سوال نمبر 1

تفصیلی جوابات
سوال 1: تفاسیر کی روشنی میں ربا (سود) کی مستند تعریف کیا ہے؟ کیا ربا‘یوژری اور انٹرسٹ میں کوئی فرق ہے؟ کیا ربا کا اطلاق اس انٹرسٹ پر بھی ہوتا ہے جو بینک اور مالیاتی ادارے تجارتی اور پیداواری مقاصد کے لیے دیے گئے قرضوں پر وصول کرتے ہیں؟

جواب: چونکہ ربا کی مستند تعریف کے لیے ہمیں قرآن و سنت کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا ہوگا‘ اس لیے اس سوال میں اُٹھائے گئے نکات پر براہِ راست گفتگو سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کی حتمی اور ناقابل تردید تعلیمات کا خلاصہ پیش کردیا جائے۔
قرآن مجید میں سود کے ضمن میں واردشدہ تعلیمات

(۱) (اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْج وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَN اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لاَ یَقُوْمُوْنَ اِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْآ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۷ وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواط فَمَنْ جَآءَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَط وَاَمْرُہٗ اِلَی اللّٰہِط وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَO یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِط وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍP) (البقرۃ)

5858’’جو لوگ سود کھاتے ہیں‘نہیں کھڑے ہوں گے (قیامت کے روز) مگر جس طرح ایسا شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے لپٹ کر خبطی بنا دیاہو۔ یہ اس لیے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ بیع بھی تو ربا کے مثل ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور ربا کو حرام قرار دیا ہے۔ پس جس کو اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ پہلے لے لیا ہے وہ اس کا ہوا۔ اور اُس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو شخص پھر ربا کی طرف لوٹا تو یہ لوگ دوزخی ہیں‘اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ربا کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘ اور اللہ تعالیٰ ہر کافرگنہگار کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘

(۲) (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبآوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَR فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖج وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ وْسُ اَمْوَالِکُمْج لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَS) (البقرۃ)

’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دوباقی ربا جو تم نے لینا ہے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔ اگر تم اس پر عمل نہ کرو گے تو اعلانِ جنگ سن لو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کرو گے تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے‘ تم ظلم نہ کرو گے اورتم پر ظلم نہ کیا جائے گا۔‘‘
ان آیات کے الفاظ (وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ) سے اس قدر بات تو بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سود دراصل قرض کی اصل رقم پر اضافے کا نام ہے۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات بھی صراحت سے معلوم ہو رہی ہے کہ اس اضافی رقم کا مطالبہ قرض خواہ کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مقروض نے بھی قرض خواہ سے قرض لیتے وقت اس اضافے کو شرط کے طور پر شدید مجبوری یا حاجت کے پیش نظر قبول کر لیا ہو‘ یا پھر اس نے منافع کے طمع میں باہمی رضامندی سے رأس المال پر یہ مشروط اضافہ ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہو‘ لیکن قرآن پاک کا قرض خواہوں کو یہ انتباہ کرنا کہ وہ سود کے بقایا جات چھوڑ دیں اور اصل اموال پر اکتفا کریں اس بات کی دلیل ہے کہ سود کا مطالبہ اپنے مفاد کے لیے قرض خواہ ہی کرتا ہے۔

(۳) (وَاِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍط وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَT ) (البقرۃ)

’’اور اگر قرض دار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک‘ اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لیے اور بھلا ہو اگر تم جانو۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ ربّ العزت نے قرض خواہ کو حکم دیا ہے کہ اگر مقروض تنگ دست ہو تو وہ اسے آسانی حاصل ہونے تک مہلت دے۔ یہاں اقتضاء النّص یہی ہے کہ قرض خواہ بغیر کسی مالی منفعت کے یہ مہلت دے‘ کیونکہ مذکورہ آیت میں تو قرض خواہ کو یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ اگر مقروض زیادہ تنگ دست ہو تو وہ اسے یہ رقم صدقہ کر دے‘اس دستور کے برعکس جو حرمتِ سود کے متعلق احکام نازل ہونے سے قبل عرب میں رائج تھا‘ یعنی مقروض اگر مقررہ مدت تک قرض کی واپسی کرنے سے معذور ہوتا تو اسے زائد رقم کے عوض مزید مہلت دی جاتی تھی‘ جیسا کہ کئی مفسرین نے نقل کیا ہے۔
احادیثِ رسول ﷺ میں ربا سے متعلق ارشادات
نبی ﷺ نے اپنے متعدد ارشادات میں سود کی مذمت فرمائی ہے اور قرآنی آیات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

(۱) ((اِنَّ الرِّبَا وَاِنْ کَثُرَ فَاِنَّ عَاقِبَتَہٗ تَصِیرُ اِلٰی قَلٍّ)) (مشکوٰۃ المصابیح‘ باب الربوٰا بحوالہ ابن ماجہ)

’’سود اگرچہ زیادہ منافع دے اس کا انجام غربت اور ناداری ہے ۔‘‘

(۲) عن جابرص قال: لعن رسولُ اللّٰہ ﷺ آکِلَ الرِّبَا وَمُوکِلَہٗ وَکَاتِبَہٗ وَشَاھِدَیْہِ وَقَالَ : ھُمْ سَوَاءٌ (رواہ مسلم )

’’رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے اور کھلانے والے پر اور اس کی تحریر لکھنے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی ہے اور فرمایا: یہ اس کے گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘

(۳) عن عبداللّٰہ بن حنظلہص غسیل الملائکۃ قال قال رسول اللّٰہﷺ: ((دِرْھَمُ رِبًا یَاْکُلُہُ الرَّجُلُ وَھُوَ یَعْلَمُ اَشَدُّ مِنْ سِتَّۃٍ وَثَلٰثِیْنَ زَنْیَۃً)) (احمد)

عبداللہ بن حنظلہh غسیل الملائکہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص جانتے بوجھتے سود کا ایک درہم کھاتا ہے اس کا گناہ اتنا ہے جتنا چھتیس مرتبہ زنا کر نا ہے۔‘‘

(۴) عن ابی ھریرۃص قال قال رسولُ اللّٰہ ﷺ : ((اتیتُ لیلۃً اسری بی علی قوم بُطونُھُم کالبُیوت فیھا الحَیات تُری من خارجِ بُطونِھم‘ فقلتُ : مَنْ ھٰؤُلَاءِ یَا جِبْرَءِیْل؟ قال: ھٰؤُلَاءِ اَکَلَۃُ الرِّبَا)) (احمد ابن ماجہ)

