حر متِ سود

احا دیث مبا رکہ کی روشنی میں

عَنْ جَا بِرٍ رضی اللہ عنہ : قَالَ : لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَہٗ وَکَاتِبَہٗ وَشَا ھِدَیْہِ وَقَالَ : ((ھُمْ سَوَاءٌ )) مسلم
حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے‘ کہتے ہیں کہ رسو ل اﷲﷺ نے لعنت فر ما ئی سود لینے اور کھا نے وا لے پر اور سود دینے اور کھلا نے وا لے پر اور اس کے لکھنے والے پر اور اس کے گوا ہو ں پر۔ اور آپ ؐ نے فر ما یا:’’(گنا ہ کی شرکت میں ) یہ سب برا بر ہیں‘‘۔

عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ ص رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : ((اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْبًا اَیْسَرُھَا اَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہٗ)) ابن ما جہ
حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ کہتے ہیں کہ اﷲ کے رسو لﷺ نے فر ما یا:’’سو د خوری کے گناہ کے ستر حصے ہیں۔ ان میں ادنیٰ اور معمو لی ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے‘‘۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ حَنْظَلَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : ((دِرْھَمٌ رِبًا یَّاْکُلُہُ الرَّجُلُ وَ ھُوَ یَعْلَمُ اَشَدُّ مِنْ سِتَّۃٍ وَّ ثَلَاثِیْنَ زَنْیَۃً)) مسند احمد
حضرت عبد اللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :’’ سود کاایک درہم جس کو آدمی جان بوجھ کر کھاتا ہے ‘چھتیس بارزنا سے زیادہ گناہ رکھتا ہے‘‘۔

عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ((اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ المُوْبِقَاتِ)) قَالُوْا: یَا رَسُولَ اﷲِ وَمَاھُنَّ ؟قَالَ: ((اَلشِّرْکُ بِاللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اﷲُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَکْلُ الرِّبَا وَاَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلاَتِ الْمُؤْمِنَاتِ)) (متفق علیہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے‘ کہتے ہیں کہ اﷲ کے رسو لﷺ نے فر ما یا:’’ سا ت مہلک اور تباہ کن گنا ہو ں سے بچو !‘‘صحابہ کرامؓ نے پوچھا :یا رسو ل اﷲ ؐ! وہ کو ن سے سات گنا ہ ہیں ؟آپ ؐ نے ارشاد فر ما یا :’’اﷲ کے سا تھ کسی کو شریک کر نا‘ اور جا دو کر نا‘اور ناحق کسی کو قتل کرنا‘اور سود کھا نا‘اور یتیم کا ما ل کھا نا‘اور (اپنی جا ن بچا نے کے لیے ) جہا د میں لشکر اسلا م کا سا تھ چھوڑ کر بھا گ جا نااور پا ک دا من بھو لی بھا لی مؤمن عورتوں پر زنا کی تہمت لگا نا ‘‘۔

عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : ((اَتَیْتُ لَیْلَۃَ اُسْرِیَ بِیْ عَلٰی قَوْمٍ بُطُوْنُھُمْ کَالْبُیُوْتِ فِیْھَا الْحَیَّاتُ تُرٰی مِنْ خَا رِجِ بُطُوْ نِھِمْ‘ فَقُلْتُ مَنْ ھٰؤُلَا ءِ یَا جِبْرَائیِْلُ ؟ قَالَ: ھٰؤُلَاءِ اَکَلَۃُ الرِّبَا)) (ابن ما جہ )
حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ کہتے ہیں کہ اﷲ کے رسو لﷺ نے فرمایا: ’’معراج کی رات میرا گزر ہوا ایک ایسے گروہ پر جن کے پیٹ گھروں کی طر ح تھے‘جن میں سانپ بھرے ہو ئے تھے جو باہر سے نظر آتے تھے۔میں نے پو چھا جبرا ئیل! یہ کون لو گ ہیں ؟ انہو ں نے بتلا یا یہ سود خو ر لو گ ہیں‘‘۔

عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ﷺ : ((رَأَیْتُ لَیْلَۃَ اُسْرِیَ بِیْ رَجُلاً یَسْبَحُ فِیْ نَھْرٍ وَیُلْقَمُ الْحِجَارَۃَ‘ فَسَاَلْتُ مَا ھٰذَا؟ فَقِیْلَ لِیْ: آکِلُ الرِّبَا))‘(مسند احمد
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘کہتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: ’’معرا ج کی رات میں نے دیکھا کہ ایک شخص نہر میں تیر رہا ہے اور اسے پتھروں سے مارا جا رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کیاہے؟ مجھے بتا یا گیا کہ یہ سو د کھانے والاہے‘‘۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : ((اِنَّ الرِّبَا وَاِنْ کَثُرَ فَاِنَّ عَاقِبَتَہٗ تَصِیْرُ اِلٰی قُلٍّ)) (ابن ما جہ ‘ مسند احمد
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘کہتے ہیں کہ رسو ل اﷲﷺ نے فر ما یا: ’’سود اگر چہ کتنا ہی زیا دہ ہو جا ئے لیکن اس کا آخری انجا م قلت اور کمی ہے‘‘۔

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ : ((لَیَاْتِیَنَّ عَلَی النَّا سِ زَمَانٌ لَّا یَبْقٰی مِنْھُمْ اَحَدٌ اِلَّا آکِلُ الرِّبَا‘ فَاِنْ لَّمْ یَاْ کُلْ اَصَا بَہٗ مِنْ غُبَارِہٖ)) (ابوداوٗد‘ ابن ما جہ
حضرت ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسو لﷺسے مروی ہے: ’’یقیناًلوگوں پرایک ایسا زمانہ آئے گاکہ کو ئی نہ بچے گا لیکن وہ سو د کھانے وا لا ہو گا‘ جو خود سود نہ کھا تا ہو گا تو اس کا غبا ر ضرور اُس کے اند رپہنچے گا۔‘‘

عَنْ عُبَادَۃ بْنِ الصَّامِتِص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : ((اَلذَّھَبُ بِالذَّھَبِ وَالْفِضَّۃُ بِالْفِضَّۃِ وَالْبُرُّ بِالْبِرِّ وَالشَّعِیْرُ بِالشَّعِیْرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلاً بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ یَدًا بِیَدٍ‘ فَاِذَا اخْتَلَفَتْ ھٰذِہِ الْاَصْنَافُ فَبِیْعُوا کَیْفَ شِءْتُمْ اِذَا کَانَ یَدًا بِیَدٍ)) ( مسلم)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’سونا سونے کے بدلے ‘ چاندی چاندی کے بدلے ‘ گندم گندم کے بدلے‘ جو جو کے بدلے‘ کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے برابر برابر اور نقد و نقد ہوں۔ جب یہ اصناف مختلف ہوں تو پھر نقد کی صورت میں جیسے چاہو تجارت کرو۔‘‘

اس حدیث طیبہ میں رسول اللہﷺ نے ان اشیاء میں کسی جنس کے باہمی تبادلے کی صورت میں برابر ہونے کی صراحت فرمائی۔ مزید تاکید پیدا کرنے کے لیے الفاظ کو تکرار کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ مثلاً مثل کی ’’سواءً بسواءٍ ‘‘کے ساتھ تاکید فرمائی ہے۔ کمی بیشی کی اجازت مختلف اصناف کی صورت میں دی ہے۔

فَمَنْ زَادَ اَوِ اسْتَزَادَ فَقَدْ اَرْبَی الْآخِذُ وَالْمُعْطِی فِیْہِ سَوَاءٌ)) (مسلم)
یہ چیزیں برابر برابر اور نقد ہوں ‘جس نے زیادہ دیا یا طلب کیایقیناًاس نے سود لیا‘ لینے اور دینے والا دونوں اس میں برابر ہیں۔

– حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان چھ چیزوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا

اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے پوری طرح وضاحت فرما دی کہ ان ربویات میں زائد طلب کرنے والا اور ادا کرنے والا دونوں سودی ہیں۔ربا الفضل کی حرمت کو ثابت کرنے والی احادیث صحیح مسلم کے علاوہ صحیح بخاری‘ سنن الترمذی‘ سنن النسائی‘ سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں بھی موجود ہیں۔ منکرین حدیث اور متجددین سے جب ان احادیث کا کوئی جواب نہیں بن پاتا تو وہ احادیث کی صراحت کو بعد کے راویوں کا اضافہ قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دعویٰ کی دلیل چاہیے جو کسی کے پاس نہیں ہے۔ جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ صحیح اور مرفوع احادیث ربا الفضل کی حرمت میں نص ہیں۔

Previous Chapter Next Chapter