حرمت سود
مندرجہ ذیل امور پر اب نہ صرف یہ کہ علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں بلکہ اسلامک آئیڈیالوجی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ دونوں کا فیصلہ بھی اس کی تائید میں ہے کہ:
1) سود حرامِ مطلق ہے چاہے وہ’’مرکب‘‘ ہو یا’’سادہ‘‘۔
2) سود حرام ہے چاہے قرضہ انفرادی ضرورتوں کے لیے ہو یا تجارتی مقاصد کے لیے۔
3) سود صرف قرض میں ہی نہیں ہوتا بلکہ بیع میں بھی ہوتا ہے۔ قرض کے سود کو(جو کہ عام طور پر روپے پیسے میں ہوتا ہے) ربا النسیئہ اور بیع کے سود کو (جو کہ اشیاء کی خرید و فروخت یا اشیاء کے قرض میں ہوتا ہے) ربا الفضل کہتے ہیں۔
4) اگر کوئی معاملہ سودی ہو تو اسے حرام جاننا چاہیے‘ چاہے اس میں’’ظلم‘‘بظاہر نظر آئے یا نہ آئے۔ مثلاً اگر صرف ایک فیصد شرح سود پر قرضہ دیا جا رہا ہو تو بھی یہ حرام ہو گا جبکہ اگر کسی بیع میں سو فیصدی منافع کمایا جا رہا ہو اور اس میں کوئی اور شرعی قباحت نہ ہو تو وہ جائز ہو گی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فتنہ انگیزوں کے اعتراض {اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا} کا بس اتنا ہی جواب دیا ہے کہ {اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا{
پاکستان میں انسدادِ سود کی کوششوں کی تاریخ
(1اسلامی آئیڈیالوجی کونسل کا فیصلہ : 23-12-1969 (ruling)اس فیصلے میں ہر نوع کے ’’interest ‘‘ کو’’ربا‘‘ قرار دیا گیا ہے چاہے قرض کا مقصد ‘شرح اور مدت کچھ بھی ہو اور فریقین کوئی بھی ہوں۔
(2کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کو29-9-77کا صدارتی حکم: اس میں کونسل کو حکم دیا گیا کہ وہ غیر سودی اسلامی معیشت کے خدوخال پر مبنی رپورٹ تیار کرے۔ کونسل نے اس مقصد کے لیے ماہرین کا ایک پینل تشکیل دیا جنہوں نے اپنی رپورٹ بنائی۔ کونسل نے اس رپورٹ کا جائزہ لے کر اس میں ضروری ترمیمات کر کے اپنی ایک الگ رپورٹ تیار کی اور12-6-80 کو جاری کر دی۔ یہ ایک بہت اہم اور غیر سودی مالیات پر ابتدائی اعتبار سے نہایت مفید دستاویز ہے۔ یہ رپورٹ غیر سودی مالیات کے ضمن میں ایک مکمل خاکہ (blue print)مہیا کرتی ہے اور اس میں تجارتی اور صنعتی مقاصد کے لیے سرمایہ کی فراہمی کے لیے بارہ متبادل صورتیں (alternative modes of financing)بھی تجویز کی گئیں ہیں۔
(نوٹ: یہ رپورٹ اواخر1980 ء تک وزارت خزانہ کے ’’سردخانے‘‘ میں پڑی رہی۔ یہاں تک کہ اس کی اشاعت عام پر بھی پابندی لگی رہی اور اس کی ’’رہائی‘‘ اور طباعت و اشاعت کی اجازت کا مرحلہ اس وقت طے ہو سکا جب اس وقت کے آئیڈیالوجی کونسل کے چیئرمین جناب جسٹس (ر) تنزیل الرحمن صاحب نے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے اس کی شکایت کی‘جو اُس وقت جنرل ضیاء الحق کی نامزد مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ چنانچہ ان کے پُرزور اصرار پر جنرل صاحب موصوف نے اس کی طباعت کی اجازت مرحمت فرمائی(!
