اس نئے مسلک کے مصنفوں نے اپنے حملے کی ابتدا – حقوق ملکیت
سوشلزم کے اصل معنی ہیں “اجتماعیت” اور یہ اصطلاح اس انفرادیت (individualism) کے مقابلے میں بنائی گئی تھی جس پر جدید سرمایہ داری کا نظام تعمیر ہو ا تھا اس نام کے تحت بہت سے مختلف نظریے اور مسلک کارل کارک سے پہلے پیش کیے جانے شروع ہو گئے تھے جن کا مشترک مقصد یہ تھا کہ کو ئی ایسا نظام زندگی بنایا جائے جس میں بحیثیت مجموعی پو رے اجتماع کی فلاح ہو ۔لیکن وہ سب کاغذ پر رہ گئے ۔مارکس نے آ کر اس طلب عام کا جواب ایک خام قسم کے سو شلزم کی شکل میں دیاجسے ” سا ئنٹیفک سوشلزم “،”مارکسزم “اور “کمیو نزم “و غیرہ کے مختلف نا موں سے موسو م کیا جا تا ہے ۔ یہا ں ہم اسی سے بحث کر رہے ہیں کیو نکہ زمین میں جڑ اسی نے پکڑی۔ اصطلاحات کے معاملہ میں علمی نزاکتوں کو قصدا نظر انداز کر کے ہم وہ اصطلا میں استعمال کر ہے ہیں جن سے ہمارے عام اردوخواں لوگ یا تو پہلے ہی مانو س ہیں یا جنہیں اردو زبان با آسا نی قبول کر سکتی ہے سے کی ۔انھوں نے کہا کہ اصل خرابی کی جڑ یہی بلاہے ۔پہنے کے کپڑے ،استعمال کے برتن،گھر کا فرنیچر اور اس طرح کی دوسری چیزیں انفر ادی ملکیت میں رہیں تو مضائقہ نہیں،مگر یہ زمین اور مشین اور آلات اور دوسری ایسی چیزیں جن سے دولت پیدا ہو تی ہے ،ان پر تو افراد کے ما لکانہ حقوق ہر گزقائم نہ رہنے چاہیں۔اس لئے کہ جب ایک شخص ان میں سے کسی چیز کا مالک ہو گاتو دولت پیدا کرے گا۔دولت پیدا کرے گا تو جمع کرے گا ۔جمع کرے گا تو پھر کچھ اور زمین یا مشین خرید کر پیدائش دولت کے ذرائع میں اضافہ کرے گا۔ اضافہ کرے گا تو دوسرے آدمیوں سے تنخواہ ،یا مزدوری یا لگان کا معاملہ طے کر کے ان سے کام لے گا ۔اور جب یہ کا م کرے گا تو لا محالہ وہ سب کچھ کر لے گا جو بو رژوا سرمایہ دار کر رہا ہے ۔لہذا سر ے سے اس جڑ ہی کو کا ٹ دو جس سے یہ بلا پیدا ہو تی ہے ۔ پروانے کی جان بچانی ہے تو مگس کو باغ میں جا نے نہ دو۔
سوال یہ پیدا ہو ا کہ اشیاء استعمال کے حقوق ملکیت کی طرح ذرائع پیداوار کے حقوق ملکیت بھی کو ئی آج کی نئی چیز تو نہیں ہیں جنہیں بو رژوا سرما یہ داروں نے تصنیف کر لیا ہو ۔یہ تو وہ بنیادیں ہیں جن پر قدیم ترین زمانے سے انسانی معیشت و تمدن کی عمارت تعمیر ہو تی چلی آ رہی ہے ۔ ایسی چیز کے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ آخر یو ں سرسری طور پر کیسے کر ڈالا جائے !۔۔۔ جو اب میں فی البدیہ ایک پوری تا ریخ گھڑ دی گئی کہ انسا نیت کے آغاز میں ذ رائع پیداوار پر انفرادی ملکیت کے حقوق تھے ہی نہیں،یہ تو بعد میں طاقت ور طبقوں نے اپنی خو د غرضی سے قا ئم کر لیے ۔
