اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید‘ فرقان حمید میں دین اسلام کی کاملیت اور اکملیت کے بارے میں فرمایا ہے:{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَـکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط} (المائدۃ:۳)’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔‘‘
بلاشبہ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس پر حاملین ِدین ِمتین جتنا فخر کریں کم ہے‘جتنا ناز کریں کم ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دورِ حاضر کے مختلف فتنوں نے ہمارے اس اعزاز کو معذرت خواہانہ سوچ اور رویے میں بدل دیا ہے۔ چنانچہ اسلام پسند طبقات میں ایسے افراد اور گروہ وجود میں آ گئے ہیں جنہیں ’’بائیں بازو‘‘کے قرار دینا زیادہ موزوں ہے۔ ان کی سوچ سیکولراور فکر لبرل ہے‘سیاسی دینداری جمہوریت پر مبنی ‘البتہ مذہبی وابستگی اسلام کے ساتھ ہے۔ ان اسلام پسندوں کو ہر وہ بات بھلی لگتی ہے جو جدید رجحانات کے موافق ہو اور جس میں ٹھیٹھ اسلامی اقدار‘شریعت کے احکام اور اسلاف کی روایات پر زدپڑتی نظر آئے۔ اس طرزِ فکر کے حاملین کو کبھی کبھار اُن باتوں کی تائید کرنا اور اپنے جدیدیت پر مبنی رجحانات کے حق میں استعمال کرنا بھی مفید ِمطلب ہوتا ہے جو بعض رسوخ فی العلم کے حامل روایت پسند (آرتھوڈاکس)اہل علم کی جانب سے سامنے آئیں‘ البتہ جن کے علم و فکر سے ہمیشہ بائیں بازو کے اسلام پسندوں کو بے اطمینانی ہی رہتی ہے۔
چونکہ اِن اسلام پسندوں کو ریاستی حلقوں میں خصوصی مقام و مرتبہ حاصل ہے اسی لیے میڈیا اورریاستی اداروں میں ان کی رائے کو نمایاں کرکے دکھایا جاتا ہے تاکہ عوام کی بھی انہی خطوط پر تربیت ہو سکے۔ ۱۱/۹کے بعد سے اس رجحان میں شدت پیدا ہو چکی ہے اور روایت سے بغاوت فیشن بن چکا ہے۔
اسلام کے فکر و فلسفہ اور نظامِ معیشت و معاشرت و سیاست کے باب میں رسول اللہ ﷺ کے آخری خطبے یعنی خطبہ حجۃالوداع کو خصوصی مقام حاصل ہے۔ اس خطبہ کواہل نظر نے انسانی تاریخ کا سب سے عظیم اور موثر اعلامیہ قرار دیا ہے جس میں انسانیت کے اصول ہائے حریت و اخوت و مساوات کے سب سے اعلیٰ اور نمایاں اوصاف بیان ہوئے ہیں۔
۹ ذوالحج ۱۰ ہجری کے خطبہ ٔحجۃ الوداع میں بیان کردہ دو امور ایسے ہیں جن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے التزام اور اہمیت کے اعتبار سے تقریباً ایک جیسا اسلوبِ بیان اختیار فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک معاملہ دورِجاہلیت کے مقدمہ ہائے قتل وقصاص کا ہے جبکہ دوسرا معاملہ سود (ربا)اور سودی قرضوں کا ہے۔ چنانچہ ان دوامور کے معاملے میں آپ ﷺنے فرمایا:
((اِنَّ دِمَآئَ کُمْ وَاَمْوَالَـکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ، کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا ، فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا، فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا ، اَلَا کُلُّ شَیْئٍ مِنْ اَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ ، وَدِمَآئُ الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعَۃٌ ، وَاِنَّ اَوَّلَ دَمٍ اَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِیْعَۃَ بْنِ الْحَارِثِ ، وَکَانَ مُسْتَرْضِعًا فِیْ بَنِیْ سَعْدٍ فَقَتَلَتْہُ ھُذَیْلٌ ، وَرِبَا الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعٌ ، وَاَوَّلُ رِبًا اَضَعُ مِنْ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ، فَاِنَّہٗ مَوْضُوْعٌ کُلُّہٗ )) (اخرجہ مطولا مسلم ۱۲۱۸، وابوداوٗد ۱۹۰۵، وابن ماجہ ۳۰۷۴، والدارمی ۱۸۵۰) ’’تمہارے خون اور تمہارے مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے آج کے دن کی‘رواں مہینے کی‘اور اس شہر کی حرمت ہے ۔