سود کے متعلق اسلامی احکام

یہ ہماری بحث کا عقلی پہلو تھا۔ اب ہم نقل کے اعتبار سے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ قرآن اور سنت کی رو سے “سود” کیا شے ہے’ اس کے حدود کیا ہیں’ اسلام میں اس کی حرمت کے جو احکام وارد ہوئے ہیں وہ کن کن معاملات سے متعلق ہیں اور اسلام اس کو مٹا کر انسان کے معاشی معاملات کو کس قاعدہ پر چلانا چاہتا ہے۔

ربٰو کا مفہوم

قرآن مجید میں سود کے لیے “ربٰو” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مادہ “رَ بَ رَ” ہے جس کے معنی میں زیادت’ نمو’ بڑہوتری’ اور چڑھنے کا اعتبار ہے۔ رَبَا بڑھا اور زیادہ ہوا۔ ربا فلان الرابیۃ۔ وہ ٹیلے پر چڑھ گیا۔ رَبَا فلان السویق:۔ اس نے ستو پر پانی ڈالا اور ستو پھول گیا۔ ربا فی حجرہ:۔ اس نے فلاں کی آغوش میں نشوونما پایا۔ اربی الشیء : چیز کو بڑھایا۔ ربوۃ۔ بلندی۔ رابیۃ۔ وہ زمین جو عام سطح ارض سے بلند ہو۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں اس مادے کے مشتقات آئے ہیں’ سب
:جگہ زیادت اور علو اور نمو کا مفہوم پایا جاتا ہے’ مثلا

فاذا انزلنا علیها الماء اهتزت وربت
جب ہم نے اس پر پانی برسایا تو وہ لہلہا اٹھی اور برگ و بار لانے لگی (الحج: ۵)
یمحق الله الربٰو و یربی الصدقات
اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ (البقرہ: 276)
فاحتمل السیل زبدا رابیا
جھاگ جو اوپر اٹھ آیا تھا اس کو سیلاب بہا لے گیا۔ (الرعد: 17)
فاخذهم اخذة رابیة
اس نے ان کو پھر زیادہ سختی کے ساتھ پکڑا۔(الحاقہ: 10)
ان تکون امة هی اربی من امة
تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ جائے۔ (النحل: 92)
اوینهما الی ربوة
ہم نے مریم اور مسیح کو ایک اونچی جگہ پر پناہ دی۔ (50)
اسی مادّے سے “ربو” ہے اور اس سے مراد مال کی زیادتی اور اس کا اصل سے بڑھ جانا ہے۔ چنانچہ اس معنی کی تصریح بھی خود قرآن میں کردی گئی ہے:
وَ ذروا ما بقی من الربٰو ۔۔۔۔۔۔۔ و ان تبتم فلکم رؤوس اموالکم
اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ ۔۔۔۔ اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہیں اپنے رأس المال (یعنی اصل رقم) لینے کا حق ہے۔ (البقرہ: 279)

و ما اتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس فلا یربوا عند الله
اور جو سود تم نے دیا ہے تاکہ لوگوں کے اموال بڑھیں تو اللہ کے نزدیک اس سے مال نہیں بڑھتا۔

ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اصل رقم پر جو زیادتی بھی ہوگی وہ “ربو” کہلائے گی۔ لیکن قرآن مجید نے مطلق ہر زیادتی کو حرام نہیں کیا ہے۔ زیادتی تو تجارت میں بھی ہوتی ہے۔ قرآن جس زیادہ کو حرام قرار دیتا ہے وہ ایک خاص قسم کی زیادتی ہے’ اسی لیے وہ اس کو “الربو” کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اہل عرب کی زبان میں اسلام سے پہلے بھی معاملہ کی اس خاص نوعیت کو اسی اصطلاحی نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ مگر وہ “الربو” کو بیع کی طرح جائز سمجھتے تھے جس طرح موجودہ جاہلیت میں سمجھا جاتا ہے۔ اسلام نے آ کر بتایا کہ راس المال میں جو زیادتی بیع سے ہوتی ہے وہ اس زیادتی سے مختلف ہے جو “الربٰو” سے ہوا کرتی ہے۔ پہلی قسم کی زیادتی حلال ہے اور دوسری قسم کی زیادتی حرام:۔

