نقصانات

کو ئی شک نہیں کہ بے قید معیشت سے جو بیماریاں پیدا ہو ئی تھیں ، اس آپریشن نے ان کا خوب ہی علاج کیا مگر روس کو اس کی کیا قیمت دینی پڑی؟ اور پچھلی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے دوسری کیا بیماریاں اس نے مول لیں؟ اب ذرا اس کا جائزہ بھی لے لیں:

(1) افراد کے قبضہ سے زمینوں،کارخانوں اور دوسرے ذرائع پیداوار کو نکا لنا اور ان ساری چیزوں کو اجتماعی ملک بنا دینا بہر حال کو ئی کھیل نہ تھا کہ بس ہنسی خوشی انجام پا گیا ہو ۔یہ ایک بہت ہی سخت کام تھاجو برسو ں تک مسلسل نہایت ہو لناک ظلم و ستم کرنے سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ہر شخص خود ہی قیاس کر سکتا ہے کہ آپ لاکھوں آدمیوں کو ان کی چھوٹی بڑی املاک سے زبردستی بے دخل کرنے پر تل جائیں تو وہ با آسانی آپ کے اس فیصلہ کے آگے سر تسلیم خم نہ کر دیں گے ۔ یہ کام جب بھی اور جہاں بھی ہو گا سخت کشت و خون ہو گا۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ اس اسکیم کو عمل میں لانے کے لیے تقریبا 19لا کھ آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا،20 لاکھ آد میوں کو مختلف قسم کی سزائیں دی گئیں،اور چالیس پچاس لاکھ آدمیوں کو ملک چھوڑ کر دنیا بھر میں تتر بتر ہو جانا پڑا۔صرف ایک اجتماعی زراعت کی اسکیم نافذ کرنے کے لیے لاکھوں چھوٹے چھوٹے اور متوسط زمینداروں (kulaks) کو جس بے دریغ طریقہ سے فنا کیا گیا اس پر تو خود روس کے پرجوش حامی بھی چیخ اٹھے۔

(2) جو لو گ تمام دنیا کے مسلم مذہبی،اخلاقی اور قانونی اصولوں کے مطابق اپنی املاک کے جائز مالک ہوں انہیں اگر آپ اپنی ایک خود ساختہ اور نرالی اسکیم نافذ کرنے کے لیے زبردستی ان کی ملکیتوں سے بے دخل کر نا چائيں گے تو لا محالہ آپ کو نہ صرف ان تمام مذہبوں اور اخلاقی اصولو ں کا،جو آپ کے نظریہ کے خلاف ہیں،انکار کرنا پڑے گا،بلکہ ملکتیتوں کے ساتھ ان کی بھی بیخ کنی اپنی ساری قوت لگا دینی ہو گی۔مزید برآں اپنی اس اسکیم کو ہر قسم کی بے دردی،شقادت،ظلم ،جھوٹ اور فریب سے نافذکرنے کے لیے آپ مجبور ہوں گے کہ سرے سے ایک نیا ہی نظریہ اخلاق وضع کریں جس کے تحت ہر ظلم و جبر اور ہو بے دردی اور سنگدلی کا ارتقاب جائز ہو ۔یہی وجہ ہے کہ اشتراکی لیڈروں اور کارکنوں نے اپنے پیش نظر انقلاب کو عمل میں لانے کے لیےخدا اور مذہب کے خلاف سخت پروپیگنڈا کیا،اور بو رژوا طبقہ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی طبقوں کو بھی بڑ ی سختی سے کچلا،اور اخلاق کا ایک نیا نظریہ پیدا کیا جو لینن کے الفاظ میں یہ ہے:
ہم ہر اس اخلاق کو رد کرتے ہیں جو عالم بالا کے کسی تصور پر مبنی ہو یا ایسے خیالات سے ماخود ہو جو طبقاتی تصورات سے ماوراء ہیں ۔ ہمارے نزدیک اخلاق قطعی اورکلی طور پر طبقاتی جنگ کا تابع ہے ۔ہر وہ چیز اخلاقا با لکل جائز ہے جو پرانے نفع اندوز اجتماعی نظام کو مٹانے کے لیےاور محنت پیشہ طبقوں کو متحد کر نے لیے ضروری ہے ۔ہمارا اخلاق بس یہ ہے کہ ہم خوب مضبو ط اور منظم ہوں اور نفع گیر طبقوں کے خلاف پورے شعور کے ساتھ جنگ کریں۔ہم یہ مانتے ہی نہیں کہ اخلاق کے کچھ ازلی و ابدی اصول بھی ہیں۔ہم اس فریب کا پردہ چاک کر کے رہیں گے ۔اشتراکی اخلاق اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مزدوروں کی مطلق العنان حکومت کو مضبوطی کے ساتھ قائم کرنے کے لیے جنگ کی جائے ۔
” نا گزیر ہےکہ اس کام میں ہر چال ۔فریب،غیر قانونی تد بیر،حیلے بہانے اور جھوٹ سے کام لیا جائے ۔”
یہ دوسری بھاری قیمت تھی جو سر زمین روس کو اشتراکی نظام کے لیے دینی پڑی۔یعنی صرف ایک کروڑ آدمیوں کی زندگی ہی نہیں،بلکہ اس کے ساتھ دین ،ایمان،اخلاق،انسانیت،شرافت اور وہ سب کچھ جو ایک انوکھی اسکیم کو جبر وظلم سے نافذ کرنے میں مانع تھا۔