کہا گیا ، ان حقوق کے سارے مذہب ،تمام اخلاقی نظام ،دنیا بھر کے قوانین ہمیشہ سے مانتے رہے ہیں۔ان میں سے کسی نے بھی یہ نظریہ اختیار نہیں کیا کہ معیشت و تمدن کی وہ صورت بجائے خود غلط ہے جو ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت سے بنتی ہے ۔۔۔۔۔جو اب میں ایک لمحہ کے تا مل کے بغیر دعوی کر دیا گیا کہ مذہب ،اخلاق اور قانون تو ہر زمانہ کے غالب طبقوں کے آلہ کار رہے ہیں۔ پیدائش دو لت کے ذ را ئع پر جن طبقات کا اجارہ قائم ہو گیا انھیں اپنے اس اجارے کو محفوظ اور مضبو ط کرنے کے لئے کچھ نظریات،کچھ اصولو ں اور کچھ رسموں اور ضابطوں کی حاجت لاحق ہو ئی اورجن لو گو ں نے یہ چیزیں ان کے اغراض کے مطابق بنا کر پیش کر دیں وہ پیغمبر اور رشی اور معلمین اخلاق اور شارع و مقنن قرار دے لیے گئے ۔محنت پیشہ طبقے بہت مدت تک اس طلسم فریب کے شکار رہے،اب وہ اسے توڑ کر رہیں گے !
اعتراض ہو ا کہ ان حقوق کو مٹا نے اور ختم کرنے کے لئے تو ایک ایسی سخت ،نزاع برپا کرنی پڑے گی جس میں ہر قوم کے مختلف عناصرآپس میں ہی گتھ جائیں گے اور قریہ قریہ اور بستی بستی میں طبقاتی جنگ کی آگ بھڑک اٹھے گی جواب میں کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ایک پو را فلسفہ تاریخ گھڑ کر رکھ دیا گیاجس میں ثابت کیا گیا کہ انسا نی تمدن کا تو سا را ارتقا ہی طبقاتی جنگ کے ذریعہ سے ہو ا ہے۔ اس راستہ کے سوا ارتقا کا اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔
پھر اعتراض ہو ا کہ اپنے ذاتی نفع کے لیے کام کرنا تو انسا ن کی فطرت اور جبلت میں پیو ست ہے اور ہر انسان ماں کے پیٹ سے یہی میلان لیے ہو ئے پیدا ہو تا ہے ۔تم جب افراد سے ذرائع پیداوار کی ملکیت چھین لو گے اور ان کے لیے یہ موقع با قی نہ رہنے دو گے کہ وہ جتنی کو شش کریں اتنا نفع حاصل کرتے چلے جائیں،تو ان کے اندر کو شش کرنے کا جذبہ ہی نہ پیدا ہو گا اور یہ چیز با لآخر انسانی تہذیب و تمدن کے لیے برباد کن ثابت ہو گی اس پر چھوٹتے ہی برملا جواب دیا گیا فطرت؟جبلت؟ موروثی میلا نات ؟یہ کیا بو روژا پن کی با تیں کرتے ہو ۔انسان کے اندر ان ناموں کی کو ئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔اس کے تو سارے رجحانات صرف اجتماعی ماحو ل کی پیداوار ہیں۔ایک ماحو ل کو بدل کر دوسرا پیدا کر دو ،اس کا دماغ دوسری طرح سو چنے لگے گا ،اسکا دل دوسری قسم کے جذبات کی آماجگاہ بن جائے گا،اس کے نفس سے کچھ اور ہی میلانات کی تراوش شروع ہو جا ئے گی ۔جب تک انفرادی ملکیت کا نظام قائم ہے ،لو گ “انفرادی الذ ہن ” ہیں۔ انفرادی ملکیت کا نظام قائم ہو جائے گا،یہی سب لوگ” اجتماعی الذ ہن ” ہو جائیں گے ۔
