ء1969 : اسلامی مشاورتی کونسل نے ڈھاکہ میں اپنے اجلاس منعقدہ دسمبر 1969ء میں اسٹیٹ بینک کے استفسار پر ملک میں رائج نظامِ بینکاری کے تحت جاری کیے جانے والے قرضوں ‘ سیونگ سرٹیفکیٹس ‘ پرائز بانڈز ‘ پوسٹل لائف انشورنس اسکیم وغیرہ کو سودی قرار دیا اور علماء و ماہرین پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی بنانے کی تجویز دی جو غیر سودی نظامِ معیشت کے قیام کے لیے سفارشات مرتب کر سکے۔
ء1973 : دستورِ پاکستان کی دفعہ 37 میں طے کیا گیا کہ ملک کی اقتصادیات کو سود ی لین دین سے جلد از جلدپاک کرنا ریاست کی منصبی ذمہ داری ہے۔دستور میں واضح طور پر کہا گیا کہ 9 سال کے عرصہ میں ملک کے پورے قانونی‘ معاشی اور معاشرتی نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھال دیا جائے گا۔
ء1977 : 29 ستمبر کو صدر ضیاء الحق نے اسلامی نظریاتی کونسل کو غیرسودی معیشت کے قیام کے لیے سفارشات مرتب کرنے کا کا م تفویض کیا۔کونسل نے نامور ماہرینِ اقتصادیات اور بینکاروں پر مشتمل ایک 15 رکنی پینل قائم کیا‘جس نے شب و روز محنت کرکے سفارشات مرتب کیں۔
1980ء: 25 جون 1980ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی حتمی رپورٹ صدر ضیاء الحق کو پیش کی لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی کوشش سے اس رپورٹ کو استفادۂ عام کے لیے شائع کر نے کی اجازت دے دی گئی۔اس رپورٹ کا خلاصہ صدیقی ٹرسٹ( المنظر اپارٹمنٹس‘ 458 گارڈن ایسٹ ‘ نزد لسبیلہ چوک کراچی) نے شائع کیا۔ 1981 ء :ملک میں وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی‘ لیکن یہ پابندی لگا دی گئی کہ دس سال تک ملک کے مالی معاملات عدالت کے دائرۂ کار سے باہر رہیں گے۔سود کے متبادل کے طور پر بینکوں میں مار ک اپ اور PLS کھاتوں کے نام سے نظام قائم کیا گیاجسے علماء کرام نے سود ہی کی ایک صورت قرار دیا۔ 1988ء :15 جون1988ء کو صدر ضیاء الحق نے نفاذِ شریعت آرڈیننس کے ذریعے ایک اسلامی معیشت کمیشن قائم کیا اور پروفیسر ڈاکٹر احسان رشید (سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی) کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔اس کمیشن نے ایک سال تک کام کیا‘ مگر بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں اس آرڈیننس کو اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا اور یہ کمیشن بھی ختم ہوگیا۔ 1991ء: نواز شریف کے حکم سے ایک کمیٹی پروفیسر خورشید احمد کی سربراہی میں غیر ملکی قرضوں سے نجا ت اور خود انحصاری کے لیے قائم کی گئی جس نے ایک قلیل عرصے میں خاصا کام کرکے اپنی رپورٹ 01اپریل 1991ء کو پیش کی۔ 11 مئی1991ء کو نواز شریف حکومت نے ملکی معیشت کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا۔اس کمیشن نے خاصا کام کیا‘مگر پھر بے نظیربھٹوکے دوسرے دورِحکومت میں اس کمیشن کا کام تعطل کا شکار ہوگیا۔ نواز شریف نے اپنے اس پہلے دورِ حکومت میں مولانا عبد الستا ر خان نیازی کی قیادت میں ایک کمیٹی کو غیر سودی معیشت کے لیے سفارشات مرتب کرنے کا کام سونپا۔اس کمیٹی نے بھی اپنی مرتب کردہ سفارشات پیش کیں۔14 نومبر 1991ء کو وفاقی شرعی عدالت نے جسٹس تنزیل الرحمن کی سربراہی میں طویل سماعت کے بعد Bank Interestکو ’ربا‘ قرار دیا اور حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی ‘تاکہ وہ ملکی معیشت کو سود سے پاک کر دے ۔ عدالت میں سماعت کے دوران ملک کے ممتاز ماہرینِ معیشت ‘ وکلاء اور علماء پیش ہوئے ۔ نواز شریف حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی اور اگلے آٹھ سال تک اس اپیل کی سماعت بھی نہ ہوسکی‘ لہٰذا معاملہ تعطل کا شکار رہا۔