(3)ہم خود اپنے ملک میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ جب ایک طرف عا لم اخلاق کے بند ڈ ھیلے ہو جاتے ہیں،اور دوسری طرف مختلف ضروریات زندگی پر سرکاری کنٹرول نافذ کر دیا جاتا ہے ،تو رشوت ،خیانت اور غبن کا سلسلہ بے تحاشا چل پڑتا ہے ۔زندگی کی جو ضرورت بھی پرمٹ ،لائسنس،راشن کارڈیا کوٹا ملنے پر موقوف ہو جاتی ہے اسی کے معاملے میں پبلک کو ہر طرح سے تنگ ہو نا پڑتا ہے اور سرکاری آدمیوں کے وارے نیارے ہو نے لگتے ہیں۔اب خود اندازہ کر لیجیے کہ جہاں ایک طرف سارے ہی اخلاقی مسلمات کی جڑین ہلا ڈالی گئی ہو ں اور اخلاق کا یہ اصول لو گو ں کے ذہین نشین کر دیا گیا ہو کہ جو کچھ مفید مطلب ہے وہی حق اور صدق ہے اور ملک کے رہنماؤں نے خود بد ترین ظلم و ستم کرکے اس نئے اخلاق کے شا ندار نمونے دکھا دئیے ہوں دوسری طرف جہاں ضرورت کی صرف چند چیزیں نہیں بلکہ ملک کی پوری معاشی دولت اور سارے وسائل زندگی سرکاری کنٹرول میں ہو ں،وہاں رشوت، خیانت ،غبن اورمروم آزادی کی کیسی کچھ گرم بازاری ہو گی۔یہ معاملہ صرف قیاس کی حد تک نہیں ہے ۔روس کے ” آہنی پردے”سے چھن چھن کر جو خبرین وقتا فوقتا با ہر آجاتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہاں عمال حکومت اور مختلف معاشی اداروں کے ارباب انتظام نے “بدکرداری” (corruption) کا ایک اچھا خاصاسخت مسئلہ پیدا کر دیا ہے ۔ در حقیقت وہاں اس مسئلے کا پیدا ہو نا قابل تعجب نہیں ہے بلکہ نہ ہو نا تعجب کے قابل ہو تا۔ایک نظام کو تم بد اخلاقی کے زور سے تو ڑ بھی سکتے ہو ،اور دوسرا نظام بد اخلاقی کے زور سے قائم بھی کر سکتے ہو ، لیکن کسی نئے نظام کو بد اخلا قی کے بل بو تے پر چلا لے جانا سخت مشکل ہے ۔اسے ٹھیک ٹھیک چلانے کے لیے بہر حال عمدہ او ر مضبو ط سیرت کے آدمیوں کی ضرورت ہے اوراس کا سانچہ تم خود پہلے ہی توڑ چکے ہو ۔

