انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF)کا صدر دفتر واشنگٹن ڈی سی میں واقع ہے اور سڑک کے پار ورلڈ بینک کا صدر دفتر ہے۔ یہ دونوں ادارے کیا ہیں اور کس کے کے تحت کام کرتے ہیں؟
یہ جاننے سے پہلے تھوڑی دیرکے لیے پہلی جنگ عظیم کے بعد کے حالات کی طرف آئیے۔ لوگ جنگ سے عاجز آ چکے تھے۔ دنیا کو پُر امن بنانے کے بہانے ببین الاقوامی بینکاروں نے اپنی طاقت مزید مستحکم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ منی چینجرز نے اس دعوے کے ساتھ کہ صرف بین الاقوامی حکومت ہی عالمی جنگوں کا خاتمہ کر سکتی ہے‘ عالمی حکومت کے قیام کا ڈول ڈالا۔ اسے انہوں نے تین ٹانگوں پر کھڑا کیا۔ ایک عالمی مرکزی بینک جس کا نام BIS‘ یعنی بینک فار انٹرنیشنل سیٹل منٹس (Bank for International Settlements) تجویز کیا۔ دوسری ایک عالمی جوڈیشری‘ جو عالمی عدالت کے نام سے ہیگ‘ نیدر لینڈ میں قائم کی جانی تھی اور تیسری ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کے نام سے ایک عالمی مقننہ اور انتظامیہ۔ لیکن بین الاقوامی بینکاروں اور پریس کے شدید دباؤباؤ کے باوجود مٹھی بھر امریکی سینیٹروں وں نے امریکہ کو ان سکیموں سے دور رکھا۔ اگرچہ لیگ آف نیشنز کا منصوبہ 1930ء میں منظور کر لیا گیا تھا‘ مگر امریکہ کی عدم شمولیت کے باعث وہ اپنی موت آ پ مر گئی۔ امریکہ نے اگرچہ 1930ء ہی میں قائم ہونے والے عالمی مرکزی بینک (BIS) کی تجویز بھی ردّ کر دی تھی‘ لیکن نیویارک فیڈرل ریزرو بینک امریکی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے 1994ء تک سوئٹزرلینڈ میں مرکزی بینکرز کے اجلاسوں میں اپنے نمائندے بھیجتا رہا اور بالآخر امریکہ کی حکومت کو بھی گھیر گھار کر اس میں لے آئے۔(مرکزی یا بین الاقوامی بینکاروں سے مراد وہ اصل طاقت نہیں جس کے ہاتھ میں عالمی معیشت کی باگ ڈور ہے‘ بلکہ ان سے مراد وہ کارندے ہیں جو اس نظام کو چلانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں اور اسے بڑی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ اصل ط طاقت چند خاندانوں پر مشتمل ایک گروہ ہے جس کے آپس میں انتہائی قریبی روابط ہیں اور جو ہمیشہ پس پردہ رہ کر خفیہ طورپر کام کرتا ہے۔)
بینک آف انگلینڈ‘ دی فیڈ (فیڈرل ریزرو بینک)‘ دی بینک آف جاپان‘ دی سوئس نیشنل بینک اور جرمن بندیس بینک (Bundes Bank) اور دیگر مرکزی بینکوں کے سربراہ اپنی قومی حکومتوں سے بالا بالا سال میں دس مرتبہ باہمی رابطہ کے لیے ملاقات کرتے ہیں اور صنعتی ممالک میں جاری معاشی سرگرمیوں کا جائزہ لے کر عالمی معیشت کے بارے میں آئندہ کے لیے حکمت عملی طے کرتے ہیں۔ بہرحال جب عالمی ساہوکاروں نے امریکی حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث عالمی حکومت کا منصوبہ کھٹائی میں پڑتا ہوا دیکھا تو انہوں نے ایک اور عالمی جنگ کرانے کی ٹھانی اور اس مقصد کے لیے جرمنی اور روس پر کام شروع کر دیا‘ جس کے نتیجہ میں جنگ عظیم دوم کے خاتمہ سے پہلے پہلے عالمی حکومت کے لیے راہ ہموار ہو چکی تھی۔ چنانچہ 1944ء میں برٹن ووڈز‘ نیوہیمپشائر (Bretton Woods New Hampshire) میں امریکہ کی بھرپور شرکت سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی۔ ایم۔ ایف) اور ورلڈ بینک کے قیام کی منظوری دی گئی‘ لیگ آف نیشنز کو یونائیٹڈ نیشنز کے نئے نام سے 1945ء میں منظوری حاصل ہو گئی۔ منصوبے کے عین مطابق جنگ نے وہ ساری مخالفت ختم کر دی تھی جو ان بین الاقوامی اداروں کے قیام میں رکاوٹ تھی۔
لندن میں قائم ’’دی سٹی‘‘‘(The City)کی طرح دی فنڈ (I.M.F) کے خلاف عدالتی کارروائی نہیں ہو سکتی۔۔۔ اس کا مال اور اثاثہ جہاں کہیں رکھا ہے‘ تلاشی‘ طلبی‘ ضبطی‘ بے دخلی یا کسی بھی طریقے سے حکومتی یا قانونی عمل کے ذریعے قبضہ میں لیے جانے سے محفوظ ہے۔۔۔ اس کے افسر اور اہل کار ہر طرح کی قانونی چارہ جوئی سے مستثنیٰ ہیں…. اس پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔ [ورلڈ بینک اور بی ۔ آئی۔ ایس(BIS) پر بھی ایسے معاہدوں کا اطلاق ہوتا ہے] گویا اس سے قبل جو اختیارات امریکہ میں مرکز سے منسلک پرائیویٹ بینکوں کو حاصل تھے وہی عالمی سطح پر اب آئی۔ ایم۔ ایف‘ ورلڈ بینک اور بی ۔آئی۔ ایس کو حاصل ہیں۔ یہ بینک قرضوں کی پالیسی وضع کرنے میں دوسرے تمام ممالک کے قومی بینکوں کو ہدایات دیتے ہیں۔ منی چینجرز کا یہ وطیرہ ہے کہ کہ بددیانت حکومت کو قرض دے کر عوام سے بمع بھاری سود وصول کرتے ہیں‘ اس کے لیے مزید قرض دیتے ہیں یہاں تک کہ پوری قوم ان کے شکنجے میں جکڑی جاتی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب کسی قوم کو زندہ رکھنے یا مارنے کا فیصلہ چند افراد‘ جن کے پاس ساری دنیا کی دولت ہے‘ کریں گے۔ اس کا آغاز افریقی ممالک سے ہو چکا ہے۔ چنانچہ جب یہ ممالک پوچھتے ہیں کہ کیا ہم قرض اتارنے کے لیے اپنے بچوں کو ماردیں تو جواب ملتاہے: ہاں! ترقی اور خوشحالی لانے کے بہانے قرضے لینے کا یہ نتیجہ ہے کہ مقروض ممالک کے رہے سہے اثاثے بھی منی چینجرز کے بینکوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ ان کا اگلا ہدف چین ہے جو ابھی پپوری طرح ان کے شکنجے میں نہیں آیا۔ یہ بہت خطرناک کھیل ہے جو عالمی سرمایہ دار چین کو امریکہ کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لیے کھیل رہے ہیں۔
برازیل کے ایک ممتاز سیاست دان کا کہنا ہے:
’’تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ یہ خاموش جنگ ہے لیکن انتہائی تباہ کن۔ برازیل‘ لاطینی امریکہ اور تیسری دنیا کے لیے موت کا پیغام لیے یہ جنگ سپاہیوں کے بجائے بچوں کو مار رہی ہے ۔ اس کا ہتھیار سودی نظام ہے‘ ایٹم بم اور لیزر بم سے بھی خوفناک‘‘۔