(3سٹیٹ بینک کا حکم نامہ برائے کمرشل بینکس1980ء:اس سرکلرمیں تمام کمرشل بینکوں کو ہدایت کی گئی کہ یکم جنوری1981ء سے کونسل کی رپورٹ کے مطابق اپنے آپریشنزکو اسلامی خطوط پر استوار کر لیں۔ یعنی آئندہ سے نہ تو interest-bearing deposits قبول کریں اور نہ ہی interest-bearing lending جاری کریں۔ کھاتہ داروں کے لیے پہلے سے جاری کرنٹ اکاؤنٹ کو برقرار رکھتے ہوئے سیونگ اکاؤنٹ کی بجائے پی ایل ایس اکاؤنٹ شروع کیا گیا اور تجارتی وصنعتی سرمایہ کاری کے لیے بینکوں کو مندرجہ ذیل12 متبادل صورتوں کا پابندکیا گیا:
٭ مضار بہ ٭ مشارکہ
٭ اجارہ ٭ اجارہ و اقتناء
٭ equity participation
٭ rent sharing
٭ اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے بیع مرابحہ کی صورت میں مارک اپ فنانسنگ
٭ جائیداد کی خرید کے لیے buy back معاہدات
٭ ٹریڈ بلز
٭ Participatory Term Certificates
٭ سروس چارجز کی بنیاد پر غیر سودی قرضے
٭ قرض حسنہ
(4سٹیٹ بینک کا سرکلر نمبر12برائے کمرشل بینکس 1984ء : اس سرکلر کے مطابق بینکوں کو اجازت دی گئی کہ وہ بیع مرابحہ کی قیود سے آزاد مارک اپ فنانسنگ کی اساس پر عام قرضے بھی جاری کر سکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بینکوں نے مضاربہ‘ مشارکہ‘ اجارہ وغیرہ کی بنیاد پر فنانسنگ ختم کر کے ان میں سے اکثر کے لیے مارک اپ کو اختیار کر لیا اور شرعی طور پر جائز modes of financing میں بھی ایسی تبدیلیاں کر لیں اور ایسی شرائط رکھ لیں کہ ان کی شکل بگڑ کر غیر شرعی یا سودی ہو گئی۔
(5فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ1991ء:نومبر1991ء کے اس فیصلے کے مطابق ملکی مالیاتی نظام کے جملہ معاملات میں اور قوانین میں interest پر ’’الربا المحرم‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔ مزید برآں ’’مارک اپ‘‘ کے نام پر جو نام نہاد غیر سودی فنانسنگ جاری ہے وہ بھی درحقیقت ’’سود‘‘ ہی ہے۔ کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت دی کہ30 جون1992ء تک تمام سودی معاملات سے سود کو ختم کر کے غیر سودی متبادلات کو جاری کیا جائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں مذکورہ تاریخ کے بعد سودی لین دین سے متعلق تمام قوانین غیر مؤثر ہو جائیں گے۔
(6فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کے خلاف حکومتی اپیل:حکومت نے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ماہرین کے ذریعے بینکاری کا متبادل نظام تجویز کرنے کی مساعی شروع کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اپیلیٹ بینچ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی اور تا حال معاملہ سپریم کورٹ کے پاسpending ہے۔ اس دوران سپریم کورٹ نے ایک سوال نامے کے ذریعے ملک کے معروف علماء‘ اکانو مسٹس اور قانون دانوں سے مختلف معاملات پر ان کی آراء اور تجاویز مانگی ہیں۔ گویا سپریم کورٹ تمام معاملات کا از سر نو جائزہ لینا چاہتی ہے۔