ذلک بانهم قالو انما البیع مثل الربٰو وا حل الله البیع وحرم الربٰو (البقرۃ: ۲۷۵

سود خواروں کا یہ حشر اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا کہ بیع بھی “الربٰو” کے مانند ہے’ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال اور ربٰو کو حرام کیا ہے۔
چونکہ “الربٰو” ایک خاص قسم کی زیادتی کا نام تھا’ اور وہ معلوم و مشہور تھی’ اس لیے قرآن مجید میں اس کی کوئی تشریح نہیں کی گئی’ اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ اللہ نے اس کو حرام کیا ہے’ اسے چھوڑ دو۔

جاہلیت کا ربٰو

زمانہ جاہلیت میں “الربٰو” کا اطلاق جس طرز معاملہ پر ہوتا تھا’ اس کی متعدد صورتیں روایات میں آئی ہیں۔
قتادہ کہتے ہیں جاہلیت کا ربٰو یہ تھا کہ ایک شخص’ ایک شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک وقت مقررہ تک مہلت دیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کردیتا۔
مجاہد کہتے ہیں جاہلیت کا ربٰو یہ تھا کہ ایک شخص کسی سے قرض لیتا اور کہتا کہ اگر تو مجھے اتنی مہلت دے تو میں اتنا زیادہ دوں گا۔ (ابن جریر جلد سوم صفحہ 62)
ابوبکر جصاص کی تحقیق یہ ہے کہ اہل جاہلیت ایک دوسرے سے قرض لیتے تو باہم یہ طے ہوجاتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم اصل راس المال سے زیادہ ادا کی جائے گی۔ (احکام القرآن جلد اول)

امام رازی کی تحقیق میں اہل جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ وہ ایک شخص کو ایک معین مدت کے لیے روپیہ دیتے اور اس سے ماہ بماہ ایک مقررہ رقم سود کے طور پر وصول کرتے رہتے۔ جب وہ مدت ختم ہوجاتی تو مدیون سے راس المال کا مطالبہ کیا جاتا۔ اگر وہ ادانہ کرسکتا تو پھر ایک مزید مدت کے لیے مہلت دی جاتی اور سود میں اضافہ کردیا جاتا۔ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 351)
کاروبار کی یہ صورتیں عرب میں رائج تھیں’ انہی کو اہل عرب اپنی زبان میں “الربٰو” کہتے تھے اور یہی وہ چیز تھی جس کی تحریم کا حکم قرآن مجید میں نازل ہوا

بیع اور ربٰو میں اصولی فرق

اب اس امر پر غور کیجیے کہ بیع اور ربٰو میں اصولی فرق کیا ہے۔ ربٰو کی خصوصیات کیا ہیں جن کی وجہ سے اس کی نوعیت بیع سے مختلف ہوجاتی ہے اور اسلام نے کس بنا پر اس کو منع کیا ہے۔
بیع کا اطلاق جس معاملہ پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بائع ایک شے کو فروخت کے لیے پیش کرتا ہے’ مشتری اور بائع کے درمیان اس شئے کی ایک قیمت قرار پاتی ہے’ اور اس قیمت کے معاوضہ میں مشتری اس شئے کو لے لیتا ہے۔ یہ معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہوتا۔ یا تو بائع نے وہ چیز خود محنت کرکے اور اپنا مال اس پر صرف کرکے پیدا کی ہے’ یا وہ اس کو کسی دوسرے سے خرید کرلایا ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ اپنے راس المال پر’ جو اس نے خریدنے یا مہیا کرنے میں صرف کیا تھا’ اپنے حق المحنت کا اضافہ کرتا ہے اور یہی اس کا منافع ہے۔
اس کے مقابلہ میں ربٰو یہ ہے کہ ایک شخص اپنا راس المال ایک دوسرے شخص کو قرض دیتا ہے اور یہ شرط کرلیتا ہے کہ میں اتنی مدت میں اتنی رقم تجھ سے راس المال پر زائد لوں گا۔ اس معاملہ میں راس المال کے مقابل راس المال ہے’ اور مہلت کے مقابلہ میں وہ زائد رقم ہے جس کی تعیین پہلے بطور ایک شرط کے کرلی جاتی ہے۔ اسی زائد رقم کا نام سود یا ربٰو ہے جو کسی خاص مال یا شئے کا معاوضہ نہیں بلکہ محض مہلت کا معاوضہ ہوتا ہے۔ اگر بیع میں بھی قیمت قرار پا چکی ہو’ اور پھر مشتری سے یہ شرط کی جائے کہ ادائے قیمت میں مثلاً ایک مہینے کی دیر ہونے پر قیمت میں اتنا اضافہ کردیا جائے گا تو زیادت سود کی تعریف میں آجائے گی۔
پس سود کی تعریف یہ قرار پائی کہ قرض میں دیے ہوئے راس المال پر جو زائد رقم مدت کے مقابلہ میں شرط اور تعیین کے ساتھ لی جائے وہ “سود” ہے۔ 1۔ راس المال پر اضافہ’ 2۔ اضافہ کی تعیین مدت کے لحاظ سے کیے جانا۔ اور 3۔ معاملہ میں اس کا مشروط ہونا’ یہ تین اجزائے ترکیبی ہیں جن سے سود بنتا ہے’ اور ہر وہ معاملہ قرض جس میں یہ تینوں اجزاء پائے جاتے ہوں’ ایک سودی معاملہ ہے’ قطع نظر اس سے کہ قرض کسی بار آور کام میں لگانے کے لیے لیا گیا ہو یا کوئی شخص ضرورت پوری کرنے کے لیے’ اور اس قرض کا لینے والا آدمی غریب ہو یا امیر۔
بیع اور سود میں اصولی فرق یہ ہے کہ:۔

