پانچویں صدی عیسوی میں جب مغربی رومن امپائر کا نظام درہم برہم ہوا تو یورپ کی تمدنی،سیاسی اور معاشی وحدت پارہ پارہ ہوگئی،جس رشتے نے مختلف قوموں اورملکوں کو باہم مربوط کر رکھاتھا وہ ٹوٹ گیا ،اور جس انتظام نے اس ربط وتعلق کوممکن بنا رکھا تھا وہ بھی قائم نہ رہا ۔اگرچہ رومی قانون،ورمی عالمگیریت اور رومیوں کے سیاسی افکار کا ایک نقش تو اہل مغرب کے ذ ہن پر ضرور باقی رہ گیا جو آج تک موجود ہے ،لیکن سلطنت کے ٹوٹنے سےسارا یورپ بیشمار چھوٹے چھو ٹے اجزا میں بٹ گیا ۔ایک ایک جغرافی خطے کے کئی کئی ٹکرے ہو گئے ۔کہیں کسی ایک نسل کے لوگ اور ایک زبان بولنے والےلوگ بھی اپنی وحدت قائم نہ رکھ سکے۔ساری مملکت تقسیم در تقسیم ہو کر ایسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں متفرق ہو گئ جن کا انتظا م مقامی رئیس اور جاگیر دار سنبھال سکتے تھے ۔اس طرح یورپ میں اس نظام زندگی کا آغاز ہوا جس کو اصطلاحا نظام جاگیرداری (feudal system) کہا جاتا ہے ۔اس نظام میں بتدریج جوجو خصوصیات پیدا ہوئیں اور آگے چل کر سختی کے ساتھ منجمد ہوتی چلی گئی وہ یہ تھیں :
1 – بنائے اقتدار مملکت ز میں قرار پائی ۔عزت، طاقبت بالا دستی اور مستقل حقوق صر ف ان لوگوں کے لئے محفوظ ہوگئے جو کسی علاقے میں مالکاں زمین ہوں ۔وہ ہی اپنے علاقے میں امن قائم کرتے تھے ۔انہی سے رئیس یا جاگیردار یا بادشاہ کا براہ راست تعلق ہو تا تھا ۔ انہی کی سرپرستی میں علاقے کے وہ سب لوگ زندگی بسر کرتے تھے جو مالکان زمین کے طبقے سے تعلق نہ رکھتے ہوں ۔خواہ وہ مزاعین ہوں یا اہل حرفہ یا اہل تجارت ۔یہ سب گویا رعیت تھے ۔پھر خود اس رعیت میں بھی بہت سے طبقات تھے جن میں سے کوئی اونچا تھا اور کوئی نیچا ۔یہ طبقاتی تقسیم اور اس تقسیم کی بنا پرمراتب اور حیثیات اور حقوق کی تقسیم اس سوسائٹی میں گہری جڑوں کے ساتھ جم گئی تھی۔اس طرح نظام جاگیرداری کا معاشرہ ایک زینے کی سی شکل اختیار کر گیا تھا جس کی ہر سیڑھی پر بٹیھنے والا اپنے سے نیچے والےکا خدا اور اپنے سے اوپر والے کا بندہ بنا ہوا تھا ۔اس میں سب سے اوپر علاقے کے والی ریاست کا خاندان ہوتا تھا اور سب سے نیچے وہ غریب خاندان ہوتے تھے جو کسی پر بھی اپنی خدائی کا زور چلا سکتے تھے
2 – مسیحی کلیسا جو خدا کے نام پر لوگو ں سے بات کرتا تھا،مگر جس کے پاس فی الحقیقت کوئی خدائی قانون اور کوئی اصولی ہدایت نامہ موجود نہ تھا ،اس وقت یورپ میں نیا نیا قائم ہوا تھا ۔اس نے اس نوخیز نظام جاگیر داری سے موافقت کر لی اور وہ ان تمام روایتی اداروں اورحقوق اور امتیازات اور پابندیوں کو مذہبی سند عطا کرتا چلا گیا جو اس نظام کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جڑ پکڑ رہے تھے ۔