(7کمیشن فار اسلامائزیشن آف دی اکانومی: مرکزی حکومت نے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے ساتھ ساتھ متذکرہ بالا عنوان سے ایک کمیشن بھی قائم کیا جس کا سر براہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ہی کو بنایا گیا۔ اس کمیشن نے جون 1992ء میں ماہرین کے ایک ورکنگ گروپ کے کام پر مبنی رپورٹ (جو طبع تو ہو گئی ہے لیکن منظر عام سے غائب کر دی گئی ہے) میں یہ رائے دی کہ مارک اپ سمیت تمام قسم کے interest اصلاً ربا ہی ہیں۔
گویا اس طرح انسداد سود کی اب تک کی جملہ مساعی کا حاصل صفر ہے۔ اور اس وقت پاکستان میں بینکوں کی FINANCING کی اکثر و بیشتر اور اہم تر مدات میں تو اعلانیہ طور پر مارک اپ کا وہ اصول کار فرما ہے جو کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی‘ فیڈرل شریعت کورٹ ‘ اور کمیشن فار اسلامائزیشن سب کے نزدیک’’ربا‘‘ ہے۔ مزید برآں جن چند غیر سودی مدات کا آغاز کیا گیا تھا ان میں سے بعض اگرچہ بظاہر ابھی جاری ہیں‘ جیسے اجارہ‘ مشارکہ‘ تعمیراتی فنانسنگ اور N.I.T‘ ICP کی سکیمیں‘ ان سب کے قواعد و ضوابط میں بھی رفتہ رفتہ جو تبدیلیاں کر دی گئی ہیں ان کی بنا پر یہ سب بھی ’’ربا‘‘ ہی کی صورت اختیار کر چکی ہیں اور1991ء میں فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے سے جو نئی تاریخ شروع ہوئی تھی اسے اپیل کے’’سردخانے‘‘ میں’’منجمد‘‘ کر دیا گیا ہے!
موجودہ صورتحال
(1بینکنگ
بینکوں کےoperations میں فی الوقت مشکل ہی سے کوئی ایسا عمل ہو گا جس کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکے کہ وہ عین شرعی اصولوں کے مطابق ہے۔ خاص طور پر بینکوں کی آمدنی والا حصہ!تفصیل درج ذیل ہے:
٭آمدنی کے ذرائع:بینکوں میں جمع شدہ ایک خطیر رقم مندرجہ ذیل مدات میں منقسم ہے جس سے بینکوں کو آمدن حاصل ہوتی ہے۔
(1 سرکاری تمسکات(securities )میں سرمایہ کاری سے حاصل شدہ سود۔
(2 سٹیٹ بینک کی reserve requirement جس میں بینکوں کو اپنے کھاتوں کا کچھ حصہ لازماً سٹیٹ بینک میں رکھوانا ہوتا ہے‘ جس پر انہیں’’بینک ریٹ‘‘ پر سود ملتا ہے۔
(3 کاروباری قرضوں سے حاصل شدہ سود(جس کے لیے مارک اپ کا نام استعمال ہو رہا ہے۔(
(4 Trade Bills )ہنڈیوں) کی خرید و فروخت‘ جو’’مارک ڈاؤن‘‘ کی بنیاد پر خریدی بیچی جاتی ہیں۔ نیز قلیل مدت کے Over Draft جاری کیے جاتے ہیں جن پر مارک اپ (سود) وصول کیا جاتا ہے۔
(5 طویل اور قلیل مدتوں کی دیگر نجی ضروریات کے لیے قرضوں پر سود!
