سود کے ذیل میں مزید مباحث

تنقید
(از:۔ ابو الاعلی مودودی)

مجھ کو مولانا مناظر احسن صاحب کی رائے سے جن جن امور میں اختلاف تھا’ ان کا اظہار مختصر طور پر حواشی میں کردیا گیا ہے۔ لیکن جن اصولی مسائل پر مولانا نے اپنے استدلال کی بنا رکھی ہےان پر روشنی ڈالنے کے لیے محض اشارات کافی نہیں ہیں۔ لہذا یہ مفصل تنقید لکھی جا رہی ہے۔ مولانا کے استدلال کی بنا حسبِ ذیل امور پر ہے۔

مولانا کے دلائل کا خلاصہ

ان کا دعوی ہے کہ نہ صرف تحریم ربٰو کا حکم’ بلکہ تمام عقود فاسدہ اور ناجائز معاشی وسائل کی ممانعت کے احکام بھی صرف ان سے معاملات سے تعلق رکھتے ہیں جو مسلمان اور مسلمان کے درمیان ہوں۔ بالفاظ دیگر غیر قوموں کے ساتھ جو معاملات پیش آئیں ان میں حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی کوئی تمیز نہیں۔

ان کے نزدیک شریعت نے تمام ان غیر مسلموں کو مباح الدم والاموال قرار دیا ہے جو ذمی نہ ہوں’ لہذا ایسے غیر مسلموں کا مال جس طریقہ سے بھی لیا جائے جائز ہے۔ عام اس سے کہ وہ سود ہو’ یا قمار ہو’ یا ان کے ہاتھ شراب اور لحم خنزیر اور مردار فروخت کیا جائے یا اور دوسرے وہ طریقے اختیار کیے جائیں جنہیں اسلام نے “مسلمانوں کے معاملہ میں” اختیار کرنے کو حرام ٹھہرا یا ہے۔ مسلمان جس طرح بھی ان کا مال لیں گے’ اس کی حیثیت مال کی غنیمت یا فے کی ہوگی۔ اور وہ ان کے لیے حلال و طیب ہے۔

ان کی رائے میں ہر وہ ملک جہاں اسلامی حکومت نہیں ہے دار الحرب ہے اور اس کے غیر مسلم باشندے حربی ہیں۔ وہ دار الکفر کو دار الحرب کا اور کافر غیر ذمی کو حربی کا ہم معنی سمجھتے ہیں’ اس لیے ان کے نزدیک تمام وہ ممالک جن پر غیر اسلامی سلطنتیں قابض ہیں پورے معنوں میں دار الحرب ہیں’ اور وہاں علی الدوام وہی احکام مسلمانوں پر جاری رہنے چاہئیں جو دار الحرب کے متعلق کتب فقیہہ میں مذکور ہیں۔

دار الحرب کی جو تعریف فقہائے متقدمین نے کی ہے وہ مولانا کی رائے میں ہندوستان پر چسپاں ہوتی ہے اور اس ملک کے مسلمانوں کی فقہی پوزیشن ان کی رائے “مستامن” کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں مسلمان اس دارالحرب میں اس حیثیت سے رہتے ہیں کہ انہوں نے یہاں کی حربی سلطنت سے امان لی ہے۔

مستامن کے متعلق اسلامی قانون یہ ہے کہ وہ اس غیر اسلامی سلطنت کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا جس سے امان لے کر وہ اس کے ملک میں رہتا ہو۔ لہذا مولانا کی رائے ہندوستان کے مسلمانوں پر غیر اسلامی حکومت کے قانون کی اطاعت تو ایسی فرض ہے کہ اگر یک سر مو اس سے انحراف کریں گے تو عذاب جہنم کے مستحق ہوں گے۔ لیکن اسلام کے اکثر احکام اور قوانین کی اطاعت سے وہ بالکل ازاد ہیں’ اس لیے کہ وہ دار الحرب میں مقیم ہیں۔ قتل’ غارت گری’ چوری’ ڈکیتی’ رشوت’ ٹھگی اور ایسے ہی دوسرے ذرائع سے حربی کفار کو نقصان پہنچانا اور ان کا مال لینا ہندوستانی مسلمانوں کے لیے صرف اس وجہ سے ناجائز ہے کہ ملکی قانون اس کو ناجائز کہتا ہےان کو اختیار کرنا تو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے شرعاً حرام ہے’ بخلاف اس کے جن ذرائع کو شریعت نے حرام ٹھہرایا ہے۔ اور ملکی قانون حلال ٹھہراتا ہے وہ سب کے سب قانوناً بھی حلال ہیں اور شرعاً بھی حلال’ نہ دنیا میں ان پر کوئی تعزیر’ نہ آخرت میں کوئی مواخذہ۔

دلائل مذکورہ پر مجمل تبصرہ

میرے نزدیک ان میں سے ایک بات بھی صحیح نہیں۔ خود حنفی قانون بھی’ جس کے نمائندے کی حیثیت سے مولانا نے یہ تمام تقریر فرمائی ہے’ ان بیانات کی تائید نہیں کرتا۔ اس مضمون میں مولانا نے اسلامی قانون کی جو تصویر پیش کی ہے۔ وہ صرف غلط ہی نہیں بد نما بھی ہے۔ اس کو دیکھ کر اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ہر گز کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ اگر کوئی نا واقف شخص اس تصویر کو دیکھے گا تو وہ اسلام کو دنیا کی بد ترین مذہب اور مسلمانوں کو ایک نہایت خطرناک قوم سمجھے گا اور خدا کا شکر ادا کرے گا کہ غیر مسلم حکومت کے قانون نے ان “مستامنوں” کے ہاتھ سے دوسری قوموں کی جان و مال اور آبرو کو بچا رکھا ہے۔ دوسری طرف اگر شریعت کی اسی تعبیر کو قبول کر کے ہندوستان کے مسلمان اس ملک میں زندگی بسر کرنا شروع کردیں تو شاید پچاس برس کے اندر ان میں برائے نام بھی اسلام باقی نہ رہے۔ بلکہ اگر خدا نہ کردہ کفار کے تسلط کے آغاز سے ہندوستان میں انہی اصولوں پر عمل در آمد کیا گیا ہوتا تو آج جو کچھ رہی سہی اسلامیت ہندوستان کے مسلمانوں میں نظر آتی ہے۔ یہ بھی نہ ہوتی اور ڈیڑھ سو برس کے اندر ہندوستان کے مسلمان بالکل مسخ ہوچکے ہوتے۔ البتہ یہ ضرور ممکن تھا کہ ان کی جائدادوں کا ایک حصہ محفوظ رہ جاتا اور ان میں بھی مار واڑیوں اور بنیوں اور سیٹھوں کا ایک طبقہ پیدا ہوجاتا۔

حاشا و کلا’ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ مولانا نے بالقصد اسلام کی غلط نمائندگی کی ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ انہوں نے قانون اسلامی کو جیسا کچھ سمجھا ہے غایت درجہ دیانت اور نیک نیتی کے ساتھ ویسا ہی ظاہر فرما دیا ہے۔ مگر مجھے اعتراض در اصل ان کے مفہوم اور ان کی تعبیر ہی پر ہے۔ میں نے قانونِ اسلامی کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی روشنی میں یہ کہنے کی جرات کروں گا کہ خاص ان مسائل کی حد تک جو اوپر مذکور ہوئے ہیں’ مولانا نے شریعت کے اصول اور احکام کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھا ہے۔ اس غلط فہمی کے دو وجوہ قرینِ قیاس ہیں۔

اولاً’ آئمہ مجتہدین نے جس زمانہ میں سلطنتِ اسلامی کے دستوری قانون
(Constitutional Law) اور بین الاقوامی معاملات کے متعلق کتاب و سنت کی ہدایات اور خود اپنے اجتہاد سے یہ احکام مدون کیے تھے’ اس زمانہ میں فقہاء کی حیثیت محض اصحابِ درس و تدریس ہی کی نہ تھی بلکہ وہی سلطنت کے قانونی مشیر اور عدالتوں کے صدر نشین بھی تھے۔ رات دن اسلامی سلطنت میں نئے نئے دستوری اور بین الاقوامی مسائل پیش آتے تھے اور ان میں انہی بزرگوں کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ ہمسایہ قوموں سے جنگ و صلح کے معاملات ہوتے رہتے تھے’ اسلامی سلطنتوں کی رعایا کے درمیان معاملات اور تعلقات کی گوناگوں صورتیں پیش آتی تھیں اور ان سے جو قانونی مسائل پیدا ہوتے تھے ان کا تصفیہ کرنے والے یہی حضرات تھے۔ یہ لوگ اپنے فیصلوں اور تجویزوں میں جو قانونی اصطلاحات و عبارات استعمال کرتے تھے’ ان کے مفہومات کا تعین محض لفظی تشریحات پر منحصر نہ تھا’ بلکہ ان کی اصلی شرح وہ واقعی حالات تھے جن پر یہ اصطلاحات و عبارات منطبق ہوتی تھیں۔ پس اگر کسی اصطلاح یا عبارت میں کوئی ابہام رہ جاتا’ یا ایک چیز کے مختلف مدارج پر ایک ہی اصطلاح استعمال کی جاتی اور ظاہر الفاظ میں فرقِ مدارج پر دلالت کرنے والی کوئی چیز نہ ہوتی’ یا ایک وسیع مفہوم پر ایک لفظ بولا جاتا اور صرف موقع و محل کے لحاظ سے اس کے مختلف مفہومات میں تمیز ہوتی’تو اس سے عملاً قانون کے انطباق اور استعمال میں کوئی قباحت واقع ہونے کا خطرہ نہ ہوتا۔ نہ یہ اندیشہ تھا کہ کوئی قانون داں شخص کسی حکم کو محض الفاظ کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے بالکل مختلف صورتِ حال پر چسپاں کردے گا۔ اس لیے کہ اس وقت اسلامی قانون کی اصطلاحات اور مخصوص قانونی عبارات کی حیثیت رائج الوقت سکوں کی سی تھی۔ عملی دنیا میں ان کا چلن تھا۔ ان کے مفہومات کو سمجھنے اور ٹھیک موقع پر استعمال کرنے اور ہر ایک کی صحیح حد معلوم کرنے میں کوئی دقت نہ تھی۔ ہر قانون داں شخص کو شب و روز ان حالات سے بالواسطہ یا بلا واسطہ دو چار ہونا پڑتا تھا جن میں یہ زبان برتی جاتی تھی۔ مگر اب ایک مدت سے وہ صورتِ حال مفقود ہے۔ دستوری مسائل اور بین الاقوامی معاملات سے بالفعل علماء کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اسلامی سلطنتیں مٹ گئیں اور جو سلطنتیں باقی ہیں ان میں بھی یہ مسائل علمائے شریعت سے متعلق نہیں ہیں۔ عملی دنیا میں اسلامی قانون کی اصطلاحات و عبارات کا چلن بھی مدتوں سے بند ہوچکا ہے۔ اب یہ پرانے تاریخی سکے ہیں جن کی قیمت کا وہ حال نہیں کہ رواج کی وجہ سے بازار میں ہر آدمی کے لیے وہ ایک جانی پہچانی چیز ہو’ بلکہ ان کی پرانی قدر رائج (Market Value)معلوم کرنے کے لیے پرانے ریکارڈوں کی چھان بین کرنا اور زمانۂ حال کے عملی برتاؤ پر قیاس کرکے اس زمانے کے واقعی حالات کو سمجھنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک مسائل سیاسی و دستوری کا تعلق ہے فقہ اسلامی کے احکام کو سمجھنا’ مسائلِ نکاح و وراثت وگیرہ کو سمجھنے کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے۔ خصوصاً جہاں ہماری کتب فقہ میں عبارات مبہم رہ گئی ہیں یا اصطلاحات میں توسع پایا جاتا ہے وہاں علماء کے لیے قانون کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس کی صحیح تعبیر کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اب ان کے صرف الفاظ ہی الفاظ رہ گئے ہیں’ کتابوں کے متون بھی لفظی ہیں اور ان کی شروح بھی لفظی۔

دوسری وجہ جس کی طرف خود مولانا نے بھی اشارہ کردیا ہے’ یہ ہے کہ گزشتہ صدی ڈیڑھ صدی سے مسلمانوں پر جو معاشی تباہی مسلط ہوگئی ہے’ اور جس طرح دیکھتے ہی دیکھتے ان کی کروڑوں اور اربوں روپے کی جائیدادیں کوڑیوں کے مول نکلی ہیں’ اور جس طرح مسلمانوں کے بڑے بڑے خوش حال گھرانے روٹیوں کو محتاج ہوگئے ہیں’ اس کو دیکھ دیکھ کر ہر درد مند مسلمان کی طرح مولانا کا دل بھی دکھا ہے اور انہوں نے غایت درجہ دل سوزی کے ساتھ کوشش کی ہے کہ شریعت میں اس مصیبت کا کوئی حل تلاشی کریں۔ اس جذبہ کے اثر سے اکثر مقامات پر ان کا قلم اعتدال اور فقیہانہ احتیاط سے ہٹ گیا ہے۔ مثلاً ان کا یہ ارشاد کہ ہندوستان میں سود نہ لینا گناہ ہے’ یا یہ بیان کہ عقودِ فاسدہ کی ممانعت کے جملہ احکام صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات تک محدود ہیں۔ جہاں تک مسلمانانِ ہند کے موجودہ روح فرسا حالات کا تعلق ہے کون مسلمان ایسا ہوگا جس کا دل ان کو دیکھ کر نہ دکھتا ہو’ اور کون اس کا خواہش مند نہ ہوگا کہ ان مصائب سے مسلمان نجات پائیں۔ اس باب میں ہمارے اور ان کے درمیان ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں۔ مگر میں یہ ماننے سے قطعی انکار کرتا ہو’ کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی تباہی کسی حیثیت سے بھی’ بالواسطہ یا بلا واسطہ سود نہ کھانے کی وجہ سے ہے’ اور اس حالت کا بدلنا سود کی تحلیل پر موقوف ہے۔ بلکہ میں یہ بھی تسلیم نہیں کرتا کہ تحریم سود کسی ادنی سے ادنی درجہ میں بھی مسلمانوں کی معاشی ترقی میں مانع ہے۔ جو شخص یمحق اللہ الربٰو ویربی الصدقات پرایمان رکھتا ہو’ اور جو اس ارشاد ربانی کو معاش اور معاد دونوں میں ایک اٹل حقیقت سمجھتا ہو’ اس کو کبھی اس کو کبھی اس قسم کے شبہات میں مبتلا نہ ہونا چاہیے۔ اگر مولانا غور فرمائیں گے تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے گی کہ مسلمانوں کی معاشی تباہی کا اصلی سبب سود نہ کھانا نہیں ہے’ بلکہ سود کھلانا اور ادائے زکوۃ سے جی چرانا’ اور اسلامی نظمِ معیشت کو بالکل معطل کردینا ہے۔ جن گناہوں کی سزا مسلمانوں کو مل رہی ہے وہ در اصل یہی ہیں۔ اگر وہ ان گناہوں پر قائم رہے اور اس پر سود خواری کا اضافہ اور ہوگیا تو ممکن ہے کہ چند افراد قوم پر مالی آماس چڑھ جائے اور اس سے چند سیدھے سادے مسلمان دھوکہ کھا جائیں’ لیکن در حقیقت اس سے بحیثیت مجموعی قوم کی معاشی حالت میں کوئی اصلاح نہ ہوگی اور دوسری طرف مسلمانوں کی اخلاقی حالت اور ان کی باہمی الفت و موانست اور ان کے

_____________________________

اس کی ایک دلچسپ مثال مولانا ہی کے مضمون میں اوپر گزر چکی ہے’ جہاں انہوں نے شامی کی ایک عبارت نقل کرکے یہ حکم بیان کیا ہے کہ سمندر پورے کے پورے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غیر اسلامی مقبوضہ ہیں۔ جس زمانہ میں ابتداءً کسی مجتہد نے یہ بات لکھی تھی اس وقت کے حالات کے لحاظ سے یہ درست ہوگی۔ لیکن بعد کے لوگوں نے جب اگلوں کی کتابوں میں یہ بات لکھی پائی تو تقلیداً اسے اسلامی قانون کا مستقل فیصلہ سمجھ بیٹھے۔ حالانکہ سمندر بین الاقوامی تعلقات کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور کوئی طاقت عالمگیر اثر و اقتدار کی مالک نہیں ہوسکتی جب تک سمندروں پر اس کا اقتدار نہ ہو۔ اگر اسلامی فقہ کا پڑھنا پڑھانا صرف مدرسوں تک محدود نہ ہوتا اور علماء کا عملی تعلق دنیا کی سیاست سے رہتا تو وہ محسوس کرسکتے تھے کہ سمندروں سے کفار کے حق میں خود دستبردار ہوجانا اور اپنے لیے خشکی میں سمٹ جانے کا آپ ہی فیصلہ کرلینا کتنی بڑی غلطی ہے۔

تعاطف و تراحم اور تعاون وتناصر میں شدید انحطاط رونما ہوگا یہاں تک کہ ان کی قومیت مضمحل ہوجائے گی۔

آپ سود کا نام “پھاؤ” رکھ دیجیے یا اسے مائدۃ من السماء کہہ کر پکاریے’ اس کی حقیقت اور فطری خاصیت میں بال برابر بھی تغیر واقع نہ ہوگا۔ سود اپنی عین فطرت کے لحاظ سے زکوۃ کی ضد ہے اور اس نفسیاتی حقیقت میں کسی ملک کے دار الحرب یا دار الاسلام ہونے سے کوئی تفاوت نہیں ہوتا۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی معاشی زندگی میں یہ دونوں جمع ہوجائیں۔ ایک وہ ذہنیت ہے جس کو روپیہ گننے اور گن گن کر سنبھالنے اور ہفتوں اور مہینوں کے حساب سے بڑھانے اور اس کو بڑھوتری کا حساب لگانے میں مزا آتا ہے۔ دوسری وہ ذہنیت ہے جس کو قوت بازو سے کمانے اور کما کر کھانے اور کھلانے اور راہِ خدا پر لٹا دینے میں مزا آتا ہے۔ کیا کوئی عاقل یہ تصور کرسکتا ہے کہ یہ دونوں ذہنیتں ایک ہی دل و دماغ میں جمع ہوسکیں گی؟ یا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مسلمان کو سود پر روپیہ لگانے اور یوماً فیوماً اس کے نشوونما پر نظر رکھنے کا چسکا لگ جائے گا تو اس کے بعد بھی اس کی جیب سے زکوۃ و صدقات کے لیے ایک پیسہ نکل سکے گا؟ کیا اس کے بعد بھی کوئی مسلمان کسی مسلمان کو قرض حسن دینا گوارا کرے گا؟ کیا اس کے بعد مسلمانوں کی حالت بھی اس قوم کی سی نہ ہوجائے گی جس کے متعلق قرآن میں کہا گیا ہے کہ ثم قست قلوبکم من بعد ذلک فھی کالحجارۃ او اشد قسوۃ اور ولتجدنہم احرص الناس علی حیوۃ ؟ چند قارون اور چند شائلاک پیدا کرنے کے لیے پوری قوم آخر کیوں خود کشی کرے؟ اور اس خودکشی کو جائز ثابت کرنے کے لیے خدا اور رسول کے قانون کی غلط تاویل کیوں کی جائے؟ اور امام اعظم ابو حنیفہ النعمان جیسے بزرگ کو اس ذمہ داری میں کیوں شریک کیا جائے۔
پھر میں کہتا ہوں کہ دنیا میں صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جو تیرہ سو برس سے نظامِ سرمایہ داری کی مخالفت پر قائم ہے اور جس نے عملاًاس فاسد نظام کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ اس قوم کو جو چیز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نظامِ سرمایہ داری کی عداوت پر قائم رکھنے والی اور اس میں جذب ہونے سے بچانے والی ہے وہ زکوۃ کی فرضیت اور سود کی تحریم ہی ہے۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ اور نہلسٹ سب سرمایہ دار سے سمجھوتہ کرسکتے ہیں’ مگر جب تک یہ دو زبردست رکاوٹیں قائم ہیں’ مسلمان کبھی اس سے سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام وہ قومیں نظامِ سرمایہ داری میں جذب ہوگئیں جن کے مذہب نے سود سے منع کیا تھا’ مگر مسلمان تیرہ صدیوں سے اس کے مقابلے میں جما ہوا ہے۔ اب کہ خود دنیا والوں میں بھی بصارت پیدا ہورہی ہے اور وہ اس

_____________________________

پھر تمہارے دل اس کے بعد سخت ہوگئے اور ان کا حال یہ ہوگیا کہ وہ پتھر کی طرح بلکہ اس سے زیادہ سخت ہیں۔
تم ان کو سب سے بڑھ کر زندگی کاحریص پاؤگے۔

