ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ربٰو در اصل اس زائد رقم یا فائدے کو کہتے ہیں جو قرض کے معاملہ میں ایک دائن راس المال کے علاوہ شرط کے طور پر اپنے مدیون سے وصول کرتا ہے۔ اصطلاحِ شرح میں اس کو “ربا النسیئہ” کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ ربٰو جو قرض کے معاملے میں لیا اور دیا جائے۔ قرآن مجید میں اسی کو حرام کیا گیا ہے۔ اس کی حرمت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ اس میں کبھی کسی شک و شبہ نے راہ نہیں پائی۔
لیکن شریعت اسلامی کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ جس چیز کو حرام کیاجاتا ہے اس کی طرف جانے کے جتنے راستے ممکن ہیں ان سب کو بند کردیا جاتا ہے’ بلکہ اس کی طرف پیش قدمی کی ابتداء جس مقام سے ہوتی ہے وہیں روک لگا دی جاتی ہے تاکہ انسان اس کے قریب بھی نہ جانے پائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قاعدے کو ایک لطیف مثال میں بیان فرمایا ہے۔ عرب کی اصطلاح میں حمیٰ اس چراگاہ کو کہتے ہیں جو کسی شخص نے اپنے جانوروں کے لیے مخصوص کرلی ہو اور جس میں دوسروں کے لیے اپنے جانور چرانا ممنوع ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ “ہر بادشاہ کی ایک حمیٰ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حمیٰ اس کے وہ حدود ہیں جن سے باہر قدم نکالنے کو اس نے حرام قرار یا ہے۔ جو جانور حمیٰ کے ارد گرد چرتا پھرتا ہے’ بعید نہیں کہ کسی وقت چرتے چرتے وہ حمیٰ کے حدود میں بھی داخل ہوجائے۔ اسی طرح جو شخص اللہ تعالیٰ کی حمیٰ یعنی اس کے حدود کے اطراف میں چکر لگاتا رہتا ہے اس کے لیے ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ کب اس کا پاؤں پھسل جائے اور وہ حرام میں مبتلا ہوجائے۔ لہذا جو امور حلال و حرام کے درمیان واسطہ ہیں ان سے بھی پرہیز لازم آتا ہے تاکہ تمہارا دین محفوظ رہے۔
یہی مصلحت ہے جس کو مد نظر رکھ کر شارع حکیم نے ہر ممنوع چیز کے اطراف میں حرمت اور کراہیت کی ایک مضبوط باڑھ لگا دی ہے اور ارتکابِ ممنوعات کے ذرائع پر بھی ان کے قرب و بعد کے لحاظ سے سخت یا نرم پابندیاں عاید کردی ہیں۔
سود کے مسئلہ میں ابتدائی حکم صرف یہ تھا کہ قرض کے معاملات میں جو سودی لین دین ہوتا ہےوہ قطعاً حرام ہے۔ چنانچہ اسامہ بن زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو حدیث مروی ہے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ انما الربا فی النسیئۃ او فی بعض الالفاظ لا ربا الا فی النسیئۃ۔یعنی سود صرف قرض کے معاملات میں ہے ۔ لیکن بعد میں آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کی اس حمیٰ کے ارد
_________________________
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ابتدا میں اسی حدیث کی بناء پر یہ فتوی دیا تھا کہ سود صرف قرض کے معاملات میں ہے دست بدست لین دین میں نہیں ہے۔ لیکن جب بعد میں ان کو متواتر روایات سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نقد معاملات میں بھی تفاضل کو منع فرمایا ہے تو انہوں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کرلیا۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رجع ابن عباس عن قولہ فی الصرف و عن قولہ فی المتعۃ۔ اسی طرح حاکم نے حیان العدوی کے طریق سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے بعد میں اپنے سابق فتوے پر توبہ و استغفار کی اور نہایت سختی کے ساتھ ربوٰ الفضل سے منع کرنے لگے۔
