ضمیمہ نمبر 2
ادارہ ثقافت اسلامیہ کا سوال نامہ
اور اس کا جواب
1960 کے اوائل میں ادارہ ثقافتِ اسلامیہ’ لاہور نے ایک مجلسِ مذاکرہ منعقد کی تھی جس میں سود کے متعلق چند اہم سوالات زیر بحث لائے گئے تھے۔ اس غرض کے لیے ادارہ نے ایک سوال نامہ مرتب کیا تھا جو زیر بحث مسائل پر مشتمل تھا۔ یہ سوال نامہ اور اس کا جو جواب مصنف نے دیا تھا وہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔
سوال نامہ
عرب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمانہ میں قرض لینے دینے کی شکل کیا تھی؟ –
لفظ “ربٰو” کے معنی۔ –
“ربٰو” اور “ربح” میں فرق۔ –
“ربٰو” میں قرض دینے والا شرائط مقرر کرتا ہے اور بنک انٹرسٹ میں قرض لینے والا پیش کرتا ہے۔ –
بیع سلم اور کمرشل انٹرسٹ میں کیا فرق ہے۔ ایک شخص ایک بھینس جو روزانہ دس سیر دودھ دیتی ہے’ دوسرے کو دیتا ہے اور کہتا ہے کہ بھئی اس کے دودھ میں سے پانچ سیر ہمیں دے دیا کرو۔ یہ جائز ہے تو پھر اس میں اور منافع پر روپیہ قرض دینے میں کیا فرق ہے؟
ہم جنس کا تبادلہ ہم جنس سے تفاضل کے ساتھ کیوں ناجائز ہے جب کہ غیر ہم جنس کے ساتھ تفاضل جائز ہے؟ –
تجارت میں طرفین کی رضا مندی لازمی ہے یا نہیں؟ بعض کے نزدیک تراضی طرفین کی عدم موجودگی ہی ربٰو کو پیدا کرتی ہے۔ نقصان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا حرمت ربٰو کی یہی بنیاد تھی کہ اس میں ایک پارٹی پر ظلم ہوتا ہے؟ کمرشل انٹرسٹ میں کسی پارٹی پر بھی ظلم نہیں ہوتا۔ اگر یہ درست ہے کہ کسی پارٹی پر ظلم نہیں ہوتا تو بنک انٹرسٹ ربٰو کے تحت کیسے آسکتا ہے؟
(ا) صنعتی اداروں کے معمولی حصے۔
(ب) ان کے ترجیحی حصے۔
(ج)بنکوں کا فکسڈ ڈیپازٹ۔
(د) بنکوں سے لیٹر آف کریڈٹ کھولنا۔ اس کے مختلف پہلو ۔ اگر لیٹر آف کریڈٹ کی بنا پر تجارت کے لیے قرض لینا ناجائز ہے تو اس کے لیے جائز صورت کیا ہوگی جس سے نظامِ تجارت میں خلل نہ پڑے؟۔
(ھ) ہاؤس بلڈنگ’ فنانس کارپوریشن اور انڈسٹریل فنانس کارپوریشن۔
(و) گورنمنٹ کے قرضے(1) اپنے ملک سے۔ (2) غیر ملکوں سے۔ اگر یہ تمام قرضے ناجائز ہیں تو پھر گورنمنٹ کی مشینری چلانے کے لیے کیا تجاویز ہوسکتی ہیں؟
جواب
پہلا سوال
پہلے سوال میں در اصل تنقیح طلب امور یہ ہیں:۔
نزولِ قرآن کے زمانہ میں تجارتی’ صنعتی’ زراعتی اور ریاستی اغراض کے لیے’ قرض کے لین دین کا دنیا میں عام رواج تھا یا نہیں؟
ان قرضوں پر سود لگایا جاتا تھا یا نہیں؟
اہل عرب میں یہ بات پوری طرح معروف تھی یا نہیں کہ ان اغراض کے لیے بھی قرض کا لین دین ہوتا ہے؟ اور
اس نوعیت کے قرضوں پر اصل سے زائد جو کچھ وصول کیا جاتا تھا اس کے لیے ربٰو ہی کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی یا لغت عرب میں اس کے لیے کوئی دوسرا لفظ مستعمل تھا؟
ان تنقیحات پر کلام کرنے سے پہلے ہمیں قبل اسلام کے عرب کی معاشی تاریخ اور بیرونی دنیا سے اس کے تعلقات پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے تاکہ یہ غلط فہمی نہ رہے کہ عرب دنیا سے الگ تھلگ پڑا ہوا ایک ملک تھا جس کے باشندے اپنی وادیوں اور صحراؤں سے باہر کی دنیا کو کچھ نہ جانتے تھے۔
زمانہ قدیم کی تاریخ سے متعلق جو مواد آج دنیا میں موجود ہے’ اس سے یہ بات پوری طرح ثابت ہے کہ اس زمانے میں چین’ ہندوستان اور دوسرے مشرقی ممالک کی اور اسی طرح مشرقی افریقہ کی جتنی تجارت بھی مصر ‘ شام ایشیائے کوچک’ یونان اور روم کے ساتھ ہوتی تھی وہ سب عرب کے واسطے سے ہوتی تھی ۔ اس تجارت کے تین بڑے راستے تھے۔ ایک ایران سے خشکی کا راستہ جو عراق اور شام ہوتا ہوا جاتا تھا۔ دوسرا خلیج فارس کا بحری راستہ جس سے تمام تجارتی سامان عرب کے مشرقی سواحل پر اترتا اور دومۃ الجندل یا تدمر (Palmyra) ہوتا ہوا آگے جاتا تھا۔ تیسرا بحر ہند کا راستہ جس سے آنے جانے والے تمام اموال تجارت حضر موت اور یمن سے گزرتے تھے۔ یہ تینوں راستے وہ تھے جن پر عرب آباد تھے۔
عرب خود بھی ایک طرف سے مال خرید کرلے جاتے اور دوسری طرف اسے فروخت کرتے تھے۔ حمل و نقل کا کاروبار (Carrying trade) بھی کرتے تھے اور اپنے علاقے سے گزرنے والے قافلوں سے بھاری ٹیکس لے کر انہیں بحفاظت گزارنے کا ذمہ بھی لیتے تھے۔ ان تینوں صورتوں سے ہمیشہ بین الاقوامی تجارت کے ساتھ ان کا گہرا تعلق رہا۔27000 برس قبل مسیح سے یمن اور مصر کے تجارتی تعلقات کا صاف ثبوت ملتا ہے۔ 17000 برس قبل مسیح میں بنی اسماعیل کے تجارتی قافلوں کی سرگرمیوں پر توراۃ شہادت دیتی ہے۔ شمالی حجاز میں مدین (مدیان) اور دِدان کی تجارت ڈیڑھ ہزار برس قبل مسیح اور اس کے بعد کئی صدی تک چلتی نظر آتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے (ایک ہزار سال قبل مسیح) سے یمن کے سبائی قبائل اور ان کے بعد حمیری قبیلے ابتدائی مسیحی صدیوں تک مسلسل تجارتی نقل و حرکت رہے ہیں۔ مسیح علیہ السلام لگ بھگ زمانے میں فلسطین کے یہودی عرب آ کر یثرب’ خیبر’ وادی القری (موجودہ العلاء) تیماء اور تبوک میں آباد ہوئے اور ان کے دائمی تعلقات’ مذہبی بھی اور ثقافتی بھی شام و فلسطین اور مصر کے یہودیوں کے ساتھ برقرار رہے۔ عرب میں شام اور مصر سے غلہ اور شراب در آمد کرنے کا کام زیادہ تر یہی یہودی کرتے تھے۔ پانچویں صدی سے قریش نے عرب کی بیرونی تجارت میں غالب حصہ لینا شروع کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد تک ایک طرف یمن اور حبش سے’ دوسری طرف عراق سے’ اور تیسری طرف مصر و شام سے ان کے نہایت وسیع تجارتی تعلقات تھے۔ مشرقی عرب میں ایران کی جتنی تجارت یمن کے ساتھ تھی اس کا بہت بڑا حصہ حیرہ سے یمامہ (موجودہ ریاض) اور پھر بنی تمیم کے علاقے سے گزرتا ہوا نجران اور یمن جاتا تھا۔ صدہا برس کے ان وسیع تجارتی روابط کی موجودگی میں یہ فرض کرنا بالکل خلاف عقل ہے کہ بیرونی دنیا کے ان ممالک میں جو مالی معاملات اور کاروباری طریقے مروج تھے ان کی عرب کے لوگوں کو خبر نہ ہو۔
ان تجارتی تعلقات کے علاوہ سیاسی اور ثقافتی اعتبار سے بھی عرب کے لوگوں کا اپنے گردو پیش کی مہذب دنیا سے گہرا رابطہ تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں شمالی حجاز کے مقام تیماء کو بابل کے بادشاہ نیبونیندوس (Nabonidus) نے اپنا گرمائی دار السلطنت بنایا تھا۔ کیسے ممکن تھا کہ بابل میں جو معاشی قوانین اور طریقے رائج تھے ان سے حجاز کے لوگ بے خبر رہ گئے ہوں۔ تیسری صدی قبل مسیح سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد تک پہلے پطرا (Petra) کی نبطی ریاست’ پھر تَدمرکی شامی ریاست’ اور اس کے بعد حیرہ اور غسان کی عربی ریاستیں عراق سے مصر کے حدود تک اور حجاز نجد کے حدود سے الجزیرہ اور شام کے حدود تک مسلسل قائم رہیں۔ ان ریاستوں کا ایک طرف یونان و روم سے’ اور دوسری طرف ایران سے نہایت گہرا سیاسی’ تمدنی’ تہذیبی اور معاشی تعلق رہا ہے۔ پھر نسلی رشتوں کی بنا پر اندرون عرب کے قبائل بھی ان کے ساتھ وسیع تعلقات رکھتے تھے۔ مدینہ کے انصار اور شام کے غسّانی فرماں روا ایک ہی نسل سے تھے اور ان کے درمیان پیہم تعلقات قائم رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں خود آپ کے خاص شاعر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ غسانی امراء کے ہاں آتے جاتے تھے۔ حیرہ کے امراء سے قریش والوں کا بہت میل جول تھا’ حتی کہ قریش کے لوگوں نے لکھنا پڑھنا بھی انہی سے سیکھا اور حیرہ ہی سے وہ رسم الخط انہیں ملا جو بعد میں خط کوفی کے نام سے مشہور ہوا۔ کس طرح باور کیا جاسکتا ہے کہ ان تعلقات کے ہوتے یہ لوگ یونان و روم اور مصر و شام اور عراق و ایران کے مالی و معاشی معاملات سے بالکل ناواقف رہ گئے ہوں۔
