ابو نعمان سیف اللہ خالد

سورۃ البقرہ
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٧٥؁
يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ٢٧٦؁
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٢٧٧؁
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٧٨؁
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ٢٧٩؁
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٢٨٠؁
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٢٨١؁ۧ

275-2
وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں، کھڑے نہیں ہوں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر خبطی بنادیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا بیع تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا، پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آئے پس وہ باز آجائے تو جو پہلے ہوچکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو دوبارہ ایسا کرے تو وہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

276-2
اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ایسے شخص سے محبت نہیں رکھتا جو سخت ناشکرا، سخت گنہگار ہو۔
277-2
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
278-2
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو ، اگر تم مومن ہو۔

279-2
پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کا اعلان سن لو اور اگر توبہ کرلو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
280-2
اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو آسانی تک مہلت دینا لازم ہے اور یہ بات کہ صدقہ کردو تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔
281-2
اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے احوال و کوائف، ان کے لیے اجر عظیم کے وعدوں اور ان کے گناہوں کی معافی کا ذکر ہوچکا، تو اب سود لینے والوں اور لوگوں کا مال حرام طریقوں سے کھانے والوں کا ذکر ہو رہا ہے اور ان انجام ہائے بد کا بیان ہو رہا ہے جن کا سامنا انھیں روز قیامت قبر سے نکلتے وقت کرنا پڑے گا۔ جس طرح وہ لوگ دنیا میں مال حرام کے حصول میں پاگل بن گئے تھے، برزخ میں اور روز قیامت اپنی قبروں سے اس طرح اٹھیں گے جیسے انھیں شیطان کے چھونے کی وجہ سے جنون اور مرگی لاحق ہوگئی ہو، اور یہ سزا انھیں اس لیے ملے گی کہ وہ کہتے تھے کہ بیع یعنی تجارت ربا کی مانند ہے اور اس طرح حلال و حرام کو ایک جیسا بناتے تھے اور سود کو حلال قرار دیتے تھے۔ تحریم ربا سے قبل جو مال سود کھانے والے نے لیا تھا، اسے لوٹانا ضروری قرار نہیں دیا گیا، لیکن جو شخص اس کے بعد سود کو حلال قرار دے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اس لیے کہ اس نے نص قرآنی کا انکار کیا اور اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال بنایا۔
ربا کا لفظی معنی بڑھنا، زیادہ ہونا ہے، اور شریعت کی اصطلاح میں قرض دے کر اصل مال سے جو زیادہ لیا جاتا ہے، اسے ربا کہتے ہیں۔ یعنی کسی قرض پر بغیر کسی مالی معاوضہ کے محض مہلت بڑھا دینے کی بنا پر زیادتی حاصل کی جائے۔

موجودہ بینکنگ کا نظام بھی واضح سود پر مبنی ہے۔ سیونگ اکاؤنٹ اور پی ایل ایس تو واضح سود ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ میں اگرچہ سود نہیں دیا جاتا مگر بنک وہ رقم آگے سود پر ہی چلاتا ہے۔ آج کل اسلامی بینکنگ کا بہت شور ہے، مگر علماء نے اسے سودی حیلہ پر مبنی قرار دیا ہے۔ بیمہ ( انشورنس) اور انعامی بانڈز بھی سود اور جوئے کا مرکب ہیں۔ سود کی ایک صورت نقد اور ادھار کی قیمتوں کا فرق ہے۔ قسطوں کا کاروبار اسی طرح چل رہا ہے، حالانکہ یہ بھی سود ہے، مثلاً ایک شخص کہے کہ میں تمہیں ایک ہزار روپے ادھار قرض دیتا ہوں مگر میں تم سے گیارہ سو روپے لوں گا۔ اس کے سود ہونے میں کیا شبہ ہے ؟ اسی طرح ایک چیز جس کی قیمت سب جانتے ہیں کہ ایک ہزار ہے۔ بیچنے والے اور لینے والے کو بھی علم ہے، پھر وہ اسے قسطوں پر گیارہ سو روپے میں دیتا ہے تو یہ کیوں سود نہیں۔

سود خواہ کوئی ذاتی ضرورت کے لیے لے یا تجارت کے لیے، جب اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا تو ہر طرح کا سود حرام ہے۔ اگر کوئی بچنا چاہے تو اسے واضح سود کے ساتھ ساتھ سود کے حیلے اور سود کے شک والے معاملات سے بھی بچنا ہوگا۔