گرد بندشیں لگانا ضروری سمجھا’ تاکہ لوگ اس کے قریب بھی نہ پھٹک سکیں۔ اسی قبیل سے وہ فرمان نبوی ہے جس میں سود کھانے اور کھلانے کے ساتھ سود کی دستاویز لکھنے اور اس پر گواہی دینے کو بھی حرام کیا گیا ہے۔ اور اسی قبیل سے وہ احادیث ہیں جن میں ربو الفضل کی تحریم کا حکم دیا گیا ہے۔
ربٰو الفضل کا مفہوم
ربٰو الفضل اس زیادتی کو کہتے ہیں جو ایک ہی جنس کی دو چیزوں کی دست بدست لین دین میں ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حرام قرار دیا۔ کیونکہ اس سے زیادہ ستانی کا دروازہ کھلتا ہے اور انسان میں وہ ذہنیت پرورش پاتی ہے جس کا آخری ثمرہ سود خواری ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی اس مصلحت کو اس حدیث میں بیان فرما دیا ہے جس کو ابو سعید خدریرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے کہ لاتبیعوا الدرھم بدرھمین فانی اخاف علیکم الرما د والرما ھو الربا یعنی ایک درہم کو دو درہموں کے عوض نہ فروخت کرو کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کہیں تم سود خواری میں نہ مبتلا ہوجاؤ۔
ربا الفضل کے احکام
سود کی اس قسم کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احکام منقول ہیں۔ ان کو یہاں لفظ بلفظ
نقل کیا جاتا ہے۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلاً بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ
عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سونے کا مبادلہ سونے سے اور چاندی کا چاندی سے اور گیہوں کا گیہوں سے اور جو کا جو سے اور کھجور کا کھجور سے اور نمک کا نمک سے اس طرح ہونا چاہیے کہ جیسے کا تیسا اور برابر اور دست بدست ہو۔ البتہ اگر مختلف اصناف کی چیزوں کا ایک دوسرے سے مبادلہ ہو تو پھر جس طرح چاہو بیچو بشرطیکہ لین دین دست بدست ہوجائے۔
(احمد و مسلم وللنسائی و ابن ماجہ و ابی داود و نحوہ)
.وفی آخره وَأَمَرَنَا أَنْ نَبِيعَ الْبُرَّ بِالشَّعِيرِ وَالشَّعِيرَ بِالْبُرِّ يَدًا بِيَدٍ كَيْفَ شِئْنَا
یہی حدیث نسائی اور ابن ماجہ اور ابو داؤد میں بھی آئی ہے اور اس کے آخر میں اتنا اضافہ اور ہے) اور آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم گیہوں کا مبادلہ جو سے اور جو کا گیہوں سے دست بدست جس طرح چاہیں کریں۔
عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلاً بِمِثْلٍ يَدًا بِيَدٍ فَمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبَى الآخِذُ وَالْمُعْطِى فِيهِ سَوَاءٌ ».(احمد و مسلم)و في لفظ« لاَ تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ وَلاَ الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إِلاَّ وَزْنًا بِوَزْنٍ مِثْلاً بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سونے کا مبادلہ سونے سے’ چاندی کا چاندی سے ’گیہوں کا گیہوں سے ’جو کا جو سے’ کھجور کا کھجور سے’ نمک کا نمک سے جیسے کا تیسا’ اور دست بدست ہونا چاہیے۔ جس نے زیادہ دیا یا لیا اس نے سودی معاملہ کیا’ لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ (بخاری۔ احمد’ مسلم۔ ) اور ایک دوسری روایت میں ہے) سونے کو سونے کے عوض’ اور چاندی کو چاندی کے عوض فروخت نہ کرو مگر وزن میں مساوی’ جوں کا توں اور برابر سرابر (احمد و مسلم)