مزید بر آں عرب کے ہر حصے میں شیوخ’ اشراف اور بڑے بڑے تاجروں کے پاس رومی’ یونانی اور ایرانی لونڈیوں اور غلاموں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ایران و روم کی لڑائیوں میں دونوں طرف کے جو جنگی قیدی غلام بنائے جاتے تھے’ ان میں سے زائد از ضرورت تعداد کو کھلے بازار میں فروخت کردیا جاتا تھا’ اور عرب اس مال کی بڑی منڈیوں میں سے ایک تھا۔ ان غلاموں میں اچھے خاصے پڑھے لکھے مہذب لوگ بھی ہوتے تھے اور صنعت پیشہ اور تجارت پیشہ لوگ بھی۔ عرب کے شیوخ اور تجار ان سے بہت کام لیتے تھے۔ مکہ’ طائف’ یثرب اور دوسرے مرکزوں میں ان کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور یہ کاریگروں کی حیثیت سے یا تجارتی کارکنوں کی حیثیت سے اپنے آقاؤں کی قیمتی خدمات بجا لاتے تھے۔ آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ اپنے ان مددگاروں کے ذریعہ سے کسی عرب تاجر کے کان میں کبھی یہ بات نہ پڑی ہو کہ گردوپیش کی دنیا میں مالی و کاروباری معاملات کے کیا طریقے رائج ہیں۔
اس کے ساتھ عرب کی معاشی تاریخ کا ایک اور پہلو بھی نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عرب کسی زمانہ میں بھی نہ تو خوراک کے معاملہ میں خود کفیل رہا ہے اور نہ وہاں ایسی صنعتوں کو فروغ نصیب ہوا ہے جن سے تمام ضرورت کے سامان ملک ہی میں فراہم ہوجاتے ہوں۔ اس ملک میں ہمیشہ اشیائے خوردنی بھی باہر سے در آمد ہوتی رہی ہیں اور ہر طرح کی مصنوعات بھی’ حتی کہ پہننے کے کپڑے تک زیادہ تر باہر ہی سے آتے رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب کے عہد میں یہ در آمدی تجارت زیادہ تر دو گروہوں کے ہاتھ میں تھی۔ ایک قریش اور ثقیف۔ دوسرے یہود۔ لیکن یہ لوگ مال در آمد کرکے صرف تھوک فروشی ہی کرتے تھے۔ اندرون ملک کی چھوٹی چھوٹی بستیوں اور قبائلی ٹھکانوں میں خردہ فروشی کرنا ان کا کام نہ تھا’ نہ ہوسکتا تھا اور نہ قبائل اس بات کو کبھی گوارا کرسکتے تھے کہ سارے تجارتی فائدے یہی لوگ لوٹ لے جائیں اور ان کے اپنے آدمیوں کو اس اجارہ داری میں گھسنے کا کسی طرف سے راستہ نہ ملے۔ اس لیے تھوک فروشی کی حیثیت سے یہ لوگ اندرونِ ملک کے خردہ فروش تاجروں کے ہاتھ لاکھوں روپے کا مال فروخت کرتے تھے’ اور اس کا ایک معتد بہ حصہ ادھار فروخت ہوتا تھا۔ شاید دنیا میں تھوک فروش اور خوردہ فروش کے درمیان کبھی اور کہیں خالص نقد لین دین کا طریقہ رائج نہیں رہا ہے۔ اس لین دین میں ادھار بالکل ناگزیر ہے جس سے کبھی مفر نہ تھا۔ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ صرف عرب ہی میں اس وقت یہ لین دین بالکل نقداً نقد کی شرط پر ہوتا تھا اور قرض کا اس میں کوئی دخل نہ تھا’ تو عقلاً بھی یہ قابل قبول نہیں ہے’ اور تاریخ طور پر بھی یہ غلط ہے’ جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا۔
اب میں تنقیحات کو لیتا ہوں جن کا ذکر میں نے آغاز میں کیا تھا۔
یہ امر کہ قدیم زمانے میں قرض صرف ذاتی و شخصی ضرورتوں ہی کے لیے نہیں لیا جاتا تھا بلکہ تجارتی ’صنعتی اور زراعتی اغراض کے لیے بھی اس کا عام رواج تھا اور حکومتیں بھی اپنی ریاستی اغراض کے لیے قرض لیتی تھیں’ تاریخ سے بالکل ثابت ہے اور یہ دعویٰ کرنے کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے کہ پرانی دنیا میں قرض کا لین دین صرف شخصی حاجتوں کے لیے ہوتا تھا۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ قرض پر اصل سے زائد ایک طے شدہ مقدارِ مال لینے کا طریقہ’ شخصی اور کاروباری معاملات کے درمیان کسی قسم کا امتیاز کیے بغیر ہر قسم کے قرضوں کی صورت میں رائج تھا۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا 1946 کے مضمون (Banks) میں بیان کیا گیا ہے کہ بابل اور مصر کے مندر صرف عبادت گاہ ہی نہ تھے بلکہ بینک بھی تھے۔ بابل کے آثار قدیمہ میں جو گلی تختیاں (Clay tablets) ملی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زمیندار فصل سے پہلے اپنی زرعی ضروریات کے لیے مندروں سے قرضے لیتے تھے اور فصل کاٹنے کے بعد مع سود یہ قرض ادا کرتے تھے۔ یہ ساہوکاری نظام دو ہزار برس قبل مسیح میں پایا جاتا تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں پرائیویٹ بینک بھی بابل میں کام کرتے پائے ہیں۔ ۵۷۵ھ ق م میں بابل کے (Ligibi Bank) کا وجود ملتا ہے جو زمینداروں کو زرعی اغراض کے لیے قرض دیتا تھا۔ نیز یہ بینک لوگوں کے ڈپازٹ اپنے پاس رکھ کر ان پر سود ادا بھی کرتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہی زمانہ تھا جب شمالی حجاز کا شہر تیما بابل کی سلطنت کا گرمائی دار السلطنت تھا۔
وِل ڈورانٹ اپنی کتاب (A sotry of civilisation) میں بابل کے متعلق لکھتا ہے:
“ملک میں ازروئے قانون 20 فی صدی نقد روپے کے قرضوں پر’ اور 33 فی صدی سالانہ اجناس کی صورت میں قرضوں پر سود مقرر تھا۔ بعض طاقتور خاندان نسلاً بعد نسل ساہوکارے کا کام کرتے اور صنعت پیشہ لوگوں کو سود پر قرضے دیتے تھے۔ ان کے علاوہ مندروں کے پروہت فصلوں کی تیار کے لیے زمینداروں کو قرض دیا کرتے تھے۔ ’’
اس سلسلے میں آگے چل کر یہی مصنف لکھتا ہے:۔
‘‘ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی سود خواری وہ قیمت تھی جو ہماری صنعت کی طرح بابل کی صنعت بھی ایک پیچیدہ نظام قرض کے ذریعہ سے سیراب ہونے کے بدلہ میں ادا کر رہی تھی۔ بابل کا تمدن اصلاً ایک تجارتی تمدن تھا۔ جتنی دستاویزیں بھی اس کے آثار سے اس زمانہ میں بر آمد ہوئی ہیں وہ زیادہ تر کاروبار نوعیت کی ہیں۔ فروخت’ قرضے’ ٹھیکے’ شراکت’ دلالی’ مبادلہ’ اقرار نامے’ تمسکات اور اسی طرح کے دوسرے امور۔’’
_______________________________
جلد اوّل ص 29۔ 228
سیریا کی حالت بھی اس سے مختلف نہ تھی۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں سینا کریب کے زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے وِل ڈورانٹ لکھتا ہے:۔
“صنعت اور تجارت کو ایک حد تک نجی کاروبار کرنے والے ساہوکار سرمایہ فراہم کرکے دیتے اور ان قرضوں پر 25 فی صدی سالانہ سود وصول کرتے تھے۔’’
یونان کے متعلق انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مضمون (Banks) میں بیان کیا گیا ہے کہ چوتھی صدی قبل مسیح سے وہاں بینک کاری کے باقاعدہ نظام کا ثبوت ملتا ہے۔ اس نظام میں ایک قسم کے بینک وہ تھے جو لوگوں کے مال بطور امانت اپنے پاس رکھتے تھے اور اس پر سود دیتے تھے۔
