امریکہ میں ایک وقت ایسا تھا کہ جب کسی سے پوچھا جاتا کہ وہ کس کے لیے کام کرتا ہے تو وہ اسے بے عزتی سمجھتا تھا ‘ کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنا ذاتی کام کرنے کا اہل نہیں‘ جبکہ اب حالت یہ ہے کہ دوسروں پر انحصار اور ان کی مرضی کے مطابق معمولی اجرت پر کام کرنا عام سی بات ہے۔ چونکہ آزادی کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آدمی کے پاس خوراک‘ کتابیں اور کپڑے وغیرہ ہوں اور ان کے لیے درکار روپیہ پیسہ بھی ہو‘ اس لیے ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ اب ایک عا عام امریکن کا دارومدار دوسروں پر ہے اور اس کی آزادی محدود ہو گئی۔
اس صدی کے آغاز سے افراد اور ریاستیں مسلسل قرضوں کی زد میں ہیں۔ نتیجتاً ان کی اپنے معاملات خود طے کرنے کی آزادی ختم ہو گئی ہے۔ آزادی کے حصول اور اسے باقی رکھنے کے لیے دولت کی اوسط مقدار کا عام پھیلاؤ ضروری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کیوں سر سے پاؤں تک قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں‘ اور کیوں ہمارے سیاستدان قرضوں کو قابو میں نہیں لاتے؟ کیوں سب لوگ‘ ماں باپ دونوں‘ معمولی تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں؟ حکومت کیوں کہتی ہے کہ افراط زر کم ہے‘ جبکہ لوگوں کی قوت خرید خطرناک حد تک کم ہو رہی ہے؟ 25سال پہلے ڈبل روٹی کی قیمت 1/4 ڈالر تھی اور کار دو ہزار ڈالر میں مل جاتی تھی۔
کیا ہم کسی بہت بڑے اقتصادی دھماکے کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ جس کے سامنے 1929ء کا دھماکہ اور کساد بازاری سکول کی پکنک معلوم ہوں گے۔ اگر ایسا ہے تو کیا ہم اسے روک سکتے ہیں یا کیا ہم افراطِ زر کی پیداکردہ اس غریبی کو پہنچ کر رہیں گے جس سے بچتوں‘ تنخواہوں اور مزدوریوں کا خاتمہ ہو جائے گا ؟؟مگر پھر ہم اپنے خاندان کو کیسے بچا سکیں گے؟
ایک بینک پریذیڈنٹ لیری بیٹس (Larry Bates) لکھتا ہے:
’’ایک بے مثال دھماکہ آنے والا ہے۔ اکثر لوگ اپنا روپیہ ہار بیٹھیں گے‘ مگر اس سے بھی اہم بات یہ ہوگی کہ چند لوگ بہت بڑی دولت کے مالک بن جائیں گے۔ اقتصادی انقلاب میں دولت ختم نہیں ہوتی ‘منتقل ہو جاتی ہے۔‘‘
بینکر چارلس کالنز (Charles Colens) کہتا ہے:
’’فیڈرل ریزرو (Reserve) قرضوں کو بڑھا رہا ہے‘ وہ قرضوں کا سود اداکرنے کے لیے بھی قرضہ دیتا ہے۔ اس لیے ہم قرضوں سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔‘‘
ماہر معاشیات ہنری پاسکٹ (Henry Pasquet)کہتا ہے:
’’قرضوں میں آپ روزانہ دس ارب ڈالر کا اضافہ کر رہے ہیں۔ 1980ء میں قرضہ ایک ٹریلین ڈالر سے کم تھا۔ 15 سال میں وہ پانچ گنا ہو گیا ہے۔ ایسا کب تک ہوگا؟‘‘