سن لو!جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی‘جاہلیت کے خون بھی ختم کردیے گئے ‘اور ہمارے خون میں سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں ‘وہ ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کے بیٹے کا خون ہے ۔ یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ (ان ہی ایام میں)قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کردیا۔ اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا‘اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے ۔ اب یہ سارے کا سارا سود ختم ہے۔‘‘
اُمت مسلمہ کے لیے حرمت ِربا کا حکم اس خطبہ سے سات‘آٹھ برس قبل ہی غزوۂ اُحد کے موقع پر نازل کردہ سورئہ آل عمران کی آیت ۱۳۰ کے ذریعے نازل ہو چکا تھا۔ گویا لگ بھگ سات ‘آٹھ برس کا عرصہ درمیان میں ہے جس میں حرمت ِربا کے ضمن میں اہم ہدایات‘تفصیلی احکام اور متبادل انتظامات سامنے لائے جاچکے تھے۔مختلف اقسام کے باطل و فاسد طریقہ ہائے بیع و شراء کی وضاحت بھی بیان ہو چکی تھی۔کئی لین دین اور سودے‘سودی قرار دے کر لوٹائے جاچکے تھے اور مسلمانوں کو اس بارے میں انفرادی طور پر متعدد بار تنبیہی پیرائے میں جھنجوڑا جاچکا تھا۔اور اب گویا وقت آچکا تھا کہ ریاست ِاسلامیہ کے سربراہ کی حیثیت سے پیغمبر اسلامﷺ کی جانب سے سود کے جملہ معاہدات کو null and void قرار دے کر اس استحصالی عنصر کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی جائے۔چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع کے بعد سے اُمت ِمحمدیہﷺ میں سودی لین دین کا اسی طرح سے خاتمہ ہو گیا جیسے جزیرہ نمائے عرب سے شرک کا کامل خاتمہ ہوا۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ اب اسلام انفرادی معاملات سے آگے بڑھ کر اجتماعیات پر بھی محیط ہوچکا تھا …ایسامحیط کہ پھر انفرادیت اور اجتماعیت کے مابین من و تو کی قید اور امتیاز ہی باقی نہ رہا۔ بفحوائے الفاظِ قرآنی:
}اَلْيَوْمَ يَىِٕسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِيْ مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ǽ {المائدۃ’’آج کفار تمہارے دِین سے نا اُمید ہو گئے‘خبردار تم اُن سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا۔آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ گناہ کی رغبت کی بنا پر ایسا نہ کیا ہوتو یقینااللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بہت بڑا مہربان ہے۔‘‘
اور اللہ کی رحمت سے کیفیت وہی ہو گئی جو سورۃ النور کی آیت ۵۵میں بیان ہوئی ہے:}وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ{’’اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گاجیسا کہ ان سے پہلوں کوخلافت عطا کی تھی‘اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اس کو ضرور اقتدار بخشے گااور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے اس کے بدلے ان کو ضرور امن عطا کرے گا۔‘‘
