تدبر القرآن – امین احسان اصلاحی

سورۃ البقرہ
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٢٧٥؁
يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ٢٧٦؁
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٢٧٧؁
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٧٨؁
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ٢٧٩؁
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٢٨٠؁
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٢٨١؁ۧ

جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر اس شخص کے مانند جس کو شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا ہو۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود کی ہی مانند ہے اور حال یہ کہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا اور سود کو حرام تو جس کو اللہ کی تنبیہ پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ وہ لے چکا وہ اس کے لیے ہے۔ اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اب اس کے مرتکب ہوں تو وہی لوگ دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ سود کو گھٹائے گا اور صدقات کو بڑھائے گا اور اللہ ناشکروں اور حق تلفوں کو پسند نہیں کرتا۔
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے بھلے کام کیے، نماز کا اہتمام کیا، زکوۃ ادا کی، ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، نہ ان کے لیے کوئی اندیشہ ہوگا نہ ان کو کوئی غم لاحق ہوگا۔
اے ایمان والو، اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود تمہارا باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔
اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو فراخی تک اس کو مہلت دو اور بخش دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔
اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے، پھر ہر شخص کو جو اس نے کمائی کی ہے پوری وری مل جائے گی اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا۔
لفظ “ رِبوا ” کا مفہوم : رَبَا یَرْبُوْ رِبَاءً کے معنی بڑھنے اور زیادہ ہونے کے ہیں۔ اسی سے رِبوٰ ہے جس سے مراد وہ معین اضافہ ہوتا ہے جو ایک قرض دینے والا مجرد مہلت کے عوض اپنے مقروض سے اپنی اصلی رقم پر وصول کرتا ہے۔ جاہلیت اور اسلام دونوں میں یہ اصطلاح مذکورہ مفہوم کے لیے مشہور رہی ہے۔ اس کی شکلیں مختلف رہی ہیں۔ لیکن اس کی اصل حقیقت یہی ہے کہ قرض دینے والا قرضدار سے ایک معین شرح پر صرف اس حق کی بنا پر اپنے دیے ہوئے روپے کا منافع وصول کرے کہ اس نے ایک خاص مدت کے لیے اس کو روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ اس امر کو اس کی حقیقت کے تعین میں کوئی دخل نہیں ہے کہ قرض کسی غریب و نادار کو دیا گیا ہے یا کسی امیر و تاجدار کو اور نہ اس بات سے اس میں کوئی فرق واقع ہوتا ہے کہ قرض کسی میت کی تجہیز و تکفین کے لیے دیا گیا ہے یا کسی رفاہی اسکیم کے لیے دیا گیا ہے، یا تجارت، زراعت اور صناعت کے کسی انفرادی یا اجتماعی منصوبے کے لیے دیا گیا ہے۔ جاہلیت اور اسلام دونوں میں ربوٰ کی اصطلاح کا جو مفہوم مسلم رہا ہے اس میں ان ظاہری اختلافات سے سرِ مو فرق واقع نہیں ہوتا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مقصد قرض یا قرضدار کی نوعیت و حیثیت کی تبدیلی ربوٰ کی عرفی حیثیت کو بدل دیتی ہے ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ آگے آپ دیکھیں گے کہ خود قرآن کے الفاظ سے اس خیال کی پوری پوری تردید ہو رہی ہے۔
“ خبط ” کی تحقیق :‘ تخبط ’ کا لفظ ‘ خبط اللیل ’ سے ہے جس کے معنی رات کی تاریکی میں بھٹکنے کے ہیں، خابط اللیل اس شخص کو کہیں گے جسے داہنے بائیں کا کچھ ہوش نہ ہو، بس یوں ہی ہرزہ گردی کر رہا ہو۔ اسی سے یَخْبِطُ خبط عشواء کا محاور ان لوگوں کے لیے پیدا ہوا جو بصیرت سے بالکل محروم ہوں اور اندھے بھین سے کی طرح ادھر ادھر بھٹکتے پھر رہے ہوں۔ اسی سے تخبطہ الشطان نکلا جس کے معنی ہیں مسہ الشیطان بخبل او جنون، اس کو شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل اور دیوانہ بنا دیا۔
‘ مس ’ کے اصل معنی چھونے کے ہیں۔ اس کا غالب استعمال کسی برائی، آفت اور دکھ کے پہنچنے اور لاحق ہونے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم نے موقع کے لحاظ سے اس کا ترجمہ چھوت کیا ہے۔ جو لفظی بھی ہے اور معنی خیز بھی۔ تو دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے خدا ہی کے اذن سے ہوتا ہے لیکن شیطان کو جن کاموں کے لیے مہلت ملی ہوئی ہے ان کی نسبت بعض اوقات اس کی طرف کردی جاتی ہے۔ جیسے حضرت ایوب کی دعا میں ہے۔ انی مسنی الشیطان بنصب و عذاب : شیطان نے مجھے دکھ اور تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔ نیک بندوں پر تو ارواح خبیثہ کا اثر اس سے زیادہ نہیں ہوتا کہ ان کو کوئی اذیت یا آزمائش پیش آجائے لیکن جن کی روحیں خود خبیث ہوتی ہیں، جس طرح ان کا قلب شیطان کی مٹھی میں ہوتا ہے اسی طرح کبھی کبھی ان کے عقل و دماغ سب پر شیطان کا تسلط ہوجاتا ہے اور وہ ظاہر میں بھی بالکل پاگل ہو کر کپڑے پھاڑتے، گریبان چاک کرتے، منہ پر جھاگ لاتے اور پریشان حال پراگندہ بال جدھر سینگ سمائے ادھر آوارہ گردی اور خاکبازی کرتے پھرتے ہیں۔
