نشان زدہ چھڑیاں

1100ء میں شاہِ انگلستان ہنری اوّل نے سناروں سے مالی طاقت اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے چھڑیوں کا طریقہ ایجا د کیا۔ ایک چھڑی پر نشان لگائے جاتے‘‘ پھر اسے لمبائی میں چیر دیا جاتا ۔ آدھی پبلک میں پیسے کے طور پر گردش میں رہتی اور آدھی بادشاہ کے پاس رہتی تاکہ دھوکا نہ ہو۔ (یہ طریقہ 1826ء تک کامیابی سے چلتا رہا۔) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں نے پیسے کے طور پر لکڑی کی چھڑیاں کیسے قبول کر لیں‘ حالانکہ ہمیشہ کوئی قیمتی شے ہی پیسے کی جگہ لیتی رہرہی ہے؟ بات یہ ہے کہ لوگ جس شے کو پیسہ مان لیں وہی پیسہ بن جاتی ہے‘ آج کاغذ کا نوٹ کیا ہے‘ کاغذ نہیں؟ ؟ 1500ء میں ہنری ہشتم نے سودی قوانین کو نرم کر دیا اور سناروں نے فوراً وافر مقدار میں سونا چاندی مارکیٹ میں ڈال دیا‘ لیکن جب ملکہ میری تخت پر بیٹھی تو اس نے دوبارہ سودی قوانین کو سخت کر دیا اور سناروں نے سونا چاندی روک لیا اور اکانومی کو زوال سے دوچار کر دیا۔
پھر الزبتھ اوّل ملکہ بنی تو اس نے خزانے سے سونے چاندی کے سکوں کے اجراء کی تجویز پر عمل کرنا چاہا۔ اگرچہ 1642ء کے انقلابِ انگلستان کی وجوہات مذہبی بھی ہیں ‘مگر اس تجویز نے اصل کردار ادا کیا۔ کرامویل نے 1649ء میں سناروں سے روپیہ لے کر بادشاہ چارلس کو پھانسی پر چڑھا دیااور پارلیمنٹ سے بہت سوں کو نکال دیااور سناروں کو کاروبار پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دی‘ جنہوں نے اگلے پچاس سال کے لیے انگلستان کو جنگوں میں دھکیل دیا۔ انہوں نے لندن کے سنٹر میں ایک مربع میل ٹکڑے کو اپنا ’’شہر‘‘ (City) بنا لیا۔ یہ نیم آزاد علاقہ وال سٹریٹ (امریکہ)
کے ساتھ دنیا کے دو بڑے مالی مراکز میں سے ایک ہے۔ یہاں ان کی اپنی پولیس
ہوتی ہے۔
سٹوارٹ بادشاہوں سے جھگڑے کی وجہ سے منی چینجرز ہالینڈ سے ایک شخص ولیم کو لے آئے۔ اس نے 1688ء میں جائز بادشاہ جیمز دوم کو نکال دیا۔ منی چینجرز اور اشرفیہ کے درمیان یہ تعلق انگلستان میں آج بھی قائم ہے۔ بادشاہ کے پاس کوئی طاقت نہیں‘ اصل طاقت منی چینجرز کے پاس ہے جس میں راتھ شیلڈ کا گھرانہ غالب ہے۔ بادشاہ کو کسی کو معاف کرنے کا اختیار نہیں‘ وہ کیبنٹ کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی ہے۔ 20جون 1934ء کو ’’نیو برٹن میگزین‘‘ نے لکھا کہ ’’برطانیہ انٹرنیشنل فنانشل بلاک کا غلام ہے‘‘۔ اور لارڈ برائس(Bryce) کے یہ الفاظ نقل کیے:
’’جمہوریت کا کوئی مستقل اور خفیہ دشمن نہیں سوائے مالی طاقتوں کے۔ بینک آف انگلینڈ کے کردار اور مقاصد پر دارالعوام میں بحث نہیں کی جا سکتی۔‘‘

Previous Chapter Next Chapter