چاہیے تو یہ تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد جو بھی قانون بنتا یا نظام بنایا جاتا اسے دین اور شریعت کے عین مطابق بنایا جاتا‘لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ قائد اعظم بھی اسلام کی معاشی تعلیمات کے نفاذ کے ضمن میں اپنی اُس خواہش کو پورا ہوتے نہ دیکھ سکے جس کا اظہار انہوں نے ۱۹۴۸ء میں اسٹیٹ بینک کی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے کیا تھا۔بعد والے اس ذمہ داری کو یکسر بھول گئے۔ پھر یہ بات یاد آئی بھی تو اُن مردانِ خدامست کو جنہیں ہم جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن اور ڈاکٹر اسرار احمد(رحمہما اللہ)کے نام سے جانتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ۱۹۶۹ء میں بینک انٹریسٹ کو سود قرار دیا اور متبادل نظام کا خاکہ بھی پیش کر دیا۔ یوں اللہ کی طرف سے حجت قائم ہونا شروع ہو گئی۔پھر ۱۹۹۱ء میں فیڈرل شریعت کورٹ نے بھی بینک انٹریسٹ کے ربا المحرم ہونے کا فیصلہ دیا اور ہمیں سنبھلنے‘توبہ تائب ہونے کا بھر پور موقع دے دیا۔ لیکن اُس وقت بھی بائیں بازوکے اسلام پسندوں کو مکروہ کھیل کھیلنے کا موقع ملا اور اللہ اور رسولﷺ سے جنگ جاری رکھنے پر ہی مصر رہے۔یہاں تک کہ ۱۹۹۹ء میں شریعت ایپلیٹ بینچ آف سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے حجت کو تمام کردیااور ہمیں اپنا قبلہ درست کرنے کا سنہرا اور شاید آخری موقع فراہم کردیا۔ اب کون پوچھے ہمارے بائیں بازو کے نام نہاد اسلام پسندوں سے‘جنہوں نے تمام ضابطوں اور اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ۲۰۰۲ء میں سابقہ دونوں فیصلے کو کالعدم قرار دلوا کراور معاملے کو ازسرنو فیڈرل شریعت کورٹ کی جانب ریمانڈ کروا کر رسوائیوں اورتباہیوں کے مہیب دروازے کھلوا دیے‘جن کا اثر ہے کہ طرح طرح کی آفات نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور پوری قوم سودی قرضوں کے ایک ایسے جال میں پھنس چکی ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے‘فیڈرل شریعت کورٹ اُس ریمانڈ شدہ کیس کولٹکائے جارہی ہے۔ یعنی جس قضیے کو ۱۹۹۱ء میں فیڈرل شریعت کورٹ نے تین مہینے میں ہی نمٹا دیا تھا‘اور۱۹۹۹ء میں سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بینچ نے ساڑھے چار پانچ مہینے کی سماعت میں۱۲۰۰ صفحات پر مشتمل فیصلہ دے کر ایک طرف لگا دیا‘اب ۱۶‘۱۷ برس سے ایسے کھینچا اور لٹکایا جارہا ہے کہ گویا کوئی سرا پکڑائی ہی نہ دیتا ہو۔ ۲۰۱۳ء سے تو یہ کیس باقاعدہ زیر سماعت ہے۔ کبھی jurisdiction کا مخمصہ ہے تو کبھی ربا کی definitionکا۔ کبھی اسٹیٹ بینک کے وکیل طے شدہ سماعت میں پیش نہیں ہوتے تو کبھی اٹارنی جنرل یا ڈپٹی اٹارنی جل دے جاتے ہیں۔ اگر ایک طرف کورٹ کے حالیہ اخباری ریمارکس کہ ’’سودی نظام کی مخالفت کرنے والے پہلے ایک مکمل نظام بنا کر پیش کریں‘‘(۱) بظاہر حوصلہ و اعصاب شکن ہیں تو دوسری طرف بائیں بازو کے اسلام پسند بھی انتہائی دلفریب انداز میں اس نازک صورت حال سے اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہیں۔ ملاحظہ ہو ’’سود سے نجات کی خوشخبری‘‘کے عنوان سے روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں جناب خورشید ندیم صاحب کا کالم۔پڑھئے تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جیسے یہ ایک معمولی‘ضمنی اور کسی کا ذاتی سا معاملہ ہو۔ اسلامی بینکاری کے حق میں مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہ کے ایک بیان کی آڑ میں موصوف فرماتے ہیں:
’’آج ریاست اور معاشرے کے ایک قابل ذکر طبقے نے جاری بینکاری اور معاشی عمل کے ایک بڑے حصے کو اگر سود سے پاک اور قرآن و سنت کے مطابق قرار دے دیا ہے تو اسلامی یا غیر اسلامی کی بحث کو سیاسی عوامی مسئلہ نہیں بنایا جا سکتا۔ پھر یہ کہنا درست نہیں کہ حکومت یا عوام کی ایک بڑی تعداد معاذ اللہ‘ اللہ اور رسول کے خلاف اعلانِ جنگ پر آمادہ ہے۔ اس باب میں شدت‘ مذہبی انتہا پسندی ہی کی ایک صورت ہے۔ اگرکسی کو ایک رائے سے اختلاف ہے تووہ مہذب طریقے سے اپنی رائے دے دے‘یہ معاشرہ ہی ہے جوکسی رائے کو قبول یا مسترد کرتا ہے۔‘‘
ہمارا تاثر یہ ہے کہ صاحب کالم کو اپنے لبرل اور سیکولر تعارف پر کچھ خجالت ہے‘ اسی لیے وہ یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی بینکاری کی صورت میں جیسا تیسامتبادل سامنے آیاہے اس پر اپنی اسلام پسندی کا ٹھپہ لگوالیں اور لگے ہاتھوں اُن قدامت پسندوں کوتہذیب‘ ورنہ خاموشی اختیار کرنے کا مشورہ بھی دے دیں جو بینک انٹرسٹ کو رباالمحرم قرار دیتے ہیں اور ربا کی ہر شکل کے خاتمے کو دینی اور آئینی ودستوری تقاضا قرار دیتے ہوئے کسی نہ کسی طور سے مصروفِ عمل ہیں۔ ورنہ اس بات میں کیا شبہ ہے کہ ہمارے ممدوح کالم نگار اُس پورے مذہبی بیانیے سے اختلاف ہی نہیں عناد بھی رکھتے ہیں جس کی نمائندگی حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کرتے ہیں۔لیکن چونکہ مولانا کے ایک بیان سے موصوف کو جزئی اور انتہائی واجبی سپورٹ ملتی نظر آئی‘اس لیے موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکے۔
صاحب کالم کا یہ فرمانابھی انتہائی تعجب کا باعث ہے کہ ’’غیر سودی بینکاری کے ساتھ بینکوں کو سود کی بنیاد پر لین دین کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں‘‘یہ ایک فنی سوال ہے جس کاکوئی تعلق کسی نظریاتی بحث سے نہیں ہے۔اس کا فیصلہ حکومت معروضی حالات کے پیش نظر کرے گی۔ ہمارے سامنے صدرِ اول کی مثال موجود ہے‘ جب حالات کا تقاضا تھا سود کو گوارا کیا گیا۔ گویا یہ حق حکومت کے پاس ہے اور اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘‘۔یہ وہی بات ہے کہ عذر گناہ بدتر از گناہ۔ گناہ تو سب سے سرزد ہوجاتے ہیں‘ عام آدمی قلق محسوس کرتے ہوئے اظہارِ ندامت کرتاہے اور خود ساختہ مفکر اس بدعملی کی ’’علمی توجیہات‘‘ تراش لیتا ہے۔ جناب محترم! یہ عین نظریاتی معاملہ ہے۔ صدرِ اول سے اگر آپ کی مراد پیغمبرﷺکی بعثت کے ابتدائی گیارہ‘ بارہ برس ہیں تو اس دورانیے میں شریعت محمدیہ ﷺمیں کئی دوسرے احکامِ شریعت کی طرح حرمت ِسود کا حکم نازل ہی نہیں ہوا تھا۔ جس طرح سفر معراج سے پہلے تو پنج وقتہ نماز کا بھی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ حرمت ِخمر و میسر اور سرقہ کی سزا وغیرہ کا حکم بھی مدنی دور کے نصف اول میں نازل ہوا۔ فرضیت ِصوم وزکوٰۃ اور ستر و حجاب کے احکام کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ تو کیا ان سب احکامِ شریعت کے ضمن میں اسلامی حکومت کو حق ہے کہ مسلمان شہریوں کے لیے آپشن کھلی رکھے‘ چاہیں تو عمل کریں اور چاہیں تو معصیت اور گناہ میں مبتلا رہیں…؟ضابطوں اور معاملات کیtransformation کے لیے مہلت اور مدت کا تعین ایک الگ شے ہے‘ لیکن مطلقاًمعروضی حالات پر انحصار کا دعویٰ کس مسلک میں جائز ہے؟ اور اگر صدرِ اوّل سے شریعت ِاسلامیہ کی تکمیل کے بعد کے ادوار مراد ہیں تو ازراہ کرم ان ادوار کی وضاحت فرمادیجئے تاکہ تاریخی حقائق اور اپنی معلومات کو درست کرلیاجائے۔