ہر خیال جو پرانا ہو گیا تھا کلیسا کا عقیدہ بن گیا اور اس کے خلاف کچھ سوچنا کفر قرار پایا ،ہر رسم جو پڑ گئی شر یعت بن کر رہ گئی اور اس سے انحراف کے معنی دین سے انحراف کے ہو گئے ۔ادب و فلسفہ ہو یا معاشرت اورسیاست اور معیشت جس چیز کی بھی جوشکل نظام جاگیرداری میں قائم ہو گئی تھی ۔کلیسا نے اس کو خدا کی دی ہوئی شکل ٹھہرا دیا اور اس بنا پر اس کو بدلنے کی کوشش جرم ہی نہیں ،حرام بھی ہو گئی ۔مسیحی کلیسا جو خدا کے نام پر لوگو ں سے بات کرتا تھا،مگر جس کے پاس فی الحقیقت کوئی خدائی قانون اور کوئی اصولی ہدایت نامہ موجود نہ تھا ،اس وقت یورپ میں نیا نیا قائم ہوا تھا ۔اس نے اس نوخیز نظام جاگیر داری سے موافقت کر لی اور وہ ان تمام روایتی اداروں اورحقوق اور امتیازات اور پابندیوں کو مذہبی سند عطا کرتا چلا گیا جو اس نظام کے ساتھ ساتھ معاشرے میں جڑ پکڑ رہے تھے ۔ہر خیال جو پرانا ہو گیا تھا کلیسا کا عقیدہ بن گیا اور اس کے خلاف کچھ سوچنا کفر قرار پایا ،ہر رسم جو پڑ گئی شر یعت بن کر رہ گئی اور اس سے انحراف کے معنی دین سے انحراف کے ہو گئے ۔ادب و فلسفہ ہو یا معاشرت اورسیاست اور معیشت جس چیز کی بھی جوشکل نظام جاگیرداری میں قائم ہو گئی تھی ۔کلیسا نے اس کو خدا کی دی ہوئی شکل ٹھہرا دیا اور اس بنا پر اس کو بدلنے کی کوشش جرم ہی نہیں ،حرام بھی ہو گئی ۔
3 – چونکہ کوئی ایسا مرکزی اقتدار موجود نہ تھاجو بڑی بڑی شا ہراہوں کو تقسیم کرتا اور انھیں درست حالت میں رکھتا اور ان پر امن قائم کرتا ،اس لئے دور دراز کے سفر ،اور بڑے پیمانے پر تجارت ،اور کثیرمقدار میں اشیا کی تیاری اور کھپت ،غرض اس قسم کی ساری سرگرمیاں بند ہو گیں اور تجارتیں ،صنعتیں اور ذہینتیں سب ان چھوٹے چھوٹے خطوں میں سکڑ کر رہ گئیں ۔جن کے حدود اربعہ جاگیر داروں کے اقتدار نے کھینچ رکھے تھے ۔
4 – صنعت اور تجارت کا ایک ایک شعبہ ایک ایک کاروباری اور پیشہ ور بر ادری کا اجارہ بن گیا ۔نہ برادری کا کوئی آدمی اپنے پیشے سے نکل سکتا تھا اور نہ کوئی بیرونی آدمی کسی پیشے میں داخل ہو سکتا تھا۔ہر برادری اپنے کام کو اپنے حلقے میں محدود رکھنے پر مصر تھی۔مال مقامی اور فوری ضروریات کے لئے تیار ہوتا ،آس پاس کے علاقوں ہی میں کھپ جاتا ،اور زیا دہ تر اجناس کے بدلے اس کا تبادلہ ہو جاتا ۔ان مختلف اسباب نے ترقی،توسیع، ایجاد ،فنی اصلاح،اور اجتماع سرمایہ کا در وازہ تقریبا بند کر رکھا تھا ۔ان خرابیوں کو جو رومن امپائر کے زوال وسقوط سے پیدا ہوئی تھی ،ہولی رومن امپائر کے قیام نے کچھ بھی دور نہ کیا ۔یورپ اور قیصر نے چاہےروحانی و اخلاقی اور کسی حد تک سیاسی حیثیت سے ایک رشتہ وحدت یورپ کو بہم پنچا د یا ہو ،لیکن جاگیر دارنہ نظام میں تمدن و معاشرت اور معشیت کی جو صورت بن چکی تھی وہ نہ صرف یہ کہ بدلی نہیں ،بلکہ ایسی مضبوط بنیادوں پہ قائم ہوگئی کہ اس کے سوا نظام زندگی کی دوسری صورت گویا سوچی ہی نہ جا سکتی تھی۔