سوال 4: ’’ربا الفضل‘‘ کسے کہتے ہیں؟ موجودہ بینکاری لین دین میں اس کے قابل اطلاق ہونے کی وضاحت کریں۔
جواب: ربا النسیئہ قرض اور ادھار پر سود کی صورت ہے جس کی حرمت کا صریح حکم قرآن حکیم میں وارد ہوا ہے۔ اس کے برعکس ربا الفضل کو ربا الحدیث اور ربا النقد بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی حرمت اور ممانعت کا حکم احادیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے۔ ربا الفضل اس زیادتی کو کہتے ہیں جو ایک ہی جنس کی دو اشیاء کے دست بدست لین دین میں ہو۔ ربا الفضل کو ربا حکمی بھی کہا جاتا ہے کہ اس پر ربا کا حکم نافذ ہوتا ہے۔ اسے ربا خفی بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ ربا النسیئہ کی طرح بظاہر کھلا سود نہیں ہے بلکہ کھلے سود کا ذریعہ حیلہ اور چور دروازہ ہے۔ احادیث صحیحہ سے اس کی حرمت ثابت ہے اور اِس حرمت کا ایک پہلو سدِّذریعہ کے طور پر ہے۔ خود حضورﷺ نے رباالفضل کی حرمت کی یہی حکمت بیان فرمائی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرiبیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((لا تأخذوا الدینار بالدینارین ‘ولا الدرھم بالدرھمین ولا الصاع بالصاعین ‘انی اخاف علیکم الربا)) (کنز العمال: ج۴‘۱۱۷)ترجمہ:’’ایک دینار کو دو دینار کے عوض اور ایک درہم کو دو درہموں کے عوض اور ایک صاع کو دو صاع کے عوض فروخت نہ کرو‘مجھے خوف ہے کہ کہیں تم سود خوری میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔‘‘
علامہ ابن قیم ؒفرماتے ہیں:الربا نوعان: نوع حرم لما فیہ من المفسدۃ و ھو ربا النسیئۃ ‘و نوع حرم تحریم الوسائل ‘و سداً للذرائع (اعلام الموقعین: ج۳‘ص۱۳۴)ترجمہ:’’ ربا کی دو قسمیں ہیں : ایک ربا النسیئہ جو ذاتی خرابی کی وجہ سے حرام کیا گیا ہے اور دوسری وہ قسم ہے جو اس لیے حرام کی گئی کہ یہ ربا النسیئہ کا ذریعہ نہ بن سکے۔‘‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک جنس کی دو اشیاء کی آپس میں بیع یا تبادلہ کی ضرورت صرف اس وقت پیش آتی ہے جبکہ اتحادِ جنس کے باوجود ان کی قسم اور معیار مختلف ہوں ‘مثلاً چاول‘گندم یا سونے کی ایک قسم کی بیع یا تبادلہ دوسری قسم سے ہو اور اس صورت میں دونوں اقسام کے معیار میں فرق ہو۔ اس صورتحال کے ازالہ کے لیے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حضورﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ہے:
جاء بلال بتمر برنی، فقال لہ رسول اللّٰہ ﷺ: من این ھذا؟ فقال بلال: تمر کان عندنا ردی ‘ فبعتُ منہ صاعین بصاع لمطعم النبیﷺ، فقال رسول اللّٰہ عند ذلک: ((أوہ ! عین الربا ‘ لا تفعل ‘ ولکن اذا أردتَ ان تشتری التمر فبعہ بیع أخر، ثم اشتر بہ))۔ لم یذکر ابن سھل فی حدیثہ: ’’عند ذلک‘‘ (صحیح مسلم‘کتاب البیوع‘باب بیع الطعام‘رقم: ۴۰۷۳)ترجمہ:’’ایک دفعہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضورﷺکی خدمت میں برنی کھجوریں لے کر آئے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس گھٹیا قسم کی کھجور تھی ‘میں نے وہ دو صاع دے کر ایک صاع خریدلی‘ توآپﷺ نے تعجب کااظہار فرماتے ہوئے فرمایا کہ قطعی سود۔ ایسا ہرگز نہ کیا کرو اور تمہیں اچھی کھجوریں خریدنی ہوں تو اپنی کھجوریں درہم یا کسی اور چیز کے عوض بیچ دو‘ پھراس کی قیمت سے اچھی کھجور خرید لو۔‘‘
