مذکو رہ بالا حقائق کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب ذرا پیچھےپلٹ کر ایک نظر پھر ان مباحث پر ڈال لیجیے جو اس کتاب کے ابتدائی ابواب میں گزر چکے ہیں۔ان میں ہم نے یہ بتایا کہ صنعتی انقلاب کے دور میں سرمایہ داری کا جدید نظام اگر چہ اٹھا تو تھا معیشت کے انہی اصولوں پر جن پر غیر معلوم زمانے سے انسانی معاش کا کاروبار چلتا آرہا تھا،لیکن اس کے اندر خرابی پیدا ہو نے کے چار بنیادی سبب پائے جاتے تھے جو آگے چل کر سخت رد عمل کے موجب ہو ئے ۔
اول یہ کہ اس نظام کے قائم کرنے والوں اور چلانے والوں نے ان اصولوں کے معاملہ میں وہ مبالغہ برتا جو نئے صنعتی دور کے لیے کسی طرح موزوں نہ تھا ۔
دوم یہ کہ انھوں نے ان فطری اصولو ں کے ساتھ کچھ غلط اصولوں کی آمیزش بھی کر دی۔
سوم یہ کہ انہوں نے بعض ایسے اصولوں کو نظرانداز کر دیا جو ایک فطری نظام معیشت کے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنے وہ سات اصول جو نظام سرما یہ داری کی بنیاد کہے جا تے ہیں۔
اس کے بعد ہم تفصیل کے ساتھ انہی ابواب میں یہ بھی بتایا ہے کہ ایک طرف سوشلزم ، کمیونز،فاشزم اور نازی ازم نے اور دوسری طرف نظام سرمایہ داری کے موجو دہ وارثوں نے اس نظام کی پیدا کردہ خرابیوں کا علاج کرنے کی جو کو ششیں کی ہیں وہ اس وجہ سے ناکام ہو ئی ہیں کہ ان میں سے کسی نے بھی مرض کی بنیادی اسباب کو سرے سے نہیں سمجھا۔ایک گروہ نے معیشت کے ان فطری اصولوں ہی کو اصل سبب مرض سمجھ لیا جو قدیم ترین زمانے سے معمول پہ چلے آرہے تھے اور ان کا ازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ انفرادی آزادی کا بھی ازالہ کر ڈالا۔دوسرے گروہ نے اپنی ساری تو جہ صرف شکایات رفع کرنے پر صرف کر دی اور ان بیشتر اسباب کو جو ں کا توں باقی رہنے دیا جو دراصل خرابی کے موجب تھے ،اس لیے کے نظام میں انفرادی آزادی تو باقی رہی مگر اس طرح کہ وہ اجتماعی مفاد کے لیے قریب قریب اتنی ہی نقصان دہ ہے جتنی نظام سرمایہ داری کے کسی تا ریک سے تاریک دورمیں تھی۔
اب جو شخص بھی اس تشخیص مرض پر غور کرے گا وہ بآ سانی اس نتیجے پر پہنچ جائے گا کہ انسانیت کو دراصل ایک ایسے حکیمانہ متوازن نظام کی ضرورت ہے جو :
اولا،معیشت کے فطری اصولوں کو تو برقرار رکھے،کیونکہ وہ انفرادی آزادی کے لیے ضروری ہیں،مگر ان کے برتنے میں مبالغہ کرنے کے بجائے افراد کی آزادی سعی و عمل پر ایسی پا بندیاں لگائے جن سے وہ اجتماعی مفاد کی نہ صرف یہ کہ دشمن نہ رہے بلکہ عملا خادم بن جائے ،
ثانیا،ان فطری اصولوں کے ساتھ غلط اصولوں کی ہر آمیزش کو نظام معیشت سے خارج کر دے ۔
ثا لثا،ان اصولوں کے ساتھ فطری نظام معیشت کے دوسرے بنیادی اصولوں کو بھی بروئے کار لائے اور
رابعا، افراد کو ان فطری اصولوں کے حقیقی تقاضوں سے ہٹنے نہ دے ۔