حرفِ آخر

سینٹرل بینکنگ اور جزوی ریزرو بینکنگ کی تاریخ پر جب بھی نگاہ ڈالیں گے تو آپ کو اس میں راتھ شیلڈ‘ واربرگ ‘شف اور راک فیلر جیسے خاندان بنیادی کردار اداکرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ مگر اس بات کو تین صدیاں بیت چکی ہیں‘ اس دوران قوموں کی معاشی زندگی میں یہ نظام مضبوطی سے اپنی جڑیں گاڑ چکا ہے‘ اب اسے کسی بیرونی سہارے کی ضرورت نہیں۔ مثال کے طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد بینک آف انگلینڈ اور بینک آف فرانس دونوں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا‘ مگر ان کی حیثیت جوں کی توں برقرار رہی۔ چنانچہ آج کسی فرد یا خاندان کو اس کے لیے موردِ الزام ٹھہرانا بے معنی ہے۔ اصل ضرورت اس ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی ہے جو دولت کے چند ہاتھوں میں مرتکز ہونے کا موجب ہے اور اس نقطۂ نگاہ کو بدلنے کی ضرورت ہے جو خالص مادہ پرستی پر مبنی ہے۔ اس کے لیے دولت کی مساوی تقسیم کا سوشلسٹ نظریہ قابل عمل نہیں۔ جیسا کہ کبھی ایک ماہر تاریخ دان نے کہا تھا کہ صبح دنیا کی ساری دولت ہر ایک کو برابر برابر بانٹ دیں‘ شام تک نکمّے پھر خالی ہاتھ ہو جائیں گے اور دولت واپس محنت کرنے والوں کے پاس پہنچ جائے گی۔ تاہم کسی بھی معاشرے کو صحت مندانہ طورپر قائم رکھنے کے لیے کچھ قواعد و ضوابط درکار ہوتے ہیں‘ ان قواعد و ضوابط کا عدلل پرمبنی اور متوازن ہونا ضروری ہے۔ منی چینجرز نے دوللت کے بل پر سارا توازن اپنے حق میں کر لیا ہے جس سے جمہوریت اور آزادپریس کی باتیں بے معنی ہو چکی ہیں۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے تدریجاً واپس عدل و انصاف اور نیکی کی طرف آنا ہوگا۔ اس کے لیے نچلی سطح سے کام کا آغاز ہونا چاہیے۔ گویا اییک متوازن اور صحت مند معاشرہ قائم کرنے کے لیے افراد کو بدلنا ہوگا۔ مثلاً ایک شخص اگر یہ پوچھے کہ میں اس بارے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہوں تو جواب ہوگا کہ اپنے آپ کو بدلیں‘ نیکی‘ کفایت شعاری‘ عدل‘ استقامت اور میانہ روی جیسے اوصاف اپنائیں۔
اصولاً بین الاقوامی بینکوں اور یو ۔این جیسے بین الاقوامی اداروں کا تصور غلط نہیں ہے‘ بلکہ ان کے قیام سے انسانی بھلائی کے کاموں میں مدد لی جا سکتی ہے ہے‘ بشرطیکہ یہ ادارے دنیا کی کمزور قوموں پر اپنی حاکمیت مسلط کر کے انہیں اپنا غلام نہ بنائیں۔ ددنیا کی مختلف قوموں پر مشتمل ایک عالمی برادری کا قیام بلاشبہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مگر جس طرح کسی معاشرے میں خاندان کی ایک اہمیت ہوتی ہے اسی طرح عالمی برادری میں شامل مختلف قوموں کو اپنی تہذیب اور تمدن کی رو سے اپنے لوگوں کے مسائل حل کرنے اور ان کی خدمت انجام دینے کی آزادی اور سہولت میسر رہنی چاہیے۔ اس کے برعکس بین الاقوامی بینکوں‘ یو این او‘ عالمی عدالت اور ڈبلیو ۔ٹی ۔او جیسے اداروں کا موجودہ ڈھانچہ واضح طور پر پوری دنیا کو چند افراد کے ہاتھوں یرغمال بنانے کی خاطر استوار کیا گ گیا ہے۔ لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ ان اداروں کو سرے سے ختم کر دیا جائے‘ یا پھر ان میں بنیادی اصلاح کی جائے۔ جب تک ہم اپنے بینکنگ سسٹم کی اصلاح نہیں کرتے مٹھی بھر بینکار ہم پر مسلط رہیں گے۔ چنانچہ اس کا واحد حل یہ ہے کہ فیڈ اور جزوی ریزرو بینکنگ کو ختم کریں اور بی ۔آئی۔ ایس‘ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے اللگ ہو جائیں۔ البتہ یہ ذہن میں رہے کہ جونہی کوئی ملک بین الاقوامی ساہوکاروں کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کرے گا ایک دفعہ اس کا سارا معاشی ڈھانچہ زمین بوسس ہو جائے گا‘ وہاں سے سارا سرمایہ باہر چلا جائے گا ‘مگر یہ صورت حال چند ماہ سے زیادہ جاری نہیں ر رہے گی۔ اس کے برعکس اگر بیٹھے انتظار کرتے رہے تو ایک و وقت آئے گا کہ آپ ہمیشہ کے لیے اپنی ملکی دولت سے ہاتھ دھو لیں گے۔

Previous Chapter Next Chapter