(4) انفرادی ملکیتو ں کو ختم کر کے اجتماعی ملکیت کے اصول پر ملک کے معاشی نظام کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے ليے سب سے بڑھ کر جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لوگو ں کے اند ر سے خود غرضی اور ذاتی نفع کی طلب نکال دی جائے اور ان صفات کی بجائے ان کے ذہین پر مجموعی بھلائی کے لیے کام کرنے کا جذبہ اتنا غالب کر دیا جائے کہ وہی ان کے اندر اصل محرک عمل بن جائے ۔اشتراکیوں کا دعوی یہ تھا کہ انسانی فطرت اور جبلت اور موروثی میلانا ت محض بو رژوافلسفہ و سائنس کے ڈھکو سلے ہیں۔اس نام کی کو ئی چیز انسان کے اندر موجو د نہیں ہے ۔ہم ذاتی نفع طلبی اور خود غرضی کے میلانات لوگو ں کے اندر سے نکال ڈالیں گے اور ماحو ل کے تغیر سے اجتماعی ذہینت ان میں پیدا کر دیں گے ۔ لیکن اس بے بنیاد دعوے کو عملی جامہ پہنانے میں اشتراکی حضرات قطعی ناکام ہو چکے ہیں۔وہ اپنے ملک کے عوام اور اپنے نظام معیشت و تمدن کے کا ر فرماؤں اور کارکنوں میں حقیقی اجتماعی ذہنیت اس مقدار سےایک ماشہ بھر بھی زیا دہ نہیں بڑ ھا سکے جتنی ہر سوسائٹی کے لوگو ں میں فطرۃ موجو د رہتی ہے ۔وہ ان کے اندر سے خو د غرضی و نفع طلبی کو نکال دینا تو درکنار اسے کم بھی نہ کر سکے ،بلکہ انہیں تھک ہار کر آخر کار اسے سیدھی طرح تسلیم کرنا پڑااور لو گو ں سے کام لینے کے لیے ان کی خود غرضی ہی کو اپیل کرنا پڑا۔اس حد تک تو خیر وہ بو رژوا نظام زندگی کے برابر رہے ۔مگر جس چیز نے ان کو بو رژوا نطام سے بھی زیا دہ خرابی میں مبتلاکیا وہ یہ ہے کہ جب انھوں نے افراد کی نفع طلبی کے لیے زراعت ، صنعت،تجارت اور دوسرے فائدہ مند کا روبار کے فطری راستے بند کر دئیے اور مصنوعی پروپیگنڈا کے ذریعہ سے اس نفع طلبی کے صاف اور سیدھے اور معقول مظاہر کو خوامخواہ معیوب ٹھہرا دیا تو یہ جذبہ اندر دب گیا، اور انسان کے تمام دوسرے دبے ہو ئے جذبات کی طرح اس نے بھی منحرف (pervert) ہو کر اپنے ظہو ر کے لیے ایسی غلط راہیں نکال لیں جو سوسائٹی کی جڑیں اندر ہی اندر کھوکھلی کر رہی ہیں ۔اشتراکی معاشرے میں رشوت،خیانت،چوری،غبن اور اسی طرح کی دوسری برائیوں کے بڑھنے میں اس چیز کابڑا دخل ہے ۔ وہا ں اگر کو ئی چیڑ ممنوع ہے تو صرف یہ کہ ایک آدمی اپنی کمائی ہو ئی دولت کو مزید دولت پیدا کرنے والے کسی کاروبار میں لگائے ۔اس کے سوا دولت کے سارے مصرف اسی طرح کھلے ہو ئے ہیں جس طرح ہماری سےسائٹی میں ہیں۔ایک آدمی اپنے لباس،خوراک،مکان ،سواری،فرنیچر،اور سامان عیش و عشرت تر جتنا چاہیے روپیہ خرچ کر سکتا ہے ،اپنا معیار زندگی جتنا چاہے بلند کر سکتا ہے عیا شی وخوش باشی کی وہ ساری ہی صورتیں دل کھول کر اختیار کر سکتا ہے جو مغربی سوسائٹی مباح ہیں۔اس لیے جو روپیہ بچے اسے جمع کر سکتا ہے ،اس جمع کردہ دولت کو(براہ راست خودتو نہیں مگر )حکومت کے ذریعہ سے کاروبار میں لگا سکتا ہے اور اس پر آٹھ دس فی صدی سا لانہ تک سود پا سکتا ہے ،اور جب مرنے لگے تو اس جمع شدہ دولت کو اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ سکتا ہے ۔

