جنگ عظیم دوم اور ناکس قلعہ

صدر روز ویلٹ نے پہلے تو منی چینجرز کو سرد بازاری کا باعث گردانا۔ چنانچہ 4مارچ 1933ء کو اس نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا:
’’بے اصول منی چینجرز کا عمل عوامی عدالت میں ملزم ہے اور لوگوں کے دل و دماغ اسے مسترد کرتے ہیں۔ منی چینجرز ہماری تہذیب کے معبد کی اونچی کرسیوں سے بھاگ گئے ہیں‘‘۔
لیکن دو دن بعد ہی روز ویلٹ نے بینک ہالیڈے کا اعلان کر دیا اور تمام بینک بند کر دیے۔ اسی سال بعد میں اس نے سونااور سونے کے سکے ذاتی ملکیت میں رکھنا غیر قانونی قرار دے دیا۔ عام امریکیوں کے پاس سونے کے سکے ہی تھے۔ لہٰذا نئے حکم کا مطلب ان کی ضبطی تھا۔ نہ ماننے والوں کی سزا دس سال قید اور ددس ہزار جرمانہ تھا جو آج کے ایک لاکھ ڈالر کے برابر تھا۔
جمع کرانے والوں کو فی اونس کے عوض 20.66 ڈالر دیے گئے۔ ضبطی کا یہ حکم اتنا ناپسندیدہ تھا کہ کوئی اسے اپنانے کو تیار نہ تھا۔ حتیٰ کہ صدر نے کہا کہ وہ اس قانون کا مجوز نہیں ہے بلکہ اس نے اسے پڑھا بھی نہیں۔ اس نے کہا کہ ماہرین یوں چاہتے ہیں‘ سوچو کہ وہ ماہرین کون تھے۔
روزویلٹ نے لوگوں کو یہ کہہ کر یقین دلایا کہ اس طرح کساد بازاری دور ہو جائے گی۔ لیکن سونا استعمال نہ کیا گیا اور فیڈ نے روپے کو بھی محدود رککھا۔
12مئی 1933ء کو کانگریس نے یہ قانون پاس کیا کہ صدر 3بلین ڈالر کے نوٹ جاری کرے (جیسے لنکن کے گرین بیک تھے)۔ بینکرز نے مطالبہ کیا کہ صدر یہ نوٹ جاری نہ کرے اور صدر نے تسلیم کر لیا۔
پھر روزویلٹ نے آرڈر دیا کہ سونے کا یہ پہاڑ ایک جگہ جمع کیا جائے۔ 1936ء میں ناکس قلعہ میں وہ جگہ تعمیر ہو گئی اور جنوری 1937ء میں سونا وہاں آناشروع ہو گیا۔ 1935ء میں جب سب سونا عوام سے منتقل ہو گیا تو اس کی قیمت 35ڈالر فی اونس کر دی گئی۔ دھوکا دینے کے لیے کہا گیا کہ صرف غیر ملکی اس نرخ پر بیچ سکتے ہیں۔ منی چینجرز نے جنہوں نے واربرگ کے نوٹ پرسونا 20.66 ڈالر کے حساب سے یورپ بھیج دیا تھا ‘اب یہ سونا واپس منگوا کر گورنمنٹ کے پاس مہنگے نرخ پربیچا۔
دوسری جنگ عظیم ہوئی تو دنیا کی سب قوموں کا قرضہ بہت بڑھ گیا۔ امریکہ کا قرضہ جو 1940ء میں 43بلین ڈالر تھا 1950ء میں 257 بلین ڈالر ہو گیا ‘یعنی 598 فیصد بڑھ گیا‘ جاپان کا قرضہ 348 فیصد بڑھ گیا اور کینیڈا کا قرضہ 417 فیصد بڑھ گیا‘ وغیرہ۔
راک فیلر نے بالشویک روس کو مدد دی اور ساتھ ہی نازی جرمنی کو اور روز ویلٹ کے نئے سوشل پروگرام کے لیے بھی رقم دی۔ وال سٹریٹ سب کی پشت پر تھی۔