وعنه قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ « لاَ تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ ‘ وَلاَ تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ ‘ وَلاَ تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ ‘ وَلاَ تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ ‘ وَلاَ تَبِيعُوا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ »(البخاری ومسلم
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سونے کو سونے کے عوض نہ بیچو مگر جوں کا توں۔ کوئی کسی کو زیادہ نہ دے۔ اور نہ غائب کا تبادلہ حاضر سے کرو۔
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « التَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْحِنْطَةُ بِالْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلاً بِمِثْلٍ يَدًا بِيَدٍ فَمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبَى إِلاَّ مَا اخْتَلَفَتْ أَلْوَانُهُ » (مسلم
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کھجور کا مبادلہ کھجور سے’ گیہوں کا گیہوں سے’ جو کا جو سے’ اور نمک کا نمک سے جوں کا توں اور دست بدست ہونا چاہیے جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سودی معاملہ کیا۔ سوائے اس صورت کے جب کہ ان اشیاء کے رنگ مختلف ہوں۔ (مسلم
عَنْ سَعْد بْنَ أَبِى وَقَّاصٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- سئل عَنْ شِرَاءِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ ». قَالُوا نَعَمْ فَنَهَاهُ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ ذَلِكَ.(مالک والترمذی و ابو داود والنسائی و ابن ماجه
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا اور میں سن رہا تھا کہ خشک کھجور کا تر کھجور کے ساتھ مبادلہ کس طریقہ پر کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تر کھجور سوکھنے کے بعد کم ہوجاتی ہے؟ سائل نے عرض کیا ہاں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرے سے اس مبادلہ ہی کو منع فرما دیا (مالک ترمذی۔ ابو داود۔ نسائی۔ ابن ماجہ
عَنْ أَبِى سَعِيدٍ – رضى الله عنه – قَالَ كُنَّا نُرْزَقُ تَمْرَ الْجَمْعِ ‘ وَهْوَ الْخِلْطُ مِنَ التَّمْرِ ‘ وَكُنَّا نَبِيعُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ فَقَالَ النَّبِىُّ – صلى الله عليه وسلم – « لاَ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ ‘ وَلاَ دِرْهَمَيْنِ بِدِرْهَمٍ
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو بالعموم اجرتوں اور تنخواہوں میں مخلوط قسم کی کھجوریں ملا کرتی تھیں اور ہم دو دو صاع مخلوق کھجوریں دے کر ایک صاع اچھی قسم کی کھجوریں لے لیا کرتے تھے پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نہ دو صاع کا مبادلہ ایک صاع سے کرو اور نہ دو درہم کا ایک درہم سے۔ (بخاری
عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ وَأَبِى هُرَيْرَةَ رضى الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – اسْتَعْمَلَ رَجُلاً عَلَى خَيْبَرَ ‘ فَجَاءَهُمْ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ فَقَالَ « أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا » . فَقَالَ إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ ‘ وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلاَثَةِ . فَقَالَ « لاَ تَفْعَلْ ‘ بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ ‘ ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا » . وَقَالَ فِى الْمِيزَانِ مِثْلَ ذَلِكَ۔
ابو سعید خدری اور بوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو خیبرکا تحصیل دار مقرر کرکے بھیجا وہ وہاں سے (مال گزاری میں) عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا خیبر کی ساری کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟ اس نے کہا ‘ نہیں یار سول اللہ’ ہم جو ملی جلی کھجوریں وصول کرتے ہیں انہیں کبھی دو صاع کے بدلے ایک صاع کے حساب سے اور کبھی 3 صاع کے بدلے 2 صاع کے حساب سے ان اچھی کھجوروں سے بدل لیا کرتے ہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ پہلے ان مخلوط کھجوروں کو درہموں کے عوض فروخت کردو۔ پھر اچھی قسم کی کھجوریں درہموں کے عوض خرید لو۔ یہی بات آپ نے وزن کے حساب سے مبادلہ کرنے کی صورت میں بھی ارشاد فرمائی۔ (بخاری
عَنْ أَبَي سَعِيدٍ قَالَ جَاءَ بِلاَلٌ إِلَى النَّبِىِّ – صلى الله عليه وسلم – بِتَمْرٍ بَرْنِىٍّ فَقَالَ لَهُ النَّبِىُّ – صلى الله عليه وسلم – « مِنْ أَيْنَ هَذَا » . قَالَ بِلاَلٌ كَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِىٌّ ‘ فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ ‘ فَقَالَ النَّبِىُّ – صلى الله عليه وسلم – عِنْدَ ذَلِكَ « أَوَّهْ عَيْنُ الرِّبَا عَيْنُ الرِّبَا ‘ لاَ تَفْعَلْ ‘ وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِىَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ ثُمَّ اشْتَرِهِ »
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ بلال(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں برنی کھجوریں لے کر آئے (جو کھجور کی ایک بہترین قسم ہوتی ہے) آپ نے پوچھا یہ کہاں سے لے آئے؟ انہوں نے عرض کیا ہمارے پاس گھٹیا قسم کی کھجور تھی۔ میں نے وہ دو صاع دے کر یہ ایک صاع خرید لی۔ فرمایا ہائیں! قطعی سود! قطعی سود! ایسا ہرگز نہ کیا کرو۔ جب تمہیں اچھی کھجوریں خریدنی ہوں تو اپنی کھجوریں درہم یا کسی اور چیز کے عوض بیچ دو۔ پھر اس قیمت سے اچھی کھجوریں خرید لو۔ (بخاری و مسلم
عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ اشْتَرَيْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ قِلاَدَةً بِاثْنَىْ عَشَرَ دِينَارًا فِيهَا ذَهَبٌ وَخَرَزٌ فَفَصَّلْتُهَا فَوَجَدْتُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنَ اثْنَىْ عَشَرَ دِينَارًا فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَ لاَ تُبَاعُ حَتَّى تُفَصَّلَ
فضالہ بن عبید کرضی اللہ تعالیٰ عنہ ہتے ہیں کہ میں نے جنگ خیبر کے موقع پر ایک جڑاؤ ہار 12 دینار میں خریدا۔ پھر جو میں نے اس ہار کو توڑ کر نگ اور سونا الگ الگ کیا تو اس کے اندر 12 دینار سے زیادہ کا سونا نکلا ۔ میں نے اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آئندہ سے سونے کا جڑاؤ زیور سونے کے عوض نہ بیچا جائے جب تک کہ نگ اور سونے کو الگ الگ نہ کردیا جائے۔ (مسلم نسائی’ ابو داود’ ترمذی
