ویسے تو سود کی یہی خباثت سب سے نمایاں ہے کہ یہ ازروئے قرآن و سنت بدترین قسم کا حرام کام ہے اور جب سود کو سرمایہ کاری کی اساس کے طور پر قبول کیا جائے تو اس کی خباثتیں اتنی سمتوں سے ظاہر ہوتی ہیں اور وہ اتنے اعتبارات سے انسان کی خوشحالی پر حملہ آور ہوتا ہے کہ ان کا انتہائی مختصر ذکر بھی (فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ) کا مفہوم سمجھانے کے لیے کافی ہے۔ذیل میں سود کی تباہ کاریوں کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے
محنت کی ناقدری اور سرمائے کی برتری
دنیا میں ہر کام کے لیے محنت اور سرمایہ لگانا پڑتا ہے خواہ اس کام کاتعلق صنعت و حرفت سے ہو یا زراعت و تجارت سے ۔پھر کوئی بھی کام ایسا نہیں جس میں نقصان کا خطرہ نہ ہو۔ لیکن سرمایہ دار سود کی وجہ سے ہمیشہ ایک لازمی اضافے کا حق دار قرار پاتاہے اور اسے کبھی نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔انسا نی محنت اگر ضا ئع بھی ہو جا ئے تب بھی سرمایہ دا ر اپنا سود چھو ڑ نے کو تیار نہیں ہو تا۔یہ صورتِ حال عقل ‘ منطق ‘ اخلاقیات غرض ہر اعتبار سے غیر منصفانہ ہے۔
تہذیب و تمدن کا قتل
بظاہر سودی نظام معاشی تعمیر و ترقی کا ذریعہ ہے لیکن سو دی نظا م کا عملی اطلا ق دراصل انسانیت پر سر مائے کی فوقیت کو تسلیم کرنے کا اعلان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی تہذیب میں شرا فت ،ہمدردی ‘ رزقِ حلال اور انسان کی قیمت گرتی جارہی ہے اور لالچ،حرص‘ لوٹ کھسوٹ اور فراڈ سب سے مؤ ثر اور توانا جذبے بنتے جا رہے ہیں ۔ بعض اوقات سودی قرض لینے والے کی تما م کما ئی ‘ وسا ئل‘ یہا ں تک کہ گھر اور گھر میں موجود ضروریاتِ زندگی پر بھی قبضہ کرلیا جاتا ہے۔ صورتِ حال اس سنگینی کو بھی پہنچ جاتی ہے کہ انسان خود کشی پر اوراپنے بھوک سے بلبلاتے بچوں کو اپنے ہاتھوں قتل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ لیکن خواہ کوئی ضرورت مند بیماری ‘ بھوک ‘ افلاس سے کراہ رہا ہو یا بیروزگار اپنی زندگی سے بیزار ہو ‘ سود خور کی شقاوت و سنگدلی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اسے صرف اپنے نفع سے غرض ہوتی ہے۔
دوسرے کی کما ئی پر اجارہ داری
سو د خور محض ما ل دے کر بغیر کسی محنت و مشقت کے دوسروں کی کما ئی کے ایک معین حصے میں شریک ہو جا تا ہے ۔ اس کا سرمایہ نہ صرف محفوظ بلکہ بڑ ھتا رہتا ہے جبکہ مقروض کو ملنے والا نفع بھی بعض اوقات طویل مد ت میں سود کی ادائیگی کی نذر ہو جا تا ہے ۔
خود غرضی و مفاد پرستی
سود خو ر کو چونکہ ایک مقررہ شرح پر سود ملتا ہے ‘چنا نچہ اسے کسی کا روبا ر کی ترقی یا مندی سے کو ئی دلچسپی نہیں ہو تی ۔ وہ انتہا ئی خو د غر ضی سے صرف اپنے منا فع پر نظر رکھتا ہے۔ اگر کبھی کسا د بازاری کا اندیشہ ہو تا ہے تو فو راً اپنا روپیہ کھینچ لیتا ہے اور قلتِ سر ما یہ کی وجہ سے پیداواری عمل پر منفی اثر ات مر تب ہوتے ہیں ۔ سودخور کی خودغرضی کی یہ انتہا ہے کہ اسے ملکی و قومی مفادات پر بھی ذاتی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ پاکستان پر اِس وقت کل بیرونی قرضہ 40 بلین ڈالر تک پہنچ چکاہے اور چند پاکستانیوں کی بیرونِ ملک بینکوں میں جمع شدہ رقم 100 بلین ڈالر سے زائد ہے۔مسلم ممالک پرکل بیرونی قرضہ اس وقت 700 بلین ڈالر ہے جبکہ مسلم ممالک کے امیر افرادکے 1000 بلین ڈالر سے زائد کا سرمایہ مغربی بینکوں میں رکھا ہواہے۔