جنگ کے بعد دنیا دو اکنامک گروہوں میں بٹ گئی۔ ایک طرف کمیونسٹ اکانومی تھی اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ اجارہ داری اور ان کے درمیان مستقل سرد جنگ شروع ہو گئی۔ بینکرز کی گرفت دونوں پر تھی۔
لڑائی کے بعد دو پارٹی یا کئی پارٹی جمہوریتوں کے قیام سے جوڑ توڑ مزید آسان ہو گیا۔ روپے کی کمی اور مشکل وقت میں لوگوں کا رجحان کمیونزم کی طرف ہوتا۔ زیادہ روپیہ اور آسان وقت میں دوسری طرف ہو جاتا۔
انٹرنیشنل بینکرز روپے کی کمی یا بیشی پیدا کرنے پر قادر تھے۔ مالی طاقت اور میڈیا پر کنٹرول کے ذریعے جمہوریتوں کو زیر و زبر کرنا آسان تھا۔
اب وہ وقت آ چکا تھا کہ بینکرز معاشی نظام کو پوری دنیا میں ایک کر دیں اور پھر دنیا پر اپنی حکومت یا نیو ورلڈ آرڈر قائم کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے پلان بنایا۔
پہلا قدم: پوری دنیا کی معاشیات کو ایک مرکزی بینک کے ذریعے کنٹرول کرنا۔
دوسرا قدم: علاقائی معاشی کنٹرول کے لیے یورپی یونین اور نافٹا (NAFTA) جیسی تنظیموں کا قیام۔
تیسرا قدم: ورلڈ سینٹرل بینک کے طور پر بی آئی ایس‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا قیام اور ایک بین الاقوامی نوکر شاہی‘ WTO کے تحت (GATT) کر کے ٹیرف ختم کر کے قوموں کی آزادی سلب کر لی جائے۔
پہلا قدم مدت ہوئی مکمل ہو چکا ہے۔ دوسرا اور تیسرا بھی مکمل ہونے کو ہے۔
علاقائی نافٹا کی منظوری کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے راک فیلر نے کہا:
’’پانچ سو سال بعد مغرب میں ایک نئی دنیا بسانے کے لیے ہر چیز اپنی جگہ پر آرہی ہے‘‘۔
1994ء میں گیٹ ٹریٹی بنائی گئی جس کی رو سے ملکوں کے درمیان ٹیرف ختم کیے جا رہے ہیں۔عالمی جنگ کے بعد بینکرز کے زیر کنٹرول مغرب کی حکومتیں پ پچاس سالہ پروگرام کے تحت اپنے شہریوں کی دولت ضبط کرنے میں لگی ہیں۔یہ کام افراطِ زر پیدا کر کے کیا جاتا ہے۔ اس سے مزدوریوں اور تنخواہوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے اور ٹیکس بڑھ جاتے ہیں اور روپیہ بینکرز کو منتقل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
بینک آف انگلینڈ کا ایک ڈائریکٹر کینیز(Keynes) یوں کہتا ہے:
’’افراطِ زر کو مسلسل بڑھا کر حکومت خفیہ طور پر شہریوں کی دولت کا بڑا حصہ ضبط کر لیتی ہے‘‘۔
1913ء میں فیڈ بننے کے بعد امریکہ میں 1000 فیصد افراطِ زر ہو چکی ہے جس سے ڈالر کی قوت خرید 90 فیصد کم ہو گئی ہے۔ یورپ میں بھی یہی ہواہے‘ لیکن حکومتوں کو بہت کم نفع ہوا ہے۔ چند بینک جو جزوی ریزرو بینکنگ پر کام کرتے ہیں‘ سب دولت سمیٹ کر لے گئے ہیں‘ اس قدر کہ متوسط طبقہ ان کے قرضوں کا غلام ہے جن کے پاس نہ زمین ہے‘ نہ مکان‘ نہ کار اور نہ کچھ۔ متوسط طبقہ اور غریب طبقوں میں صرف یہ فرق رہ گیا ہے کہ متوسط طبقہ کو اس کی ککمائی دیکھ کر قرضہ مل جاتا ہے جبکہ غریب طبقے کو نہیں ملتا۔