ول ڈورانٹ لکھتا ہے کہ پانچویں صدی قبل مسیح ڈلفی کا اپالو مندر تمام یونانی دنیا کا بین الاقوامی بینک تھا۔ اس سے اشخاص کو بھی اور ریاستوں کو بھی معتدل شرح سود پر قرضے حاصل ہوتے تھے۔ اسی طرح پرائیویٹ صراف 12 سے 30 فی صدی تک شرح سود پر تاجروں کو قرضے دیتے تھے۔ یونانیوں نے یہ طریقے مشرق قریب (بابل و مصر اور شام) سے سیکھے اور بعد میں روم نے ان طریقوں کو یونان سے سیکھا۔ پانچویں صدی کے آخر میں بعض بڑے بڑے پرائیویٹ بینک یونان میں قائم ہوچکے تھے۔ انہی کے ذریعہ سے ایتھنز کی تجارت پھیلنی شروع ہوئی ۔ اس کے بعد روم کا دور آتا ہے۔ ول ڈورانٹ لکھتا ہے کہ:۔
“دوسری صدی قبل مسیح میں روم کی بینک کاری پورے عروج پر تھی۔ ساہوکار لوگوں کے ڈپازٹ رکھتے تھے اور ان پر سودادا کرتے تھے۔ قرض لیتے بھی تھے اور دیتے بھی تھے۔ کاروبار میں اپنا روپیہ بھی لگاتے تھے اور دوسروں کا بھی لگواتے تھے ۔ پہلی صدی عیسوی میں رومی سلطنت کے ہر حصے میں بینک قائم ہوچکے تھے۔ بینک کاری کے دوسرے کاموں کے ساتھ یہ لوگوں کے ڈپازٹ رکھ کر سود دیتے اور آگے روپیہ قرض دے کر سود وصول کرتے تھے۔ یہ کاروباری زیادہ تر یونانیوں اور شامیوں کے ہاتھ میں تھا۔ گال (Gall) میں تو شامی اور ساہوکار’ دونوں ہم معنی لفظ ہوگئے تھے۔ اس زمانہ میں سرکاری خزانہ بھی زمینداروں کو فصل کی کفالت پر سودی قرضے دیتا تھا۔ آگسٹس کے زمانہ میں شرح سود 4 فی صدی تک گرگئی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد شرح 6 فی صدی تک اور قسطنطین کے زمانہ میں 12 فیصدی تک چڑھ گئی ۔’’
اس پہلی صدی عیسوی کے متعلق بیرن (Baron) اپنی کتاب (A religions and social History of Jews) میں بیان کرتا ہے کہ اسکندریہ کے یہودی بینکرز الیگزینڈر ڈیمسٹریوس نے یہودیہ کے بادشاہ اگریپا اوّل کو دو لاکھ درہم (تقریباً 30 ہزار ڈالر ) قرض دیے تھے۔
_______________________________
جلد اول ص 63’ 262 63’ 262
جلد اوّل ص 63’ 262
جلد سوم۔ ص 88
جلد سوم ص 36’ 231
جلد اول ‘ ص 261
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بالکل قریب کے زمانہ میں قیصر روم جسٹینین نے (جس کی وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے صرف پانچ برس قبل ہوئی تھی) تمام بیزنطینی سلطنت میں ازروئے قانون زمینداروں اور کاشت کاروں کے قرضوں پر 4 فی صدی’ شخصی قرضوں پر 6 فی صدی’ تجارتی اور صنعتی قرضوں پر 8 فی صدی’ اور بحری تجارت کے قرضوں پر 12 فی صدی شرح سود مقرر کی تھی۔ یہ قانون جسٹینین کے بعد بھی ایک مدت تک بیز نطینی سلطنت میں رائج رہا ۔ یہ بات فراموش نہ کرنی چاہیے کہ جس بیز نطینی سلطنت میں سود کا یہ قانون رائج تھا اس کی سرحدیں شمالی حجاز سے ملی ہوئی تھیں۔ شام’ فلسطین اور مصر کے تمام علاقے اس کے زیر نگین تھے۔ قریش کے تاجر ان علاقوں کی منڈیوں میں پیہم آمدورفت رکھتے تھے۔ اور خود نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن سے آغاز نبوت تک مسلسل تجارتی قافلوں کے ساتھ ان منڈیوں میں جاتے رہتے تھے۔ آخر یہ بات کیسے فرض کی جا سکتی ہے کہ قریش کے ان تاجروں کو اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان بازاروں میں کاروبار کرتے ہوئے کبھی یہ پتہ نہ چلا کہ بیز نطینی سلطنت میں تجارت’ صنعت اور زراعت کی اغراض کے لیے بھی قرض کے لین دین کا رواج ہے اور اس پر ازروئے قانون سود کی شرحیں مقرر ہیں۔
عین زمانہ نبوت میں روم اور ایران کے درمیان وہ زبردست لڑائی ہورہی تھی جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ روم میں کیا گیا ہے۔ اس لڑائی میں جب ہرقل نے خسروپرویز کے مقابلہ پر ہجومی جنگ کا آغاز کیا’ اس وقت اپنی جنگی ضروریات کے لیے اسے کلیساؤں کی جمع شدہ دولت سود پر قرض لینی پڑی تھی اب کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ جس عظیم الشان لڑائی نے عراق سے مصر تک عرب کے سارے بالائی حصے کو تہ و بالا کرکے رکھ دیا تھا’ جس میں ایران کی زبردست فتوحات کے ہر طرف چرچے ہورہے تھے’ اور جس میں سلطنت روم کے گرتے ہوئے قصر کو بچانے کے بعد اب قیصر نے یکایک خسرو کے مقابلے پر وہ حیرت انگیز پیش قدمی کی تھی جو ساسانی دار السلطنت’ مدائن کی تباہی پر جا کر ختم ہوئی’ اس لڑائی کا یہ واقعہ عرب کے لوگوں سے بالکل پوشیدہ رہ گیا ہوگا کہ قیصر نے اپنی اس پیش قدمی کے لیے سرمایہ کلیساؤں سے سود پر حاصل کیا ہے؟ مجوسیوں سے عیسائیت کو بچانے اور بیت المقدس ہی کو نہیں مقدس صلیب کو بھی مشرکین کے قبضے سے نکالنے کے لیے جنگ کی جائے’ اور کلیسا کے
_______________________________
ول ڈورانٹ’ جلد چہارم’ ص 120’ 436’ گبن’ زوال’ سقوطِ دولتِ روم’ ج 2’ ص 716
حجاز سے قریش کے جو قافلے تجارت کے لیے فلسطین و شام جاتے تھے ان کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ جنگ بدر کے لیے موقع پر ابوسفیان کی قیادت میں جو قافلہ شام سے مکہ کی طرف واپس جا رہا تھا اس میں ڈھائی ہزار اونٹ تھے۔ ظاہر ہے کہ اتنے بڑے قافلے کو لے کر جو لوگ گئے ہوں گے ان کی تعداد دو ڈھائی ہزار سے کیا کم ہوگی۔ اب کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ جہاں اتنی بڑی تعداد میں ایک شہر کے تاجر کسی دوسرے ملک کو جاتے ہوں’ وہاں کے باشندے اس بات سے بالکل بے خبر رہتے تھے کہ اس دوسرے ملک میں مالی معاملات کے کیا طریقے رائج ہیں۔
(Cambrige economic history of Europe vol- 2 page- 90)
(Gibbon Decline and Fall of the Roman of Empire Vol – 2 Page- 91
پادری اس کارِ خیر کے لیے سود پر قرض دیں’ یہ عجیب و غریب واقعہ آخر ان لوگوں کے علم میں آنے سے کیسے بچ سکتا تھا جن کی نگاہیں دنیا کی دو عظیم ترین سلطنتوں کی جنگ کے نتیجے پر لگی ہوئی تھیں؟ خصوصاً قریش اس سے کیسے نا واقف ہوسکتے تھے جب کہ سورہ روم کے نازل ہونے پر اسی جنگ روم و ایران کے معاملہ میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سردار ان قریش کے درمیان باقاعدہ شرط لگ چکی تھی؟
یہاں تک جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل عرب کے نہایت قریبی تعلقات مشرق اوسط کی معاشی و تمدنی اور سیاسی زندگی کے ساتھ قدیم ترین زمانے سے وابستہ رہے ہیں’ اور اس خطہ زمین میں ڈھائی ہزار سال سے تجارتی’ صنعتی’ زراعتی اور ریاستی اغراض کے لیے قرض کے لین دین اور اس پر سود وصول کرنے کا رواج رہا ہے’ اور اہل عرب کا اس رواج عام سے بے خبر اور غیر متاثر رہنا قطعاً قابل تصور نہیں ہے۔