’’حضرت ابوہریرہ hسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں معراج کی رات ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ گھروں کی طرح تھے جن میں سانپ تھے اور باہر سے نظر آرہے تھے۔ میں نے جبرائیلd سے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیلd نے جواب دیا: یہ سود خور ہیں ۔‘‘

(۵) عن علیص قال قال رسول اللّٰہﷺ: ((کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَھُوَ رِبًا ))
(بخاری فی التاریخ)

حضرت علی سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر قرض جو نفع کھینچے تو وہ ربا ہے۔

‘‘(۶) عن فضالۃ بن عبیدص قال: ((کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ وَجْہٌ مِنْ وُجُوْہِ الرِّبَا)) (اعلاء السنن )
’’

ہر قرض جو نفع کھینچے وہ سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے ۔‘‘

(۷) حضرت انسh سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی کسی کو قرض دے تو اگر مقروض اسے ہدیہ دے یا سواری دے تو اس پر سوار نہ ہو اور ہدیہ قبول نہ کرے‘اِلاّ یہ کہ ان میں پہلے سے تعلقات تھے اور ایک دوسرے کو ہدیہ دیتے اور سواری پیش کرتے تھے۔‘‘
اسے ابن ماجہ نے اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ قرض خواہ کو مقروض سے ہدیہ کی صورت میں معمولی منفعت حاصل کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
عمارہ ہمدانی سے روایت ہے کہ حضرت علیh فرماتے ہیں:

قال رسول اللّٰہﷺ : ((کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَھُوَ رِبًا))۔ (المطالب العالیہ از ابن حجر: جلد۱‘ص۴۴۱‘ رقم ۴۴۱طبع بیروت)

اصل میں یہ حدیث حارث بن محمد بن ابی اسامہ التمیمی البغدادی(متوفی: ۲۸۲ھ) کی کتاب ’’مسند حارث‘‘ میں سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور اس حدیث مبارکہ نے بھی وضاحت کر دی کہ قرض خواہ کو قرض کی اصل رقم سے زائد جو بھی فائدہ حاصل ہو وہ سود ہے۔ علامہ ابن عبد البر m نے لکھا ہے کہ نبی اکرمﷺ سے منقول
سود کی تعریف پر پوری اُمت کا اجماع ہے۔ انہوں نے یہ تعریف یوں نقل کی ہے۔
اشتراط الزیادۃ فی السلف ربا و لو کان قبضۃ من علف او حبۃ (التمھید لابن عبد البر: ج۴‘ص۶۸۱‘ طبع لاہور‘ ۱۹۸۳ء)
قرض کے اصل مال پر اضافہ اور زیادہ کی شرط لگانا سود ہے اگرچہ یہ اضافہ مٹھی گھاس (جانوروں کے لیے چارہ) یا ایک دانہ ہی کیوں نہ ہو۔

ربا کا شرعی حکم
* قرآن مجید میں جووعید سودی لین دین پر کی گئی ہے وہ کسی دوسرے گناہ پر نہیں کی گئی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سود بہت بڑا ظلم ہے اورحقوق اللہ اور حقوق العباد پر ڈاکا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی قائم کر دہ اسلامی ریاست میں ہر قسم کے سودی لیندین کی ممانعت فر ما دی تھی اوراسے خلافِ قانون قرار دے دیا تھا ‘حتیٰ کہ غیر مسلموں سے جو معاہدے ہوئے ان میں انہیں اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ اپنے علاقوں میں سودی کاروبار نہیں کر یں گے اور اگر انہوں نے اس کی خلا ف ورزی کی تومعاہدہ منسوخ ہو جائے گا اورمسلمان ان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں گے ۔نجران کے عیسائیوں کے ساتھ اسی طرح کا معاہدہ ہو ا۔عرب کے قبیلہ بنو مغیرہ سود پر قرض کی رقمیں دینے میں مشہور تھے۔ فتح مکہ کے بعد نبی کریم ﷺ نے ان کا پورا سود منسوخ کر دیا اور مکہ میں اپنے عامل سے کہا کہ اگر یہ لوگ سودی لین دین جاری رکھیں تو ا ن کے خلاف جنگ کر کے انہیں اس کام سے روکیں ۔حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس hدورِ جاہلیت کے بڑے کاروباری تھے اور سودکا لین دین کرتے تھے‘لوگوں کو قرضے دے کر ان پر سود لیتے تھے ۔ حضورﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر صاف اعلان فر ما دیا: ’’دورِ جاہلیت کا پورا سود کالعدم ہو گیا اور سب سے پہلے میں اس سود کو منسوخ کرتا ہوں جو میرے چچاعباس بن عبدالمطلب کا لوگوں کی طرف رہتا ہے۔‘‘
* قرآن پاک میں ’بیع ‘مال کے بدلے میں مال کو کہا گیا ہے اور ’ربا ‘مہلت کے بدلے میں مال کو کہا گیا ہے ۔ ارشاد ہے:(اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواط)’’اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اورربا کو حرام۔‘‘ اس لیے کہ بیع میں فریقین مال کا تبادلہ کرتے ہیں۔خریدار روپیہ دیتا ہے اور بائع چیز فراہم کر تاہے ۔ جس چیز کے حصول کے لیے اس نے محنت کی ہے‘تھوڑایا زیادہ سفر کیا ہے‘وہ اپنی محنت کے بدلہ میں خریدار سے نفع لیتا ہے‘ جبکہ ربا میں مقروض جو روپیہ لیتا ہے اس پر اضافی رقم دیتا ہے۔ اس زائد رقم کے عوض میں قرض دینے والے نے اس کو کچھ نہیں دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُؤُوْسُ اَمْوَالِکُمْج)’’اگر تم سود خوری سے تائب ہو جاؤتو تمہیں تمہارا اصل سرمایہ ’رأس المال‘ ملے گا۔‘‘اور دوسری آیت میں فرمایا:(وَاِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍط) ’’اگر مقروض تنگ حال ہو تو اسے مہلت دی جائے آسانی تک۔‘‘ یعنی مدت کے بدلہ میں عوض نہ لو‘صرف مہلت دواور مہلت کا عوض نہ لو۔ ان آیات سے ربا کی حقیقت واضح ہو گئی ۔ اسے ربا القرآن اور ربا النسیءۃ کہا جاتا ہے ‘دورِ جاہلیت میں ربا کی یہی صورت جاری تھی ۔* ایک آدمی عبداللہ بن عمرiکے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک آدمی کو قرض دیتا ہوں اور شرط لگاتا ہوں کہ مجھے اس سے زیادہ دو گے جو میں نے دیا ہے ‘تو عبداللہ بن عمرi نے فرمایا :’’یہی تو ربا ہے ۔‘‘
* زید بن اسلم تابعی فرماتے ہیں کہ جاہلیت میں ربا کی شکل یہ ہوتی تھی کہ جب ادائیگی کی میعاد آجاتی تودائن اپنے مدیوں کو کہتا کہ حق دیتے ہویا سود دیتے ہو؟ اگر وہ اسے قرض واپس دیتا تو لے لیا جاتا اور اگر ادانہ کر سکتا تو قرض کی میعاد میں اضافہ کر لیا جا تا (اور اس کے بدلے میں مدت بڑھا دی جاتی) اور سود بھی بڑھا دیا جاتا۔ (مؤطا اما م مالک)
حرمت ربا پر اجماع امت ہے:
’’ربا‘‘ یعنی سود کی حرمت قطعی ہے ۔ قرآن وسنت سے بلا شک و شبہ ثابت ہے کہ ’’ربا‘‘کا لین دین ناجائز ہے ۔ اُمت مسلمہ صدرِ اوّل سے آج تک اس کی حرمت پر متفق ہے۔ صحابہ کرامؓ ‘تابعین‘تبع تابعین ‘ائمہ مجتہدین کا ہر دو ر میں اس پر اجماع رہا ہے ۔
ابن عبدالبرؒ (متوفی۴۶۲ھ) فرماتے ہیں : قد اجمع المسلمون نقلا عن نبیھم ان اشتراط الزیادۃ فی السلف ربا و لو کان قبضۃ اوحبۃ ۔ ’’مسلمانوں نے اپنے نبی ﷺ سے نقل کی بنا پر اجماع کیا ہے کہ قرض کے اصل مال پر اضافہ اور زیادتی کی شرط لگانا سود ہے اگرچہ یہ اضافی ایک مٹھی گھاس ہو یا ایک دانہ ہی ہو ۔‘‘
امام المفسرین ابن جریر طبریؒ ‘امام طحاویؒ ‘ابوبکر جصاص ؒ ‘امام بغویؒ ‘قاضی ابوبکر بن عربیؒ ‘امام فخر الدین رازی ؒ سب نے یہی کہا ہے کہ قرض کی اصل رقم پر جو زائد رقم بطور شرط و معاہدہ لی جاتی ہے وہ ربا ہے ۔
(۱) امام بغوی رحمہ اللہ (متوفی:۵۱۶ھ) فرماتے ہیں:

