اخلاقی پہلو

زمانۂ وسطیٰ میں کیتھولک چرچ نے سود لینا ممنوع قرار دے رکھا تھا۔ چرچ کی تعلیم یہ تھی کہ روپیہ معاشرے کی خدمت کے لیے ہے‘ تا کہ اشیاء کے تبادلہ میں آسانی ہو۔ البتہ پیداواری مقاصد کے لیے قرض پر نفع کا ایک حصہ لینا جائز تھا‘ لیکن بعد میں جب تجارت کو ترقی ہوئی اور سرمایہ کی ضرورت پیش آئی تو نفع و نقصان کی بنیاد پر سرمایہ کاری کو مزید فروغ حاصل ہوا۔
تمام مذاہب دھوکا دہی‘ غریبوں پر جبر اور ناانصافی کی مذمت کرتے ہیں۔ چونکہ جزوی محفوظ سرمایہ پر قرض دہی (Fractional Reserve Lending)کی بنیاد ہی دھوکا ہے ‘اس لیے اس سے مفلسی پیدا ہوتی ہے اور غریب پر جبر اور روپے کی قدر کم ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے بعض مذاہب کے چند ایک مکاتب ایسے بھی ہیں جو اپنے لوگوں سے دھوکہ اور نا انصافی کی مذمت کرتے ہیں‘ لیکن دوسروں سے دھوکا‘ جبر اور نا انصافی جائز سمجھتے ہیں۔ وہ دوسروں کو کمتر بلکہ نیم انسان سمجھتے ہیں۔ اس کا سبب ایک برتر نسل کا نظریہ ہے جو مادہ پرستی کی ایک بھونڈی شکل ہے (اشارہ یہود کی طرف ہے اور وہی بڑے بینکوں کے مالک ہیں۔ مترجم)
لوگ بھول جاتے ہیں کہ نوعِ انسانی ایک عظیم واحد انسانی نسل ہے جس کا آغاز مشترک ہے‘ انجام بھی مشترک ہے اور فطرت بھی ایک ہے۔ یہاں کوئی برتر نسل نہیں ہے اور اگرکوئی برتر نسل ہے تو اسے نیکی میں برتر سے ناپا جائے گا نہ کہ مکاری اور دھوکے سے۔ لوگوں میں اختلافات کا کام تو یہ ہونا چاہیے کہ ایک دوسرے کے علم و ہنر سے فائدہ حاصل کیا جائے۔
ہاں تو سناروں نے معلوم کیا کہ روپے کی مقدار میں کمی بیشی کر کے وہ زیادہ نفع کما سکتے ہہیں۔ جب روپیہ زیادہ ہو تو بہت سے لوگ قرض لے لیتے ہیں اور سود د حاصل ہوتا ہے۔ روپیہ کم ہو تو قرضہ ملنا مشکل ہوتا ہے۔ کچھ لوگ قرض ادا نہیں کر سکتے اور کچھ قرض نہیں لے سکتے۔ اس لیے وہ کنگال ہو جاتے ہیں اور اپنی جائیداد اور بزنس سناروں کے حوالے کر دیتے ہیں یا کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کر دیتے ہیں۔ آج کل اس بات کو بزنس سائیکل (تجارتی اتار چڑھاؤ) کہا جاتا ہے۔

Previous Chapter Next Chapter