نظام کو مٹانے کے لیے فوج در فوج جمع ہورہے ہیں’ یہ کیسی بدبختی ہوگی کہ مسلمان خود میدانِ مقابلہ سے ہٹ جائے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے قلعہ کے مستحکم برجوں کو مسمار کرکے نظامِ سرمایہ داری کی طرف مصالحت کا ہاتھ بڑھانے لگے۔
اس ضروری تمہید کے بعد اب ہم اصل قانونی بحث کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

کیا عقود فاسدہ صرف مسلمانوں کے درمیان ممنوع ہیں

مولانا کے پہلے دعوے کی بنا یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کسب مال کے ناجائز ذرائع سے روکا گیا ہے وہاں “بینکم” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان آپس میں عقود فاسدہ پر معاملات نہ کیا کریں۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ

يَاأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ (النساء:٢٩

اب یہ ظاہر ہے کہ سود بھی کسبِ مال کے ناجائز طریقوں میں سے ایک طریقہ ہی ہے۔ لہذا قرآن میں احل اللہ البیع و حرم الربٰو جو فرمایا گیا ہے’ یہ بھی اگرچہ ظاہر الفاظ کے لحاظ سے عام حکم ہے’ مگر جس اصل کی فرع ہے اس کے ساتھ بالتبع اس کو بھی صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات تک ہی محدود سمجھنا چاہیے۔ اس کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو مکحول نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ لا ربٰو بین المسلم والحربی’ یعنی مسلمان اور حربی کافر کے درمیان تفاضل کے ساتھ جو لین دین ہو اس پر لفظ “سود” کا اطلاق ہی نہ ہوگا۔ بالفاظِ دیگر لا ربٰو کے معنی یہ ہیں کہ غیر ذمی کافر سے جو سود لیا جائے وہ سود ہی نہیں۔ پھر وہ حرام کیسے ہوا؟

یہ مولانا کے استدلال کا خلاصہ ہے۔ اس میں پہلی اور بنیادی غلطی یہ ہے کہ قرآن کے مقاصد سے قطع نظر کرکے صرف ظاہر الفاظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کا عام اندازِ بیان یہ ہے کہ وہ اخلاق اور معاملات کے متعلق جتنی ہدایتیں دیتا ہے ان میں صرف اہل ایمان کو مخاطب کرتا ہے’ اور ان سے کہتا ہے کہ تم آپس میں ایسا کیا کرو یا نہ کیا کرو۔ اس طرز بیان میں کچھ دوسری حکمتیں ہیں جن کے ذکر کا یہ موقع نہیں۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اس قسم کے اندازِ بیان میں اخلاق اور معاملات کے متعلق جتنے احکام اللہ تعالیٰ نے دیے ہیں’ ان کو فقہائے امت میں سے کسی نے بھی صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات تک محدود قرار نہیں دیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان اور مسلمان کے درمیان جو افعال حرام ہیں مسلمان اور کافر کے درمیان وہی حلال یا مستحب ہیں۔ اگر ایسا ہو تو در حقیقت اسلامی اخلاقیات اور اسلامی قانون تمدن کی جڑ ہی کٹ جائے۔ مثلاً:۔

ارشاد باری ہے ۔ ولا تتخذواایمانکم دخلا بینکم(النحل: 94) کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ مسلمان صرف مسلمان سے جھوٹی قسم نہ کھائے؟ رہے غیر مسلم تو ان سے دروغ حلفی کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں؟
فرمان الہی ہے: یا ایہا الذین لا تخونوا الرسول و تخونوا امانٰتکم (انفال: 27) کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان صرف ان امانتوں کی حفاظت کریں جو مسلمانوں سے تعلق رکھتی ہوں؟ باقی رہی کافر کی امانت تو اس میں بے تکلف خیانت کر ڈالی جائے؟
پھر یہ جو فرمایا فان امن بعضکم بعضا فلیؤد الذی اؤتمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ (بقرہ: 283) کیا اس کی یہ تاویل کی جائے گی کہ مسلمان کے بجائے کوئی کافر اگر کسی مسلمان پر بھروسہ کرکے بغیر لکھا پڑھی کیے اپنا کچھ مال اس کے پاس رکھوا دے تو وہ “پھاؤ” سمجھ کر اس کو کھا سکتا ہے؟

پھر یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ “واستشھدوا شھیدین من رجالکم” اور ” لا یاب الشھداء اذا ما دعوا” اور “ولا تکتموا الشھادۃ واشھدوا اذا تبایعتم ولا یضار کاتب ولا شھید” (بقرہ: 282) تو کیا یہ سب احکام صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات ہی کے لیے ہیں؟ کیا کافر کے حق میں شہادت دینے سے انکار کرنا’ یا سچی شہادت چھپا کر جھوٹی شہادت دینا یا دستاویز کے غیر مسلم کاتب یا گواہ کو خوفزدہ کرنا یہ سب جائز افعال ہیں؟
اس کے بعد جو حکم دیا گیا ہے کہ ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لھم عذاب الیم (النور: 19) تو کیا اس سے یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ غیر قوموں کے اندر فحش اور بدکاری پھیلانا مسلمان کے لیے جائز ہے؟

اور یہ جو فرمان ہوا “ان الذین یرمون المحصنت الغفلت المؤمنت لعنوا فی الدنیا والاخرۃ(النور: 24) توکیا اس کی یہی تاویل کی جائے گی کہ کفار کی عورتوں پر جھوٹی تہمتیں دل کھول کر لگاؤ۔

اور یہ جو ارشاد ہوا کہ “ولا تکرھوا فتیٰتکم علی البغاء ان اردن تحصنا لتبتغوا عرض الحیوۃ الدنیا (النور: 23)” تو اس کو یہ معنی پہنائے جائیں گے کہ کافر عورتوں کو حرام کاری پر مجبور کرنا اور ان کی خرچی کھانا جائز ہے؟ کیا اس طرح کی تاویل کرکے کسی مسلمان کے لیے حلال ہوگا کہ پیرس میں سرکاری لائسنس لے کر ایک قحبہ خانہ کھول دے؟

پھر یہ جو ارشاد ہوا ہے کہ “لایغتب بعضکم بعضا ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا فکرھتموہ۔ (الحجرات: 12)” تو کیا اس کی یہ تاویل ہوگی کہ صرف مسلمان کی غیبت ناجائز ہے؟ باقی رہا کافر تو اس کی غیبت کرنے میں کوئی برائی نہیں؟
اگر اسی اصول پر قرآن اور سنت کے احکام کی تاویل کی جائے اور مسلمان اسی کا اتباع شروع کردیں تو اندازہ فرمائیے کہ یہ قوم کیا سے بن کر رہے گی۔

بالفرض اگر بلا دلیل یہ مان لیا جائے کہ صرف “لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل” ہی کا حکم مسلمانوں کے باہمی معاملات کے لیے مخصوص ہے اور یہ قاعدہ دوسرے احکام میں جاری نہ ہوگا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ذمی کافروں کو سودی لین دین سے کیوں روکا گیا؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلم جماعتوں سے اس قسم کے معاہدات کیوں کیے کہ وہ سودی کاروبار چھوڑ دیں ورنہ معاہدہ کالعدم ہوجائیگا؟ اور کتب فقہیہ میں یہ تصریح کیوں ہے کہ اگر کوئی حربی کافر دار الاسلام میں امان لے کرآئے تو اس سے بھی سود پر معاملہ کرنا حرام ہے؟

رہی حدیث “لاربٰو بین المسلم والحربی”تو اولاً اس میں لفظِ حربی سے مراد محض غیر ذمی کافر نہیں بلکہ بر سر جنگ قوم کا فرد ہے جیسا کہ خود فقہائے حنفیہ کی تصریحات سے آگے چل کر ثابت کیا جائے گا۔

ثانیاً لا ربٰو کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ حربی کافر سے جو سود لیا جائے گا وہ سود ہی نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ گو وہ صورۃحقیقۃً سود ہی ہے لیکن اس قانون میں حرمت سے مستثنی کردیا گیا ہے اور اس کی حیثیت ایسی ہوگئی ہے کہ گویا وہ سود نہیں ہے۔ ورنہ کسی سود کو یہ کہنا کہ وہ سود ہے ہی نہیں’ اس قدر مہمل اور بے معنی بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسے منسوب کرنے کو میں گناہ سمجھتا ہوں۔ یہ بالکل ایک معقول بات ہے کہ کسی خاص حالت میں سود کو تعزیر اور حرمت سے مستثنیٰ کردیا جائے’ جس طرح خود قرآن نے اضطرار کی حالت میں مردار اور سور اور ایسی ہی دوسری حرام چیزیں کھا لینے کو مستثنی کیا ہے لیکن یہ ایک نہایت غیر معقول بات ہے کہ سود کی حقیقت جوں کی توں باقی ہو اور ہم ایک جگہ اس کو ربٰو کہیں اور دوسری جگہ سرے سے اس کے ربٰو ہونے ہی سے انکار کردیں۔ اس طرح تو دنیا کے ہر فعل حرام کو محض تغیر اسم سے حلال کیا جا سکتا ہے۔ جس خیانت کو جی چاہے کہہ دیجیے کہ یہ خیانت ہی نہیں۔ جس جھوٹ کو جائز کرنا ہو کہہ دیجیے کہ اس پر لفظ جھوٹ کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ جس غیبت اور فحش اور حرام خوری کی طرف طبیعت مائل ہو اس کا نام بدل کر سمجھ لیجیے کہ اس کی حقیقت بدل گئی۔ سرکار رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ اس سے بہت بلند تھا کہ آپ اس قسم کے لفظی حیلے اپنی امت کو سکھاتے۔

ثالثاً اس حدیث میں جو حکم بیان ہوا ہے اس کی حیثیت محض ایک رخصت اور رعایت کی ہے’ نہ یہ کہ اس کو مسلمانوں کا عام دستور العمل بنانامقصود ہو۔ میں اس بحث کو بالکل غیر ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ حدیث کس درجہ کی ہے کیونکہ حدیثوں کے رد وقبول میں فقیہ کے اصول محدث کے اصول سے ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ امام اعظم اور امام محمد جیسے آئمہ مجتہدین نے جس حدیث کو اقبل استناد سمجھا ہو اس کو بالکل ناقابل اعتبا رقرار دینا درست نہیں۔ مگر اس مختصر اور غیر واضح اور مختلف فیہ خبر واحد کو اتنا پھیلانا بھی درست نہیں کہ قرآن اور حدیث اور آثار صحابہ کی متفقہ شہادت ایک طرف ہو اور دوسری طرف یہ حدیث ہو’ اور پھر اس ایک حدیث کی تاویل ان سب کے مطابق کرنے کے بجائے’ ان سب کو ایک حدیث پر ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن اور تمام احادیث صحیحہ میں مطلقاً ربٰو کو حرام کہا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان نہ آپس میں اس کا لین دین کرسکتے ہیں نہ غیر قوموں کے ساتھ ایسا کاروبار کرنا ان کے لیے جائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجران سے جو معاہدہ کیا تھا اس

_____________________________

یہ بات نظر انداز نہ کرنی چاہیے کہ امام ابو یوسف ‘ امام شافعی’ امام مالک’ امام احمد اور اکثر اصحابِ حدیث نے اس روایت کو رد کردیا ہے۔

سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نہ صرف خود سودی لین دین سے پرہیز کریں گے بلکہ جن جن غیر مسلموں پر ان کا بس چلے گا ان کو بھی بجز اس فعل سے روک دیں گے۔ تحریم ربٰو کے بعد ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و اجازت سے کسی مسلمان نے کسی ذمی یا غیر ذمی کافر کے ساتھ سودی معاملہ کیا ہو۔ خلفاء راشدین کے دور میں بھی اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ اور یہ بات صرف سود ہی پر موقوف نہیں’ عقود فاسدہ میں سے کوئی ایک عقد فاسد بھی ایسا نہیں جس کی تحریم کا حکم نازل ہوجانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے انعقاد کی کسی مسلمان کو اجازت دی ہو۔ نظری اور اصولی اہل حرب تو درکنار’ جو لوگ عملاً برسر جنگ تھے’ انہوں نے عین معرکۂ جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عقد فاسد پر معاملہ کرنا چاہا اور کافی رقم پیش کی مگر آپ نے اس کو لینے سے انکار کردیا ۔ ایک طرف آیت قرآنی’ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد صریح و صحیح اقوال اور عہد نبوی کا ثابت شدہ عمل در آمد ہے’ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے نہ صرف سود بلکہ تمام عقود فاسدہ مطلقاً ناجائز ہیں اور اس میں مسلم و غیر مسلم یا حربی ذمی کا کوئی امتیاز نہیں۔ دوسری طرف صرف ایک مرسل حدیث ہے جو ان سب کے خلاف حربی اور مسلم کے درمیان صرف سود کو حلال ثابت کر رہی ہے۔ آپ نے اس حدیث کو اتنی اہمیت دی کہ اس کی بنیاد پر نہ صرف سود کو بلکہ تمام عقود فاسدہ کو تمام غیر ذمی کفار کے ساتھ عمومیت کے ساتھ حلال کر ڈالا۔ مگر ہم اس کو صحیح تسلیم کرکے اس سے صرف اتنی اجازت نکالتے ہیں کہ جنگ کی اضطراری حالتوں میں اگر کوئی مسلمان دشمن سے سود لے لے یا کسی اور عقد فاسد پر معاملہ کرلے تو اس سے مواخذہ نہ ہوگا۔

یہ محض ایک رخصت ہے اور ایسی رخصت ہے جس سے اولو العزم مسلمانوں نے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اسلامی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان کسی حال میں بھی حرام کی کمائی لینے پر آمادہ نہ ہو۔ خصوصاً کفار اور دشمنوں کے مقابلہ میں تو اس کے اپنے قومی اخلاق کی بلندی اور بھی زیادہ شان کے ساتھ ظاہر کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ مسلمان کی لڑائی در اصل تیر و تفنگ کی نہیں اصول اور اخلاق کی لڑائی ہے۔ اس کا مقصد زور زمین حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ وہ دنیا میں اپنے اصول پھیلانا چاہتا ہے۔ اگر اس نے اپنے مکارم اخلاق ہی کو کھو دیا’ اور خود ہی ان اصولوں کو قربان کردیا جن کو پھیلانے لیے

_____________________________

یہ واقعہ غزوۂ خندق کا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں۔ مشرکین میں سے ایک بڑے آدمی کی لاش خندق میں گر پڑی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کو روپیہ دے کر وہ لاش ان سے خرید لینی چاہی۔ مسلمانوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے ایسا کرنے سے منع کردیا (کتاب الخراج لامام ابی یوسف۔ طبع امیریہ ص 123) اس سے معلوم ہوا کہ اگر جنگ کے موقع پر مسلمان کو دشمنوں سے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے تو وہ کراہت سے خالی نہیں اور یہ بات مسلمان کے شایانِ شان نہیں ہے کہ شاید حالت اضطرار کے بغیر اس سے فائدہ اٹھائے ۔ اسی بات پر وہ واقعہ بھی دلالت کرتا ہے جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا انہوں نے مکہ میں تحریم قمار سے پہلے مشرکین سے ایک شرط کی تھی۔ پھر اس کا روپیہ انہوں نے اس زمانہ میں ان سے وصول کیا جب مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان حالتِ جنگ قائم تھی اور صرف عارضی التوائے جنگ ہوا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی حلال طیب نہیں ٹھہرایا اور صدیق کو حکم دیا کہ اسے صدقہ کردو۔

وہ کھڑا ہوا ہے’ تو پھر دوسری قوموں پر اس کی فوقیت ہی کیا باقی رہی؟ کس چیز کی بنا پر اس کو دوسروں پر فتح حاصل ہوگی اور کس طاقت سے وہ دلوں اور روحوں کو مسخر کرسکے گا؟

دار الحرب کی بحث

اب ہمیں دوسرے سوال کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ دار الحرب اور دار الاسلام کے فرق کی بنیاد پر سود اور تمام عقود فاسدہ کے احکام میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اور اس بیان کی کیا اصلیت ہے کہ تمام غیر ذمی کافر مباح الدم والاموال ہیں اس لیے ہر ممکن طریقہ سے ان کا مال لے لینا جائز ہے؟ اور اس تجویز کے لیے شریعت میں کیا گنجائش ہے کہ جس ملک پر کسی معنی میں اصطلاح دار الحرب کا اطلاق ہوتا ہو وہاں کے باشندوں پر دائما ًوہ تمام احکام جاری ہونے چاہئیں جو دار الحرب سے تعلق رکھتے ہیں؟

قانون اسلامی کے تین شعبے

اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ شریعت یعنی قانونِ اسلامی کے تین شعبے ہیں:۔

,اعتقادی قانون جو علی الاطلاق تمام مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے
,دستوری قانون جس کا تعلق صرف سلطنت اسلامی سے ہے
بین الاقوامی قانون’یا صحیح الفاظ میں تعلقات خارجیہ کا قانون جو مسلمانوں اور غیر قوموں کے تعلقات سے بحث کرتا ہے۔

ہماری کتب فقہیہ میں ان قوانین کو الگ الگ مرتب نہیں کیا گیا اور نہ ان کو الگ الگ ناموں سے یاد کیا گیا ہے‘ لیکن قرآن و حدیث میں ایسے واضح اشارات موجود ہیں جن سے قدرتی طور پر اسلامی قوانین کا ارتقاء تین الگ الگ راستوں پر ہوا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جس فقیہہ اعظم کی قانونی بصیرت اور فقیہانہ دقیقہ سنجی نے سب سے بڑھ کر ان اشارات کو سمجھا اور ان کی بنا پر قانون کے ان تینوں شعبوں کی حدود میں ٹھیک ٹھیک امتیاز کیا’ اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل میں اس امتیاز کو ملحوظ رکھا وہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ ہیں۔ فقہائےاسلام میں سے کوئی بھی اس معاملہ میں ان کا ہمسر نظر نہیں آتا۔ حتی کہ امام ابو یوسف جیسے بالغ النظر فقیہہ کی رسائی بھی اس مقام تک نہ ہوسکی۔ امام اعظم کے کمال کا ایک ادنی ثبوت یہ ہے کہ 12 سو سال پہلے انہوں نے قرآن اور سنت سے استنباط کرکے دستور ی اور بین الاقوامی قوانین کے جو احکام مدون کیے تھے’ آج تک دنیا کے قانونی افکار کا ارتقاء ان سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا ہے’ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ در اصل یہ ارتقاء ہوا ہی ان خطوط پر ہے جو 12 صدی قبل کوفہ کے ایک پارچہ فروش نے کھینچ دیے تھے۔ فقہ حنفی کی بہ نسبت جدید زمانہ کے قوانین میں بظاہر جو ترقی نظر آتی ہے وہ کسی حد تک تمدنی احوال کے تغیر کا’ اور زیادہ تر بین الاقوامی معاہدات کا نتیجہ ہے۔ تاہم اصولی حیثیت سے جدید زمانہ کے قوانین بڑی حد تک حنفی فقہ کا چربہ ہیں اور ان کے مطالعہ سے حنفی فقہ کو سمجھنے میں بڑی آسمانی ہوتی ہے۔

اعتقادی قانون

اعتقادی قانون کے لحاظ سے دنیا دو ملتوں پر منقسم ہے۔ اسلام اور کفر۔ تمام مسلمان ایک قوم ہیں اور تمام کفار دوسری قوم۔ اسلام کو ماننے والے سب کے سب اسلامی قومیت کے افراد ہیں اور اخوت دینی کی بنا پر سب کو ایک دوسرے پر حقوق حاصل ہیں۔ فان تابو و اقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ فاخوانکم فی الدین (توبہ: 11)۔ مسلمان کی جان’ اس کا مال اس کی عزت ہر چیز مسلمان کے لیے حرام ہے۔ ان دماءکم واموالکم و اعراضکم علیکم حرام (حجۃ الوداع) اسلام کے جملہ احکام کی اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں بستا ہو۔ جو کچھ فرض کیا گیا ہے وہ سب کے لیے فرض ہے’ جو کچھ حلال کیا گیا ہے سب کے لیے حلال ہے’ اور جو کچھ حرام ٹھہرایا گیا سب کے لیے حرام ہے۔ کیونکہ جملہ احکام کے مخاطب ۔الذین آمنوا۔ کسی حال اور مقام کی قید اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کے مقابلہ میں کفر ایک دوسری ملت ہے جس سے ہمارا اختلاف اصول اور اعتقاد اور قومیت کا اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی بنا پر اصلاً ہمارے اور ان کے درمیان جنگ قائم ہے’ الا یہ کہ اس پر صلح اصل نہیں بلکہ جنگ اصل ہے اور صلح اس پر عارض ہوتی ہے۔

مگر یہ جنگ بالفعل نہیں بالقوۃ ہے’ عملی نہیں نظری اور اصولی ہے۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ جب تک ہماری اور ان کی قومیت الگ ہے اور ہمارے اور ان کے اصول ایک دوسرے سے متصادم ہیں’ ہم میں اور ان میں حقیقی و دائمی صلح اور دوستی نہیں ہوسکتی۔

إِنَّابُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ (الممتحنہ:٤

اس مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر حدیث میں بتمام و کمال بیان فرما دیا ہے:۔

امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ و ان محمدا عبدہ و رسولہ و ان یستقبلوا قبلتنا و ان یاکلوا ذبیحتنا و ان یصلوا صلوٰتنا فذا فعلوا ذلک حرمت علینا

_____________________________

پھر اگر وہ کفر سے توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔
تم پر ایک دوسرے کے خون اور اموال اور عزتیں حرام ہیں۔
واضح رہے کہ اس جگہ ہم قومیت کا لفظ نسلی اور وطنی قومیت کے معنی میں نہیں بلکہ تہذیبی قومیت کے معنی میں بول رہے ہیں’ اور تہذیبی قومیت ہی پر اسلام تمدنی اور سیاسی قومیت کی عمارت اٹھاتا ہے۔ ایک ماں کے دو بیٹے نسلاً ایک قومیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک محلہ دو باشندے وطنی حیثیت سے ایک قومیت کے افراد ہیں۔ لیکن اگر ان میں ایک مسلمان اور دوسرا کافر ہے تو ان کی تہذیبی قومیتیں الگ الگ ہوجائیں گی اور اصولی حیثیت سے وہ اختلاف رونما ہوگا جس پر بحث کر رہے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کفار سے کہا کہ “ہم تم سے اور ان معبودوں سے جن کی تم خدا کے سوا عبادت کرتے ہو’ بے تعلق ہیں۔ ہم تم سے الگ ہوگئے اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور دشمنی ہوگئی۔ تاوقتیکہ تم خدائے واحد پر ایمان نہ لے آؤ۔

دماءھم و اموالھم الا بحقہا لھم ما للمسلمین و علیھم ما علی المسلمین۔ (ابو داود‘ باب علی ما یقاتل المشرکین

‘‘مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(ﷺ) اس کا بندہ اور رسول ہے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کریں اور ہمارا ذبیحہ کھائیں اور ہماری طرح نماز پڑھیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو ہمارے اوپر ان کے خون اور ان کے اموال حرام ہوجائیں گے بجز اس کے کہ کسی حق کے بدلے میں ان کو لیا جائے۔ ان کے حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور ان پر فرائض وہی عائد ہوں گے جو مسلمانوں پر ہیں۔ ’’

(Enemy) ہے۔ہر کافر حربی(Thearetical)اس اعتقادی قانون کی رو سے اسلام اور کفر کے درمیان ابدی جنگ ہے’ مگر یہ جنگ محض نظری
ہے’ مگر اس معنی میں کہ جب تک ہماری اور اس کی قومیت الگ ہے ہمارے اور اس کے درمیان بنائے نزاع قائم ہے۔ ہر دار الکفر دارالحرب ہے’ مگر اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ جن تک وہ دارالکفرہے محل حرب ہے۔ یا بالفاظِ دیگر حربیت کا کلی ارتفاع صرف اختلافِ قومیت ہی کے مٹ جانے سے ہوسکتا ہے۔ اس قانون نے محض ایک نظریہ اور قاعدہ اصلیہ واضح طور پر مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا ہے جس پر ان کی حکمتِ عملی کی بنا قائم ہے۔ باقی رہے حقوق و واجبات اور جنگ و صلح کے عملی مسائل تو ان کا اس قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دستوری اور بین الاقوامی قانون سے تعلق رکھتے ہیں۔

دستوری قانون

دستوری قانون کی رو سے اسلام دنیا کو دو حصوں پر تقسیم کرتا ہے۔ ایک دار الاسلام۔ دوسرے دار الکفر۔ دار الاسلام وہ علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو اور اس حکومت میں اسلامی قانون یا حکمرانوں میں اتنی قوت ہو کہ اس قانون کو نافذ کرسکیں ۔ اس کے مقابلہ میں جہاں مسلمانوں کی حکومت نہیں اور اسلامی قانون نافذ نہیں

_____________________________

دار الاسلام کی یہ تعریف تھوڑی سی تشریح کی محتاج ہے۔ در حقیقت صحیح معنوں میں دار الاسلام صرف وہ علاقہ ہے جہاں اسلام بحیثیت ایک نظام زندگی کے حکمران ہو اور جہاں اسلامی قانون ملکی قانون کی حیثیت سے نافذ ہو۔ لیکن اگر کبھی ایسی حالت پیدا ہوجائے کہ کسی ملک میں اقتدار حکومت ہو تو مسلمانوں ہی کے ہاتھ میں مگر وہ اسلام کے بجائے کوئی اور نظامِ زندگی قائم کردیں اور اسلامی قانون کے بجائے کوئی اور قانون نافذ کرنے لگیں’ تو فقہائے اسلام ان سے مایوس ہوکر دفعۃً اس ملک کے “دار الکفر” ہونے کا اعلان کردینا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ وہ اسے بالقوۃ “دار الاسلام” ہی قرار دیے چلے جاتے ہیں جب تک کہ وہ مسلمان خود اسلام سے اپنا برائے نام تعلق بھی منقطع نہ کرلیں۔ فقہاء کا یہ محتاط طرز عمل اس وجہ سے ہے کہ مسلمانوں کی کسی با اختیار حکومت کا اپنے اصول اور قوانین میں نا مسلمان ہونا لامحالہ دوہی وجوہ میں سے کسی ایک وجہ پر مبنی ہوسکتا ہے۔ ایک یہ کہ ملک کے مسلمان باشندے تو بدستور اسلام ہی کے معتقد ہوں اور اسی کی پیروی میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہوں مگر کسی نہ کسی سبب سے ایک گمراہ طبقہ زمام کار پر قابض ہوگیا ہو۔ دوسرے یہ کہ ملک کے باشندوں میں عام طور پر جہالت اور گمراہی پھیل گئی ہو اور ان کی اپنی پسند سے وہ ضال اور مضل طبقہ برسر اقتدار آیا ہو جو غیر اسلامی طریقوں پر قومی معاملات چلا رہا ہو۔ پہلی صورت میں تو یہ عین متوقع ہے کہ عام مسلمین کا اسلامی شعور آخر کار بیدار ہوگا اور وہ اس گروہ کے اقتدار کو الٹ پھینکیں گے جو اسلام کے گھر میں کفر کا کاروبار چلا رہا ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس عارضی غلبہ کفر کو دیکھ کر مایوس ہوجائیں اور جلد بازی سے کام لے کر اس گھر کو خود ہی کفر کا گھر قرار دے بیٹھیں۔ رہی دوسری صورت تو وہ بلا شبہ

وہ دار الکفر ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے تمام وہ ممالک جن میں انگریزی حکومت ہے انگریزی علاقہ کہلائیں گے’ اور جو علاقے ان حدود سے باہر ہوں گے ان (Jurisdicion) کو علاقۂ غیر کہا جائے گا۔ اسلامی حکومت اسلام کے احکام کو صرف ان لوگوں پر نافذ کرسکتی ہے جو ا سکے اپنے حدودِ عمل
(Territory) میں رہتے ہوں۔ اسی طرح وہ صرف انہی اموال اور اعراض اور نفوس کی حفاظت کرسکتی ہے جو اس کے اپنے حدود اختیار یا علاقۂ مقبوضہ
میں واقع ہوں۔ ان حدود کے باہر کسی چیز کی حفاظت کی وہ ذمہ دار نہیں ہے۔

اس قانون کے لحاظ سے ہر وہ جان اور مال اور عزت معصوم (Protected) ہے جو دار الاسلام میں اسلامی حکومت کی حفاظت کے اندر واقع ہو’ عام اس سے کہ وہ مسلمان کی ہو یا کافر کی۔ اور ہر وہ جان اور مال اور عزت “غیر معصوم” ہے جو دار الکفر میں ہو اور جس کی محافظ اسلامی حکومت نہ ہو’ عام اس سے کہ وہ مسلمان کی ہو یا کافر کی غیر معصوم ہونے کا مآل صرف اس قدر ہے کہ اگر اس کی جان و مال یا عزت پر کسی کا حملہ کیا جائے تو اسلامی حکومت اس پر کوئی مواخذہ نہ کرے گی۔ کیونکہ یہ فعل اس کے حدود عمل سے باہر واقع ہوا ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ خدا کے نزدیک وہ فعل گناہ ہو یا نہ ہو اور خدا کے ہاں اس پر مواخذہ ہو یا نہ ہو۔ پس کسی چیز کا غیر معصوم ہونا اس امر کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ مباح بھی ہے’ نہ اس کی عدم عصمت کو اس معنی میں لیا جا سکتا ہے کہ اسے نقصان پہنچانا یا اس پر قبضہ کرلینا عنداللہ بھی جائز اور حلال ہے۔ اسی طرح دستوری قانون کے نقطۂ نظر سے اگر کسی ایسے فعل کو جائز ٹھہرایا جائے جس کا ارتکاب دار الکفر میں کیا گیا ہو تو اس کا مفہوم صرف اس قدر ہوگا کہ اسلامی حکومت کو اس سے کوئی تعرض نہیں’ وہ اس پر کوئی سزا نہیں دے گی’ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس فعلِ حرام پر خدا کے ہاں بھی کوئی گرفت نہ ہوگی۔

یہاں اعتقادی قانون اور دستوری قانون کے حدود الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ اعتقادی قانون جس مسلمان کو بھائی کہتا ہے اور جس کی جان و مال کو حرام ٹھہراتا ہے وہ دستوری قانون کی نگاہ میں غیر معصوم ہے’ اس لیے کہ وہ سلطنت اسلامی کے حدود اختیار سے باہر رہتا ہے۔ اور جس کافر کو اعتقادی قانون دشمن قرار دیتا ہےدستوری قانون اسے معصوم ٹھہراتا ہے صرف اس بنا پر کہ وہ اسلامی سلطنت کی حفاظت میں آ گیا ہے جس فعل کو اعتقادی قانون سخت گناہ اور جرم ٹھہراتا ہے’ دستوری قانون اس پر کوئی

_____________________________

مایوسی کا مقام ہے’ لیکن جس قوم نے جہالت اور گمراہی کے باوجود ابھی تک اسلام سے اپنا تعلق نہیں توڑا ہے اور جو اس قدر بگڑ جانے پر بھی اپنا مذہب ابھی تک اسلام ہی بتائے جا رہی ہے’ اس کی طرف سے ہم بھی اتنے مایوس نہیں ہوسکتے کہ اصلی اور حقیقی اسلام کی طرف اس کی واپسی کی ساری امیدیں منقطع کرلیں۔ لہذا ہم اس کے گھر کو بھی دار الکفر نہیں کہیں گے بلکہ دار الاسلام ہی کہتے رہیں گے لیکن یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عملاً اسلامی قانون کا تعلق صرف دار الاسلام سے ہے جو بالفعل دار الاسلام ہو۔ رہا وہ رعایتی “دار الاسلام” جس نے خود ہی اسلام سے اپنا قانونی تعلق توڑ رکھا ہو تو اسلام اس کے سیاسی نظام کو وہ دستوری حقوق دینے کے لیے تیار نہیں ہے جو اس نے صرف “اسلامی حکومت” کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں۔

گرفت نہیں کرتا کیونکہ وہ اس کے حدود عمل سے باہر ہوا ہے۔ دونوں میں کھلا ہوا فرق یہ ہے کہ اعتقادی قانون کا تعلق آخرت سے ہے اور دستوری قانون کا تعلق صرف دنیا اور اس کے معاملات سے۔ لیکن امام ابو حنیفہ کے سوا تمام فقہاء نے کم و بیش ان دونوں میں خلط ملط کیا ہے اور وہ ان کے حدود میں پوری طرح تمیز نہیں کرسکے ہیں۔
چند مثالوں سے ہم اس پیچیدہ مسئلہ کی توضیح کریں گے۔

فرض کیجیے کہ ایک مسلمان تاجر امان لے کر دار الحرب میں جاتا ہے اور وہاں سے کچھ مال چرا لاتا ہے۔ یہ فعل اعتقادی قانون اور بین الاقوامی قانون کی رو سے حرام ہے کیونکہ اس شخص نے عہد شکنی کی ہے۔ لیکن دستوری قانون اس شخص کو اس مال کا جائز مالک قرار دیتا ہے اور اس سے کوئی باز پرس نہیں کرتا۔ (ہدایہ باب المستامن

فرض کیجیے کہ دار الاسلام کی رعایا کا ایک شخص دار الحرب میں قید تھا۔ وہ وہاں قید سے چھوٹ گیا یا چھوڑ دیا گیا۔ اب وہ وہاں خواہ چوری کرے’ شراب پیے’ زنا کرے’ سب کچھ دستوری قانون کی رو سے ناقابلِ مواخذہ ہے (بحر الرائق۔ ج5 ص 107) یعنی اسلامی حکومت اس پر نہ اس کا ہاتھ کاٹے گی’ نہ حد زنا و شراب جاری کرے گی’ نہ قصاص لے گی۔ مگر اعتقادی قانون کی رو سے وہ خدا کے ہاں گناہگار ہوگا۔

فرض کیجیے کہ ایک شخص دار الحرب میں مسلمان ہوا اور وہاں سے ہجرت کرکے دار الاسلام میں نہیں آیا۔ اعتقادی قانون کی رو سے وہ مسلمان کا بھائی ہوچکا ہے ۔ اس کا خون اور مال حرام ہوچکا ہے۔ مگر دستوری قانون کی رو سے وہ چونکہ اسلامی سلطنت کے حدودِ عمل سے باہر ہے اس لیے اس کی کوئی چیز معصوم نہیں۔ اس کی حیثیت وہی ہوگی جو دشمن سلطنت کی رعایا کی ہے۔ اگر کوئی مسلمان دار الاسلام کے حدود سے باہر اس کو قتل کردے تو اسلامی عدالت نہ اس پر قصاص لے گی نہ خوں بہا دلوائے گی۔ بطور خود وہ کفارہ ادا کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان اس سے سود لے یا اس کے مال پر کسی دوسرے ناجائز طریقہ سے قبضہ کرلے تو دستوری قانون کی رو سے یہ ناقابل گرفت ہے کیونکہ اس کا مال غیر معصوم ہے۔ اس باب میں فقہاء کی تصریحات نہایت معنی خیز ہیں:۔

و اذ اسلم رجل من اھل الحرب فقتلہ رجل من المسلمین قبل ان یخرج الی دار الاسلام خطاء فعلیہ الکفارۃ ولادیۃ علیہ و فی الاملاء عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ لانہ لا کفارۃ

_____________________________

واضح رہے کہ بیرونی ممالک میں جا کر دار الاسلام کی رعایا کے جو لوگ جرائم اور بد اخلاقیوں کا ارتکاب کریں ان سے دار الاسلام کی حکومت اس بات پر تو ضرور باز پرس کرسکتی ہے کہ انہوں نے اپنے رویہ سے اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا سامان کیا’ اور اس بنیاد پر بھی وہ ان سے مواخذہ کرسکتی ہے کہ انہوں نے اپنے غلط طرز عمل سے اپنی ریاست کے لیے بین القوامی معاملات میں الجھنیں پیدا کیں۔ لیکن ان پر نفس اس جرم (مثلاً قتل یا چوری) کے بارے میں کوئی مقدمہ نہیں چلا جائے گا جس کا ارتکاب انہوں نے دار الاسلام کے حدود سے باہر کیا ہو۔

علیہ ایضا لان وجوبھا باعتبار تقوم الدم لا باعتبار حرمۃ القتل۔۔۔۔۔ وتقوم الدم یکون بالاحراز بدار الاسلام۔ (شرح السیر الکبیر مطبوعہ دائرۃ المعارف ج 1۔ ص 88

اگر اہل حرب میں سے کوئی شخص مسلمان ہوچکا ہو اور قبل اس سے کہ وہ ہجرت کرکے دار الاسلام میں آئے’ کسی مسلمان نے اسے بلا ارادہ قتل کردیا تو اس پر کفارہ ہے مگر خون بہا واجب نہیں۔ اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے املاء میں یہ مسئلہ منقول ہے کہ اس پر کفارہ بھی نہیں کیونکہ کفارہ کاوجوب خون کے باقیمت ہوجانے کے اعتبار سے ہے نہ کہ حرمت قتل کے اعتبار سے ۔۔۔ اور خون صرف اس وقت باقیمت ہوتا ہے جب کہ وہ دار الاسلام کی حفاظت میں ا ٓچکا ہو۔

ولما ثبت بما قدمنا انہ لا قیمۃ لدم المقیم فی دار الحرب بعد اسلامہ قبل الھجرۃ الینا۔ اجروہ اصحابنا مجری الحربی فی اسقاط الضمان عن متلف مالہ۔۔ و ان یکون مالہ کمال الحربی من ھذا الوجہ ولذالک اجاز ابو حنیفۃ مبایعتہ الحربی من بیع الدرھم بالدرھمین فی دار الحرب۔ (احکام القرآن۔ الحنفی’ ج2ص 297

اور جب ہماری پچھلی تقریر سے یہ ثابت ہوگیا کہ جو شخص مسلمان ہوکر ہجرت نہ کرے اور دار الحرب میں مقیم رہے اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں ۔۔۔ تو اسی بنا پر ہمارے اصحاب حنفیہ نے ایسے مسلمان کی حیثیت حربی ہی کی قرار دی ہے یعنی اس کے مال کو تلف کرنے والے پر کوئی ضمان نہیں۔۔ اس حیثیت سے اس کا مال گویا حربی کا مال ہے اور اس بنا پر ابوحنیفہ نے اس کے ساتھ بھی اسی طرح خرید و فروخت کرنا جائز ٹھہرایا ہے جس طرح حربی کے ساتھ جائز ہے۔ یعنی دار الحرب میں ایک درہم کو دو درہم کے عوض بیچنا۔

و قال الحسن بن صالح اذا اسلم الحربی فاقام ببلادھم وھو یقدر علی الخروج فلیس بمسلم یحکم فیہ بما یحکم علی اھل الحرب فی مالہ و نفسہ۔ (احکام القرآن

حسن بن صالح کا قول ہے کہ جب دار الحرب کا ایک باشندہ مسلمان ہونے کے بعد دار الحرب ہی میں رہا۔ در آنحالیکہ وہ ہجرت کی قدرت رکھتا تھا تو اس کی حیثیت مسلمان کی نہیں ۔ اس کی جان و مال کا وہی حکم ہے جو اہل حرب کی جان و مال کا ہے۔

_____________________________

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان کسی اسلامی حکومت کی حفاظت میں نہیں ہے بلکہ اس کے حدود اختیار سے باہر رہتا ہے اس کا خون بجائے خود خواہ کتنی ہی بڑی قیمت رکھتا ہو’ لیکن اسلامی حکومت کے لیے اس کی قانونی قیمت کچھ بھی نہیں ہے۔ اسے کوئی گزند پہنچے تو اسلامی حکومت اس کی کوئی داد رسی نہیں کرسکتی۔ اسے کوئی قتل کردے تو اسلامی حکومت پر اس کا قصاص یا خون بہا دلوانے کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اس کے مال یا آبرو سے کوئی بے جا تعرض کرے تو اسلامی حکومت پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ وہ اس ظلم کا تدارک کرے۔ مگر یہ سب کچھ قانونی حیثیت سے ہے۔ ورنہ اعتقادی صورت پر مسلمان کی جان مال اور آبرو مسلمانوں کے لیے دنیا جہان سے زیادہ قیمتی ہے اور دار الاسلام کے مسلمانوں کی دینی حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دار الکفر کے مسلمانوں کی جتنی اخلاقی مدد کرسکتے ہیں۔
موجودہ زمانہ میں اس حکم کے لیے “ہجرت کی قدرت رکھنے” کے ساتھ ایک شرط اور بھی لگانی ہوگی’ اور وہ یہ کہ دار الاسلام نے مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھول رکھے ہوں اور اسلامی حکومت کی طرف سے یہ اعلان ہوچکا ہو کہ مطلقاً دار الحرب اور دار الکفر کے’ یا کسی خاص دار الحرب اور دار لکفر کے مسلمان اس کی طرف سمٹ آئیں۔ اس صورت میں جو لوگ قدرت کے باوجود ہجرت نہ کریں گے ان کے ساتھ دار الاسلام کے مسلمان ہر حیثیت سے وہی معاملہ کریں گے جو اس دار الکفر یا دار الحرب کے دوسرے باشندوں کے ساتھ ہوگا۔ اور جو لوگ صریح طور پر ہجرت سے

و اذا اسلم الحربی فی دار الرحب فقتلہ مسلم عہدا او خطأ ولہ ورثۃ مسلمون ھناک فلا شیء علیہ الا الکفارۃ فی الخطاء (ھدایہ کتاب السیر

جب کوئی حربی دار الحرب میں مسلمان ہوچکا ہو اور کوئی مسلمان اسے عمداً یا خطا قتل کردے اور اس کے مسلمان ورثا بھی دار الحرب میں موجود ہوں تو اس پر کوئی قصاص یا دیت نہیں ہے۔ خطا کی صورت میں محض کفارہ ادا کردے۔

وحکم من اسلم فی دار الحرب ولم یھاجر کالحربی عند ابی حنیفۃ لان مالہ غیر معصوم عندہ (بحر الرائق ج 5 ص 147