اوپر اہل انفاق کے متعلق آپ پڑھ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی تربیت فرماتا ہے، ان کو علم اور عمل دونوں میں رسوخ و عزیمت عطا فرماتا ہے، ان کے انفاق میں برکت بخشتا ہے، ان کا کارساز بن کر ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، ان کو حکمت کا لازوال خزانہ بخشتا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آخرت میں ان کو لاخوف علیہم ولا ھم یحزنون کے سرور ازلی و ابدی سے نوزے گا۔
اب یہ اس کے بالکل مخالف کردار رکھنے والوں یعنی سود خوروں کا بیان ہے۔ ان کی نسبت فرمایا کہ یہ جب روز قیامت کو اٹھیں گے تو بالکل اس طرح اٹھیں گے جس طرح وہ شخص اٹھا کرتا ہے جس پر کسی جنات یا بھوت کا سایہ ہو، جس سے وہ بالکل مخبوط الحواس ہو رہا ہو۔ اس تشبیہ کی زیادہ وضاحت نہیں فرمائی ہے اس لیے کہ اس کے اجمال ہی میں ساری وضاحت موجود ہے۔ جس طرح قرآن میں ایک جگہ “ رؤوس الشیاطین ” کی تشبیہ ہے جس کے الفاظ کو سن کر ہی دل پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے، اسی طرح ‘ تخبطہ الشیطان من المس ’ کے الفاظ سے خود ہی وحشت زدگی اور پریشان حالی کی ایک ایسی تصویر سامنے آجاتی ہے جو کسی وضاحت کی محتاج نہیں رہ جاتی۔
آگے فرمایا کہ ان کی یہ حالت اس وجہ سے ہوگی کہ سود کی حرمت پر وہ اعتراض اٹھاتے تھے کہ بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے تو پھر بیع کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام کیوں ٹھہرایا، چونکہ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو بالکل مخبوط الحواس ہو، جس کی عقل ماری گئی ہو اور شیطان نے جس کو اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا ہو اس وجہ سے عمل اور جزا کی مشابہت کے قانون کے تحت، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے “ من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی۔ جو دنیا میں عقل اور دل کا اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی اٹھے گا ”۔ ایسا شخص جب قیامت میں اٹھے گا تو پاگلوں اور دیوانوں کی طرح اٹھے گا۔ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا کا موقع و محل : یہاں ان کے قول کا حوالہ دے کر اس کو نظر انداز کردیا ہے، اس کی تردید نہیں کی ہے۔ اس کہ اس قول کی لغویت اتنی واضح ہے کہ اس کی تردید کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو بالکل پاگل ہوچکا ہو اور پاگلوں کی کسی بات کی تردید کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ ہمارے اہل تاویل نے عام طور پر وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا کے ٹکڑے کو ان کی اس بات کی تردید کے معنی میں لیا ہے اور اسی پہلو سے اس کی تاویل کی ہے۔ اگرچہ اس بات کا بھی ایک محل ہے کیونکہ اللہ کا کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانا بجائے خود اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ عقل و فطرت اور معاش و معاد کے نقطہ نظر سے اس چیز کی حلت یا حرمت بالکل معقول ہے لیکن یہ دلیل صرف مومن کے لیے قابل اعتماد ہے، منکر کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ اس وجہ سے مجھے بار بار یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ ٹکڑا الگ نہیں ہے بلکہ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا کے تحت ہی ہے۔ یعنی وہ کہتے ہیں بیع بھی تو ربوٰ ہی کی طرح ہے، جب ایک تاجر اپنے سرمایہ پر نفع لیتا ہے تو ایک سرمایہ دار اگر اپنے سرمایہ کا نفع حاصل کرتا ہے تو آخر وہ مجرم کیوں ٹھہرے، پھر اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیوں ٹھہرایا ؟ ہرچند یہ جملہ بشکل سوال نہیں ہے لیکن اس کے اندر وہی سوال یا اعتراض پوشیدہ ہے جو پہلے ٹکڑے کے اندر ہے۔
تاجر اور سود خوار کے سرمایہ میں فرق : اس اعتراض سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی کہ سود کو بیع پر قیاس کرنے والے پاگلوں کی نسل دنیا میں نئی نہیں ہے بلکہ بڑی پرانی ہے۔ قرآن نے اس قیاس کو، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، لائق توجہ نہیں قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بداہۃً باطل اور قیاس کرنے والے کی دماغی خرابی کی دلیل ہے۔ ایک تاجر اپنا سرمایہ ایک ایسے مال کی تجارت پر لگاتا ہے جس کی لوگوں کو طلب ہوتی ہے، وہ محنت، زحمت اور خطرات مول لے کر اس مال کو ان لوگوں کے لیے قابل حصول بناتا ہے۔ جو اپنی ذاتی کوشش سے اول تو آسانی سے اس کو حاصل نہیں کرسکتے تھے اور اگر حاصل کرسکتے تھے تو اس سے کہیں زیادہ قیمت پر جس قیمت پر تاجر نے ان کے لیے مہیا کردیا۔ پھر تاجر اپنے سرمایہ اور مال کو کھلے بازار میں مقابلہ کے لیے پیش کرتا ہے اور اس کے لیے منافع کی شرح بازار کا اتار چڑھاؤ مقرر کرتا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ اس اتار چڑھاؤ کے ہاتھوں بالکل دیوالیہ ہو کر رہ جائے اور ہوسکتا ہے کہ کچھ نفع حاصل کرلے۔ اسی طرح اس معاملے میں بھی اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کہ وہ ایک بار ایک روپے کی چیز ایک روپے دو آنے یا چار آنے میں بیچ کر پھر اس روپے سے ایک دھیلے کا بھی کوئی نفع اس وقت تک نہیں کما سکتا جب تک اس کا وہ روپیہ تمام خطرات اور سارے اتار چڑھاؤ سے گزر کر پھر میدان میں نہ اترے اور معاشرے کی خدمت کر کے اپنے لیے استحقاق نہ پیدا کرے۔