أن أھل الجاھلیۃ کان أحدھم اذا حل مالہ علی غریمہ فطالبہ فیقول الغریم لصاحب الحق: زدنی فی الأل حتی أزیدک فی المال‘فیفعلان ذلک (معالم التنزیل: جلد۱: ص۲۶۲)

’’جاہلیت کے زمانے میں جب کسی کے مال کی ادائیگی کی میعاد پوری ہو جاتی تو وہ اپنے قرض کا مطالبہ کرتا تو اس کا مقروض کہتا مدت بڑھا دو تو میں تمہارے قرض (کی رقم) میں اضافہ کر دوں گا۔ چنانچہ دونوں ایسا معاملہ کر لیتے۔‘‘(۲) امام ابو محمد عبد المنعم بن عبد الرحیم رحمہ اللہ(متوفی: ۵۴۷ھ) فرماتے ہیں:
ما کانت العرب تفعلہ من تاخیر الدَّین بزیادۃ فیہ فیقول احدھم لغریمہ: أتقضی أم تربی؟ (احکام القرآن: جلد۱: ص ۴۰۰)

’’اہل عرب قرض کی ادائیگی میں تاخیر کی بنا پر اس میں زیادتی کا معاملہ کرتے تھے۔ پس قرض خواہ تاخیر کے سبب مقروض کو کہتا کہ قرض دیتے ہو یا مع سود دو گے؟

(۳) امام فخر الدین رازی m(متوفی:۶۰۶ھ) نے زمانہ جاہلیت کے اس معمول کی یوں وضاحت کی ہے:
و أما ربا النسیءۃ فھو الأمر الذی کان مشھورًا متعارفًا فی الجاھلیۃ‘ وذلک أنھم کانوا یدفعون المال علی أن یأخذوا کل شھر قدرًا معینًا ‘ ویکون رأس المال باقیًا ‘ثم اذا حل الدَّین طالبوا المدیون برأس المال‘ فان تعذر علیہ الأداء زادوا فی الحق و الأجل ‘فھذا ھو الربا الذی کانوا فی الجاھلیۃ یتعاملون بہ (التفسیر الکبیر: جلد ۷: ص۷۲)

’’ادھار کا سود جاہلیت کے زمانے میں معروف و مشہور تھا۔ اس کی شکل یہ ہوتی تھی کہ لوگ اپنا ادھار مال اس شرط پر لوگوں کو دیتے کہ اتنی مقدار ماہانہ سود دینا ہو گا اور اصل رقم بدستور باقی رہے گی۔ جب ادائیگی کی میعاد پوری ہو جاتی تو قرض دار سے ادائیگی کا مطالبہ کرتے۔ اگر وہ ادائیگی سے معذور ہوتاتو میعاد بڑھا دی جاتی اور اس میعاد کے بدلے میں سود بھی بڑھا دیا جاتا۔ یہی وہ ربا تھا جس پر جاہلیت کے زمانے میں معاملات ہوتے تھے۔‘‘
امام فخر الدین رازی اور امام بغوی رحمۃ اللہ علیہما نے سود کے حوالے سے جو تعریفات بیان کیں‘ہم انہیں پہلے ہی نقل کر چکے ہیں۔

