نشاۃثانیہ

اس جمود کے ٹوٹنے کی ابتدا کس طرح،کن اسباب سے ہوئی اور کس طر ح یو رپ میں وہ ہم گیر تحریک اٹھی جو نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے نام سے مشہو ر ہے ،یہ بحث ہمارے موضو ع سے بہت ہٹی ہوئی ہے۔مختصرا یہ سمجھیے کہ ایک طرف ہسپانیہ اور صقیلہ پر مسلمانوں کے قبضے اور دوسری طرف صلیبی لڑائیوں نے اہل مغرب کو دنیا کی ان قوموں سے دوچار کیا جو اس وقت تہذیب و تمدن کی علمبردار تھیں ۔ اگرچہ تعصب کے اس پردے نے جو کلیسا کے اثر سے اہل مغرب کی آنکھو ں پر پڑا ہوا تھا، ان لوگوں کوبراہ راست اسلام کی طرف تو متوجہ نہ ہونے دیا لیکں مسلمانوں سے جو سابقہ ان کو پیش آیا اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ خیالات،معلومات اور ترقی یافتہ طریقوں کی ایک وسیع دولت ان کے ہاتھ آئی اور آخر کار ایک نئے دور کے آغاز کی موجب ہوئی۔
چودھویں صدی سے لے کر سولھویں صدی تک کا زمانہ یورپ کی تاریخ میں دور متوسط سے دورجدید کی طرف عبورکا زمانہ تھا۔اس زمانے میں مغربی زندگی کا ہر پہلو ان اثرات کی وجہ سے حرکت میں آگيا جوبیرونی دنیا سے درآمد ہو رہے تھے ۔طبیعات،طب،ریاضی،انجینئرنگ اور دوسرے شعبوں میں اہل مغرب کا علم بڑھنا شروع ہوا ۔پریس کی ایجاد نے اشاعت خیالات اوراشاعت علم کی وفتار تیز کر دی۔علمی بیداری کے ساتھ لازما ہر شعبہ حیات میں تنقیدواصلاح کا سلسلہ چل پڑا۔نئے فنون کی واقفیت نے صنعت،زراعت،تجارت اور عام طور پر پورے تمدن میں جان ڈال دی۔پھر نئی جغرافیائی دریافتوں سے فکرو نظر میں بھی وسعت پیدا ہونے لگی اور اس کے ساتھ اہل مغرب کے لئے دوردراز کے ملکوں میں ایسی منڈیاں بھی کھلنی شروع ہوگئیں جہاں وہ اپنے ملک کی مصنوعات اور خام پیداوار نکال سکیں اور دوسرے ملکوں کی مصنوعات اور خام مال خرید سکیں ۔ان مواقع سے تجارت کا وہ بازار جو صدیوں سے سرد پڑا ہوا تھا،ازسر نو گرم ہونے لگا ۔تمام رکاوٹوں کے باوجود یورپ کے اندر اور باہر بھی سو داگروں کا کاروبار پھیلنا شروع ہوا۔بڑے بڑے تجارتی چوراہوں پر شہر بستے اور بڑھتے چلے گئے ۔دولت،طاقت،ذہانت،تہذیب اور تمدن کا مرکز بتدریج جاگیروں اور ریاستوں کے قصباتی صدر مقامات سے ہٹ کےان کا بڑے بڑ ے شہروں کی طرف سرکنے لگا ۔جو تجارت اور صنعت اور جدید علمی وادبی حرکت کا مرکز بن رہے تھے ۔
اس نئی حرکت کے میر کارواں وہ “بورژوا”طبقہ کے لوگ (یعنی سوداگر ،ساہوکار ،اہل حرفہ اور بحری تجار وغیرہ )تھے جو ترقی کے ان مواقع سے مستفید ہو رہے تھے ،شہروں میں آباد تھے ،باہر آمدورفت رکھتے تھے یا کم از کم باہر سے آنے واےاثرات کی زد میں تھے ۔ان کے اندر تغیر اور ترقی کی ایک لگن پید ا ہو چکی تھی ۔ لیکن ان لوگوں کے ابھرنے اور آگےبڑھنے میں ہر طرف سےان فکری،اخلاقی ،مذہبی،معاشی اور سیاسی و معاشی بندشوں نے سخت روکاوٹیں عائد کر رکھی تھیں جو کلیسا اور جاگیرداری کے گٹھ جوڑ سے قائم ہوئی تھیں ۔ زندگی کے جس شعبے میں بھی یہ لوگ بنے اور جمے ہوئے دائروں سےقدم باہر نکالتے ،پادری اور جاگیردار،دونوں مل کر ان کاراستہ روک لیتےتھے ۔اس بنا پران دونو ں طاقتوں کے خلاف ایک ہمہ گیر کشمکش کا آغاز ہوا اور ایک چو مکھی لڑائی ہر میدان میں چھڑ گئی۔علم و ادب کے میدان میں کلیسا کے عائد کردہ ذہنی استبداد کو چیلنج کیا گیا اور آز ادی فکر و تحقیق پر زور دیا گیا۔معیشت اور معاشرت اور سیاست کے میدان میں جاگیرداروں کو چیلنج کیا گیا اور ان سارے امتیازات کے خلاف آواز اٹھائی گئی جو نظام جاگیر داری کے تحت قائم تھے ۔آہستہ آہستہ یہ جنگ پرانے نظام کی پسپائی اور ان نو خیز طاقتوں کی پیش قدمی پر منتج ہوتی چلی گئی اور سو لہویں صدی تک پہنچتےپہنچتے یہ نوبت آ گئی کہ یورپ کے مختلف ملکوں میں چھوٹی چھوٹی جاگیر داریاں ٹوٹ ٹوٹ کر بڑی بڑ ی قومی ریاستوں میں جذ ب ہونے لگیں ۔یورپ کے روحانی تسلط کا طلسم ٹوٹ گیا نئی قومی ریاستوں کے غیر مذہبی حکمرانوں نے کلیسا کی املاک ضبط کر نا شرو ع کر دیں ۔ایک عالمگیر مذہبی نظام کو چھوڑ کر مختلف قوموں نے اپنے اپنے الگ کلیسا بنانا شروع کر دئیے جو قومی ریاستوں کے حریف یا شریک و سہیم ہونے کی بجائے ان کے دست نگر تھے ،اور اس طرح چرچ اور جاگیر داری کے مشتر ک غلبے کی بندشیں ٹوٹنے کے ساتھ ساتھ “بورژوا”طبقہ ان معاشرتی اور رواتیی روکاٹوں سے آزاد ہو تا چلا گیا ۔جو اس پرانے نظام نے اس کی راہ میں حائل کر رکھی تھیں ۔

Previous Chapter Next Chapter