آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو مختصراً یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں جو معاشی نظام اب تک پیدا ہوئے ان کے درمیان اصولی فرق کیا ہے’ اور اس فرق سے مالی و معاشی معاملات کی نوعیتوں میں کیا تغیرات واقع ہوتے ہیں۔
جزئی اختلافات سے قطعِ نظر کرکے ہم دنیا کے معاشی نظاموں کو تین بڑی قسموں پر تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک وہ جو سرمایہ داری نظام (Capitalistic system) کہلاتا ہے۔ دوسرا وہ جسے اشتراکیّت (Communism) کے نام سے موسوم کیا جا تا ہے اور تیسرا وہ جسے اسلام نے پیش کیا ہے۔ اس باب میں ہم ان تینوں کے اصول کا خلاصہ بیان کریں گے۔
نظامِ سرمایہ داری
نظامِ سرمایہ داری کی بنیاد جس نظریہ پر قائم ہے وہ صاف اور سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ ہر شخص اپنے کمائے ہوئے مال کا تنہا مالک ہے۔ اس کی کمائی میں کسی کا کوئی حق نہیں۔ اس کو پورا اختیار ہے کہ اپنے مال میں جس طرح چاہے تصرّف کرے’ جس قدر وسائل ثروت اس کے قابو میں آئیں ان کو روک رکھے اور اپنی ذات کے لیے کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر ان کو صرف کرنے سے انکار کردے۔ یہ نظریہ اس خود غرضی سے شروع ہوتا ہےجو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے’ اور آخر کار اس انتہائی خود غرضی تک پہنچ جاتا ہے جو انسان کی تمام اُن صفات کو دبا دیتی ہے جن کا وجود انسانی جماعت کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ اگر اخلاقی نقطۂ نظر کو چھوڑ کر خالص معاشی نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اس نظریہ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تقسیم ثروت کا توازن بگڑ جائے’ وسائل ثروت رفتہ رفتہ سمٹ کر ایک زیادہ خوش قسمت یا زیادہ ہوشیار طبقہ کے پاس جمع ہوجائیں’ اور سوسائٹی عملاً دو طبقوں میں تقسیم ہوجائے۔ ایک مال دار اور دوسرا نادار۔ مالدار طبقہ تمام وسائلِ ثروت پر قابض و متصرف ہوکر ان کو محض اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرے اور اپنی دولت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش میں سوسائٹی کے مجموعی مفاد کو جس طرح چاہے قربان کردے۔ رہا نادار طبقہ تو ا سکے لیے وسائل ثروت میں سے حصہ پانے کا کوئی موقعہ نہ ہو الّا یہ کہ وہ سرمایہ دار کے مفاد کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرکے زندگی بسر کرنے کا کم سے کم سامان حاصل کرے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا نظمِ معیشت ایک طرف ساہوکار’ کارخانہ دار’ اور زمیندار پیدا کرے گا’ اور دسری طرف مزدور’ کسان اور قرضدار۔ ایسے نظام کی عین فطرت اس کی مقتضی ہے کہ سوسائٹی میں ہمدردی اور امداد باہمی کی سپرٹ مفقود ہو۔ ہر شخص بالکلیہ اپنے ذاتی وسائل سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو۔ کوئی کسی کا یار و مددگار نہ ہو۔ محتاج کے لیے معیشت کا دائرہ تنگ ہوجائے۔سوسائٹی کا ہر فرد بقائے حیات کے لیے دوسرے افراد کے مقابلہ میں معاندانہ جدوجہد کرے۔ زیادہ سے زیادہ وسائل ثروت پر قابو پانے کی کوشش کرے’ اپنے مفاد کے لیے ان کو روک رکھے اور صرف ازدیاد ثروت کے لیے انہیں استعمال کرے۔ پھر جو لوگ اس جدو جہد میں ناکام ہوں یا اس میں حصہ لینے کی قوّت نہ رکھتے ہوں کے لیے دنیا میں کوئی سہارا نہ ہو۔ وہ بھیک بھی مانگیں تو ان کو بآسانی نہ مل سکے۔ کسی دل میں ان کے لیے رحم نہ ہو۔ کوئی ہاتھ ان کی مدد کے لیے نہ بڑھے۔ یا تو وہ خودکشی کرکے زندگی کے عذاب سے نجات حاصل کریں یا پھر جرائم اور بے حیائی کے ذلیل طریقوں سے پیٹ پالنے پر مجبور ہوں۔
سرمایہ داری کے اس نظام میں ناگزیر ہے کہ لوگوں کا میلان روپیہ جمع کرنے کی طرف ہو اور وہ اس کو صرف نفع بخش اغراض کے لیے استعمال کرنے کی سعی کریں۔ مشترک سرمایہ کی کمپنیاں قائم کی جائیں۔ بینک کھولے جائیں۔ پراویڈنٹ فنڈ قائم ہوں۔ انشورنس کمپنیاں بنائی جائیں۔ امداد باہمی کی جمعیتیں مرتب کی جائیں اور ان تمام مختلف معاشی تدبیروں میں ایک ہی روح کام کرے’ یعنی روپے سے مزید روپیہ پیدا کرنا’ خواہ وہ تجارتی لین دین کے ذریعہ سے ہو یاسود کے ذریعہ سے۔ سرمایہ داری کے نقطۂ نظر سے سود اور تجارتی لین دین کے درمیان کوئی جوہری فرق نہیں ہے اس لیے نظام سرمایہ داری میں یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف خلط ملط ہوجاتے ہیں’ بلکہ کاروبار کی ساخت میں ان کی حیثیت تانے بانے کی سی ہوتی ہے۔ ان کے ہاں تجارت کے لیے سود اور سود کے لیے تجارت لازم و ملزوم ہیں’ کسی کو دوسرے کے بغیر فروغ نہیں ہوسکتا’ سود نہ ہو تو سرمایہ داری کا تارو پود بکھر جائے۔