(6 فنانشل لیزنگ سے حاصل شدہ مارک اپ ۔آمدنی کی اس مد میں بینک ‘ لیزنگ کمپنی یا مضاربہ کمپنی مختلف اداروں یا افراد کو مشینیں‘ آلات‘ زمین ‘ عمارت اور گاڑی وغیرہ کی خرید کے لیے قرضہ فراہم کرتی ہے۔ خرید کردہ شے کو رقم فراہم کنندہ کی ملکیت تصور کیا جاتا ہے‘ اگرچہ وہ شے کی خرید‘ اس کی دیکھ بھال اور شکست و ریخت کے اخراجات سے بری ٔالذمہ ہوتی ہے۔ لیزنگ کمپنی کو صرف اپنی اصل رقم اورمارک اپ سے دلچسپی ہوتی ہے اور اس کے لیے اس معاہدے میں کوئی کاروباری خطر ہ (Business Risk ) نہیں ہوتا۔
مندرجہ بالا تمام فنانسنگزمیں مارک اپ کا اصول اپنایا گیا ہے جو اسلامک آئیڈیالوجی کونسل‘ فیڈرل شریعت کورٹ اور کمیشن فار اسلامائزیشن آف اکانومی سب کے نزدیک سود ہی ہے۔
(7 Operating Lease یہ طریقہ شرعی اصول اجارہ کے قریب ہے۔ فنانسنگ کے اس طریقے میں لیزنگ کمپنی کو شے کی خرید‘ اس کی دیکھ بھال اور شکست و ریخت کے وہ جملہ خطرات اور اخراجات برداشت کرنا ہوتے ہیں جو شرعی اصول اجارہ کے تحت ضروری ہیں۔ اس کا استعمال اول تو بہت کم ہے‘ ثانیاً اس کی تفصیلات میں بھی بعض امور شرعی نظر سے قابل اعتراض ہیں۔
(8 مشارکہ: اس اصول کے تحت بھی بہت ہی تھوڑی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ لیکن قوانین ایسے بنائے گئے ہیں کہ نہ تو بینک کو نقصان اٹھانا پڑے اور نہ ہی اس کا منافع ایک خاص شرح سے نیچے آئے۔ جس سے یہ بھی سود ہی کے مشابہ ہو جاتا ہے۔
(9 P.T.C :(Participatory Term Certificate) : یہ سرمایہ کاری طویل میعادی نفع و نقصان کی شراکتی بنیاد پر ایجاد کی گئی ہے۔ وہ کاروباری ادارے جو طویل مدتی قرضے حاصل کرنے کے خواہشمند ہوں وہ نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر PTC جاری کرتے ہیں۔ مختلف بینک اورDFIs انPTCs کے عوض خواہشمند اداروں کو پہلے سے طے شدہ شرح منافع (profit ratio) پر قرضے جاری کرتے ہیں‘ جبکہ نقصان کی تقسیم اصل زر کی مقدار کے مطابق ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ اس طریقے میں بینکوں کے لیے بعض اندیشے (risk) تھے‘ لہٰذا1989ء میں اسے ترک کر دیا گیا۔ P.T.C اگرچہ بعض جزئیات کے اعتبار سے غیر اسلامی معاملہ تھا‘ تاہم غیر سودی مالیات کے ضمن میں یقینا پیش رفت تھی‘ جسے بعد ازاںTFC (Term Finance Certificates) سے تبدیل کر دیا گیا‘ جو صریحاً مارک اپ اور مرکب سود کی ایک شکل ہے۔
(10 تعمیراتی فنانسنگ:1979ء میں اس کا آغاز Rent Sharing کی بنیاد پر کیا گیا جو شرعی نقطہ نگاہ سے ایک قابل عمل تجویز تھی ‘لیکن اس وقت اس مد سے فنانسنگ اصل زر‘ مدت‘ اور افراطِ زر کی شرح دیکھ کر ایسے انداز میں کی جا رہی ہے جو سودی طریق ہی کی مختلف شکل ہے۔
(11 NITاورICP کی سکیمیں : ان دو اداروں نے گھریلو بچتوں کو نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر جمع کرنے کا آغاز کیا‘ لیکن بعد ازاں ان کی سرمایہ کاریP.L.S اکاؤنٹ اورT.F.C اور Financial Leasing میں بھی ہونے لگی جس سے ان میں بھی سود کی جزوی آلائش شامل ہو گئی۔