سو د ی قرضہ ۔نقصا ن کا پیش خیمہ
دنیا کا کوئی کا روبا ر ایسا نہیں ہے جس میں خطرا ت نہ ہوں ‘ لیکن کسی کاروبا ر کے لیے سودی قرضہ لینا بذاتِ خود ایک بہت بڑا کا رو با ر ی خطر ہ ہے کہ جس میں لازماًایک مقررہ شرح پر سود ادا کر نا ہو تا ہے ‘ خواہ کا رو با ر میں منافع ہو یا نہ ہو۔
ناجائزمنا فع خو ری
سودی قر ضہ لے کر کیے جانے والے کاروبار میں نہ صرف سود بلکہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے وا لے دیگر خطرا ت اور ادا ئیگیوں کے لیے وسائل کی فر اہمی کو پیش نظر رکھتے ہوئے منافع کی شرح کو زیا دہ رکھا جا تاہے۔ اس سے ایسے لوگوں کو جو اس قسم کا کا رو با ر اپنے سرمائے سے کرتے ہیں ‘ حد سے زا ئد منا فع کما نے کا موقع میسر آجاتا ہے ۔
مہنگائی میں اضافہ
اشیاء کی قیمت کا تعین کرتے وقت دیگر اخراجات کے ساتھ سود کی ادائیگی اور سود کی وجہ سے دیگر خطرات کی پیش بندی کے لیے حد سے زیادہ منافع بھی شامل کیا جاتا ہے جس سے اشیاء کی مجموعی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر اشیاء کی تیاری کے لیے خام مال فراہم کرنے والے ‘ اشیاء تیار کرنے والے ‘ اشیاء کو مارکیٹ میں فراہم کرنے والے اور اشیاء کو مارکیٹ میں فروخت کرنے والے‘ سب ہی سودی قرضوں پر اپنے اپنے کام کر رہے ہوں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر سطح پر سود کی وجہ سے اشیاء کی قیمت میں کس قدر اضافہ ہوگا۔ مثلاً دسمبر1988ء میں پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ کا معاہدہ کیا۔ اس کی وجہ سے سودی قرضوں اور سود کی ادائیگیوں میں زبردست اضافہ ہوا‘ اور نتیجتاً قیمتوں میں 500 سے 700 گنا اضافہ ہوا۔
اشیاء کے کرائے میں اضافہ
سود کی وجہ سے ہر شے کے کرائے میں اضافہ ہوجاتا ہے خواہ وہ زمین‘ دکان‘ مشینری‘کارخانہ یا ذرائع حمل و نقل ہی ہوں ‘ کیونکہ ان سب کی مالیت میں سود شامل ہوتا ہے۔اس کے علاوہ شکست و ریخت کے اخراجات کے ساتھ ساتھ کرائے کے توسط سے بھی منافع کی سطح کو مزید اونچا رکھنے کی بنیاد فراہم ہوجاتی ہے۔
محنت کشوں کا استحصال
منافع کو اونچا رکھنے کے اقدامات میں سے ایک مزدوروں کو ان کا پورا معاوضہ نہ دینابھی ہے۔سود اور اس کی وجہ سے پیش آنے والے دیگر خطرات کی پیش بندی کے لیے کاروبار کے اکثر وسائل استعمال ہوجاتے ہیں۔نتیجتاًمزدو روں کو اُن کی محنت کی مناسبت سے معاوضہ کی ادائیگی نہیں کی جاتی ۔ مزدوروں میں کمی اور تنخواہوں میں کمی کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے۔
بے روزگاری میں اضافہ
