سود کے معاشی نقصانات

اب اس کے معاشی پہلو پر نگاہ ڈالیے۔ سود کا تعلق معاشی زندگی کے ان معاملات سے ہے۔ جن میں کسی نہ کسی طور پر قرض کا لین دین ہوتا ہے۔ قرض مختلف اقسام کے ہوتے ہیں:۔
ایک قسم کے قرضے وہ ہیں جو حاجت مند لوگ اپنی ذاتی ضروریات کے لیے لیتے ہیں۔
دوسری قسم کے قرضے وہ ہیں جو تاجر اور صناع اور زمیندار اپنے نفع آور کاموں میں استعمال کرنے کے لیے لیتے ہیں۔
تیسری قسم ان قرضوں کی ہے جو حکومتیں اپنے اہل ملک سے لیتی ہیں اور ان کی نوعیتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ان میں سے بعض قرضے غیر نفع آور اغراض کے لیے ہوتے ہیں’ مثلاً وہ جو نہریں اور ریلیں اور برقِ آبی کی اسکیمیں جاری کرنے کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں۔
چوتھی قسم ان قرضوں کی ہے جو حکومتیں اپنی ضروریات کی خاطر غیر ممالک کے بازارِ زر سے لیتی ہیں۔
ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ لے کر ہم دیکھیں گے کہ اس پر سود عائد ہونے کے نقصانات کیا ہیں۔

اہل حاجت کے قرضے

دنیا میں سب سے بڑھ کر سود خواری اس کاروبار میں ہوتی ہے جو مہاجنی کاروبار (Money Lending Business)کہلاتا ہے۔ یہ بلا صرف بر عظیم ہند تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایک عالم گیر بلا ہے جس سے دنیا کا کوئی ملک بچا ہوا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی یہ انتظام نہیں ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو ان کی ہنگامی ضروریات کے لیے آسانی سے قرض مل جائے اور بلا سود نہیں تو کم از کم تجارتی شرح سود ہی پر نصیب ہوجائے۔ حکومت اسے اپنے فرائض سے خارج سمجھتی ہے۔ سوسائٹی کو اس ضرورت کا احساس نہیں۔ بینک صرف ان کاموں میں ہاتھ ڈالتے ہیں جن میں ہزاروں لاکھوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں اور ویسے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک قلیل المعاش آدمی کسی فوری ضرورت کے لیے بینک تک پہنچ سکے اور اس سے قرض حاصل کرسکے۔ ان وجوہ سے مزدور’ کسان’ چھوٹے کاروباری آدمی’ کم تنخواہوں والے ملازم اور عام غریب لوگ ہر ملک میں مجبور ہوتے ہیں کہ اپنے برے وقت پر ان مہاجنوں سے قرض لیں جو اپنی بستیوں کے قریب ہی ان کو گدھ کی طرح شکار کی طرح تلاش میں منڈلاتے ہوئے مل جاتے ہیں۔ اس کاروبار میں اتنی بھاری شرحِ سود رائج ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ سودی قرض کے جال میں پھنس جاتا ہے وہ پھر اس سے نہیں نکل سکتا’ بلکہ دادا کا لیا ہوا قرض پوتوں تک وراثت میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے اور اصل سے کئی گنا سود ادا کرچکنے پر بھی اصل قرض کی چٹان جوں کی توں آدمی کے سینے پر دھری رہتی ہے’ پھر بارہا ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر قرض دار کچھ مدت تک سود ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا تو چڑھے ہوئے سود کی رقم کو اصل میں شامل کرکے وہی مہاجن اپنا ہی قرض و سود وصول کرنے کے لیے اسی شخص کو ایک اور بڑا قرض زیادہ شرح سود پر دے دیتا ہے اور وہ غریب پہلے سے زیادہ زیر بار ہوجاتا ہے۔ انگلستان میں اس کاروبار کی کم سے کم شرح سود 48 فی صدی سالانہ ہے جو از روئے قانون دلوائی جاتی ہے۔ لیکن عام شرح جس پر وہاں یہ کاروبار چل رہا ہے 250 سے 400 فی صدی سالانہ تک ہے اور ایسی مثالیں بھی پائی گئی ہیں جن میں بارہ تیرہ سو فی صدی سالانہ پر معاملہ ہوا ہے۔ امریکہ میں مہاجنوں کے لیے قانونی شرح سود 30 سے 60 فی صدی سالانہ تک ہے’ لیکن ان کا عام کاروبار 100 سے 260 فی صدی تک سالانہ شرح پر ہورہا ہے اور بارہا یہ شرح 80 فی صدی تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ خود ہمارے اس بر عظیم میں بڑا ہی نیک طبع ہے وہ مہاجن جو کسی غریب کو 48 فی صدی سالانہ پر قرض دے دے’ ورنہ عام شرح 75 فی صدی سالانہ ہے جو بارہا 150 فی صدی تک بھی پہنچ جاتی ہے’ بلکہ 300 اور 350 فی صدی سالانہ شرح کی مثالیں بھی پائی گئی ہیں۔

یہ وہ بلائے عظیم ہے جس میں ہر ملک کے غریب اور متوسط الحال طبقوں کی بڑی اکثریت بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے قلیل المعاش کارکنوں کی آمدنی کا بڑا حصہ مہاجن لے جاتا ہے۔ شب و روز کی ان تھک محنت کے بعد جو تھوڑی سی تنخواہیں یا مزدوریاں ان کو ملتی ہیں ان میں سے سود ادا کرنے کے بعد ان کے پاس اتنا بھی نہیں بچتا کہ دو وقت کی روٹی چلا سکیں۔ یہ چیز صرف یہی نہیں کہ ان کے اخلاق کو بگاڑتی اور انہیں جرائم کی طرف دھکیلتی ہے’ اور صرف یہی نہیں کہ ان کے معیارِ زندگی کو پست اور ان کی اولاد کے معیارِ تعلیم و تربیت کو پست تر کردیتی ہے’ بلکہ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ دائمی فکر اور پریشانی ملک کے عام کارکنوں کی قابلیت کار کو بہت گھٹا دیتی ہے۔ اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی محنت کا پھل دوسرا لے اڑتا ہے تو اپنے کام سے ان کی دلچسپی ختم ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے سودی کاروبار کی یہ قسم صرف ایک ظلم ہی نہیں ہے بلکہ اس میں اجتماعی معیشت کا بھی بڑا بھاری نقصان ہے۔ یہ کیسی عجیب حماقت ہے کہ جو لوگ ایک قوم کے اصل عاملین پیدائش ہیں اور جن کی محنتوں ہی سے وہ ساری دولت پیدا ہوتی ہے جس پر قوم کی اجتماعی خوشحالی کا مدار ہے’ قوم ان پر بہت سی جونکیں مسلط کیے رکھتی ہے جو ان کا خون چوس چوس کر ان کو نڈھال کرتی رہتی ہیں۔ تم حساب لگاتے ہو کہ ملیریا سے اتنے لاکھ عملی گھنٹون کا نقصان ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے ملک کی معاشی پیداوار میں اتنی کمی واقع ہوتی ہے۔ اس بنا پر تم مچھروں پر پل پڑتے ہو اور ان کا قلع قمع کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ لیکن تم اس کا حساب نہیں لگاتے کہ تمہارے سود خوار مہاجن تمہارے لاکھوں کارکنوں کو کتنا پریشان’ کتنا بد دل اور کتنا افسردہ کرتے رہتے ہیں’ کس قدر ان کے جذبہ عمل کو سرد اور قوت کار کو کم کردیتے ہیں اور اس کا کتنا برا اثر تمہاری معاشی پیداوار پر مترتب ہوتا ہے۔ اس معاملہ میں تمہارے التفاتِ معکوس کا حال یہ ہے کہ تم مہاجنوں کا قلع قمع کرنے کے بجائے الٹا ان کے قرض داروں کو پکڑتے ہو اور جو خون مہاجن خود ان کے اندر سے نہیں سونت سکتا اسے تمہاری عدالتیں نچوڑ کر مہاجن کے حوالہ کردیتی ہیں۔ اس کا دوسر ا معاشی نقصان یہ ہے کہ اس طرح غریب طبقے کی رہی سہی قوت خریداری بھی سود خوار ساہوکار چھین لے جاتا ہے۔ لاکھوں آدمیوں کی بے روزگاری’ اور کروڑوں آدمیوں کی ناکافی آمدنی پہلے ہی تجارت و صنعت کے فروغ میں مانع تھی اس پر تم نے اچھی آمدنیاں رکھنے والوں کو یہ راستہ دکھایا کہ وہ خرچ نہ کریں بلکہ زیادہ سے زیادہ رقم پس انداز کیا کریں۔ اس سے کاروبار کو ایک نقصان اور پہنچا۔ اب اس سب پر مستزاد یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں غریب آدمیوں کا ناکافی تنخواہوں اور مزدوریوں کی شکل میں جو تھوڑی بہت قوت خریدار حاصل ہو جاتی ہے اس کو بھی وہ اپنی ضروریات زندگی خریدنے میں استعمال نہیں کرنے پاتے’ بلکہ اس کا ایک بڑا حصہ ساہوکار ان سے چھین لیتا ہے اور اس کو اشیاء اور خدمات کی خریداری پر صرف کرنے کے بجائے سوسائٹی کے سر پر مزید سود طلب قرض چڑھانے میں استعمال کرتا ہے۔ ذرا حساب لگا کر دیکھیے۔ اگر دنیا میں 5 کروڑ آدمی بھی ایسے مہاجنوں کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں’ اور وہ اوسطاً دس روپے مہینہ سود ادا کر رہے ہیں’ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر مہینے 50 کروڑ روپے کا مال فروخت ہونے سے رہ جاتا ہے اور اتنی بھاری رقم معاشی پیداوار کی طرف پلٹنے کے بجائے مزید سودی قرضوں کی تخلیق میں ماہ بماہ صرف ہوتی رہتی ہے

کاروباری قرض

اب دیکھیے کہ جو قرض تجارت و صنعت اور دوسری کاروباری اغراض کے لیے لیا جاتا ہے اس پر سود کو جائز قرار دینے کے معاشی نقصانات کیا ہیں۔ صنعت’ تجارت’ زراعت اور دوسرے تمام معاشی کاموں کی بہتری یہ چاہتی ہے کہ جتنے لوگ بھی کسی کاروبار کے چلانے میں کسی طور پر حصہ لے رہے ہوں ان سب کے مفاد’ اغراض اور دلچسپیاں اس کام کے فروغ سے وابستہ ہوں۔ اس کا نقصان سب کا نقصان ہو تاکہ وہ اس کے خطرے سے بچنے کی مشترک سعی کریں اور اس کا فائدہ سب کا فائدہ ہو تاکہ وہ اس کو بڑھانے میں اپنی پوری طاقت صرف کردیں۔ اس لحاظ سے معاشی مفاد کا تقاضا یہ تھا کہ جو لوگ کاروبار میں دماغی یا جسمانی کارکن کی حیثیت سے نہیں بلکہ صرف سرمایہ فراہم کرنے والے فریق کی حیثیت سے شریک ہوں۔ ان کی شرکت بھی اسی نوعیت کی ہو تاکہ وہ کاروبار کی بھلائی برائی سے وابستہ ہوں اور وہ اس کے فروغ میں اور اس کو نقصان سے بچانے میں پوری دلچسپی لیں۔ مگر جب قانون نے سود کو جائز کردیا

_______________________

اس جگہ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1945 ءمیں قبل تقسیم کے ہندوستان کے متعلق اندازہ کیا گیا تھا کہ اس ملک کے مہاجنی قرضے کم از کم دس ارب روپے تک پہنچے ہوئے تھے۔ یہ صرف ایک ملک کا حال ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ساری دنیا میں اس نوعیت کے قرضوں کی مجموعی مقدار کیا ہوگی اور جو شرح سود اس کاروبار میں رائج ہے اس کے لحاظ سے ماہانہ کس قدر سود مہاجنوں کے پاس پہنچتا ہوگا۔

تو صاحبِ سرمایہ لوگوں کے لیے یہ راستہ کھل گیا کہ وہ اپنا سرمایہ شریک اور حصہ دار کی حیثیت سے کاروبار میں لگانے کے بجائے دائن کی حیثیت سے بصورت قرض دیں اور اس پر ایک مقرر شرح کے مطابق اپنا منافع وصول کرتے رہیں۔ اس طرح سوسائٹی کے معاشی عمل میں ایک ایسا نرالا غیر فطری عامل آ کر مل جاتا ہے جو تمام عاملین پیدائش کے برعکس اس پورے عمل کی بھلائی برائی سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس عمل میں نقصان آ رہا ہو تو سب کے لیے خطرہ ہے مگر اس کے لیے نفع کی گارنٹی ہے’ اس لیے سب تو نقصان کو روکنے کی کوشش کریں گے’ مگر یہ اس وقت تک فکر مند نہ ہوگا جب تک کہ کاروبار کا بالکل ہی دیوالہ نہ نکلنے لگے۔ نقصان کے موقعہ پر یہ کاروبار کو بچانے کے لیے مدد کو نہیں دوڑے گا بلکہ اپنے مالی مفاد کو بچانے کے لیے اپنا دیا ہوا روپیہ بھی کھینچ لینا چاہے گا۔ اسی طرح معاشی پیداوار کے عمل کو فروغ دینے سے بھی براہ راست اسے کوئی دلچسپی نہ ہوگی۔ کیونکہ اس کا نفع تو بہرحال مقرر ہے’ پھر آخر وہ کیوں اس کام کی ترقی و کامیابی کے لیے اپنا سر کھپائے! غرض سوسائٹی کے نفع اور نقصان سے بے تعلق ہوکر یہ عجیب قسم کا معاشی عامل الگ بیٹھا ہوا صرف اپنے سرمایہ کو “کرایہ” پر چلاتا رہتا ہے اور بے کھٹکے اپنا مقرر کرایہ وصول کرتا رہتا ہے۔

اس غلط طریقہ نے سرمایہ اور کاروبار کے درمیان رفاقت اور ہمدردانہ تعاون کے بجائے ایک بہت ہی بری طرح کا خود غرضانہ تعلق قائم کردیا ہے۔ جو لوگ بھی روپیہ جمع کرنے اور معاشی پیداوار کے کام پر لگانے کے مواقع رکھتے ہیں وہ اس روپے سے نہ خود کوئی کاروبار کرتے ہیں نہ کاروبار کرنے والوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں’ بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کا روپیہ ایک مقرر منافع کی ضامن کے ساتھ قرض کے طور پر کام میں لگے’ اور پھر وہ مقرر منافع بھی زیادہ سے زیادہ شرح پر ہو۔ اس کے بے شمار نقصانات میں سے چند نمایاں ترین یہ ہیں:۔

۔سرمایہ کا ایک معتدبہ حصہ’ اور بسا اوقات بڑا حصہ’ محض شرح سود چڑھنے کے انتظار میں رکا پڑا رہتا ہے او ر کسی مفید کام میں نہیں لگتا باوجودیکہ قابل استعمال وسائل بھی دنیا میں موجود ہوتے ہیں۔ روزگار کے طالب آدمی بھی کثرت سے مارے پھر رہے ہوتے ہیں اور اشیاء ضرورت کی مانگ بھی موجود ہوتی ہے لیکن یہ سب کچھ ہوتے ہوئے نہ وسائل استعمال ہوتے ہیں’ نہ آدمی کام پر لگتے ہیں اور نہ منڈیوں میں حقیقی طلب کے مطابق مال کی کھپت ہوتی ہے’ صرف اس لیے کہ سرمایہ دار جس شرح سے فائدہ لینا چاہتا ہے اس کے ملنے کی اسے توقع نہیں ہوتی اور اس بنا پر وہ کام میں لگانے کے لیے روپیہ نہیں دیتا۔

زیادہ شرحِ سود کا لالچ وہ چیز ہے جس کی بنا پر سرمایہ دار طبقہ کاروبار کی طرف سرمایہ کے بہاؤ کو خود کاروبار کی حقیقی ضرورت اور طبعی مانگ کے مطابق نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لحاظ سے روکتا اور کھولتا رہتا ہے۔ اس کا نقصان کچھ اسی طرح کا ہے جیسے کوئی نہر کا مالک کھیتوں اور باغوں کی مانگ اور ضرورت کے مطابق پانی نہ کھولے اور نہ بند کرے’ بلکہ اپنے پانی کے کھولنے اور بند کرنے کا ضابطہ یہ بنا لے کہ جب پانی کی ضرورت نہ ہو تو وہ بے تحاشا پانی بڑے سستے داموں چھوڑنے کے لیے تیار ہوجائے اور جوں ہی کہ پانی کی مانگ بڑھنی شروع ہو وہ اس کے ساتھ ساتھ پانی کی قیمت چڑھاتا چلا جائے یہاں تک کہ اس قیمت پر پانی لے کر کھیتوں اور باغوں میں لگانا کچھ بھی نفع بخش نہ رہے۔

سود اور اس کی شرح ہی وہ چیز ہے جس کی بدولت تجارت و صنعت کا نظام ایک ہموار طریقہ سے چلنے کے بجائے تجارتی چکر (Trade cycle)کی اس بیماری میں مبتلا ہوتا ہے جس میں اس پر بار بار کساد بازاری کے دورے پڑتے ہیں۔ اس کی تشریح ہم پہلے کر چکے ہیں اس لیے یہاں اس کے اعادے کی ضرورت نہیں۔

۔ پھر یہ بھی اسی کا کرشمہ ہے کہ سرمایہ ان کاموں کی طرف جانے کے لیے راضی نہیں ہوتا جو مصالح عامہ کے لیے مفید اور ضروری ہیں مگر مالی لحاظ سے اتنے نفع بخش نہیں ہیں کہ بازار کی شرح سود کے مطابق فائدہ دے سکیں۔ اس کے برعکس وہ غیر ضروری مگر زیادہ نفع آور کاموں کی طرف بہہ نکلتا ہے اور ادھر بھی وہ کارکنوں کو مجبور کرتا ہے کہ شرح سود سے زیادہ کمانے کے لیے ہر طرح کے بھلے اور برے اور صحیح و غلط طریقے استعمال کریں۔ اس نقصان کی تشریح بھی ہم پہلے کر آئے ہیں اس لیے اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔

سرمایہ دار لمبی مدت کے لیے سرمایہ دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں’ کیونکہ ایک طرف وہ سٹہ بازی کے لیے اچھا خاصہ سرمایہ ہر وقت اپنے پاس قابل استعمال رکھنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف انہیں یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ اگر آئندہ کبھی شرح سود زیادہ چڑھی تو ہم اس وقت کم سود پر زیادہ سرمایہ پھنسا دینے سے نقصان میں رہیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل صنعت و حرفت بھی اپنے سارے کاروبار میں تنگ نظری و کم حوصلگی کا طریقہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور مستقل بہتری کے لیے کچھ کرنے کے بجائے بس چلتا کام کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ مثلاً ایسے قلیل المدت سرمایہ کو لے کر ان کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ اپنی صنعت کے لیے جدید ترین آلات اور مشینیں خریدنے پر کوئی بڑی رقم خرچ کردیں۔ بلکہ وہ پرانی مشینوں ہی کو گھس گھس کر بھلا برا مال مارکیٹ میں پھینکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تاکہ قرض و سود ادا کرسکیں اور کچھ اپنا منافع بھی پیدا کرلیں۔ اسی طرح یہ بھی ان قلیل المدت قرضوں ہی کی برکت ہے کہ منڈی سے مال کی مانگ کم آتے دیکھ کر فوراً ہی کارخانہ دار مال کی پیداوار گھٹا دیتا ہے اور ذرا سی دیر کے لیے بھی پیداوار کی رفتار کو علیٰ حالہ برقرار رکھنے کی ہمت نہیں کرسکتا’ کیونکہ اسے خطرہ ہوتا ہے کہ اگر بازار میں مال کی قیمت گر گئی تو وہ پھر بالکل دیوالہ کی سرحد پر ہوگا۔

پھر جو سرمایہ بڑی صنعتی و تجارتی اسکیموں کے لیے لمبی مدت کے واسطے ملتا ہے اس پر بھی ایک خاص شرح کے مطابق سود عائد ہونا بڑے نقصانات کا موجب ہوتا ہے۔ اس طرح کے قرضے بالعموم دس’ بیس یا تیس سال کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں اور اس پوری مدت کے لیے ابتداء ہی میں ایک خاص فی صدی سالانہ شرح سود طے ہوجاتی ہے۔ اس شرح کا تعین کرتے وقت کوئی لحاظ اس امر کا نہیں کیا جاتا اور جب تک فریقین کو علم غیب نہ ہو کیا جا بھی نہیں سکتا’ کہ آئندہ دس بیس یا تیس سال کے دوران میں قیمتون کا اتار چڑھاؤ کیا شکل اختیار کرے گا اور قرض لینے والے کے لیے نفع کے امکانات کس حد تک کم یا زیادہ ہوں گے یا بالکل نہ رہیں گے۔ فرض کیجیے 1049ء میں ایک شخص نے 20 سال کے لیے 7 فی صدی شرح سود پر ایک بھاری قرض حاصل کیا اور اس سے کوئی بڑا کام شروع کردیا۔ اب وہ مجبور ہے کہ 69ء تک ہر سال باقاعدگی کے ساتھ اس حساب سے اصل کی اقساط اور سود ادا کرتا رہے جو 49ء میں طے ہوا تھا لیکن اگر 55ء تک پہنچتے پہنچتےقیمتیں گر کر اس وقت کے نرخ سے آدھی رہ گئی ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ شخص جب تک آغازِ معاہدہ کے زمانے کی بہ نسبت اس وقت دوگنا مال نہ بیچے وہ نہ اس رقم کا سودا کر سکتا ہے اور نہ قسط۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے اس ارزانی کے دور میں یا تو اس قسم کے اکثر قرض داروں کے دیوالے نکل جائیں’ یا وہ دیوالے سے بچنے کے لیے معاشی نظام کو خراب کرنے والی ناجائز حرکات میں سے کوئی حرکت کریں۔ اس معاملہ پر اگر غور کیا جائے تو کسی معقول آدمی کو اس امر میں کوئی شک نہ رہے گا کہ مختلف زمانوں میں چڑھتی اور گرتی ہوئی قیمتوں کے درمیان قرض دینے والے سرمایہ دار کا وہ منافع جو تمام زمانوں میں یکساں رہے نہ انصاف ہے اور نہ معاشیات کے اصولوں ہی کے لحاظ سے اس کو کسی طرح درست اور اجتماعی خوش حالی میں مددگار ثابت کیا جا سکتا ہے۔ کیا دنیا میں کہیں آپ نے یہ سنا ہے کہ کوئی کمپنی جو اشیاء ضرورت میں سے کسی چیز کی فراہمی کا ٹھیکہ لے رہی ہو’ یہ معاہدہ کرلے کہ وہ آئندہ تیس سال یا بیس سال تک یہ چیز اسی قیمت پر خریدار کو مہیا کرتی رہے گی؟ اگر یہ کسی لمبی مدت کے سودے میں ممکن نہیں ہے تو آخر صرف سودی قرض دینے والا سرمایہ دار ہی وہ انوکھا سوداگر کیوں ہو جو برس ہا برس کی مدت کیلیے اپنے قرض کی قیمت پیشگی طے کرلے اور وہی وصول کرتا چلا جائے۔

حکومتوں کے ملکی قرضے

اب ان قرضوں کو لیجیے جو حکومتیں ضروریات اور مصالح کے لیے خود اپنے ملک کے لوگوں سے لیتی ہیں۔ ان میں سے ایک قسم وہ ہے جو غیر نفع آور کاموں کے لیے لی جاتی ہے’ اور دوسری قسم وہ جو نفع آور کاموں میں لگائی جاتی ہے۔
پہلی قسم کے قرضوں پر سود اپنی نوعیت کے لحاظ سے وہی معنی رکھتا ہے جو اہلِ حاجت افراد کے ذاتی قرضوں پر سود کی نوعیت ہے بلکہ درحقیقت یہ اس سے بھی بدترچیز ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص جس کو ایک معاشرے نے جنم دیا’ پالا’ پوسا اس قابل بنایا کہ وہ کچھ کما سکے’ خطرات سے اس کی حفاظت کی’ نقصانات سے اس کو بچایا اور معاشرے کے تمدنی و سیاسی اور معاشی نظام نے ان تمام خدمات کا انتظام کیا جن کی بدولت وہ امن سے بیٹھا اپنا کاروبار چلا رہا ہے’ وہ اسی معاشرے کو ان ضرورتوں کے موقعہ پر جن میں کسی مالی نفع کا کوئی سوال نہیں ہے اور جن کے پورا ہونے سے سب لوگوں کے ساتھ خود اس شخص کا مفاد بھی وابستہ ہے’ بلا سود روپیہ قرض دینے پر آمادہ نہیں ہوتا اور خود اپنے مربی معاشرے سے کہتا ہے کہ تو چاہے اس روپے سے نفع کمائے یا نہ کمائے مگر میں تو اپنی رقم کا اتنا معاوضہ سالانہ ضرور لیتا رہوں گا۔

یہ معاملہ اس وقت اور بھی زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جب کہ قوم کو جنگ پیش آئے اور سب کے ساتھ خود اس سرمایہ دار فرزندِ قوم کی اپنی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کا سوال بھی درپیش ہو۔ ایسے موقع پر جو کچھ بھی قومی خزانے سے خرچ ہوتا ہے وہ کسی کاروبار میں نہیں لگتا بلکہ آگ میں پھونک دیا جاتا ہے۔ اس میں منافع کا کیا سوال؟ اور یہ خرچ اس کام میں ہوتا ہے جس کی کامیابی و ناکامی پر ساری قوم کے ساتھ خود اس شخص کی اپنی موت و زیست کا بھی انحصار ہے اور اس کام میں قوم کے دوسرے لوگ اپنی جانیں اور وقت اور محنت سب کچھ کھپا رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی یہ سوال نہیں کرتا کہ قومی دفاع کے لیے جو حصہ میں ادا کر رہا ہوں اس پر کتنا منافع سالانہ مجھ کو ملتا رہے گا؟ مگر پوری قوم میں سے صرف ایک سرمایہ دار ہی ایسا نکلتا ہے جو اپنا مال دینے سے پہلے یہ شرط کرتا ہے کہ مجھے ہر سو روپے پر اتنا منافع ہر سال ملنا چاہیے’ اور میرا یہ منافع اس وقت تک ملے جانا چاہیے جب تک ساری قوم مل کر میری دی ہوئی اصل رقم مجھے واپس نہ کردے خواہ اس میں ایک صدی ہی کیوں نہ لگ جائے’ اور میرا یہ منافع ان لوگوں کی جیبوں میں سے بھی آنا چاہیے جنہوں نے ملک اور قوم کی اور خود میری حفاظت کے لیے اپنے ہاتھ پاؤں کٹوائے یا اپنے بیٹے’ باپ’ بھائی یا شوہر مفت کھو دیے ۔ سوال یہ ہے کہ ایک معاشرے میں ایسا طبقہ آیا اس کا مستحق ہے کہ اسے سود کھلا کھلا کر پالا جائے’ یا اس کا کہ اسے اس زہر کی گولیاں کھلائی جائیں جس سے کتے مارے جاتے ہیں؟

رہے دوسری قسم کے قرضے تو ان کی نوعیت ان قرضوں سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے جو عام افراد اور ادارے کاروباری اغراض کے لیے لیتے ہیں’ لہذا ان پر بھی وہ سب اعتراضات وارد ہوتے ہیں جو اوپر ہم نے کاروباری قرضوں کے سود پر کیے ہیں۔عموما حکومتیں نفع آور کاموں پر لگانے کے لیے لمبی مدت کے قرضے لیتی ہیں مگر کوئی حکومت بھی ایک مقرر شرح سود پر قرض لیتے وقت یہ نہیں جانتی کہ آئندہ بیس تیس سال کے دوران میں ملک کے اندرونی حالات اور دنیا کے بین الاقوامی معاملات کیا رنگ اختیار کریں گے اور ان میں اس کام کی نفع آوری کا کیا حال رہے گا جس پر خرچ کرنے کے لیے وہ یہ سودی قرض لے رہی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حکومت کے

_____________________________

اس موقع پر یہ معلوم کرنا لطف سے خالی نہ ہوگا کہ انگلستان کے باشندے آج تک اپنے سرمایہ داروں کو ان جنگی قرضوں کا سود ادا کیے جا رہے ہیں جو اب سے سوا سو برس پہلے ان کے بزرگوں نے نپولین سے لڑنے کے لیے حاصل کیے تھے۔ اور امریکہ کے باشندے اس رقم سے چوگنی رقم اب تک ادا کرچکے ہیں جو امریکن سول وار کے مصارف کے لیے 65۔ 1861 ءمیں قرض لی گئی تھی اور ابھی ان کے ذمہ مزید ایک ارب ڈالر کے قریب اصل و سود واجب الاداء ہے۔

اندازے غلط نکلتے ہیں اور وہ کام شرح سود کے برابر نفع نہیں دیتا کجا کہ اس سے زیادہ۔ یہ ان بڑے اسباب میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے حکومتیں مالی مشکلات میں مبتلا ہوتی ہیں اور ان کے لیے پچھلے ہی قرضوں کے اصل و سود ادا کرنے مشکل ہوجاتے ہیں کجا کہ وہ مزید نفع آور تجاویز پر مزید سرمایہ لگا سکیں۔

علاوہ بریں یہاں بھی وہی صورت پیش آتی ہے جس کی طرف ہم پہلے کئی بار اشارہ کر چکے ہیں کہ بازار کی شرح سود ایک ایسی حد مقرر کردیتی ہے جس سے کم نفع دینے والے کسی کام پر سرمایہ نہیں لگایا جا سکتا خواہ وہ کام پبلک کے لیے کتنا ہی ضروری اور مفید ہو۔ غیر آباد علاقوں کی آبادی’ بنجر زمینوں کی درستی خشک علاقوں میں آبپاشی کے انتظامات’ دیہات میں سڑکوں اور روشنی اور حفظانِ صحت کا بندوبست’ کم تنخواہیں پانے والے ملازموں کے لیے صحت بخش مکانات کی تعمیر’ اور ایسے ہی دوسرے کام اپنی جگہ چاہے کتنے ہی ضروری ہوں اور ان کے نہ ہونے سے چاہے ملک اور قوم کا کتنا ہی نقصان ہو’ مگر کوئی حکومت ان پر روپیہ صرف نہیں کرسکتی جب تک کہ ان سے اتنا نفع حاصل ہونے کی توقع نہ ہو جو رائج الوقت شرح سود کے برابر یا اس سے زیادہ ہوسکے۔

پھر اس قسم کے جن کاموں پر سودی قرض لے کر سرمایہ لگایا جاتا ہے ان کے معاملہ میں بھی حقیقی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ حکومت اس کے سود کا بار عام باشندوں پر ڈال دیتی ہے۔ ٹیکسوں کے ذریعہ سے ہر ہر شخص کی جیب سے بالواسطہ یا بلا واسطہ یہ سود نکالا جاتا ہے اور سال کے سال لاکھوں روپے کی رقمیں جمع کرکرکے سرمایہ داروں کو مدت ہائے دراز تک پہنچائی جاتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ آج 5 کروڑ سرمایہ سے آب پاشی کی ایک بڑی اسکیم عمل میں لائی جاتی ہے’ اور یہ سرمایہ سالانہ شرح پر حاصل کیا جاتا ہے۔ اس حساب سے حکومت کو ہر سال 30 لاکھ روپیہ سود ادا کرنا ہوگا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حکومت اتنی بڑی رقم کہیں سے زمین کو کھود کر نہیں نکالے گی بلکہ اس کا بار ان زمینداروں پر ڈالے گی جو آب پاشی کے اس منصوبے سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ہر زمیندار پر جو آبیانہ لگایا جائے گا’ اس میں ایک حصہ لازما اس سود کی مد کا بھی ہوگا۔ اور زمیندار خود بھی یہ سود اپنی گرہ سے نہیں دے گا بلکہ وہ اس کا بار غلے کی قیمت پر ڈالے گا۔ اس طرح یہ سود بالواسطہ ہر اس شخص سے وصول کیا جائے گا جو اس غلے کی روٹی کھائے گا۔ ایک ایک غریب اور فاقہ کش آدمی کی روٹی میں سے لازماً ایک ایک ٹکڑا توڑا جائے گا۔ اور ان سرمایہ داروں کے پیٹ میں ڈالا جائے گا جنہوں نے 30 لاکھ روپیہ سالانہ سود پر اس منصوبہ کے لیے قرض دیا تھا۔ اگر حکومت کو یہ قرض ادا کرتے کرتے 50 برس لگ جائیں تو وہ غریبوں سے چندہ جمع کرکرکے امیروں کی مدد کا یہ فریضہ نصف صدی تک برابر انجام دیتی چلی جائے گی’ اور اس سارے معاملہ میں خود اس کی حیثیت مہاجن کے “منیم جی” سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہ ہوگی۔

یہ عمل اجتماعی معیشت میں دولت کے بہاؤ کو ناداروں سے مال داروں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ حالانکہ جماعت کی فلاح کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مال داروں سے ناداروں کی طرف جاری ہو۔ یہ خرابی صرف اسی سود میں نہیں ہے جو حکومتیں نفع آور قرضوں پر ادا کرتی ہیں’ بلکہ ان سارے سودی معاملات میں ہے جو تمام کاروبار آدمی کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی تاجر یا صناع یا زمیندار اپنی گرہ سے وہ سود ادا نہیں کرتا جو اسے سرمایہ دار کو دینا ہوتا ہے۔ وہ سب اس بار کو اپنے اپنے مال کی قیمتوں پر ڈالتے ہیں اور اس طرح عام لوگوں سے پیسہ پیسہ چندہ اکٹھا کرکے لکھ پتیوں اور کروڑ پتیوں کی جھولی میں پھینکتے رہتے ہیں۔ اس اوندھے نظام میں سب سے زیادہ “مدد” کا مستحق ملک کا سب سے بڑا دولت مند ساہوکار ہے’ اور اس کی مدد کا فرض سب سے بڑھ کر جس شخص پر عائد ہوتا ہے وہ ملک کا وہ باشندہ ہے جو دن بھر اپنا اپنا خون پسینہ ایک کرکے ڈیڑھ روپیہ کما کر لائے اور پھر بھی اپنے نیم فاقہ کش بال بچوں کے لیے چٹنی اور روٹی کا انتظام کرنا اس پر حرام ہو جب تک کہ پہلے وہ اس چٹنی اور روٹی میں سے اپنے ملک کے سب سے بڑے “قابل رحم” کروڑ پتی کا “حق” نہ نکال دے۔

حکومتوں کے بیرونی قرضے

آخری مد ان قرضوں کی ہے جو حکومتیں اپنے ملک سے باہر کے ساہوکاروں سے لیتی ہیں۔ اس قسم کے قرضے بالعموم بہت بڑی بڑی رقموں کے لیے ہوتے ہیں جن کی مقدار کروڑوں سے گزر کر بسا اوقات اربوں اور کھربوں تک پہنچ جاتی ہے۔ حکومتیں ایسے قرضے زیادہ تر ان حالات میں لیتی ہیں جب ان کے ملک پر غیر معمولی مشکلات اور مصائب کا ہجوم ہوتا ہے اور خود ملک کے مالی ذرائع ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ اور کبھی وہ اس لالچ میں بھی اس تدبیر کی طرف رجوع کرتی ہیں کہ بڑا سرمایہ لے کر تعمیری کاموں پر لگانے سے ان کے وسائل جلدی ترقی کرجائیں گے۔ ان قرضوں کی شرح سود 7۔6 فی صدی سے لے کر 9۔10 فی صدی تک ہوتی ہے اور اس شرح پر اربوں روپے کا سالانہ سود ہی کروڑوں روپے ہوتا ہے۔ بین الاقوامی بازار زر کے سیٹھ اور ساہوکار اپنی اپنی حکومتوں کو بیچ میں ڈال کر ان کی وساطت سے یہ سرمایہ قرض دیتے ہیں اور اس کے لیے ضمانت کے طور پر قرض لینے والی حکومت کے محاصل میں سے کسی محصول’ مثلاً چنگی’ تمباکو’ شکر’ نمک یا کسی اور مد کی آمدنی کو رہن رکھ لیتے ہیں۔