دراصل ہمارا نظامِ زر انتہائی خراب ہے۔ سنٹرل بینک (فیڈرل ریزرو) حکومت سے آزاد ادارہ ہے۔ وہ بینکوں سے مل کر روپیہ پیدا کرتا ہے‘ ساتھ ہی سود پر قرضہ لینے والے لوگ بھی ۔ اس لیے ایک شدید ترین کساد بازاری یقینی ہے خواہ وہ اچانک ہو یا بتدریج۔ فیڈرل ریزرو اپنے سٹاک ہولڈروں کو امیر بنانے کے لیے ایسا کر رہا ہے‘ جیسے اس نے 1930ء کی کساد بازاری سے قبل کیا تھا۔
’’فیڈرل ریزرو‘‘ نہ تو فیڈرل ہے اور نہ اس کے پاس کوئی ریزرو ہے جس سے اس کے جاری کردہ نوٹوں کی پشت پناہی ہو۔ فیڈرل ریزرو ایکٹ 22دسمبر1913ء کو ایک کمیٹی نے صبح 1:30 سے 4:30 بجے کے دوران منظور کیا‘ جس کے اکثر ممبر سوئے ہوئے تھے۔ کہا گیا کہ 40/20 اعتراض جو سینٹ میں ہوئے تھے‘ ان کو معمولی بحث کے بعد رفع کر دیا گیا تھا۔ اسی شام 6 بجے جب اکثر ممبر کرسمس کی چھٹی پر چلے گئے‘ یہ بل کانگریس اور سینٹ نے پپاس کر دیا اور صدر ولسن نے دستخط کر دیے۔ اس ایکٹ نے زر کا کنٹرول کانگریس سے لے کر پرائیویٹ بینک کے حوالے کر دیا۔
چنانچہ مصنف انتھونی سی سٹن (Anthony c.Sutton) لکھتا ہے:
’’ایسی تیزرفتاری نہ پہلے کبھی دیکھنے میں آئی‘ نہ بعد میں۔ البتہ نباتاتی حکومتوں میں مہریں اسی تیزی سے لگائی جاتی ہیں۔‘‘
صبح 4:30 بجے پہلے سے تیار ایک رپورٹ پریس کے حوالے کر دی گئی۔ کنساس سے ری پبلک لیڈر سینٹر برسٹو (Bristow)نے کہا کہ ان کی پارٹی کو نہ تو اس میٹنگ کی اطلاع دی گئی‘ نہ وہ اس میں شامل ہوئے‘ نہ انہوں نے اسے پڑھا اور نہ دستخط کیے۔
فیڈرل کے حصے داروں میں دو بینکوں کے اکثریتی ووٹ ہیں‘ منہاٹن بینک اور سٹی بینک۔ لہٰذا کنٹرول ان کے پاس ہے۔
سوال یہ ہے کہ کانگریس طاقت کے اس خطرناک ارتکاز کو روکتی کیوں نہیں؟ دراصل اکثر ممبران ان معاملات کو سمجھتے نہیں اور چند جو سمجھتے ہیں وہ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ بولیں گے تو اگلے انتخابات میں اُن کے مخالف کو روپیہ مل جائے گا۔ اس کے باوجود چند آد آدمیوں نے ضرور آواز اٹھائی ہے‘ مثلاً 1923ء میں ایک ری پبلکن راہنما اے۔ لنڈبرگ (A.Lindberg) نے کہا :
’’فیڈرل ریزرو بورڈ کو نفع اندوزوں کا ایک گروہ کنٹرول کرتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں کے روپے سے نفع کمائے۔‘‘
1932ء میں جب کساد بازاری چھائی تھی‘ ایک بینکر لوئس (Louis T. Mcfadden) نے کہا:
’’اس ملک میں ایک انتہائی بد عنوان ادارہ یعنی فیڈرل ریزرو بورڈ قائم ہے‘ جس نے امریکی عوام کو کنگال اور گورنمنٹ کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ یہ سب پپیسے والی گِدھوں نے کیا ہے جو اسے کنٹرول کرتی ہیں۔‘‘
سینٹر بیری ‘ (Barry Goldwater) نے کہا:
’’عام شہری انٹرنیشنل بینکرز کے کام کو نہیں سمجھ سکتے۔ فیڈرل ریزرو سسٹم کے حسابات کا کبھی آڈٹ نہیں ہوا‘ وہ حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے‘ اس کے با باوجود حکومت کے سارے پیسے کا جوڑ توڑ کرتا ہے۔‘‘