(۴) پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ لکھتے ہیں:
’’لغت عرب میں ربا کا معنی زیادتی ہے۔ اصطلاح میں اس مقررہ زیادتی کو ربا کہا جاتا تھا جو کسی رقم کی ادائیگی میں دیر کرنے پر ادا کی جاتی تھی۔ اس کی مروجہ شکلیں یہ تھیں کہ کسی نے کوئی چیز خریدی‘اگر وہ قیمت نقد ادا نہ کرسکتا تو ایک میعاد مقرر کی جاتی اور اگر وہ اس میعاد پر بھی قیمت ادا نہ کر سکتا تو میعاد بھی لمبی کر دی جاتی اور قیمت میں بھی اضافہ کر دیا جاتا۔ مثلاً دس روپے کی کوئی چیز لی اور ایک ماہ کے بعد قیمت ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ مہینہ گزرنے کے بعد اگر اسے دس روپے میسر نہ آئے تو وہ ایک مہینہ کی مہلت مزید طلب کرتااور دس کی بجائے بارہ روپے ادا کرنے کا اقرار کرتا۔ ایک شکل یہ بھی تھی کہ کسی سے سو روپیہ مثلاً قرض لیا اور طے یہ پایا کہ مقروض ہر سال سو کے ساتھ دس روپے زائد ادا کرے گا۔ ان دونوں شکلوں کو اس وقت ربا کہا جاتا۔‘‘(ضیاء القرآن: ج۱‘ص ۱۹۳)
(۵) مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ رقم طراز ہیں:
’’اصطلاحاً اہل عرب اس لفظ ’’ربوٰا‘‘ کو اس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وصول کرتا ہے۔ اسی کو ہماری زبان میں سود کہتے ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن: ج۱‘ ص۲۱۰)
(۶) مولانا امین احسن اصلاحیؒ ربا کی تعریف یوں فرماتے ہیں:
’’رَبَا ‘یَرْبُوْ ‘رِبَاءً کے معنی بڑھنے اور زیادہ ہونے کے ہیں۔ اسی سے ’’ربوٰ‘‘ ہے جس سے مراد وہ معین اضافہ ہوتا ہے جو ایک قرض دینے والا ایک مجرد مہلت کے عوض اپنے مقروض سے اپنی اصل رقم پر وصول کرتا ہے۔ جاہلیت اور اسلام دونوں میں یہ اصطلاح مذکورہ مفہوم کے لیے مشہور رہی ہے۔ اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں لیکن اس کی اصل حقیقت یہی ہے کہ قرض دینے والا قرض دار سے ایک معین شرح پر صرف اس حق کی بنا پر اپنے دیے ہوئے روپے کا منافع وصول کرے کہ اس نے ایک خاص مدت کے لیے اس کو روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے۔‘‘(تدبر قرآن: ج۱‘ص ۵۸۶)
قرآن و سنت‘ اجماع امت اور مفسرین و فقہاء کی مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں ہماری یہ رائے ہے کہ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ کے دسمبر ۱۹۹۹ء کے تاریخ ساز فیصلے میں سود کی جو تعریف کی گئی ہے وہ ایک مستند اور جامع و مانع تعریف ہے۔یہ تعریف اس طرح ہے:
Any amount big or small over the principal, in a contract of loan or debt is Riba prohibited by the Holy Quran regardless of whether the loan is taken for the purpose of consumption or some production activity.
یہ تعریف سورۃ البقرۃ کی آیت۲۷۵ سے اخذ کی گئی ہے‘ جس میں فرمایا گیا:
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور چھوڑ دو جو کچھ سود میں سے باقی ہے اگر تم (واقعی) مؤمن ہو۔ تو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول(ﷺ)کی طرف سے جنگ کا اعلان سن لو۔ اور تم باز آجاؤ تو تمہارے رأس المال کا حق تمہیں حاصل ہے۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیاجائے۔‘‘ترجمے کے جلی الفاظ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرض کے طور پر دیے گئے اصل زر میں کسی بھی قسم کا اضافہ سود کے زمرے میں شمار ہو گا‘ قطع نظر اس کے کہ یہ سود مفرد ہے یا سود مرکب‘ آیا اصل زر میں یہ زیادتی اشیاء/ خدمات کی فراہمی کی مد میں کی گئی ہے یا پھر کسی قسم کے پیداواری عمل کے ضمن میں۔ اس تعریف کے مستند اور معتبر ہونے کا جواز یہ ہے کہ سود کی توضیح و تصریح کے حوالے سے ابن جریر طبری‘ ابوبکر جصاص‘ بغوی‘ ابن العربی‘ امام رازی جیسے مفسرین کرام کے علاوہ دوسرے نامور شارحین قرآن نے بھی جو نقطۂ نظر بیان کیا ہے‘یہ اس کے عین مطابق ہے۔ ان علماء کرام نے سود کی وضاحت دورِ جاہلیت میں مروج درج ذیل تین صورتوں کے تناظر میں کی ہے:
(i قرض کا معاہدہ اصل زر سے زیادہ رقم کی ادائیگی سے مشروط ہوتا تھا۔ چنانچہ قرض دیتے وقت ہی سود کی شرح طے کر لی جاتی تھی۔ ابوبکر جصاص اپنی کتاب ’’احکام القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’عربوں میں سود کا یہ طریق رائج تھا کہ وہ ایک مخصوص مدت کے لیے درہم یا دینار کی صورت میں قرض دیتے تھے اور اصل زر سے زیادہ کوئی رقم ابتدا ہی میں طے کر لی جاتی تھی۔‘‘
(ii قرض اس شرط پر (بھی) دیا جاتا تھا کہ قرض خواہ ایک مخصوص مدت تک ہر ماہ ایک طے شدہ رقم وصول کرے گا جبکہ اصل زر محفوظ رہے گا۔ بعدازاں‘ جب قرض کی ادائیگی کا وقت آتا تو قرض دار سے اصل زر کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جاتا۔ اگر قرض دار ایسا کرنے سے معذور ہوتا تو قرضے کی مدت اور قابل ادائیگی رقم میں اضافہ کر دیا جاتا۔
(iii (کبھی) کوئی شے مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر فروخت کی جاتی تھی۔ جب ادائیگی کا وقت قریب آتا تو مال بیچنے والے کی طرف سے خریدار کو مزید مہلت دیتے ہوئے واجب الادا رقم میں اضافہ کر دیا جاتا۔ اس عمل کے بارے میں سیوطی لکھتے ہیں:
’’عربوں میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ وہ کسی شے کو مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر خرید لیتے تھے۔ ادائیگی کے لیے طے شدہ تاریخ پر فروخت کنندہ ادا کی جانے والی اصل رقم میں اضافہ کرتے ہوئے مدتِ ادائیگی کو بڑھا دیتا۔‘‘
چنانچہ بسا اوقات قرض کا معاہدہ طے کرتے وقت اس میں اصل زر میں اضافے کی کوئی شق نہیں رکھی جاتی تھی بلکہ ایسا اُس وقت کیا جاتا جب معاہدے کی مدت ختم ہو جاتی اور ادائیگی کا وقت قریب آتا۔سود کی درج ذیل تعبیر کو بھی مستند‘ معتبر اور معیاری قرار دیا جا سکتا ہے:
’’ربا کسی قرض یا ادھار کے معاہدے میں سرمائے میں وہ اضافہ ہے جس کے مقابل کسی رقم‘ محنت یا ذمہ داری کا بدل نہ ہو۔‘‘
اس تعریف کا خاص پہلو یہ ہے کہ اسے نبی اکرمﷺ کے قول الخراج بالضمان(نفع کے استحقاق کا انحصار نقصان کی ذمہ داری لینے پر ہے) کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کی تطبیق یہ ہے کہ ایک سودی معاہدے میں قرض خواہ اپنے طور پر کوئی محنت کیے بغیر یا نقصان کی ذمہ داری کا خطرہ مول لیے بنا منافع کماتا ہے۔
شریعت کی رُو سے‘ سود اور یوژری میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لہٰذا‘ ربا کی اصطلاح اُن تجارتی اور پیداواری قرضوں پر بھی منطبق ہوتی ہے جو بینکوں یا مالیاتی اداروں کی جانب سے دیے جاتے ہیں۔
یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ انٹرنیشنل فقہ اکیڈمی اور دنیا کے دوسرے معروف فقہی اداروں نے ربا کی جو تعریف کی ہے‘ اس میں بینکنگ اور بینکوں کے تجارتی منافع کی موجودہ شکل کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ امت مسلمہ کے مجتہدین کا اس مسئلے پر ایک نوع کا اتفاقِ رائے اور اجماع ہے۔ چنانچہ ربا کی تعریف اور ربا‘ سود اور یوژری (usury) کے درمیان فرق سے متعلق ہے تو اس کے بارے میں ہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلیٹ بینچ کے ۲۳ دسمبر۱۹۹۹ء کے فیصلہ میں مذکور گفتگو سے پوری طرح متفق ہیں اور اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ تعریف اس فیصلہ کے درج ذیل صفحات میں آئی ہے :
Judgement of Justice Khalil Ur Rehman PLD page no. 82 to 85 (publisher: Shariah Academy, International Islamic University, Islamabad)
Judgement of Justice Mufti Muhammad Taqi Usmani Sb PLD page no. 667 to 681 (Publisher: Malik Muhammad Saeed, Pakistan Educational Press Lahore)
اسی طرح تجارتی اور پیداواری قرضوں پر اطلاق سے متعلق معاملہ ہے‘ اس کے بارے میں بھی ہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپیلیٹ بینچ کے۲۳دسمبر۱۹۹۹ء کے فیصلہ میں مذکور گفتگو سے پوری طرح متفق ہیں اور اسی کو اختیار(adopt)کرتے ہیں۔ اس کے متعلق گفتگو اس فیصلہ کے درج ذیل صفحات میں آئی ہے :Judgement of Justice Khalil Ur Rehman PLD page no.127 to 140 (publisher: Shariah Academy, International Islamic University, Islamabad)
Judgement of Justice Mufti Muhammad Taqi Usmani Sb PLD page no. 667 to 681 (Publisher: Malik Muhammad Saeed, Pakistan Educational Press Lahore)
چنانچہ ربا‘ سود (Usury) اور Interest میں کوئی فرق نہیں کیونکہ تینوں میں وہ تین مشترکہ باتیں پائی جاتی ہیں جو ربا کی تعریف میں شامل ہیں۔
(۱) قرض کی اصل رقم پر مہلت کے عوض اضافہ
(۲) اضافہ کی شرح کا متعین ہونا
(۳) اضافہ کی شرط کا معاہدہ قرض میں شامل ہونا
جدید معاشی اصطلاحات میں بھی Interest اور Usuryمیں کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام مستند ڈکشنریوں میں دونوں کا مفہوم سود ہی بیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف شرح سود کا ہے‘ اس لیے کہ Usuryمیں شرح سود نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ چار ہزار سال پہلے کے قانونِ حمو رابی سے لے کر آج تک یوژری اور انٹرسٹ ایک ہی سمجھے گئے ہیں۔ شرح سود مختلف ادوار اور مختلف ممالک میں ۲ فیصد سے لے کر ۶۰ فیصد بھی رہی ہے اور محض شرح سود کے فرق سے ایک کو جائز اور دوسرے کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔
ربا کا اطلاق اس سود پر بھی ہوتا ہے جو بینک تجارتی اور پیداواری قرضوں پر وصول کرتے ہیں ‘کیونکہ ربا یعنی سود سے مراد نہ تو کسی خاص قسم کا سود ہے‘ جیسے سود مفرد یا سود مرکب اور نہ ہی اس کا اطلاق کسی مخصوص قسم کے قرض پر ہوتا ہے ‘جیسے صرف صرفی قرضوں پر یا تجارتی و پیداواری قرضوں پر‘ بلکہ ربا کے احاطے میں ہر طرح کا سود آ جاتا ہے اور ہر قسم کے قرض پر حاصل کیا جانے والا مشروط اور معین اضافہ ’’الربٰوا‘‘ ہی کہلائے گا ‘خواہ یہ قرض کوئی فرد یا ادارہ یا بینک تجارتی اور پیداواری مقاصد کی خاطر ہی کیوں نہ جاری کرے۔ اس ضمن میں ہمارے دلائل حسب ذیل ہیں:
(۱) ربا کی حرمت کا حکم عام ہے ‘یعنی اسے کسی خاص قرض یا کسی ایک نوع کے سود کے ساتھ مخصوص نہیں کیا گیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(وَ اَحَلَّ اللّٰہُ البَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواط) (البقرۃ: ۲۷۵)
’’اللہ نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام کیا ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں لفظ ’الربٰوا‘ مفرد ہے جس پر الف لام استغراقی وارد ہوا ہے جو اس کے عام ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اصول سرخسی میں ہے کہ لفظ عام کی تقریباً سات قسمیں ہیں جن میں ایک قسم یہ ہے کہ وہ لفظ مفرد ہو اور اس پر الف لام استغراقی وارد ہوا ہو۔
ھو اللفظ الذی یستغرق جمیع ما یصلح لہ من الافراد (اصول سرخسی: ج۱‘ص ۱۲۵)
عام وہ لفظ ہے جو ان تمام افراد و اقسام کو شامل ہو جو اس کے مفہوم میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ چنانچہ لفظ الربٰواکے عام ہونے کا معنی یہی ہے کہ اس کا اطلاق صرف صرفی قرضوں پر نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ ہر قسم کے قرضوں پر محیط ہو گا۔ اصول سرخسی میں ہی ہے کہ وہ الفاظ بھی عام ہونے پر دلالت کرتے ہیں جن کے حقیقی معنی میں عموم و شمول موجود ہو‘ جیسے کل ‘ جمیع ‘ عامۃ ‘ کافۃ وغیرہ۔ عام کی اس قسم کو سامنے رکھا جائے تو یہ قسم درج ذیل حدیث مبارکہ کے حوالے سے ہر نوع کے قرض پر ربا کا اطلاق کیے جانے پر دلالت کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَھُوَ رِبًا)) (المطالب العالیہ از ابن حجر: ج۱‘ص۴۴۱ رقم:۱۳۷۳ طبع بیروت)

