تھا جو مارگن کا حصہ دار تھا اور اس کی بیٹی کی شادی راک فیلر جونیئر سے ہوئی تھی۔ ان کے پانچ بیٹے تھے جو بڑے بڑے عہدوں پر پہنچے۔ قانون پاس ہونے کے بعد ایلڈرخ دو سال کے ٹور پر یورپ روانہ ہو گیا۔ اس کے لیے اسے تین لاکھ ڈالر دیے گئے۔ اس کی واپسی پر نومبر1910ء میں امریکہ کے سات امیر ترین شخص خاموشی سے جزیرہ جیکل میں جمع ہوئے۔ ان میں پال واربرگ (Paul Warburg) بھی تھا جسے پانچ لاکھ ڈالردیے گئے ‘تا کہ پرائیویٹ مرکزی بینک کے حق میں فضا پیدا کرے۔ ان میں ایک جیکب شف (Jacob Schiff) بھی تھا جو راتھ شیلڈ کے گرین ہاؤس کا حصہ دار تھا۔ (شف نے بعد میں زار روس کو مٹانے کے لیے دو کروڑ ڈالر خرچ کیے) راتھ شیلڈ‘ وار برگ اور شف آپس میں شادی کے بندھنوں میں بندھے تھے۔
میٹنگ کو خفیہ رکھنے کے لیے فیصلہ کیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کو نام کے پہلے لفظ سے پکاریں گے تا کہ ملازموں کو بھی علم نہ ہو کہ یہ کون لوگ ہیں۔
اس صدی کے پہلے دس سالوں میں امریکہ میں بینکوں کی تعداد دو گنی ہوگئی جس میں صرف 20 فیصد نیشنل بینک تھے اور ان کا سرمایہ 57 فیصد تھا۔ 70 فیصد کارپوریشنیں قرض لینے کی بجائے اپنے نفع پر چل رہی تھیں۔ بالفظ دیگر امریکی صنعت منی چینجروں کے شکنجے سے آزاد ہو رہی تھی جس کا تدارک ضروری تھا۔ جس کے لیے یہ لوگ جمع ہوئے تھے انہیں معلوم تھا کہ اس کا تدارک ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں‘ مسئلہ صرف یہ تھا کہ نئے مرکزی بینک کا نام کیا ہو‘تا کتا کہ اصل بات کی طرف لوگوں کا دھیان نہ جائے۔ ایلڈرخ کا خیال تھا کہ ’’بینک‘‘کا لفظ بھی نام میں نہیں آنا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے بینک کی بجائے فیڈرل ریزرو (فیڈ) کے نام سے ایک مرکزی ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا جس کے مقاصد اور طریق کار ہو بہو وہہی تھا جو سابقہ بینک آف یو ایس کا تھا۔