اور جو شخص دار الحرب میں مسلمان ہو اور ہجرت نہ کرے اس کی حیثیت ابو حنیفہ کے نزدیک حربی کی ہے کیوں کہ اس کا مال ان کی رائے میں غیر معصوم ہے۔

فرض کرو کہ ایک مسلمان امان لے کر دار الحرب میں گیا اور وہاں اس نے کسی حربی سے قرض لیا یا اس کا مال غصب کرلیا۔ پھر وہ دار الاسلام واپس آ گیا اور وہ حربی بھی دار الاسلام میں امان لے کر آیا۔ یہاں وہ حربی مستامن اس قرض یا اس مال مغصوبہ کے لیے دار الاسلام کی عدالت میں دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اسلامی عدالت اس کو ایک پیسہ واپس نہ دلائے گی۔ اسی طرح اگر دار الحرب میں حربی نے مسلمان کا قرض مار لیا ہو’ اس کا مال غصب کرلیا ہو’ پھر وہ حربی امان لے کر دار الاسلام میں آئے تب بھی اسلامی عدالت اس حربی کے خلاف اس مسلمان کی کوئی داد رسی نہ کرے گی۔ (الجامع الصغیر لامام محمد علی ہامش کتاب الخراج الام ابی یوسف ص 75)

اگر باپ دار الاسلام میں ہو اور اس کی نابالغ اولاد دا رالحرب میں ہو تو اس اولاد پر سے باپ کی ولایت ساقط ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر مال کا مالک دار الاسلام میں ہو اور مال دار الحرب میں ہو تو مالک کی جان معصوم ہوگی مگر مال معصوم نہ ہوگا۔ (فتح القدیر ج 4۔ ص 355

دار الاسلام کی رعایا میں سے دو مسلمان امان لے کر دار الحرب میں چلے گئے اور وہاں ایک نے دوسرے کو قتل کردیا ۔ا گر قاتل دار الاسلام میں واپس آئے تو اس سے قصاص نہ لیا جائے گا۔ صاحب ہدایہ نے اس کی جو وجہ بیان کی ہے وہ قابل غور ہے۔

_____________________________

معذور ہوں گے اگرچہ دستوری حیثیت سے ان کے حقوق کچھ بھی نہیں ہیں’ تاہم ان کے ساتھ بالکل غیر مسلم کا سا معاملہ نہیں کیا جائے گا بلکہ فوج کے سپاہیوں اور دوسرے مسلمانوں کو ہدایات دے دی جائیں گی کہ جنگ میں ان کو بچانے کی جس حد تک کوشش ممکن ہو کریں’ اور حالت صلح میں بھی ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نرمی و رعایت کا برتاؤ کرتے رہیں۔ لیکن جب کہ دار الاسلام کی حکومت کی طرف سے باہر کے مسلمانوں کے لیے نہ تو ہجرت کی دعوت ہو اور نہ اس نے ان کی آمد کے لیے اپنا دروازہ کھلا رکھا ہو’ تو اس صورت حال میں بیرونی مسلمانوں پر حسن بن صالح کا یہ قول چسپاں نہیں ہوتا’ کہ ان میں سے جو ہجرت کی کی قدرت رکھتا ہو اور ہجرت نہ کرے۔‘‘ اس کی حیثیت مسلمان کی نہیں ہے’’۔ البتہ دستوری قانون کا یہ اصول بہرحال اپنی جگہ اٹل ہے کہ جو مسلمان دار الاسلام کی رعایا نہ ہوں اور اس کے حدود اقتدار سے باہر ہوں ان کی جان’ مال اور آبرو کے تحفظ کی ذمہ داری دار الاسلام کی حکومت پر نہیں ہے۔

و انما لا یجب القصاص لانہ لایمکن استیفاءہ الامنعۃ ولا منعہ دون الامام و جماعۃ المسلمین ولم یوجد ذالک فی دار الحرب۔ (ھدایہ۔ کتاب السیر

(Protection)اس پر قصاص اس لیے واجب نہیں کہ قصاص بغیر حفاظت
کے واجب نہیں آتا اور حفاظت بغیر امام اور جماعت مسلمین کے نہیں ہوتی۔ اور یہ چیز دار الحرب میں موجود نہیں ہے۔

دار الاسلام کی رعایا میں سے دو مسلمان دار الحرب میں قید تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کردیا۔ یا کوئی مسلمان امان لے کر دار الحرب گیا اور وہاں اس نے کسی مسلمان اسیر کو قتل کردیا۔ دونوں صورتوں میں قتل پر نہ قصاص ہے نہ خون بہا۔
علامہ ابن ہمام نے اس کی جو تشریح کی ہے وہ اور بھی زیادہ معنی خیز ہے۔ فرماتے ہیں:۔

فلا شیء علی القاتل من احکام الدنیا الا الکفارۃ فی الخطاء عند ابی حنیفۃ و انما علیہ عقاب الاخرۃ فی العمد۔۔۔ لانہ صار بالاسر تبعا لھم۔۔۔ وصار کالمسلم الذی لم یھاجر الینا فی سقوط عصمتہ الدنیویۃ (فتح القدیر ج4 ص 451

ابو حنیفہ کے نزدیک قاتل پر احکام دنیا میں سے کچھ نہیں بجز اس کے کہ وہ خطا کی صورت میں کفارہ ادا کردے۔ رہا قتل عمد تو اس پر کفارہ بھی نہیں’ البتہ آخرت کا عذاب ہے۔۔۔قصاص اور دیت کے ساقط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قید ہونے کی وجہ سے وہ اہل حرب کا تابع ہوگیا۔ ۔ اور اس کی حیثیت اس مسلمان کی سی ہوگئی جس نے ہماری طرف ہجرت نہ کی ہو اور اس حیثیت سے اس کی دنیوی عصمت ساقط ہوگئی۔

دیکھیے ان مثالوں میں اعتقادی قانون اور دستوری قانون کا فرق کس قدر نمایاں ہے۔ اعتقادی قانون مسلمانوں کو ایک قوم اور کفار کو دوسری قوم قرار دیتا ہے اور اس کا اقتضاء یہ ہے کہ مسلمان کی جان’ مال اور عزت کو کافر کی جان و مال اور عزت پر ترجیح دی جائے۔ لیکن دستوری قانون اس عالمگیر تقسیم کے بجائے اپنے (Territorial Limits) حدود عمل (جو رسٹرکشن) کو حدود ارضی
تک محدود کرتا ہے۔ سلطنت اسلامیہ کے حدود میں جو جان ہے’ جو مال ہے’ جو شئے ہے وہ “معصوم” ہے’ خواہ وہ مسلمان کی ہو یا کافر کی’ کیونکہ سلطنت کا قانون اس کی حفاظت کا ذمہ لے چکا ہے۔ اور ان حدود کے باہر جو چیز ہے”غیر معصوم” ہے’ خواہ وہ مسلم کی ہو یا کافر کی۔ اسلامی حدود کے اندر کوئی چوری کرے گا تو ہم ہاتھ کاٹیں گے’ قتل کرے تو ہم قصاص یا دیت وصول کریں گے’ ناجائز ذرائع سے مال لے گا تو واپس دلائیں گے۔ اور ان حدود کے باہر کوئی مسلمان یا ذمی ایسا فعل کرے جو ہمارے قانون کی رو سے جرم ہو تو ہم نہ علاقہ غیر میں اس کے خلاف کوئی کاروائی کرسکتے ہیں نہ اپنے علاقہ میں واپس آنے کے بعد’ اس لیے کہ فعل ان حدود میں ہوا ہے جہاں قیامِ امن اور حفاظت جان و مال کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں۔ لیکن یہ جو کچھ ہے دنیوی حیثیت سے ہے۔ حدود اسلامی سے باہر جو گناہ کیا جائے گا وہ دنیوی حکومت کے ورود عمل سے باہر ہونے کے باعث صرف دنیوی مواخذہ سے چھوٹ جائے گا۔ البتہ اللہ کے مواخذہ سے ہے۔اس نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے وہ ہر جگہ حرام ہے۔
ہے۔اس نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے وہ ہر جگہ حرام ہے۔ (Ultra territorial)نہ چھوٹے گا’ کیونکہ اللہ کی عمل داری حدود ارضی سے ناآشنا

یہ امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کا من گھڑت قانون نہیں ہے بلکہ قرآن اور حدیث سے ماخوذ ہے۔ وہی قرآن جو ایک طرف۔ فان اقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ فاخوانکم فی الدین اور من یقتل مؤمنا متعمدا فجزاء ہ جہنم خالدا فیہا کہتا ہے’ دوسری طرف وہی قرآن حدود اسلامی کے اندر رہنے والے مسلمان اور علاقہ غیر میں رہنے والے مسلمان کے خون میں فرق بھی کرتا ہے۔ اول الذکر کو دانستہ قتل کرنے والے پر کفارہ بھی ہے اور دیت بھی۔ اور موخر الذکر کے قاتل پر صرف کفارہ ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ بن زید کو ایک سریہ کا افسر بنا کر حرقات کی طرف بھیجتے ہیں۔ وہاں ایک شخص لا الہ الا اللہ کہہ کر جان بچانا چاہتا ہے۔ مگر مسلمان اس کو قتل کردیتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوتی ہے تو اسامہ کو بلا کر آپ بار بار فرماتے ہیں۔ من لک بلا الہ الا اللہ یوم القیمۃ۔ قیامت کے روز تجھے لا الہ الا اللہ کے مقابلہ میں کون بچائے گا۔ مگر اس مقتول کی دیت ادا کرنے کا حکم نہیں دیتے۔ ایسے ہی ایک دوسرے موقع پر حدود اسلامی سے باہر رہنے والے چند مسلمان مارے جاتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ انا بریٔ من کل مسلم یقیم بین اظھر المشرکین۔ میں ہر ایسے مسلمان کی حفاظت سے بریٔ الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو ۔ خود قرآن میں بھی ایسے مسلمان کی ذمہ داری سے براءت کا اظہار کیا گیا ہے:۔

والذین امنوا ولم یھاجروا مالکم من ولایتھم من شیء حتی یھاجروا۔ (الانفال: 72

اور جو لوگ ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کرکے (دار الاسلام میں) نہ آگئے ان سے تمہارا “ولایت” کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک وہ ہجرت کرکے نہ آجائیں ۔

_____________________________

وان کام من قوم بینکم و بینہہم میثاق سے یہ مراد ہے کہ اگر علاقہ غیر میں رہنے والا مسلمان کسی ایسی قوم سے ہو جس سے خون بہا کے باب میں مسلمان کا معاہدہ ہوچکا ہو تو جس طرح اس قوم کے غیر مسلم فرد کا خون بہا دیاجائے گا اسی طرح اس کے ایک مسلمان فرد کا بھی دیا جائے گا۔ پس یہ خون بہا معاہدہ کی بنا پر ہے نہ عصمت اسلامی کی بناء پر۔ (ملاحظہ ہو سورہ نساء رکوع 13)
ابو داود ‘ باب علی’ یقاتل المشرکین۔
ابو داود کتاب الجہاد’ باب مذکور’ اس دوسرے واقعہ میں حضور نے مقتولوں کی نصف دیت دلوائی تھی۔ اغلب ہے کہ آپ کا یہ فعل اس آیت کے نزول سے پہلے کا ہوگا۔ جس میں ایسے مقتول کی دیت ساقط کی گئی ہے۔
یہ آیت اسلام کے دستوری قانون کی نہایت اہم دفعات میں سے ہے۔ اس میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ “ولایت” کے تعلقات صرف ان مسلمانوں کے درمیان ہوں گے جو دار الاسلام کے باشندے ہوں جو باہر سے دار الاسلام میں ہجرت کرکے آجائیں۔ باقی رہے وہ مسلمان جو دار الاسلام سے باہر رہتے ہوں’ یا دار الاسلام میں آئیں بھی تو ہجرت کرکے نہ آئیں بلکہ دار الکفر کی رعایا ہونے کی حیثیت سے آئیں’ تو ان کے اور اہل دار الاسلام کے درمیان ولایت کا کوئی تعلق نہیں۔ “ولایت” کا لفظ عربی زبان میں حمایت’ نصرت’ مددگاری پشتیبانی’ دوستی’ قرابت’ سرپرستی’ اور اس سے ملتے جلتے مفہومات پر بولا جاتا ہے اور اس آیت کے سیاق و سباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے اور شہریوں کا اپنی ریاست سے’اور خود شہریوں کا آپس میں ایک دوسرے سے ہوتا ہے۔ پس یہ آیت دار الاسلام سے باہر کے مسلمانوں کو (دینی اخوت کے باوجود) اس سیاسی و تمدنی رشتے سے خارج کردیتی ہے’ اور اس سے

اس طرح قرآن اور حدیث نے خود ہی دنیوی عصمت کو دینی عصمت سے الگ کردیا ہے اور دونوں کے حدود بتا دئیے ہیں۔ تمام فقہائے اسلام میں صرف امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی ایسے فقیہہ ہیں جنہوں نے اس نازک اور پیچیدہ قانونی مسئلہ کو ٹھیک ٹھیک سمجھا ہے۔ امام ابو یوسف’ امام محمد’ امام مالک’ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر مجتہدین بھی ان دونوں قسم کی عصمتوں میں پوری پوری تمیز نہیں کرسکے۔ چنانچہ مثال کے طور پر اگر دار الکفر میں اسلامی رعایا کا ایک فرد دوسرے کو قتل کردے تو یہ سب حضرات بالاتفاق فرماتے ہیں کہ قاتل سے قصاص لیا جائے گا کیونکہ اس نے ایک شخص کو قتل کیا جو “معصوم بالاسلام” تھا۔ پس جب اتنے بڑے بڑے آئمہ اس مسئلہ میں مختلط ہوگئے ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ فقہ حنفی کے متاخر شارحین کو بھی امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی بات سمجھنے میں یہی خلط پیش آیا ہو۔

دار الحرب اور دار الکفر کا اصطلاحی فرق

امام اعظم کے متعلق ہم کو تحقیق ہے کہ اوپر جتنے مسائل بیان ہوئے ہیں ان میں اور اسی قبیل کے دوسرے مسائل میں انہوں نے دار الحرب کے بجائے دار الکفر (Foreign territory)کی اصطلاح استعمال کی تھی’ کیونکہ دستوری قانون کے نقطۂ نظر سے دار الاسلام کا مقابل دار الکفر بمعنی علاقۂ غیر
ہی ہوسکتا ہے’ حرب اور غیر حرب کا اس میں کوئی دخل نہیں جو ممالک اسلامی سلطنت سے صلح رکھتے ہوں وہ بھی دار الکفر ہیں۔ اور ان سے بھی وہ سب احکام متعلق ہیں جو اوپر بیان ہوئے لیکن چونکہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جتنے دار الکفر اسلامی سلطنت سے متصل تھے وہ عموما دار الحرب ہی میں رہتے تھے’ اس لیے بعد کے فقہاء نے دا ر الکفر کو بالکل دار الحرب کا ہم معنی سمجھ لیا اور ان دونوں اصطلاحوں کے باریک قانونی فرق کو نظر انداز کر گئے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ کے کلام میں ہم کو کسی جگہ کوئی ایسا لفظ نہیں ملا جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ وہ غیر معصوم کو مباح کے معنی میں لیتے ہیں۔ وہ حدود اسلام سے باہر کی اشیاء کو غیر معصوم کہنے پر اکتفا کرتے ہیں’ اور ایسی اشیاء پر دست درازی کرنے والے کے لیے صرف اتنا کہتے ہیں ۔ لا شیء علیہ۔ یا لم یقض علیہ وغیرہ۔ یعنی اس پر کوئی گرفت نہیں’ یا اس کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ صادر نہ کیا جائے گا لیکن بعد کے فقہاء نے اکثر مقامات پر “عدم عصمۃ” اور “اباحت” کو خلط ملط کردیا جس سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ حدود اسلامی سے باہر جتنے ممنوع افعال کیے جائیں ان پر جس طرح حکومت اسلامی باز پرس نہیں کرے گی اسی طرح خدا بھی باز پرس نہیں کرے گا۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں بالکل الگ الگ ہیں۔ آپ ہندوستان میں کسی کا مال چرا لیجیے۔

_____________________________

وسیع قانونی نتائج نکلتے ہیں جن کی تفصیلات فقہ کی مبسوط کتابوں میں موجود ہیں۔ مثلاً اسی “عدم ولایت” کا نتیجہ ہے کہ دار الاسلام اور دار الکفر کے مسلمان آپس (Guardian)میں شادی بیاہ نہیں کرسکتے۔ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔ ایک دوسرے کے قانونی ولی
نہیں بن سکتے۔ اسلامی حکومت کسی ذمہ داری کے منصب پر کسی ایسے مسلمان کو مامور نہیں کرسکتی جس نے رعیت ہونے کا تعلق دار الکفر سے نہ توڑا ہو۔
ملاحظہ ہو الجامع الصغیر اور فتاوی قاضی خان۔

ظاہر ہے کہ افغانستان کی عدالت میں آپ پر مقدمہ نہ چلایا جائے گا۔ دار الاسلام کے قانون کی رو سے آپ بری الذمہ ہیں۔ مگر اس کے یہ معنی کب ہیں کہ خدا کی عدالت سے بھی آپ چھوٹ گئے۔
اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کتب فقہ میں دار الحرب کے اندر سود اور قمار اور دوسرے عقود فاسدہ کی اباحت کا جو مسئلہ اس بنا پر لکھا گیا ہے کہ حربی کے لیے Protection”کوئی “عصمت
نہیں تو اس کے دو پہلو ہیں۔

ایک یہ کہ دار الحرب سے مراد محض علاقہ غیر ہو۔ اس لحاظ سے یہ مسئلہ دستوری قانون سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی نوعیت یہ ہے کہ “حربی” (بمعنی رعیت غیر) کے مال کی حفاظت کا ذمہ چونکہ ہم نے نہیں لیا ہے اس لیے ہمارے حدود عمل سے باہر ہماری سلطنت کا کوئی شہری اگر اس سے سود لے کر یا جوا کھیل کر یا کسی اور ناجائز ذریعہ سے مال لے کر ہمارے علاقہ میں آجائے تو ہم اس پر کوئی مقدمہ قائم نہ کریں گے’ قطع نظر اس سے کہ دین و اعتقاد کے نقطہ نظر سے وہ مجرم ہو یا نہ ہو۔
(Enemry Country)دوسرا پہلو یہ ہے کہ دار الحرب سے مراد وہ ملک لیا جائے جس سے بالفعل ہماری جنگ برپا ہو یعنی
اس لحاظ سے یہ مسئلہ تعلقاتِ خارجیہ کے قانون سے تعلق رکھتا ہے جس کو ہم آگے بیان کرتے ہیں۔

تعلقات خارجیہ کا قانون

اسلامی قانون کا یہ شعبہ ان لوگوں کے جان و مال کی قانونی حیثیات سے بحث کرتا ہے جو اسلامی حکومت کے حدود سے باہر رہتے ہوں۔ اس کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے چند امور کی توضیح ضروری ہے۔

(Territory) فقہی اصطلاح میں لفظ “دار” قریب قریب انہی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے جن میں انگریزی لفظ
بولا جاتا ہے۔ جن حدود ارضی میں مسلمانوں کو حقوق شاہی حاصل ہوں وہ دار الاسلام ہیں اور جو علاقہ ان حدود سے خارج ہو وہ دار الکفر یا دار الحرب ہے۔ تعلقات خارجیہ کا قانون تمام تر انہی مسائل سے بحث کرتا ہے جو اس ارضی تفریق یا اختلاف دارین سے نفوس اور اموال کے بارے میں پیدا ہوتے ہیں۔
(National) جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں اعتقادی حیثیت سے تو تمام مسلمان اسلامی قومیت کے افراد
(Citizens) ہیں۔ لیکن اس شعبہ قانون کی اغراض کے لیے ان کو تین اقسام پر منقسم کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو دار الاسلام کی رعایا
ہوں’ دوسرے وہ جو دار الکفر یا دار الحرب کی رعایا ہوں’ تیسرے وہ جو رعایا تو دار الاسلام ہی کی ہوں مگر مستامن کی حیثیت سے عارضی طور پر دار الکفر یا دار الحرب میں جائیں اور مقیم ہوں۔ ان سب کے حقوق اور واجبات الگ الگ متعین کیے گئے ہیں۔

