دوسرا بینک آف یو۔ایس

1816ء میں کانگریس نے 20 سال کے لیے ایک اور پرائیویٹ بینک بنانے کی اجازت دے دی۔ اس کی شرائط اور کاروبار کی نوعیت پہلے بینک والی ہی تھیں اور غالباً ایک تہائی انویسٹر باہر کے لوگ تھے۔ اس سے امریکہ اور بینکوں کے درمیان چوتھی جنگ کا آغاز ہوا۔
انڈریوجیکسن (Andrew Jackson) یہ بینک بنانے کا مخالف تھا۔ وہ صدارت کا بھی امیدوار تھا۔ بینکرز انتخابات کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔اس کے باوجود 1828ء کے انتخابات میں وہ کامیاب ہو گیا۔ بینک کی دوبارہ منظوری 1836ء میں لینی تھی اور وہ جیکسن کی دوسری ٹرم کا آخری سال ہونا تھا بشرطیکہ وہ اس وقت تک صدر رہتے۔ اس کے باوجود اُس نے فیڈرل گورنمنٹ کے 11000 میں سے 2000 ملازمین کو برطرف کر دیا۔
1832ء میں جب دوسری ٹرم کے لیے انتخابات کا وقت قریب آ رہا تھا‘ بینکرز نے سوچا کہ اس موقع پر جیکسن جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہے گا ‘اس لیے چار سال پہلے ہی انہوں نے بینک کی دوبارہ منظوری کے لیے کانگریس کو کہا کہ بل پیش کرے۔ کانگریس نے مان لیا اور بل پاس کر دیا۔ مگر جب بل صدر کے پاس پہنچا تو اس نے اسے ویٹو کر دیا اور اس پر وہ نوٹ لکھا جو ایک عظیم امریکن دستاویز ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’بینک میں 80 لاکھ ڈالر کا سرمایہ غیر ملکیوں کا ہے۔ اتنی بڑی طاقت ان لوگوں کے ہاتھ میں دینا جو لوگوں کے سامنے اپنے کام کے ذمہ دار نہیں ہیں‘ بہت بڑی برائی کو جنم دے سکتی ہے۔ کیا اس سے ہمارے ملک کی آزادی کو خطرہ پیش نہیں آ سکتا؟ کرنسی کو کنٹرول کرنا‘ لوگوں کا روپیہ وصول کرنا اور ان کو اپنے اوپر انحصار کرانا اس سے زیادہ خطرناک ہے جو دشمن کی فوجی طاقت سے ہو سکتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ امیر اور طاقتور لوگ ذاتی اغراض کے لیے قانون کو موڑ لیتے ہیں‘ حالانکہ حکومت کو چاہیے کہ اللہ کی بارش کی طرح ہر غریب اور امیر‘ ہر اعلیٰ اور ادنیٰ سب کے لیے نعمت بنے۔ اگر کانگریس کو کاغذی نوٹ جاری کرنے کا حق ہے تو اس لیے ہے کہ وہ خودیہ نوٹ جاری کرے نہ کہ دوسروں کو اس کی اجازت دے‘‘۔
الیکشن آ گیا اور جیکسن اپنے ووٹ کے لیے باہر پھرنا شروع ہوا (اس سے پہلے صدارت کے امیدوار گھر میں ہی پڑے رہتے تھے)۔ اس کا نعرہ تھا بینک یا جیکسن ‘ بینکرز نے 30 لاکھ ڈالر سے مخالف امیدوار کی مدد کی‘مگر جیکسن جیت گیا۔ جیکسن نے کہا کہ ابھی کرپشن کے سانپ کو صرف زخم لگاہے‘ وہ مرا نہیں۔ اس نے سیکرٹری خزانہ سے کہا کہ سرکاری روپیہ اس بینک سے نکال کر سٹیٹ بینک میں رکھے۔ اس نے انکار کر دیا۔ صدر نے دوسرے آدمی کو سیکرٹری مقرر کیا‘ مگر اس نے بھی انکار کر دیا۔ پھر تیسرے نے اس پر عمل کیا۔صدر نے کہا کہ میں نے زنجیر ڈال دی ہے‘ اب اس کے دانت نکالوں گا۔ ادھر بینک کے صدر نکولاس بِڈل (Nicholas Biddle) نے نئے سیکرٹری کو ہٹانے کے لیے اپنا اثر استعمال کیا اور کہا کہ اگر بینک کو چارٹر نہ کیا گیا تو وہ ملک میں کساد بازاری لے آئے گا۔ اس نے اعلانِ جنگ کیا:
’’صدر سمجھتا ہے کہ اس نے انڈین لوگوں پر چاقو چلایا ہے اور ججوں کو قید کیا ہے تو وہ بینک کے ساتھ جو چاہے گا کرے گا‘ وہ غلطی پر ہے‘‘۔
بِڈل نے مزید کہا کہ وہ ملک میں روپے کی سپلائی کم کر دے گا۔ لوگ سخت تکلیف میں چلے جائیں گے اور کانگریس مجبور ہو جائے گی کہ بینک کو بحال کرے ۔ یہ خالص سچائی تھی جو (خلافِ معمول) بیان کی گئی۔ ایسا کئی بار ہوا مگر کسی کو پتا نہ چلا۔ بڈل نے اپنی دھمکی پر عمل کیا۔ اس نے اپنے پرانے قرضے واپس مانگنے شروع کیے اور نئے قرضے دینے سے انکار کر دیا۔ لوگوں میں گھبراہٹ پیدا ہونے لگی۔ بڈل نے صدر جیکسن کو الزام دیاکہ حکومت نے اپنا روپیہ نکال لیا ہے‘ ہم مجبور ہیں۔ اس کے نتیجہ میں اجرتیں اور مزدوریاں ناپید ہوگئیں۔ بے روزگاری بڑھ گئی‘ تاجر کنگال ہونے شروع ہوئے‘ قوم چلانے لگی‘ اخبارات صدر کے خلاف لکھنے لگے۔ بینک نے کانگریس کے ارکان کو بھی ادائیگی سے انکارکر دیا اور ایک ماہ کے اندر اندرکانگریس اپنا اجلاس بلانے پر مجبور ہو گئی۔ جیکسن کو صدر بننے کے چھ ماہ بعد ہی ملزم گردانا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ صدر کو ملزم کہا گیا۔ جیکسن بینک پر برسا:
’’تم سانپوں کی غار ہو۔ میں تمہیں نکالنا چاہتاہوں‘ اور خدائے قیوم کی قسم! میں تمہیں نکال کے رہوں گا‘‘۔
کانگریس کے ووٹوں سے بینک بحال ہو سکتا تھا ‘مگر پنسلوانیا کے گورنر نے (جہاں بینک کا ہیڈ کوارٹر تھا) صدر کی مدد کی۔ نیز بڈل کے کھلے اعلان نے کہ وہ اکانومی کو تباہ کر دے گا‘ حالات کو بدل دیا۔ کانگریس میں اکثریت نے بینک کے خلاف ووٹ دیا اور اسے چارٹر نہ مل سکا۔ 1936ء میں بینک بند ہو گیا۔ یہ
چوتھی بینک جنگ تھی۔
30 جنوری 1835ء کو صدر پر قاتلانہ حملہ ہوا مگر وہ بچ گیا۔ حملہ آور پر مقدمہ چلا مگر پاگل پن کی بنیاد پر اسے رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد اس نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ یورپ کے بعض طاقتور آدمیوں نے اسے یہ کام دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر وہ پکڑا گیا تو اسے چھڑا لیا جائے گا۔
جیکسن نے منی چینجرز کو اس قدر خراب کیا کہ انہیں دوبارہ اس حالت تک پہنچنے کے لیے پوری ایک صدی لگی‘ جب 1935ء میں نیشنل بینک ایکٹ پاس ہوا۔

Previous Chapter Next Chapter