ہم صاحب کالم سے دست بستہ عرض کریں گے کہ اسلامی بینکاری کی موجودہ ہیئت مسلمانانِ پاکستان کی منزل ہرگز نہیں ہے۔نہ ہی آپ کو اس کی تائید یا تردید بوجوہ جچتی ہے۔اس لیے بھی کہ یہ بات تو واشگاف الفاظ میں خود مولانا محمد تقی عثمانی صاحب بھی بارہا بیان کرچکے ہیں(۲)کہ موجودہ اسلامی بینکنگ حیلوں پر قائم ایک عارضی بندوبست ہے جو صرف عریاں سود سے بچاؤ کا ایک عبوری انتظام ہے۔ مولانا مدظلہ تو وہ شخصیت ہیں جنہوں نے آئین پاکستان پر حلف اُٹھا کر۱۹۹۹ء میں ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ میں بطور آئینی جج کے‘ سود کی ہر شکل کے ابطال کا تاریخی فیصلہ صادر فرمایا تھا۔ ایسی شخصیت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ کبھی سود کے ’’کامل خاتمے‘‘ سے کم تر پر راضی ہوسکیں گے؟ان کی ایک مخصوص تناظر میں کی گئی بات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر اسے اپنی مطلب برآری کے لیے ازراہِ کرم استعمال نہ کیجئے۔مسلمانانِ پاکستان کبھی بھی سود کے مکمل خاتمے کے اپنے دینی اور آئینی حق سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔اگر دستورِ پاکستان کی دفعہ 38F یہ کہتی ہے کہ:
“State shall eliminate riba as early as possible”
اوردوسری طرف مسلمانانِ پاکستان‘ قرآن وسنت اور خطبہ ٔحجۃ الوداع میں بیان کردہ منشورِ اسلام پر کامل ایمان و یقین رکھتے ہیں‘تو کیسے ممکن ہے کہ مسلمان حکمران و عوام گونگے شیطان بن کر ایک صریح بغاوت اور معصیت کو جدیدیت اور سیکولر اسلام پسندوں کے لحاظ میں قبول بھی کیے رکھیں اور ’’مہذب‘‘ لوگوں کی طرح ماتھے پر شکن تک نہ آئے۔ع ’’ایں خیال است و محال است و جنوں!‘‘
بندہَ مومن کے لیے قرآنی وعید{ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ} (البقرۃ:۲۷۹) آجانے کے بعد اور حدیث ِرسولﷺ ((اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْبًا، اَیْسَرُھَا اَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہٗ)) (رواہ الحاکم عن عبداللّٰہ بن مسعود، وصححہ علی شرط البخاری ومسلم، ووافقہ الذہبی، وصححہ الألبانی)اور خطبہ حجۃ الوداع کے دوٹوک اعلامیے (رِبَا الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعٌ وَاَوَّلُ رِبًا اَضَعُ مِنْ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ، فَاِنَّہٗ مَوْضُوْعٌ کُلُّہٗ )کو سن‘ پڑھ لینے کے بعدبھی کچھ کہنے کی کوئی کسر باقی رہ جاتی ہے؟ قائداعظم تو معروف معنوں میں مذہبی شخصیت نہ تھے۔ ان کی مذکورہ تقریر (۳) کو پڑھ کر ہی دیکھ لیجئے‘ شاید سودی نظام کی تباہ کاریوں کا کچھ اعتبار ہو۔علامہ اقبال کے نام پر بہت سارے اسلام پسندوں کی روزی روٹی لگی ہوئی ہے۔اُن کے اِن اشعار کی بابت آپ کیا فرمائیے گا؟
ایں بنوک ایں فکر چالاکِ یہود
نورِ حق از سینہ آدم ربود
تا تہ و بالا نہ گردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دیں سودائے خام!