سود کی مذمت اور اس کے دینی اور دنیوی مفاسد کے بیان میں بہت ساری احادیث آئی ہیں، سیدنا سمرہ بن جندب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب والی طویل حدیث میں بیان فرمایا : ” پھر ہم ایک نہر پر آئے، وہ نہر خون کی طرح سرخ تھی اور اس نہر میں ایک آدمی تیر رہا تھا، نہر کے کنارے پر بھی ایک آدمی تھا، جس نے اپنے پاس بہت سے پتھر جمع کر رکھے تھے۔ یہ تیرنے والا شخص تیرتا رہتا اور جب اس شخص کے پاس آتا جس نے اپنے پاس پتھر جمع کر رکھے تھے تو وہ اس کے منہ کو کھولتا اور اس میں ایک پتھر داخل کردیتا۔ “ پھر اس کی تعبیر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا ” اس سے مراد سود کھانے والا ہے۔ “ [ بخاری، کتاب التعبیر، باب تعبیر الرؤیا بعد صلاۃ الصبح : ٧٠٤٧

سیدنا ابو جحیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گودنے والی اور گدوانے والی، سود کھانے والے اور سود دینے والے اور مصور پر لعنت فرمائی ہے۔ “ [ بخاری، کتاب البیوع، باب ثمن الکلب : ٢٢٣٨

سیدنا جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا : ” بیشک زمانہ جاہلیت کا سود میرے دونوں پاؤں کے نیچے پامال ہے اور میں سب سے پہلے (اپنے چچا) عباس کا سود معاف کرتا ہوں۔ “ [ ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة التوبۃ : ٣٠٨٧۔ ابن حبان : ٣٩٤٤۔ مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٢١٨

سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا، سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت آیت ربا ہے۔ [ بخاری، کتاب التفسیر، باب ( واتقوا یومًا ترجعون فیہ إلی اللہ) : ٤٥٤٤ ]
سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سود کے ستر درجے ہیں، ان میں سب سے کم درجے کا گناہ اس قدر ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے نکاح (یعنی زنا) کرے۔ “ [ ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا : ٢٢٧٤ ]

سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سات ہلاک کردینے والے گناہوں سے بچو۔ “ صحابہ (رض) نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ! وہ کون سے گناہ ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، اللہ نے جس جان کو قتل کرنا حرام کردیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیرنا اور پاک دامن، مومن و غافل عورتوں پر تہمت لگانا۔ “ [ بخاری، کتاب الحدود، باب رمی المحصنات : ٦٨٥٧۔ مسلم، کتاب الإیمان، باب الکبائر : ٨٩

سیدنا جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود کھانے والے، سود دینے والے، سود تحریر کرنے والے اور سودی لین دین کے گواہوں پر لعنت کی ہے۔ آپ نے فرمایا : ”(گناہ میں) وہ سب برابر ہیں۔ “ [ مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن اٰکل الربا و موکلہ : ١٥٩٨ ]
يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ : شیطان کا آدمی کو نقصان پہنچانا خصوصاً اس کے دماغ پر حملہ آور ہونا کئی آیات و احادیث سے ثابت ہے، مثلاً چوکے مارنا، غصہ دلانا، بہکا کر حیران چھوڑ دینا، تکلیف یا بیماری میں مبتلا کردینا، بھلا دینا اور وسوسے ڈالنا وغیرہ۔

سیدہ صفیہ بنت حیی (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف کیے ہوئے تھے، ایک رات میں آپ کی زیارت کرنے کے لیے حاضر ہوئی، میں نے آپ سے باتیں کیں، پھر جب میں واپس جانے کے لیے اٹھی تو آپ بھی میرے ساتھ مجھے چھوڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ سیدہ صفیہ (رض) کی رہائش ان دنوں سیدنا اسامہ بن زید (رض) کے محلے میں تھی۔ راستے میں دو انصاری گزرے، جونہی انھوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو تیز تیز قدموں سے چلنے لگے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہے۔ “ وہ دونوں بولے، یا رسول اللہ ! سبحان اللہ ! آپ نے فرمایا : ” یقیناً شیطان انسان کے اندر اس طرح گردش کرتا ہے، جس طرح خون گردش کرتا ہے، مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی برا خیال “ یا آپ نے یہ فرمایا : ” کوئی چیز نہ ڈال دے۔ “ [ بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس و جنودہ : ٣٢٨١۔ مسلم، کتاب السلام، باب بیان أنہ یستحب لمن رؤی بامرأۃ۔۔ الخ : ٢١٧٥ ]
الغرض شیطان کے انسان کو چھو کر خبطی بنا دینے سے انکار قرآن و حدیث سے انکار ہے۔

ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا : یعنی ان کی یہ حالت اس لیے ہوگی کہ انھوں نے بیع یعنی فروخت کو بھی سود جیسا قرار دیا، اور سود کو اتنا حلال قرار دیا کہ بیع کی حالت کا سبب بھی سود کے ساتھ مشابہت کو قرار دیا۔ ان ظالموں کے نزدیک بیع اور سود میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں میں نفع آتا ہے۔ حالانکہ دونوں میں واضح کئی فرق ہیں۔ جن میں سب سے بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ دونوں برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟ علاوہ ازیں ایک فرق یہ ہے کہ تجارت میں نفع بھی ہوتا ہے نقصان بھی، جب کہ سودی قرض لینے والے کو نفع ہو یا نقصان سود خور نے ( خواہ ایک شخص ہو یا بینک) ہر حال میں پوری رقم مع سود وصول کرنی ہے، جو آئندہ بڑھتی ہی جائے گی۔ اس لیے سود ظلم اور مفت خوری کی بد ترین شکل ہے۔
فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ : یعنی سود کی حرمت کا حکم آنے کے بعد جو سود سے باز آجائے، تو پہلے جو وہ سود لے چکا ہے اس کا مطالبہ اس سے نہیں کیا جائے گا۔ البتہ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ وہ اس کے آئندہ طرز عمل، ندامت اور توبہ کو دیکھ کر فیصلہ فرمائے گا۔ یاد رہے یہ اس وقت کی بات ہے جب سود کی حرمت کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اب سود کی حرمت کو جانتے ہوئے کوئی شخص ساری عمر سود کھا کر آخر میں چھوڑ دے تو وہ مال اس کا نہیں رہ جائے گا بلکہ اس کو حتی الامکان اس کے مالکوں کو لوٹانا ہوگا، جو نہ لوٹا سکے اس پر بہت توبہ اور استغفار کرنا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ سود کے مال سے برکت چھین لیتا ہے اور صدقات کو بڑھاوا دیتا ہے، اس لیے کہ روزی کا مالک تو اللہ ہے اور اس کے پاس جو کچھ ہے وہ صرف اس کی اطاعت کر کے حاصل کیا جاسکتا ہے اور یہ امر شاہد ہے کہ سود خور کا مال بظاہر تو بڑھتا ہے لیکن اس کی برکت اس سے چھین لی جاتی ہے۔ دنیا میں اس کا سکون چھن جاتا ہے، اولاد نالائق ہوجاتی ہے اور قسم قسم کی پریشانیوں میں وہ گھرا رہتا ہے اور آخرت میں تو عذاب نار اس کا انتظار کر ہی رہا ہے۔
يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا : اللہ تعالیٰ اپنے احکام کے ذریعہ سودی لین دین کو ختم کر رہا ہے اور صدقات کو بڑھا رہا ہے، ارشاد فرمایا : (وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ) [ الروم : ٣٩ ] ” اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ “

سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص سود کے ذریعے سے مال میں اضافہ کرے گا اس کا انجام مال کی قلت ہوگا۔ “ [ مسند أحمد : ١؍٣٩٥، ح : ٣٧٥٣۔ ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا : ٢٢٧٩۔ مستدرک حاکم : ٢؍٣٧، ح : ٢٢٦٢]
وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سودی مال میں خیر و برکت عطا نہیں فرماتا۔ چناچہ سود خور پر دنیا بھی لعنت بھیجتی ہے اور آخرت میں بھی اسے وہ سزا ملے گی جو کسی دوسرے مجرم کو نہ ملے گی۔

وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ : یعنی انھیں پروان چڑھاتا ہے، یا انھیں پالتا پوستا ہے، جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص پاک کمائی میں سے ایک کھجور بھی صدقہ کرے، اور اللہ تعالیٰ پاک مال ہی کو قبول فرماتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرما لیتا ہے، پھر اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح پالتا پوستا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ صدقہ (بڑھ کر) پہاڑ کی طرح ہوجاتا ہے۔ “ [ بخاری، کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب : ١٤١٠۔ مسلم کتاب الزکوۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا : ١٠١٤ ]
ربا یعنی سود کی آیتوں کے درمیان اس آیت کو لانے کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ سودی کاروبار سے بچاؤ کا اہم سبب ایمان باللہ اور اس کے حقوق کی ادائیگی ہے۔
اس آیت میں مسلمانوں کو حتمی طور پر حکم دے دیا گیا کہ قرض داروں پر سود کی جو رقم رہ گئی ہے اب نہ لی جائے،