ایک اور حدیث شریف ملاحظہ ہو:عن ابی سعید الخدریص قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: ((الذھب بالذھب والفضۃ بالفضۃ و التمر بالتمر والبر بالبر و الشعیر بالشعیر والملح بالملح مثلاً بمثل یدا بید‘ فمن زاد او استزاد فقد اربی الآخذ والمعطی فیہ سواء)) (صحیح مسلم‘کتاب المساقات‘باب الصرف‘رقم: ۴۰۶۴)’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : سوناسونے کے بدلے میں‘چاندی چاندی کے بدلے میں‘کھجور کھجور کے بدلے میں‘گندم گندم کے بدلے میں‘جو جو کے بدلے میں اور نمک نمک کے بدلے میں بیچے جا سکتے ہیں‘مگر شرط یہ ہے کہ برابر برابر ہو اور دست بدست ہوں۔ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے سود کا لین دین کیا۔ لینے والااور دینے والا دونوں برابر ہیں۔‘‘
ان روایات سے چند امور بالکل واضح ہو گئے:
(۱) حضورﷺ نے چھ ہم جنس اشیاء کے باہمی تبادلے یا بیع کی اجازت کے لیے پہلی شرط یہ رکھی کہ دونوں برابر برابر ہوں یعنی یہ برابری Quantity (مقدار) میں ہو۔
(۲) اگر ایک ہی جنس کی مختلف اقسام کا مقداراً برابری کی بنیاد پر تبادلہ/ بیع ایک فریق کو فائدہ دے تو یہ سود ہے جس سے بچنے کا طریقہ حضورﷺ نے یہ بتایا کہ ایک فریق پہلے اپنی چیز بازار میں فروخت کرے اور پھر حاصل کردہ رقم سے مطلوبہ قسم کی خریداری کرے۔
(۳) اس بیع اور تبادلے کی دوسری شرط یہ رکھی گئی ہے کہ یہ بیع/ تبادلہ دست بدست یعنی نقد ہو۔ اگر اس میں ادھار کا عنصر شامل ہو گیا ہو تو یہ ربا ہو گا خواہ ایک فریق کی طرف سے تبادلہ/ بیع میں دی جانے والی شئے کی مؤخر ادائیگی کی صورت میں مقداراً برابری ہی ہو۔ اس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ اگر ایک فریق آج دوسرے فریق کودس کلو گندم فروخت کرتا ہے اور اس کے بدلے چھ ماہ بعد دوسرے فریق سے ۱۰کلو ہی گندم حاصل کرتا ہے تو عین ممکن ہے کہ چھ ماہ قبل گندم کی قیمت ۵ روپے فی کلو ہو اور چھ ماہ بعد اس کی قیمت ۶ روپے کلو ہو جائے اور یوں پہلے فریق کو ۱۰ روپے کا فائدہ حاصل ہو جائے اور یہ بھی ربا الفضل ہونے کی بنا پر قابل اجتناب ہے۔
(۴) جمہور فقہاء نے حدیث شریف میں بیان کردہ چھ اشیاء پر قیاس کرتے ہوئے اُن تمام ہم جنس اشیاء کی بیع/ تبادلہ کو شامل کیا ہے ‘خواہ وہ اجناس ثمن سے ہوں یا مطعومات میں سے‘لیکن وہ ماپ اور وزن سے بکتی ہوں۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ تعداد سے بکتی ہوں۔ جیسے۵۰ اخروٹ‘۱۲ کیلے یا۲۴ سیب وغیرہ۔ البتہ علمائے ظاہر چونکہ قیاس کے قائل نہیں اس لیے وہ دیگر اشیاء کو شامل نہیں کرتے اور ان کے نزدیک حدیث شریف میں بیان کردہ چھ اشیاء یعنی سونا‘چاندی‘گندم‘جو‘کھجور اور نمک کے علاوہ دیگر اشیاء میں کمی و زیادتی کے ساتھ بیع حرام نہیں ہے۔ موجودہ بینکاری کا پورا نظام چونکہ قرض کی بنیاد پر ہے اور ربا الفضل نقد اور ادھار کا سود ہے جو ہم جنس اشیاء کے تبادلے یا بیع کی صورت میں حاصل ہوتا ہے یا مختلف نوع کی اجناس کے ادھار تبادلے یا بیع کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا ربا الفضل کا اطلاق موجودہ بینکاری لین دین پر بھی ہوتا ہے‘اس لیے قرض میں بھی لی جانے والی اور دی جانے والی شے (یعنی رقم) ہم جنس ہوتی ہے۔
