سود کے تمدنی و اجتماعی نقصانات
اب تمدنی حیثیت سے دیکھیے۔ ایک ذرا سے غور و خوض سے یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں بآسانی آ سکتی ہے کہ جس معاشرے میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں’ کوئی اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے’ ایک کی حاجت مندی دوسرے کے لیے نفع اندوزی کا موقع بن جائے اور مال دار طبقوں کا مفاد نادار طبقوں کے مفاد کی ضد ہوجائے’ ایسا معاشرہ کبھی مستحکم نہیں ہوسکتا۔ اس کے اجزاء ہمیشہ انتشار و پراگندگی ہی کی طرف مائل رہیں گے۔اور اگر دوسرے اسباب بھی اس صورت حال کے لیے مددگار بن جائیں تو ایسے معاشرے کے اجزاء کا باہم متصادم ہوجانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس معاشرے کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو’ جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں’ جس میں ہر شخص دوسرے کی احتیاج کے موقع پر فراخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے’ اور جس میں مال دار لوگ نادار لوگوں کے ساتھ ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں’ ایسے معاشرے میں آپس کی محبت اور خیر خواہی اور دلچسپی نشوونما پائے گی۔ اس کے اجزاء ایک دوسرے کیساتھ پیوستہ اور ایک دوسرے کے پشتیبان ہوں گے۔ اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقعہ نہ مل سکے گا۔ اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار سے پہلے معاشرے کی بہ نسبت بہت زیادہ ہوگی۔
ایسا ہی حال بین الاقوامی تعلقات کا بھی ہے۔ ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ فیاضی و ہمدردی کا معاملہ کرے اور اس کی مصیبت کے وقت کھلے دل سے مدد کا ہاتھ بڑھائے۔ ممکن نہیں ہے کہ دوسری طرف سے اس کا جواب محبت اور شکر گزاری اور مخلصانہ خیر خواہی کے سوا کسی اور صورت میں ملے۔ اس کے برعکس وہی قوم اگر اپنی ہمسایہ قوم کے ساتھ خود غرضی و تنگ دلی کا برتاؤ کرے اور اس کی مشکلات کا ناجائز فائدہ اٹھائے’ تو ہوسکتا ہے کہ مال کی صورت میں وہ بہت کچھ نفع اس سے حاصل کرلے’ لیکن یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ پھر اپنے اس شائیلاک قسم کے ہمسایہ کے لیے اس قوم کے دل میں کوئی اخلاص اور محبت اور خیر خواہی باقی رہ جائے۔ ابھی کچھ زیادہ مدت نہیں گزری ہے’ پچھلی جنگ عظیم کے زمانہ کی بات ہے کہ انگلستان نے امریکہ سے ایک بھاری قرض کا معاملہ طے کیا جو (Bretton wood agreement)کے نام سے مشہور ہے۔ انگلستان چاہتا تھا کہ اس کا خوش حال دوست’ جو اس لڑائی میں اس کا رفیق تھا’ اسے بلا سود قرض دے دے۔ لیکن امریکہ سود چھوڑنے پر راضی نہ ہوا اور انگلستان اپنی مشکلات کی وجہ سے مجبور ہوگیا کہ سود دینا قبول کرے۔ اس کا جو اثر انگریزی قوم پر مرتب ہوا وہ ان تحریروں سے معلوم ہوسکتا ہے جو اس زمانے میں انگلستان کے مدبرین اور اخبار رنویسوں کی زبان اور قلم سے نکلیں۔ مشہور ماہر معاشیات لارڈ کینز آنجہانی’جنہوں نے انگلستان کی طرف سے یہ معاملہ طے کیا تھا’جب اپنے مشن کو پورا کرکے پلٹے تو انہوں نے برطانوی دارالامراء میں اس پر تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ‘‘میں تمام عمر اس رنج کو نہ بھولوں گا جو مجھے اس بات سےہوا کہ امریکہ نے ہم کو بلا سود قرض دینا گوارا نہ کیا۔’’ مسٹر چرچل جیسے زبردست امریکہ پسند شخص نے کہا کہ ‘‘یہ بنیے پن کا برتاؤ جو ہمارے ساتھ ہوا ہے’مجھے اس کی گہرائی میں بڑے خطرات نظر آتے ہیں۔سچی توبہ یہ ہے کہ اس کا ہمارے باہمی تعلقات پر بہت ہی برا اثر پڑا ہے’’۔اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر ڈالٹن نے پارلیمنٹ میں اس معاملے کو منظوری کے لیے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘یہ بھاری بوجھ جسے لادے ہوئے ہم جنگ سے نکل رہے ہیں ہماری ان قربانیوں اور جفاکشیوں کا بڑا ہی عجیب صلہ ہے جو ہم نے مشترک مقصد کے لیے برداشت کیں۔ اس نرالے ستم ظریفانہ انعام پر آئندہ زمانہ کے مورخین ہی کچھ بہتر رائے زنی کرسکیں گے۔ ہم نے درخواست کی تھی کہ ہم کو قرضِ حسن دیا جائے’ مگر جواب میں ہم سے کہا گیا کہ یہ عملی سیاست نہیں ہے۔’’
یہ سود کا فطری اثر اور اس کا لازمی نفسیاتی رد عمل ہے جو ہمیشہ ہر حال میں رونما ہوگا’ ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ یہ معاملہ کرے یا ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ۔ انگلستان کے لوگ یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے اور آج بھی وہ اسے نہیں مانتے کہ انفرادی معاملات میں سودی لین دین کوئی بری چیز ہے۔ آپ کسی انگریز سے بلا سودی قرض کی بات کریں وہ فوراً آپ کو جواب دے گا کہ جناب “یہ عملی کاروبار” (Practical Business) کا طریقہ نہیں ہے۔ لیکن جب اس کی قومی مصیبت کے موقع پر اس کی ہمسایہ قوم نے اس کے ساتھ یہ “عملی کاروبار” کا طریقہ برتا تو ہر انگریز چیخ اٹھا اور اس نے تمام دنیا کے سامنے اس حقیقت پر گواہی دی کہ سود دلوں کو پھاڑنے والی اور تعلقات کو خراب کرنے والی چیز ہے۔