عَنْ أَبِى بَكْرَةَ- رضى الله عنه – قَالَ نَهَى النَّبِىُّ – صلى الله عليه وسلم – عَنِ الْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ وَالذَّهَبِ بِالذَّهَبِ ‘ إِلاَّ سَوَاءً بِسَوَاءٍ ‘ وَأَمَرَنَا أَنْ نشتري الْفِضَّةَ بِالذَّهَبِ كَيْفَ شِئْنَا وَ نشتري الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ كَيْفَ شِئْنَا
ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ چاندی کا چاندی سے اور سونے کا سونے سے مبادلہ نہ کیا جائے مگر برابری کے ساتھ۔ نیز آپ نے فرمایا کہ چاندی کو سونے سے اور سونے کو چاندی سے جس طرح چاہو بدل سکتے ہو۔ (بخاری و مسلم
احکام بالا کا ماحصل
مذکورہ بالا احادیث کے الفاظ اور معانی پر اور ان حالات پر جن میں یہ احادیث ارشاد ہوئی ہیں’ غور کرنے سے حسبِ ذیل اصول اور احکام حاصل ہوتے ہیں:۔
(1) یہ ظاہر ہے کہ ایک ہی جنس کی دو چیزوں کو بدلنے کی ضرورت صرف اسی صورت میں پیش آتی ہے جب کہ اتحاد جنس کے باوجود ان کی نوعیتیں مختلف ہوں۔ مثلاً چاول اور گیہوں کی ایک قسم اور دوسری قسم’ عمدہ سونا اور گھٹیا سونا’ یا معدنی نمک اور سمندری نمک وغیرہ۔ ان مختلف اقسام کی ہم جنس چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بدلنا’ اگرچہ بازار کے نرخ ہی کو ملحوظ رکھ کر ہو’ بہرحال ان میں کمی بیشی کے ساتھ مبادلہ کرنےسے اس ذہنیت کے پرورش پانے کا اندیشہ ہے جو بالآخر سود خواری اور ناجائز نفع اندوزی تک جا پہنچتی ہے۔ اس لیے شریعت نے قاعدہ مقرر کردیا کہ ہم جنس اشیاء کے مبادلہ کی اگر ضرورت پیش آئے لازماً حسبِ ذیل دو شکلوں میں سے ہی کوئی ایک شکل اختیار کرنی ہوگی۔ ایک یہ کہ ان کے درمیان قدروقیمت کا جو تھوڑا سا فرق ہو اسے نظر انداز کرکے برابر سرابر مبادلہ کرلیا جائے۔ دوسرے یہ کہ چیز کا چیز سے براہ راست مبادلہ کرنے کے بجائے ایک شخص اپنی چیز روپے کے عوض بازار کے
_________________________
یہ خیال رہے کہ اس زمانے میں درہم اور دینار خالص چاندی سونے کے ہوتے تھے اور ان کی قیمت ان کی چاندی اور سونے ہی کے وزن کے لحاظ سے ہوتی تھی۔ لہذا اس زمانہ میں دینار کے عوض سونا اور درہم کے عوض چاندی خریدنا بالکل یہ معنی رکھتا تھا کہ آدمی نے سونے کے عوض سونا خریدا اور چاندی کے عوض چاندی حاصل کی۔
بھاؤ بیچ دے اور دوسرے شخص سے اس کی چیز روپے کے عوض بازار کے بھاؤ خریدلے ۔
جیسا کہ ابھی ہم بیان کرچکے ہیں’ قدیم زمانے میں تمام سکے خالص چاندی سونے کے ہوتے تھے اور ان کی قیمت در اصل ان کی چاندی اور ان کے سونے کی قیمت ہوتی تھی۔ اس زمانے میں درہم کو درہم سے اور دینار کو دینار سے بدلنے کی ضرورت ایسے مواقع پر پیش آتی تھی جب کہ مثلاً کسی شخص کو عراقی درہم کے عوض رومی درہم درکار ہوتے یا رومی دینار کی حاجت ہوتی۔ ایسی ضرورتوں کے مواقع پر یہودی ساہوکار اور دوسرے ناجائز کمانے والے لوگ کچھ اسی طرح کا ناجائز منافع وصول کرتے تھے جیسا موجودہ زمانے میں بیرونی سکوں کے مبادلہ پر بٹاون لی جاتی ہے’ یا اندرونِ ملک میں روپیہ کی ریزگاری مانگنے والوں’ یا دس اور پانچ روپے کے نوٹ بھنانے والوں سے کچھ پیسے یا آنے وصول کرلیے جاتے ہیں۔ یہ چیز بھی چونکہ سود خورانہ ذہنیت ہی کی طرف لے جانے والی ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا کہ نہ تو چاندی کا مبادلہ چاندی سے اور سونے کا مبادلہ سونے سے کمی بیشی کے ساتھ کرنا جائز ہے اور نہ ایک درہم کو دو درہم کے عوض بیچنا درست ہے۔
