آئی ایم ایف کا ہیڈکوارٹر واشنگٹن میں ہے اور سڑک کے دوسری طرف ورلڈ بینک ہے‘ وہ کیا کر رہے ہیں؟
پہلی عالمی جنگ کے بعد امن عالم کے لیے انٹرنیشنل بینکرز نے عالمی حکومت کا نظریہ پیش کیا تھا اور اس کے لیے تین چیزوں کو ضروری قرار دیا گیا تھا۔۔ ورلڈ بینک ‘ ورلڈ کورٹ اور ایک عالمی انتظامیہ اور مقننہ یعنی لیگ آف نیشنز۔ 1930ء میں ہیگ (نیدر لینڈ) میں ورلڈ کورٹ بھی بنا دی گئی لیکن انہیں تسلیم نہ کرایایا جا سکا۔ چنانچہ بینکرز نے دوسری عالمی جنگ کی تیاری شروع کر دی۔
دوران جنگ پریشانیوں کی وجہ سے 1944ء میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو تسلیم کر لیا گیا۔ 1945ء میں لیگ آف نیشنز نئے نام یونائیٹڈ نیشنز (U.N) کے نام سے وجود میں آ گئی۔
لندن کے بینک آف انگلینڈ کی طرح آئی ایم ایف کے لیے تسلیم کیا گیا کہ اسے عدالتی کارروائیوں میں نہیں ڈالا جائے گا‘ اس کی جائیداد کی تلاشی یا ضبطی و وغیرہ نہیں کی جائے گی‘اس کے سٹاف کے خلاف مقدمہ بازی نہیں ہوگی‘ ان پر ٹیکس نہیں لگایا جائے گا (ورلڈ بینک کے لیے بھی ایسا ہی معاہدہ کیا گیا)۔ پھر آئی ایم ایف کو اپنے نوٹ ایس ڈی آر (S.D.R) دنیا بھر میں چلانے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ اب تک وہ 30بلین ڈالر کے ایس ڈی آر جاری کر چکی ہے اور سب قوموں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ انہیں اپنی کرنسی سے تبدیل کر لیں۔ 1968ء میں کانگریس نے ڈالر کو ایس ڈی آر سے بدلنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں ایس ڈی آر قانونی سکہ ہے۔ جب دوسری قوموں نے بھی اسے تسلیم کر للیا تو وہ کل عالم کرنسی بن جائے گا۔
یہ سناروں کا پرانا دھوکا ہے جو وہ سینٹرل بینک کے ذریعے پہلے کسی ایک ملک میں کرتے تھے‘ اب ورلڈ بینک کے ذریعے تمام دنیا میں کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا اقتصادی کنٹرول ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے چند بینکروں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ ا۔ اگر اس گروپ میں ایک آدمی غالب ہوا تو صرف وہ ایک آدمی دنیا کی معاشیات کو کنٹرول کرے گا اور یہ نہایت خطرناک صورتِ حال ہوگی۔ ورلڈ بینک کے زیر تسلط ممالک میں اقتدار کا انتقال بڑے انقلابی انداز میں ہوتا ہے۔ بد دیانت حکومتوں کو جعلی قرضہ دیا جاتا ہے اور جب عوام اس کے بوجھ تلے دب کر بے بس ہو جاتتے ہیں تو آئی ایم ایف ان کی آزادی اور دولت دونوں کو ہڑپ کر لیتا ہے۔ جب یہ کام ساری دنیا میں مکمل ہو جائے گا تو ورلڈ بینک یہ فیصلہ کرے گا کہ کس ملک کو ابھی زندہ رکھنا ہے اور کس ملک کے بچوں کو بھوکا مرنے دینا ہے۔
ترقی کے لیے اور غریبی کو دور کرنے کے لیے قرضوں کے متعلق خواہ کچھ دعوے بھی کیے جائیں ان سے مقروض قوموں کی دولت منی چینجرز کے سینٹرل بینکوں کو منتقل ہو جاتی ہے۔ مثلاً 1992ء میں تیسری دنیا کی مقروض قوموں نے ورلڈ بینک اور ترقی یافتہ ملکوں کے بینکوں کو198 بلین ڈالر اس سے زیادہ دیے جو انہوں نے لیے تھے۔ مزید قرضے دے کر ان کے قرضوں کو مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ ٹالسٹائی نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا:
’’میں ایک شخص کی پیٹھ پر بیٹھا اس کا گلا دبا رہا ہوں اور ساتھ ہی کہتا ہوں کہ مجھے افسوس ہے‘ میں تو اس کی حالت بہتر بنانا چاہتا ہوں سوائے اس کے ممیں اس کی پیٹھ سے اتروں گا نہیں‘‘۔