٭ادائیگیاں:بینکوں کو دو اہم مدوں میں ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں:
(1 کھاتے(Deposits): اس مد میں بینک اپنی مجموعی منافع میں سے‘ جو اکثر و بیشتر سود پر حاصل کیا جاتا ہے ‘کچھ حصہ کھاتہ داروں کو تقسیم کر دیتا ہے اور بڑا حصہ خود اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔
(2 قرض (Borrowing of a Commercial bank from other banks) دوسرے بینکوں سے قرض پر سود کی شکل میں ادائیگی ہوتی ہے ‘جبکہ سٹیٹ بینک کو نفع و نقصان کی بنیاد پر ادائیگی کی جاتی ہے۔
حکومت کے لین دین
حکومت کے اکثر لین دین قرض پر مبنی ہوتے ہیں‘ جو کہ سود کے ساتھ لیے دیے جاتے ہیں۔ مثلاً
٭ سٹیٹ بینک سے قرضہ مارک اپ کی بنیاد پر
٭ صوبائی حکومتوں کو مرکزی حکومت کا سودی قرضہ
٭ حکومت کا اپنے ملازمین کو سودی بنیاد پر مکان اور گاڑی وغیرہ کے لیے قرضہ
٭ سرکاری ملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ (provident fund ) پر سود کی ادائیگی
٭ حکومت کی بڑے پیمانے پر مختلف بچتوں کی سکیموں اور مختلف بانڈز کے تحت عوام سے قرضے اور ان پر سود کی ادائیگی
٭ بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی اور وصولی
٭ مرکزی حکومت کا نیم خود مختار اداروں کو سود پر قرضہ
مستقبل کے امکانات
(ا) مندرجہ ذیل بنیادوں پر غیر سودی بینکاری نظام کو مستقل طور پر استوار کیا جا سکتا ہے:
(i شراکتی سرمایہ کاری‘ یعنی مضاربہ اور مشارکہ کی بنیاد پر نفع و نقصان میں شراکت۔
(ii بیع موجل‘ بیع سلم اور اجارہ(Leasing)کی بنیاد پر عقود بیع اور عقود اجارہ۔
(iii TMCL (Time Multiple Counter Loan )کی بنیاد پر قلیل اور طویل مدتی قرضے برائے صارفین‘ تاجرین اور حکومت(تجویز کردہ شیخ محمود احمد مرحوم مصنف ’’سود کی متبادل اساس‘‘ انگریزی و اردو‘ اور ایک ضخیم کتاب’’MAN AND MONEY‘‘ جو ابھی زیر طبع ہے!(
(iv قرض حسنہ برائے صارفین و حکومت
(ب) ان بنیادوں پر بینکنگ کے نظام کا خاکہ کچھ اس طرح ہو گا کہ ایک طرف بینک نجی بچتیں کرنٹ اکاؤنٹ اور پی ایل ایس سیونگ اکاؤنٹ کی بنیاد پر اکٹھی کریں گے۔ اور دوسری طرف اوپر دیے گئےOptionsکے مطابق سرمایہ کاری کی جائے گی۔
(1 اس مقصد کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ کے علاوہ عام کھاتہ داروں سے نفع و نقصان کی بنیاد پر رقم وصول کی جائے گی‘ جو کہ مضاربہ اکاؤنٹ ‘ مشارکہ اکاؤنٹ‘ اجارہ اکاؤنٹ کے تحت ہوں گے۔ منافع کا تناسب بینک اور کھاتہ داروں کے درمیان پہلے سے طے کیا جائے گا۔ مثلاً [1/3 : 2/3] `[1/4:3/4]` [1/2 : 1/2] وغیرہ ۔متذکرہ بالا تینوں کھاتوں کو الگ الگ ایڈمنسٹر کیا جائے گا۔
(2 یہ رقم بینک سرمایہ کاروں کو انہی مدات میں مہیا کریں گے اور ان سے شرح منافع الگ طے کریں گے(شرح منافع سرمائے کی طلب و رسد کے مطابق طے ہوں گے۔(
(3 بچتوں کا یہ حساب سالانہ کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر بھی لگایا جائے گا اور ہر سال کے آغاز میں منافع کے تقسیم کی شرح طے کی جائے گی۔
(4 بعض تجارتی قرضے‘ ٹریڈ بلز وغیرہTMCL کے تحت مہیا کیے جائیں گے۔