بھلا بتائیے کیا نسبت ہے ایک تاجر کے اس جانباز غیور اور خدمت گزار سرمایہ سے ایک سود خوار کے اس سنگ دل، بزدل، بےغیرت اور دشمن انانیت سرمایہ کو جو جوکھم تو ایک بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن منافع بٹانے کے لیے سر پر سوار ہوجاتا ہے۔ سود خور کا سرمایہ دو بھیسوں میں ظاہر ہوتا ہے اور دونوں ہی میں وہ یکساں بزدل اور خونخوار ہے۔ ایک تو یہ سودی کاروبار کرنے والے بنیوں، پٹھانوں اور یہودیوں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے، اس شکل میں تو اس کی خونخواری سے کسی کے لیے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ ایک بنیا یا پٹھان جب ایک مرتبہ اپنے جال میں کسی کو پھنسا پاتا ہے تو چاہے اس مظلوم کے جسم پر گوشت کی ایک بوٹی بھی باقی نہ رہ گئی ہو لیکن وہ اپنی ہر میعاد پر آ کر اپنا ایک پونڈ گوشت کاٹ لے گا اور مدت العمر کی اس قطع و برید کے بعد بھی بسا اوقات ہوتا یہ ہے کہ نہ صرف بنیے کا اصل سرمایہ قرضدار پر لدا رہتا ہے بلکہ وہ اصل سے کئی گنا ہو کر آکاس بیل کی طرح مظلوم قرض دار کے گھر در، اس کے اثاث البیت اور اس کے زن و فرزند ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور خاندان کے خاندان کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ کے رکھ دیتا ہے۔ بتائیے کس تاجر کے سرمایہ میں یہ سکت ہے کہ وہ کسی پر یہ ظلم ڈھا سکے ؟ وہ تو زیادہ سے زیادہ اگر کرسکتا ہے تو یہ کہ بازار کے سارے اتار چڑھاؤ کا مقابلہ کر کے اگر موقع پائے تو اپنی ایک روپیہ کی چیز ڈیڑھ یا دو روپے میں بیچ لے اور وہ بھی ایک مرتبہ۔
سود خور کے سرمایہ کا دوسرا بھیس وہ ہے جس میں وہ رفاہی کاموں، اجتماعی منصوبوں اور ملکی اسکیموں کی سرپرستی کے نام سے اٹھتا ہے۔ اس زمانے میں بہت سے سادہ لوح اس بھیس میں اس کو بڑا معصوم سمجھتے ہیں لیکن غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس کی بزدلی اور خود غرضی کی فطرتِ بد اس کے اس جامے میں بھی اسی طرح موجود ہے جس طرھ پہلے بھیس میں موجود ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیے۔ فرض کیجیے ملک کی حکومت ملک کے کسی حصے کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے یا کسی اور خطرے سے بچانے کے لیے کوئی بڑا منصوبہ عمل میں لانا چاہتی ہے اور اس کے لیے پانچ یا سات فی صد کی شرح پر لوگوں سے قرض لیتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت کا منصوبہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد کسی ارضی و سماوی آفت کی زد میں آ کر تباہ ہوجائے۔ اب بتائیے کہ ملک نے تو بحیثیت مجموعی ایک شدید قسم کا نقصان اٹھایا لیکن جن سود خوروں نے اس کے لیے قرض دیے تھے نہ صرف ان کا سرمایہ محفوظ ہے بلکہ ایک معین شرح کے ساتھ اس کا سود بھی دم بدکم اس میں اضافے پر اضافہ کیے چلا جا رہا ہے۔ آخر یہ قومی خدمت کی کون شکل ہوئی ؟ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ پہلی صورت میں اور اس دوسری صورت میں حقیقت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔ پہلی صورت میں سود خور کو صرف اس امر سے بحث ہے کہ اس کا سرمایہ محفوظ رہے اور منافع کا ایک پونڈ گوشت بغیر کسی غل و غش کے فصل فصل پر اس کو ملتا رہے، چاہے قرض دار کی سات پشتیں فاقہ کرتی مر جائیں۔ اور اس صورت میں بھی اس کے سامنے یہی چیز ہے کہ اس کا اصل سرمایہ بےداغ محفوظ رہے، معین سود اس کے حساب میں جمع ہوتا رہے، رہا قوم کا مردہ تو وہ چاہے دوزخ میں جائے یا بہشت میں۔
برعکس اس کے ایک تاجر کا سرمایہ قوم اور ملک کی خدمت کے لیے سب سے پہلے خود اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ اگر حالات کے رد و بدل، بازار کے اتار چرھاؤ، یا کسی اور سبب سے اس کو نقصان پہنچ جائے تو اس نقصان کو وہ اپنے ہی اوپر برداشت کرتا ہے۔ اس کے لیے ایک لمحہ کے واسطے بھی اس بات کا امکان نہیں ہوتا کہ وہ سود خور کے سرمائے کی طرح کسی کمین گاہ میں چھپ کر بیٹھے اور دوسروں سے اپنا نفع وصول کرتا رہے۔ اگر اس کو ساز گار سے ساز گار حالات بھی میسر آجائیں تب بھی بہرحال اس کے منافع کی شرح پا بزار کا فیصلہ ناطق ہوتا ہے اور اس طرح جو کچھ وہ حاصل کرپاتا ہے درحقیقت وہ اس کا جائز حق المحنت ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاجر کے منافع کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تعبیر فرمایا ہے اور سود خور کے سرمایہ کو، جیسا کہ ہم سورة روم کی تفسیر میں واضح کریں گے، اس سانڈ سے تشبیہ دی ہے جو دوسروں کی چراگاہ میں چر کر فربہ ہو رہا ہو۔