اس کے مقابلہ میں کفار اگرچہ سب کے سب اعتقاداً اسلامی قومیت سے خارج ہیں’ مگر قانونا ان کو بھی ان کے حالات کے لحاظ سے متعدد اقسام پر منقسم کیا گیا ہے۔ (Natural Born subjects) ایک وہ جو پیدائشی ذمی
(Naturlised subjects) ہوں یا وضع جزیہ و خراج کے ذریعہ سے جن کو ذمی بنا لیا گیا ہو۔
(Domiciled Aliens) دوسرے وہ جو دار الاسلام کی رعایا نہ ہوں’ بلکہ مستامن کی حیثیت دار الاسلام میں آئیں اور رہیں۔
تیسرے وہ جو دار الکفر یا دار الحرب کی رعایا ہوں اور امان کے بغیر دار الاسلام میں داخل ہوجائیں۔ چوتھے وہ جو اپنے ہی دار میں ہوں۔ پھر اس آخری قسم کے کفار کی بھی متعدد اقسام ہیں ایک وہ جن سے اسلامی حکومت کا معاہدہ نہ ہو مگر دشمنی بھی نہ ہو۔ دوسرے وہ جو اسلامی حکومت کو خراج دیتے ہیں مگر ان کی حدود میں احکام اسلامی جاری نہ ہوں تیسرے وہ جن سے کوئی معاہدہ نہ ہو مگر دشمنی بھی نہ ہوچوتھے وہ جن سے مسلمانوں کی دشمنی ہو۔

(Territory) اس طرح حدود ارضی یعنی دار
کے لحاظ سے اشخاص اور املاک کی حیثیات میں جو فرق ہوتا ہے اور اس فرق کے لحاظ سے ان کے درمیان احکام میں جو تمیز کی جاتی ہے اس کو مد نظر رکھنا قانون اسلامی کی صحیح تعبیر کے لیے نہایت ضروری ہے۔ جب کبھی ان فروق اور امتیازات کا لحاظ کیے بغیر محض قانونی عبارات کے الفاظ کی پیروی کی جائے گی تو صرف ایک سود کے مسئلہ ہی میں نہیں بلکہ بکثرت فقہی مسائل میں ایسی غلطیاں پیش آئیں گی جن سے قانون مسخ ہوجائے گا اور اپنے مقاصد کے خلاف استعمال کیا جانے لگے گا۔

ان ضروری توضیحات کے بعد ہم ان سوالات کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ دار الحرب کا اطلاق در اصل کن علاقوں پر ہوتا ہے’ کن مراتب کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر ہر مرتبہ کے احکام کیا ہیں’ حربیت کے کتنے مدارج ہیں اور ہر درجہ کے لحاظ سے اباحت نفوس و اموال کی نوعیت کس طرح بدلتی ہے۔ پھر اختلاف دارین کے لحاظ سے خود مسلمان کی حیثیات میں کیا فرق ہوتا ہے اور ہر حیثیت سے ان کے حقوق و واجبات کس طرح بدلتے ہیں ۔

کفار کی اقسام

کفار کی جو اقسام ہم نے اوپر بیان کی ہیں ان میں سے اہل ذمہ کے متعلق تو ہر شخص جانتا ہے کہ بجز خمر و خنزیر اور نکاحِ محارم اور عبادات غیر اللہ کے اور تمام معاملات میں ان کی حیثیت وہی ہے جو مسلمانوں کی ہے۔ اسلام کے ملکی قوانین ان پر جاری ہوتے ہیں’ وہ ان سب چیزوں سے روکے جاتے ہیں جن سے مسلمان روکے جاتے ہیں’ اور ان کو عصمت جان و مال و آبرو کے وہ تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں جو دارالاسلام کے مسلمانوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ مستامن کافروں کا معاملہ بھی ذمیوں سے مختلف نہیں ہے’ کیونکہ ان پر بھی اسلامی حکومت کے احکام نافذ ہوتے ہیں اور دار الاسلام ہونے کی وجہ سے ان کو بھی عصمتِ جان و مال حاصل ہوتی ہے۔ ان کو الگ کرنے کے بعد اب ہمیں صرف ان کفار کے حالات پر نظر ڈالنی چاہیے جو دار الکفر میں مقیم ہوں۔

باج گزار

وہ کفار جو اسلامی حکومت کو خراج دیتے ہوں اور جن کو اپنے ملک میں احکام کفر جاری کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ ان کا ملک اگرچہ دار الکفر ہے مگر دار الحرب نہیں۔ اس لیے کہ جب مسلمانوں نے ادائے خراج پر انہیں امان دے دی تو حربیت مرتفع ہوگئی۔ قرآن میں آیا ہے کہ “فان اعتزلوکم فلم یقاتلوکم القوا الیکم السلم فما جعل اللہ لکم علیھم سبیلا (النساء: 90)” یعنی اگر وہ جنگ سے باز آجائیں اور صلح پیش کریں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر دست درازی کی سبیل نہیں رکھی۔ اسی بنا پر فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ان کے اموال اور نفوس اور اعراض سے تعرض نہیں کیا جا سکتا۔

و ان وقع الصلح علی ان یؤدوا الیھم کل سنۃ مأۃ رأس فان کانت ھذہ الماۃ الراس یؤدو نہا من انفسہم و اولادھم لم یصلح ھذا لان الصلح وقع علی جماعتہم فکانوا جمیعا مستامنین و استرقاق المستامن لایجوز (المبسوط للا مام السرخسی ج 100 ص 88

اور اگر ان سے اس بات پر صلح ہوئی ہو کہ وہ ہر سال سو غلام دیں گے تو یہ سو غلام اگر خود انہی کی جماعت میں سے ہوں یا ان کی اولاد ہوں تو ان کا لینا درست نہ ہوگا۔ کیونکہ صلح کا اطلاق ان کی پوری جماعت پر ہوا ہے اور وہ سب مستامن ہیں اور مستامن کو غلام بنانا جائز نہیں۔

ولو دخل منہم دار حرب اخری فظھر المسلمون علیھم لم یتغرضوا لہ لانہ فی امان المسلمین (ایضا ص 89

اگر ان میں سے کوئی شخص کسی دوسرے سے دار الحرب میں مقیم ہو اور اسلامی فوجیں اس ملک میں داخل ہوں تو اس سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا کیوں کہ وہ مسلمانوں کی امان میں ہے۔

و ان کان الذین سبوھم قوم من المسلمین غدروا باھل الموادعۃ لم یسع للمسلمین ان یشتروا من ذالک السبی وان اشتروا ردت البیع لانھم کانوا فی امان المسلمین (ایضًا ص 97

اگر مسلمانوں نے کوئی جماعت ان کے ساتھ غدر کرکے ان سب آدمیوں کو غلام بنا لے تو مسلمانوں کے لیے ان غلاموں کا خریدنا جائز نہ ہوگا اور اگر انہوں نے خرید لیا تو اس بیع کو رد کردیا جائے گا۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کی امان میں تھے۔
اس قسم کے کفار اگرچہ نظری حیثیت سے اہل حرب ضرور رہتے ہیں۔

لانھم بھذہ الموادعۃ لایلتزمون احکام الاسلام ولا یخرجون من ان یکوانوا اھل حرب” (المبسوط ج1 ص 88)۔

لیکن ان کے اموال مباح نہیں اور ان کے ساتھ عقود فاسدہ پر کوئی معاملہ نہیں کیا جا سکتا’ خواہ وہ سود خوار ہی کیوں نہ ہوں۔ بلکہ اگر وہ اپنے دار میں بھی نہ ہوں’

_____________________________

کیونکہ اس صلح و معاہدہ سے وہ احکام اسلام کی پیروی کے پابند تو ہو نہیں جاتے۔ اس لیے وہ اہل حرب ہونے سے خارج نہیں ہوتے۔

کسی ایسے دار میں ہوں جہاں بالفعل جنگ ہو رہی ہو تب بھی مسلمانوں کے لیے ان سے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہ ہوگا۔

معاہدین

:وہ کفار جن سے دار الاسلام کا معاہدہ ہو۔ ان کے متعلق قرآن کی تصریحات حسب ذیل ہیں

الا الذین عاھدتم من المشرکین لم ینقصوکم شیئا ولم یظاھروا علیکم احدا فاتموا الیھم عہدھم الی مدتھم۔ (التوبہ: 4

‘‘مگر وہ مشرکین جن سے تم نے معاہدہ کرلیا اور انہوں نے تمہارے ساتھ وفائے عہد میں کمی بھی نہ کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کو مدد دی’ تو ان کے ساتھ تم معاہدہ کی مدت مقررہ تک عہد پورا کرو۔ ’’

فما استقاموا لکم فاستقیموا لھم (التوبہ:1

پھر جب تک وہ عہد پر قائم رہیں تم بھی قائم رہو۔

وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ (الانفال:٧٢

اور جو مسلمان دار الکفر میں رہتے ہوں وہ اگر دین کے حق کی بنا پر تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرو مگر کسی ایسی قوم کے خلاف ان کی مدد نہ کرو جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔

وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ (النساء:٩٢

اور اگر مقتول کسی ایسی قوم سے ہو جس کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو دیت دی جائے گی۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ معاہدکفار اگرچہ نظری حیثیت سے حربی ہیں اور ان کے ملک پر دار الحرب کا اطلاق ہوسکتا ہے’ مگر جب تک اسلامی حکومت نے ان سے معاہدانہ تعلقات قائم رکھے ہیں’ وہ مباح الدم والاموال نہیں ہیں اور ان کی جان و مال سے تعرض کرنا شرعاً ممنوع ہے ۔ اگر کوئی مسلمان ان کا خون بہائے گا تو دیت لازم آئے گی’ اور اگر ان کے مال سے تعرض کرے گا تو ضمان دینا ہوگا۔ پس جب ان کے اموال مباح ہی نہیں ہیں تو ان کے ساتھ عقود فاسدہ پر معاملہ کیسے کیا جا سکتا ہے’ کیونکہ اس کا جواز تو اباحت ہی کی اصل پر مبنی ہے۔

اہل غدر

:وہ کفار جو معاہدہ کے باوجود معاندانہ رویہ اختیار کریں۔ ان کے متعلق قرآن کا حکم یہ ہے کہ

وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ (الانفال:٥٨

اور اگر تمہیں کسی قوم سے بد عہدی کا اندیشہ ہو تو برابری کو ملحوظ رکھ کر ان کا معاہد ان کی طرف پھینک دو۔
شمس الائمہ سرخسی اس صورت مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

ولکن ینبغی ان ینبذ الیھم علی سواء ای علی سواء منکم و منھم فی العلم بذالک فعرفنا انہ لا یحل قتالہم قبل النبذ و قبل ان یعلموا بذالک۔ (المبسوط۔ ج1۔ ص 87

(ایسی صورت میں معاہدہ کو توڑدینا جائز ہے) مگر لازم ہے کہ نقصِ معاہدہ برابری کے ساتھ ہو’ یعنی تمہاری طرح ان کو بھی معلوم ہوجائے کہ تم نے معاہدہ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس حکم سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ اعلان و اطلاع سے پہلے ان کے ساتھ جنگ کرنا حلال نہیں ہے۔
یہ آیت اور اس کی مذکورہ بالا قانونی تعبیر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ معاہدہ قوم اگر بد عہدی بھی کرے تب بھی اعلان جنگ سے پہلے اس کے نفوس و اموال مباح نہیں ہیں۔

غیر معاہدین

وہ کفار جن سے معاہدہ نہ ہو۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس کو ہمیشہ بین الاقوامی تعلقات میں جنگ کا پیش خیمہ سمجھا جا تا ہے۔سیاسی تعلقات کا انقطاع
در اصل یہ معنی رکھتا ہے کہ دونوں قومیں اب باہمی (Ruture of Diplomatic Relations)

_____________________________

یعنی علی الاعلان معاہدہ ختم ہونے کی اطلاع انہیں دے دو تاکہ اس علم میں تم اور وہ برابر ہوجائیں کہ معاہدہ اب باقی نہیں ہے۔
اس حکم سے صرف وہ حالت مستثنی ہے جب کہ کسی معاہد قوم نے علانیہ اپنا معاہدہ توڑ دیا ہو اور صریح طور پر ہمارے حقوق پر کوئی دست درازی یا ہمارے خلاف کوئی محاربانہ کاروائی کی ہو۔ ایسی حالت میں ہم کو حق پہنچتا ہے کہ ہم بھی اس کے خلاف بلا اطلاع جنگی کاروائی کریں۔ فقہائے اسلام نے اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل سے استشہاد کیا ہے کہ قریش نے جب بنی خزاعہ کے معاملہ میں صلح حدیبیہ کو علانیہ توڑ دیا تو آپ نے پر انہیں فسخ معاہدہ کا نوٹس دینے کی کوئی ضرورت نہ سمجھی بلکہ بلا اطلاع مکہ پر چڑھائی کردی۔ لیکن اس اجازت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان تمام حالات کو سامنے رکھیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبذ عہد کو ضروری نہ سمجھا’ اور اس پورے طرز عمل کی پیروی کریں جو ایسی حالت میں آپ نے اختیار کیا۔
اولاً: قریش کی خلاف ورزی عہد ایسی صریح تھی جس کے نقص عہد ہونے میں کسی قسم کا التباس نہ تھا۔ خود قریش کے لوگ بھی اس کے معترف تھے کہ فی الواقع ان سے بد عہدی کا فعل سرزد ہوا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ابوسفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا’ جس کے صاف معنی یہ تھے کہ ان کے نزدیک بھی عہد باقی نہیں رہا تھا۔ تاہم یہ بات ضروری نہیں ہے کہ خود ناقضِ عہد قوم کی طرف سے بھی نقض عہد کا اعتراف ہو’ البتہ یہ ضروری ہے کہ اس کا نقض عہد بالکل غیر مشتبہ ہو۔
ثانیاً: نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف سے عہد ٹوٹ جانے کے بعد پھر اپنی طرف سے عہدٹوٹ جانے کے بعد پھر اپنی طرف سے صراحۃً یا اشارۃ یا کنایۃً کوئی ایسا فعل نہیں کیا جس سے یہ ایماء نکلتا ہو کہ اسی بد عہدی کے باوجود آپ ابھی تک قریش کو ایک معاہد قوم سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ آپ کے معاہدانہ روابط اب بھی قائم ہیں۔ تمام روایات بالاتفاق یہ بتاتی ہیں کہ جب ابو سفیان نے مدینہ آ کر تجدید معاہدہ کی درخواست پیش کی تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔
ثالثاً: قریش کے خلاف جنگی کاروائی آپ نے خود کی اور کھلم کھلا کی۔ کسی ایسی فریب کاری کا شائبہ تک آپ کے طرز عمل میں نہیں پایا جاتا کہ آپ نے بظاہر صلح و بباطن جنگ کا کوئی طریقہ استعمال کیا ہو۔ یہ اس معاملہ میں حضور کا اسوہ حسنہ ہے۔ لہذا قرآن مجید کے حکم فانبذ الیھم علی سواء سے ہٹ کر اگر کوئی کاروائی کی جا سکتی ہے تو صرف ان حالات میں اور اس طرح کی جا سکتی ہے۔ جن میں اور جس طرح حضور نے ایسی کاروائی کی

احترام کی قیود سے آزاد ہیں۔ ایسی حالت میں اگر ایک قوم دوسری قوم کے آدمیوں کو قتل کردے یا لوٹ لے تو کوئی دیت یا ضمان واجب نہ ہوگا۔ اس معنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں قوموں کے لیے ایک دوسرے کے نفوس و اموال مباح ہیں۔ مگر کوئی مہذب حکومت باقاعدہ اعلان جنگ کیے بغیر کسی انسانی جماعت کا خون بہانا یا مال لوٹنا پسند نہیں کرسکتی۔ اسلامی قانون اس باب میں یہ ہے:۔

ولوقاتلوھم بغیر دعوۃ کانوا آثمین فی ذلک ولکنہم لایضمنون شیئا مما اتلفوا من الدماء والاموال عندنا۔ (المبسوط: ج1 ص 30

اگر مسلمانوں نے دعوت کے بغیر ان سے جنگ کی تو گناہ گار ہوں گے۔ لیکن ایسی جنگ میں ان کی جان و مال کا جو اتلاف وہ کریں گے اس میں کسی چیز کا ضمان حنفیہ کے نزدیک مسلمانوں پر لازم نہ آئے گا۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ ضمان لازم آئے گا کیوں کہ جب تک وہ دعوت کو رد نہ کریں ان کی جان و مال کی حرمت و عصمت باقی ہے۔
مگر حنفیہ کہتے ہیں:۔

ولکنا نقول العصمۃ المقومۃ تکون بالاحراز وذالک لم یوجد فی حقہم ۔۔۔و لکن شرط الباحۃ تقدیم الدعوۃ فبدونہ لا یثبت و مجرد حرمۃ القتل لا یکفی بوجوب الضمان۔ (ایضاً۔ ص 30۔31)۔

جس عصمت کی بنا پر جان و مال کی قیمت قائم ہوتی ہے تو وہ دار الاسلام کی حفاظت ہونے پر موقوف ہے اور یہ چیز ان کے حق میں موجود نہیں ہے۔۔۔ یہ ضرور ہے کہ اباحت کے لیے تقدیم دعوت شرط ہے’ اس کے بغیر اباحت ثابت نہیں ہوتی’ لیکن محض حرمت قتل’ وجوب ضمان کے لیے کافی نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ حربی کفار جو ذمی نہیں ہیں’ جن سے کوئی معاہدہ نہیں ہے’ جن کا دار ہمارے دار سے مختلف ہے’ جن کی عصمت ہمارا قانون تسلیم نہیں کرتا’ ان کے نفوس و اموال بھی ہم پر اس وقت تک حلال نہیں ہیں جب تک کہ اتمام حجت نہ ہو اور ہمارے اور ان کے درمیان باقاعدہ اعلانِ جنگ نہ ہوجائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو ہدایات دی تھیں وہ قابل غور ہیں:۔

لاتقتلوھم حتی تدعوھم فان ابوا فلا تقتلوھم حتی یبدؤو فان بدؤو فلا تقاتلوھم حتی یقتلوا منکم قتیلا ثم اردھم ذالک القتیل وقولوا لہم ھل الی خیر من ھذا سبیل فلان یھدی اللہ تعالی علی یدیک خیر لک مما طلعت علیہ الشمس و غربت۔

‘‘ان سے جنگ نہ کرنا جب تک کہ ان کو دعوت نہ دے لو۔ پھر اگر وہ انکار کریں تب بھی جنگ نہ کرنا جب تک وہ ابتدا نہ کریں۔پھر اگر وہ ابتدا کریں تب بھی جنگ

_____________________________

دعوت سے مراد یہ ہے کہ ان کو الٹی میٹم دیا جائے کہ یا تو ہم سے صلح و معاہدہ کرو یا جزیہ دو یا مسلمان ہو کر ہماری قومیت میں شامل ہو۔اگر ان تینوں صورتوں میں سے کوئی صورت تم قبول نہیں کرتے تو ہمارے اور تمہارے درمیان جنگ کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے۔

نہ کرنا جب تک کہ وہ تم میں سے کسی کو قتل نہ کردیں۔ پھر اس مقتول کو دکھا کر ان سے کہنا کہ کیا اس سے زیادہ بہتر کسی بات کے لیے تم آمادہ نہیں ہوسکتے؟ اے معاذ اس قدر صبر و تحمل کی تعلیم اس لیے ہے کہ اگر اللہ تیرے ہاتھ پر لوگوں کو ہدایت بخش دے تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تیرے قبضہ میں مشرق سے مغرب تک کا سارا ملک و مال آجائے۔’’

محاربین

اب صرف وہ کفار باقی رہ جاتے ہیں جن سے مسلمانوں کی بالفعل جنگ ہو۔ اصلی حربی یہی ہیں۔ انہی کے دار کو تعلقات خارجیہ کے قانون میں “دار الحرب” کہا (Enemy Character)جاتا ہے۔ انہی کے نفوس اور اموال مباح ہیں اور انہی کو قتل کرنا’ گرفتار کرنا’ لوٹنا اور مارنا شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔ لیکن حربیت
تمام محاربین میں یکساں نہیں ہے اور نہ تمام اموال حربیہ ایک ہی حکم میں ہیں۔ حربی کافروں کی عورتیں’ ان کے بچے’ ان کے بیمار’ ان کے بوڑھے اور اپاہج (Comatants) وغیرہ بھی اگرچہ حربی ہیں’ مگر شریعت نے ان کو مباح الدم نہیں ٹھہرایا ہے بلکہ اباحت قتل کو صرف مقاتلین
تک محدود رکھا ہے۔ “انما یقتل من یقاتل” قال اللہ تعالیٰ وقاتلوھم و المفاعلۃ تکون من الجانبین (المبسوط ج۔1۔ ص 64)۔ اسی طرح اموال حربیہ میں بھی شریعت نے فرقِ مدارج کیا ہے اور ہر درجہ کے احکام الگ ہیں۔

اموال حربیہ کے مدارج اور احکام

(Contisable) اگرچہ اصولی حیثیت سے تمام وہ اموال و املاک جو دشمن کے علاقہ میں ہوں’ مباح
ہیں’ لیکن شریعت اسلامی نے ان کو دو اقسام پر منقسم کیا ہے’ ایک غنیمت دوسرے فے۔

غنیمت

(Movable Properties) وہ اموال منقولہ
جن پر رقبۂ جنگ میں اسلامی فوج اپنے اسلحہ کی طاقت سے قابض ہو’ اموال غنیمت ہیں۔ ان کا 5/1حصہ (یعنی خمس) حکومت کا حق ہے اور5/4 ان لوگوں کا حق جنہوں نے انکو لوٹاہو۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کتاب الخراج میں غنیمت کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:۔