اب خود عرب کے مالی معاملات کو دیکھیے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں تھے۔ میں پہلے یہ بتا چکا ہوں کہ عرب کی ضروریات کے لیے غلہ اور شراب زیادہ تر یہودی در آمد کرتے تھے اور باقی دوسرا سامان زیادہ تر مکہ اور طائف کے تاجر بیرونی علاقوں سے لاتے تھے۔ میں یہ بھی عرض کرچکا ہوں کہ قریش اور ثقیف اور یہود کا سارا کاروبار تھوک فروشی کی حد تک تھا۔ اندرون ملک میں خوردہ فروشی دوسرے لوگ کرتے تھے اور وہ ان تھوک فروشوں سے مال خرید کر لے جایا کرتے تھے۔ میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ تھوک فروشوں اور خوردہ فروشوں کے درمیان بالکل نقدا نقد کی شرط پر کاروبار دنیا کبھی نہیں رہا ہے اور عرب میں بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد ذرا ان روایات کو ملاحظہ فرمائیے جو آیت ربٰو کی تفسیر میں عہد رسالت سے قریب زمانہ کے مفسرین سے منقول ہوئی ہیں۔ ضحاک “ذروا ما بقی من الربٰو” کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
کان رباً یتبایعون بہ فی الجاھلیۃ
:یہ وہ سود تھا جس کے ساتھ جاہلیت میں لوگ خریدوفروخت کرتے تھے۔ قتادہ کہتے ہیں
اِن ربا اھل الجاھلیۃ یبیع الرجل البیع الی مسمی فاذا حل الاجل و لم یکن عند صاحبہ قضاء زادہ و اخر عنہ
اہل جاہلیت کا ربا یہ تھا کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ مال فروخت کرتا اور قیمت ادا کرنے کے لیے ایک مدت طے ہوجاتی۔ اب اگر وہ مدت پوری ہوگئی
_______________________________
ابن جریر’ ج 3’ ص 7
ابن جریر ‘ ص 67
اور خریدار کے پاس اتنا مال نہ ہوا کہ قیمت ادا کرے تو بیچنے والا اس پر زائد رقم عائد کردیتا اور مہلت بڑھا دیتا ۔
:سدی کہتے ہیں
نزلت ھذہ الایۃ فی العباس بن عبد المطلب و رجل من بنی المغیرۃ کان شریکین فی الجاھلیۃ سلفا فی الربا الی اناس من ثقیف من بنی عمرو فجاء الاسلام و لھما اموال عظیمۃ فی الربا
آیت “وذرو ما بقی من الربوٰ” عباس بن عبدالمطلب اور بنی المغیرہ کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ دونوں جاہلیت کے زمانے میں شریک تھے اور انہوں نے ثقیف کے بنی عمرو میں لوگوں کو سودی قرض پر مال دے رکھے تھے۔ جب اسلام آیاتو ان دونوں کا بڑا سرمایہ سود میں لگا ہوا تھا۔
یہ سب روایات خوردہ فروشوں کے ہاتھ ادھار پر مال فروخت کرنے اور اس پر سود لگانے کی خبر دیتی ہیں’ اور یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس تجارتی سود کے لیے بھی الربا کی اصطلاح ہی استعمال ہوتی تھی’ کوئی دوسرا لفظ ایسا نہ تھا جو تجارتی قرضوں کے سود پر بولا جاتا ہو جو خالص شخصی حاجت کے لیے حاصل کیے جاتے تھے۔
پھر بخاری میں سات مقامات پر اور نسائی میں ایک مقام پر صحیح سندوں کے ساتھ یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے دوسرے شخص سے تجارت کے لیے ایک ہزار دینار قرض لیے اور کہا کہ میرے اور تیرے درمیان اللہ گواہ اور اللہ ہی کفیل ہے۔ پھر وہ بحری سفر پر چلا گیا۔ وہاں جب وہ اپنے کاروبار سے فارغ ہوا تو واپسی کے لیے اسے کوئی جہاز نہ ملا اور وہ مدت پوری ہوگئی جس کی قرار داد کرکے اس نے قرض لیا تھا۔ آخر اس نے یہ کیا کہ ایک لکڑی کے اندر سوراخ کرکے ایک ہزار دینار اس میں رکھ دیے اور قرض خواہ کے نام ایک خط بھی لکھ کر ساتھ رکھا اور سوراخ بند کرکے لکڑی سمندر میں
_______________________________
ان الفاظ سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ابتدائی مہلت جو قیمت کی ادائیگی کے لیے دی جاتی تھی اس پر کوئی سود نہیں لگایا جاتا تھا’ البتہ جب اس مہلت کے خاتمہ تک قیمت ادا نہ ہوتی تب مزید مہلت سود لگا کر دی جاتی تھی۔ اس طرح کی رعایت سود خوار معاشرہ کے عموماً بڑے تاجر چھوٹے تاجروں کو اپنا مستقل گاہک بنا کر رکھنے کے لیے دیا کرتے ہیں۔ فاقہ کش خریداروں کو ایسی رعایت کہیں بھی نہیں دی جاتی۔
ابن جریر ص 71
بخاری کتاب الزکوۃ (باب ما یستخرج من البحر) کتاب الشروط’ کتاب الاستقراض’ کتاب الکفالہ’ کتاب اللقطہ’ کتاب الاستیذان اور کتاب البیوع۔
نسائی’ کتاب اللقطہ
۔ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ روایت میں “تجارت کے لیے” کے الفاظ نہیں ہیں۔ لیکن یہ اعتراض کئی وجوہ سے غلط ہوگا۔ اول یہ کہ روایت میں قرض کے لیے اسلف یسلف کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو قریب قریب روپیہ “ایڈوانس” کرنے کا ہم معنی ہے اور زیادہ تر تجارتی معاملات کے بارے میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ پھر قرض بھی اس نے ایک ہزار دینار (تقریبا دس ہزار روپیہ) ظاہر ہے کہ اتنی بڑی رقم فاقہ کشی دور کرنے یا بے گور و کفن مردہ دفن کرنے لیے تو نہ لی گئی ہوگی۔ مزید برآں وہ یہ رقم لے کر بحری سفر پر روانہ ہوا اور وہاں اس نے اتنا روپیہ کمایا کہ ایک ہزار دینار تو اس نے لکڑی کے لٹھے میں رکھ کر قرض خواہ کو بھیجے اور پھر مزید ایک ہزار دینار لے کر خود اس کے پاس پہنچا’ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ عیاشی کے لیے نہیں بلکہ تجارت کے لیے روپیہ لے کر گیا تھا؟
چھوڑ دی اور اللہ سے دعا کی کہ میں نے تجھی کو گواہ اور کفیل بنا کر یہ رقم اس شخص سے قرض لی تھی۔ اب تو ہی اسے اس تک پہنچا دے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ قرض خواہ ایک روز اپنے ملک میں سمندر کے کنارے کھڑا تھا’ یکایک لکڑی کا ایک لٹھا اس کے سامنے آ کر رکا۔ اس نے لکڑی کو اٹھا کر دیکھا تو قرض دار کا خط بھی اسے ملا اور ایک ہزار دینار بھی مل گئے۔ بعد میں جب یہ شخص اپنے وطن واپس پہنچا تو ایک ہزار دینار لے کر اپنا قرض ادا کرنے کے لیے دائن کے پاس گیا۔ مگر اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ مجھے میری رقم مل گئی ہے۔
یہ روایت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ تجارت کے لیے قرض لینے کا تخیل اس وقت عربوں میں غیر معروف نہ تھا۔
ابن ماجہ اور نسائی میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقع پر عبداللہ بن ربیعہ مخزومی سے 30 یا 40 ہزار درہم قرض لیے تھے اور جنگ سے واپسی پر یہ قرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمایا۔ یہ ریاستی اغراض کے لیے قرض کی صریح مثال ہے۔
ایک دوست نے دو اور واقعات کی طرف بھی مجھے توجہ دلائی ہے جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ پہلا واقعہ ہند بنت عتبہ کا ہے کہ اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیت المال کا چار ہزار روپیہ (غالباً درہم) تجارت کے لیے قرض حاصل کیا تھا ۔
دوسرا واقعہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کے عہد کا ہے۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ (بصرہ کے گورنر) نے بیت المال کا روپیہ حضرت عمر کے دو صاحبزادوں عبداللہ اور عبیداللہ کو تجارت کے لیے قرض دیا۔ مگر بعد میں حضرت عمر نے اس قرض کو قابل اعتراض قرار دے کر اصل کے علاوہ پورے منافع کا بھی صاحبزادوں سے مطالبہ کیا’ اور آخر کار لوگوں کے مشورے سے اس کو قرض کے بجائے قراض (مضاربت) قرار دے کر آدھا منافع وصول کیا۔