سود خوروں کے لیے تنبیہ : فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ الایہ : موعظت کے لفط میں زجر و تنبیہ کا پہلو غالب ہے اس وجہ سے اس کی اصل روح کو پیش نظر رکھ کر ہم نے اس کا ترجمہ تنبیہ کیا ہے، اس کی تانیث چونکہ غیر حقیقی ہے اس وجہ سے لفظ کے مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے فعل مذکر آیا ہے۔ ‘ من ربہ ’ کے الفاظ نے اس تنبیہ کے اندر ایک خاص زور پیدا کردیا ہے۔ یعنی یہ تنبیہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے بلکہ یہ سب کے مالک و آقا کی طرف سے تنبیہ ہے اس وجہ سے اس کو سہل نہیں خیال کرنا چاہیے۔ فَلَهٗ مَا سَلَفَ ، یعنی اس تنبیہ کے بعد جو سودی لین دین سے رک گیا، اس سے اس کے پچھلے لیے ہوئے سود کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ اس قانون کا نفاذ اگر ماضی پر بھی اثر انداز ہوتا تو اس سے ناقابل حل مشکلات پیدا ہوجاتیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ یعنی ایسے شخص سے اسلامی حکومت تو اس کے سابق سودوں پر کوئی گرفت نہیں کرے گی لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ خدا سے بھی اس کو معافی مل گئی، بلکہ اس کا معاملہ خدا کے حوالے ہے۔ خدا کے حوالے کرنے کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کی پکڑ سے بچنے کے لیے مجرد یہ بات کافی نہیں ہے کہ آدمی سود نہ لے بلکہ یہ بھی ضرور ہے کہ آدمی کے دل سے بھی سود کا ہر شائبہ نکل جائے۔ اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس طرح کے لوگ آخرت سے بےخوف ہو کر نہ بیٹھ رہیں بلکہ جس حد تک بھی ہوسکے اپنے پچھلے مظالم کی تلافی کی کوشش کریں، اس لیے کہ یہ مظالم حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے ہیں اور حقوق العباد کا معاملہ خدا کے ہاں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ۔

یعنی اس واضح تنبیہ کے بعد بھی جو لوگ سودی کاروبار کریں گے وہ دوزخی ہیں اور وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے دائمی دوزخ کی سزا کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ان کا یہ رویہ اس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ وہ خدا کے اس حکم کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی اگر جذبات کے غلبے کے سبب سے ہوجاتی ہے تو توبہ کے ذریعے سے اس کی اصلاح کی راہ کھلی ہوئی ہے۔ اس کا بھی امکان ہے کہ توبہ سے غفلت کے باوجود اللہ تعالیٰ کسی کو معاف کردے یا اس کے گناہوں کے بقدر اس کو سزا دے کر رہائی دے۔ لیکن نہایت واضح تذکری و تنبیہ کے بعد بھی ایک شخص کسی حکم کی خلاف ورزی پر اصرار کیے چلا جا رہا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کے اس حکم کا منکر ہے۔ اگر وہ اس کے ساتھ ایمان کا بھی دعوی کرتا ہے تو یہ محض ایک منافقانہ قسم کی حرکت ہے جو اس عالم الغیب سے مخفی نہیں ہے جو دلوں کے تمام بھیدوں سے بخوبی واقف ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کے وہ مستحق ہیں۔ یعنی ان کو جہنم کے اس دائمی عذاب میں جھونک دے گا جو کفار و منافقین کے لیے مقرر ہے۔
گناہ کا احاطہ دائمی عذاب کا موجب ہے : یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھان چاہئے کہ ایک چیز تو ہے کسی جرم کا مرتکب ہونا اور ایک چیز ہے کسی جرم کو اوڑھنا بچھونا بنا لینا۔ جو جرم اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے وہ مجرم کی زندگی کے کسی ایک ہی پہلو کو متاثر نہیں کرتا بلکہ اس کی زندگی کا ہر پہلو اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اس کا ظاہر، اس کا باطن، اس کا عقیدہ، اس کا عمل اور اس کا ایمان و اسلام سب اس جرم کی چھاپ قبول کرلیتا ہے۔ اس حالت کو قرآن نے ‘ احاطہ ’ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے دائمی عذاب نار ہے۔ مثلاً ارشاد ہے “ بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ : البتہ جس نے کوئی بدی کمائی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ”(بقرہ :81)
محق کے معنی گھٹانے اور مٹانے کے ہیں۔ اسی سے محق اللہ الشیء نکلا جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے اس چیز کی برکت مٹادی۔ ارباء کے معنی بڑھانے اور زیادہ کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ سود خور تو یہ سمجھتا ہے کہ سود سے سرمایہ بڑھتا اور خیرات سے گھٹتا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ یہ گھٹانا اور بڑھانا دنیوی زندگی کے محدود تصور کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ دنیا اور آخرت دونوں کی مجموعی زندگی کے لحاظ سے ہے۔ جب اخروی زندگی کی صبح ہوگی تو سود خور دیکھے گا کہ دنیا کے بنک میں تو اس کے لاکھوں روپے جمع تھے لیکن خدا کے بنک میں اس کی ایک کوڑی بھی نہیں ہے، صرف حسرت و ندامت ہی اس کا سرمایہ ہے۔ برعکس اس کے خدا کی راہ میں انفاق کرنے والا جب اس زندگی میں آنکھ کھولے گا تو دیکھے گا کہ اس کے خزف ریزوں کے عوض یہاں ابدی قدر و قیمت رکھنے والے جواہرات کے پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ اس امر کی وضاحت بھی ہے کہ اس گھٹنے اور بڑھنے کا تعلق آخرت ہی کی زندگی سے ہے۔ مثلاً “ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ : اور جو مال تم سود کے لیے دیتے ہو کہ وہ لوگوں کے مال میں پل کر برھے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور یہ جو تم زکوۃ دیتے ہو، اس کی رضا طلبی میں، تو یہی لوگ خدا کے ہاں بڑھانے والے ہیں ” (روم :39) ۔
احادیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ ایک حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ “ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صدقہ کو قبول کرتا ہے اور اس کو اپنے داہنے ہاتھ سے لیتا ہے، پھر وہ اس کو تمہارے لیے اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ تمہارا دیا ہوا ایک لقمہ خدا کے ہاں احد پہاڑ کی مانند بن جائے گا ”۔ اگرچہ سود کے سرمایہ میں کوئی خیر و برکت اس دنیا کی زندگی میں بھی نہیں ہوتی لیکن آیت کا تعلق آخرت ہی کے نتائج وثمرات سے ہے۔
سود کی بےبرکتی کا باعث : كَفَّار کے معنی یہاں ناشکرے کے ہیں اور اَثِيْم کے معنی، جیسا کہ ہم دوسری جگہ وضاحت کرچکے ہیں، دوسروں کے حقوق تلف کرنے والے کے ہیں۔ یہ ٹکڑا اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ سود خور کے سرمایہ کو مٹائے گا۔ فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ناشکرا اور اللہ کے بندوں کے حقوق تلف کرنے والا ہے اور اللہ ان لوگوں کو کبھی دوست نہیں رکھ سکتا جو اس کی ناشکری کرنے والے اور اس کی مخلوق کے حوق تباہ کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی ضرورت سے زیادہ مال دیتا ہے تو اس لیے دیتا ہے کہ وہ خدا کا شکر گزار بندہ اور جس طرح اللہ نے اس کے اوپر احسان فرمایا ہے اسی طرح وہ دوسروں پر احسان کرے لیکن جب وہ مال کو پا کر اس مال ہی کی بندگی میں لگ جاتا ہے اور دوسروں کے لیے سہارا بنانے کے بجائے اس کو ان کا خون چوسنے اور ان کے حقوق تلف کرنے کا ذریعہ بنا لیتا ہے تو ایسا قسی القلب اور نا شکرا اسی بات کا سزا وار ہے کہ اللہ کے ہاں اس کی دلوت صرف موجبِ وبال و خسران ہو، اور محرومی کے سوا اس کے پلے کچھ نہ پڑے۔
اہل ایمان کے عظیم اجر وثواب کا ذکر فرمایا ہے اور قرینہ دلیل ہے کہ یہاں اشارہ ان اہل ایمان کی طرف ہے جن کے صدقات میں برکت کی طرف اوپر والی آیت میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس آیت کے تماما اجزاء کی تشریح مختلف مقامات میں گزر چکی ہے۔ یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
سودی کاروبار پر آخری ضرب : اس آیت میں اہل ایمان کو براہ راست خطاب کر کے اللہ سے ڈرتے رہنے اور سود کا جو حصہ قرضداروں کے ذمہ ابھی باقی تھا اس سے بالکل دستبردار ہوجانے کی ہدایت فرمائی اور اس کو ایمان کا لازمی تقاضا ٹھہرایا۔ اس سے پہلے سود سے متعلق جو آیات نازل ہوئی تھیں ان کی نوعیت نصیحت و موعظت کی تھی اور ان کی بنیاد اس امر پر تھی کہ آسمانی مذاہب اور دنیا کے معروف میں اس کی حیثیت ہمیشہ سے ایک حرام یا کم از کم ایک مکروہ شے کی رہی ہے۔ اہل عرب اس حقیقت سے ناواقف نہیں تھے۔ اس وجہ سے قرآن نے مکی دور ہی سے اس کا ظلم ہونا واضح کرنا شروع کردیا تھا چناچہ اسی پہلو سے اس کا ذکر سورة روم میں بھی ہوا ہے اور وہ ایک مکی سورة ہے لیکن چونکہ اس کی نوعیت ایک وسیع معاشی فساد کی تھی جس کی اصلاح بغیر اس کے ممکن نہیں تھی کہ ملک کا پورا نطام عملاً اسلام کے زیر اقتدار ہو اس وجہ سے اس پر آخری ضرب حجۃ الوداع کے موقع پر لگائی گئی۔ یہ آیتیں اسی موقع پر نازل ہوئیں اور مضمون کی مناسبت کی وجہ سے ان کو ترتیب میں یہاں جگہ دی گئی۔
سود خوروں کو الٹی میٹم : اس کی نوعیت بالکل الٹی میٹم کی ہے یعنی اب جو لوگ اس حکم کو نہ مانیں گے وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبردار ہوجائیں۔ سود کے متعلق جو لب و لہجہ ان آیات کا ہے بعینہ یہی لہجہ سود سے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خطبہ حجۃ الوداع میں معلوم ہوتا ہے جس سے ان آیات کے زمانہ نزول کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس آیت سے صریح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلامی نظام میں سودی کاروبار کرنے والوں کی حیثیت باغیوں اور مفسدوں کی ہے جن کی سرکوبی کے لیے عند الضرورت فوجی کاروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ اس پر تفصیلی بحث سورة مائدہ میں آئے گی۔
اس الٹی میتم کے بعد سودی کاروبار رکھنے والوں کو صرف اس امر کی اجازت دی گئی کہ وہ اپنی اصل رقمیں قرض داروں سے واپس لے سکتے ہیں، نہ وہ اس میں کسی چال سے سود کی کوئی رقم جوڑ کر قرض دار کی حق تلفی کی راہ ڈھونڈھیں اور نہ قرض داروں کے لیے یہ بات جائز ہے کہ وہ اس اصلاح سے فائدہ اٹھا کر مہاجنوں کی اصل رقمیں بھی دبا بیٹھنے کی کوشش کریں۔ یہ تنبیہ اس لیے ضروری ہوئی کہ جب کوئی اہم اور معاشی اصلاح عمل میں آتی ہے تو اس سے متاثر ہونے والے طبقات میں بڑی ہلچل پیدا ہوجاتی ہے۔ جن کو اس اصلاح سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے وہ ایسی تدبیریں اور ایسے حیلے اختیار کرتے ہیں جن سے وہ اپنے آپ کو نقصان سے بچا لے جائیں اور جنہیں فائدہ پہنچنے کی توقع ہوتی ہے وہ فائدہ کی اسی مقدار پر قناعت نہیں کرنا چاہتے جو انہیں قانون پہنچا رہا ہے بلکہ وہ قانون کی حدود سے آگے بڑھ کر ہاتھ مارنا چاہتے ہیں۔ اس افراتفری اور کشاکش کو روکنے کے لیے قرآن نے اول تو اس کے لیے بہت پہلے سے، جیسا کہ اوپر واضح ہوا، ذہنوں کو تیار کیا، پھر جب آخری حکم دیا تو اس کے ساتھ یہ ہدایت فرما دی کہ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ۔ اسی ہدایت کی یہ برکت تھی کہ عرب میں یہ عظیم معاشی اصلاح بغیر کسی طبقاتی کش مکش کے عمل میں آگئی۔ نہ مہاجنوں پر کوئی آفت آئی نہ قرضداروں کو کوئی گزند پہنچا بلکہ دونوں اس اصلاح کی برکت سے یکساں طور پر مستفید ہوئے۔ اگر بات کے اپنے حدود سے آگے بڑھ جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو یہاں ہم دکھاتے کہ دنیا میں دوسری قوموں کو اس قسم کی اصلاحات کے لیے کیا کیا قیمتیں دینا پڑی ہیں۔
تفسیر آیت 80 ۔ 81 ۔ اوپر مہاجنوں کو یہ اجازت جو دی ہے کہ وہ اپنی اصل رقم قرضداروں سے واپس لے سکتے ہیں، اس کے ساتھ ان کو یہ ہدایت دی کہ اگر قرض دار تنگ دست ہو تو اس کو ہاتھ کشادہ ہونے تک مہلت دو ، اور اگر ایسی حالت میں اپنی اصل رقم بھی معاف کردو تو یہ بہت بہتر ہے، اس کا اجر وثواب بےپایاں ہے۔
حامیانِ سود کا ایک دعوی اور اس کا جواب : اس زمانے میں بعض کم سواد یہ دعوی کرتے ہیں کہ عرب میں زمانہ نزول قرآن سے پہلے جو سود رائج تھا یہ صرف مہاجنی سود تھا۔ فریب اور نادار لوگ اپنی ناگیر ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لیے مہاجنوں سے قرض لینے پر مجبور ہوتے تھے اور یہ مہاجن ان مظلوموں سے بھاری بھاری سود وصول کرتے تھے۔ اسی سود کو قرآن نے ربوٰ قرار دیا ہے اور اسی کو یہاں حرام ٹھہرایا ہے۔ رہے یہ تجارتی کاروباری قرضے جن کا اس زمانے میں رواج ہے تو ان کا اس زمانے میں نہ دستور تھا نہ ان کی حرمت و کراہت سے قرآن نے کوئی بحث کی ہے۔
عرب میں تجارتی قرضوں پر سود لینے کا بھی رواج تھا : ان لوگوں کا نہایت واضح جواب خود اس آیت کے اندر ہی موجود ہے۔ جب قرآن یہ حکم دیتا ہے کہ اگر قرض دار تنگ دست (ذو عسرۃ) ہو تو اس کو کشادگی (میسرہ) حاصل ہونے تک مہلت دو تو اس آیت نے گویا پکار کر یہ خبر دے دی کہ اس زمانے میں قرض لینے والے امیر اور مال دار لوگ بھی ہوتے تھے۔ بلکہ یہاں اگر اسلوب بیان کا صحیح صحیح حق ادا کیجیے تو یہ بات نکلتی ہے کہ قرض لین دین کی معاملت زیادہ تر مال داروں ہی میں ہوتی تھی۔ البتہ امکان اس کا بھی تھا کہ کوئی قرض دار تنگ حالی میں مبتلا ہو کہ اس کے لیے مہاجن کی اصل رقم کی واپسی بھی ناممکن ہو رہی ہو تو اس کے متعلق یہ ہدایت ہوئی کہ مہاجن اس کو اس کی مالی حالت سنبھلنے تک مہلت دے اور اگر اصل بھی معاف کردے تو یہ بہتر ہے۔ اس معنی کا اشارہ آیت کے الفاظ سے نکلتا ہے اس لیے کہ فرمایا ہے کہ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ (اگر قرض دار تنگ حال ہو تو اس کو کشادگی حاصل ہونے تک مہلت دی جائے) عربی زبان میں ‘ ان ’ کا استعمال عام اور عادی حالات کے لیے نہیں ہوتا بلکہ بالعموم نادر اور شاذ حالات کے بیان کے لیے ہوتا ہے۔ عام حالات کے بیان کے لیے عربی میں ‘ اذا ’ ہے۔ اس روشنی میں غور کیجیے تو آیت کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اس زمانہ میں عام طور پر قرض دار ذو میسرۃ (خوش حال) ہوتے تھے لیکن گاہ گاہ ایسی صورت بھی پیدا ہوجاتی تھی کہ قرضدار غریب ہا یا قرض لینے کے بعد غریب ہوگیا ہو تو اس کے ساتھ اس رعایت کی ہدایت فرمائی۔
یوں تو اس تفسیر میں جو کچھ بھی میں لکھ رہا ہوں سب استاذ (رح) ہی کا فیض ہے لیکن خاص اس آیت سے متعلق ان کے اپنے الفاظ بھی مجھے مل گئے ہیں جو کم از کم آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے ان کے قلم سے نکلے ہیں جب سود کے مسئلہ میں معترضین کی یہ موشگافیاں نہیں پیدا ہوئی تھیں جو اب پیدا ہوگئی ہیں۔ اس وقت مولانا نے بالکل غیر جانبدارانہ ذہن کے ساتھ، مجرد قرآن کے الفاظ سے جو رائے اس مسئلہ پر قائم فرمائی تھی وہ یہ ہے۔ “ وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ ۭ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ ، یلوح من ھذہ الکلمات انھم کانوا یاخذون الربوا من ذی میسرۃ والقریش کا نت تجادا واصحاب الربوا فلا اری فرقا بین حالھم وحال ابناء زماننا فی الربوا، واللہ اعلم بالصواب : وان کان ذو عسرۃ الایۃ کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اہل عرب خوش حالوں سے بھی سود لیتے تھے۔ پھر قریش تاجر لوگ تھے اور سودی بیوپار ان میں راج تھا۔ اس وجہ سے اس معاملے ان کے اور ہمارے حالات کے درمیان کوئی خاص فرق مجھے در باب سود نظر نہیں آتا۔ واللہ اعلم بالصواب ”۔
ظاہر ہے کہ مالدار لوگ اپنی ناگزیر ضروریات زندگی کے لیے مہاجنوں کی طرف رجوع نہیں کرتے رہے ہوں گے بلکہ وہ اپنے تجارتی مقاصد ہی کے لیے قرض لیتے رہے ہوں گے۔ پھر ان کے قرض اور اس زمانے کے ان قرضوں میں جو تجارتی اور کاروباری مقاصد سے لیے جاتے ہیں کیا فرق ہوا ؟

سورہء آل عمران
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ كُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ١٣٠؁ۚ
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ١٣١؁ۚ