ایمان کا یہی تقاضا ہے، کیونکہ سود اور ایمان دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ تمام سود باطل قرار دے دیے جو قریش، ثقیف اور دوسرے عرب قبائل میں سے بعض تاجروں کے اپنے قرض داروں کے ذمہ باقی تھے۔
سیدنا جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : ” خبردار ہوجاؤ، جاہلیت کی تمام باتیں میرے دونوں قدموں کے نیچے پامال کردی گئیں، جاہلیت کے زمانہ کے تمام خون (میرے دونوں قدموں کے نیچے) پامال کردیے گئے ہیں، (اب کوئی کسی سے بدلہ نہیں لے سکتا) اور سب سے پہلا خون جو میں اپنے خونوں سے معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ بن الحارث کا خون ہے، جس کو قبیلہ ہذیل نے اس وقت قتل کردیا تھا جب وہ قبیلہ بنو سعد میں ابھی دودھ پیتا بچہ تھا اور جاہلیت کے زمانے کے تمام سود (میرے دونوں قدموں کے نیچے) پامال کردیے گئے ہیں اور سب سے پہلا سود جو میں باطل قرار دیتا ہوں وہ ہمارے سودوں میں سے عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے، وہ پورے کا پورا چھوڑ دیا گیا ہے (اب کوئی کسی سے سود نہیں لے سکتا) ۔ “ [ مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ١٢١٨ ]
سود لینا اللہ اور رسول کے خلاف کھلی جنگ ہے اور جس کی جنگ اللہ اور اس کے رسول سے ٹھن جائے وہ کب فلاح پائے گا۔ سودی کاروبار سے توبہ کرنے کے بعد صرف اصل مال لینا جائز ہوگا۔ آخر میں فرمایا کہ اگر تم اصل مال سے زائد وصول کرو تو یہ تمہارا لوگوں پر ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل مال بھی نہ ملے تو یہ لوگوں کا تم پر ظلم ہوگا اور یہ دونوں چیزیں ہی انصاف کے خلاف ہیں۔

زمانۂ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود، اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا، جس سے تھوڑی سی رقم ایک پہاڑ بن جاتی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہوجاتی، اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی تنگ دست ہو تو (سود کی بجائے) آسانی تک اسے مہلت دے دو اور اگر قرض بالکل معاف کردو تو زیادہ بہتر ہے۔

سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ” جس شخص نے کسی تنگ دست کو مہلت دی تو اسے ہر دن اس قرض کے برابر صدقے کا ثواب ملے گا۔ “ پھر میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا : ” جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی تو اسے ہر دن اس قرض سے دوگنا صدقے کا ثواب ملے گا۔ “ میں نے عرض کی، اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ” جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے تو اسے ہر دن اس قرض کے برابر صدقے کا ثواب ملے گا۔ “ لیکن پھر میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا : ” جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے تو اسے ہر دن اس قرض سے دوگنا صدقے کے برابر ثواب ملے گا ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قرض چکانے کی مدت تک اسے قرض کے برابر صدقے کا ثواب ملے گا اور اگر قرض چکانے کی مدت کے آنے پر مہلت دے تو اسے قرض سے دوگنا صدقے کے برابر ثواب ملے گا۔ “ [ مسند أحمد : ٥؍٣٦٠، ح : ٢٣١١٠۔ ابن ماجہ کتاب الصدقات، باب إنظار المعسر : ٢٤١٨۔ مستدرک حاکم : ٢؍٢٩، ح : ٢٢٢٥

سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ” بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے ایک دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگے، اس نے کہا گواہ لاؤ، تاکہ میں انھیں گواہ بنا لوں۔ اس نے کہا، گواہ اللہ ہی کافی ہے۔ اس نے کہا کوئی ضامن پیش کرو۔ اس نے کہا، اللہ تعالیٰ ضمانت دینے کے لیے کافی ہے۔ اس نے کہا تم نے سچ کہا، پھر اس نے قرض مانگنے والے کو وہ رقم ایک مقررہ وقت تک کے لیے دے دی۔ چناچہ قرض دار رقم لے کر بحری سفر کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس نے اپنی ضرورت پوری کی، پھر سواری کو تلاش کیا، تاکہ اس پر سوار ہو کر قرض خواہ کے پاس وقت مقررہ پر پہنچ جائے، لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ اب اس نے ایک لکڑی لی، اسے کھوکھلا کیا، اس میں ایک ہزار دینار اور ایک خط لکھ کر رکھ دیا اور اس کے منہ کو مضبوطی سے بند کردیا۔ اب وہ اس لکڑی کو لے کر سمندر کے کنارے آیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگا، اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لیا تھا، اس نے مجھ سے ضامن مانگا، میں نے کہا تھا اللہ ضامن کافی ہے۔ اس نے گواہ مانگا تو میں نے کہا گواہ بھی اللہ کافی ہے اور وہ راضی ہوگیا تھا۔ اب میں نے سواری کے لیے کوشش کی ہے لیکن سواری نہیں مل سکی۔ چناچہ میں یہ لکڑی تیرے سپرد کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے لکڑی کو سمندر کے سپر دکر دیا اور خود واپس آ گیا۔ وہ دوبارہ سواری تلاش کرنے لگا۔ ادھر وہ شخص جس نے قرض دیا تھا، سمندر کے کنارے پر یہ دیکھنے آیا کہ شاید کوئی سوار اس کا مال لے کر آیا ہو، تو اسے وہ لکڑی مل گئی۔ وہ اسے اپنے ایندھن کے لیے گھر لے آیا۔ جب اس نے اسے چیرا تو اس کو اس کی رقم مل گئی اور خط بھی مل گیا۔ پھر وہ قرض دار بھی ایک ہزار دینار لے کر اس کے پاس پہنچ گیا۔ قرض دار نے کہا، اللہ کی قسم ! میں سواری کے لیے برابر کوشش کرتا رہا، تاکہ تمہارا روپیہ تمہیں آ کر ادا کروں، لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ قرض خواہ نے کہا، کیا تم نے مجھے کوئی چیز بھیجی تھی ؟ اس نے کہا، میں نے تمہیں بتایا ہے کہ مجھے اس سے قبل کوئی سواری نہیں مل سکی۔ قرض خواہ نے کہا، بیشک اللہ نے تمہاری طرف سے رقم ادا کردی جو تم نے لکڑی میں رکھ کر بھیجی تھی، اب تم یہ ایک ہزار دینار لے کر خوشی خوشی واپس جاؤ۔ “ [ بخاری، کتاب الکفالۃ، باب الکفالۃ فی القرض : ٢٢٩١

سیدنا حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ایک شخص کی وفات ہوئی تو اس سے پوچھا گیا کہ تو کیا کیا کرتا تھا ؟ اس نے کہا، میں جب لوگوں سے خریدو فروخت کرتا تھا تو خوش حال کو مہلت دے دیا کرتا تھا اور تنگ دست پر تخفیف کردیا کرتا تھا، تو اس کو بخش دیا گیا۔ “ [ بخاری، کتاب الاستقراض، باب حسن التقاضی : ٢٣٩١۔ مسلم، کتاب المساقاۃ، باب فضل إنظار المعسر : ١٥٦٠ ]

سیدنا ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ عہد نبوت میں ایک شخص کو پھلوں کی تجارت میں کافی نقصان ہوا، جس کی وجہ سے اس پر قرض کا بوجھ بہت زیادہ ہوگیا، حتیٰ کہ وہ کنگال ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس پر صدقہ کرو۔ “ لوگوں نے اس پر صدقہ کیا مگر وہ صدقہ اتنا نہیں تھا کہ قرض پورا ادا ہوجاتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے قرض خواہوں سے کہا : ”( اس کے پاس تو یہی ہے) جو کچھ ملتا ہے لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔ “ [ مسلم، کتاب المساقاۃ، باب استحباب الوضع من الدین : ١٥٥٦ ]
سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ایک تاجر لوگوں سے لین دین کا معاملہ کرتا تھا، جب وہ کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے غلاموں سے کہتا کہ اس کو معاف کردو، شاید اللہ بھی ہمیں معاف فرما دے۔ (جب وہ فوت ہوا) تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔ “ [ مسلم، کتاب المساقاۃ، باب فضل إنظار المعسر : ١٥٦٢ ]

سیدہ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آوازیں سنیں، دونوں اونچی آواز میں بول رہے تھے، ایک ان میں سے دوسرے سے کچھ معاف کرانا چاہتا تھا اور چاہتا تھا کہ قرض خواہ اس کے ساتھ نرمی کرے۔ دوسرا یہ کہہ رہا تھا اللہ کی قسم ! میں ایسا نہیں کروں گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر ان کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ نے فرمایا : ” کہاں ہے وہ اللہ کی قسم کھا کر کہنے والا کہ وہ نیکی نہیں کرے گا ؟ “ اس نے کہا، اے اللہ کے رسول ! میں یہاں ہوں، (مگر اب) اس کو اختیار ہے، یہ جو چاہے کرے۔ [ مسلم، کتاب المساقاۃ، باب استحباب الوضع من الدین : ١٥٥٧ ]