فھذا فیما یصیب المسلمون من عساکر اھل الشرک وما اجلبوا بہ من المتاع والسلاح والکراع (ص ۔ 10

خمس ان اموال میں ہے جو مسلمانوں کو اہل شرک کے لشکروں سے ہاتھ لگیں اور جو سازوسامان اور جانوروں کی قسم سے ہوں (یعنی اموال منقولہ)۔
دوسری جگہ پھر فرماتے ہیں:۔

_____________________________

قتل صرف وہ کیا جائے گا جو ہم سے مقاتلہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وقاتلوھم (مقاتلہ کرو) فرمایا ہے’ اور مقاتلہ جانبین سے ہوتا ہے نہ کہ صرف ایک جانب سے۔

فما اصاب المسلمون من عساکر اھل الشرک و ما اجلبوا بہ من المتاع والکراع والسلاح وغیر ذالک

(War like Operations) اس سے ظاہر ہوا کہ غنیمت کا اطلاق صرف ان اموال منقولہ پر ہوتا ہے جو جنگی کاروائی
کے دوران میں غنیم کے لشکروں سے ہاتھ آئیں ۔۔۔۔لشکروں کے حدود سے باہر عام آبادیوں کو لوٹتے مارتے پھرنا شریعت کی نگاہ میں درست نہیں۔ اگرچہ دار الحرب کے تمام اموال مباح ہیں اور اگر کوئی شخص غیر مقاتلین کے اموال سے تعرض کرے تو اس پر نہ کوئی ضمان لازم ہوگا’ نہ لوٹے ہوئے اموال واپس کیے جائیں گے’ لیکن اس قسم کی لوٹ مار پسندیدہ نہیں ہے۔ امام مسلمین ہر ممکن طریقہ سے اپنی فوجوں کو ایسی حرکات سے روکے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:۔

من غزا فخرا و ریاء وسمعۃ و عصی الامام وافسد فی الارض فانہ لم یرجع بالکفاف
(ابو داود باب فی من یغزوویلتمس الدنیا)

فے

دوسری قسم ان اموال منقولہ و غیر منقولہ کی ہے جو غنیم کے لشکر سے لڑ کر حاصل نہ کیے گئے ہون۔ بلکہ نتیجہ فتح کے طور پر حکومت کے زیر تصرف آئیں’ عام اس سے کہ وہ غنیم کی رعایا کے املاک ہوں یا دشمن سلطنت کے ہوں۔ اسلامی اصطلاح میں ایسے اموال کو “فے” کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ غنیمت سے بالکل مختلف چیز ہے “وغنیمۃ العسکر مخالفۃ لما افاء اللہ من اھل القری والحکم فی ھذا غیر الحکم فی تلک الغنائم ” (کتاب الخراج ص 38) اس کے متعلق سورہ حشر میں تشریح کردی گئی ہے کہ یہ کسی شخص کی ملکیت میں نہ دی جائے گی بلکہ اس کا تعلق بیت المال سے ہوگا اور اسے مصالح عامہ میں خرچ کیا جائے گا۔ “وما افاء اللہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب (الی آخر الایۃ)”۔

لفظ “فے” کا کوئی اور مفہوم اس کے سوا نہیں ہے اور کتب فقہیہ میں ہم کو کہیں بھی کسی ایسے فے کا نشان نہیں ملا جس کو ہر شخص بطور خود حاصل کرے اور اپنی ہی جیب میں رکھ لے۔ جگہ جگہ فیءٌ للمسلمین’ فیءٌ یوضع فی بیت مالم المسلمین فیءٌ لجماعۃ المسلمین اور ایسے ہی دوسرے الفاظ ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ متقدمین

_____________________________

جس شخص نے فخر کی نیت سے’ اور دنیا کو اپنی قوت و شجاعت دکھانے کے لیے اور ناموری حاصل کرنے کے لیے جنگ کی اور امام کی نافرمانی کی’ اور زمین میں فساد برپا کیا’ اسے اجر ملنا تو درکنار وہ تو برابر بھی نہ چھوٹے گا۔
اگر ایسے لوگ جن کو امام کی حمایت حاصل نہ ہو امام کی اجازت کے بغیر’ غنیم کے علاقہ میں غیر ذمہ دارانہ طور پر داخل ہوں اور مال لوٹیں تو ہمارے نزدیک اس مال میں سے خمس نہ لیا جائے گا’ بلکہ وہ مال انہی لوگوں کے لیے مخصوص ہوگا۔

صرف اس فے سے واقف تھے جو جماعت کی ملک ہوتی ہے اور حکومت اسلامی کے زیر تصرف ہوا کرتی ہے۔

غنیمت اور لوٹ میں امتیاز

غنائم حاصل کرنے کا شرعی حق صرف انہی لوگوں کو دیا گیا ہے جو اسلامی سلطنت کے زیرِ حفاظت ہوں اور جن کو امام مسلمین کی اجازت نصاً یا حکماً ہو۔ ان کے سوا اگر عام مسلمان فرداً فرداً یا جماعت بنا کر بطور خود لوٹ مار کرنے لگیں تو ان کی حیثیت لٹیروں کی ہوگی۔ ان کی غنیمت “غنیمت” نہ ہوگی’لوٹ ہوگی۔ اس لیے اس میں سے اللہ کا حصہ (یعنی خمس) قبول نہ کیا جائے گا۔ البتہ وہ انہی کے پاس رہنے دیا جائے گا۔ کیوں کہ دشمن کو واپس دلانا تو بہرحال ممکن نہیں ہے۔ فان کان دخول القوم الذین لا منعۃ لھم بغیر اذن الامام علی سبیل التلصص فلا خمس فیما اصابوا عندنا ولکن من اصاب منھم شیئا فھو لہ خاصۃ (المبسوط ج 1 ص 74)۔ اس کی وجہ جو کچھ علامہ سرخسی نے لکھی ہے وہ بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔

و المعنی ما بینا ان الغنیمۃ اسم لمال مصاب باشرف الجھات وھو ان یکون فیہ اعلاء کلمۃ اللہ تعالیٰ واعزاز الدین ولھذا جعل الخمس منہ للہ تعالی وھذا المعنی لا یحصل فیما یاخذہ الواحد علی سبیل التلصص فیتمحض فعلہ اکتسابا للمال (ایضا۔ 74

بات در اصل یہ ہے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ غنیمت اس مال کا نام ہے جو انتہا درجہ کے پاک اور اشرف طریقہ سے ہاتھ آئے اور وہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کے کلمہ کا اعلاء اور اس کے دین کا اعزاز ہو۔ اسی لیے اس میں اللہ کا پانچواں حصہ مقرر کیا گیا۔ یہ بات اس مال میں نہیں ہوتی جس کو ایک شخص چوروں کی طرح حاصل کرتا ہے کیونکہ اس کا مقصد تو محض اکتساب مال ہے۔

اس کی نظیر میں امام سرخسی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں ذکر ہے کہ مشرکین ایک مسلمان لڑکے کو پکڑ لے گئے تھے۔ کچھ مدت بعد وہ لڑکا ان کے قبضہ سے بھاگ نکلا اور ان کی کچھ بکریاں بھی پکڑ لایا۔ حضورﷺ نے یہ بکریاں اسی کے پاس رہنے دیں اور ان میں سے خمس لینا قبول نہ کیا۔ مغیر ہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی اسی کی تائید میں ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کا مال لوٹ کر مدینہ حاضر ہوئے اور اسلام پر ایمان لائے جب انہوں نے لوٹ کا مال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا اسلام مقبول ہے مگر یہ مال مقبول نہیں۔

دار الحرب میں کفار کے حقوقِ ملکیت

غنیمت پر تیسری قید یہ لگائی گئی ہے کہ غانمین جب تک دار الحرب میں مقیم ہیں اس وقت تک وہ اموال غنیمت سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ اس قید سے صرف سامان خوردونوش اور جانوروں کا چارہ مستثنی ہے۔ یعنی دوران جنگ میں جس قدر آذوقہ اور چارہ فوجوں کے ہاتھ لگے گا اس میں سے ہر مجاہدہ بقدر حاجت لے سکتا ہے۔ اس کے سوا باقی تمام اموال غنیمت سردار لشکر کے پاس جمع کردیے جائیں گے اور ان کو غانمین میں اس وقت تک تقسیم نہ کیا جائے گا جب تک کہ وہ دار الاسلام کی طرف منتقل نہ کردیے جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک اموال غنیمت جب تک دار الحرب میں ہوں غانمین کی ملک ان پر مکمل نہیں ہوتی۔ امام شافعی کی رائے اس کے خلاف ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ محاربین کا مال مباح ہے اس لیے جس وقت مجاہدین اسلام ان پر قابض ہوئے اسی وقت ان کے مالک بھی ہوگئے۔ مگر امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب فرماتے ہیں کہ یہ ملک ضعیف ہے۔ گو ہمارا قبضہ ہوچکا ہے لیکن دار تو ان کا ہے۔ جب تک مال ان کے دار سے (Occupation) ہمارے دار میں نہ چلا جائے ہم پوری طرح اس کے مالک نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ تکمیل ملک کے لیے محض استیلاء
کافی نہیں ہے۔ امام سرخسی اس مسئلہ میں حنفیہ کے مسلک کی توضیح اس طرح کرتے ہیں:۔

فاما عندنا الحق یثبت بنفس الاخذ و یتاکد بالاحراز و یتمکن بالقسمۃ کحق الشفیع یثبت بالبیع و یتاکد بالطلب و یتم الملک بالاخذ و ما دام الحق ضعیفا لا تجوز القسمۃ ۔۔۔ بالاخذ یملک الاراضی کما یملک الاموال ثم لا یتاکد الحق فی الارض التی نزلوا فیھا اذا لم یصیروھا دار الاسلام۔(المبسوط۔ج1۔ ص 33

ہمارے نزدیک نفس قبضہ سے حق صرف ثابت ہوتا ہے’ دار الاسلام میں لے جانے سے مضبوط ہوجاتا ہے۔ اور تقسیم غنیمت سے مکمل ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال شفعہ کی سی ہے کہ شفیع کا حق بیع سے ثابت ہوتا ہے’ طلب سے موکد ہوتا ہے اور قبضہ کے ساتھ مکمل ہوتا ہے۔ پس جب تک حق ضعیف رہے تقسیم جائز نہیں ہوتی۔ جس طرح اموال (جائداد منقولہ) پر نفس قبضہ سے ملک ثابت ہوتی ہے اسی طرح اراضی (جائداد غیر منقولہ ) پر بھی قبضہ سے ملک ثابت ہوجاتی ہے’ مگر جس سرزمین میں مسلمانوں کے لشکر اترے ہوں اس پر حق اس وقت تک پوری طرح قائم نہیں ہوتا جب تک کہ اس کو دار الاسلام نہ بنا دیا جائے۔

اس تصریح سے معلوم ہوا کہ نہ صرف غنیمت’ بلکہ فے میں بھی اسلامی حکومت اس وقت تک تصرف کا پورا حق نہیں رکھتی جب تک کہ علاقہ مقبوضہ (Occupied Territyory)
(Annexation) کو دار الاسلام نہ بنا دیا جائے’ یا باصطلاح جدید اپنے مقبوضات کے ساتھ اس کے الحاق
کا باقاعدہ اعلان نہ کردیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اسی مسلک کی تائید کرتا ہے چنانچہ مکحول کا بیان ہے کہ ما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الغنائم الا فی دار الاسلام (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی غنائم کو دار الاسلام کے سوا کہیں تقسیم نہیں فرمایا) محمد بن اسحاق اور قلبی کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے غنائم واپسی پرجعرانہ میں تقسیم فرمائے تھے جو اس زمانہ میں دار الاسلام کی سرحد پر تھا۔ راستہ میں اعراب نے تقسیم کا سخت مطالبہ کیا اور حضورﷺ کو اس قدر پریشان کیا کہ آپ کی چادر پھٹ گئی۔ مگر اس ہنگامہ کے باوجود آپ نے دار الاسلام کے حدود میں پہنچنے سے پہلے مال غنیمت کا ایک جبہ تقسیم نہ فرمایا۔

رسول خدا کے اس طرز عمل اور فقہاء کی ان توجیہات پر غور کیجیے۔ اس کا سبب بجز اس کے اور کچھ نہ معلوم ہوگا کہ اسلامی قانون جس طرح اسلامی مقبوضات پر اہل اسلام کے حقوق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔ اس طرح غیر اسلامی مقبوضات پر اہل حرب تک کے حقوق ِ مالکانہ کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ اگرچہ جنگ ان کے اموال کو ہمارے لیے مباح کردیتی ہے۔ مگر شریعت نے ہم کو اس اباحت سے فائدہ اٹھانے کی عام اور غیر مشروط اجازت نہیں دے دی ہے’ بلکہ ان کی ملک سے ہماری ملک میں اموال کے منتقل ہونے کی چند باضابطہ قانونی شکلیں مقرر کی ہیں اور وہ ایسی شکلیں ہیں جن میں ہمارے اور اہل کفر کے درمیان پوری مساوات ہے۔ حنفی قانون کہتا ہے کہ ہم ان کے اموال کے مالک اس وقت ہوں گے جب باقاعدہ جنگ میں ان پر قبضہ کرکے انہیں اپنے “دار” میں لے آئیں۔ اسی طرح وہ بھی جب ہمارے اموال پر جنگ کے ذریعہ سے قابض ہوکر اپنے دار میں انہیں لے جائیں گے تو ان کے مالک ہوجائیں گے’ اور ان کے دار میں ان کے حقوق مالکانہ کا احترام کرنا ہم پر لازم ہوگا۔ اس بارے میں فقہاء کی مزید تصریحات قابل غور ہیں۔

نفس الاخذ سبب لملک المال اذا تم بالاحراز و بیننا و بینہم مساوات فی اسباب اصابۃ الدنیا بل حظھم اوفر من حظنا لان الدنیا لھم ولانہ لا مقصود لھم فی ھذہ الاخذ سوی اکتساب المال و نحن لا نقصد بالاخذ اکتساب المال (المبسسط ج 1 ص 53

جب مال پر قبضہ کرکے اس کو دار میں پہنچا دیا گیا ہو تو یہ اس مال پر حق ملکیت کا پورا سبب ہے اور دنیا حاصل کرنے کے اسباب میں ہمارے اور کفار کے درمیان کامل مساوات ہے۔ بلکہ دنیا میں ان کا حصہ ہمارے حصہ سے کچھ زیادہ ہی ہے کیونکہ ان کے لیے تو دنیا ہی ہے اور اخذ مال سے ان کا مقصد بجز اکتساب مال کے اور کچھ نہیں بخلاف اس کے ہمارا مقصد اکتسابِ مال نہیں ہے۔
و اذا دخل المسلم دار الحرب بامان ولہ فی ایدیھم جاریۃ ما سورۃ کرھت لہ غصبھا و وطیھا لانھم ملکوھا علیہ والتحقت بسائر املاکھم (ایضاً ص 65

اگر کوئی مسلمان دار الحرب میں امان لے کر داخل ہو اور وہاں خود اسی کی لونڈی اس کے ہاتھ آئے جسے کفار پکڑ کر لے گئے تھے تو اس کے لیے اس لونڈی پر قبضہ کرنا اور اس سے وطی کرنا جائز نہیں کیونکہ اب کفار اس کے مالک ہیں اور وہ لونڈی ان کے مالک میں داخل ہوچکی ہے۔

ولو خرج الینا بامان و معہ ذالک المال فانہ لا یتعرض لہ فیہ۔ (ایضا ص 63

اور اگر کافر حربی ہمارے دار میں امان لے کر آئے اور اس کے ساتھ خود ہم ہی سے لوٹا ہوا مال ہو تو ہم اس سے وہ مال نہیں چھین سکتے۔

فان غلب العدو علی مال المسلمین فاحرزوہ وھناک مسلم تاجر مستامن حل لہ ان یشتریہ منھم فیاکل الطعام من ذلک ویطاء الجاریۃ لانھم ملکوھا بالاحراز فالتحقت بسائر املاکھم وھذا بخلاف ما لو دخل الیھم تاجر بامان فسرق منہم جاریۃ واخرجھا لم یحل للمسلم ان یشتریھا منہ لانہ احرزھا علی سبیل الغدر وھو مامور بردھا علیہم فیما بینہ و بین ربہ وان کان لا یجبرہ الامام علی ذالک۔ (ایضاً ص 61

اگر دشمن مسلمانوں کے مال پر قابض ہوکر اسے اپنے دار میں لے جائے اور وہاں کوئی مسلمان تاجر مستامن ہو تو اس کے لیے اس مال کو خریدنا اور کھانا حلال ہے اور وہ ان سے خریدی ہوئی لونڈی سے وطی بھی کرسکتا ہے کیونکہ اپنے دار میں لے جانے کے بعد وہ اس کے مالک ہوگئے اور اب وہ ان کے املاک میں شامل ہے۔ بخلاف اس کے اگر کوئی تاجر امان لے کر دار الحرب میں جائے اور ان کے قبضہ سے کسی لونڈی کو چرا کر دار الاسلام میں لے آئے تو مسلمان کے لیے اس لونڈی کو خریدنا حلال نہیں کیونکہ وہ غدر کرکے اسے لایا ہے۔ اور فیما بینہ وبین اللہ وہ اسے واپس کرنے پر مامور ہے۔ اگرچہ امام اس کو واپس کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا۔

یہ مسلک ٹھیک ٹھیک حدیث کے مطابق ہے۔ فتح مکہ کے روز جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اپنے اس مکان میں کیوں نہیں قیام فرماتے جو ہجرت سے پہلے آپ کا تھا تو حضور نے جواب دیا کہ ھل ترک لنا عقیل من ربع۔ عقیل نے ہمارے لیے چھوڑا ہی کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب آپ اسے چھوڑ کر نکل گئے تھے اور عقیل بن ابی طالب نے اس پر قبضہ کرلیا تھا’ تو اس پر سے آپ کی ملک ساقط اور عقیل کی ملکیت ثابت ہوگئی۔ اب باوجود اس کے کہ آپ نے مکہ فتح کرلیا تھا’ آپ نے اپنے سابق حقوق ملکیت کی بنا پر اس مکان کو اپنا مکان قرار دینے سے خود انکار فرما دیا۔

مباحث گزشتہ کا خلاصہ

یہ تمام قانونی تصریحات آپ کے سامنے ہیں ان پر غور کرنے سے حسب ذیل مسائل مستنبط ہوتے ہیں:۔

(Foregn territory) در الحرب اگر مطلقاً دار الکفر
کے معنی میں لیا جائے تو اس کے اموال مباح نہیں بلکہ صرف غیر معصوم ہیں اور عدم عصمت کا حاصل صرف اس قدر ہے کہ اسلامی حکومت اس دار میں کسی جان یا مال کے تحفظ کی ذمہ دار نہیں ہے۔ وہاں اگر کوئی مسلمان کسی مسلم یا غیر مسلم کو جان و مال کا نقصان پہنچائے گا یا اس کی ملک سے کوئی چیز حرام طریقہ سے نکال لے گا تو یہ اس کے اور خدا کے درمیان ہے۔ اسلامی حکومت اس سے کوئی مواخذہ نہیں کرے گی۔

دار الحرب سے مراد اگر ایسے کفار کا دار لیا جائے جن کے نفوس و اموال مباح ہیں تو اس معنی میں ہر دار الکفر دار الحرب نہیں ہے’ بلکہ صرف وہ علاقہ دار الحرب ہے جس سے بالفعل دار الاسلام کی جنگ ہو۔ اس خاص نوع کے دار الکفر کے سوا کسی دوسرے دار الکفر کے باشندے نہ مباح الدم ہیں اور نہ مباح المال’ اگرچہ وہ ذمی نہیں ہیں اور ان کے نفوس و اموال غیر معصوم ہیں۔

جس ملک سے مسلمانوں کی بالفعل جنگ ہو اس کے نفوس و اموال بھی مطلقاً ایسے مباح نہیں ہیں کہ ہر شخص وہاں لوٹ مار کرنے اور کفار کی املاک پر قبضہ کرنے کا مختار ہو۔ بلکہ اس کے لیے بھی کچھ شرائط اور قیود ہیں:۔
الف) امام مسلمین باقاعدہ اعلان جنگ کرکے اس ملک کو دار الحرب قرار دے’ اور
ب) وہاں جنگ کرنے والوں کو اما م کا “اذن” اور اس کی “حمایت” حاصل ہو۔

غنیمت صرف اس جائداد منقولہ کو کہتے ہیں جو دشمن کے عساکر سے لڑ کر حاصل کی جائے۔ یا بالفاظ دیگر اشرف جہات سے حاصل ہو اور جس میں دین کا اعزاز ہو اس مال میں پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے۔

فے ان اموال منقولہ و غیر منقولہ کو کہتے ہیں جو نتیجہ فتح کے طور پر حکومت اسلامی کے قبضہ میں آئیں۔ خراج اور مالِ صلح وغیرہ کا شمار بھی فے ہی میں ہے’ لیکن یہ بالکلیہ اسلامی حکومت کی ملک ہے’ اور کسی شخص خاص کو اس پر حقوقِ ملکیت حاصل نہیں ہوسکتے۔

