اور اپنے عشق کے مطابق اس میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح حبِّ دنیا بھی انسانی سیرت و کردار کا ایک ایسا گناہ ہے کہ جو شخص اس میں مبتلا ہوجاتا ہے اسے کسی انتہا پر بھی چین نہیں ملتا۔ اس لیے

اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً

کے لفظ سے اس کی حقیقت کو نمایاں فرماکر مسلمانوں کو اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی انفاق کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ فطرت بگڑتی ہے تو انسان سود کی کمائی میں آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اگر فطرت صحیح رخ پہ کام کرتی ہے تو اس کے جذبہ انفاق میں ہمہ جہت ترقی ہوتی جاتی ہے۔ ان دونوں کے تقابل سے مسلمانوں کو صحیح راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ    ١٣١؁ۚ

اور بچو اس آگ سے جو کافروں کے لیے تیار ہے

سورہ النسائ
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا     ١٦٠؀ۙ

پس بسبب ان یہودی بن جانے والوں کے ظلم کے ہم نے بعض پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کردیں جو ان کے لیے حلال کی گئی تھیں اور بسبب اس کے کہ وہ اللہ کے راستے سے بہت روکتے تھے

فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ وَ بِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا لا وَّاَخْذِہِمُ الرِّبٰوا وَ قَدْ نُہُوْا عَنْہُ وَاَکْلِہِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ط وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا

” پس بسبب ان یہودی بن جانے والوں کے ظلم کے ہم نے بعض پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کردیں جو ان کے لیے حلال کی گئی تھیں اور بسبب اس کے کہ وہ اللہ کے راستے سے بہت روکتے تھے اور بوجہ ان کے سود لینے کے حالانکہ انھیں اس سے روکا گیا تھا اور بوجہ اس کے کہ وہ لوگوں کا مال ناجائز طریقوں سے کھاتے تھے اور ہم نے ان جیسے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “ (النسآء : ١٦٠ تا ١٦١)

یہود کی سرکشی کی وجہ سے بعض طیبات کی ممانعت

گزشتہ آیت کی حیثیت جملہ معترضہ کی تھی۔ اس کے بعد پھر وہی سلسلہ تقریر شروع ہوگیا ہے۔ اس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یہود پر ایسی پاکیزہ نعمتیں بھی حرام کردی تھیں جنھیں پہلے ان کے لیے حلال کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کی سرکشی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ جس طرح کسی شخص کے بگاڑ کو روکنے کے لیے اس پر سختی کی جاتی اور پابندیاں لگائی جاتی ہیں اسی طرح اس قوم کو بھی تنبیہ کے لیے بعض حلال چیزوں سے محروم کردیا گیا تھا۔ لیکن ان کی یہ محرومی یا ان پر ان سختیوں کا کیا جانا اللہ کی طرف سے ظلم نہیں تھا ‘ بلکہ ان کے ظلم اور سرکشی کی سزا تھی۔ اور مقصود انہیں اس سرکشی سے روکنا تھا۔ اس کے بعد چند جملوں میں ان کے اس سرکش رویے کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔ سب سے پہلا ان کا جرم یہ بتایا گیا کہ وہ صرف خود ہی اللہ کے راستے سے منحرف نہیں تھے بلکہ ان کی بیباکی کا عالم یہ تھا کہ وہ اللہ کے دوسرے بندوں کو بھی سرکشی کے راستے پر ڈالتے اور انھیں ترغیب دیتے تھے کہ اللہ کے احکام کی نافرمانی کی جائے۔ چونکہ اس قوم پر ان کے اسی رویے کے باعث لعنت کی گئی ہے اس کا آج تک اثر یہ ہے کہ جہاں بھی اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے کوئی تحریک اٹھتی ہے تو عموماً اس کے پیچھے یہودی دماغ اور یہودی سرمایہ کام کرتا نظر آتا ہے۔ اور خیر کی ہر قوت کا راستہ روکنے اور انھیں ناکام کرنے کے لیے یہودی ہی سب سے پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ سامنے آ کر مخالفت کم کرتے ہیں لیکن پس پردہ رہ کر اس مخالفت کے اصل دماغ وہی ہوتے ہیں۔ ہماری قریبی تاریخ میں ایک ایسا نظام جو سراسر منفی بنیادوں پر اٹھا اور جس نے ستر سال تک نوع انسانی کو بےپناہ نقصان پہنچایا بہت کچھ شکست ریخت اور ہزیمت اٹھانے کے بعد بھی وہ پوری طرح ختم نہیں ہوا میری مراد کمیونزم ہے ‘ جس نے دنیا میں پہلی مرتبہ اللہ کے وجود کے انکار پر نظام زندگی کی بنیاد رکھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کا بانی اور سرغنہ بھی کارل مارکس ایک یہودی تھا۔ اور اسی طرح ایک دوسرا نظام زندگی جس نے عقل کے نام پر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی اور جس نے ہر سطح پر اخلاق کا انکار کیا اس گمراہی کا امام بھی فرائیڈ ایک یہودی تھا۔