بیع میں مشتری اور بائع کے درمیان منافع کا مبادلہ برابری کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ مشتری اس چیز سے فائدہ اٹھاتا ہے جو اس نے بائع سے خریدی ہے’ اور بائع اپنی اس محنت’ ذہانت اور وقت کی اجرت لیتا ہے جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیا

___________________________

اس پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو ضمیمہ 1۔ 2

کرنے میں صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے سودی لین دین میں منافع کا مبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے۔ لیکن اس کے مقابلہ میں سود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔ اگر قرض دار نے اپنی شخصی ضرورتوں پر خرچ کرنے کی غرض سے قرض لیا ہے تب تو مہلت اس کے نافع نہیں بلکہ یقیناً نقصان دہ ہے۔ اور اگر اس نے یہ قرض تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کی غرض سے لیا ہے تو مہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے لیکن قرض خواہ بہرحال اس سے نفع کی ایک مقررہ مقدار لے لیتا ہے’ خواہ اس کو اپنے کاروبار میں فائدہ ہو یا نقصان۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے’ یا ایک کے یقینی اور متعین فائدے اور دوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔

بیع و شراء میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے’ بہرحال وہ صرف ایک ہی مرتبہ لیتا ہے۔ لیکن سود کے معاملہ میں راس المال دینے والا مسلسل اپنے مال پر منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے’ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو’ بہرطور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا۔ مگر اس کے معاوضہ میں دائن جو نفع اٹھاتا ہے اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس کی تمام کمائی’ اس کے تمام وسائل ثروت’ اس کے تمام مایحتاج پر محیط ہوجائے اور پھر بھی اس کا سلسلہ ختم نہ ہو۔

بیع و شرا میں شئے اور اس کی قیمت کا مبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز’ بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی۔ لیکن سود کے معاملہ میں مدیون راس المال لے کر صرف کرچکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ چیز دوبارہ حاصل کرکے سود کے اضافہ کے ساتھ واپس دینی پڑتی ہے۔
4۔ تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت اور ذہانت صرف کرتا ہے اور اس کا فائدہ لیتا ہے۔ مگر سودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت اور صرفِ مال کے دوسروں کی کمائی میں شریک غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اصطلاحی “شریک” کی نہیں ہوتی جو نفع و نقصان اور بلا لحاظ تناسبِ نفع اپنے مقرر اور مشروط منافع کا دعویدار ہوتا ہے۔