اور
از ربا آخر چہ می زاید؟ فتن!
کس نداند لذتِ قرضِ حسن
از ربا جاں تیرہ دل چوں خشت و سنگ
آدمی درّندہ بے دندان و چنگ
بہت بہتر ہوگا اگر آپ اپنے زورِ قلم کو اباحیت کی ترویج کی بجائے شریعت ِاسلامی کی حقانیت اور دینی غیرت و حمیت کے فروغ میں صرف کریں‘ کہ اسی میں مسلمانوں کی نجات اور پاکستان کا استحکام پنہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!
حواشی
)۱) روزنامہ جنگ‘ نوائے وقت‘ دنیاوغیرہ ‘بتاریخ ۱۶ جنوری۲۰۱۹ ء۔
(۲) ماخوذ از ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘ تجزیاتی مطالعہ (مکتبہ بینات‘ کراچی)‘‘اسلامی بینکاری اپنے بنیادی تقاضوں کو پورا نہیں کر رہی‘نہ ہی مشارکہ کی طرف کسی قسم کی پیش رفت کی قابل ذکر کوششیں موجود ہیں…مرابحہ‘ اجارہ وغیرہ کا استعمال بھی روایتی معیارات LIBORوغیرہ کے فریم ورک میں ہوتا ہے جس کا آخری نتیجہ مادی طور پر سودی معاملے سے مختلف نہیں ہوتا…بعض اسلامی بینکوں میں یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ ان میں مرابحہ اجارہ کو بھی ان کے شرعاً مطلوب طریق کار کے مطابق اختیار نہیں کیا جاتا …‘‘(بحوالہ اسلامی بینکاری کی بنیادیں‘ حقیقت پسندانہ جائزہ‘صفحہ نمبر ۲۴۸)
’’یہ ایک حیلہ نکالا گیا ہے اور اس کے حیلہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں‘اس لیے میں جہاں بھی دخیل ہوں وہاں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ مرابحہ اور اجارہ کے معاملات کم کرو اور رفتہ رفتہ شرکت اور مضاربت کی طرف بڑھو ‘اور جہاں ایسا نہیں کرتے وہاں سے میں رفتہ رفتہ الگ بھی ہو رہا ہوں ‘اس واسطے کہ بس ہوگیا‘ایک حیلہ کر لیا…اپنی ساری سرگرمیاں اسی پر رہیںیہ ٹھیک نہیں۔‘‘ (بحوالہ ماہنامہ ندائے شاہی‘ مرادآباد‘ فروری۲۰۰۴ء)
(۳) ملاحظہ ہو اس کتاب کی تقدیم‘ ص۳ پر قائد اعظم کی تقریر کا اقتباس۔
(حرفِ اوّل‘ از حافظ عاطف وحید ‘ حکمت قرآن‘ جنوری تا مارچ ۲۰۱۹ء)