سیدنا ابوقتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ قیامت کی سختیوں سے اسے نجات دے تو اسے چاہیے کہ تنگ دست کو مہلت دے، یا (بالکل) معاف ہی کر دے۔ “ [ مسلم، کتاب المساقاۃ، باب فضل إنظار المعسر : ١٥٦٣ ]
سیدنا ابو الیسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص کسی تنگ دست کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دے یا (قرضہ) معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ “ [ مسلم، کتاب الزھد، باب حدیث جابر (رض) : ٣٠٠٦

سیدنا حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ (روز قیامت) ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا جسے اللہ نے مال عطا کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا، تو نے دنیا میں کیا عمل کیا ؟ اور (اس روز) وہ اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی نہیں چھپا سکتے۔ بندہ کہے گا، یا اللہ ! تو نے دنیا میں مجھے بہت مال دے رکھا تھا اور میں لوگوں سے خریدو فروخت کرتا تھا اور میری عادت تھی کہ میں درگزر سے کام لیتا تھا، خوش حال سے آسان معاملہ کرتا اور تنگ دست کو مہلت دے دیا کرتا تھا۔ تو اللہ عزوجل فرمائے گا، میں اس بات کا تجھ سے زیادہ حق دار ہوں، (اے فرشتوں ! ) میرے اس بندے سے تم بھی درگزر کرو۔ چناچہ اسے معاف کردیا جائے گا۔ [ مسلم، کتاب المساقاۃ، باب فضل إنظار المعسر : ٢٩؍١٥٦٠۔ بخاری، کتاب البیوع، باب من أنظر موسرًا : ٢٠٧٧

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نصیحت کی اور انھیں یاد دلایا ہے کہ یہ دنیا زوال پذیر ہے اور یہاں کے اموال اور دیگر سب نعمتیں ختم ہوجانے والی ہیں، آخرت آنے والی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی مخلوق کے اعمال کا محاسبہ کرے گا اور اچھے اور برے اعمال کی جزا یا سزا دے گا۔

سورہء آل عمران
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ١٣٠؁ۚ
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ١٣١؁ۚ

130-3
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! مت کھاؤ سود کئی گنا، جو دگنے کیے ہوئے ہوں اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔
131-3
اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

چونکہ غزوۂ احد میں وقتی ناکامی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور مال دنیا کے لالچ کے سبب ہوئی تھی، اس لیے اب طمع دنیا کی سب سے بھیانک اور مستقل شکل سود سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت و فرماں برداری کی تاکید کی جا رہی ہے۔ یہاں سود کے متعلق آیتوں میں تین بار لفظ ” تقویٰ “ کو دہرایا گیا ہے، گویا سود نہ لینا تقویٰ کی اہم صفت ہے۔ ارشاد فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ) [ البقرۃ : ٢٧٨، ٢٧٩ ] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو ، اگر تم مومن ہو۔ پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کا اعلان سن لو اور اگر توبہ کرلو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔ “
سیدنا ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے (یہ تمام اشیاء) برابر برابر، نقد بنقد (فروخت کی جائیں) پھر جو زیادہ لے یا زیادہ دے تو اس نے سودی کاروبار کیا۔ سود لینے والا اور دینے والا (دونوں گناہ میں) برابر ہیں۔ “ [ مسلم، کتاب المساقاۃ، باب الصرف وبیع الذھب بالورق نقدًا : ١٥٨٤، قبل الحدیث : ١٥٨٨ ]