یہ دونوں مثالیں زمانہ جاہلیت سے بہت قریب کے دور کی ہیں۔ عرب میں 9ھ تک سودی کاروبار چلتا رہا۔ یہ واقعات اس کی آخری بندش سے صرف دس بارہ سال بعد کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنی قلیل مدت میں تصورات نہیں بدل جاتے ہیں۔ اس لیے ان واقعات سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ قرض پر سرمایہ لے کر تجارت کرنے کا تصور عہد جاہلیت میں بھی موجود تھا ۔
_______________________________
تاریخ طبری ‘ بسلسلہ واقعات 23ھ ‘ عنوان شیء من سیرہ مما لم یمض ذکرہ۔
کتاب البیوع باب الاستقراض
ابواب التجارت: باب حسن القضاء۔
موطا کتاب القراض و باب سیرۃ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ۔
اس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ نہیں’ دوسرے بہت سے تخیلات ایسے ہیں جو اسلام کی آمد کے بعد پیدا ہوئے اور جاہلیت میں موجود نہ تھے’ انہی کی طرح یہ نیا تخیل بھی اسلام کے بعد کی پیداوار ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسا کہے تو ہم اس سے کہیں گے کہ بہت اچھا یہ زمانہ اسلام ہی کی پیداوار سہی مگر اس سے یہ تو ثابت ہوجاتا ہے کہ قرض پر سرمایہ لے کر تجارت میں لگانے کا طریقہ حضرت عمر کے زمانہ میں شروع ہوچکا تھا’ اور اس کے بعد’ جیسا کہ ہم اس
رہی یہ بات کہ اسلامی عہد کے مؤرخین اور محدثین و مفسرین نے شخصی حاجات اور تجارتی و کاروباری قرضوں کا واضح طور پر الگ الگ کیوں ذکر نہ کیا’ تو اس کا ظاہر سبب یہ ہے کہ ان کے ہاں قرض’ خواہ جس غرض کے لیے بھی ہوں قرض ہی سمجھا جاتا تھا اور اس پر سود کی حیثیت بھی ان کی نگاہ میں یکساں تھی۔ انہوں نے نہ اس تصریح کی کوئی خاص ضرورت محسوس کی کہ بھوکے مرتے ہوئے لوگ پیٹ بھرنے کے لیے قرض لیتے تھے۔ اور نہ خاص طور پر اسی بات کو تفصیل سے بیان کرنا ضروری سمجھا کہ کاروبار کے لیے لوگ قرض لیا کرتے تھے۔ ان امور کی تفصیلات خال خال ہی کہیں ملتی ہیں جن سے صحیح صورت حال سمجھنے کے لیے عرب کے حالا ت کو اس وقت کی دنیا کے مجموعی حالات میں رکھ کر دیکھنا ناگزیر ہے۔ مختلف قرضوں کے درمیان ان کی اغراض کے لحاظ سے فرق و امتیاز کرکے ایک مقصد کے قرض پر سود کو جائز اور دوسرے مقصد کے قرض پر اس کو ناجائز ٹھہرانے کا تخیل غالبا چودھویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا میں پایا جاتا تھا ۔ اس وقت تک یہودیت’ مسیحیت اور اسلام کے تمام اہل دین اور اسی طرح اخلاقیات کے ائمہ بھی اس بات پر متفق تھے کہ ہر قسم کے قرضوں پر سود ناجائز ہے۔
ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ زمانہ قبل اسلام میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ لوگ قرض کے سرمایہ سے تجارت کرسکیں’ کیوں کہ ملک میں کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی’ ہر طرف بد امنی پھیلی ہوئی تھی’ تجارتی قافلوں کو بہت بھاری ٹیکس دے دے کر مختلف قبائل کے علاقوں سے گزرنا پڑتا تھا اور ان پر خطر حالات کی وجہ سے شرح سود تین چار سو فی صدی تک پہنچی ہوئی تھی جس پر قرض لے کر کاروبار میں لگانا کسی طرح نفع بخش نہ ہوسکتا تھا۔ لیکن یہ قیاس آرائی اصل تاریخی حالات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ محض ایک مفروضہ ہے جو تاریخ سے بے نیاز ہوکر صرف اس گمان پر قائم کرلیا گیا ہے کہ عرب میں جب کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی اور عام بدامنی پھیلی ہوئی تھی تو ضرور اس کے نتائج یہی ہوں گے۔ حالانکہ تاریخی واقعات یہ بتاتے ہیں کہ اسلام سے قریب عہد میں ایران و روم کی پیہم لڑائیوں اور سیاسی کش مکش کی بدولت چین’ انڈونیشیا’ ہندوستان اور مشرقی افریقہ کے ساتھ رومی دنیا کے جتنے بھی تجارتی تعلقات تھے ان کا واسطہ مکہ کے عرب تاجر ہی تھے۔ خصوصاً یمن پر ایران کا قبضہ ہوجانے کے بعد تو رومیوں کے لیے مشرقی تجارت کے سارے راستے بند ہوچکے تھے۔ ان حالات میں مشرق کا سارا مال تجارت خلیج فارس اور بحرِ عرب کی عربی بندرگاہوں پر اترتا
_______________________________
سے پہلے بتا چکے ہیں’ امام ابوحنیفہ کے زمانہ تک نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تنہا امام صاحب کی اپنی تجارت میں پانچ کروڑ روپیہ کا سرمایہ قرض لگا ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین اور آئمہ مجتہدین میں سے کسی کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہ آئی کہ قرآن کا منشا تو صرف شخصی حاجات کے قرض میں سود کو حرام کرنا تھا’ نفع آور قرضوں پر سود حرام نہیں ہے؟
(Henry Prine, Economic and social History of Medival Europe)
(English translation Edition Butler London 1949 Page 140)
اور وہاں سے مکہ پہنچ کر رومی دنیا میں جاتا تھا۔ اور اسی طرح رومی دنیا کے سارے اموال تجارت قریش ہی کے قافلے مکہ لاتے اور پھر ان بندرگاہوں تک پہنچاتے تھے جن پر مشرق کے تاجر آیا کرتے تھے۔ اولیاری لکھتا ہے کہ اس زمانہ میں “مکہ” بینک کاری کا مرکز بن گیا تھا جہاں دور دراز علاقوں کے لیے ادائیگیاں کی جا سکتی تھیں’ اور وہ بین الاقوامی تجارت کا گھر بنا ہوا تھا۔
(Meca had become Banking Cneter where payment could be mad to man odistant lands a cleatin ghouse of international Sommers )
یہ چمکتی ہوئی تجارت آخر کیسے چل سکتی تھی اگر حالات وہ ہوتے جو فرض کرلیے گئے ہیں۔ معاشی قوانین کی سرسری واقفیت بھی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ جہاں بد امنی کی وجہ سے کاروبار اس قدر کثیر المصارف اور پر خطر ہو کہ تجارتی سود کی شرح تین چار سو فی صدی تک پہنچ جائے وہاں لازماً مالِ تجارت کی لاگت (Cost price) بھی اس حد تک بڑھ جانی چاہیے کہ بیرونی منڈیوں میں لے جا کر انہیں منافع کے ساتھ فروخت کرنا غیر ممکن ہوجائے۔ آخر اتنی چڑھی ہوئی قیمتوں پر یہ مال مصر و شام کے بازاروں میں کیسے بک جاتا تھا؟ در اصل عرب میں اس ساری بد امنی و بدنظمی کے باوجود جس کا ذکر کیا جاتا ہے’ بڑے پیمانے کی تجارت وہ قبیلے کرتے تھے جو بجائے خود طاقت ور ہوتے تھے بڑے بڑے قبیلوں سے جنہوں نے حلیفانہ معاہدات بھی کر رکھے تھے’ سود پر لاکھوں روپے کا مال قبیلوں میں پھیلا کر بھی جنہوں نے بکثرت لوگوں کو اپنے کاروبار کی گرفت میں لے لیا تھا’ اور سرداران قبائل کو ہر طرح کے سامان تعیش بہم پہنچا کر بھی جنہوں نے اپنے وسیع اثرات قائم کرلیے تھے۔ اس کے علاوہ خود قبائل کا اپنا مفاد بھی اس کا متقاضی تھا کہ ان کو وہ ناگزیر ضروریاتِ زندگی’ غلہ’ کپڑا وغیرہ بہم پہنچائیں جو باہر سے در آمد ہوتی تھیں۔ اس وجہ سے ان طاقت ور قبیلوں کو بڑے بڑے تجارتی قافلے لے کر’ جن میں بسا اوقات ڈھائی ڈھائی ہزار اونٹ ہوتے تھے’ عرب کے راستوں سے گزرنے کے لیے اس قدر بھاری ٹیکس نہیں دینے پڑتے تھے’ اور نہ خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس قدر خطیر مصارف اٹھانے پڑتے تھے کہ اموالِ تجارت کی قیمتیں ناقابل فروخت حد تک چڑھ جائیں۔ بیرونی تجارت کے علاوہ خود عرب کے مختلف حصوں میں سال کے سال تقریبا 20 مرکزی مقامات پر باقاعدہ ہاٹ (سوق) لگتے تھے جن کا ذکر ہمیں تاریخوں میں ملتا ہے۔ ان ہاٹوں میں عرب کے ہر ہر حصے سے قافلے آ کر خرید و فروخت کرتے’ اور ان میں سے بعض میں روم و ایران اور چین و ہندوستان تک کے تاجر آیا کرتے تھے۔ یہ پیہم تجارتی نقل و حرکت کیسے جاری رہ سکتی تھی اگر عرب کے حالات اتنے ہی خراب ہوتے جتنے فرض کرلیے گئے ہیں۔ مورخین نے قریش کے تجارتی کاروبار کے متعلق یہ تصریح کی ہے کہ وہ سو فی صدی منافع کمایا کرتے تھے۔ ایسے منافع کے کاروبار کے لیے سودی قرض پر سرمایہ نہ مل سکنا’ اور شرح سود تین چار سو فی صدی تک ہونا قطعا خارج از فہم ہے۔ اور اس