’’ ہر قرض جو فائدہ کھینچے وہ ربا ہے۔‘‘
یہ حدیث پہلے بھی حوالہ کے ساتھ نقل کر دی گئی ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں لفظ ’ کُلُّ‘ کی وسعتوں میں ہر قرض سما جاتا ہے ‘خواہ وہ کسی بھی مقصد کے لیے لیا گیا ہو‘ کیونکہ جب سود کی حرمت اور اس کی تعریف متعین کرنے والی مذکورہ نصوص کے متن کے الفاظ عام ہیں اور ان عام الفاظ کے بعد کوئی فقرہ شرطیہ یا استثنائیہ موجود نہیں اور نہ ہی دیگر نصوص میں سے کوئی اس عام حکم میں تخصیص و استثناء پیدا کرتی ہے تو پھر مذکورہ نص کے الفاظ کو عام میں ہی شامل کیا جائے گا‘ جس سے کسی مخصوص قرض کے استثناء کی گنجائش خود بخود ختم ہو جاتی ہے اور اس کا اطلاق ہر اُس قرضے پر ہو گا جس کے معاہدہ میں اصل رقم پر معینہ اضافہ کی شرط عائد ہو ‘خواہ اس قرض کے مقاصد کچھ بھی ہوں۔(۲) غالباً معزز عدالت کی طرف سے یہ سوال پوچھنے کا سبب مروجہ نظام بینکاری کے حامیوں کا یہ پراپیگنڈا بھی ہے کہ اسلام نے اس سود کو حرام قرار دیا ہے جو ان قرضوں پر وصول کیا جاتا جنہیں مجبور لوگ اپنی صرفی ضروریات کے لیے لیتے تھے اور قرض خواہ پھر ان مظلوموں سے بھاری بھاری سود وصول کرتے تھے جبکہ تجارتی قرضوں کا تو اُس زمانے میں رواج ہی نہیں تھا۔ مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے اس حوالے سے آیت مبارکہ (وَاِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ) پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’عربی زبان میں ’اِنْ‘ کا استعمال عام اور عادی حالات کے لیے نہیں ہوتا بلکہ بالعموم نادر اور شاذ حالات کے بیان کے لیے ہوتا ہے۔ عام حالات کے بیان کے لیے عربی میں ’اِذَا‘ ہے۔ اس روشنی میں غور کیجیے تو آیت کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اس زمانہ میں عام طور پر قرض دارذُومَیسَرہ (خوش حال) ہوتے تھے لیکن گاہ گاہ ایسی صورت بھی پیدا ہوتی تھی کہ قرض دار غریب ہو یا قرض لینے کے بعد غریب ہو گیا ہو تو اس کے ساتھ رعایت فرمائی۔‘‘ (تدبر قرآن: ج۱‘ ص ۵۹۴‘۵۹۵)
انہوں نے اسی مقام پر اپنے استاذ گرامی مولانا حمید الدین فراہیؒ کی رائے بھی نقل کی ہے جس کا بیان خالی از فائدہ نہیں ہے: (وَاِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍط وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ) یلوح من ھذا الکلمات انھم کانوا یاخذون الربوٰ من ذی میسرۃ و القریش کانت تجارا و اصحاب الربوٰ فلا اریٰ فرقا بین حالھم و حال ابناء زماننا فی الربوٰ ‘ واللّٰہ اعلم بالصواب (تدبر قرآن: ج۱‘ص۵۹۵)
وَاِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ ۔۔۔الآیۃ
کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اہل عرب خوش حالوں سے بھی سود لیتے تھے۔ پھر قریش تاجر لوگ تھے اور سودی بیوپار ان میں رائج تھا۔ اس وجہ سے اس معاملے میں ان کے اور ہمارے حالات کے درمیان کوئی خاص فرق ہمیں در باب سود نظر نہیں آتا۔ واللہ اعلم بالصواب!