(5) اس قدر کشت و خون اور اکھیڑ پچھاڑ اور اتنے بڑے پیمانے پر دین و اخلاق اور انسانیت کی بربا دی جس غرض کے لیے برداشت کی گئی تھی وہ یہ تھی کہ اشیاء کی لا گت اور ان کی با زاری قیمت کے دومیان جو منافع صرف زمیندار اور کا ر خا نہ دار اور تاجر طبقے کھا جاتے ہیں وہ چند مخصوص طبقوں کی جیب میں جانے کی بجائے پوری سوسائٹی کے خزانے میں آئے اور سب پر برابری کے ساتھ یا کم از کم انصاف کے ساتھ تقسیم ہو ۔یہی انفرادی ملکیتوں کو ختم کرنے کی اصل غرض تھی اور یہی اگر حاصل ہو تی تو اسے اجتماعی ملکیتوں کا اصلی فائدہ کیا جا سکتا تھا۔مگر کیا واقعی یہ مقصد پو را ہو ا؟ ذرا تجربہ کر کے دیکھے کہ انفرادی ملکیتوں کو ختم کرنے سے زراعت ،صنعت اور تجارت کے جو منافع اجتماعی خزانے میں آ رہے ہیں وہ تقسیم کس طرح ہو تے ہیں۔

حکومت کے تمام شعبوں اور معاشی کا روبار کے تمام اداروں میں ادنی ملازمین اور اعلی عہد ہ داروں کے درمیان معا وضوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کسی بورژوا سو سا ئٹی میں پایا جاتا ہے ۔ ایک طرف عا م کا رکن کی تنخواہ اور اس کی زندگی کا معیار امریکہ اور انگلستان کے مزدوروں کی بہ نسبت بہت پست ہے اور ہندوستان و پا کستان کے معیار سے اگر کچھ اونچا ہے تو کچھ بہت زیادہ نہیں ۔ دوسری طرف ڈاکٹروں اور منیجروں اور حکومت کے عہدہ داروں اور فوجی افسروں اور ایکٹروں اور ایکٹر سو ں اور مصنفین و مولفین وغیرہ کی آمدنیاں بڑھتے بڑھتے گئی کئی لاکھ روبل سالانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ گویا اگر پو ری طرح نہیں تو ایک بڑی حد تک یہ تجارتی و صنعتی منافع اونچے اور نیچے طبقوں کے درمیان اسی نا مساوی طریقہ سے تقسیم ہو رہا ہے ۔جس طرح پہلے محنت پیشہ مز دوروں اور بورژوا لوگوں کے درمیان ہو تا تھا۔

پھر اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے محنت پیشہ عوام اور بورژوا لو گو ں کے درمیان نفرت اور بغض اور انتقام کی جو عالمگیر آگ بھڑ کا ئی گئی اس نے تمام دنیا کے غیر اشتراکی معا شروں کو روس کا مخالف بنا دیا اور اس بنا پر روس مجبور ہو گیا کہ انفرادی ملکیتو ں کو ختم کرکے جو تجارتی وصنعتی منافع اس نے بورژوا طبقوں کے ہا تھوں میں جانے سے بچایا تھا اس کا ایک بڑا حصہ جنگی تیا ریوں پر صرف کر دے۔
ان دو بڑی بڑی مدوں میں کھپ جانے کے بعد اس منا فعے کا جتنا حصہ محنت پیشہ عوام کے نصیب میں آیا ہے وہ بس وہی ہے جو ” سو شل انشو رنس ” کے کام میں صرف ہو تا ہے ۔اور کل منا فعے کے مقا بلہ میں اس کا تنا سب کیا ہے؟
انتہا ئی مبا لغہ کے ساتھ بمشکل ایک یا دو فیصدی۔

