اگرچہ جیکسن نے پرائیویٹ سنٹرل بینک ختم کر دیا تھا مگر جزوی ریزرو بینکنگ برقرار رہی‘ یعنی بہت سے دوسرے بینک اپنی مالیت سے کہیں زیادہ قرضہ دے کر کر سود وصول کرتے رہے۔ مثلاً ایک بینک نے جس کے پاس صرف 86 ڈالر تھے ‘50ہزار ڈالر قرضہ دے رکھا تھا۔ منی چینجرز نے مرکزی حیثیت اور روپے پر اجارہ داری حاصل کرنے کے لیے پرانا حربہ آزمانے کا فیصلہ کیا‘ یعنی لڑائی کراؤ اور قرضہ دے کر انہیں اپنا دست نگر بناؤ۔
ابراہام لنکن کے صدر بننے کے ایک ماہ بعد 12اپریل 1861ء کو فورٹ سمٹر (Fort Sumter) میں سول وار کی پہلی گولی چل گئی اور پانچویں امریکن بینک وار شروع ہو گئی۔
لنکن نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا تھا:
’’مسئلۂ غلامی میں دخل دینے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا ایسا کوئی قانونی حق نہیں ہے‘ نہ اس طرف میرا رجحان ہے‘‘۔
گولی چلنے کے بعد اس نے کہا:
’’میرا بڑا مقصد یونین (ملکی اتحاد) کو بچانا ہے۔ غلامی کو بچانا یا ختم کرنا میرا مقصد نہیں ہے۔ اگر کوئی غلام آزاد کیے بغیر میں یونین کو بچا سکوں تو می میں ایسا ہی کروں گا‘‘۔
سول وار کی کئی وجوہات تھیں۔ جرمن چانسلر بسمارک نے سول وار کے کئی سال بعد 1876ء میں کہا:
’’اس میں کوئی شک نہیں اور میں یقینی طور پر جانتا ہوں کہ امریکہ کو دو برابر کی طاقت والی فیڈریشنوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کئی سال پہلے یورپ کی مالی قوتیں کر چکی تھیں۔ بینکرز کو ڈر تھا کہ اگر امریکہ ایک ملک رہا تو وہ اتنی بڑی مالی طاقت بن جائے گا جو یورپ کی سرمایہ کی برتری کو ختم کر دے گا‘‘۔
ہاں! سول وار کی پہلی گولی چلنے کے چند ماہ کے اندر بینکرز نے نپولین سوم کو 21 ملین فرانکس دیے ‘تا کہ میکسیکو پر قبضہ کر لے اور امریکہ (یو ۔ایس) کے جنوبی بارڈر پر فوجیں رکھ کر میکسیکو کو اپنی کالونی بنا لے۔ ادھر برطانیہ نے 11000 سپاہی امریکہ کے شمالی بارڈر پر لگا دیے۔
لنکن کو روپے کی ضرورت تھی۔ 1861ء میں لنکن نے منی چینجرز کو روپے کے لیے درخواست کی۔ انہوں نے 24تا36فیصدسود پر قرضہ دینے کی حامی بھری۔ لنکن نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنے ایک پرانے دوست کرنل ڈک ٹیلر (Dick Tayler) کو بلایا اور مشورہ مانگا۔ ڈک نے کہا:
’’یہ آسان ہے۔ کانگریس سے کہو کہ لیگل ٹنڈر خزانے کے نوٹ چھاپنے کی اجازت دے۔ وہ سپاہیوں کو دو اور لڑائی جیت لو‘‘۔
لنکن نے پوچھا کہ کیا لوگ اس نوٹ کو قبول کر لیں گے؟
ڈک نے کہا:
’’جب وہ لیگل ٹنڈر ہوں گے‘ تو ہر کوئی قبول کرے گا اور وہ اندرونِ ملک ہر جگہ تسلیم کیے جائیں گے‘‘۔
لنکن نے یہی کیا۔ 1862ء سے 1865ء تک اس نے 432 ملین ڈالر کے نوٹ چھاپ دیے۔ پرائیویٹ بینکوں کے نوٹوں سے پہچان کے لیے ان کی پشت سبز سیاہی سے چھاپی گئی۔ ان کا نام گرین بیک پڑ گیا۔ ان نوٹوں کی وجہ سے حکومت کو کوئی سود نہیں دیینا پڑا۔ لنکن مالیات کو بہتر سمجھ گیا۔ اس نے کہا:
’’حکومت کو ہی کرنسی پیدا کرنی اور چلانی چاہیے اور حکومت اور عام آدمی کی ضرورت پوری کرنی چاہیے۔ اس طرح لوگوں کو سود کے لیے ٹیکس بھی نہیں دینا پڑے گا۔ روپیہ آقا نہیں رہے گا بلکہ خادم بن جائے گا‘‘۔
ادھر برطانیہ میں لندن ٹائمز نے یہ ناقابل یقین ایڈیٹوریل لکھا:
’’اگر یہ شر انگیز مالی پالیسی جو نارتھ امریکہ میں شروع ہوئی ہے‘ برقرار رہی تو حکومت بغیر خرچ کے اپنا روپیہ پیدا کر لے گی‘ اپنی تجارتی ضروریات پت پوری کر لے گی اور مثالی طور پر خوشحال ہو جائے گی۔ پھر سب ملکوں کے بہترین دماغ اور دولت امریکہ چلے جائیں گے۔ اس ملک کو برباد کر دینا چاہیے ورنہ وہ زمین کی ہر شہنشاہیت کو تباہ کر دے گا‘‘۔
اس وقت تک یورپ کے سب بادشاہوں کو پرائیویٹ بینکوں نے زنجیر ڈال دی تھی ‘اس لیے بینکر زان قیدی بادشاہوں کو بچانا چاہتے تھے۔
گرین بیک جاری ہونے کے چار دن کے اندر بینکرز کا اجلاس ہوا کہ گرین بیک تو ان کو تباہ کر دیں گے! انہوں نے فیصلہ کیا کہ امپورٹ ڈیوٹی اور سود ادا کرنے کے لیے گرین بیک قبول نہیں کیے جائیں گے ‘یا ان پر 185فیصد سرچارج لیا جائے گا۔ لنکن مجبور ہو گیا اور نیشنل بینک ایکٹ بنانے کی اجازت دے دی۔ اس ایکٹ سے نیشنل بینک بنے جو ٹیکس فری تھے اور نوٹ بھی جاری کر سکتے تھے۔ 13جون 1863ء کو راتھ شیلڈ برادران نے امریکہ میں اپنے حواریوں کو لکھا:
’’موجودہ ایکٹ انہی لائنوں پر بنایا گیا ہے جو یہاں پچھلی گرمیوں میں برطانوی بینکروں نے تجویز کی تھیں۔ یہ بینکنگ برادری کے لیے انتہائی نفع آور ہ ہے۔ روپیہ جمع کرنے کا اتنا عمدہ طریقہ پہلے کبھی نہیں بنا۔ اس سے نیشنل بینکوں کو ملکی مالیات پر مکمل کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔ چند لوگ اسے سمجھیں گے مگر عوام کی اکثریت کو کچھ پتا نہیں لگ سکتا‘‘۔
اس کے بعد سرکاری روپے کے ساتھ بینکرز کا روپیہ بھی استعمال میں آنے لگا جو سود پر سرکاری بانڈ خرید کر جاری کیا جاتا اور بینک نوٹ خریدنے والوں سے بھی سود لیا جاتا۔ علاوہ ازیں بینکرز نے کانگریس کو مجبورکیا کہ سرکاری نوٹ ختم کر دے اور وہ مان گئی۔ لنکن دوبارہ منتخب ہو گیا‘ لیکن 41 دن بعد ہی 14 اپریل 1865ء کو قتل کر دیا گیا۔ وہ زندہ رہتا تو بینکرز کو ختم کر دیتا ‘کیونکہ اس نے 21 نومبر1864ء کو ایک دوست کو خط لکھا تھا:
’’روپے کی قوتیں امن کے زمانے میں قوم کا شکار کھیلتی ہیں اور مشکل حالات میں سازشیں کرتی ہیں۔ وہ بادشاہت سے زیادہ جابر‘ مطلق العنان حکومت سے زیادہ مغرور اور دفتری کارندوں سے زیادہ خود غرض ہیں۔ کارپوریشنوں کو تخت پر بٹھا دیا گیا ہے‘ اب اونچے ایوانوں میں بدعنوانی پھیلے گی اور روپے کی طاقتیں ملک میں تعصبات پیدا کریں گی‘ یہاں تک کہ روپیہ چند ہاتھوں میں جمع ہو جائے گا اور ریاست تباہ ہو جائے گی‘‘۔
لنکن کے قتل پر جرمن چانسلر نے کہا:
’’لنکن کی موت دنیائے عیسائیت کی تباہی تھی۔ امریکہ میں اتنا عظیم اور کوئی شخص نہ تھا جو اس کی جگہ لے سکتا‘‘۔
70 سال بعد یہ ظاہر ہواکہ لنکن کو قتل کرانے والے بینکرز تھے۔