_______________________________
Taba before Mohammad. Page – 182
دعوے کے لیے کوئی تاریخی سند موجود نہیں ہے کہ عرب میں شرح سود اس قدر چڑھی ہوئی تھی۔
دوسرا سوال
لفظ ربٰو کے معنی لغتِ عرب میں تو زیادتی اضافے او ربڑھوتری کے ہیں’ لیکن “الربٰو” سے اصطلاحاً جو چیز مراد ہے وہ خود قرآن ہی کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہوجاتی ہے۔
لفظ ربٰو کے معنی لغتِ عرب میں تو زیادتی اضافے او ربڑھوتری کے ہیں’ لیکن “الربٰو” سے اصطلاحاً جو چیز مراد ہے وہ خود قرآن ہی کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہوجاتی ہے۔
(“وذروا ما بقی من الربٰو ۔۔۔۔ وان تبتم فلکم رءوس اموالکم ۔۔۔ وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ(البقرۃ:278۔280
سود میں سے جو کچھ باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔۔۔ اگر تم توبہ کرلو تو تمہیں اپنے راس المال لینے کا حق ہے۔۔۔ اور اگر تمہاراد ین دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو۔
یہ الفاظ بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ربٰو کا یہ حکم قرض کے معاملہ سے متعلق ہے’ اور قرض میں اصل سے زائد جو کچھ طلب کیا جائے وہ الربٰو ہے جسے چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن یہ کہہ کر بھی ربٰو کا مفہوم واضح کرتا ہے احل اللہ البیع و حرم الربٰو (اللہ نے بیع کو حلال اور ربٰو کو حرام کیا ہے)۔ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ربٰو میں راس المال قرض دے کر جو کچھ اس سے زیادہ لیا جاتا ہے وہ اس منافع سے مختلف ہے جو بیع کے معاملہ میں لاگت سے زائد حاصل ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ربٰو مال کی وہ زیادتی ہے جو بیع کے طریقے سے نہ ہو۔ اسی بناپر محدثین ’فقہاء اور مفسرین کا پورا اتفاق ہے کہ قرآن میں وہ ربٰو حرام کیا گیا ہے جو قرض کے معاملہ میں اصل سے زائد طلب کیا جائے۔
جیسا کہ پہلے سوا ل کے جواب میں تاریخ سے ثابت کیا جا چکا ہے’ نزولِ قرآن کے وقت یہ امر عرب میں پوری طرح معلوم و معروف تھا کہ قرض کا معاملہ صرف شخصی حاجات ہی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ کاروباری اور قومی اغراض کے لیے بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود قرآن نے ربٰو کی حرمت کا حکم دیتے ہوئے ایسا کوئی اشارہ نہیں کیا ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہو کہ اغراض کے اعتبار سے قرض اور قرض میں کوئی فرق ہے’ اور سود کی حرمت کا حکم صرف شخصی حاجات کے قرضوں کے لیے مخصوص ہے’ اور نفع آور اغراض کے لیے جو قرض دیا جائے اس پر سود لگانا حلال ہے۔ فقہاء اسلام بھی پہلی صدی ہجری سے آج تک اس اصول پر متفق رہے ہیں کہ “کل قرض جر بہ نفعا فھو ربٰو” (ہر قرض جس کے ساتھ نفع حاصل کیا جائے ربا ہے) قریب کے زمانہ سے پہلے فقہاء کی اس متفقہ رائے سے اختلاف کی کوئی ایک مثال بھی تاریخ فقہ سے نکال کر پیش نہیں کی جا سکتی ۔
تیسرا سوال
ربا اور رَبح میں فرق یہ ہے کہ ربا قرض پر مال دے کر اصل سے زائد وصول کرنے کا نام ہے اور اس کے برعکس ربح سے مراد بیع میں لاگت سے زائد قیمت فروخت حاصل کرنا ہے۔ اس کے مقابلہ میں خسارہ کا لفظ بولا جاتا ہے جب کہ لاگت سے کم پر کسی شخص کا مال فروخت ہو۔ لسان العرب میں ربح کے معنی یہ لکھے ہیں۔
الربحَ و الربح فالرباح النماء فی التجر۔۔۔ والعرب تقول ربحت تجارتہ اذا ربح صاحبھا فیھا ۔ وقولہ تعالی فما ربحت تجارتہم
تجارت میں افزونی کو ربح اور رَبَح اور رباح کہتے ہیں ۔۔ عرب کہتے ہیں “ربحت تجارتہ” جبکہ تجارت کرنے والا نفع کمائے ۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتاہے : فما ربحت تجارتہم۔
مفردات امام راغب میں ہے
الرِّبحُ الزیادۃ الحاصلۃ فی المبایعۃ
ربح وہ زیادتی ہے جو خریدوفروخت کے معاملہ میں حاصل ہو۔
قرآن مجید خود بھی ربٰو اور تجارتی منافع کا فرق بیان کرتا ہے۔ کفار عرب حرمت سود کے خلاف جو اعتراض پیش کرتے تھے وہ یہ تھا “انما البیع مثل الربٰو” یعنی بیع میں اصل لاگت سے زائد جو قیمت فروخت وصول کی جاتی ہے وہ بھی تو آخر اسی طرح ہے جس طرح قرض کے معاملہ میں اصل راس المال سے زائد ایک رقم لی جاتی ہے۔ قرآن نے اس کے جواب میں صاف کہا کہ “احل اللہ البیع و حرم الربٰو” اللہ نے بیع کو حلال کیا اور ربا کو حرام کیا ہے۔ یعنی دولت میں اضافہ بصورتِ بیع اور چیز ہے اور بصورت قرض اور چیز ۔ ایک کو خدا نے حلال کیا ہے اور دوسرے کو حرام۔ کوئی شخص منافع چاہتا ہو تو اس کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے کہ خود بیع کا کاروبار کرے یا کسی دوسرے کے ساتھ اس میں شریک ہوجائے۔ لیکن قرض دے کر منافع طلب کرنے کا دروازہ بند ہے۔
چوتھا سوال
ربا کی تعریف یہ ہے کہ “قرض کے معاملہ میں اصل سے زائد جو کچھ بطور شرطِ معاملہ وصول کیا جائے وہ ربٰو ہے”۔ اس تعریف میں اس سوال کا قطعاً کوئی دخل نہیں ہے کہ یہ ربا قرض دینے والے نے طلب کیا یا قرض لینے والے نے از خود پیش کیا۔ یہ سوال ربٰو کی قانونی تعریف میں غیر مؤثر ہے اور قرآن سے یا کسی صحیح حدیث سے اس امر کا کوئی اشارہ تک نہیں نکلتا کہ اگر سود لینے والے کی طرف سے پیش کیا جائے تو اس سے اس کے سود ہونے اور حرام ہونے میں کوئی فرق واقع ہوگا۔ علاوہ بریں کوئی صاحبِ عقل دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے نہ کبھی پایا گیا ہے جسے اگر سود کے بغیر قرض مل سکتا ہو تب بھی وہ سود ادا کرنے کی شرط اپنے طور پر پیش کرے۔ قرض
_______________________________
طبع بیروت’ ج 7’ ص 442
لینے والے کی طرف سے یہ شرط تو اسی صورت میں پیش ہوسکتی ہے جب کہ کہیں سے اس کو بلا سود قرض ملنے کی امید نہ ہو۔ اس لیے سود کی تعریف میں اس کو غیر موثر ہونا ہی چاہیے۔ مزید برآں بینکوں کی طرف سے قدیم زمانہ میں بھی اور آج بھی امانت رکھے ہوئے روپے پر سود اس لیے پیش کیا جاتا تھا اور کیا جاتا ہے کہ اس لالچ سے لوگ اپنی جمع شدہ دولت ان کے حوالہ کریں اور پھر وہ کم شرح سود پر لی ہوئی دولت کو آگے زیادہ شرح سود پر قرض دے کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح کی پیش کش اگر سود دینے والے کی طرف سے ہوتی ہے تو حرمتِ سود کے مسئلے میں اس کے قابلِ لحاظ ہونے کی آخر کیا معقول وجہ ہے۔ امانتوں پر جو سود دیا جاتا ہے اس کی نوعیت در اصل یہ ہے کہ وہ اس سود کا ایک حصہ ہے جو انہی امانتوں کو شخصی’ کاروباری اور ریاستی قرضوں کی شکل میں دے کر وصول کیا جاتا ہے۔ یہ تو اسی طرح کا حصہ ہے جیسے کوئی شخص نقب زنی کے آلات کسی سے لے اور جو کچھ چوری کا مال اسے حاصل ہوا اس کا ایک حصہ اس شخص کو بھی دے دے جس نے اسے یہ آلات فراہم کرکے دیے تھے۔ یہ حصہ ا س دلیل سے جائز نہیں ہوسکتا کہ حصہ دینے والے نے بخوشی اسے دیا ہے’ لینے والے نے جبر سے نہیں لیا ہے۔
