سوال: روپے کے سود اور زمین کے کرائے میں کیا فرق ہے؟ خاص کر اس صورت میں جبکہ دونوں سرمائے کے عناصر ترکیبی (Units of Capital) ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صد روپیہ پانچ روپے سالانہ کی شرح سود پر لگایا جائے تو ایک بیگھہ زمین پانچ روپے سالانہ لگان پر، آخر ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ دونوں حالتوں میں یہ معاملہ مشتبہ ہے کہ فریق ثانی کو نفع ہوگا یا نقصان۔ سرمایہ کار (Lender) کو اس سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ صاحبِ زر یا صاحبِ زمین نفع نقصان سے بالکل بے نیاز رہتا ہے۔
جواب: زمین کے کرائے کی جو شکل میرے نزدیک جائز ہے، اس کی تشریح میں مسئلہ ملکیت زمین میں کرچکا ہوں۔ اسے نگاہ میں رکھ کر سوچئے کہ اس میں اور سود میں کیا فرق ہے۔ کرایہ جن چیزوں کا لیا جاتا ہے، وہ ایسی چیزیں ہیں جو کرایہ دار کے استعمال سے کچھ نہ کچھ ٹوٹتی پھوٹتی یا خراب ہوتی ہیں اور جن کا اپنی اصلی حالت میں مالک کو واپس ملنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کلیہ کا اطلاق جس طرح فرنیچر، مکان، موٹر وغیرہ پر ہوتا ہے، اسی طرح زمین پر بھی ہوتا ہے خواہ اسے لے کر کوئی شخص بھٹہ لگائے، کوئی اسٹال لگائے یا کسی اور طریقے سے استعمال کرے۔ لیکن روپیہ تو محض ایک قوت خرید کا نام ہے، اسے اگر کوئی شخص مستعار لے تو اس کے ٹوٹنے پھوٹنے یا گھسنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اسے قرض لینے والا جوں کا توں لوٹا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص غلہ قرض لے تو جتنا غلہ لیا ہے اتنا ہی وہ واپس دے سکتا ہے۔ غلہ کی مقدار جو دراصل قرض لی گئی ہے کوئی گھسنے والی یا خراب ہونے والی چیز نہیں ہے۔
(ترجمان القرآن ربیع الاول، ربیع الآخر ۱۳۷۰ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء)