موجودہ دَور میں جبکہ مالیاتی اصلاح کا دُور دُورتک کوئی امکان نظر نہیںآتا‘ اس کے تعارف سے کیا حاصل ہوگا؟ اکنامکس میں نوبل لارئیٹ‘ ملٹن فریڈ کا کہنا ہے کہ :
’’انقلابی تبدیلیوں کی بات کرتے رہنا فائدہ سے خالی نہیں۔ اس لیے نہیں کہ اسے فوراً قبول کر لیا جائے گا ‘بلکہ ایک تو اس لیے کہ اس طرح ایک مثالی ہدف اُبھر کر سامنے آئے گا اور دوسرے اس لیے کہ اگر کبھی ایسی تبدیلی کے لیے حالات سازگار ہوئے تو اس کے لیے ذہن پہلے سے تیار ہوں گے‘‘۔
قرضوں کا جو جال بچھایا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ساری دولت معدودے چند ہاتھوں میں آجائے گی اور لوگ بھوکے مریں گے ‘اور جب بھوکے مرنے لگیں گے تو ایسے اٹھیں گے کہ ہر شے کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ نوعِ انسانی کے خلاف ہونے والی اس سازش کا پردہ چاک کیا جائے ‘تا کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور وہ اس کے تدارک کے لیے کچھ کرنے پر آمادہ ہوں‘ پیشتر اس کے کہ وقت گزر جائے اور کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے۔ دولت کے یہ پجاری اپنے اس انجام سے بے خبر نہیں ہیں‘ لیکن انہوں نے اس کے لیے ایک نادر نسخہ تجویز کیا ہے۔ مثلاً نیشنل سیکورٹی کونسل سٹڈی میمورنڈم ۲۰۰ جس کی وجہ سے برازیل‘ انڈیا‘ کولمبیا‘ میکسیکو‘ ایتھوپیا اور مصر جیسے ممالک کو ہدف بنا کر آبادی کم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ ان ممالک کے مزدور اور خام مال کی کوئی قیمت ہی نہ رہے۔ اس کے بعد مختلف طریقوں سے وہاں کی قیمتی املاک ہتھیا لی جاتی ہیں‘ تا کہ عوام کے لیے بھوک اور افلاس کے سوا کچھ باقی نہ رہ جائے اور خود ہی ایک دوسرے کو ختم کرنے لگیں۔ چنانچہ ’’بہبود آبادی‘‘ جیسے ناموں سے جو پروگرام ہو رہے ہیں ان کا مقصد اخلاق باختہ کر کے لوگوں کو حیوان بنانا ہے۔ نئے قرضوں کا اجراء‘ پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ‘ قیمتوں میں رعایت اور قرضوں کی جزوی معافی جیسے آلات اصل مقاصد کو درپردہ رکھنے کے لیے ہیں۔ موجودہ مالیاتی نظام اپنی جڑیں اتنی گہری کر چکا ہے کہ آپ کے تمام قرضے یک قلم ختم کر دیے جائیں تب بھی آپ عالمی ساہوکاروں کے چنگل سے نکل کر کہیں نہیں جا سکتے۔ بینک مصنوعی روپیہ بناتے ہیں اور اسے اُدھار پر دیتے ہیں۔ تمام ممالک مقروض کی حیثیت سے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ چنانچہ ہر ملک کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ درآمد کے مقابلہ میں زیادہ برآمد کرے اور قرض اتارنے کے لیے زیادہ زر مبادلہ حاصل کرے‘ لیکن آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں نے قرضوں پر مبنی جو عالمی مالیاتی نظام ترتیب دیا ہے اس کا خاصہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ امیر ممالک‘ جو خودبھی مقروض ہیں ‘کا پلڑا ہر حال میں بھاری رہتا ہے۔ اس طرح ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘ کے مصداق چند ترقی یافتہ ممالک کو ساتھ ملا کر دیگر تمام ممالک کو کنٹرول کرنا آسان ہو گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ دولت ان ترقی یافتہ ممالک کے پاس رہتی ہے‘ بلکہ اصل دولت گھوم پھر کر واپس بینکوں کے پاس لوٹ آتی ہے۔ اس طرح کمزور مقروض ممالک کی ساری بھاگ دوڑ دو وقت کی روٹی حاصل کرنے تک محدود رہتی ہے تو ترقی یافتہ ممالک کی جان بھی ہر وقت بینکوں کے اندر اٹکی ہوئی ہے۔ ان حالات میں ایسے ممالک کے پاس ان پانچ میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا کہ:
۱) اس کے تمام شہری اپنے آپ کو بیرونی بینکوں کی غلامی میں دے دیں‘ لیکن یہ سلسلہ صرف اسی وقت تک برقرار رہے گا جب تک ان بینکوں کو کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا رہے گا۔
۲) پچھلے قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لیتے رہیں‘ لیکن ایک وقت آئے گا کہ یہ سلسلہ بھی رک جائے گا۔
۳)قرضے واپس کرنے سے انکا ر کر دیں۔ تجارتی پابندیاں لگ جائیں تو مال کے بدلے مال کے ذریعے تجارت سے کام چلا لیں‘ لیکن یہ سود خور ہر طرف سے آپ کا ناطقہ بند کر دیں گے اور ہیٹی‘ صومالیہ‘ عراق اور سابق یوگوسلاویہ جیسا حشر کریں گے۔ گویااس کے لیے پہلے دفاعی لحاظ سے ناقابلِ تسخیرہونا ضروری ہے۔
۴) قانونی چارہ جوئی ایک مناسب ذریعہ ہے ‘مگرایسی عدالتیں اب تک دنیا میں وجود میں نہیں آئیں جہاں طاقتور کے مقابلہ میں کمزور کی شنوائی ہو سکے۔
۵) بین الاقوامی قرضے اتارنے کے لیے اتنی مقدار میں ملکی کرنسی میں روپیہ اکٹھا کر لیں جس سے یہ قرضے اتارے جا سکیں۔ موجودہ عالمی مالیاتی نظام کے تحت رہتے ہوئے ایسا نہیں ہو سکتا۔ افراطِ زر تمام حدیں پھلانگ کر ملکی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دے گا ‘البتہ اس مقصد کے لیے کوئی بنیادی اصلاحات کر لے تو کامیابی کا امکان ہوسکتا ہے۔ ان اصلاحات کے لیے لازم ہے کہ تمام روپیہ (لیگل ٹینڈر) صرف ریاست جاری کرے اور جو روپیہ جاری کیا جائے اس کی مقدار اتنی ہو جس
سے اشیاء کی قیمتیں ایک سطح پر برقرار رہیں‘ یعنی اشیاء اور روپیہ کی مقدار میں توازن قائم ہو اور سودی لین دین کی ممانعت ہو‘ نیز حکومت کسی قسم کا ادھار لینے دینے کا کام نہ کرے۔
عالمی سطح پر قرضوں کی جو جنگ برپا ہے اس کے اصل اسباب کا تعلق معیشت سے نہیں بلکہ فلسفہ‘ مذہب اور اخلاقیات سے ہے۔ کسی ایسے معاشرے سے معاشی انصاف کی توقع کرنا حماقت ہے جو ماں کے پیٹ میں بچوں کوقتل کرنا اس لیے جائز قرار دے کہ بچوں پر خرچ نہ کرنا پڑے۔حکومت یا قانون لوگوں کو اچھا ماحول تو دے سکتے ہیں لیکن ان کے ذہن تبدیل نہیں کر سکتے۔ اگر آپ کسی معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں تو آپ کو وہاں کے افراد سے اس کا آغاز کرنا ہوگا۔ ابھی آپ کو جو بھی تھوڑی بہت آزادی حاصل ہے اسے غنیمت سمجھیں اور مزید وقت ضائع کیے بغیر اس کام کو شروع کر لیں‘ ورنہ سمجھ لیں کہ آپ کو زیادہ مہلت نہیں ملے گی۔ بحرانوں کے اندر رہتے ہوئے اچھا معاشرہ وجود میں نہیں لایا جا سکتا‘ البتہ بحرانوں سے اچھے معاشرے کے قیام کے لیے بنیاد ضرور ڈالی جا سکتی ہے‘ کیونکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بھٹی گرم ہوتی ہے ۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ جس قدر بھی ممکن ہو آپ کو حقائق سے آگاہ کر سکیں‘ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ جاگ جاتے ہیں یا خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہتے ہیں۔