پانچواں سوال
بیع سَلم در اصل پیشگی سودے کی ایک صورت ہے’ یعنی ایک شخص دوسرے شخص سے آج ایک چیز خرید کر اس کی قیمت ادا کردیتا ہے’ اور ایک وقت مقرر کردیتا ہے کہ بائع وہ چیز اس وقت خاص پر اسے دے گا۔ مثلاً میں ایک شخص سے کپڑے کے سو تھان آج خریدتا ہوں اور ان کی قیمت ادا کردیتا ہوں اس شرط کے ساتھ کہ یہ تھان میں چار مہینے کے بعد اس سے لوں گا۔ اس سودے میں چار باتیں ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ مال کی قیمت سودا طے ہونے کے وقت ہی ادا کردی جائے۔ دوسرے یہ کہ مال کی صفت (Quality) واضح طور پر معین ہو تا کہ بائع اور مشتری کے درمیان اس کی صفت کے بارے میں کوئی چیز مبہم نہ رہے جو وجہ نزاع بن سکے۔ تیسرے یہ کہ مال کی مقدار بھی وزن’ یا ناپ یا تعداد وغیرہ کے لحاظ سے ٹھیک ٹھیک معین ہو۔ اور چوتھے یہ کہ مال خریدار کے حوالہ کرنے کا وقت معین ہو اور اس میں بھی کوئی ابہام نہ ہو کہ وہ نزاع کا سبب بنے۔ اس سودے میں جو پیشگی قیمت دی جاتی ہے اس کی نوعیت ہر گز قرض کی نہیں ہے بلکہ وہ ویسی ہی قیمت ہے جیسی دست بدست لین دین میں خریدار ایک چیز کی قیمت ادا کرتا ہے۔ فقہ میں اس کا نام بھی ثمن ہے نہ کہ قرض۔ وقتِ معین پر مال کی عدم تحویل یا کسی اور سبب سے اگر بیع فسخ ہوجائے تو مشتری کو صرف اصل قیمت واپس دی جاتی ہے۔ کسی شئے زائد کا وہ حق دار نہیں ہوتا۔ اس میں اور عام بیع میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ عام بیع میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ عام بیع میں مشتری بائع سے اپنی خریدی ہوئی چیز دست بدست لے لیتا ہے اور بیع سلم میں وہ اس کا قبضہ لینے کے لیے آئندہ کی ایک تاریخ مقرر کردیتا ہے۔ اس معاملہ کو قرض اور سود کے مسئلے سے خلط ملط کرنے کی کوئی معقول وجہ میں نہیں سمجھ سکا۔
سوال میں بھینس کی جو مثال بیان کی گئی ہے وہ بیع سلم کی نہیں بلکہ شرکت کی شکل ہے۔ یعنی بھینس ایک شخص کی اور اس پر کام دوسرا شخص کرے اور دودھ دونوں کے درمیان تقسیم ہوجائے۔
چھٹا سوال
ہم جنس اشیاء کے دست بدست تبادلے میں تفاضل کو حرام کردینے کا مقصد جیسا کہ ابن قیم اور دوسرے لوگوں نے بیان کیا ہے’ در اصل سد باب ذریعہ ہے۔ یعنی اصل حرام تو ربٰو النسیئہ (قرض کا سود) ہے’ لیکن زیادہ ستانی کی ذہنیت کا قلع قمع کرنے کے لیے ہم جنس ایشاء کے دست بدست تبالہ میں بھی تفاضل کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ ایک ہی جنس کی اشیاء مثلاً چاول کا تبادلہ چاول سے صرف اس صورت میں کیا جاتا ہے جب کہ اس کی ایک قسم بڑھیا ہو اور دوسری گھٹیا۔ شارع کا منشا یہ ہے کہ بڑھیا قسم کے ایک سیر چاول کا تبادلہ گھٹیا قسم کے مثلاً سوا سیر چاول سے نہ کیا جائے’ خواہ ان دونوں کی بازاری قیمت کا فرق اتنا ہی ہو۔ بلکہ ایک شخص اپنے چاول مثلاً روپے کے عوض فروخت کردے اور دوسرے چاول روپے کے عوض ہی خرید لے۔ براہ راست چاول کا چاول سے تفاضل کے ساتھ مبادلہ کرنے میں اس ذہنیت کو غذا ملتی ہے جو سود خوری کی اصل جڑ ہے اور شارع اسی کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ فقہاء کے درمیان سود کے مسئلے میں جتنے بھی اختلافات ہوئے ہیں وہ صرف ربٰو الفضل کے معاملہ میں ہیں کیوں کہ اس کی حرمت کے احکام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر زمانہ میں دیے تھے اور آپ کی حیاتِ طیبہ میں معاملات پر ان احکام کے انطباق کی شکلیں پوری طرح واضح نہ ہوسکی تھیں۔ لیکن جہاں تک ربٰو النسیئہ (قرض کے معاملہ میں اصل سے زائد لینے) کا تعلق ہے’ اس کی حرمت اور اس کے احکام میں فقہاء کے درمیان پورا اتفاق ہے۔ یہ ایک صاف مسئلہ ہے جس میں کوئی الجھن نہیں ہے۔
ساتواں سوال
تجارت میں طرفین کی رضا مندی ضرور لازم ہے’ لیکن یہ نہ تجارت کے حلال ہونے کی علت ہے’ نہ اس کا عدم ’ سود کے حرام ہونے کی علت۔ قرآن میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ سود اس لیے حرام کیا جاتا ہے کہ دینے والا اسے بادل نخواست مجبوراً دیتا ہے۔ اگرچہ دنیا میں کوئی سود بھی برضا و رغبت نہیں دیا جاتا’ اور بلا سود قرض سے ملنے کا امکان ہو تو کوئی شخص قرض پر سود نہ دے’ لیکن اس چیز کی حرمت کے مسئلے میں رضا مندی اور نارضا مندی کا سوال بالکل غیر متعلق ہے’ کیونکہ قرآن مطلقاً اس قرض کو حرام قرار دینا ہے جس میں راس المال سے زائد ادا کرنے کی شرط شامل ہو۔ قطع نظر اس سے کہ یہ شرط تراضی طرفین سے طے ہوئی ہو یا کسی اور طرح ۔
رہی یہ بحث کہ سودی قرض کی حرمت میں اصل علت ظلم ہے’ اور جس قرض پر سود وصول کرنے میں ظلم نہ ہو وہ حلال ہونا چاہیے۔ اس کے متعلق میں یہ عرض کروں گا کہ قرآن نے اس امر کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ہے کہ آپ اس کے الفاظ سے صرف “ظلم” کا علت حرمت ہونا نکال لیں اور پھر اس لفظ ظلم کا مفہوم خود جس طرح چاہیں مشخص کریں۔ قرآن جس جگہ یہ علت حرمت بیان کرتا ہے اسی جگہ وہ خود ہی ظلم کا مطلب بھی واضح کردیتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:۔
يَاأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّه وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (٢٧٨)وَ إِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَ لا تُظْلَمُونَ (٢٧٩) (البقرۃ
‘‘اے لوگو جو ایمان لائے اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو وہ سود جو (لوگوں کے ذمہ) باقی رہ گیا ہے اگر تم مومن ہو۔۔۔ اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہیں اپنے راس المال لینے کا حق ہے۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔’’
یہاں دو ظلموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو دائن مدیون پر کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو مدیون دائن پر کرتا ہے۔ مدیون کا دائن پر ظلم’ جیسا کہ آیت کے سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہوتا ہے’ یہ ہے کہ اس کا دیا ہوا اصل راس المال بھی مدیون واپس نہ کرے۔ بالکل اسی طرح مدیون پر دائن کا ظلم’ جو اس آیت کے سیاق و سباق سے بین طور پر ظاہر ہورہا ہے’ یہ ہے کہ وہ اصل راس المال سے زائد اس سے طلب کرے۔ اس طرح قرآن یہاں اس ظلم کے معنی خود متعین کردیتا ہے جو قرض کے معاملہ میں دائن و مدیون ایک دوسرے پر کرتے ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے انصاف یہ ہے کہ دائن مدیون سے صرف راس المال واپس لے’ اور ظلم یہ کہ وہ راس المال سے زیادہ وصول کرے۔ قرآن کا سیاق و سباق اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہے کہ ابن عباس اور ابن زید سے لے کر پچھلی صدی کے شوکانی اور آلوسی تک تمام مفسرین نے اس کا یہی مطلب لیا ہے۔ اس پوری مدت میں کوئی ایک مفسر بھی ایسا نہیں پایا جاتا جس نے قرآن سے صرف ظلم کا لفظ حرمتِ ربٰو کی علت کے طور پر نکال لیا ہو اور پھر ظلم کے معنی باہر کہیں سے لینے کی کوشش کی ہو۔ یہ بات اصولاً بالکل غلط ہے کہ ایک عبارت کے اپنے سیاق و سباق سے اس کے کسی لفظ کا جو مفہوم ظاہر ہوتا ہو اسے نظر اندا زکرکے ہم اپنی طرف سے کوئی معنی اس کے اندر داخل کریں۔