(۳) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلآی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاوَلْیَکْتُبْ بَّیْنَکُمْ کَاتِبٌم بِالْعَدْلِص وَلاَ یَاْبَ کَاتِبٌ اَنْ یَّکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلْیَکْتُبْج وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَلاَ یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْءًاط ) (البقرۃ:۲۸۲)

’’اے ایمان والو! جب تم کسی سے مقررہ مدت تک آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو ‘اور تمہارے درمیان کسی کا تب کو عدل کے ساتھ دستاویز لکھنی چاہیے‘ اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے لکھنا سکھایا ہو اُس کو لکھنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے‘ اور جس شخص پر قرض ہو لکھوانا اُسی کی ذمہ داری ہے اور اُس کو اللہ سے ڈرنا چاہیے ‘جو اُس کا ربّ ہے اور وہ اس (قرض) سے کچھ کم نہ کرے۔‘‘
یہ آیت جسے ’’آیۃُ الدَّین‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ قرآن پاک کی سب سے لمبی آیت ہے۔ ہم نے اس کا ابتدائی حصہ نقل کیا ہے۔ اس آیت کے متن سے بھی یہ بات آشکار ہو رہی ہے کہ یہاں کسی مسکین یا محتاج کو ذاتی ضروریات کے لیے اُدھار یا قرض دینے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ بڑے بڑے مقاصد جیسے تجارتی و پیداواری اغراض کی خاطر قرض لینے دینے کی بات ہو رہی ہے‘ کیونکہ یہاں اہتمام کے ساتھ معاہدۂ قرض کو تحریر کرنے کی بات کی گئی ہے۔ پھر اس تحریر پر گواہان بھی ضروری ہوں گے ورنہ یہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس لیے اسی آیت مبارکہ میں اس طریق کار کو ثبوت بذریعہ گواہی کے لیے بھی درست قرار دیا گیا ہے۔صاف ظاہر ہے یہ اہتمام ذاتی ضرورت کے لیے حاصل کیے گئے معمولی اور دست بدست اُدھار کے حوالے سے موزوں معلوم نہیں ہوتا بلکہ یہ ان قرضوں کے لیے ہی مناسب ہو گا جو ایک خاص مدت کے لیے ایک معاہدہ کی صورت میں دیے اور لیے جا رہے ہیں‘جیسے کاروباری اور تجارتی مقاصد کے لیے دیے اور لیے جانے والے قرضے۔ اس آیت مبارکہ میں قرض خواہ اور مقروض کو جو ہدایات دی گئی ہیں ان کا مقصد باہمی شکوک و شبہات کا ازالہ تھا۔ ہماری اس بات کی تائید حضرت ابن عباسh سے مروی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے واضح فرما دیا کہ یہ آیت مبارکہ گندم کی بیع سلم کے متعلق نازل ہوئی ہے اور بیع سلم اُدھار کی بیع ہے۔
امام ابن جریر روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس hنے فرمایا:

نزلت ھذہ الأیۃ: (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلآی اَجَلٍ مُّسَمًّی) فی السلف فی الحنطۃ فی کیل معلوم الی اجل معلوم۔(جامع البیان:ج۳‘ص ۱۵۹)