یسویں صدی کے مشہور ماہر معاشیات پروفیسر کینز نے علمی سطح پر یہ ثابت کیا ہے کہ سود کے خاتمے کے بغیر بے روزگاری کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سود سرمائے کی صلاحیتِ کار کو بری طرح متاثر کرتاہے ۔سود اور اس کی وجہ سے پیش آنے والے دیگر خطرات کی پیش بندی کے لیے کم سے کم افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے جس سے بیروزگاری جنم لیتی ہے۔ بے روزگار لوگ جو روزگار میں لگائے جانے کے آرزومند ہوتے ہیں‘ انہیں روزی نہیں مل سکتی۔ ان میں سے ہر ایک میں سرمایہ حاصل کرکے چھوٹے کاروبار کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی یا چھوٹے کاروبار میں سود کے استحصالی بوجھ کو اٹھانے کی قوت نہیں ہوتی۔پھر چھوٹے کاروبار کے لیے سرمایہ دار بھی قرض دینے پر راضی نہیں ہوتا۔
اشیاء کی طلب میں کمی
سود کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اشیاء کی مانگ اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ قیمتوں کو صحیح سطح پر برقرار رکھنے سے ممکن ہوتی ہے۔ اس طرح طلب اور رسد کا توازن برقرار نہیں رہتا اور کساد بازار ی کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔
بچتوں اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات
سرمایہ کاری کا انحصار بچتوں پر ہے۔سود براہِ راست بچتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔سود کی وجہ سے قیمتوں میں ہونے والااضافہ لوگوں کی قوتِ خرید کو متأثر کرتا ہے‘ جس سے بچتوں کی شرح میں کمی واقع ہوتی ہے۔ چنانچہ پاکستان میں 1965 ء میں شرحِ سود 5 فیصد اور بچتوں کی شرح 13 فیصد تھی۔ اس کے برعکس 1985ء میں شرحِ سود 16 تا 17 فیصد جبکہ بچتوں کی شرح 5 فیصد تھی۔بچتوں میں کمی سے سرمایہ کاری پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
سرمائے کی کارکردگی پر برا اثر
سود سرمائے کی کارکردگی پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔ وہ چھوٹے کام جن میں سود کا بوجھ اٹھانے کی سکت کم ہوتی ہے وہ یا تو شروع ہی نہیں کیے جاسکتے یا شروع کرنے کے بعد نقصان اٹھاکر چھوڑنے پڑتے ہیں۔اس منفی اثر کا ہی نتیجہ ہے کہ بہت سے قدرتی وسائل کی تسخیر رک جاتی ہے۔
پیدا وار کی تحدید
منافع کی سطح کو سود کی سطح کے مطابق اونچا رکھنے کی وجہ سے کساد بازاری کا خطر ہ رہتا ہے۔اس خطرے کو ٹالنے کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اشیا ء کی پید اوار کو محدود کیا جائے۔اس مقصد کے لیے پیداوار کو اس سطح سے آگے نہیں بڑھنے نہیں دیا جاتا جس سے منافع کی بلند ترین سطح ممکن ہو سکے۔ امریکہ میں ہر سال اربوں ڈالر محض زرعی پیدا وار کو کم کرنے پر خرچ کیے جاتے ہیں ۔ چونکہ اتنی بڑی رقم فاضل نہیں ہوتی ‘چنانچہ یہ رقم سودی قرض پر حاصل کی جاتی ہے ۔انسانی محنت اور وسائل کے ضیاع کی اس سے زیاد ہ عبرتناک مثال شاید ہی کوئی اور ہو۔
سر مائے کی وافر فر اہمی کو روکنا