علتِ تحریم

یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ ان وجوہ کے علاوہ حرمتِ سود کی دوسری وجوہ بھی ہیں جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں۔ وہ بخل’ خود غرضی’ شقاوت’ بے رحمی اور زرپرستی کی صفات پیدا کرتا ہے۔ وہ قوم میں عداوت ڈالتا ہے۔ وہ افرادِ قوم کے درمیان ہمدردی اور امداد باہمی کے تعلقات کو قطع کرتا ہے ۔ وہ لوگوں میں روپیہ جمع کرنے اور صرف اپنی ذاتی مفاد کی ترقی پر لگانے کا میلان پیدا کرتا ہے۔ وہ سوسائٹی میں دولت کی آزادانہ گردش کو روکتا ہے بلکہ دولت کی گردش کا رخ الٹ کرنا داروں سے مال داروں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے جمہور کی دولت سمٹ کر ایک طبقہ کے پاس اکٹھی ہوتی چلی جاتی ہے’ اور یہ چیز آخر کار پوری سوسائٹی کے لیے بربادی کی موجب ہوتی ہے جیسا کہ معاشیات میں بصیرت رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں۔ سود کے یہ تمام اثرات ناقابلِ انکار ہیں’ اور جب یہ ناقابل انکار ہیں تو اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اسلام جس نقشے پر انسان کی اخلاقی تربیت’ تمدنی شیرازہ بندی اور معاشی تنظیم کرنا چاہتا ہے اس کے ہر ہر جزء سے سود کلی منافات رکھتا ہے اور سودی کاروبار کی ادنے سے ادنے اور بظاہر معصوم سے معصوم صورت بھی اس پورے نقشے کو خراب کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں حق تعالیٰ نے اس قدر سخت الفاظ کے ساتھ سود کو بند کرنے کا حکم دیا کہ:۔

اتَّقُو االلَّه وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰو إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوابِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ

اللہ سے ڈرو اور جو سود تمہارا لوگوں پر باقی ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان قبول کرو۔ (البقرۃ:۲۷۹

حرمت سود کی شدّت

قرآن میں اور بھی بہت سے گناہوں کی ممانعت کا حکم آیا ہے اور ان پر سخت وعیدیں بھی ہیں’ لیکن اتنے سخت الفاظ کسی دوسرے گناہ کے بارے میں وارد نہیں ہوئے ۔ اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی قلم رو میں سود کو روکنے کے لیے سخت کوشش فرمائی۔ آپ نے نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ کیا اس میں صاف طور پر لکھ دیا کہ اگر تم سودی کاروبار کروگے تو معاہدہ کالعدم ہوجائے گا اور ہم کو تم سے جنگ کرنی پڑے گی۔ بنو مغیرہ کے سود خوار عرب مشہور تھے’ فتح مکہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تمام سودی رقمیں باطل کردیں اور اپنے عامل مکہ کو لکھا کہ اگر وہ باز نہ آئیں تو ان سے جنگ کرو۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس ایک بڑے مہاجن تھے۔ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ جاہلیت کے تمام سود ساقط کیے جاتے ہیں اور سب سے پہلے میں خود اپنے چچا عباس کا سود ساقط کرتا ہوں۔ آپ نے یہاں تک فرما دیا کہ سود لینے والے اور دینے والے’ اور اس کی دستاویز کے کاتب’ اور اس پر گواہی دینے والے سب پر اللہ کی لعنت!
ان تمام احکام کا منشا یہ نہ تھا کہ محض سود کی ایک خاص قسم یعنی یوژری’ مہاجنی سود’ کو بند کیا جائے اور اس کے سوا تمام اقسام کے سودووں کا دروازہ کھلا رہے’ بلکہ ان سے اصل مقصد سرمایہ دارانہ اخلاق’ سرمایہ دارانہ ذہنیت’ سرمایہ دارانہ

__________________________

ایک حدیث میں ہے کہ سود کا گناہ اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے سے ستر درجہ زیادہ ہے۔