فے اور غنیمت کے اموال پر فاتحین کو پورے حقوق ملکیت صرف اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب کہ وہ ان کو دار الحرب سے دار الاسلام منتقل کرلائیں یا دار الحرب کو دار الاسلام بنا لیں۔ اس سے پہلے ان اموال میں تصرف کرنا اور ان سے فائدہ اٹھانا مکروہ ہے۔

اسلامی قانون حربی کفار کے اموال پر ان کے حقوق ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔ اور ان کی ملک سے کوئی مال مسلمانوں کی ملک میں جائز طور پر انہی صورتوں سے منتقل ہوسکتا ہے جن کو اللہ اور رسول نے حلال کیا ہے ‘ یعنی بیع یا صلح یا جنگ۔

مسلمانوں کی حیثیات بلحاظ اختلافِ دار

ان امور کے متحقق ہوجانے کے بعد اب ایک نظر یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اسلامی قانون کے مطابق اختلاف دار کے لحاظ سے خود مسلمانوں میں کیا اختلافات واقع ہوتے ہیں۔ اس باب میں تمام قوانین کی بنیاد حسبِ ذیل آیات و احادیث پر قائم ہے۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا (الانفال:٧٢

‘‘اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر ہجرت کرکے (دار الاسلام) آ نہیں گئے’ ان سے تمہارا “ولایت” کا کوئی تعلق نہیں تا وقتیکہ وہ (دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف) ہجرت نہ کریں۔ ’’

فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّى يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ (النساء:٨٩

‘‘ان کو ولی نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔ ’’

وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلا أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ (النساء:٩٢

‘‘جو کوئی کسی مومن کو غلطی سے قتل کردے اس کو ایک مسلمان بردہ آزاد کرنا چاہیے اور اس کے وارثوں کو دیت دینی چاہیے الا یہ کہ ورثاء صدقہ کے طور پر دیت چھوڑ دیں۔ اور اگر وہ مقتول کسی ایسی قوم سے ہو جس سے تمہاری دشمنی ہو اور ہو وہ مومن تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرنا چاہیے۔ اور اگر وہ ایسی قوم سے ہو جس سے تمہارا معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو دیت دی جائے اور ایک مسلمان بردہ آزاد کیا جائے۔ ’’

قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انا بریء من کل مسلم اقام بین اظہر المشرکین و عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایضا من اقام مع المشرکین فقد برئت منہ الذمۃ او قال لا ذمۃ لہ۔

‘‘نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ہر اس مسلمان کی ذمہ داری سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔ اور حضور ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ جس نے مشرکین کے ساتھ قیام کیا اس سے بریٔ الذمہ ہوں۔ یا فرمایا اس کے لیے کوئی ذمہ نہیں۔ ’’

ابو داود کی کتاب الجہاد میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو لشکر کا سردار مقرر کرکے بھیجتے تو اس کو من جملہ دوسری ہدایات کے ایک یہ ہدایت بھی فرماتے تھے:۔

ادعھم الی الاسلام فان اجابوک فاقبل منھم و کف عنہم’ ثم ادعھم الی التحول من دارھم الی دار المھاجرین و اعلمہم انھم ان فعلوا ذالک ان لھم ما للمہاجرین و ان علیھم ما علی المہاجرین فان ابوا واختاروا دارھم فاعلمہم انھم یکونون کاعراب المسلمین یجری علیھم حکم اللہ الذی کان یجری علی المومنین ولا یکون لھم فی الفیء والغنیمۃ نصیب الا ان یجاھدو مع المسلمین۔ (باب فی دعاء المشرکین

‘‘ان کو پہلے اسلام کی طرف دعوت دینا۔ اگر وہ قبول کرلیں تو ان سے ہاتھ روک لینا۔ پھر ان سے کہنا کہ اپنے دار کو چھوڑ کر مہاجرین کے دار یعنی دار الاسلام میں آجائیں اور انہیں بتا دینا کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں۔ اور وہی واجبات ان پر عائد ہوں گے جو مہاجرین پر ہیں۔ اگر وہ انکار کریں اور اپنے ہی دار میں رہنا اختیار کریں تو انہیں آگاہ کردینا کہ ان کی حیثیت اعراب مسلمین کی سی ہوگی۔ ان پر اللہ کے وہ تمام احکام جاری

_____________________________

“میں” کا لفظ آپ نے حکومت اسلامی کے رئیس کی حیثیت سے فرمایا ہے نہ کہ رسول کی حیثیت سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایسے مسلمان کی حفاظت کی ذمہ دار نہیں ہے۔

ہوں گے جو مومنین پر جاری ہوتے ہیں مگر فے اور غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا الا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔ ’’
ان آیات و احادیث فقہاء حنفیہ نے جو احکام مستنبط کیے ہیں ان کو ہم اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں۔

دار الاسلام کے مسلمان

جو نفوس و اموال دار الاسلام کی حدود میں ہوں صرف انہی کی حفاظت حکومت اسلامی کے ذمہ ہے اور جو مسلمان دار الاسلام کی رعایا ہوں دینی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ دنیوی حیثیت سے بھی اسلام کے تمام قوانین ان پر نافذ ہوں گے اور وہی کلی طور پر احکام کے ملتزم ہوں گے۔ یہ قاعدہ اسلامی قانون کے قواعد کلیہ میں سے ہے اور اس پر بہت سے مسائل متفرع ہوتے ہیں۔

اسی قاعدہ کی بنیاد پر یہ مسئلہ ہے کہ عصمتِ نفوس و اموال و اعراض صرف انہی مسلمانوں کی عصمت محض دینی عصمت ہے’ عصمت مقومہ نہیں ہے جس کی بنا پر قضا شرعی لازم آتی ہے۔ کما قال السرخسی فی کتابہ المبسوط العصمۃ المقومۃ تکون بالاحراز (جلد 1 10 ص 30)۔ والعصمۃ بالاحراز بالدار لا بالدین (ایضا ص 53

اسی قاعدہ سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ اسلامی قانون جن افعال کو حرام قرار دیتا ہے ان سے دار الاسلام کے مسلمان دیناً و قضاءً دونوں حیثیتوں سے روکے جائیں گے’ مگر جو مسلمان دار الاسلام میں نہیں ہیں ان کا معاملہ ان کے اور خدا کے درمیان ہے’ دین کا احترام دل میں ہو تو باز رہیں اور نہ ہو تو جو چاہیں کریں’ اس لیے کہ اسلام کو ان پر نفاذِ احکام کا اقتدار حاصل نہیں ہے۔

یہی قاعدہ اس مسئلہ کا ماخذ بھی ہے کہ جو نفوس و اموال دار الاسلام کی حفاظت میں ہوں وہ سب معصوم ہیں اس لیے ان پر حق شرعی کے سوا کسی دوسرے طریقہ سے تعدی کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ اس بارے میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ تعدی کرنے سے ہر اس شخص کو روکا جائے گا جو احکام اسلام کا تابع ہوچکا ہو عام اس سے کہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم’ اور ہر اس شخص کی جان و مال کی حفاظت کی جائے جو دار الاسلام کی حفاظت میں ہو خواہ مسلمان ہو یا کافر ۔

_____________________________

ابتدائی زمانہ میں جب تمام اسلامی مقبوضات ایک ہی حکومت کے ماتحت تھے تو دار اسلام خلیفہ اسلام کے دور سلطنت کا ہم معنی تھا مگر اسلام کے دستوری دور میں قانون کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی گئی ہے وہ ایسے ہیں کہ جب دار الاسلام ٹکڑے ٹکرے ہوکر مختلف مسلم ریاستوں میں تقسیم ہوگیا تو خود بخود دولت مشترکہ (Comman wealth) کا تصور پیدا ہوگیا۔ ہر اسلامی مقبوضہ خواہ وہ دنیا کے کسی حکمران کے ماتحت ہو’ بہرحال دار الاسلام کا ایک جزو ہے۔ اور ہر مسلمان خواہ (Rights of citizenship) وہ کہیں پیدا ہوا ہو’ دار الاسلام میں داخل ہوتے ہی خود بخود اس کی رعیت بن جاتا ہے اور تمام حقوق شہریت
اس کو حاصل ہوجاتے ہیں’ بشرطیکہ اس نے کسی دار الکفر کے ساتھ رعایا ہونے کا تعلق نہ جوڑ رکھا ہو۔ موجودہ اسلامی حکومتیں خواہ اس پر عمل کریں یا نہ کریں’ لیکن اسلامی قانون کی رو سے کوئی مسلمان کسی اسلامی حکومت میں غیر ملکی نہیں ہے۔ ایک افغان کے حقوق اور واجبات ترکی اور ایران میں بھی وہی ہونے چاہئیں جو خود افغانستان میں ہیں اور ایک مسلمان کے لیے یہ ہرگز ضروری نہ ہونا چاہیے کہ اگر وہ ایک اسلامی حکومت کے حدود سے نکل کر دوسری اسلامی حکومت کے حدود میں آباد ہو تو وہاں کی رعیت بننے کے لیے کوئی مصنوعی طریقہ اختیار کرے۔ ہر مسلمان دار الاسلام کا پیدائشی شہری ہے۔

لان الدین مانع لمن یعتقدہ حقا للشرع دون من لا یعتقدہ و بقوۃ الدار یمنع عن مالہ من یعتقد حرمتہ ومن لم یعتقدہ (المبسوط’ج14 ص 58

اسی بنا پر دار الاسلام میں کوئی مسلمان مسلمان سے’ اور کوئی مسلمان ذمی سے’ اور کوئی ذمی ذمی سے اور کوئی حربی مستامن دوسرے مستامن سے سود پر یا عقود فاسدہ میں سے کسی عقد فاسدہ پر معاملہ نہیں کرسکتا’ کیوں کہ سب کے اموال سب کے لیے معصوم ہیں اور ان کو صرف انہی طریقوں سے لیا جا سکتا ہے جو اسلامی قانون میں جائز ہیں۔

فان دخل تجار اھل الحرب دار الاسلام بامان فاشتری احدھم من صاحبہ درھما بدرھمین لم اجز ذالک الا مااجیزہ بین اھل الاسلام وکذالک اھل الذمۃ اذا فعلوا ذالک لان مال کل واحد منہم معصوم متقوم (المبسوط ج 14 ص 58

اسی طرح اگر دار الکفر سے کوئی کافر دار الاسلام میں آئے یا دار الحرب سے کوئی حربی کافر امان لے کر اسلامی ملک میں داخل ہو تو اس سے بھی سود لینا یا عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہیں کیونکہ حکومت اسلامی کی امان نے اس کو معصوم الدم و مال کر دیا ہے اور حکومت اسلامی کی امان کا احترام اس کی تمام رعایا پر واجب ہے۔ البتہ اگر کوئی حربی بغیر امان لیے دار الاسلام میں آجائے تو اس کو پکڑنا’ لوٹنا’ مارنا اور اس سے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا سب کچھ امام ابوحنیفہ’ اور امام محمد کے نزدیک جائز ہے’ کیونکہ وہ مباح الدم و مال ہے لیکن امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اس سے بھی عقود فاسدہ پر معاملہ کرنے کو جائز نہیں رکھتے (اس پر تفصیلی بحث آگے آتی ہے

مستامن مسلمان دار الکفر اور دار الحرب میں

دار الاسلام کی رعایا میں سے جو شخص عارضی طور پر دار الکفر یا دار الحرب میں امان لے کر جائے اس کو اسلامی اصطلاح میں”مستامن ” کہتے ہیں۔ یہ شخص (Jurisdiction) اگرچہ اسلامی حکومت کے حدود قضا
سے باہر ہوجانے کی بناء پر ہمارے قانونِ ملکی کی گرفت سے آزاد ہوجاتا ہے۔ مگر پھر بھی اس کو ایک حد تک اسلامی حکومت کا تحفظ حاصل رہتا ہے’ اور التزام احکام اسلامی کی ذمہ داری اس پر سے بالکل ساقط نہیں ہوجاتی۔ ہدایہ میں ہے:۔

العصمۃ الثابتۃ بالاحراز بدار السلام لاتبطل بعارض الدخول بالامان (کتاب السیر باب مستامن

دار الاسلام کی حفاظت سے جو عصمت ہوتی ہے وہ عارضی طور پر امان لے کر داخل ہونے سے باطل نہیں ہوجاتی۔
اس قاعدے پر حسبِ ذیل مسائل متفرع ہوتے ہیں۔

جس دار الکفر سے دار الاسلام کا معاہدہ ہو’ وہاں مستامن مسلمان کے لیے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہ ہوگا۔ اس لیے کہ وہاں کے کفار مباح الدم و الاموال ہی نہیں ہیں’ اور جب عقود فاسدہ کے جواز کی بنا اباحت پر رکھی گئی ہے تو اباحت کے مرتفع ہونے سے وہ چیز آپ سے آپ مرتفع ہوجاتی ہے جو اس پر مبنی ہے۔

اگر کوئی مستامن مسلمان ایسے دار الکفر میں عقود فاسدہ پر معاملہ کرے یا بدعہدی یا غصب اور سرقہ سے کوئی چیز لے کر آجائے تو اسلامی حکومت اس پر نہ کوئی مقدمہ قائم کرے گی اور نہ اس پر کوئی ضمان لازم ہوگا۔ البتہ دینی حیثیت سے اس کو ان تمام افعال سے رجوع کا مشورہ دیا جائے گا جو اس نے شریعت کے خلاف کیے ہیں۔

عقود فاسدہ کو مستثنی کرکے باقی تمام معاملات میں اس مستامن کے لیے بھی حنفی فقہ کے یہی احکام ہیں جو “دار الحرب” میں امان لے کر داخل ہوا ہو۔

لو دخل الیھم تاجر بامان فسرق منھم جاریۃ واخرجھا۔۔۔ فھو مامور بردھا علیھم فیما بینہ وبین اللہ وان کان لایجبرہ الامام علی ذالک۔ (المبسوط۔ ج1ص 61

اگر کوئی تاجر دار الحرب میں امان لے کر جائے اور ان کے ہاں سے کوئی لونڈی چرالائے۔ تو فیما بینہ و بین اللہ وہ اسے واپس کرنے پر مامور ہے اگرچہ امام اس کو ایسا کرنے پر مجبور نہ کرے گا۔

و اذا دخل المسلم دار الحرب بامان فداینہم او داینوہ او غصبھم او غصبوہ لم یحکم فیما بینھم بذالک۔ وانما ضمن المستامن لھم ان لا یخونھم وانما غدر بامان نفسہ دون الامام فیفتیٰ بالرد ولا یجبر علیہ فی الحکم۔ (ایضا ص 95

اگر دار الحرب میں امان لے کر داخل ہو اور ان سے قرض لے یا وہ اس سے قرض لیں’ یا وہ ان کا مال غصب کرلے یا وہ اس کا مال غصب کرلیں تو ان کے درمیان دار الاسلام میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے گا۔ مستامن نے بطور خود ان سے خیانت نہ کرنے کا ذمہ لیا تھا’ اور اب جو اس نے غدر کیا تو یہ امام کے معاہدہ میں نہیں بلکہ خود اپنے ذاتی معاہدہ میں غدر کیا ہے اس لیے اس کو واپس کرنے کا فتوی دیا جائے گا مگر حکماً اس پر مجبور نہ کیا جائے گا۔
(امام ابو یوسف کو اس سے اختلاف ہے کیونکہ وہ مسلمان کو ہر جگہ ملتزم احکامِ اسلام قرار دیتے ہیں۔)

اگر کوئی مستامن مسلمان دار الحرب میں کسی کو قتل کردے یا اس کے مال کو نقصان پہنچائے تو دار الاسلام میں اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے گی’ البتہ اس کے دین کے لحاظ سے ایسا کرنا اس کے لیے ناجائز ہے۔

واکرہ للمسلم المستامن الیھم فی دینہ ان یغرر بھم لان الغدر حرام( ایضاً ص 96

اگر مستامن مسلمان دار الحرب سے غصب کرکے یا چرا کر کوئی مال لے آئے تو مسلمان کے لیے اس کو خریدنامکروہ ہے۔ لیکن اگر وہ خرید لے تو یہ بیع رد نہ کی جائے

_____________________________

یہ صرف ان صورتوں میں ہے جب کہ معاہدہ میں کوئی شرط اس کے متعلق نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اسلامی قانون کے تحت نفس فعل کی بنا پر اس مسلمان سے کوئی باز پرس نہ کی جائے گی۔ باز پرس اگر ہوسکتی ہے تو وہ صرف شرائط معاہدہ کے تحت ہوسکتی ہے یا پھر ان بنیادوں پر ہوسکتی ہے جن پر ہم اس سے پہلے اشارہ کرچکے ہیں۔

گی کیوں کہ قانوناً نفس بیع و شراء میں کوئی نقص نہیں ہے’ البتہ اصلاً چونکہ یہ مال غدر ہے اس لیے وہ مسلمان اپنے دین کے لحاظ سے اس کو واپس کرنے پر مامور ہے۔

والنھی عن الشراء منہ لیس لمعنی عین الشراء فلا یمنع جوازہ و ھھنا الکراھۃ لمعنی الغدر وکان مامورا بردھا علیھم دینا(ایضا ص 97)۔

مستامن مسلمان “دار الحرب” میں اہل حرب سے سود لے سکتا ہے’ جو اکھیل سکتا ہے’ خمر اور خنزیر اور مردار ان کے ہاتھ بیچ سکتا ہے اور تمام ان طریقوں سے ان کا مال لے سکتا ہے جن پر خود اہل حرب راضی ہوں۔ یہ امام ابو حنیفہ اور امام محمد کا مذہب ہے۔امام ابو یوسف اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ فریقین کے دلائل جو امام سرخسی نے نقل کیے ہیں لائق غور ہیں:۔

“مستامن کے لیے اہل حرب سے سود پر نقد یا قرض معاملہ کرنا یا خمر یا خنزیر اور مردار ان کے ہاتھ فروخت کرنا ابوحنیفہ اور محمد رحمہما اللہ کے نزدیک جائز ہے’ مگر ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک ناجائز ہے۔ امام ابو یوسف کا استدلال یہ ہے کہ مسلمان ملتزم احکام اسلام ہے خواہ کہیں ہو’ اور اس نوع کے معاملہ کی حرمت اسلام کے احکام میں سے ہے’ کیا نہیں دیکھتے کہ حربی مستامن سے ہمارے دار میں ایسا معاملہ کیا جائے تو جائز نہ ہوگا’ پس جب یہاں یہ ناجائز ہے تو دار الحرب میں بھی ناجائز ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں مقدم الذکر دونوں امام فرماتے ہیں کہ یہ تو دشمن کے مال کو اس کی مرضی سے لینا ہے’ اور اس کی اصل یہ ہے کہ ان کے اموال ہمارے لیے مباح ہیں’ مستامن نے ذمہ داری صرف اس قدر لی تھی کہ ان سے خیانت نہ کرے گا۔ مگر جب اس نے ان عقود کے ذریعہ سے اس کی رضا کے ساتھ یہ مال لیا تو غدر سے تو یوں بچ گیا’ اور حرمت سے اس طرح بچا کہ یہ مال اس نے عقد کے اعتبار سے نہیں بلکہ اباحت کی بنا پر لیا ہے۔ رہا دار الاسلام میں حربی مستامن کا معاملہ تو وہ اس سے مختلف ہے کیوں کہ اس کا مال امان کی وجہ سے معصوم ہوگیا ہے اس لیے اباحت کی بنا پر اس کو نہیں لیا جا سکتا۔’’ (المبسوط ج10 ص 65

امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ جب مسلمانوں کے لیے اہل حرب کے اموال کو لوٹنا اور چھین لینا حلال ہے تو ان کی مرضی سے لینا بدرجہ اولی حلال ہونا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ لشکر اسلام کے حدود سے باہر ان کے لیے کوئی امان نہیں ہے’ مسلمانوں کے لیے ہر ممکن طریقہ سے ان کا مال لینا جائز ہے۔ (المبسوط ج1 ص 128)
“امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ مسلمان چونکہ اہل دار الاسلام میں سے ہے اس لیے وہ حکم اسلام کی بنا پر ہر جگہ ربوٰ سے ممنوع ہے۔ اس کے فعل کی یہ توجیہہ درست نہیں کہ وہ کافر کے مال کو بطیب نفس لے رہا ہے’ بلکہ وہ اس کو در اصل اس خاص صورت معاملہ کی بنا پر لیتا ہے’ کیونکہ اگر وہ خاص صورت معاملہ (یعنی عقد فاسد) نہ ہو تو کافر اس کو کسی دوسری صورت سے اپنا مال دینے پر راضی نہ ہوگا۔ اگر دار الحرب میں ایسا کرنا جائز ہو تو مسلمانوں کے دار الاسلام میں بھی اس طرح کا معاملہ جائز ہوگا کہ ایک شخص ایک درہم کے بدلے دو درہم لے اور دوسرے درہم کو ہبہ کے نام سے موسوم کردے۔’’ المبسوط ج 14 ص 58)