ہم جنس اشیاء کے درمیان مبادلہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک چیز خام شکل میں ہو’ اور دوسرے کے پاس اسی جنس سے بنی ہوئی کوئی شے ہو’ اور دونوں آپس میں ان کا مبادلہ کرنا چاہیں’ اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ آیا صنعت نے اس شے کی ماہیت بالکل ہی تبدیل کردی ہے۔ یا اس کے اندر صنعت کے تصرف کے باوجود ابتدائی خام صورت کی بہ نسبت کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ پہلی صورت میں تو کمی بیشی کے ساتھ مبادلہ ہوسکتا ہے’ لیکن دوسری صورت میں شریعت کا منشا یہ ہے کہ یا تو سرے سے مبادلہ ہی نہ ہو’ یا اگر ہو تو برابری کے ساتھ ہو تاکہ زیادہ ستانی کے مرض کو غذا نہ مل سکے۔ مثال کے طور پر ایک تو وہ عظیم الشان تغیرات ہیں جو روئی سے کپڑا اور لوہے سے انجن بننے کی صورت میں رونما ہوتے ہیں’ اور دوسرے وہ خفیف تغیرات ہیں جو سونے سے ایک چوڑی یا ایک کنگن بنائے جانے کی صورت میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے پہلی صورت میں تو کوئی مضائقہ نہیں’ اگر ہم زیادہ مقدار میں روئی دے کر کم مقدار میں کپڑا اور بہت سے وزن کا خام لوہا دے کر تھورے سے وزن کا ایک انجن خرید لیں۔ لیکن دوسری صورت میں یا تو سونے کے کنگن کا مبادلہ ہم وزن سونے ہی سے کرنا ہوگا پھر سونے کو بازار میں بیچ کر اس کی قیمت سے کنگن خریدنے پڑیں گے۔
_________________________
یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ “اس طرح تو پھر سنار کا سارا کاروبار بند ہوجائے گا کیونکہ اسے سونے کی بنی ہوئی چیزیں ہم وزن سونے کے عوض فروخت کرنی ہوں گی اور وہ اپنی صنعت کی کوئی اجرت نہ لے سکے گا”۔ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ سنار سے در اصل ہم مبادلہ کا معاملہ نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنا سونا دے کر اس سے اپنے مطلب کی کوئی چیز بنواتے ہیں۔ لہذا وہ اسی طرح اپنے عمل کی اجرت لینے کا حق دار ہے جس طرح ایک درزی یا ایک نان بائی۔ البتہ اگر ہم کسی زیور فروش سے سونے کا بنا ہوا کوئی زیور خریدیں تو یقینا اسے قیمت میں زیادہ سونا دینا جائز نہ ہوگا’ بلکہ ہمیں لازماً اسے چاندی یا کاغذ کے سکے ہی میں قیمت دینی ہوگی۔
مختلف اجناس کی چیزوں کا باہم مبادلہ کمی بیشی کے ساتھ ہوسکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ معاملہ دست بدست ہوجائے۔ اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ دست بدست جو لین دین ہوگا وہ تو لامحالہ بازار کے نرخوں ہی پر ہوگا۔ مثلاً جو شخص چاندی دے کر سونا لے گا وہ نقد سودے کی صورت میں سونے کے بالمقابل اتنی ہی چاندی دے گا جتنی اسے بازار کے بھاؤ کے لحاظ سے دینی چاہیے۔ لیکن قرض کی صورت میں کمی بیشی کا معاملہ اس اندیشہ سے خالی نہیں ہوسکتا کہ اس کے اندر سود کا غبار شامل ہوجائے۔ مثال کے طور پر جو شخص آج 80 تولہ چاندی دے کر یہ طے کرتا ہے کہ ایک مہینہ بعد وہ 80 تولہ چاندی کے بجائے 2 تولہ سونا لے گا۔ اس کے پاس در حقیقت یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ایک مہینہ بعد 40 تولہ چاندی ایک تولہ سونے کے برابر ہوگی۔ لہذا اس نے چاندی اور سونے کے درمیان مبادلے کی اس نسبت کا جو پیشگی تعین کرلیا۔ یہ بہرحال ایک طرح کی سود خوارانہ اور قمار بازانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے اور قرض لینے والے نے جو اسے قبول کیا تو اس نے بھی گویا جوا کھیلا کہ شاید ایک مہینہ بعد سونے اور چاندی کی باہمی نسبت 140 کے بجائے 135 ہو۔ اسی بنا پر شارع نے یہ قانون مقرر کیا ہے کہ مختلف اجناس کا مبادلہ کمی بیشی کے ساتھ کرنا ہو تو وہ صرف دست بدست ہی ہوسکتا ہے۔رہا قرض تو وہ لازما دوطریقوں میں سے کسی ایک طریقہ پر ہونا چاہیے۔یا تو جو چیز جتنی مقدار میں قرض دی گئی ہے وہی چیز اسی مقدار میں واپس قبول کی جائے۔ یا پھر معاملہ اجناس اور اشیاء کی شکل میں طے کرنے کے بجائے روپے کی شکل میں طے کیا جائے۔ مثلاً یہ کہ آج زید نے بکر سے 80 روپے یا 80 روپے کے گیہوں قرض لیے اور ایک مہینہ بعد وہ بکر کو 80 روپے یا 80 روپے کے جو واپس دے گا۔ اس قانون کو ابو داود کی اس روایت میں بالکل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
وَلاَ بَأْسَ بِبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْفِضَّةِ – وَالْفِضَّةُ أَكْثَرُهُمَا – يَدًا بِيَدٍ وَأَمَّا نَسِيئَةً فَلاَ وَلاَ بَأْسَ بِبَيْعِ الْبُرِّ بِالشَّعِيرِ وَالشَّعِيرُ أَكْثَرُهُمَا يَدًا بِيَدٍ وَأَمَّا نَسِيئَةً فَلاَ
اور کوئی مضائقہ نہیں اگر سونے کو چاندی کے عوض بیچا جائے اور چاندی زیادہ ہو بشرطیکہ معاملہ دست بدست ہوجائے۔ رہا قرض تو وہ جائز نہیں ہے۔ اور کوئی مضائقہ نہیں اگر گیہوں کو جو کے عوض بیچا جائے اور جو زیادہ ہوں بشرطیکہ معاملہ دست بدست ہوجائے رہا قرض تو وہ جائز نہیں ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ احکام مجمل ہیں اور معاملات کی تمام جزئی صورتوں کی ان میں تصریح نہیں ہے۔ اس لیے بہت سے جزئیات ایسے پائے جاتے ہیں جن میں شک کیا جا سکتا ہے کہ آیا وہ ربٰو کی تعریف میں آتے ہیں یا نہیں۔ یہی بات ہے جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشارہ کیا ہے کہ
إِنَّ آيَةُ الرِّبَامن آخِر مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ وَإِنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- قُبِضَ ان يبينه لنا فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ
آیت ربٰو قرآن کی ان آیات میں سے ہے جو آخر زمانہ میں نازل ہوئی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا قبل اس کے کہ تمام احکام ہم پر واضح فرماتے لہذا تم اس چیز کو بھی چھوڑ دو جو یقیناً سود ہے اور اس چیز کو بھی جس میں سود کا شبہ ہو۔
فقہا ءکے اختلافات
احکام کایہ اجمال ہی ان اختلافات کا مبنیٰ ہے جو سودی اجناس کے تعین’ اور ان میں تحریم کی علت’ اور حکمِ تحریم کے اجزاء میں فقہائے امت کے درمیان ہوئے ہیں۔
ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ ربٰو صرف ان چھ اجناس میں ہے جن کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے’ یعنی سونا’ چاندی’ گیہوں’ جو ’ خرما اور نمک۔ ان کے سوا دوسری تمام چیزوں میں تفاضل کے ساتھ بلا کسی قید کے ہم جنس اشیاء کا لین دین ہوسکتا ہے۔ یہ مذہب قتادہ اور طاؤس اور عثمان البتی’ اور ابن عقیلی اور ظاہریہ کا ہے۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم ان تمام چیزوں میں جاری ہوگا جن کا لین دین وزن اور پیمانہ کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ یہ عمار اور امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے’ اور ایک روایت کی رو سے امام احمد ابن حنبل کی بھی یہی رائے ہے۔
تیسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم سونے چاندی اور کھانے کی ان چیزوں کے لیے ہے جن کا لین دین پیمانہ اور وزن کے لحاظ سے ہوتا ہے یہ سعید بن المسیب کا مذہب ہے اور ایک ایک روایت اس باب میں امام شافعی اور امام احمد سے بھی منقول ہے۔
چوتھا گروہ کہتا ہے کہ یہ حکم مخصوص ہے ان چیزوں کے ساتھ جو غذا کے کام آتی ہیں اور ذخیرہ کرکے رکھی جاتی ہیں۔ یہ امام مالک کا مذہب ہے۔
درہم و دینار کے بارے میں امام ابو حنیفہ اور امام احمد کا مذہب یہ ہے کہ ان میں علت تحریم ان کا وزن ہے۔ اور شافعی و مالک اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کی رائے یہ ہے کہ قیمت اس کی علت ہے۔
مذاہب کے اس اختلاف سے جزئی معاملات میں حکم تحریم کا اجراء بھی مختلف ہوگیا ہے۔ ایک چیز ایک مذہب میں سرے سے سودی جنس ہی نہیں ہے اور دوسرے مذہب میں اس کا شمار سودی اجناس میں ہوتا ہے۔ ایک مذہب کے نزدیک ایک شے میں علت تحریم کچھ ہے اور دوسرے مذہب کے نزدیک کچھ اور۔ اس لیے بعض معاملات ایک مذہب کے لحاظ سے سود کی زد میں آجاتے ہیں اور دوسرے مذہب کے لحاظ سے نہیں آتے۔ لیکن یہ تمام اختلافات ان امور میں نہیں ہیں جو کتاب و سنت کے صریح احکام کی رو سے ربٰو کے حکم میں داخل ہیں’ بلکہ ان کا تعلق صرف مشتبہات سے ہے’ اور ایسے امور سے ہے جو حلال و حرام کی درمیانی سرحد پر واقع ہیں۔ اب اگر کوئی شخص ان اختلافی مسائل کو حجت بنا کر ان معاملات میں شریعت کے احکام کو مشتبہ ٹھہرانے کی کوشش کرے جن کے سود ہونے پر نصوص صریحہ وارد ہوچکی ہیں اور اس طریق استدلال سے رخصتوں اور حیلوں کا دروازہ کھولے’ اور پھر ان دروازوں سے بھی گزر کر امت کو سرمایہ داری کے راستوں پر چلنے کی ترغیب دے وہ خواہ اپنی جگہ نیک نیت اور خیر خواہ ہی کیوں نہ ہو’ حقیقت میں ان کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جنہوں نے کتاب و سنت کو چھوڑ کر ظن و تخمین کی پیروی کی’ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
جانوروں کے مبادلہ میں تفاضل
اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم جنس اشیاء کے مبادلہ میں تفاضل کی ممانعت کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے جانور مستثنی ہیں۔ ایک ہی جنس کے جانوروں کا مبادلہ ایک دوسرے کے ساتھ تفاضل کے ساتھ کیا جا سکتا ہے’ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کیا ہے اور آپ کے بعد صحابہ نے بھی کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جانور اور جانور میں قدر و قیمت کے اعتبار سے بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ مثلاً ایک معمولی قسم کا گھوڑا اور ایک اعلی نسل کا گھوڑا جو ریس میں دوڑایا جاتا ہے’ یا ایک عام کتا اور ایک اعلی قسم کا کتا’ ان کی قیمتوں میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ ایک جانور کا تبادلہ اسی جنس کے سو جانوروں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