سیدنا فضالہ بن عبید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سونے کو سونے کے بدلے صرف برابر برابر (وزن کے ساتھ) ہی فروخت کرو۔ “ [ مسلم، کتاب المساقاۃ، باب بیع القلادۃ فیھا خرز و ذھب : ١٥٩١ ]
اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً : اس سے بعض لوگوں نے سود مرکب کو حرام اور سود مفرد کو حلال ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ یہاں اس زمانے کے سود خوروں کی سنگ دلی بیان ہو رہی ہے جو آج بھی موجود ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بہت سے لوگ دوسروں کو سودی قرضے دیا کرتے تھے، جب قرضے کی میعاد ختم ہوجاتی تو مقروض سے کہتے قرض ادا کرو ورنہ سود میں اضافہ کرو۔ قرض ادا نہ کرسکنے کی صورت میں میعاد کی توسیع کردی جاتی اور سود کی مقدار میں اضافہ کردیا جاتا اس طرح کچھ عرصہ کے بعد سود کی مقدار اصل زر سے بھی کئی گنا زیادہ ہوجاتی۔ سودی کاروبار کی اس بھیانک صورت حال کی طرف قرآن نے ” اضعافاً مضاعفۃ “ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ ورنہ یہ مطلب نہیں کہ مرکب سود حرام ہے اور مفرد جائز ہے۔ اسلام میں ہر قسم کا سود حرام ہے، صرف قرض کی صورت جائز ہے۔
:سود خوروں کو اس آگ سے ڈرایا جا رہا ہے جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ سود خوری کبھی آدمی کو کفر تک لے جاتی ہے۔ ارشاد فرمایا

(اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَظَلَمُوْا لَمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ طَرِيْقًا۔ اِلَّا طَرِيْقَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭوَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا) [ النساء : ١٦٨، ١٦٩ ] ” بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کیا اللہ کبھی ایسا نہیں کہ انھیں بخشے اور نہ یہ کہ انھیں کسی راستے کی ہدایت دے۔ سوائے جہنم کی راہ کے، جس میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ، اور یہ ہمیشہ سے اللہ پر بہت آسان ہے۔ “ اور فرمایا : (وَعَدَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭھِىَ حَسْبُهُمْ ۚ وَلَعَنَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ) [ التوبۃ : ٦٨ ]

” اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، وہی ان کو کافی ہے اور اللہ نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔ “
سیدنا ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لو، تو (تمام اہل ایمان جہنم سے) نکل آئیں گے۔ “ [ بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار : ٦٥٦٠ ]

سورۃالنساء
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا ١٦٠؀ۙ
وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ١٦١؁

160-4
تو جو لوگ یہودی بن گئے، ان کے بڑے ظلم ہی کی وجہ سے ہم نے ان پر کئی پاکیزہ چیزیں حرام کردیں، جو ان کے لیے حلال کی گئی تھیں اور ان کے اللہ کے راستے سے بہت زیادہ روکنے کی وجہ سے۔

161-4
اور ان کے سود لینے کی وجہ سے، حالانکہ یقینا انھیں اس سے منع کیا گیا تھا اور ان کے لوگوں کے اموال باطل طریقے کے ساتھ کھانے کی وجہ سے اور ہم نے ان میں سے کفر کرنے والوں کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہودیوں کے ظلم اور کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے اس نے ان کے لیے بہت سی ایسی پاکیزہ چیزوں کو بھی حرام قرار دے دے ا تھا، جسے ان کے لیے پہلے حلال قرار دیا تھا، یہ حرمت قدری بھی ہوسکتی ہے، یعنی اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی کتاب کی تاویل کی اور احکام الہی کو بدل کر بہت سی حلال چیزوں کو اپنے اوپر تشدد، سختی اور تنگی کے باعث حرام قرار دے لیا اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس حرمت سے مراد شرعی حرمت ہو اور اس کے معنی یہ ہوں کہ بہت سی چیزیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، اللہ نے تورات میں انہیں ان کے لیے حرام قرار دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے، سود کھاتے تھے اور لوگوں کا مال ناجائز طریقے سے کھا جایا کرتے تھے۔ ان جرموں کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے۔

فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ : ارشاد فرمایا : (وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِيْ ظُفُرٍ ۚ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُوْمَهُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَآ اَوِ الْحَوَايَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۭذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِبَغْيِهِمْ ڮ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ

الانعام : 146] اور ان لوگوں پر جو یہودی بن گئے، ہم نے ہر ناخن والا جانور حرام کردیا اور گائیوں اور بکریوں میں سے ہم نے ان پر دونوں کی چربیاں حرام کردیں، سوائے اس کے جو ان کی پشتیں یا انتڑیاں اٹھائے ہوئے ہوں، یا جو کسی ہڈی کے ساتھ ملی ہو۔ یہ ہم نے انھیں ان کی سرکشی کی جزا دی اور بلاشبہ ہم یقینا سچے ہیں۔ اور فرمایا : (كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِھٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىةُ ) [ آل عمران : 93] کھانے کی ہر چیز بنی اسرائیل کے لیے حلال تھی مگر جو اسرائیل نے اپنے آپ پر حرام کرلی، اس سے پہلے کہ تورات اتاری جائے۔