1982ء سے مقروض ممالک ہر ماہ 6.5 بلین ڈالر سود دیتے ہیں۔ اگر اصل زر بھی شامل کر لیا جائے تو ہر ماہ 12.5 بلین ڈالر ادا کرتے ہیں جو اس رقم سے زیادہ ہے جو تیسری دنیا صحت اور تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ 1980ء میں لاطینی امریکہ نے 80بلین ڈالر اصل زر پر 418 بلین ڈالر سود ادا کیا۔ 1992ء میں افریقہ کا بیرونی قرضہ 290 بلین ڈالر ہو گیا جس سے بچوں کی اموات‘ بے روزگاری ‘ سکولوں ‘ مکانوں اور صحت عامہ کی بربادی عام ہوگئی۔ ایک افریقی ریاست کے سربراہ نے کہا:
’’کیا ہم یہ قرضہ ادا کرنے کے لیے بچوں کو بھوکا مار دیں۔‘‘
منی چینجرز کا جواب تھا : ’’ہاں‘‘۔
1997ء میں دنیا کے 441 کھرب پتیوں کے پاس اتنی دولت تھی جتنی دنیا کے نصف ‘24 بلین غریبوں کے پاس تھی۔
برازیل کے ایک سیاستدان نے کیا خوب کہا ہے:
’’تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ یہ خاموش جنگ ہے لیکن کم منحوس نہیں ہے۔ یہ جنگ برازیل‘ لاطینی امریکہ اور ساری تیسری دنیا کو چیر پھاڑ رہہی ہے۔ اس میں سپاہیوں کے بجائے بچے مرتے ہیں۔ یہ تیسری دنیا کے قرضے کی جنگ ہے‘ جس کا ہتھیار سود ہے جو ایٹم بم سے زیادہ تباہ کن ہے‘‘۔
اگرچہ سینٹرل بینکنگ اور جزوی ریزرو بینکنگ میں راتھ شیلڈ‘ وار برگ‘ شف ‘ مارگن اور راک فیلر کا پارٹ کم اہم نہیں ہے ‘ مگر اب ان بینکوں کو تین صدیاں گزر چکی ہیں اس لیے وہ مستحکم ہو چکے ہیں۔ اب وہ مکار افراد کے سہارے کے محتاج نہیں۔ ملکیت کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی۔ بینک آف انگلینڈ اور بینک آف فرانس کو جنگ عظیم دوم کے بعد قومیا لیا گیا مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑا۔ بینکرز نے نئے قوانین اس طرح بنوائے کہ ان کا کنٹرول باقی رہے۔ بینک گورنمنٹ کنٹرول سے آزاد ہیں اور قوانین تنخواہ دار سیاستدانوں اور گروی شدہ اخباروں کی حفاظت میں ہیں۔
وقت نے انہیں عزت اور وقار بھی بخش دیا ہے۔ انہیں بینکرز کی چھٹی نسل چلا رہی ہے۔ اسی طرح ورلڈ بینک اور دوسرے بینکوں میں کام کرنے والے دفتری لشکر کو کسی بات کا علم نہیں۔ اگر انہیں بتایا جائے کہ ان کا عمل انسانیت کو چند بے اصول سرمایہ داروں کا غلام بنا رہا ہے تو ان کے دل بھی دہل جائیں۔
آج چند آدمیوں پر توجہ دینا زیادہ مفید نہیں‘ بلکہ اس سسٹم کو بدلنا ہے جو چند آدمیوں کو امیر بنا رہا ہے۔ مگر سسٹم بھی کسی خاص نقطۂ نظر پر منحصر ہوتا ہے‘ اس لیے بنیادی مادی نقطۂ نظر کو بدلنا ضروری ہے۔
دولت کی مساوی تقسیم کی سکیم قابل عمل نہیں‘ بلکہ اکثریت کو غریب تر کر دے گی۔ کسی نے کہا تھا کہ اگر کسی صبح سب لوگوں میں دولت برابر بانٹ دی جائے تو شام تک سست آدمی وہ سب کچھ ضائع کر چکا ہوگا اور محنتی آدمی کے پاس پہنچ چکا ہوگا۔
پھر بھی کسی سوسائٹی میں اتھارٹی‘ تمدن اور روایات کے مابین کوئی نہ کوئی ربط ہوتا ہے‘ جسے سوشلسٹ‘ خیالی پلاؤ پکانے والے اور باغی عناصر درہم برہم ک کرتے رہتے ہیں‘ جس کے نتیجہ میں کمیونسٹ دنیا میں ظلم‘ محتاجی اور غیر انسانی رویہ پیدا ہوا اور تیسری دنیا میں اجارہ دار اور سرمایہ دار‘ ان کے نتیجہ میں ایایک طرف اشرافیہ پیدا ہوئی اور دوسری طرف دکھوں بھری غریب عوام۔
ہمیں ایک منصفانہ توازن قائم کرنا ہے۔ اس وقت ملمع کی ہوئی جمہوری حکومت کے پردے میں دولت کے بُرے اثرات حاوی ہیں جن پر منی چینجرز کے اخبار آسانی سے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کی مرضی سے جمہوری رہنماؤں کا انتخاب خام خیالی ہے۔ آج کی جمہوریت محض سرمایہ داروں کا ڈرامہ ہے۔ لوگوں کی مرضی کو سرمایہ داروں کی مرضی پر ڈھال لیا جاتا ہے۔ لہٰذا اصلاح کے لیے سب سے پہلے افراد کا اخلاق سدھارا جائے اور لوگوں میں عاقبت اندیشی ‘ انصاف اور صبر جیسے اوصاف پیداکیے جائیں۔