اے ایمان والو ! سود نہ کھاؤ دگنا چوگنا بڑھتا ہوا۔ اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار ہے۔
’ اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ‘ کی قید کا مقصد : لفظ ربوا کی تحقیق اور اس سے متعلق دوسرے بعض اہم سوالات پر سورة بقرہ میں بحث گزر چکی ہے۔ یہاں اس کے ساتھ اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً کی جو قید لگی ہوئی ہے اس سے مقصود یہ ہے نہیں کہ اسلام میں ممنوع صرف سود در سود ہے، بلکہ یہ قید، جیسا کہ ہم سورة بقرہ میں ’ لایسالون الناس الحافا ‘ کے تحت متعدد مثالوں سے واضح کرچکے ہیں، محض صورت حال کی تصویر اور اس کے گھنونے پن کے اظہار کے لیے ہے۔ جس طرح ’ لاتکرھوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا : اپنی لونڈیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو اگر وہ قید نکاح میں آنا چاہتی ہیں ‘ میں ’ ان اردن تحصنا ‘ کی شرط سے مقصود یہ نہیں ہے کہ اگر وہ قید نکاح میں نہ آنا چاہیں تو ان کو پیشہ کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ مقصود اس سے صرف حال کی تصویر اور اس کے نفر انگیز ہونے کا اظہار ہے۔ اسی طرح آیت زیر بحث میں اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً کی قید ہے۔
یہاں اس قید کے نمایاں کرنے میں بلاغت کا ایک نکتہ بھی ہے۔ اوپر ہم ظاہر کرچکے ہیں کہ یہاں اصل مضمون جو بیان ہو رہا ہے وہ جہاد کے سلسلہ سے انفاق کا ہے۔ اس کی تمہید کے طور پر یہ سود خوری کی ممانعت کا ذکر ہوا ہے اس لیے کہ یہ انفاق کا ضد ہے۔ انفاق کا ذکر یہاں جس نوعیت سے ہوا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کو اس راہ میں مسابقت یعنی ایک دوسرے کے مقابل میں بڑھنے، بازی لے جانے اور میدان مارنے کی دعوت دی گئی ہے۔ گویا اہل ایمان کے لیے مقابلہ و مسابقت کا میدان اگر ہے تو یہ ہے۔ چناچہ اس مضمون کی تمہید ” سَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ الایہ : اور مسابقت کرو اپنے رب کی رحمت اور ایسی جنت۔۔۔ “ ہے۔ یہ مضمون اس بات کا مقتضی ہوا کہ اس میدانِ مسابقت کی دعوت دینے سے پہلے لوگوں کو اس میدان سے موڑا جائے جس میں یہودی ساہو کار اور مہاجن اب تک ایک دوسرے پر سبقت کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے اور ان کی دیکھا دیکھی عربوں کو بھی اس کا چسکا لگ رہا تھا۔ عربی زبان کا جن لوگوں کو کچھ ذوق ہے وہ اندازہ کرسکیں گے کہ سود خوری کے میدان میں اس مسابقت کا اظہار اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً کے الفاظ سے ہورہا ہے۔ اگر یہ الفاظ نہ ہوتے تو یہ حقیقت پوری طرح سامنے نہ آتی۔ قرآن نے یہ چاہا ہے کہ لوگ اس ناپاک میدان میں اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً کی غلاظت کا انبار جمع کرنے کے بجائے اس جنت کے لیے بازیاں لگائیں جس کی پہنائی آسمان و زمین کے برابر ہے۔ وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ کا ٹکڑا اس سیاق میں اس بات کی نہایت واضح دلیل ہے کہ اس تنبیہ کے بعد بھی جو لوگ سود خوری پر مصر رہیں گے وہ کافر ہیں اور ان کے لیے دوزخ کی آگ تیار ہے اس نکتہ پر ہم سورة بقرہ میں بحث کرچکے ہیں۔ درحقیقت ایسے لوگ اپنی آگ کے لیے اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ایندھن خود فراہم کر چھوڑتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی آگ بالکل تیار ہے۔

سورۃالنساء
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا ١٦٠؀ۙ
وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ١٦١؁

پس ان یہود ہی کے ظلم کے سبب سے ہم نے بعض پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کردیں جو ان کے لیے حلال تھیں اور بوجہ اس کے کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکتے ہیں
اور بوجہ اس کے کہ وہ سود لیتے ہیں حالانکہ اس سے ان کو روکا گیا ہے اور بوجہ اس کے کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھاتے ہیں اور ہم نے ان میں سے کافروں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے

160 ۔ 161:۔ فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَثِيْرًا۔ وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۭوَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا۔

یہود پر جائز چیزوں کے حرام ہونے کی نوعیت : فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ ، میں لفظ ظلم کی تقدم سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ وہ یہود پر حلال چیزیں جو حرام ہوئیں تو یہ بھی خود انہی کے اپنے نفس پر ظلم کرنے کے سبب سے حرام ہوئیں، اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ جائز چیزوں کے حرام کیے جانے کی ان کے ہاں جو صورتیں پیدا ہوئیں ان پر ہم بقرہ کی تفسیر میں بھی گفتگو کرچکے ہیں اور آل عمران کی آیت 50 کے تحت بھی اس پر بحث ہوچکی ہے۔
سود کی حرمت کا حکم احبار میں : وَّاَخْذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدْ نُھُوْا عَنْهُ ، سود کی حرمت کا صریح حکم احبار باب 25 ۔ 35 ۔ 38 میں ملاحظہ ہو۔ وَاَ كْلِهِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ کے مفہوم پر اسی سورة کی آیت 29 کے تحت گفتگو ہوچکی ہے۔
