ہم کیوں مقروض ہیں؟ اس لیے کہ ہم قرضہ سسٹم پر کام کر رہے ہیں جس میں روپے کے ساتھ اتنا ہی قرضہ پیدا کر دیا جاتا ہے جسے پرائیویٹ بینکر اپنے فائدے کے لیے کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ روپیہ پیدا کرتے ہیں اور سود پر دیتے ہیں اور ہم قرضہ لیتے ہیں۔
اگر کوئی کہے کہ فیڈرل ریزرو سسٹم نیم سرکاری ادارہ ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے سات ممبروں میں سے صدر صرف دو ممبر مقرر کرتا ہے اور صدر میں ہمت نہیں کہ وال سٹریٹ کے منظور کردہ ممبر کے سوا کسی کو مقرر کرے۔
ہم کہہ چکے ہیں کہ گورنمنٹ روپیہ پیداکرنے کے لیے بانڈ بیچتی ہے۔ لوگ بانڈ خرید لیتے ہیں‘ فیڈ بھی خرید لیتا ہے مگر وہ ان کی بنیاد پر اپنے نوٹ جاری کر دیتا ہے‘ پھر ان نوٹوں کو کاغذوں میں دوسرے بینکوں کو ٹرانسفر کرتا ہے جو ان کی مالیت سے دس گنا رقم سود پر دیتے ہیں۔
ہم کیا کر سکتے ہیں؟ حکومت بانڈ بیچے جن کو یو۔ ایس نوٹوں سے خریدا جائے۔ ان پر کوئی سود نہ ہو نہ قرضہ ہو‘ اس سے افراطِ زر ہو جائے گا مگر اسے قابو کیا جا سکتا ہے۔جزوی ریزرو بینکنگ کی اجازت نہ ہو اور بینک کے پاس جتنا روپیہ ہے اتنا ہی وہ قرض دے۔
فیڈ کی بلڈنگ یو ۔ایس نوٹ رکھنے کے لیے یا کلیرنگ کے لیے استعمال ہو۔ فیڈرل ریزرو ایکٹ کی ضرورت نہیں‘ اسے منسوخ کردیا جائے۔ روپیہ گورنمنٹ کے کنٹرول میں آجائے اور بینک اسے کم و بیش نہ کر سکیں۔
یہ کرنے کے بعد ہم اپنا قومی قرضہ ایک سال میں ہی ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ٹیکس کم ہونے شروع ہو جائیں گے‘ افراطِ زر نہیں ہوگا‘ اجرتوں اور بچتوں کی قیمت مستقل طور پر برقرار ہوگی‘ اور ملک میں اقتصادی استحکام ہوگا اور منی چینجرز کا حکومت پر اختیار ختم ہو جائے گا۔