پوچھا گیا ،انفرادی ملکیت ختم کر کے آخر سارامعاشی کاروبار چلایا کیسے جائے ؟ جواب ملا ،تمام ذرائع پیداوار ( زمین ،کا رخانے ،اور ہر قسم کے تجارتی و صنعتی ادارے ) افراد کے قبضے سے نکال کر قومی ملکیت بنا دئیے جا ئیں گے،جو لو گ ان اداروں میں کام کریں گے انہی میں ان کا منافع تقسیم ہو جائیں گے اور ان کارکنوں کے ووٹوں سے ہی وہ منتظمین منتخب ہو ا کریں گے جن کے ہاتھ میں اس ساری معیشت کا انتظام ہو گا۔
سوال اٹھا،جو لوگ اس وقت زمینوں اور کارخانوں اور دوسرے ذرائع پیداوار کے مالک ہیں ان کی ملکیت ختم کرنے اور اجتماعی ملکیت قائم کرنے کی صورت کیا ہو گی؟اس سوال کے دو مختلف جواب دئیے گئے
ایک مسلک والوں نے جواب دیا اس تغیر کے لیے جمہوری طریقے اختیار کیے جائیں گے ،رائے عامہ کو ہموار کرکےسیا سی اقتدار پر قبضہ کیا جائے گا اور قانون سازی کے ذریعہ سے بتدریج زرعی جائدادوں اور صنعتوں اور تجارتوں کو(بعض حالات میں بلا معاوضہ اور بعض حالات میں معاوضہ ادا کر کے ) اجتماعی ملکیت بنا لیا جائے گا۔یہی لو گ ہیں جن کے لیے اب با لعموم “سوشلٹ” کا لفظ مخصوص ہو گیا ہے ،اور کبھی کبھار ان کے مسلک کو “ارتقائی سو شلزم “بھی کہتے ہیں۔
دوسرے مسلک والوں نے کہاجمہوری طریقوں سے یہ تغیر نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے تو انقلابی طریق کار ناگریز ہے ۔نادار اور محنت پیشہ عوام کو منظم کیا جائے گا۔ملکیت رکھنے والے طبقوں کے خلاف ہر ممکن طریقہ سے جنگ کی جائے گی۔بورژوا حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔مزدوروں کی ڈکٹٹیرشپ قائم کی جائے گی۔مالکان زمین سے ان کی زمینیں اور کارخانہ داروں سے ان کے کارخانے اور تاجروں سے ان کی تجارتیں زبردستی چھین کی جائیں گی۔ جو مزاحمت کرے گا اسے فنا کے گھاٹ اتار دیاجائے گا۔سارے طبقات کو ختم کر کے تمام آبادی کو ایک طبقہ( یعنی اپنے ہاتھ سے کام کرکے روٹی کمانے والاطبقہ) بنا دیا جائے گا۔اور ازروئے قانون یہ چیزحرام کر دی جائے گی کہ ایک شخص دوسرےیا دوسرےاشخاص سے اجرت پر کام لے اور اس کا م کا نفع[واضح رہے کہ کمیونسٹ نظریہ کی رو سے اگر کو ئی درزی یانابنا تی تنہا خوداجرت پر کپڑے پہنے یا لو گو ں کو روٹی پکا کر دے تو اس کا یہ کام جائز ہے ۔لیکن اگر وہ کسی ایک لڑکے کو مزدوری یا تنخواہ پر رکھ لے اور اپنے کام میں مدد لینے لگے تو اسی وقت وہ بو رژوا بن جائے گا اور اس کا سارا کاروبار ایسا سخت جرم ہو جائے گا۔