یہود کے اصلی مواقع ایمان : ان باتوں کا تعلق بھی یہود کی اسی فہرست جرائم سے ہے جو اوپر گزر چکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن اور پیغمبر پر ایمان لانے میں ان کے لیے جو چیزیں مانع ہیں وہ در اصل ان کے یہ جرائم ہیں نہ یہ کہ تم ان کو آسمان سے کوئی صحیفہ اترتا ہوا نہیں دکھا رہے ہو۔ یہ ہمیشہ سے گردن کش اور نافرمان ہیں۔ انہوں نے اپنی گردن کشی ہی سے اپنے اوپر حلال چیزیں حرام کرائی، اور اپنی گردن کشی ہی کے سبب سے ہمیشہ حق کی راہ میں روڑا بنے اور یہی چیز ہے جس نے ان کو آمادہ کیا کہ انہوں نے سود کو جائز کرلیا حالانکہ تورات میں ان کو صریح الفاظ میں اس کی ممانعت کی گئی تھی اور اسی کے سبب سے انہوں نے حرام خوری کے دوسرے تمام دروازے بھی کھول لیے حالانکہ یہ ان دروازوں کو بند کرنے پر مامور کیے گئے تھے۔ جن کا کردار یہ ہو ان سے کس طرح توقع کرتے ہو کہ وہ کوئی بڑے سے بڑا معجزہ دیکھ کر بھی قرآن پر ایمان لائیں گے۔ فرمایا کہ ان میں سے جتنے بھی کفر پر جم گئے ہیں، ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

سورۃالروم
وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ 39؀

اور جو سودی قرض تم اس لئے دیتے ہو کہ وہ دوسروں کے مال کے اندر پروان چڑھے تو وہ اللہ کے ہاں پروان نہیں چڑھتا اور جو تم زکوٰۃ دو گے اللہ کی رضا جوئی کے لئے تو یہی لوگ ہیں جو اللہ کے ہاں اپنے مال کو بڑھانے والے ہیں۔

وما اتیتم من ربا لیربوا فی اموال اناس فلا یربوا عند اللہ وما اتیتم من زکوۃ تریدون وجہ اللہ فاولئک ھم المضعفون (٣٩)

’ ربا ‘ اس مال کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو سودی قرض کے طور پر دیا جائے اور اس سود کو بھی کہتے ہیں جو کسی قرض پر حاصل کیا جائے۔ اس لفظ کو جن لوگوں نے ہدیہ یا عطیہ کے معنی میں لیا ہے انہوں نے بالکل غلط لیا ہے۔ یہ لفظ یہاں اس اسلوب پر استعمال ہوا ہے جس کو تم یہ الشئی بما ئیول الیہ کہتے ہیں جس طرح انی اعصر خمرا ہے۔ ہم نے اس آیت پر ایک مستقل مضمون لکھ دیا ہے جو ہمارے مجموعہ مضامین میں ملے گا۔
لفظ ’ زکوۃ ‘ یہاں اصطلاحی زکوٰۃ کے مفہوم میں نہیں بلکہ صدقات کے عام مفہوم میں ہے۔ اس مفہوم میں اس کا استعمال قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی ہوا ہے۔
اوپر کی آیت میں انفاق کا جو حکم دیا ہے یہ اس کے ضد کردار کا بیان ہے کہ جو لوگ مال کو پاکر اس کو اللہ کی رضا جوئی میں خرچ کرنے کے بجائے مال پروری کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور اس کو سودی قرض کے طور پر دیتے ہیں کہ ان کا مال دوسروں کے مال کا خون چوس کر فربہ ہوجائے تو وہ یادرکھیں کہ اس قسم کا مال اس دنیا میں موٹا ہو تو ہو لیکن خدا کے ہاں اس میں کوئی بڑھوتری نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ اس مال کو، جیسا کہ دوسرے مقام میں وضاحت ہے، مٹا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف اس مال میں بڑھوتری ہوتی ہے جو خدا کی رضا جوئی کے لئے خدا کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے۔
اس آیت کے الفاظ پر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو یہ بات صاف نظرآئے گی کہ سود خوار کے مال کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے سانڈے سے تشبیہ دی ہے جو دوسرے کی چراگاہ میں چر کو موٹا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی فربہی میں کوئی خیر و برکت نہیں ہے۔ خیر و برکت صرف اس مال میں ہے جو اپنی چراگاہ میں چر کر پروان چڑھتا ہے پھر خدا کی رضا جوئی اور ادائے حقوق کی راہ میں قربان ہوتا ہے۔ فرمایا کہ بیشک یہ لوگ اپنے سرمائے کو بڑھانے والے بنیں گے۔ اس بڑھانے کی شرح قرآن کے دوسرے مقامات میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکی ہے۔
مال جمع کرنے کی خواہش بالعموم مستقبل کے اندیشوں کو پیش نظر رکھ کر ہوتی ہے لیکن انسان مستقبل کو بہت تنگ نگاہ سے دیکھتا ہے اس وجہ سے اس کی نظر اسی زندگی تک محدود رہ جاتی ہے۔ اصل مستقبل یعنی آخرت کو وہ نہیں دیکھتا حالانکہ اس کے مال کا اصلی فائدہ صرف اس صورت میں اس کو حاصل ہوسکتا ہے جب وہ اس دنیا کے بنکوں میں جمع کرنے کے بجائے خدا کے بنک میں اس کو جمع کرے تاکہ وہ اس کی ابدی زندگی میں اس کے کام آئے۔
یہاں اس بات کو بھی یاد رکھیے جس کی طرف ہم دوسرے مقام میں اشارہ کرچکے ہیں کہ ایک تاجر یا کاروباری کے سرمایہ میں جو اپنے سرمایہ کو کسی جائز تجارت یا کاروبار میں لگا کر اس کو بڑھاتا ہے اور ایک سود خور کے سرمایہ میں جو سود پر قرض دے کر اس میں اضافہ کرتا ہے یہ بنیادی فرق ہے کہ تاجو کا سرمایہ ہر قسم کے حالات وخطات کا مقابلہ کرکے خود اپنی چراگاہ میں فربہی و توانائی حاصل کرتا ہے اور سود خور کا سرمایہ ایک کمین گاہ میں چھپ کر، بغیر کوئی خطرہ مول لیے، حاجتمندوں سے غنیمت حاصل کرتا اور موٹا ہوتا ہے۔ ان دونوں کے اس بنیادی فرق کے سبب سے اسلام نے تجارت اور کاروبار کی بڑھوتری کو مبارک قرار دیا ہے اور سود کی بڑھوتری کو فاسد اور حرام۔