روس میں اشتراکیت نے اپنا نظام قائم کرنے کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر ۔جیسے سخت ہو لناک ظلم کیے ،اور پھر اس انقلاب کی کامیابی نے دنیا کے ہر ملک میں طبقاتی جنگ کی سلگتی ہو ئی آگ پر جو تیل چھڑکا، اس نے تمام غیر اشتراکی ممالک کے اہل فکر کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ بے قید معیشت کے اصولوں اور طریقوں میں کیا ترمیم کریں جس سے محنت پیشہ طبقوں کی شکایات رفع ہوں اوران کا ملک اشتراکی انقلاب کے خطرے میں پڑ نے سے بچ جائے ۔اگر چہ بے قید معیشت کی برائیاں اسی وقت سے نمایاں ہو نی شروع ہو گئی تھیں جب سے جدید سرمایہ داری کا نظام قائم ہو ا۔اس پر تنقید برابر ہو تی رہی۔اس میں سطحی اورجزوی اصلاحات بھی کچھ نہ کچھ ہو تی رہیں۔لیکن تغیر ،ترمیم اور اصلاح کی ضرورت کا حقیقی احساس روسی اشتراکیت کے عمل،اثرات اور نتائج کو دیکھ کر ہی پیدا ہو ا،اور اس رد عمل نے نظام سرمایہ داری کے دو بڑے بڑے علاقوں میں دو مختلف صورتیں اختیار کیں۔
جن قوموں کے نظام زندگی کو جنگ عظیم اول نے بری طرح درہم برہم کر دیا تھا اور جنہیں اشتراکیت کی بھڑکائی ہو ئی طبقاتی جنگ سے کا مل تباہی کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا،اور جن کی سر زمین میں جمہوریت کی جڑیں کچھ مضبو ط بھی نہ تھیں۔ان کے ہاں فاشزم اور نازی ازم نے جنم لیا۔
جن قوموں میں جمہوریت مضبوط بنیادوں پر قائم تھی اور جن کےنظام زندگی میں جنگ نے کچھ بہت زیادہ خلل بھی نہیں ڈالا تھا انھوں نے اپنی پرانی وسیع المشرب جمہوری سر مایہ داری کو اس کی نظری بنیادوں پر قائم رکھتے ہو ئے صرف اس کی”بے قیدی” میں ایسی اصلاحات کرنے کی کو شش کی جس سے اس کے نقصانات دور ہو جائیں۔