نظام تمدن اور سرمایہ دارانہ نظمِ معیشت کا کلی استیصال کرکے وہ نظام قائم کرنا تھا جس میں بخل کے بجائے فیاضی ہو’ خود غرضی کے بجائے ہمدردی اور امداد باہمی ہو’ سود کے بجائے زکوۃ ہو’ بینک کی جگہ قومی بیت المال ہو’ اور وہ حالات ہی سرے سے پیش نہ آئیں جن سے مقابلہ کرنے کے لیے نظامِ سرمایہ داری میں کواپریٹو سوسائیٹیوں’ انشورنس کمپنیوں اور پراویڈنٹ فنڈز وغیرہ کی ضرورت پیش آتی ہے اور آخر کار اشتراکیت کا غیر فطری پروگرام اختیار کرنا پڑتا ہے۔

اب یہ ہماری اپنی حماقت ہے’ کمزوری ہے’ بدقسمتی ہے کہ اسلام کا یہ اخلاقی تمدنی اور معاشی نظام بالکل درہم برہم ہوگیا۔ سرمایہ داری ہم پر مسلط ہوگئی۔ زکوۃ کی تحصیل اور صحیح مصارف میں اس کو صرف کرنے کے لیے کوئی ادارہ ہم میں باقی نہ رہا۔ ہمارے مال دار خود غرض اور نفس پرست ہوگئے۔ ہمارے ناداروں کے لیے کوئی سہارا نہ رہا۔ ہم نے اسلامی اخلاق کھو دیا اور اس کی حدود کو ایک ایک کرکے توڑ ڈالا۔ شراب اور جوئے اور زناکاری میں ہم مبتلا ہوئے۔ عیش پسندی اور اسراف کی بد ترین صفات ہم میں پیدا ہوگئیں۔ فضول خرچی کے جملہ لوازم کو ہم نے اپنی ضروریاتِ زندگی میں داخل کرلیا۔ سودی قرض کے بغیر ہمارے لیے شادیاں کرنا’ موٹریں خریدنا’ بنگلے بنوانا’ تزئین و آرائش اور عیش و عشرت کے سامان فراہم کرنا محال ہوگیا۔ پھر امدادِ باہمی کی اسپرٹ اور عملی تنظیم ہم میں سے یکسر مفقود ہوگئی۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے معاشی حالات متزلزل ہوگئے۔ ہم میں سے ہر شخص کی زندگی کلیۃً اپنے ہی معاشی وسائل پر منحصر ہوگئی اور وہ مجبور ہوگیا کہ اپنے مستقبل کی حفاظت کے لیے اسلام کے اصولوں کو چھوڑ کر سرمایہ داری کے اصولوں کی پیروی کرے۔ بینک میں روپیہ جمع کرائے’ انشورنس کمپنی میں بیمہ کرائے’ کواپریٹو سوسائٹی کا رکن بنےاور بوقت ضرورت سرمایہ دار اداروں سے سود پر قرض لے کر اپنی حاجت رفع کرے۔ بلاشبہ آج یہ سب کچھ ہمارے لیے ناگزیر ہوگیا ہے۔ مگر کیا ان حالات کو پیدا کرنے کی ذمہ داری اسلام پر ہے؟ اگر نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے’ اور ہم ان حالات میں صرف اس وجہ سے مبتلا ہوئے کہ جس معاشی نظام کی تعلیم اسلام نے ہم کو دی تھی’ اس کے ارکان میں سے ایک ایک کوہم نے منہدم کر ڈالا ہے’ تو کیا یہ جائز ہوگا کہ اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرکے جن معاشی مشکلات کو ہم نے خود اپنے لیے پیدا کیا ہے ان کا حل ہم اسلام ہی کے ایک اور قانون کی خلاف ورزی میں تلاش کریں’ اور پھر اسلام ہی سے مطالبہ کریں کہ وہ اس خلاف ورزی قانون کی ہم کو اجازت دے دے؟ آخر ہم کو کس نے زکوۃ کی تنظیم سے روکا ہے؟ امداد باہمی کی اسلامی تعلیم پر عامل ہونے سے کون ہم کو باز رکھتا ہے؟ اسلام کے قانون وراثت پر عمل کرنے میں کون سدِّ راہ ہے؟ سادگی’ پرہیزگاری اور کفایت شعاری کی زندگی بسر کرنے میں کون سا امر مانع ہے؟ کون ہم کو مجبور کر رہا ہے کہ اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلائیں اور مغربی تہذیب کے مسرفانہ لوازم کو اپنی ضروریاتِ زندگی میں داخل کرلیں؟ کسی نے ہم کو پابند کیا ہے کہ کسب معاش کے جائز ذرائع اختیار کرنے کے بجائے’ سرمایہ دار بننے کی ہوس میں حرام خوری کے طریقے اختیار کریں؟