(5 ہاؤس فنانسنگ مشارکہ متناقصہ(شرکت عنان) ٹریڈنگ اجارہ اور اجارہ و اقتناء کی بنیاد پر مہیا کیے جائیں گے۔
(6 بینکوں کا سٹیٹ بینک سے مالی تعلق مضاربہ‘ P.T.C اور قرض حسنہ کی بنیاد پر استوار ہوگا۔
انسدادِ سود کے لیے عملی اقدامات
(ا) اصولی اور عمومی اقدامات
(1 دستور پاکستان میں وہ جملہ ترامیم فوری طور پر کر دی جائیں جن سے پاکستان کو کم ازکم اصولی اور دستوری سطح پر اسلامی ریاست یا نظام خلافت کا درجہ حاصل ہو جائے! اس سے عوام میں عزم نو بیدار ہو گا اور ایثار‘ قربانی کا قومی جذبہ پیدا ہو گا۔
(2 حکومت پاکستان سود سے متعلق فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل تو فوراً واپس لے لے ‘البتہ اس کی تنفیذ کے لیے کچھ مہلت حاصل کر لے۔
(3 ربا کی حرمت اور اس کی خباثت کو آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ (ﷺ) کے حوالے سے جملہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عام کیا جائے‘ تاکہ لوگ فرمان الٰہی : {یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِیْنَ){ (البقرۃ۲۷۸)کے مطابق سود کو چھوڑنے اور نقصان برداشت کرنے کے لیے ذہنی اور قلبی طور پر آمادہ ہوں۔
(4 ’’کمیشن فار اسلامائزیشن آف اکانومی‘‘ کو مؤثر بنانے کے لیے اس میں نسبتاً بڑے پیمانے پر ماہرین و علماء کو شامل کیا جائے اور انہیں اس کام کے لیے کل وقتی بنیاد پر مصروف کیا جائے۔ مزید برآں‘ انہیں وسیع تر اختیارات دئیے جائیں تاکہ وہ انسدادِ سود کے عمل کی نگرانی بہتر طریق پر کر سکیں۔
(5 حکومتی قرضوں کو کم کرنے کے لیے بجٹ کے خسارے کو کم کیا جائے اور اس کے لیے اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں کے نظام کو مستعد اور حقیقت پسندانہ بنایا جائے۔
(6 عدالتی نظام کو مؤثر اور مستعد بنایا جائے اور عام افراد کو سودی مقدمے ختم کرانے کے لیے عدالتوں میں جانے کی اجازت ہو۔ اس کے لیے سود کو ختم کرنے کی ضروری عدالتی ترمیمات درکار ہوں گی۔ یہ عمل سود کے خاتمے کے لیے built-in mechanism مہیا کرے گا۔
(7 نئے ادارے وجود میں لائے جائیں جن کے تحت شرعی طور پر جائز تجارتی لین دین کیاجاسکے۔
(8 چونکہ سرمایہ یا نقد پر’’ربا‘‘ کی لعنت کو بالکلیہ اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک زراعت کو بھی’’ربا‘‘ سے پاک نہ کر دیا جائے‘ لہٰذا جاگیرداری اور غیر حاضر زمینداری میں سے بھی غیر اسلامی عنصر کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کا آغاز کیا جائے۔
(ب) فوری اور لازمی اقدامات
(1 صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے باہمی قرضوں نیز وفاقی حکومت کے سٹیٹ بینک سے قرضے پر سود فوری طورپر ختم کر دیا جائے۔ اس لیے کہ اس سے آمدن اور اخراجات پر منجملہ کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ کام فوری کرنا چاہیے۔
(2 نیم سرکاری اداروں اور کار پوریشنوں جیسے واپڈا‘ ریلوے اورپی ٹی سی وغیرہ کو جو قرضے حکومت نے دیے ہیں ان کو فوری طور پر ’’ایکویٹی‘‘ میں تبدیل کر دیا جائے!