سر مایہ دارانہ نظام کو سب سے بڑا خطرہ اس بات سے ہو تا ہے کہ سر مایہ اس قدر وافر نہ ہو جائے کہ سود بہت کم یا ختم ہی ہو جائے۔ اس مقصدکے لیے کا حربہ اختیار کیا جاتا ہے۔جس قدر زیا دہ ہو گاسر مائے کی فراہمی اسی قدر محدود ہو گی ۔مزید یہ کہ بے روز گاری اور قیمتوں میں اضا فے سے بچتوں پر منفی اثر ہو تا ہے‘ جس سے سر مائے کی فرا ہمی ویسے ہی محدود ہوجاتی ہے ۔
حکو مت کے آمدنی سے زیادہ اخرا جا ت
سر ما یہ دا ر طبقہ اپنے مفا دات کے تحفظ کے لیے حکو متوں کوباور کراتاہے کہ کسا د بازاری میں اضافہ حکومت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ لہٰذا لوگوں کو رو ز گا ر مہیا کرنے اور ان کی قوتِ خرید بڑھانے کے لیے حکو مت کو اپنے اخراجات اپنی آمدنی سے زیادہ رکھنے چاہئیں ۔دنیا کی بیشتر حکو متیں ( بشمول پاکستان) سرمایہ داروں کے اس جال میں گرفتار ہیں۔ اس طرح بجٹ میں خسارے کی تلافی کے لیے انہی سرمایہ داروں سے مزید سودی قرضے لیے جاتے ہیں ‘جن کا بو جھ بھی بالآخر عوام کو برداشت کرنا پڑتاہے۔
افراد ‘ تعمیری اداروں او ر ملکی آمدنی کے کثیرحصے پر سر ما یہ داروں کاقبضہ
حکو متوں کو اپنے جا ل میں پھا نسنے کے بعدسر ما یہ دا ر طبقہ انہی حکو متوں کو اپنے استحکام کا ذریعہ بنا لیتا ہے ۔ یہ طبقہ نہ صرف افراد اور تعمیری ادا روں کی آمدنی کے ایک کثیرحصے کا مالک بن جا تا ہے بلکہ ملکی آمدنی کے اس کثیرحصہ پر بھی قابض ہو جا تا ہے جوقرضو ں پر سود کی شکل میں حکو متوں کو ادا کر نا پڑتاہے۔ اس طرح ہرسا ل کھر بوں رو پیہ قرض لیا جا تا ہے اور اربوں رو پیہ سود ادا کیا جا تا ہے ۔
ظالمانہ ٹیکسوں کا بوجھ
حکومت وسائل کی کمی کو پو را کر نے کی خاطر مختلف نوعیت کے ٹیکس عائد کرتی ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں سے ٹیکسوں اور لوٹی ہوئی دولت کی وصولی تو مشکل ہوتی ہے لیکن عام استعمال کی اشیاء پر ٹیکس لگا کر اورلازمی سہو لیا ت کی قیمتو ں میں اضا فہ کر کے وسائل کا حصو ل نسبتاً آ سا ن ہوتا ہے ۔ لہٰذا ٹیکسوں کا ظالمانہ بو جھ بھی عا م آدمی پر ڈا ل دیا جاتاہے۔
گردشِ دولت پر منفی اثرا ت
اس بات پر عمومی اتفاق ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے گردشِ دولت کے عمل کا بہترہو نا اور جاری رہنا ضرو ری ہے ۔ یعنی مر دہ ما ل کم سے کم ہونا چاہیے اور زندہ مال زیا دہ سے زیا دہ ۔مگر سود کے استحصا لی مظا ہر کی وجہ سے د ولت چند ہا تھو ں میں مقید ہو جاتی ہے ۔ سرمایہ دار اپنے ذاتی مفادات کوسامنے رکھتے ہوئے جب چاہتے ہیں سرمایہ مارکیٹ سے نکال لیتے ہیں‘ جس سے گر دشِ دولت کا عمل متأثر ہو تا ہے اور معاشی شرح افزا ئش پر منفی اثرا ت مر تب ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں معاشی شرحِ افزائش 1980ء میں 6.5فیصد تھی۔ 1988ء میں عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدہ ہوا جس کے بعد 1990ئمیں یہ شرح 4.6فیصد ہو گئی ۔اوراب عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ مزید تعاون کے نتیجے میں یہ شرح صرف 3.3 فیصدرہ گئی ہے۔