لیری بیٹس (Larry Bates) لکھتا ہے:
’’فیڈ (Fed) حکومت سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ صدر‘ کانگریس اور عدالتوں سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس لیے کہ فیڈ جو عام آدمی کی کار اور مکان کی ادائیگی کا حساب کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ وہ آدمی کوئی کام بھی کر رہا ہے یا نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ مکمل کنٹرول ہے۔ فیڈ امریکی حکومت کا سب سے بڑا اور اکیلا قرض خواہ ہے اور وہ ضرب المثل ہے کہ مقروض قرض خواہ کا خادم ہوتا ہے۔‘‘
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جس دن سے یہ آئین پاس ہوا ہے آج تک پرائیویٹ بینک جنہیں صدر میڈیسن (Madison) نے منی چینجرز کا نام دیا‘ امریکن روپے پر کنٹرول حاصل کرنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ روپے پر کنٹرول کی اہمیت کیا ہے؟ ایک ایسی جنس (commodity) جس کی ہر ایک کو ضرورت ہواور جو کسی کے پاس کافی نہ ہو تو اس کو کنٹرول کرنے والا اس سے کئی طرح کے فائدے اٹھا سکتا ہے اور سیاسی رسوخ پیدا کر سکتا ہے۔ بس اسی بات کے لیے لڑائی ہے۔ امریکن تاریخ میں یہ اختیار حکومت اور پرائیویٹ سنٹرل بینکوں کے درمیان بدلتا رہتا ہے۔ لوگوں نے چار پرائیویٹ بینکوں کو شکست دیی لیکن پانچویں سے ہار گئے‘ کیونکہ اس وقت سول وار ہورہی تھی۔
بانیانِ قوم کو پرائیویٹ بینکوں کی برائی کا علم تھا‘ کیونکہ انہوں نے بینک آف انگلینڈ (جو پرائیویٹ کنٹرول میں تھا) کے قرضوں کو بڑھتے دیکھا تھا‘ جن قرضوں کی وجہ سے پارلیمنٹ نے امریکی کالونیوں پر ناجائز ٹیکس لگا دیے تھے۔ بن فرینکلن (Ben Franklin) کا کہنا تھا کہ امریکن انقلاب کی اصلی وجہ یہی ن ناجائز ٹیکس تھے۔ ان کے خیال میں بینکوں کے ہاتھ میں روپے اور طاقت کا آجانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔
جیفرسن (Jefferson) نے کہا:
’’بینک آزادی کے لیے فوجوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ انہوں نے پہلے ہی ایک زرگر اشرافیہ پیدا کر دی ہے جس کو حکومت کے مقابلے میں کھڑا کر دیا ہے۔ روپیہ جاری کرنے کی طاقت حکومت کے پاس ہونی چاہیے۔‘‘
آئین کا بڑا مصنف میڈیسن کہتا ہے:
’’تاریخ کا فیصلہ ہے کہ منی چینجرز ہر قسم کی برائی‘ سازش‘ دھوکا اور متشدد طریقہ استعمال کرتے ہیں‘ تا کہ روپے اور اس کے اجراء پر کنٹرول رکھ کر حکومتوں کو کنٹرول کر سکیں۔‘‘
اس کنٹرول کے لیے جنگیں ہوئیں‘ کساد بازاری ہوئی لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد پریس اور تاریخ کی کتابوں میں اس مقابلے کا کہیں ذکرنہیں ہے۔
میڈیا کنٹرول
