سوال10: معاصر اسلامی بینک متعین منافع کے مروّجہ طریقے‘جیسے مرابحہ اور مشارکہ متناقصہ وغیرہ کی جو شکلیں استعمال کر رہے ہیں کیا وہ مقاصد ِشریعت کے مطابق ہیں اور کیا انہیں سود کا صحیح اسلامی متبادل سمجھا جا سکتا ہے؟
جواب:اس سوال کا ایک مختصر اور سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ متعین منافع کے مروجہ طریقے جیسے مرابحہ اور مشارکہ متناقصہ جو عہد حاضر کے اسلامی بینکوں میں رائج اور مستعمل ہیںوہ اپنی حالیہ مروّج شکلوں میں شریعت کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور اسی لیے انہیں سود کا حقیقی متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان طریقہ ہائے تمویل کے بارے میں وہ علماء جو اسلامی بینکاری کے ماہرین تصور کیے جاتے ہیں‘ بھی اس رائے کے حامل ہیں کہ انہیں شریعت کی طرف سے مقرر کردہ شرائط کا پورا لحاظ رکھتے ہوئے صرف انتہائی ضرورت کے موقع پر استعمال کرنا چاہیے۔ چنانچہ مولانا محمد تقی عثمانی اس بارے میں اظہارِرائے کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اسلامی بینکاری اپنے بنیادی تقاضوں کو پورا نہیں کر رہی‘ نہ ہی مشارکہ کی طرف کسی قسم کی پیش رفت کی قابل ذکر کوششیں موجود ہیں۔ مرابحہ ‘ اجارہ وغیرہ کا استعمال بھی روایتی معیارات LIBORوغیرہ کے ’’فریم ورک‘‘ میں ہوتا ہے جس کا آخری نتیجہ مادی طور پر سودی معاملے سے مختلف نہیں ہوتا۔ بعض اسلامی بینکوں میں یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ ان میں مرابحہ و اجارہ کو بھی ان کے شرعاً مطلوب طریق کار کے مطابق اختیار نہیں کیا جاتا‘‘۔ (اسلامی بینکاری کی بنیادیں‘ حقیقت پسندانہ جائزہ‘ ص ۴۹۔۲۴۸)
اسی طرح مولانا خود تسلیم کرتے ہیں کہ مرابحہ اور اجارہ کو ایک حیلہ کے طور پر اختیار کیا گیا تھا ‘اس لیے اس کو مستقل حیثیت دینا ہر گز ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ وہ خود فرماتے ہیں:
’’یہ ایک حیلہ نکالا گیا ہے اور اس کے حیلہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں‘ اس لیے میں جہاں بھی دخیل ہوں وہاں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ مرابحہ اور اجارہ کے معاملات کم کرو اور رفتہ رفتہ ’’شرکت‘‘ اور ’’ مضاربت‘‘ کی طرف بڑھو اور جہاں ایسا نہیں کرتے وہاں سے میں رفتہ رفتہ الگ بھی ہورہا ہوں‘ اس واسطے کہ بس ہوگیا‘ ایک حیلہ کرلیا — اپنی ساری سرگرمیاں اسی پر رہیں‘ یہ ٹھیک نہیں۔‘‘ (بحوالہ ماہنامہ ’’ندائے شاہی‘‘ مراد آباد‘ فروری ۲۰۰۴ء‘ انٹرویو)
متذکرہ ہ بالامعتدل اندازِ فکر کی بناء پر جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ سود کے متبادل کے طور پر تمویل کے اصل اسلامی متبادلات مشارکہ اور مضاربہ ہیں جن کا مروجہ اسلامی بینکاری میں خاطر خواہ حجم نہیں پایا جاتا بلکہ اس کی جگہ مرابحہ‘ اجارہ اور مشارکہ متناقصہ کے ذریعے بینکنگ سیکٹر میں جو طریقے اختیار کیے گئے ہیں وہ مقاصد شریعہ اور مثالی تمویلی طریقوں کو غیر مؤثر کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر سودی بینکاری کے لیے مشارکہ اور مضاربہ کی طرف انحصار بڑھایا جائے اور مرابحہ‘ اجارہ اور مشارکہ متناقصہ وغیرہ کو ان کی اصل شرعی شکلوں پر برقرار رکھتے ہوئے نظام بینکاری میں ان کے استعمال کے حوالے سے غیر مقبول حیلوں سے حتی الوسع بچا جائے۔
تاہم یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ بینکاری میں اسلامی تمویل کے حقیقی متبادلات کے اختیار کرنے میں موجودہ ’’ماحول‘‘ کی اصلاح کے لیے انقلابی اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔چنانچہ ایک ایسے ماحول میں جہاں تاجر دوہرے کھاتے رکھتے ہوں‘ اپنا حقیقی منافع ظاہر کرنے سے گریزاں ہوں ‘ نظامِ ٹیکس میں کرپشن عروج پر ہو‘ بینکوں میں جمع کرائی گئی رقوم کو بغیر احتیاطی تدابیر اختیار کیے ایسے کاروباری حضرات کے حوالے کرنا ایک ایسا خطرہ مول لینے کے مترادف ہوگا جس سے ادارہ اور کھاتہ دار دونوں متاثر ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ اندریں حالات ایسے معاہدات اور طریقے اختیار کرنا جن سے فکسڈ منافع کی توقع ہو‘ صرف اس شرط کے ساتھ قابل قبول ہوگا کہ انہیں شرعی طور پر شفاف(in letter & spirit) طریقوں کے مطابق ہی اختیار کیا جائے اور اُن حیلہ سازیوں سے بچا جائے جو اہلِ علم کے لیے سر دست تشویش کا باعث ہیں۔