’’یہ آیت گندم کی بیع سلم کے متعلق نازل ہوئی ہے [گندم کی قیمت کی پیشگی ادائیگی کر دی جائے اور فصل کٹنے کے بعد گندم کو وصول کر لیا جائے] اس میں گندم کی مقدار بھی معلوم ہو اور اس کی مدت بھی معلوم ہونی چاہیے۔‘‘
(۴) پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ نے بھی ’’وَ اَحَلَّ اللّٰہُ البَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا‘‘ کے تحت صرفی اور تجارتی قرضوں کے ضمن میں فکر انگیز باتیں کی ہیں:
’’یہاں ایک اور بات تحقیق طلب ہے کہ کیا اُس وقت کے لوگ نجی ضروریات کے لیے ہی قرض لیا کرتے تھے یا کاروبار کرنے کے لیے بھی سودی قرض کا اس وقت عام رواج تھا؟ بعض لوگ جنہیں عرب کے حالات اور رسم و رواج کے تفصیلی مطالعہ کی فرصت نہیں ملی‘ کہتے ہیں کہ اُس وقت صرف ذاتی ضروریات کے لیے ہی قرض لیا جاتا تھا اور کاروبار کے لیے قرض لینے کا اس قدیم غیر متمدن معاشرہ میں کوئی تصور نہیں تھا ‘لیکن اگر وہ دنیا کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اُس وقت جبکہ نہر سویز نہیں کھدی تھی‘ جبکہ بڑے بڑے بحری جہاز معرضِ وجود میں نہیں آئے تھے‘ مشرق و مغرب کی تجارت خشکی کے راستے سے ہوتی تھی اُس وقت تجارتی کاروانوں کی راہ گزر جزیرہ عرب تھا۔ عرب کے لوگ عموماً اور اہل مکہ خصوصاً تجارت میں خوب حصہ لیتے تھے اور اس امر کا تذکرہ تو خود قرآن حکیم میں ہے کہ اہل مکہ کے تجارتی قافلے سردیوں میں یمن و فارس کی طرف اور گرمیوں میں شام و روم کی طرف باقاعدگی سے جاتے تھے اور یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔ اور تاریخ اس پر شاہد ہے کہ جو قافلہ شام سے ابو سفیان کی قیادت میں مکہ واپس آ رہا تھا جس کا مسلمانوں نے مدینہ طیبہ سے نکل کر محاصرہ کرنے کا ارادہ کیا تھا اس میں تمام اہل مکہ کا سرمایہ تھا۔ مکہ میں کوئی گھر ایسا نہ تھا جس نے اس میں اپنا حصہ نہ ڈالا ہو اور حصہ ڈالنے کی دو مختلف شکلیں رائج تھیں۔ یا تو سرمایہ دینے والا نفع میں شریک ہوتا تھا یا وہ اپنا مقررہ حصہ ٹھہرا لیا کرتا خواہ قرض لینے والے کو نفع ہو یا نقصان۔ ان تاریخی حقائق کی موجودگی میں یہ فرض کر لینا کب روا ہے کہ اس وقت کے اہل عرب کاروبار کے لیے سودی قرض نہیں لیا کرتے تھے۔ قرآن نے ہر ربا کو حرام کیا۔ کہیں آپ کاروباری سود لینے کی اجازت نہیں دکھا سکتے۔‘‘ (ضیاء القرآن: ج۱‘ص۱۹۳)
جیسا کہ ہم نے واضح کر دیا کہ اصولی طور پر اسلام نے سود کے اطلاق کے حوالے سے صصرفی اور پیداواری قرضوں میں کوئی فرق نہیں کیا اور نہ ہی پیداواری مقاصد کے لیے دیے جانے والے قرضوں پر سود کو جائز قرار دیا ہے۔ آج تک پیداواری قرضوں کے فرق کی بنا پر سود کے جواز کے قائلین اپنے موقف کی تائید میں کوئی نص قرآنی تو درکنار صحیح الاسناد حدیث بھی نہیں پیش کر سکے ‘جبکہ ہم نے بعض قرآنی آیات کی تشریح سے یہ واضح کر دیا ہے کہ سود کے اطلاق کے اعتبار سے کاروباری اغراض کے لیے دیے جانے والے قرضوں کا استثناء یا تخصیص ‘کتاب و سنت کے منضبط احکام سے میسر نہیں آتی ہے۔ ہم نے یہ بھی واضح کر دیا کہ زمانہ جاہلیت میں بھی صرفی ضروریات کے ساتھ تجارتی اور پیداواری ضروریات کے لیے بھی قرض کا لین دین رائج تھا اور ایسے قرضوں پر بھی سود لیا اور دیا جاتا تھا۔ اب ہم چند ایسی روایات پیش کرتے ہیں جن سے یہ معاملہ بالکل بے غبار ہو جائے گا کہ زمانہ جاہلیت میں ہی نہیں بلکہ سود کی حرمت کا قطعی حکم آنے سے پہلے حضورﷺ کے مکی اور مدنی دَور میں نہ صرف تجارتی و پیداواری قرضوں کا رواج تھا بلکہ ان پر سود کا لین دین بھی ہوتا تھا۔ کئی روایات سے پتا چلتا ہے کہ آیتِ ربا نزول کے اعتبار سے قرآن حکیم کی آخری آیت تھی ۔یہ روایات حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرامj سے مروی ہیں۔ خود حضورﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے دوران اسقاطِ سود کا حکم جاری فرمایا اور اپنے چچا حضرت عباسh کے سود کو ساقط قرار دیا۔
قدیم مفسر امام ابن جریر طبری نے (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبآوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَR)(البقرۃ) کے شانِ نزول کے حوالے سے یہ روایات نقل کی ہیں۔ ان روایات کو بعد میں آنے والے مفسرین نے بھی نقل کیا ہے جن میں صاحب تفسیر دُرِّمنثور صاحب تفسیر مظہری‘صاحب تفسیر روح البیان جیسے عظیم المرتبت مفسرین شامل ہیں۔ حضرت ضحاک بن مزاحم تابعی فرماتے ہیں:

کان ربا یتبایَعُونَ بہ فی الجاھلیۃ‘ فلما اسلموا امروا ان یأخذوا رؤوس اموالھم۔ (جامع البیان: ج۳‘۱۴۷)