پہلی جنگ عظیم تک منی چینجرز نے پریس کے اکثر حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ 1914ء کی جنگ سے پہلے ایک نامور ایڈیٹر جان سونٹن (John Swinton) نے صحافیوں کے سالانہ ڈنر کے موقع پر کہا:
’’امریکہ میں انڈی پینڈینٹ پریس نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہم میں سے کوئی اپنی دیانت دارانہ رائے کا اظہار نہیں کرسکتا۔ اگر کرے گا تو وہ شائع نہیں ہوگی۔ مجھے ہر ہفتے 150 ڈالر اسی لیے ملتے ہیں کہ میں اپنے اخبار میں اپنی دیانت دارانہ رائے کا اظہار نہ کروں۔ آپ سب کا یہی حال ہے۔ اگر میں اپنے پرچے میں اس کی اجازت دے دوں تو 24 گھنٹوں سے پہلے میری جاب ختم ہو جائے گی۔ ایسا بے وقوف آدمی بہت جلد سڑکوں پر نیا کام تلاش کرتا ہوا نظرآئے گا۔ نیویارک کے جرنلسٹ کا فرض ہے کہ جھوٹ بولے‘ خبروں کو مسخ کرے‘ بد زبانی کرے‘ قارونوں کی چاپلوسی کرے اور اپنی قوم اور ملک کو روٹی کی خاطر بیچ دے اور غلام بن کر رہے۔ ہم پس پردہ رہنے والے امراء کے غلام ہیں‘ ہم کٹھ پتلیاں ہیں‘ وہ تار کھینچتے ہیں اور ہم ناچتے ہیں۔ ہمارا وقت‘ ہماراہنر‘ہماری زندگی اورہماری اہلیت ان لوگوں کی پراپرٹی ہے‘ ہم ذہنی طوائفیں ہیں‘‘۔
یہ حالت 1914ء سے پہلے کی تھی اور اب سارا میڈیا (ریڈیو‘ ٹی وی) ان کا ہے۔ ایک بڑے صنعت کار جے ‘پی مارگن (J.P.Morgan)نے مارچ 1915ء میں اخبارات کے 12چوٹی کے اشخاص جمع کیے اور انہیں بڑے بڑے اخبارات کی پالیسی کنٹرول کرنے پر مقرر کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ صرف 25 بڑے اخباروں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان کی پالیسی ماہانہ ادائیگی پر خریدی گئی اور کنٹرول کے لیے ہر اخبار پر ایک ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا۔
امریکہ کے صرف پچاس شہروں میں ایک سے زیادہ روزنامے نکلتے ہیں۔ 25 فیصد آزاد ہیں‘ باقی سب سٹاک ہولڈرز (بینکوں کے حصہ داروں) کے قبضے میں ہیں۔
بہرحال امریکہ کی تاریخ میں روپے پر کنٹرول کی جنگ ہمیشہ جاری رہی۔ 1694ء سے لے کر اب تک آٹھ جنگیں ہوئی ہیں‘ کبھی حکومت کی جیت ہوئی اور کبھی بینکوں کی‘ لیکن تین نسلوں سے اب اس پر کسی کی توجہ ہی نہیں رہی۔ ہمارے لیڈروں اور سیاست دانوں کو جاننا چاہیے (اگر وہ خود بھی اس کا حصہ نہیں ہیں) کہ کیا ہو رہا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟ حکومت کو خود قرضہ کے بغیر روپیہ جاری کرنے کا اختیار حاصل کرنا چاہیے۔ قرضے سے پاک روپیہ جاری کرنے کی پالیسی کوئی نئی بات نہیں ہے‘ زیادہ تر سیاست دانوں اور ماہرینِ معاشیات نے یہی حل تجویز کیا ہے۔
مختصر بات یہ ہے کہ 1913ء میں کانگریس نے ایک پرائیویٹ سنٹرل بینک کو (جس کا نام دھوکا دہی کے لیے فیڈرل ریزرو سسٹم رکھا گیا ) روپے کی مقدار متعین کرنے کا اختیار دیا‘ مگر وہ روپے کی مقدار کے برابر قرضہ بھی جاری کر دیتا ہے۔