(1) سو شل انشورنس کا فنڈ روس میں جس طریقہ سے فراہم کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر ادارے کا نظم و نسق بحیثیت مجموعی جتنی رقم کا رکنوں کے معاوضہ پر صرف کرتا ہے اس کا دس فیصدی سے لے کر 20 فی صدی تک ایک حصہ اسے ایک مخصوص قاعدے کے مطابق سوشل انشورنس اسکیم کے حساب میں جمع کر دینا ہو تا ہے ۔اس طرح اوسطا تما م ملک کی تنخواہو ں اور مزدوروں کے مجموعہ کا 14 فی صدی حصہ کارکنوں کی اجتما عی بہتری پر صرف ہو رہا ہے ۔یہ مشکل ہی سے کل معاشی منافع کا ایک یا دو فی صدی حصہ بنتا ہے
سوال یہ ہے کہ اگر اتنا ہی کچھ ،بلکہ اس سے زیادہ اچھی طرح سے کسی اور طریقہ سے سو شل انشورنس کے لیے ملنے لگے تو پھر اس مار دھاڑ اور ظلم و ستم اور اس قربانی دین و اخلاق کے سا تھ انفرادی ملکیتیں ختم کرتے اور خواہ مخواہ اجتماعی ملکیت کا ایک مصنو عی نظام انسانی زندگی پر ٹھو نسنے کی آخر حا جت ہی کیا ہے ؟

(2) اجتماعی ملکیت،اجتماعی نظم و نسق اور اجتماعی منصوبہ بندی کو رائج کرنے کے لیے جان و مال اور مذہب و اخلاق اور انسانیت کی جو اکھٹی بر با دی روس کو برداشت کر نا پڑی وہ تو گو یا اس تجربے کے آغاز کی لاگت تھی۔مگر اب روبعمل آ جا نے کے بعد روزمرہ کی زندگی میں وہ اہل روس کو دے کیا رہا ہے اور ان سے لے کیا رہا ہے ؟ اس کا بھی ذرا موازنہ کر دیکھے ۔وہ جو کچھ انھیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ:

ہر شخص کے لیے کم از کم اتنے روزگار کا انتظام ہو گیا ہے جس سے وہ دو وقت کی روٹی اور تن ڈھانکنے کو کپڑا اور سر چھپانے کو جگہ پا سکے اوراجتماعی صور پر اس امر کا بھی انتظام ہو گیا ہے کہ برے وقت پر آدمی کو سہارا مل سکے ،بس یہی دو اصل فائدے ہیں جو اس نئے نظام نے باشندگان ملک کو دئیے ۔ اب دیکھے اس نے لیا کیا۔انفرادی ملکیت کی بجائے اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کرنے کے لیے ناگزیر تھا کہ یہ کام وہی پارٹی اپنے ہاتھ میں لے جو اس نظریہ کر لے کر اٹھی تھی،یعنی کمیونسٹ پارٹی__ اس پارٹی کا نظریہ خود بھی یہ تھا،اور خود اس کے کام کا تقاصا بھی یہی تھا کہ ایک زبردست ڈکٹیٹر شپ قائم ہو جو پو رے زور کے ساتھ انفرادی ملکیت کے نظام کو تو ڑ دے اور سخت ہا تھو ں سے نئے نظام کو رائج کر دے ،چنانچہ یہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہو گئی اور اس کو کارکنوں کی ڈکٹیٹر شپ کا نام دیا گیا۔لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ روس کے مزدوروں اور کاشت کا روں اور مختلف شعبائے زندگی کے کارکنوں کی ساری آبادی کمیونسٹ پا رٹی میں شامل نہیں ہے ۔شاید اس آبادی کے 5 فی صدی لو گ بھی پا رٹی کے ممبر نہ ہو ں گے۔پس ظاہر میں تو نام یہ ہے کہ یہ مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ ہے ۔مگر حقیقت میں یہ مزدوروں پر کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ ہے ۔

