اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اگر یہ سب امریکہ پر صادق آتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا حال کیا ہوگا؟ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے حالات سب سے زیادہ خراب ہیں۔ امریکہ تو بانڈ سسٹم ختم کر کے روپے پر سود ختم کر سکتاہے۔ اس کا قرضہ ڈالروں میں ہے‘ وہ ڈالر چھاپ کر اسے چکا سکتا ہے۔ وہ طاقتور ملک ہے اسے بینکروں کے جارحانہ حملے کا ڈر بھی نہیں۔ مگر پاکستان نے قرضہ ڈالروں میں لیا ہے اس لیے وہ روپے چھاپ کر قرضہ نہیں چکا سکتا۔ اس کا قرضہ جو ڈالروں میں تھا وہ فارن ایکسچینج میں ہی رہا۔ اندرونِ ملک کی ضروریات نوٹ چھاپ کر پوری کی گئیں جس سے افراطِ زر اور مہنگائی ہوئی۔ مہنگائی سے تاجروں اور صنعت کاروں کا منافع بڑھ گیااور وہ روپے میں کھیل رہے ہیں۔ ملازمین جو حکومت کا ایک باعزت طبقہ ہوا کرتا تھاا ن کی تنخواہیں مہنگائی کی نسبت سے نہیں بڑھائی گئیں۔ چونکہ حکومت ان کے ہاتھ میں ہے اس لیے ان کی گزر اوقات بدعنوانی پر ہے اور تمام نظامِ حکومت بگڑ گیا ہے اور ہر طرف ظلم کا دَور دَورہ ہے۔ قرضہ عیاشیوں یعنی کاروں میں سیر سپاٹے‘ بے ضرورت دَوروں‘ بیرونی علاج ‘ دوسرے ملکوں کے بینکوں میں پیسے رکھ کر اور ان ملکوں میں بلڈنگیں بنا کر یا خرید کر ضائع کر دیا گیا۔ اپنے ملک پر اگر حکمرانوں کو اعتماد نہیں تھا تو پھر عام آدمی سے کیا توقع ہو سکتی ہے! چنانچہ من حیث القوم ہم کرپشن کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔
موجودہ حالات میں اس کا حل یہ ہے کہ حکومت لوگوں کا بیرون ملک رکھا ہوا روپیہ واپس لائے اور آئی ایم ایف وغیرہ سے کہے کہ ہمارے پاس ڈالر نہیں ہیں‘ ہم قرضہ روپوں میں واپس کریں گے اور آئندہ قرضہ نہیں لیں گے۔ اندرون ملک سود اور جاگیرداری ختم کرکے معیشت میں سادگی اور دیانتداری کو فروغ دیا جائے اور سب سے اہم اور بنیادی بات یہ کہ یہاں اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی قائم کیا جائے جس کے لیے پاکستان بنا تھا۔