(3 حکومت کی بچت سکیموں کے تحت حکومتی قرضوں پر مشتمل ہر نوع کے بانڈز‘ سرٹیفیکیٹ اور سیکیوریٹیز وغیرہ پر سود کی ادائیگی فوری طور پر بند کی جائے۔ نیز ان قرضوں کے اصل زر کی ادائیگی کے لیے مناسب لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے۔
(4 سرکاری ملازمین کو مکان‘ کار یا موٹر سائیکل کی خرید کے لیے دیے جانے والے قرضوں پر سے سود لینے اورGPF پر سود دینے کو فوراً ساقط کر دیا جائے۔
(5 بینک فنانسنگ کو حسب ذیل صورتوں میں از سر نو محدود کر دیا جائے ‘ جیسے یکم جنوری1981ء سے کیا گیا تھا:
(i شراکتی سرمایہ کاری‘ یعنی مضاربہ اور مشارکہ کی بنیاد پر نفع و نقصان میں شراکت
(ii بیع مؤجل‘ بیع سلم‘ بیع مرابحہ اور اجارہ(leasing ) کی بنیاد پر عقود بیع اور عقود اجارہ
(iii ٹائم ملٹی پل کاؤنٹرلون (TMCL)کی بنیاد پر قلیل اور طویل مدتی قرضے برائے صارفین‘ تاجرین اور حکومت۔ (تجویز کردہ: شیخ محمود احمد مرحوم‘ مصنف ’’سود کی متبادل اساس‘‘)
(iv قرضِ حسنہ برائے صارفین و حکومت
(6 بین الاقوامی سودی قرضوں کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے Debt-Equity Swap کا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے میں غیر ملکی حکومتوں ‘ اداروں کو اس بات کی اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے واجب الوصول قرضوں کے عوض ملک کے اندر حقیقی سرمایہ کاری کریں جس کے لیے حکومت انہیں لوکل کرنسی میں رقم مہیا کرنے اور ان کے منافع کی ادائیگی زر مبادلہ میں کرنے کی ضمانت دیتی ہے۔ اس کے لیے لاطینی امریکہ کے ممالک کا تجربہ مفید ہو گا۔
(7 تجارتی بینکوں کے لیے اجازت ہو کہ وہ رئیل انوسٹمنٹ اورٹریڈنگ وغیرہ کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کر سکیں۔اس میں نہ کوئی شرعی قباحت آڑے آتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسری مشکل ہے۔
(8 سٹاک مارکیٹ میں سٹہ بازی کی صریح ممانعت ہو اور حصص کی صرف حقیقی خرید و فروخت کی اجازت دی جائے۔
(9 بینکوں کے آڈٹ کا شرعی اعتبار سے ایک اضافی محکم نظام قائم کیا جائے۔
(10 ’’قرض اتارو اور ملک سنو ارو مہم‘‘میں سے پہلی دو صورتوں کو برقرار رکھتے ہوئے تیسری یعنی’’بچت اکاؤنٹ‘‘ کو فوراً ختم کیا جائے‘ اور اس کی بجائے زکوٰۃ وصول کی جائے‘ جس کے ضمن میں یہ ضمانت دی جائے کہ یہ صرف اور صرف اور براہ راست ملکی قرضے کی ادائیگی میں صرف ہو گی!
{وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاط} (العنکبوت:۶۹)
(شائع شدہ: ہفت روزہ ندائے خلافت ‘ شمارہ 42‘ سال2015ء)