اور یہ ڈکٹیٹر شپ بھی کچھ ہلکی پھلکی سے نہیں،اجتماعی ملکیت کے معنی یہ ہیں کہ ملک کے تمام زمیندار ختم کر دئیے گئے اور ایک وحدہ لا شریک زمیندار سارے ملک کی زمین کا ما لک ہو گیا۔سارے کارخانہ دار اور تجاراور مستاجر بھی ختم ہو گئے اور ان سب کی جگہ ایسے سرمایہ دار نے لے لی جو ذرائع پیداوار کی ہر قسم اور ہر صورت پر قابض ہو گیا۔اور پھر اسی کے ہاتھ میں سارے ملک کی سیاسی طاقت بھی مرکو ز ہو گئی۔یہ ہے کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ۔اب اگر روس میں بظاہر آپ یہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اس پو ری معاشی،تمدنی اور سیاسی طاقت کو استعمال کر رہے ہیں وہ عام آبادی کے ووٹو ں ہی سے منتخب ہو ا کرتے ہیں تو کیا فی الواقع اس کے معنی جمہوریت کے ہیں؟سارے روس میں کس کی ہمت ہے کہ کمیونسٹ پا رٹی کے مقابلے میں دوٹ مانگنے کے لے اٹھ سکے ؟ اور اگر کو ئی جرات کرے بھی تو وہ سر زمین روس میں کھائے گا کہاں سے ؟ اور اپنی آواز اٹھائے گا کس پریس سے ؟ اور اپنی بات سنانے کے لیے ملک میں سفر کن ذرائع سے کرے گا؟ بلکہ یہ سب کرنے سے پہلےاس کو زندگی اور موت کا درمیانی فاصلہ طے کرنے میں دیر کتنی لگے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی ملکیت کے نظام میں حکو مت کے پاس اپنی طاقت جمع ہو جاتی ہے جو تاریخ انسان میں کبھی کسی چنگیز اور ہلاکو اور زار اور قیصر کے پاس بھی جمع نہیں ہو ئی تھی۔جو گر وہ ایک دفعہ اس طاقت پر قابض ہو جائے پھر اس کے مقابلہ میں اہل ملک بالکل بے بس ہو جا تے ہیں۔کسی قسم کی بگڑی ہو ئی حکومت کو بدل دینا اس قدر مشکل نہیں ہے جس قدر ایک بگڑی ہو ئی اشتراکی حکو مت کو بدلنا مشکل ہے ۔