اس نوعیت کے سودی قرضے ان تمام خرابیوں کے حامل ہوتے ہیں جن کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ شخصی حاجات کے قرض اور کاروباری قرض اور حکومتوں کے اندرونی قرض کوئی نقصان ایسا نہیں رکھتے جو ان بین الاقوامی قرضوں پر سود لگنے کےطریقہ میں نہ ہو۔ اس لیے ان خرابیوں اور نقصانات کا تو اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں’ مگر قرض کی یہ قسم ان سب کے ساتھ ایک اور خرابی بھی اپنے اندر رکھتی ہے جو ان سب سے زیادہ خوف ناک ہے’ اور وہ ہے کہ ان قرضوں کی بدولت پوری پوری قوموں کی مالی حیثیت خراب اور معاشی حالت تباہ ہوجاتی ہے جس کا نہایت برا اثر ساری دنیا کی معاشی حالت پر پڑتا ہے۔ پھر ان کی بدولت قوموں میں عداوت اور دشمنی کے بیچ پڑتے ہیں’ اور آخر کار انہی کی بدولت آفت رسیدہ قوموں کے نوجوان دل برداشتہ ہوکر انتہا پسندانہ سیاسی و تمدنی اور معاشی فلسفوں کو قبول کرنے لگتے ہیں اور اپنے قومی مصائب کا حل ایک خونی انقلاب یا ایک تباہی خیز جنگ میں تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ جس قوم کے مالی ذرائع پہلے ہی اپنی مشکلات یا اپنی ضرورتوں کو رفع کرنے کے لیے کافی نہ تھے’ وہ آخر کس طرح اس قابل ہوسکتی ہے کہ ہر سال پچاس ساٹھ لاکھ یا کروڑ دو کروڑ روپیہ تو صرف سود میں ادا کرے اور پھر اس کے علاوہ اصل قرض کی اقساط بھی دیتی رہے؟ خصوصاً جب کہ اس کے ذرائع آمدنی میں کسی ایک بڑے اور زیادہ نفع بخش ذریعے کو تاک کر آپ نے پہلے ہی مکفول کرلیا ہو اور اس کی چادر پہلے سے بھی زیادہ تنگ ہوکر رہ گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جو قوم کوئی بڑی رقم اس طور پر سودی قرض لے لیتی ہے۔ بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ اس کی وہ مشکلات رفع ہوجائیں جن سے نکلنے کے لیے اس نے یہ قرض لیا تھا۔ اس کے برعکس اکثر یہی قرض اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کا موجب ہوجاتا ہے۔ قرض کی اقساط اور سود ادا کرنے کے لیے اسے اپنے افراد پر بہت زیادہ ٹیکس لگانا پڑتا ہے اور مصارف میں بہت زیادہ کمی کردینی ہوتی ہے۔ اس سے ایک طرف عوام میں بے چینی بڑھتی ہے’ کیونکہ جتنا وہ خرچ کرتے ہیں اس کا بدل ان کو اس خرچ کے ہم وزن نہیں ملتا۔ اور دوسری طرف اپنے ملک کے لوگوں پر اس قدر زیادہ بار ڈال کر بھی حکومت کے لیے قرض کی اقساط اور سود باقاعدہ ادا کرتے رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پھر جب قرض دار ملک کی طرف سے ادائیگی میں مسلسل کوتاہی صادر ہونے لگتی ہے تو بیرونی قرض خواہ اس پر الزام لگانا شروع کردیتے ہیں کہ یہ بے ایمان ملک ہے ’ ہمارا روپیہ کھاجانا چاہتا ہے۔ ان کے اشاروں پر ان کے قومی اخبارات اس غریب ملک پر چوٹیں کرنے لگتے ہیں۔ پھر ان کی حکومت بیچ میں دخل انداز ہوتی ہے اور اپنے سرمایہ داروں کے حق میں اس پر صرف سیاسی دباؤ ہی ڈالنے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس کی مشکلات کا ناجائز فائدہ بھی اٹھانا چاہتی ہے۔ قرض دار ملک کی حکومت اس پھندے سے نکلنے کے لیے کوشش کرتی ہے کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ اور مصارف میں مزید تخفیف کرکے کسی طرح جلدی سے جلدی اس سے چھٹکارا پائے۔ مگر اس کا اثر باشندگان ملک پر یہ پڑتا ہے کہ پیہم اور روز افزوں مالی بار اور معاشی تکلیفیں اٹھاتے اٹھاتے ان کے مزاج میں تلخی آجاتی ہے’ بیرونی قرض خواہ کی چوٹوں اور سیاسی دباؤ پر وہ اور زیادہ چڑ جاتے ہیں’ اپنےملک کے اعتدال پسند مدبروں پر ان کا غصہ بھڑک اٹھتا ہے اور معاملہ فہم لوگوں کو چھوڑ کر وہ ان انتہا پسند جو اریوں کے پیچھے چل پڑتے ہیں جو سارے قرضوں سے بیک جنبشِ زبان بریٔ الذمہ ہو کر خم ٹھونک میدان میں آ کھڑے ہوتے ہیں اور للکارکر کہتے ہیں کہ جس میں طاقت ہو وہ ہم سے اپنے مطالبات منوا لے۔

یہاں پہنچ کر سود کی شر انگیزی و فتنہ پردازی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ کیا اس پر بھی کوئی صاحب عقل و ہوش آدمی یہ ماننے میں تامل کرسکتا ہے کہ سود ایک ایسی برائی ہے جسے قطعی حرام ہونا چاہیے؟ کیا اس کے یہ نقصانات اور یہ نتائج دیکھ لینے کے بعد بھی کسی کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد میں شک ہوسکتا ہے کہ:۔
(الربا سبعون جزءا ایسرها ان ینکح الرجل امه(ابن ماجه و بیهقی
‘‘سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کو اگر ستر اجزاء میں تقسیم کیا جائے تو اس کا ایک ہلکے سے ہلکا جز اس گناہ کے برابر ہوگا کہ ایک آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔’’

Previous Chapter Next Chapter