دوسرا جرم ان کا یہ بتایا گیا ہے کہ وہ سود لیتے تھے ‘ حالانکہ انھیں اس سے روکا گیا تھا۔ تورات میں سود کی ممانعت کے احکام آج تک موجود ہیں۔ مثلاً ” اگر تو میرے لوگوں میں سے جس کسی کو جو تیرے آگے محتاج ہے کچھ قرض دیوے تو اس سے بیاجیوں کی طرح سلوک مت کر اور سود مت لے۔ “ (خروج ٢٢: ٢٥) ” تو اس سے سود اور نفع مت لے اپنے خدا سے ڈر تاکہ تیرا بھائی تیرے ساتھ زندگانی بسر کرے۔ تو اسے سود پر روپیہ قرض مت دے ‘ نہ اسے نفع کے لیے کھانا کھلا۔ “ (احبار ٣٥: ٣٦: ٣٧) عجیب بات یہ ہے کہ ان احکام کے باوجود بھی یہودی دنیا کی سب سے بڑی سود خور قوم ہے۔ اور اپنی تنگدلی اور سنگدلی کے لیے مشہور ہے۔ اور ان کے شایلاک دنیا کے ادبیات میں ضرب المثل بن گئے ہیں۔

اور تیسرا جرم ان کا یہ بیان فرمایا گیا کہ وہ لوگوں کے مال ناجائز طریقے سے ہضم کر جاتے تھے۔ تورات میں سود ‘ رشوت ‘ خیانت وغیرہ آمدنی کے جن ذریعوں کو حرام قرار دیا گیا تھا انہی کو اختیار کر کے وہ دنیا کے ذرائع پر بہت حد تک قابض ہوچکے ہیں۔

ان کے یہ جرائم ہیں جس کی وجہ سے اللہ نے ان پر بہت ساری حلال نعمتیں حرام کردیں۔ یہاں اگرچہ ان نعمتوں کا ذکر نہیں فرمایا گیا لیکن سورة الانعام آیت نمبر ١٤٦ میں ان کا ذکر آنے والا ہے۔ وہیں انشاء اللہ تفصیلی بحث ہوگی۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ جو لوگ کفر کی روش پر قائم رہیں گے اور اپنی رویے میں تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کریں گے ہم نے انکے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے قیامت میں جو ہونے والا ہے اس کا ذکر بھی قرآن کریم میں بار بار کیا گیا ہے اور دنیا میں جس طرح اس قوم کو عبرت بنادیا گیا وہ بھی نگاہ بصیرت رکھنے والوں پر مخفی نہیں اسرائیل کی صورت میں انھیں اپنی خباثتوں کے اظہار کا ایک موقع ملا ہے ‘ وہ وقت دور نہیں جب ان کا یہی رویہ پوری دنیا کو اس بات پر آمادہ کر دے گا کہ ان کو پھر اسی عذاب کی نذر کردیا جائے اور پھر اسی انجام سے دوچار کردیا جائے جو اللہ کی طرف سے ان کا اصل مقدر ہے۔

وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا     ١٦١؁

اور بوجہ ان کے سود لینے کے حالانکہ انھیں اس سے روکا گیا تھا اور بوجہ اس کے کہ وہ لوگوں کا مال ناجائز طریقوں سے کھاتے تھے اور ہم نے ان جیسے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے

سورہ الروم
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ  ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ  39؀

اور جو روپیہ تم سود پر دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مالوں میں بڑھتا رہے، تو وہ اللہ کے یہاں نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم دیتے ہو اللہ کی رضا جوئی کے لیے، تو یہی لوگ ہیں جو اللہ کے یہاں اپنے مال کو بڑھانے والے ہیں

وَمَآ اٰ تَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلاَ یَرْبُوْا عِنْدَاللّٰہِ ج ومَآ اٰ تَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ ۔ (الروم : ٣٩)

(اور جو روپیہ تم سود پر دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مالوں میں بڑھتا رہے، تو وہ اللہ کے یہاں نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم دیتے ہو اللہ کی رضا جوئی کے لیے، تو یہی لوگ ہیں جو اللہ کے یہاں اپنے مال کو بڑھانے والے ہیں۔ )