اس نظام حکومت میں برسر اقتدار پا رٹی ملک کی مجموعی زندگی کے لیے جو منصوبہ (plan) بناتی ہے اسے کا میابی کے ساتھ چلانے کے لیے وہ پریس کو ، ریڈیو کو ،سینما کو ، مدرسے کو ،پوری انتظامی مشینری کو اور پو رے ملک کے معاشی کاروبار کو ایک خاص نقشے کے مطابق استعمال کرتی ہے ۔اس منصوبے کی کا میابی کا انحصار ہی اس پر ہے کہ تمام ملک میں سوچنے اور رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے والے دماغ صرف چند ہو ں جو مرکز میں بیٹھے منصوبہ بنا رہے ہیں ۔باقی سارا ملک صرف عملدرآمد کرنے والے دست و پا پر مشتمل ہو جو تعمیل ارشاد میں چوں چرا تک نہ کریں۔تنقید اور نکتہ چینی اور رائے زنی کرنے والوں کے لیے اس نظام میں جیل اور تختہ دار کے سوا اور کو ئی جگہ نہیں ہے ۔اور اگر ایسے دخل در معقولات دینے والے کو ملک بدر کر دیا جائے تو یہ گو یا اس کے ساتھ بڑی رعایت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ روس میں خود کمیونسٹ پارٹی کے بڑے بڑے سربرآوردہ کا رکنوں اور لیڈروں تک کو جن کی محنتو ں اور قابلیتوں ہی کی بدولت اشتراکی تجربہ کامیابی کی منزل تک پہنچا،موت اور حبس ددام اور جلا وطنی کی سزائیں دے ڈالی گئيں۔صرف اس لیے کہ انہوں نے برسر اقتدار گروہ سے اختلاف کی جرات کی تھی۔پھر یہ اشتراکی اخلاقیات کا طرفہ تماشا ہے کہ جس کو بھی اختلاف کے جرم میں پکڑا گیا اس پر طرح طرح کے الزامات بے تحاشا لگا دئیے گئے اور اشتراکی عدالتوں میں بھی یہ ایک حیرت انگیز کرامت پائی جاتی ہے کہ برسر اقتدار پا رٹی جس کو بھی ان کے سامنے ملزموں کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتی ہے وہ استغاثے کے عین منشا کے مطابق اپنے جرائم کی فہرست خود ہی فر فر سنا تا چلا جا تا ہے اور کچھ دبی زبان سے نہیں بلکہ پو رے زور شور کے ساتھ اعتراف کرتا ہے کہ وہ بڑا غدار اور سرما یہ داروں کا ایجنٹ،اور روس کی آستین کا سانپ ہے !پھر چونکہ یہ نظام انفرادی ملکیتو ں اور مذ ہبی طبقوں کو زبردستی کچل کر قا ئم کیا گیا ہے اور ابھی وہ سب دنیا سے اور خود روس کی سر زمین سے مٹ نہیں گئے ہیں جن کے جذبات و حسیات اور حقوق کی قبر پر یہ قصر تعمیر ہو ا ہے اس لیے کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹر شپ کو ہر وقت روس میں جوابی انقلاب کا خطرہ لگا رہتا ہے ۔علاوہ برین اشتراکی حضرات یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ ان کے انکار کے باوجو د انسا نی فطرت نام کی ایک چیز موجو د ہے جو انفرادی نفع طلبی کاجذ بہ رکھتی ہے ،اور وہ ہر وقت زور لگا رہی ہے کہ پھر انفرادی ملکیت کا نظام واپس آ جا ئے ۔انہی وجو دہ سے ایک طرف کمیونسٹ پا رٹی خو د اپنے نظام کو آئے دن “جلاب ” دیتی رہتی ہے تا کہ جن لو گو ں میں”رجعت “کی ذ را سی بو بھی پا ئی جائے انہیں صاف کیا جاتا رہے ۔[ صفائی ” کا عمل اب تک کمیونسٹ پا رٹی کے لاکھوں ممبروں پر ہو چکا ہے ۔