ہمارا مقصود دونوں اقوال میں محاکمہ کرنا نہیں ہے۔ ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خود امام ابوحنیفہ کے مذکورہ بالا اقوال سے اور ان کے مذہب کے دوسرے مسائل سے جو ہم پہلے نقل کرچکے ہیں چار باتیں صاف طور پر ثابت ہوتی ہیں۔
اولاً یہ معاملہ صرف اس مسلمان کے لیے جائز ہے جو دار الاسلام کی رعایا ہو اور امان لے کر دار الحرب میں جائے۔
ثانیاً یہ معاملہ صرف ان حربی کافروں سے کیا جا سکتا ہے جن کے نفوس و اموال مباح ہیں۔
ثالثاً اس طریقہ سے جو مال لیا جائے گا وہ غنیمت نہ ہوگا۔ اس لیے کہ نہ تو وہ اشرف الجہات سے ہے ’ نہ اس میں دین کا اعزاز ہے’ نہ اس میں خمس ہے’ بلکہ وہ مجرد اکتساب مال ہے۔ اسی طرح وہ فے بھی نہیں ہے کیونکہ فے حکومت اسلام کی ملک ہوتی ہے اور یہ مال وہ شخص خود لیتا ہے ’ بیت المال میں داخل نہیں کرتا۔
رابعا اس طریقہ سے کفار کا مال لینا صرف جواز قانونی کے درجہ میں ہے’ بلکہ جواز کی آخری حد پر ہے’ اور اس کی قانونی حیثیت صرف اتنی ہے کہ اگر مسلمان ایسا کرے گا تو امام صاحب کی رائے میں دیناً بھی اس کو یہ مال واپس کرنے کا فتوی نہ دیا جائے گا’ بخلاف مال غدر کے کہ اگرچہ قضاء اسے واپس پر مجبور نہ کیا جائے گا مگر دیناً اس کو واپس کردینے کا حکم دیا جائے گا۔

خامساً مستامن مسلمان جس طرح دار الحرب کے کافروں سے عقود فاسدہ پر معاملہ کرسکتا ہے اسی طرح وہ وہاں کے مسلمان باشندوں سے بھی ایسا کرنے کا مجاز ہے’ کیوں کہ ان کے اموال بھی مباح ہیں۔ اس کے حوالے ہم اس سے پہلے درج کرچکے ہیں اور آگے بھی یہ بحث آ رہی ہے۔

دار الکفر اور دار الحرب کی مسلم رعایا

وہ مسلمان جو دار الکفر میں رہیں اور دار الاسلام کی طرف ہجرت نہ کریں اسلام کی حفاظت سے خارج ہیں۔ اگرچہ اسلام کے تمام احکام اور حدود حلال و حرام کی پیروی مذہباًان پر لازم ہے’ لیکن اسلام ان کی ذمہ داری سے بری ہے’ جیسا کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے۔ غنیمت اور فے میں ان کا سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں جیسا کہ بصراحت حدیث میں مذکور ہے۔ اور دنیوی حیثیت سے ان کے نفوس اموال غیر معصوم ہیں’ کیونکہ عصمت مقومہ ان کو حاصل نہیں۔

اگر ایسے مسلمان “حربی” قوم سے ہوں تو گویا مباح الدم والاموال ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے قاتل پر قصاص کیا معنی دیت بھی نہیں ہے بلکہ بعض حالات میں کفارہ تک نہیں ۔ اس باب میں فقہاء کے چند اقوال ہم بے کم و کاست نقل کردیتے ہیں جن سے دار الحرب کی مسلمان رعیت کا قانونی مقام آپ کو خود ہی معلوم ہوجائے گا۔

لا قیمۃ لدم المقیم فی دار الحرب بعد اسلامہ قبل الھجرۃ الینا۔۔۔۔ اجروہ اصحابنا مجری الحربی فی اسقاط الضمان عن متلف مالہ۔۔۔ مالہ کمال الحربی من ھذا الوجہ ولذالک اجاز ابوحنیفۃ مبایعتہ علی سبیل مایجوز مبایعۃ الحربی من بیع الدرھم بالدرھمین فی دار الحرب۔ (احکام القرآن للجصاص الحنفی ج2 ص 297

جو شخص مسلمان ہونے کے بعد ہجرت نہ کرے اور دار الحرب میں مقیم رہے اس کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔۔۔ ہمارے اصحاب نے اس کو حربی کے درجہ میں قرار دیا ہے اس حیثیت سے کہ اس کے مال کو نقصان پہنچانے والے پر کوئی ضمان نہیں۔۔۔ اس کا مال اس لحاظ سے حربی کے مال کی طرح ہے اسی لیے ابوحنیفہ نے اس کے ساتھ بھی خریدوفروخت کی وہ صورت جائز رکھی ہے جو حربی کے ساتھ جائز رکھی ہے’ یعنی دار الحرب میں ایک درہم کو دو درہم کے عوض بیچنا’ یعنی سود۔

من فی دار الحرب فی حق من ھو فی دار الاسلام کالمیت۔ (المبسوط ج1 ص 65)
جو شخص دار الحرب میں ہے وہ دار الاسلام والے کے لیے گویا مردہ ہے۔
ان تترسوا باطفال المسلمین فلا باس بالرمی الیھم و ان کان الرامی یعلم انہ یصیب المسلم۔۔۔ ولا کفارۃ علیہ ولا دیۃ۔ (ایضاص 65

اگر اہل حرب مسلمانوں کے بچوں کو ڈھال بنائیں تو ان پر نشانہ لگانے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ نشانہ لگانے والا جانتا ہو کہ مسلمان کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس پر نہ دیت ہے نہ کفارہ۔

و اذا اسلم الحربی فی دار الحرب ثم ظھر المسلمون علی تلک الدار ترک لہ ما فی یدیہ من مالہ و رقیقہ وو لدہ الصغار۔۔۔ فاما عقارہ فانھا تصیر غنیمۃ للسلمین فی قول ابی حنیفۃ و محمد وقال ابو یوسف استحسن فاجعل عقارہ لہ۔ (ایضا ص 66

اگر حربی دار الحرب میں مسلمان ہو پھر اس دار پر مسلمان فتح پائیں تو اس کا مال اور اس کے غلام اور اس کے نابالغ بچے چھوڑ دیے جائیں گے۔ مگر اس کی غیر منقولہ جائداد مسلمانوں کے لیے غنیمت قرار دی جائے گی۔ یہ ابو حنیفہ اور محمد کا قول ہے۔ ابویوسف کہتے ہیں کہ میں احسان کے طور پر غیر منقولہ جائداد بھی اس کے پاس رہنے دوں گا۔

واکرہ للرجل ان یطاء امتہ او امرتہ فی دار الحرب مخافۃ ان یکون لہ فیھا نسل لانہ ممنوع من التوطن فی دار الحرب ۔۔۔ و اذا خرج ربما یبقی لہ نسل فیتخلق ولدہ باخلاق المشرکین۔ (ایضاً ص 58

امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ میں ایک شخص کے لیے اس کو بھی مکروہ سمجھتا ہوں کہ وہ دار الحرب میں اپنی لونڈی یا بیوی سے مباشرت کرے’ خوف ہے کہ کہیں وہاں اس کی نسل نہ پیدا ہو۔ کیوں کہ مسلمانوں کےلیے دار الحرب کو وطن بنانا ممنوع ہے۔ اور اس لیے کہ اگر وہ وہاں سے نکل آیا اور اپنی نسل وہاں چھوڑ آیا تو اس کی اولاد مشرکین کے اخلاق اختیار کرے گی۔

آخری بات جو اس سلسلہ میں ڈرتے ڈرتے ہم بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ امام اعظم کی رائے میں دار الحرب کے مسلمان باشندوں کے لیے ایک دوسرے سے سود کھانا مکروہ ہے’ لیکن اگر وہ ایسا معاملہ کریں تو اس کو رد نہ کیا جائے گا۔ اس رائے سے امام محمد نے بھی اختلاف کیا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان دونوں مسلمانوں کا مال معصوم عن التملک بالاخذ ہے’ جب مسلمان اس ملک پر فتح پانے کی صورت میں ان کے مال کو غنیمت قرار نہیں دے سکتے تو ان دونوں کو ایک دوسرے کا مال غنیمت کے طور پر لینے کا کیا حق ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ نے اپنی رائے کی تائید میں جو قانونی استدلال کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف قانونی حیثیات کے پیچیدہ اور نازک فروق کو سمجھنے میں امام صاحب کا تفقہ کس قدر بڑھا ہوا تھا۔ ہم اس بیان کولفظ بلفظ نقل کرتے ہیں کیوں
:کہ اس سے اصول قانون کے ایک اہم مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے۔ فرماتے ہیں

بالاسلام قبل الاحراز تثبت العصمۃ فی حق الامام دون احکام الا تری ان احدھما لو اتلف مال صاحبہ او نفسہ لم یضمن وھو اٰثم فی ذالک وانما تثبت العصمۃ فی حق الاحکام بالاحراز والاحراز بالدار لا بالدین لان الدین مانع لمن یعتقدہ حقا للشرع دون من لا یعتقدہ ۔ وبقوۃ الدار یمنع عن مالہ من یعتقد حرمتہ و من لم یعتقدہ فبثبوت العصمۃ فی حق الاثم قلنا یکرہ لھما ھذا الصنیع و لعدم العصمۃ فی حق الحکم قلنا لا یومر ان یرد ما اخذہ لان کل واحد منھما انما یملک مال صاحبہ بالاخذ (المبسوط ج 14 ص 58

دار الاسلام کی حفاظت میں آنے سے پہلے محض اسلام سے جو عصمت ثابت ہوتی ہے وہ صرف امام کے حق میں ہے مگر احکام میں نہیں ہے۔ دیکھتے نہیں ہو اگر ان دونوں مسلمانوں میں سے ایک شخص دوسرے کا مال یا جان تلف کر دے تو اس پر ضمان نہ ہوگا حالانکہ وہ ایسا کرنے میں گناہ گار ہوگا۔ بات در اصل یہ ہے کہ احکام میں عصمت صرف حدود دار الاسلام کے اندر ہونے سے ثابت ہوتی ہے اور یہ حفاظت دار کے سبب سے ہے نہ کہ دین کے سبب سے۔ دین تو حق شرع کے لحاظ سے صرف ان لوگوں کو روکتا ہے جو اس پر اعتقاد رکھتے ہوں اور ان کو نہیں روکتا جو اسے نہ مانتے ہوں۔ بخلاف اس کے دار کی قوت سے آدمی کے مال کی حفاظت اس کے مقابلہ میں بھی کی جاتی ہے جو اس کی حرمت کا اعتقاد رکھتا ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں بھی جو ایسا اعتقاد نہیں رکھتا۔ پس گناہ ہونے کی حیثیت سے جو عصمت ثابت ہے’ اس کی بنا پر ہم نے کہا کہ ان کے لیے یہ فعل مکروہ ہے اور قانون کے لحاظ سے عدم عصمت کی بنا پر ہم نے یہ کہا کہ اس کا لیا ہوا مال واپس کرنے کا حکم نہ دیا جائے گا۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مال جب لیتا ہے تو محض لے لینے ہی کی وجہ سے اس کا مالک ہوجاتا ہے۔

_____________________________

یعنی ایک مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کی ملک محض اس بنا پر نہیں بن سکتا کہ وہ اس نے کسی نہ کسی طور پر اس سے لے لیا ہے۔

یہاں امام صاحب نے اسلامی قانون کے تینوں شعبوں کی طرف اشارات کردیے ہیں۔ اعتقادی قانون کے لحاظ سے مسلمان کا مال بلا لحاظ اس کے کہ وہ دار الاسلام میں ہو یا دار الکفر میں یا دار الحرب میں بہرحال معصوم ہے اور اس عصمت کا مآل یہ ہے کہ اس کی بنا پر خدا کے مقرر کیے ہوئے طریق کے خلاف لینے والا گناہ گار ہوگا۔ دستوری قانون کے لحاظ سے دار الاسلام میں رہنے والے کافر کے مال کو جو عصمت حاصل ہے وہ دار الکفر میں رہنے والے مسلمان کو حاصل نہیں اس لیے اگر دار الکفر کا کوئی دوسرا مسلمان اس کو حرام طریقہ سے لے لے تو خدا کے ہاں گناہ گار ہوگا مگر دنیا میں اس پر اسلامی حکم جاری نہ ہوگا۔ تعلقات خارجیہ کے قانون کی نگاہ میں کفار کے درمیان رہنے والا مسلمان اپنے تمدنی حقوق اور واجبات کے لحاظ سے انہی کافروں کا شریک حال ہے اس لیے وہ بھی اسی طرح نفس اخذ سے مال کا مالک ہوتا ہے جس طرح خود کفار مالک ہوتے ہیں۔ پس اگر اس بنیاد پر دار الکفر میں مسلمان مسلمان سے سود کھائیں یا مسلمان کافر سے اور کافر مسلمان سے سود کھائیں تو وہ ان اموال کے مالک تو ہوجائیں گے اور ان کو واپس کرنے کا حکم بھی نہ دیا جائے گا’ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سود کھانے اور کھلانے والے مسلمان گناہ گار نہ ہوں گے۔

قول ِفیصل

یہاں تک ہم نے قانون اسلامی کی جو تفصیلات درج کی ہیں ان سے جناب مولانا مناظر احسن صاحب کے استدلال کی پوری بنیاد منہدم ہوجاتی ہے۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ:۔

تمام غیر ذمی کافر مباح الدم والاموال نہیں ہیں’ بلکہ اباحت صرف ان کافروں کے خون اور مال کی ہے جو برسرِ جنگ ہوں۔ لہذا اگر سود لینا اور عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز ہے تو صرف برسرِ جنگ کافروں کے ساتھ ہے۔ اور ایسا کرنے کا حق صرف ان مسلمانوں کو پہنچتا ہے جو دار الاسلام کی رعیت ہوں’ جن کے سردار نے کسی دار الکفر کو دار الحرب قرار دیا ہو’ اور جو دار الحرب میں امان لے کر تجارت وغیرہ اغراض کے لیے داخل ہوئے ہوں۔

دار الکفر اول تو ہر حال میں دار الحرب نہیں ہوتا’ اور اگر اعتقادی کے لحاظ سے وہ دار الحرب سمجھا جائے تو اس کے مدارج مختلف ہیں اور ہر درجہ کے احکام الگ الگ ہیں۔ ایک ہی معنی میں تمام غیر اسلامی مقبوضات کو دار الحرب سمجھنا اور ان میں علی الدوام وہ احکام جاری کرنا جو خاص حالت جنگ کے لیے ہیں’ قانون اسلامی کی اسپرٹ ہی کے نہیں بلکہ صریح ہدایات کے بھی خلاف ہے اور اس کے نتائج نہایت خطرناک ہیں۔ اباحت نفوس و اموال کی بنا پر جو جزئیات متفرع ہوتے ہیں’ وہ صرف اسی زمانہ تک نافذ رہ سکتے ہیں جب تک کسی دار الکفر کے ساتھ حالت جنگ قائم رہے۔ پھر ان تمام احکام کا تعلق خود دار الحرب کی مسلمان رعایا سے نہیں ہے بلکہ اس دار الاسلام کی رعایا سے ہے جو اس دار الحرب کے ساتھ برسرِ جنگ ہو۔

ہندوستان عام معنی میں اس وقت سے دار الکفر ہوگیا ہے جب سے مسلم حکومت کا یہاں استیصال ہوا۔ جس زمانہ میں شاہ عبدالعزیز صاحب نے جوازِ سود کا فتوی دیا تھا’ اس زمانہ میں واقعی یہ مسلمانان ہند کے لیے دار الحرب تھا’ اس لیے کہ انگریزی قوم مسلمانوں کی حکومت کو مٹانے کے لیے جنگ کر رہی تھی ۔ جب اس کا استیلاء مکمل ہوگیا اور مسلمانان ہند نے اس کی غلامی قبول کرلی تو یہ ان کے لیے دار الحرب نہیں رہا۔ ایک وقت میں یہ افغانستان کے مسلمانوں کے دار الحرب تھا۔ ایک زمانہ میں ترکوں کے لیے دار الحرب ہوا۔ مگر اب یہ تمام مسلمان حکومتوں کے لیے دار الصلح ہے۔ لہذا مسلمان حکومتوں کی رعایا میں سے کوئی شخص یہاں سود کھانے اور عقود فاسدہ پر معاملہ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ البتہ سرحد کے بعض آزاد قبائل اس کو اپنے لیے دار الحرب سمجھ سکتے ہیں اور اگر وہ یہاں عقود فاسدہ پر معاملات کریں تو حنفی قانون کی رو سے ان کے فعل کو جائز کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ جواز محض قانونی جواز ہے۔ خدا کی نظر میں وہ مسلمان ہر گز مقبول نہیں ہوسکتا جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا ہو اور پھر سود خواری سے’ مے فروشی سے’ قمار بازی سے سور کے گوشت اور مردار چیزوں کی تجارت سے اسلام کو غیر قوموں کے سامنے خوار بھی کرتا پھرے ۔ اسی کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص اپنے قرض دار بھائی کو گرفتار کرائے اور سولی جیل بھجوا دے’ در آں حالیکہ اسے معلوم ہو کہ اس کے قبضہ میں در حقیقت کچھ نہیں ہے اور اس کے بچے بھوکوں مر جائیں گے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قرض خواہ کو ایسا کرنے کا حق ہے’ اور جو کچھ وہ کر رہا ہے قانونی جواز کی حد میں کر رہا ہے۔ مگر اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ قانونی جواز کی بالکل آخری سرحد ہے’ اور جو انسان قانون کی آخری سرحدوں پر رہتاہے وہ بسا اوقات جانوروں سے بھی بد تر ہوجاتا ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کی حیثیت ہر گز وہ نہیں ہے جس کے لیے فقہی زبان میں “مستامن” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مستامن کے لیے پہلی شرط دار الاسلام کی رعایا ہونا ہے اور دوسری شرط یہ ہے کہ دار الحرب میں اس کا قیام ایک قلیل مدت کے لیے ہو۔ حنفی قانون میں حربی مستامن کے لیے دار الاسلام کے اندر رہنے کی (Law of Naturalisation) زیادہ سے زیادہ مدت ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ رکھی گئی ہے۔ اس کے بعد وہ قانون تبدیل جنسیت
کی رو سے اس کو ذمی بنا لیتا ہے۔ اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان

_____________________________

قبل تقسیم کے ہندوستان کا ذکر ہے۔

مستامن کے لیے دار الحرب میں قیام کرنے کی مدت سال دو سال سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ اسلامی شریعت جو مسلمانوں کو دار الاسلام میں سمیٹنے اور کافروں کو ذمی بنانے کے لیے سب سے زیادہ حریص ہے’ کبھی اس کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی شخص دار الحرب کو اپنا وطن بنا لے اور وہاں نسلوں پر نسلیں پیدا کرتا رہے اور اس حیثیت میں زندگی بسر کرتا چلا جائے جو مستامن کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ پھر جب یہ ایک شخص کے حق میں جائز نہیں’ تو کروڑوں مسلمانوں کی عظیم الشان آبادی کے لیے کب جائز ہوسکتا ہے کہ قرنوں تک “مستامن” کی سی زندگی بسر کرے اور ایک طرف ان اباحتوں سے فائدہ اٹھاتی رہے جو حالت “استیمان” کے لیے عارضی طور پر منتشر افراد کو محض جنگی ضروریات کے لیے دی گئی تھیں’ اور دوسری طرف وہ تمام قیود اپنے اوپر عاید کرلے جو مستامن کو عارضی طور پر اسلامی قانون کی پابندی سے آزاد کرکے کفار کے قوانین کا پابند بناتی ہیں۔

مسلمانانِ ہند کی صحیح قانونی پوزیشن یہ ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جن پر کفار مستولی ہوگئے ہیں۔ ان کا دار جو کبھی دار الاسلام تھا’ اب دار الکفر بن گیا ہے’ مگر دار الاسلام کے کچھ آثار ابھی باقی ہیں۔ ان کا فرض یہ ہے کہ یا تو کسی دار الاسلام میں منتقل ہوجائیں’ یا اگر اس پر قادر نہیں ہیں تو اس ملک میں جو اسلامی آثار باقی ہیں ان کی سختی کے ساتھ حفاظت کریں اور جتنی تدابیر ممکن ہوں وہ اسے دوبارہ دار الاسلام بنانے میں صرف کرتے رہیں۔ احکام کفر کے تحت جو زندگی وہ بسر کر رہے ہیں اس کا ہر سانس ایک گناہ ہے۔۔ اب کیا باقی ماندہ آثار اسلامی کو بھی مٹا کر اس گناہ میں مزید اضافہ کرنا منظور ہے؟
(ترجمان القرآن رمضان 55ھ۔ ذی القعدہ 55ھ۔دسمبر 36ء۔فروری 37ء)

Previous Chapter