اس سوال کے سلسلے میں یہ دعویٰ جو کیا گیا ہے کہ کمرشل انٹرسٹ میں کسی پارٹی پر بھی ظلم نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہمیں تسلیم نہیں ہے۔ کیا یہ ظلم کچھ کم ہے کہ ایک شخص قرض پر سرمایہ دے کر تو ایک خاص منافع کی ضمانت حاصل کرے’ مگر جو لوگ کاروبار کو پروان چڑھانے کے لیے وقت’ محنت اور ذہانت صرف کریں ان کے لیے سرے سے کسی منافع کی کوئی ضمانت نہ ہو’ بلکہ نقصان ہونے کی صورت میں بھی وہ دائن کو اصل مع سود دینے کے ذمہ دار ہیں؟ تمام خطرہ (Risk) محنت اور کام کرنے والے فریق کے حصے میں ‘ اور خالص منافع روپیہ دینے والے فریق کے حصہ میں’ یہ آخر انصاف کیسے ہوسکتا ہے۔ اس لیے سود بہرحال ظلم ہے’ خواہ وہ شخصی حاجات کے قرضوں میں ہو یا کاروباری اغراض کے قرضوں میں۔ انصاف چاہتا ہے کہ اگر آپ قرض دیتے ہیں تو صرف اپنا راس المال واپس ملنے کی ضمانت حاصل ہو’ اور اگر آپ کاروبار میں روپیہ لگانا چاہتے ہیں تو پھر شریک کی حیثیت سے روپیہ لگائیں۔
آٹھواں سوال
اس سوال کا تفصیلی جواب میں اپنی کتاب “سود” میں دے چکا ہوں ۔ یہاں مختصر جواب عرض کرتا ہوں۔
(الف)صنعتی اداروں کے معمولی حصے بالکل جائز ہیں بشرطیکہ ان کا کاروبار بجائے خو دحرام نوعیت کا نہ ہو۔
(ب) ترجیحی حصص’ جن میں ایک خاص منافع کی ضمانت ہو’ سود کی تعریف میں آتے ہیں اور ناجائز ہیں۔
(ج)بینکوں کے فکسڈ ڈیپازٹ کے متعلق دو صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ جو لوگ صرف اپنے روپے کی حفاظت چاہتے ہوں اور اپنا روپیہ کسی کاروبارمیں لگانے کے خواہش مند نہ ہوں ’ ان کے روپے کو بینک “امانت” رکھنے کے بجائے “قرض ” لیں’ اسے کاروبار میں لگا کر منافع حاصل کریں’ اور ان کا راس المال مدت مقررہ پر ادا کردینے کی ضمانت دیں۔
اور جو لوگ اپنے روپے کو بینک کی معرفت کاروبار میں لگوانا چاہیں’ ان کا روپیہ “امانت” رکھنے کے بجائے بینک ان سے ایک عام شراکت نامہ طے کرے’ ایسے تمام اموال کو مختلف قسم کے تجارتی ’صنعتی’ زراعتی یا دوسرے کاموں میں’ جو بینک کے دائرہ عمل میں آتے ہوں’ لگائے اور مجموعی کاروبار سے جو منافع حاصل ہو’ اسے ایک طے شدہ نسبت کے ساتھ ان لوگوں میں اسی طرح تقسیم کردے جس طرح خود بینک کے حصہ داروں میں منافع تقسیم ہوتا ہے۔
بینکوں سے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کی مختلف صورتیں ہیں جن کی شرعی پوزیشن جداگانہ ہے۔ جہاں بینک کو محض ایک اعتماد نامہ دینا ہو کہ یہ شخص بھروسے کے قابل ہے’ وہاں بینک جائز طور پر صرف اپنے دفتری اخراجات کی فیس لے سکتا ہے۔ اور جہاں بینک دوسرے فریق کو رقم ادا کرنے کی ذمہ داری لے وہاں اسے سود نہیں لگانا چاہیے۔ اس کے بجائے مختلف جائز طریقے اختیارکیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً بینکوں کے کرنٹ اکاؤنٹ میں کاروباری لوگوں کی جو رقمیں رہتی ہیں’ ان پر کوئی سود نہ دیا جائے’ بلکہ حساب کتاب رکھنے کی اجرت لی جائے اور ان رقموں کو قلیل المیعاد قرضوں کی صورت میں کاروباری لوگوں کو بلا سود دیا جائے۔ ایسے قرض داروں سے بینک اس رقم کا سود تو نہ لیں البتہ وہ اپنے دفتری اخراجات کی فیس ان سے لے سکتے ہیں۔
(ھ) حکومت خود’ یا اپنے زیر اثر جتنے ادارے بھی قائم کرے ان سے سود کے عنصر کو خارج ہونا چاہیے۔ اس کے بجائے دوسرے طریقے تھوڑی توجہ اور قوتِ اجتہاد
_______________________________
ملاحظہ ہو اس کتاب کا باب “اصلاح کی عملی صورت”
سے کام لے کر نکالے جا سکتے ہیں جو جائز بھی ہوں اور نفع بخش بھی۔ اس طرح کے تمام اداروں کے بارے میں کوئی ایک جامع گفتگو چند الفاظ میں یہاں نہیں کی جا سکتی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے حرام چیز کو حرام مان لیا جائے۔ پھر اس سے بچنے کا ارادہ ہو۔ اس کے بعد ہر کارپوریشن کے لیے ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جو اس کارپوریشن کے تمام کاموں کو نگاہ میں رکھ کر یہ دیکھیے کہ اس کے مختلف کام کہاں کہاں حرام طریقوں سے ملوث ہوتے ہیں اور ان کا بدل کیا ہے جو اسلامی احکام کی رو سے جائز بھی ہو اور قابل عمل اور نفع بخش بھی۔ اولین چیز ہماری اس ذہنیت کی تبدیلی ہے کہ اہل مغرب کے جن پٹے ہوئے راستوں پر چلنے کے ہم پہلے سے عادی چلے آ رہے ہیں انہی پر ہم آنکھیں بند کرکے چلتے رہنا چاہتے ہیں۔ اور سارا زور اس بات پر صرف کر ڈالتے ہیں کہ کسی طرح انہی راستوں کو ہمارے لیے جائز کردیا جائے۔ ہماری سہولت پسندی ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کچھ دماغ سوزی اور کچھ محنت کرکے کوئی نیا راستہ نکالیں۔ تقلید جامد کی بیماری بد قسمتی سے ساری قوم کو لگی ہوئی ہے۔ نہ جبہ پوش اس سے شفاپاتے ہیں نہ سوٹ پوش۔
گورنمنٹ کے قرضے جہاں تک اپنے ملک سے حاصل کیے جائیں’ ان پر سود نہ دیا جائے۔ اس کے بجائے حکومت اپنے ایسے منصوبوں کو جن میں قرض کا روپیہ لگایا جاتا ہے کاروباری اصول پر منظم کرے اور ان سے جو نفع حاصل ہو اس سے ایک طے شدہ تناسب کے ساتھ ان لوگوں کو حصہ دیتی رہے جن کا روپیہ وہ استعمال کرتی ہے۔ پھر جب وہ مدت ختم ہوجائے جس کے لیے ان سے روپیہ مانگا گیا تھا’ اور ان لوگوں کا راس المال واپس کردیا جائے تو آپ سے آپ منافع میں ان کی حصہ داری بھی ختم ہوجائے گی۔ اس صورت میں در حقیقت کوئی بہت بڑا تغیر کرنا نہیں ہوگا۔ متعین شرح سود پر جو قرض لیے جاتے ہیں’ ان کو تبدیل کرکے بس متناسب منافع پر حصہ داری کی صورت دینی ہوگی۔
غیر ملکوں سے جو قرض لیے جاتے ہیں ان کا مسئلہ اچھا خاصا پیچیدہ ہے جب تک پوری تفصیل کے ساتھ ایسے تمام قرضوں کا جائزہ نہ لیا جائے ’ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی نوعیتیں کیا کیا ہیں اور ان کے معاملہ میں حرمت سے بچنے کے لیے کس حد تک کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اصولی طور پر جو بات میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمیں پہلے اپنی تمام توجہ اندرون ملک سے سود کو ختم کرنے پر صرف کرنی چاہیے۔ اور بیرون ملک میں جہاں سودی لین دین سے بچاؤ کی کوئی صورت نہ ہو وہاں اس وقت تک اس آفت کو برداشت کرنا چاہیے جب تک اس سے بچنے کی صورتیں نہ نکل آئیں۔ ہم اپنے اختیار کی حد تک خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس حد تک اگر ہم گناہ سے بچیں تو مجبوری کے معاملہ میں ہم معافی کی امید رکھ سکتے ہیں۔ (ترجمان القرآن۔ مئی و جون 1960