1997ء: 23 فروری 1997ء کو نواز شریف حکومت نے ملک سے سود کے خاتمے کے لیے راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جس نے خاصا کام کیا۔ تاہم عملی اقدامات کی طرف پیش رفت نہ ہوسکی۔ 1999ء: سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے 1991ء کے فیصلے کے خلاف دائر کردہ حکومتی اپیل کی سماعت کی اور 23 دسمبر1999ء کو حکومت کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی تو ثیق کی اور حکومت کو خاتمۂ سود کے لیے 30جون2001ء تک کی مہلت دی۔ حکومت نے رازداری سے اس فیصلے کے خلاف ایک سرکاری بینک UBLکے ذریعے نظر ثانی کی اپیل دائر کردی۔ 2001ء: جون 2001ئمیں حکومت نے UBLکے ذریعے سپریم کورٹ سے سودی معیشت کے خاتمہ کے لیے مزید مہلت طلب کی اور سپریم کورٹ نے حکومت کو مزیدایک سال کی مہلت دے دی۔ 2002 ء: ماہِ مئی 2002ئکے اوائل میں ایڈووکیٹ جنرل آف پاکستان نے اس حکومتی موقف کا اظہار کیا کہ اب حکومت ایسے علماء کی آراء سے استفادہ کرے گی جو Bank Interest کو ’ربا‘ نہیں سمجھتے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اس موقف پر حسبِ ذیل اخباری اشتہار کے ذریعے اپنے ردِّ عمل کا اظہار کیا: ’’ ایک جانب بھارتی افواج ہماری سرحدوں پر کھڑی ہیں اور بے تابی کے ساتھ حملے کے حکم کا انتظار کررہی ہیں‘ اوردوسری جانب ہماری حکومت اللہ‘اور رسولؐ کے ساتھ جنگ کو جاری رکھنے کے لیے نت نئی چالیں سوچ رہی ہے!! پاکستان کی دینی و مذہبی قیادت ایڈووکیٹ جنرل آف پاکستان کے اس بیان کا سنجیدگی سے نوٹس لے کہ : ’’اَوّلاً امتناعِ سود کے ضمن میں نظر ثانی کی اپیل پر زور دیاجائے گا اور ایسے ’’علماء‘‘ کی آراء سے استفادہ کیا جائے گا جو بینک کے سود کو ’’ربا‘‘ نہیں سمجھتے اور ثانیاً بعض ایسے مسلم ملکوں کی مثالوں سے راہنمائی حاصل کی جائے گی جہاں غیر سودی کے ساتھ ساتھ سودی بینکنگ بھی جاری ہے!‘‘ اور حکومت سے پر زور مطالبہ کرے کہ 30 جون سے پہلے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآ مد کو یقینی بنایا جائے!! واضح رہے کہ اس موقع پر علماء و مشائخ اور دینی ومذہبی جماعتوں کی خاموشی سے ان پر قرآن حکیم کے یہ الفاظ صادق آ جائیں گے کہ :
(لَوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْتَط)(المائدۃ:۶۳)
یعنی’’ کیوں نہیں روکتے انہیں ان کے مشائخ اور علماء گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے؟‘‘
بدقسمتی سے ملک کی دینی و مذہبی قیادت نے ڈاکٹر صاحب کی اپیل پر کوئی توجہ نہ دی اور حکومت نے اگلے قدم کے طور پر عالمی سطح کے معروف عالمِ دین اور فقیہہ جسٹس تقی عثمانی صاحب کو بغیر کوئی وجہ بتائے سبکدوش کردیا اور ان کی جگہ دو غیر معروف حضرات کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کا جج مقرر کردیا۔ 6جون سے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے UBLکی طرف سے دائرکردہ نظر ثانی کی اپیل کی سماعت شروع کی۔سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق کسی فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی سماعت وہی بنچ کر سکتا ہے جس نے وہ فیصلہ دیا ہو۔ لیکن اس قاعدے کی خلاف ورزی کی گئی اور ایک ایسے بنچ نے اپیل کی سماعت کی جو سرے سے اس کا مجاز ہی نہ تھا۔ دینی جماعتوں کے وکلاء
نے پہلے روز بنچ کی تشکیل کے حوالے سے یہ اعتراض اٹھایا اور عدالت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ سماعت سے قبل ان تمام فریقوں کو نوٹس دے جو اس سے قبل اس معاملہ میں فریق رہے ہیں۔عدالت نےجواب دیا کہ وہ پہلے اپیل کے قابلِ سماعت ہونے کا جائزہ لے گی اور پھر سماعت شروع کرے گی ‘لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ سماعت کے دوران سرکاری وکلاء نے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے 1999ء کے فیصلے کے خلاف چند نئے نکات اٹھائے۔ عدل کا تقاضا تھا کہ ان نکات کے جواب تیار کرنے اور پھر تفصیلی سماعت کے لیے عدالت علماء اور دینی جماعتوں کے وکلاء کو وقت دیتی‘ لیکن عدالت نے عجلت سے کام لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے دسمبر1999ء کے تاریخ ساز فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور معاملے کو دوبارہ فیڈرل شریعت کورٹ کی طرف بھیج دیا کہ وہ از سرِ نو تمام معاملات پر نظرثانی کرے۔ گویا اس طرح اب تک کی جملہ پیش رفت پر بیک جنبش قلم خط تنسیخ پھیر دیا گیا اور قوم کو ایک غیر معینہ مدت تک کے لیے سودی شکنجے میں جکڑا رہنے اور اللہ اور اس کےرسولؐ کے خلاف علم بغاوت بلند کیے رکھنے کے عذاب میں مبتلا رہنے کا سامان فراہم کر دیا گیا۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