سوال 6:آئین پاکستان میں ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کسی قانون کے اسلام کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ قرآن و سنت کی بنیاد پر کرے گی۔ بنا بریں قرآن و سنت کے صریح احکام کی موجودگی میں کسی معاملے کے اسلامی یا غیراسلامی ہونے کے بارے میں ہم عصر علماء کی رائے کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: شرعی مصادر میں یہ گنجائش موجود ہے کہ ایک قابل اور اہل مسلمان فقیہہ کسی مسئلے پر شریعت کا مؤقف واضح کر سکے۔ کسی الوہی قانون کی تشریح کے لیے کوئی بھی اہل فقیہہ اپنا یہ اختیار قرآن و سنت کی روشنی میں استعمال کرتا ہے (دیکھئے: سورۃالنساء‘ آیت83)۔ اگر اس کا نقطۂ نظر شریعت کے اصول‘ مقاصد اور مزاج کے مطابق ہو تو اسے قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
ہماری رائے یہ ہے کہ آئین پاکستان میں یہ خلا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت صرف قرآن و سنت کے صریح احکام کی موجودگی میں کسی معاملے کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کے حوالے سے فیصلہ کرے۔ مآخذ ِشریعت میں کتاب و سنت کے بعد اجماع اور قیاس کا درجہ بھی آتا ہے۔ کئی احکام شرعی اجماع کے ذریعے اخذ کیے گئے ہیں‘ اسی طرح کئی احکام شرعی اجتہاد یعنی قیاس کے ذریعے بھی اخذ کیے جاتے ہیں‘ جس پر تقریباً تمام امت متفق ہے۔ اگر امت کے کسی گروہ کا اس پر اختلاف بھی ہو تو کم از کم یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تمام مقلدین اور جمہور امت اس پر متفق ہے۔ لہٰذا کسی قانون کے مطابق یا مخالف اسلام ہونے کی پرکھ کے حوالے سے ہمیں آئین پاکستان میں اجماع اور قیاس کا بھی ذکر کتاب و سنت کے بعد کرنا چاہیے۔ اہل علم کے ہاں اس مسئلہ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ہے یا علماء امت عصری مسائل پر اجتہاد کر سکتے ہیں؟ مذاہب اربعہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد آنے والی جید اور معتبر علمی شخصیات نے اپنے اپنے امام کے بعض اجتہادات سے اختلاف کیا ‘بلکہ بعض صورتوں میں ان کے اجتہاد کے بالکل برعکس علمی موقف اختیار کیا ‘اور ایسا بھی ہوا کہ بعد میں آنے والوں کا یہ علمی موقف راجح قرار پایا اور ان کے بعد میں آنے والے انہی کے موقف کو اختیار کرتے رہے اور اسی پر فتوے دیتے چلے آ رہے ہیں۔ خود فقہ حنفی میں امام اعظم ابو حنیفہ کے صاحبین امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ نے بعض مسائل پر امام صاحب کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ اختلافات علمی دلائل کی بنیاد پر پیدا ہوتے تھے اور بعد میں آنے والے جید حضرات یہ سمجھتے تھے کہ ان کے امام معصوم نہیں تھے بلکہ ان سے اجتہادی غلطی ہو سکتی تھی۔ پھر ان میں سے بعض اختلافات کی نوعیت ایسی نہ تھی کہ مختلف فیہ مسئلہ میں محض اولیٰ اور خلافِ اولیٰ کا تعین کیا جا رہا ہو بلکہ وہ اختلافات جواز و عدم جواز اور حلت و حرمت کے حوالے سے تھے۔ جیسے مزارعت (بٹائی کی بنیاد پر غیر حاضر زمینداری کے مسئلہ کو ہی لے لیجیے تو امامِ اعظمؒ اسے ناجائز سمجھتے تھے جبکہ امام ابو یوسف ؒنے اس کے جواز کا موقف اختیار کیا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ خود ائمہ اربعہ کے مابین بھی ان کے اجتہادات کے حوالے سے نظر آتا ہے۔ امام شافعیؒ ائمہ ثلاثہ کی آراء کے برعکس مزارعت کی بعض صورتوں کو جائز سمجھتے ہیں۔
اسی نوع کا اختلاف ان کے ہاں مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کے جواز اور عدم جواز پر بھی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی معاملہ کے اسلامی یا غیر اسلامی قرار دیے جانے کے حوالے سے معاصر علماء کی آراء کی اہمیت درج ذیل اعتبارات سے ہے:
(۱) قرآن و سنت کے کسی حکم کے صریح ہونے کے بارے میں وہ رائے دے سکتے ہیں۔
(۲) قرآن و سنت کے کسی بھی حکم کی شرح و تبیین اور تخصیص و تقیید کے حوالے سے عدالت کی معاونت کر سکتے ہیں۔
(۳) اجماع اور قیاس سے اخذ کردہ احکام کی وضاحت اور تشریح کر سکتے ہیں۔
(۴) ائمہ مجتہدین کے اجتہادات اور فقہی آراء میں سے کتاب و سنت کے قریب ترین ہونے کی بناء پر کسی رائے کو راجح قرار دے سکتے ہیں۔
(۵) موجودہ دور میں ’’اجتماعی‘‘ اور ’’ادارہ جاتی اجتہاد‘‘ اسلامی فقہ کے غیرروایتی مسائل پر قانونی بحث اور شریعت کی ترجمانی کا ایک مقبول ذریعہ بن چکا ہے۔ فقہی مجالس کی آراء اور ان کے فیصلے‘ جو فقہاء و مجتہدین کے اجماعی فیصلوں کا نتیجہ ہوتے ہیں‘ معتبر گردانے جاتے ہیں اور ان کی حیثیت مسلمہ ہوتی ہے۔
زیر نظر مسئلہ میں بھی اجتماعی اجتہاد کے مذکورہ بالا اداروں کی rulings کو انفرادی آراء کے مقابلے میں اسی بنا پر اضافی اہمیت حاصل ہے۔