’’جاہلیت کے دَور میں لوگ سودی کروبار کرتے تھے۔ جب یہ لوگ مسلمان ہو گئے تو ان کو حکم دیا گیا کہ صرف اصل رقم ہی وصول کرو۔‘‘
انہوں نے ’’وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبآوا‘‘ کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے امام سدی کے حوالہ سے لکھا ہے: نزلت ھذا الأیۃ فی العباس بن عبد المطلب و رجل من بنی المغیرۃ کانا شریکین فی الجاھلیۃ سلفا فی الربا الی اناس من ثقیف من بنی عمر و بن عمیر‘ فجاء الاسلام و لھم اموال عظیمۃ فی الربا فانزل اللّٰہ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبا۔
’’یہ آیت حضرت عباس h اور بنو مغیرہ کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو زمانہ جاہلیت میں کاروبار میں شریک تھے۔ انہوں نے بنو ثقیف قبیلے کی ایک شاخ بنوعمرو کو سودی قرض پر اپنے اموال دے رکھے تھے ۔جب اسلام کا دور آیا (اور سود حرام کر دیا گیا) تو ان کا بہت سا مال سود میں لگا ہوا تھا۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ چھوڑ دو جوبھی بقایا ہے سود میں سے۔‘‘
اس روایت میں دو تاجروں کے اس سودی قرضے کا ذکر ہے جو انہوں نے بنو عمرو قبیلے کو دے رکھا تھا اور یہ زیادہ مال تھا جو بنو عمرو کے ذمے بقایا تھا۔ امام ابن جریر نے ابن جریح سے نقل کیا ہے کہ بنو عمرو بھی بنو مغیرہ کو سودی قرضے دیا کرتے تھے۔
و کانت بنو عمرو بن عمیر بن عوف یأخذون الربا من بنی المغیرۃ وکانت بنو المغیرۃ یربون لھم فی الجاھلیۃ‘ فجاء اسلام و لھم علیھم مال کثیر، فاتاھم بنو عمر و یطلبون رباھم‘ فابی بنو المغیرۃ ان یعطوھم فی الاسلام، ورفعوا ذلک الی عتاب بن اسید‘ فکتب عتاب الی رسول اللّٰہﷺ فانزل اللّٰہ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبآوا الی قولہ وَلَا تُظْلَمُوْنَ) فکتب رسولُ اللّٰہ ﷺ الی عتاب و قال ان رضوا و الا فاذنھم بحرب (جامع البیان: ج۳‘ص۱۴۷)

’’دَورِ جاہلیت میں بنو عمرو اور بنو مغیرہ کے درمیان سودی قرضوں کا لین دین تھا۔جب اسلام کا دَور آیا تو بنو عمرو کا بنو مغیرہ پر بہت سا مال واجب الادا تھا‘چنانچہ بنو عمرو بنو مغیرہ کے پاس آئے اور ان سے سود کا بقایا طلب کیا۔ بنو مغیرہ نے اسلام کے دَور میں سود دینے سے انکار کر دیا (دونوں قبیلے مسلمان ہو گئے تھے)وہ مقدمہ حضرت عتاب بن اسید کے پاس لے گئے‘حضرت عتاب نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں خط لکھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا خوف کرو اور جو بھی بقایا ہے سود کا اسے چھوڑ دو۔رسول اللہﷺ نے یہ آیت لکھ کر عتاب کو بھجوا دی اور ساتھ یہ بھیلکھا کہ اگریہ لوگ چھوڑنے پر راضی ہوں تو بہت اچھا ورنہ ان لوگوں کو جنگ کا الٹی میٹم دے دو۔‘‘
امام ابن جریر طبری ؒ نے یہاں عکرمہ ؒ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے:
کانوا یأخذون الربا علی بنی المغیرۃ یزعمون أنھم مسعود وعبد یالیل وحبیب وربیعۃ بنو عمرو بن عمیر‘فھم الذین کان لھم الربا علی بنی المغیرۃ ‘فأسلم عبد یالیل و حبیب وربیعۃ وھلال ومسعود۔ (جامع البیان: ج۳‘ص۱۵۷)

’’وہ یہ گمان کرتے تھے کہ مسعود‘ عبد یالیل‘ حبیب اور ربیعہ بنی عمرو بن عمیر‘ بنو مغیرہ کی ذمہ داری پر سود لیتے تھے ۔پس یہ وہ لوگ تھے جن کا بنی مغیرہ پر سود ہوتا تھا ۔پھر عبد یالیل‘ حبیب‘ ربیعہ‘ ہلال اور مسعود نے اسلام قبول کر لیا۔‘‘
پہلی روایت میں واضح طور پر مذکور ہے کہ سود کی حرمت کا قطعی حکم آنے سے پہلے لوگ سودی کاروبار کرتے تھے اور یہاں سودی کاروبار سے مراد تجارتی قرضوں پر سود کا لین دین ہی ہے۔ مؤخر الذکر تینوں روایات سے یہ بات وضح ہو جاتی ہے کہ ان کے مابین قرضوں کا لین دین تجارتی نوعیت کا تھا‘ کیونکہ صرفی قرضوں میں باہم تبادلہ ممکن نہیں ہوتا۔ اور ایک دوسرے کے ذمے مال کثیر ہونا یہی دلالت کرتا ہے کہ یہ قرضے تجارتی مقاصد کے لیے حاصل کیے گئے تھے‘ ورنہ ذاتی ضروریات کے لیے بڑے قرضے حاصل کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی۔ پھر قرضوں کے اس لین دین میں جن شخصیات کے نام لیے گئے ہیں وہ بنو ثقیف اور طائف کے سرداروں میں سے ہیں جن کے بارے میں یہ گمان کرنا ہی محال ہے کہ وہ ذاتی ضروریات کے لیے قرض لیتے تھے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابتداءً وفاقی شرعی عدالت ۱۹۹۱ء میں اور بعد میں شریعت اپیلیٹ بینچ ۱۹۹۹ء میں ٹھوس دلائل سامنے آنے پر یہ فیصلہ دے چکے ہیں کہ سود کے اطلاق کے حوالے سے صرفی اور پیداواری قرضوں میں فرق کرنا درست نہیں ہے اور یہ کہ بینکوں کی طرف سے پیداواری اور تجارتی مقاصد کے لیے دیے جانے والے قرضوں پر حاصل ہونے والے سود پر ’’الربوٰ‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے ‘اور ہم دونوں معزز عدالتوں کی طرف سے کیے گئے فیصلوں کے ان اجزاء سے مکمل موافقت اختیار کرتے ہیں۔ شریعت اپیلیٹ بینچ کے فیصلے کے یہ (باقی صفحہ 16 پر) اجزاء PLD کے مندرجہ ذیل صفحات پر درج ہیں:1. Judgement of justice Khalil Ur Rehman PLD page No: 127 to 140 (Publisher: Shariah Academy International Islamic University Islamabad)
2. Judgement of Justice Mufti Muhammad Taqi Usmani Sb PLD page No: 667 to 681 (Publisher: Malik Muhammad Saeed Pakistan Educational press, Lahore.)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