سورۃالروم
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ 39؀

39-30 اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو کچھ تم زکوٰۃ سے دیتے ہو، اللہ کے چہرے کا ارادہ کرتے ہو، تو وہی لوگ کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔

وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ : یعنی سود سے بظاہر اضافہ معلوم ہوتا ہے، لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کی نحوست بالآخر دنیا و آخرت میں تباہی کا باعث ہے۔ سیدنا ابن عباس (رض) اور متعدد صحابہ وتابعین نے اس آیت میں ” رِّبًا “ سے مراد سود ( بیاج) نہیں بلکہ وہ ہدیہ اور تحفہ لیا ہے جو کوئی غریب آدمی کسی مال دار کو یا رعایا کا کوئی فرد بادشاہ یا حکمران کو اور ایک خادم اپنے مخدوم کو اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں مجھے اس سے زیادہ دے گا۔ اسے ” رِّبًا “ سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ دیتے وقت اس میں اضافے کی نیت ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ مباح ہے، تاہم اللہ کے ہاں اس پر اجر نہیں ملے گا۔ (فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ) اس سے اسی اخروی اجر کی نفی ہے۔ اس سے نیوتا کی رقم اور سلامی کا عدم جواز بھی ثابت ہوتا ہے جو شادی بیاہ کے موقع پر رشتے دار ایک دوسرے کو دیتے ہیں، اس کی ابتدا شاید تعاون کے جذبے ہی سے ہوئی لیکن اب یہ قرض کی صورت اختیار کرگئی ہے جس کی ادائیگی ضروری سمجھی جاتی ہے اور عام طور پر اسے اضافے کے ساتھ ہی لوٹایا جاتا ہے، یوں اس میں سود کی آمیزش بھی ہوجاتی ہے، اس لیے اس رواج اور طریقے کو بھی شرعاً ختم کرنا ضروری ہے۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سود زیادہ بھی ہو تو اس کا انجام بالآخر قلت ہی ہے۔ “ [ مسند أحمد : ١؍٣٩٥، ح : ٣٧٥٣۔ ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا : ٢٢٧٩۔ مستدرک حاکم : ٢؍٣٧، ح : ٢٢٦٢ ]
سیدنا حکیم بن حزام (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیچنے والا اور خریدنے والا (سودا قائم رکھنے یا ختم کرنے کا) اس وقت تک اختیار رکھتے ہیں، جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں۔ اگر وہ سچ بولیں اور (سودے کی حقیقت کو) واضح کریں تو دونوں کو ان کے سودے میں برکت دی جاتی ہے اور اگر وہ ( کوئی عیب وغیرہ) چھپا لیں ( اور ایک دوسرے کو دھوکا دینے کی کوشش کریں) اور جھوٹ بولیں تو ان کے سودے کی برکت مٹ جاتی ہے۔ “ [ بخاری، کتاب البیوع، باب إذا کان البائع بالخیار : ٢١١٤۔ مسلم، کتاب البیوع، باب الصدق فی البیع والبیان : ١٥٣٢

وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ : یعنی جو مال اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے دیا جاتا ہے وہ اللہ کے ہاں کئی گنا ہوجاتا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا : (مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ) [ البقرۃ : ٢٦١ ] ” ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، ایک دانے کی مثال کی طرح ہے جس نے سات خوشے اگائے، ہر خوشے میں سو دانے ہیں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ اور فرمایا : (وَمَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَاۗءَ مَرْضَات اللّٰهِ وَتَثْبِيْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۢ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰ تَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ ۚ فَاِنْ لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ) [ البقرۃ : ٢٦٥ ] ” اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے دلوں کو ثابت رکھتے ہوئے خرچ کرتے ہیں، اس باغ کی مثال جیسی ہے جو کسی اونچی جگہ پر ہو، جس پر ایک زوردار بارش برسے تو وہ اپنا پھل دوگنا دے، پس اگر اس پر زور کی بارش نہ برسے تو کچھ شبنم۔ اور اللہ جو کچھ تم کر رہے ہو اسے خوب دیکھنے والا ہے۔ “

سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ حلال کمائی ہی کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے، پھر صدقہ دینے والے کے لیے اس کو پالتا ہے، جیسے تم میں سے کوئی اپنا بچھیرا پالتا ہے، یہاں تک کہ وہ صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ “ [ بخاری، کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب۔۔ الخ : ١٤١٠۔ مسلم، کتاب الزکوۃ، باب قبول الصدقۃ
من الکسب الطیب و تربیتہا : ١٠١٤ ]