انسانی سوچ کی اصلاح اور ربا کا مفہوم

عام انسانوں کی سوچ اس دائرے سے باہر نہیں نکلتی کہ اپنے مال میں سے کسی کو اگر مدد کے طور پر کچھ دے دیا جائے یا کسی بھلائی کے کام پر خرچ کردیا جائے یا کسی رفاہی کام پر صرف کردیا جائے تو اس سے یقینا مال میں کمی آتی ہے، بڑھنے کا کوئی سوال نہیں۔ مال کے بڑھنے کا ایک طریقہ تو تجارت ہے جس کی اسلام نے ترغیب بھی دی ہے، لیکن اس میں امکانات دونوں طرح کے ہوتے ہیں کہ مال بڑھ بھی سکتا ہے اور کبھی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن مال کے یقینی طور پر بڑھنے اور کبھی نقصان کا اندیشہ تک نہ ہونے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ کسی کو سودی قرض کے طور پر مال دیا جائے۔ گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر یہ ارشاد فرمایا کہ تم اگر اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہو اور زندگی میں فلاح و کامرانی کے متلاشی ہو اور یہ بھی چاہتے ہو کہ تمہاری دولت معاشرے میں تیزی سے گردش میں آئے اور زیادہ ہاتھوں میں پہنچ کر زیادہ بڑھوتری کا سبب بنے تو اس کی صورت یہ ہے کہ کہ قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال میں رکھا ہے۔ لیکن تم یہ سمجھتے ہو کہ لوگوں کو سود پر پیسہ دے کر تم اپنے مال میں یقینی طور پر اضافہ کرسکتے ہو تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسا مال اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑھتا نہیں بلکہ کم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں جو مال بڑھتا ہے وہ مال وہ ہے جو تم زکوٰۃ کے طور پر دیتے ہو۔ زکوٰۃ سے یہاں فریضہ زکوٰۃ مراد نہیں بلکہ ہر وہ خیرات اور سخاوت ہے جس کا ذکر گزشتہ آیت میں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں تو اس کی افزائش کا حال یہ ہوگا کہ جس آدمی نے ایک دانہ بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیا ہوگا وہ قیامت کے دن پہاڑ سے بڑھ کر اس کی افزائش دیکھے گا۔ لیکن دنیا میں بھی جس طرح سودی مال کم ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیا ہوا مال بڑھتا ہے اس کا ذکر یہاں نہیں کیا گیا۔ کیونکہ یہ وہ پہلی آیت ہے جس میں سود کے نقصان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ جس چیز کو آئندہ چل کر حرام قرار دینے والا ہوتا ہے اس کی شناعت اور خرابی کو بہت پہلے سے آہستہ آہستہ دماغوں میں اتارنا شروع کردیتا ہے اور پھر وہ وقت آجاتا ہے جب اسے حرام کردیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں یہ تصور ضرور دے دیا گیا ہے کہ انسان بڑا کوتاہ نظر واقع ہوا ہے۔ وہ بظاہر دور تک دیکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کی نظر اسی زندگی تک محدود رہ جاتی ہے۔ وہ اپنے اصل مستقبل یعنی آخرت میں نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن ایک مومن کی سوچ عام انسان سے بالکل مختلف ہے۔ وہ دنیا سے آگے بڑھ کر آخرت کو بھی دیکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا میں روپیہ پیسہ دنیا کے بینکوں میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ ممکن ہے کبھی دنیا میں پہنچ جائے، لیکن حقیقی فائدہ جب ہے جب وہ پیسہ خدا کے بینک میں جمع ہو، تاکہ وہ اس کی ابدی زندگی میں کام آئے۔ تو سود میں چونکہ مال اللہ تعالیٰ کے یہاں یعنی آخرت میں نہیں بڑھتا۔ وہ اس صورت میں بڑھتا ہے جب لوگوں کا حق اس میں سے ادا کردیا جائے۔ اس لیے ایک مومن کی اصل سوچ یہ ہونی چاہیے کہ وہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی فکر کرے۔

بعض اہل علم نے آیت میں ربا سے سود نہیں بلکہ تحفے اور عطیے مراد لیے ہیں جو اس نیت سے دیے جائیں کہ تحفہ لینے والا اس سے کئی گنا زیادہ اس کے بدلے میں تحفہ دے۔ یا اس کے نتیجے میں کوئی اور فائدہ اٹھایا جائے۔ لیکن سیاق کلام کو دیکھتے ہوئے یہ مفہوم محل نظر ٹھہرتا ہے۔ اگر اس کو مراد لے بھی لیا جائے تو تب بھی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس نیت سے بھی تحفہ یا عطیہ دیا جائے تو وہ اگرچہ حرام نہیں لیکن معیوب ضرور ہے۔ اور یہ بات تو آیت نے واضح کردی کہ ایسے تحفے دینے سے مال میں برکت نہیں ہوتی۔