کس نے ہمارے مال داروں کا ہاتھ پکڑ کر ان کو اپنے رشتہ داروں’ ہمسایوں’ دوستوں اور اپنی قوم کی بیواؤں ’ یتیموں’ معذوروں اور محتاجوں کی مدد کرنے سے روکا’ اور یورپ ’ امریکہ اور جاپان کے کارخانہ داروں کی طرف اپنی دولت پھینکنے پر مجبور کیا ہے؟ کس نے ہمارے متوسط اور قلیل المعاش لوگوں پر جبر کیا ہے کہ اپنی شادی اور غمی کی رسموں میں اپنی حد سے بڑھ کر خرچ کریں’ امیروں کی ریس کرنے میں اپنے معاشی وسائل سے بڑھ کر شان اور ٹھاٹھ جمائیں’ اور اپنی فضول خرچیوں کے لیے سودی قرض لیں۔ یہ سب افعال جو ہم اپنے اختیار سے کر رہے ہیں’ اسلام کی نگاہ میں جرائم ہیں۔ اگر آج ہم ان جرائم سے باز آجائیں اور اسلام کے معاشی نظام کو پھر سے قائم کرلیں تو ہماری وہ تمام معاشی مشکلات دور ہوسکتی ہیں جو ہم کو ایک دوسرے جرم یعنی سود کھانے اور کھلانے کے جرم پر مجبور کر رہی ہیں۔ مگر جب ہم ان جرائم سے باز نہیں آتے تو اس جرم کو بھی جرم سمجھ ہی کر کیوں نہ کریں جو ان جرائم کے نتیجہ کے طور پر پیدا ہوا ہے؟ جس شخص نے خود پاک اور طیب غذاؤں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو ایسے مقام پر پہنچایا ہے جہاں ناپاک چیزوں کے سوا کچھ کھانے کو نہیں ملتا’ وہ پیٹ بھر کر نجاست کھائے اور کھلائے’ مگر وہ اس نجاست کو پاک اور طیب قرار دینے پر کیوں اصرار کرتا ہے؟

پس جیسا کہ ہم ابتدا میں لکھ آئے ہیں سود لینے یا نہ لینے کی بحث تو ایک بعد کی بحث ہے’ سب سے پہلے تو آپ کو یہ طے کرنا چاہیے کہ اسلام کے معاشی نظام کی پیروی کرنی ہے یا سرمایہ داری نظام کی؟ اگر آپ پہلی صورت کو اختیار کرتے ہیں تو اس میں سودی لین دین کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش۔ کیونکہ اسلامی معیشت کا سارا کاروبار ان ادارات کے بغیر چلتا ہے جو سودی لین دین کرنے والے ہیں’ اور یہ نظام ان لوگوں کو مجرم سمجھتا ہے جو سودی کاروبار کرکے اس کے نظم کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ برعکس اس کے اگر آپ دوسری صورت اختیار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کا سرمایہ دارانہ نظمِ معیشت کو اختیار کرنا بحیثیت مجموعی اسلام کے خلاف ایک بغاوت ہے اور اس بغاوت کی حالت میں آپ کو اسلام کے معاشی قوانین میں سے وہ تمام قوانین توڑنے پڑیں گے جو اصول سرمایہ داری کے خلاف ہیں۔ اب آپ کی یہ خواہش کہ آپ قوانین اسلامی کی خلاف ورزی بھی کریں۔ نظام سرمایہ داری کی پیروی بھی کریں اور اسلام کی نظر میں گنہگار بھی نہ ہوں درحقیقت یہ معنی رکھتی ہے کہ اسلام کی پیروی چھوڑ کر آپ خود اسلام کو اپنا پیرو بنانا چاہتے ہیں اور آپ کی خواہش یہ ہے کہ وہ محض آپ کو اپنے دائرہ میں رکھنے کی خاطر اپنے اصول بدل کر سرمایہ دارانہ نظم معیشت کے اصول اختیار کرلے۔

Previous Chapter Next Chapter