’’سونے کی کیفیت کیا ہے؟ کیا امریکہ کے پاس اتنا سونا نہیں ہے کہ اپنے قرضے کے مسئلے کو حل کر سکے؟ سب سے زیادہ سونا آئی ایم ایف کے پاس ہے۔اس کے اور دوسرے مرکزی بینکوں کے قبضے میں دنیا کا دو تہائی سونا ہے۔اس لیے کوئی بھی ان کے مقابلے یا روپے کی پشت پناہی کے لیے سونا استعمال نہیں کرسکتا۔۔ ان کا سنہری قانون یہ ہے کہ ’’جس کے پاس سونا ہے وہی قانون بناتاہے‘‘۔
بہت سے امریکیوں کا خیال ہے کہ سونا ابھی ناکس قلعہ میں ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمہ پر ناکس قلعہ میں 702 ملین اونس سونا تھا‘ یعنی پوری دنیا کے سونا کا 70فیصد۔ اب کتنا باقی ہے کوئی نہیں جانتا۔ قانون کہتا ہے کہ ناکس کا ہر سال فزیکل آڈٹ کیا جائے مگر خزانچی اجازت نہیں دیتے۔ صحیح بات یہ ہے کہ صدر ایزن ہاور کے حکم پر 1953ء میں جو آڈٹ ہوا‘ وہی ہوا۔
سونا کہاں گیا؟ 1971ء تک سب سونا وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔زیادہ تر فیڈ کے ذریعے بینک آف انگلینڈ کو دے دیا گیا۔ جب یہ ہو چکا تو صدر نکسن نے روزویلٹ کا 1934ء کا قانون منسوخ کر دیا اور امریکیوں کو سونا خریدنے کی اجازت دے دی۔
قدرتی طور پر سونے کی قیمت بڑھنے لگی۔ 9سال کے بعد 880 ڈالر فی اونس‘ یعنی اس وقت سے جب ناکس قلعہ کا سونا بیچا گیا‘ 25گنا زیادہ ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ سونے کی یہ چوری کیسے ظاہر ہوئی؟ 1974ء میں ایک رسالے میں ایک مضمون لکھا گیا کہ راک فیلر کا خاندان ناکس قلعہ کا سونا یورپ کے گمنام سٹہ باززوں کو فروخت کر رہا ہے۔ تین دن کے بعد اس کہانی کی گمنام محررلوئی آخن کلاس بائر (Louise Auchincloss Boyer) نیویارک میں دسویں منزل سے گر کر ہلاک ہو گئی۔ وہ نیلسن راک فیلر کی سیکرٹری رہی تھی۔
حکومت کو بار بار آڈٹ کے لیے کہا گیا ہے مگر حکومت ڈرتی ہے‘ لیکن کس سے؟ صدر ریگن1981ء میں صدر بنا۔ اس نے حکومت کے اخراجات کنٹرول کرنے کے لیے گولڈ سٹینڈرڈ اپنانے کا ارادہ کیا اور گولڈ کمیشن بٹھایا۔ 1982ء میں کمیشن نے رپورٹرٹ دی کہ خزانے کی ملکیت میں کوئی سونا نہیں ہے۔ سب سونا فیڈرل ریزرو کی ملکیت ہے جو پرائیویٹ بینکروں کا ایک گروہ ہے اور سونا جو فیڈرل ریزرو بینک میں ہے وہ بھی بینک کا اپنا ہے یا اس کے بیرونی مالکوں ں کاہے۔
سچ یہ ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اتنا روپیہ عوام کی جیبوں میں سے نکال کر چچند پرائیویٹ منی چینجرز کے حوالے کر دیا گیا ہو۔

Previous Chapter Next Chapter