ملک و قوم کے لیے مفید کاموں کی حوصلہ شکنی
سودی معیشت میں ایسے کاموں کے لیے وسائل کی فراہمی مشکل ہو جاتی ہے جو اگرچہ ملک و قوم کے لیے کتنے ہی ضروری ہوں لیکن غیر پیداواری ہوں یاجو رائج الوقت شرحِ سود کا بوجھ نہ اٹھا سکتے ہوں۔ مثلاً تعلیم اور صحت کے شعبہ جات۔چنانچہ وفاقی بجٹ برائے سال 2003 – 2002ء میں تعلیم کے لیے بجٹ کا ایک فیصد ‘ صحت کے لیے 0.3فیصد اور سودی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 39فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔
اجتما عی بہبود پر تبا ہ کن اثرا ت
سودی معا شی نظا م میں سود خو ر و ں کی ایک قلیل تعدا د کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت ہو تی ہے۔ لوگوں کی غالب آمدنی پر ان کا قبضہ ہو تا ہے۔ملک و قوم کے بیشتر وسائل ان کے استعما ل میں ہو تے ہیں۔مارکیٹ میں سر ما ئے کی فر ا ہمی محض ان کے ہاتھو ں میں مقید ہو تی ہے۔ قیمتوں کا اتا ر چڑھا ؤ ان ہی کے رحم و کرم پر ہو تا ہے۔ یہ سب کچھ ایک عظیم اکثر یت کو خطرات میں ڈا ل کر‘ ان کی محنت و مشقت کے ثمرا ت کوغصب کر کے اور انھیں بنیا دی ضروریا ت کی فرا ہمی تک سے محروم کر کے حاصل کیا جا تا ہے۔ یو ں ایک عظیم اکثر یت کی بدحا لی کچھ لو گو ں کی خو شحا لی کا ذریعہ بنتی ہے ۔ بقول اقبال : ظاہر میں تجارت ہے ‘ حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا‘ لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات!
معا شر تی عدم استحکا م
سود کی متذکرہ بالا تباہ کاریوں کی وجہ سے غریب‘ غریب تر اور امیر‘ امیر تر ہو تے چلے جاتے ہیں ۔ بقول مولانا مناظر احسن گیلانی: ایک طرف دولت کا ورم ہوتا ہے اور دوسری طرف فقر کی لاغری۔معا شی استحصا ل کی وجہ سے ایک عظیم اکثر یت غر بت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو تی ہے ۔ اس غیر منصفانہ تقسیم دولت کی وجہ سے طبقاتی تقسیم پیدا ہوتی ہے ‘جو شدت اختیار کرکے ایک طبقا تی کشمکش کوجنم دیتی ہے۔ سود خو ر سر ما یہ دا روں اور عو ام النا س کے مفا د ات میں تضادا ت کی وجہ سے انتشا ر کی کیفیت پیدا ہو تی ہے جس سے ملک بدا منی کا شکا ر ہو جا تا ہے ۔ چوریاں ‘ ڈاکے ‘ اغوا ‘ قتل و غارت کے واقعات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔چنا نچہ ارجنٹائن میں بدامنی اور انتشا ر کی کیفیت اور امریکہ ‘ آسٹریلیا اور یو رپ میں عالمی ما لیا تی ادا روں کے خلاف زبردست اور پرتشددمظا ہر ے اسی بد امنی کا مُنہ بو لتا ثبو ت ہیں ۔
کمیو نزم کی مصیبت