یہاں ہم ربا الفضل کی اس تعریف‘جسے ربا کے معاملے میں عدالت عظمیٰ کے تاریخی فیصلے کی روشنی میں وضع کیا گیا‘میں بہتری کے لیے ایک ترمیم تجویز کرنا چاہیں گے۔ معزز عدالت نے ربا کی ابتدائی صورت‘یعنی قرض اور لین دین کا سود‘ واضح کرنے کے بعد ربا کی مزید شکلوں کا ذکر کیا ہے۔
1. A transaction of money for money of the same denomination where the quality on both sides is not equal, either in a spot transaction or in a transaction based on deferred payment.
2. A barter transaction between two weighable or measureable commodities of the same kind, where the quantity on both sides is not equal, or where the delivery from any side is deferred.
3. A barter transaction between two different weighable or measureable commodities where delivery from one side is deferred.
یعنی:
(۱) ایک ہی نوع کی کرنسی کا باہمی تبادلہ جبکہ اس کی ’’قدر‘‘ دونوں جانب برابر نہ ہو‘چاہے یہ لین دین موقع پر ہو یا مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر۔
(۲) ایک ہی نوع کی دو قابل وزن/ قابل پیمائش اشیاء کا ’’مال کے بدلے مال‘‘ (بارٹر) کی بنیاد پر باہمی لین دین‘ جبکہ دونوں جانب سے مقدار برابر نہ ہو یا کسی ایک فریق کی طرف سے مال کی حوالگی مؤخر کر دی گئی ہو۔
(۳) دو مختلف انواع کی قابل وزن/ قابل پیمائش اشیاء کا بارٹر کی بنیاد پر باہمی لین دین‘ جبکہ کسی ایک فریق کی جانب سے مال کی حوالگی مؤخر کر دی گئی ہو۔
ہماری رائے یہ ہے کہ مذکورہ بالا نکتہ (1) میں لفظ quality (قدر) کو quantity (مقدار یا رقم) سے تبدیل کر دینا چاہیے‘ کیونکہ یکساں نوع کی حامل اکائیوں کے تبادلے کی صورت میں اسلامی قانون کا تقاضا یہ ہے کہ قدر کی بجائے دونوں جانب مقدار برابر ہونی چاہیے۔ لہٰذا اگر دس روپے کے نوٹ کا سودا بارہ روپے میں کیا جائے گا تو یہ تبادلہ ربا کے زمرے میں آئے گا۔
اس فہرست میں چوتھی قسم یہ بھی ہو سکتی ہے کہ: ’’کسی رقم کی مختلف نوع کی حامل مالیتی اکائیوں کا باہمی تبادلہ جبکہ کسی ایک فریق کی جانب سے رقم کی فراہمی مؤخر کر دی گئی ہو۔‘‘ ربا کی یہ بہت اہم اور رائج قسم ہے جسے فیصلے میں کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ مذکورہ فیصلے میں اسے چوتھی صورت کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے۔ اگر ڈالر کا تبادلہ روپے سے کرنا مقصود ہو تو اسلامی قانون کی روسے لازم ہے کہ یہ لین دین دست بدست ہونا چاہیے۔ کسی ایک فریق کی جانب سے مؤخر ادائیگی کی صورت میں ربا وجود میں آئے گا۔