دور متوسط کا لبر لزم

کلیسا اور جاگیر داری کے خلاف یہ جنگ جن نظریات کی بنا پر لڑئی گئی ان کا سر عنوان تھا ” لبرلزم “یعنی “وسیع الشربی “۔ نئے دور کے علمبردار زندگی کے ہر شعبے اور فکروعمل کے ہر میدان میں وسعت مشرب، فیاضی ،فراغ دلی اور کشادگی کا وعظ کہتے تھے ۔عام اس سے کہ وہ مذہب اور فلسفے اور علم و فن کے میدان ہوں ،یا معاشرت اور تمدن اور سیاست اور معیشت کے میدان۔وہ ترقی پسند انسان کے راستے سے ہر طرف بندشوں اور رکاوٹوں اور تنگیوں اور سختیوں کو دور کر دینا چا ہتے تھے ۔
اس کشمکش میں اگر اہل کلیسا اور جاگیرداروں کی تنگ خیالی ایک انتہا پرتھی تو ان بورژو حضرات کی و سعت مشرب دوسری انتہا کی طرف چلی جا رہی تھی ۔دونوں طرف خودغرصیاں کار فرماتھیں ۔حق اور انصاف اور علم صحیح اور فکر صالح سے دونوں کوکچھ واسطہ نہیں تھا ۔ایک گروہ نے اگر بے اصل عقائد،ناروا امتیازات اور زبردستی کے قائم کردہ حقوق کی ممانعت میں خدا اور دین اور اخلاق کا نام استعمال کیا،تو دوسرے گروہ نے اس کی ضد میں آزاد خیالی اور وسیع المشربی کے نام سے مذہب و اخلاق کی ان صداقتوں کو بھی متزلزل کرنا شروع کر دیاجو ہمیشہ سے مسلم چلی آ رہی تھیں۔یہ ہی زمانہ تھا جس میں سیاست کا رشتہ اخلاق سے توڑا گیااور میکیاویلی نے کھلم کھلا اس نظریہ کی وکالت کی کہ سیا سی اغراض و صصالح کے معاملے میں اخلاقی اصولوں کا لحاظ کرنے کی کو ئی ضرورت نہیں ہے ۔یہ ہی زمانہ تھا جس میں کلیسا اور جاگیر داروں کے بالمقابل قومیت اور قوم پرستی اور قومی ریاست کے بت تراشے گئے۔اور اس فتنے کی بنیاد ڈالی گئی جس کی بدولت آج دنیا لڑائیوں اور عداوتوں کا ایک آتش فشاں بنی ہوئی ہے۔اوریہ وہ زمانہ تھاجس میں پہلی مرتبہ سود کے جائز ومباح ہو نےکا تخیل پیدا ہوا،حالانکہ قدیم ترین زمانےسے تمام دنیا کے اہل دین واخلاق اور علما قانون اس چیز کی حرمت پر متفق تھے۔صرف تورات اور قرآن ہی نے اس کو حرام ٹھہرایا تھا بلکہ ارسطو اور افلاطون بھی اس کی حرمت کے قائل تھے۔یونان اور روم کے قوانین میں بھی یہ چیز ممنوع تھی۔لیکن نشاۃ ثانیہ کے دور میں جب بورژوا طبقہ نےمسیحی کلیسا کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیاتو پہلے سود کو ایک ناگزیر برائی کہنا شروع کیا گیا ۔یہاں تک کہ اس پرزور پروپگینڈا سے مرعوب ہو کر مسیحی متجدد ین (Reformists ) بھی اس کو انسانی کمزوری کے عذر کی بنا پر “اضطرارا”جائز ٹھہرائے گئے،پھر رفتہ رفتہ ساری اخلاقی گفتگو صر ف شرع سود پر مرکوز ہو گئی اور ممتاز اہل فکر اپنا سارازوراس بحث پرصرف کرنے لگے کے سود کی شرع “معقول “ہونی چاہے ،اور آخر کار یہ تخیل جڑ پکڑ گیاکہ مذہب واخلاق کو کا روباری معاملات سے کیا غرض۔معاشی حیثیت سے سود سراسر ایک فطری اور معقول چیز ہے ،جس طرح کرایہ مکان کے خلاف کچھ نہیں کہا جا سکتااسی طرح سود کے خلاف بھی کوئی عقلی دلیل موجود نہیں ہے !
لطف یہ ہے کہ نشاۃثانیہ ہی کے دور میں اس بورژواطبقے نے اپنی اس وسیع المشربی کا صور پھونک پھونک کر پادریوں اور جاگیرداروں اور مالکان زمین کے قبضے سے جتنا میدان نکالا اس کے وہ خود ہی تنہا “حقدار” بنتے چلے گئے ان کی وسیع المشربی نے ان کو یہ یاد نہ دلایا کہ ان سے فرد تک ایک اور طبقہ عوام الناس کا بھی موجود ہے جو جاگیرداری نظام میں ان کی بہ نسبت زیادہ مظلوم تھااور اب اس لبرل نظام کے فوائد میں سے وہ بھی حصہ پانےکا حق رکھتا تھا۔مثال کے طور پرجب انگلستان میں پارلیمنٹری طرز حکومت کی بنا پڑی اور پارلمنیٹ میں اصل اقتدار امراء(لارڈس)کے ہاتھوں سے نکل کر “عوام” (کامنتر)کے ہاتھ میں آیا تو اس سارے اقتدار کو ان وسیع المشرب بورژوا حضرات نے ہی اچک لیا ۔جن دلائل سے انھوں نے اپنے لئے ووٹ کا حق حاصل کیا تھاوہ دلائل نچلے طبقے کے عوام کوووٹ کا حق دینے سے انکار کرتے وقت ان کو یاد نہ آئے۔

Previous Chapter Next Chapter