جس کی کم سے کم سزاضبطی جائیداد ہے]کھائے۔پھر جب یہ انقلاب مکمل ہو جا ئے گا اور سر مایہ دار طبقات کے از سر نو جی اٹھنے کاکو ئی خطرہ با قی نہ رہے گاتو یہ ڈکٹیٹر شپ آپ سے آپ (خدا جانے کس طرح) سوکھ کر جھڑ جائے گی اور جود بجود(نہ معلوم کیسے ) ایک ایسا نظم اس کی جگہ لے لے گاجس میں حکومت اور جبر کے بغیر زندگی کے سارے شعبے لو گو ں کی باہمی رضامندی،مشاورت اور تعاون سے چلتے رہیں گے ۔اس دوسرے مسلک کا نام “انقلابی سوشلزم “ہے ۔اسی کو “بو لشوزم” کے نام سے بھی یاد کیاجاتا ہے ۔اسی کو “مارکسزم” بھی کہتے ہیں۔مگر اب دنیا اس کو زیادہ تر “کمیونزم” کے مشہورمعروف نام سے جانتی ہے ۔
ستراسی سال تک سوشلزم کا یہ نیامسلک اپنی بے شمارشاخوں اور اپنے مختلف الاقسام مذاہب فکر کے ساتھ یورپ او ر اس کے زیراثر ملکوں میں پھیلتا رہا ۔ ابتداء یہ چند سرپھروں کی ایک نرالی اپچ تھی جس کے مقدمات اور دلائل اور نتائج، سب قطعی مہمل تھے اور صرف غصب ناک مزدورں ہی میں اس کو علم و عقل کی بنا پر نہیں بلکہ بھڑکے ہو ئے جذبات کی بنا پر مقبولیت حاصل ہو رہی تھی۔ لیکن مغربی ذہن کی دلچسپ کمزوریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپچ کو بہت پسند کرتا ہے ،خصوصا جب کہ وہ نہایت لغو ہو اور اس کاپیش کرنے والا بے دھڑک اور بے جھجک ہو کر بڑے سے بڑے مسلمات کو کاٹتاچلا جائے اور اپنے دعادی کو ذراسانٹفک طریقہ سے اتنا مرتب کر لے کہ ان کے اندر ایک سسٹم پیداہو جائے[یہ با ت کسی جغرافی تعصب کی بنا پر نہیں کہی جا رہی ہے۔مشرق میں جو مغرب زدہ ذہین پیدا ہو ا ہے اس کا حال اس سے بھی بد تر ہے ۔مغربی ذہین پھر غنیمت ہے کہ کچھ ا پچ کی بات دیکھ کر اس پر ر یجھتا ہے اور ایک سسٹم اور سا ئنفٹک طرز کو تو پسند کرتا ہے مگر یہاں وہ غلام ذہین جنم لے رہا ہے جس کو مرعوب ومتاثر کر نے والی چیز صرف یہ ہو تی ہے کہ بات مغرب کے کسی امام کی کہی ہو ئی ہے ]۔یہ خصوصیات اس “سائنٹفک سو شلزم”میں بدوجہ اتم پائی جاتی تھیں۔اسی وجہ سے نچلے متوسط طبقے کے بہت سے ذ ہین لوگ اور خود بورژوا طبقہ میں سے بعض خبطی اوربعض ہو شیار لوگ اس مسلک کیطرف متوجہ ہو گئے ۔ اس کی شرح وتفسیر اور دعوت و تبلیغ میں کتابوں،رسالوں کے ڈ ھیرلگنے شروع ہو گئے ،دنیا بھر کے ملکوں میں مختلف سوشلسٹ نظریات کی حامی پارٹیاں منظم ہو گئيں،اور آخر کار انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد سنجیدگی کے ساتھ یہ سمجھنے لگی کہ ان نظریات پر ایک نظام تمدن و معیشت تعمیر ہو سکتا ہے ۔