روس میں اس عمل کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ ایک آدمی جو پارٹی کی رکنیت کے لیے موزوں نہیں ہے اسے پار ٹی سے نکال دیا جائے ،بلکہ اس عمل اخراج کے بعد شاذونادر ہی کو ئی خوش قسمت آدمی روسی خفیہ پو لیس کے عذاب خانوں (torture-chambers) میں جانے سے بچ سکا ہے اور ان عذاب خانوں سے باہر نکلنے کا راستہ بالعموم یا تو قبرستان کی طرف جاتا ہے یا پھر ان انسانی باڑوں (concentration camps) کی طرف جہاں جیتے جی آدمی کو جہنم کامزا چکھایا جا تا ہے ۔] اور دوسری طرف پا رٹی کی حکومت سارے ملک میں جوابی انقلاب کے خطرات،امکانات ،بلکہ شہبات اور وہم وگمان تک مٹا دینے کے لیے ہر وقت تلی ر ہتی ہے ۔اس نے جاسوسی کا ایک وسیع نظام قائم کر رکھا ہے جس کے لیے بے شمار کارکن ہر ادارے ،ہر گھر اور ہر مجمع میں “رجعت پسندوں ” کو سو نگھتے پھرتے ہیں۔اس جا سوسی کے پر اسرارجال نے شوہروں اور بیویوں تک کے درمیان شک وشبہ کی دیوار حائل کر دی ہے ۔حتی کہ ماں باپ کے خلاف خود ان کی اولاد تک سے جا سوسی کی خدمت لینے میں دریغ نہیں کیا گیا ہے ۔روس کی پو لیس اور سی آئی ڈی کا “محتاط “نظریہ یہ ہے کہ اگر بھول چوک سے چند سو یاچند ہزار بے گناہ آدمی پکڑے اور مار ڈالے جائیں تو یہ بہتر ہے کہ چند گنہگار چھوٹ جائیں اور ان کے ہاتھوں سے جوابی انقلاب برپا ہو جائے ۔اسی لیے وہ ہر فیکٹری ، ہر دکان، ہر دفتر اور ہر ادارے میں دیکھتے رہتے ہیں کہ کون سا مزدور یا کارکن ملک کے یا خود اپنے ادارے کے انتظام پرناک بھوں چڑھاتا ہے یا کسی قسم کی بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے ۔اس طرح کا کو ئی فعل کرنا تو درکنار،جس پر شبہ ہو جائے کہ وہ ایسے جراثیم رکھتا ہے وہ بھی اچانک گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔چونکہ یہ آئے دن کا معمول ہے اس لیے جب کو ‏ئی کارکن رات کر اپنے گھر نہیں پہنچتا تو اس کی بیوی خود ہی سمجھتی ہے کہ پکڑا گیا۔دوسرے دن وہ اس کی ضرورت کی چیزیں آپ ہی آپ پولیس کے دفترپہنچانی شروع کر دیتی ہے اور ان کاقبول کرلیا جا نا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس کا قیاس صحیح تھا۔وہ کو ئی سوال کرے تو دفتر کیطرف سے اسے کوئی جواب نہیں ملتا۔ایک روز یکا یک ایسا ہو تا ہے کہ اس کا بھیجا ہو ا پارسل واپس آ جاتا ہے ۔بس یہی اس امر کی اطلاع ہے کہ اس کا خاوند لینن کو پیارا ہو ا۔اب اگر وہ نیک بخت خود بھی اسی انجام سے دوچار ہو نا نہ چاہتی ہو تو اس کا فرض ہے کہ ایک اچھی کا مریڈنی کی طرح اس معاملہ کی بھاپ تک نہ منہ سے نکالے اور دوسرا کو ئی ایسا خاوند ڈ ھونڈے جو “رجعت پسندی” کے شبہ سے با لا تر ہو ۔

یہ ہے وہ قیمت جو دو و قت کی روٹی اور برے وقت کی دستگیر ی کے لیے اشتراکی روس کے با شندوں کو ادا کرنا پڑ رہی ہے ۔کیا واقع اس قیمت پر یا سود اسستا ہے ؟بلا شبہ ایک فا قہ کش آدمی بسا اوقات بھوک کی شدت سے اتنا مغلوب ہو جاتا ہے کہ وہ جیل کی زندگی کو اپنی مصیبت بھری آزادی پر ترجیح دینے لگتا ہے۔صرف اس لیےکہ وہاں کم از کم دو وقت کی روٹی،تن ڈھا نکنے کو کپڑا اور سر چھپانے کو جگہ تو نصیب ہو گی ۔مگر کیا اب پوری نو ع انسانی کے لیے فی الوقع یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے کہ اسے روٹی اور آزادی دونوں ایک ساتھ نہیں مل سکتیں؟ کیا روٹی ملنے کی اب یہی ایک صورت با قی وہ گئ ہے کہ ساری روئے زمین ایک جیل خانہ ہو اور چند کا مریڈز اس کے جیلر اور وارڈر ہوں؟

Previous Topic Next Chapter