سودی استحصا ل کے خلا ف جب محروم طبقا ت آوا ز اٹھا تے ہیں توسود خو ر انتہا ئی مسکین صورت اختیا ر کر لیتے ہیں اور منا فع کوجو کہ سود کے استحصا ل کا ظا ہری مظہر ہے‘ تمام معا شی برا ئیو ں کی جڑ کے طور پر آگے پیش کر دیتے ہیں ۔نتیجتاًسر ما یہ دا ر ی کے خلا ف ردّعمل سود کے خلا ف مؤ ثر اقدا م کے بجا ئے کمیونزم کی را ہ اختیا ر کر لیتا ہے جس میں منافع کو ختم کر نے کے لیے ہر قسم کی ذا تی ملکیت ختم کر دی جاتی ہے ۔تمام چیزیں بشمول زمین‘ مکان ‘ دکا نیں ،کا رخا نے وغیر ہ قو میا کر لیے جا تے ہیں ۔مگر لطیفہ یہ ہے کہ بینکو ں میں پڑی سود خوروں کی رقم نہ توقومیا ئی جا تی ہے اور نہ اس پر سود کی ادا ئیگی بند ہو تی ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رقمیں اگر ضبط کرلیں گے اور سود نہیں دیں گے تو بچتیں نہیں ہو سکیں گی۔ گو یا قصو ر سرمایہ دار کر تا ہے اور سزا سب انسا نو ں کو ملتی ہے اور انہیں ہر قسم کی فکری ‘ سیاسی اور شخصی آزادی سے محروم کرکے جبری مساوات کے شکنجے میں جکڑ دیا جاتا ہے۔
بین الاقوامی کشید گی میں اضافہ
ملک میں سود کی وجہ سے بڑھنے والی بے روز گاری کو ختم کر نے کے لیے مختلف ممالک برآمدات میں اضافے کی کوششیں کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کرنسی کی قدر میں کمی کا سہارا لیا جاتا ہے ‘تاکہ عالمی منڈی میں برآمدات کی قیمت دیگر ممالک کے مقا بلے میں کم کرکے بر آمدات میں اضافہ کیا جائے۔ مگر چونکہدیگر ممالک بھی اس عمل کوا ختیا ر کر نے کی کوشش کر تے ہیں ‘لہٰذا کوئی ملک اس سمت میں کامیابی حاصل نہیں کر پاتا ۔ اس کے نتیجے میں بسا اوقات مختلف ممالک کے در میان کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے جو بڑھ کر جنگ کی سی شدت اختیار کر لیتی ہے۔
عبرتناک بے بسی
سر ما یہ دارا نہ سودی نظا م سے متأثر ما ہر ین معا شیا ت موجودہ معا شی تبا ہ کا ر یو ں کا علا ج اور حل پیش کرنے سے قاصرہیں۔ سود کی پیدا کردہ تباہ کاریوں کا خاتمہ سود ختم کیے بغیر ممکن نہیں۔ مگر چو نکہ سود کو دور کر نا انہیں منظو ر نہیں‘ اسی لیے ٹھو کروں پر ٹھو کریں کھا تے چلے جا تے ہیں ۔ان کے تجویز کردہ بے روز گا ری کے تما م علا ج گر انی بڑ ھا نے وا لے اور گرا نی کے تمام علا ج بے روز گا ری بڑ ھا نے وا لے ہیں ۔ لہٰذا عصرِ حاضر کی معاشیات کے بڑے بڑے مسائل کے سامنے ماہرینِ معاشیات کی بے بسی قابلِ رحم بھی ہے اور عبرتناک بھی۔
سب سے بڑا خسارہ
شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے بقول دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ایک دو دھاری تلوار کی طرح انسانوں کا استحصال کرتی ہے۔اس سے انسانوں کی دنیا و آخرت دونوں ہی برباد ہوجاتی ہیں۔سرمایہ داروں کا طبقہ مالِ حرام پر عیش تو کرتا ہے لیکن روحانی سکون سے محروم ہوجاتا ہے اور عیش میں یادِ خدا اور فکرِ آخرت سے غافل رہتا ہے۔پھر حدیثِ نبوی ؐ کے مطابق حرام کمائی سے پلنے والا جسم جہنم ہی میں جانے کا حق دار ہے(مسند احمد)۔ دوسری طرف غریب کو ضروریاتِ زندگی کی فکرنہ صرف ہر وقت ستائے رکھتی ہے بلکہ آخرت کی تیاری سے بھی بیگانہ رکھتی ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ سکتی ہے کہ حدیثِ نبوی ؐ (کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَکُوْنُ کُفْرًا – قریب ہے کہ فقر ‘ کفر تک پہنچ جائے ) کے مصداق انسان کو مایوسی کفر تک لے جاتی ہے۔