او لین بات جس کو جان لینا اسلامی نظام تمدن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ، یہ ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے اصل اہمیت فرد کی ہے نہ کہ جماعت یا قوم یا معاشر ے کی ۔فرد جماعت کے لیے نہیں ہے بلکہ جماعت فرد کے لیے ہے ۔خدا کے سامنے جماعت یا قوم یامعاشرہ اپنی مجموعی حیثیت میں جواب دہ نہیں ہے بلکہ ایک ایک شخص فردا فردا اپنی ذاتی حیثیت میں ذمہ دار وجواب دہ ہے ۔اور اس ذاتی ذمہ داری وجواب دہی پر ہی انسان کی ساری اخلاقی قدروقیمت کا مدار ہے ۔اجتماعی زندگی سے اصل مقصود مجموعی خوشحالی نہیں بلکہ ایک ایک فرد انسانی کی فلاح و بہبود ہے ۔ ایک نظام اجتماعی کے صالح یافاسد ہو نے کا حقیقی معیار یہ ہے کہ وہ اپنے افراد کی شخصیتوں کے پھلنے پھولنے میں اور ان کی ذاتی صلاحیتوں کے بروئے کار آنے میں کس حد تک معاون و مدد گار یا مانع ومزاحم ہو تا ہے۔اس بنا پر اسلام اجتماعی تنطیم کی کسی ایسی صورت کو ،اور اجتماعی فلاح کے نام سے کسی ایسی اسکیم یا تدبیر کو پسند نہیں کرتا جس سے افراد اجتماعی شکنجے مین اس طرح کس جاتے ہو ں کہ ان کی مستقل شخصیت ہی دب جائے اور بہت سے آدمی چند آدمیوں کے ہاتھوں میں بے روح اوزار بن کر وہ جائیں۔
انسان کی انفرادیت کا صحیح نشوو نما اور اس کی شخصیت کا پو را ابھار اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ اسے فکر وعمل کی آزادی حاصل ہو ۔اس غرض کے لیے صرف آزادی رائے ، آزادی تحریر و تقریر،آزادی سعی و عمل،اور آزادی اجتماع ہی ضروری نہیں ہے،بلکہ آزادی معاش بھی اتنی ہی ضروری ہے ۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے جسے ثابت کرنے کے لیے کسی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں ۔صرف عقل عام ہی اس کا ادراک کرنے کے لیے کافی ہے ۔ایک راہ چلتا آدمی بھی اس بات کو خوب جانتا ہے کہ جس شخص کی معاش آزاد نہیں ہے اسے درحقیقت کو ئی آزادی بھی حاصل نہیں ہے ،نہ رائے کی ،نہ زبان اور قلم کی اور نہ سعی وعمل کی ۔لہذا انسانیت کے لیے اگر معاشرے کی کو ئی حالت سب سے بہتر ہو سکتی ہے توصرف وہ جس میں ایک بندہ خدا کے لیے اس امر کے کافی مواقع موجود ہو ں کہ اپنے ضمیر کو فروخت کیے بغیر اپنے ہاتھ پاؤں کی محنت سے دو وقت کی روٹی پیدا کر سکے ۔اگر چہ صنعتی انقلاب کے دور میں اس کے مواقع بہت کم رہ گئے ہیں۔ بڑے صنعتی اور تجارتی اداروں نے اور بڑے پیمانے کی کاشت نے منفرد دست کا روں اور کاریگروں کے لیے اور چھوٹے چھوٹے سوداگروں اور کاشت کاروں کے لیے زندگی کا میدان اس قدر تنگ کر دیا ہے کہ وہ ان کے مقابلے میں اپنے آزاد پیشے کامیابی کے ساتھ نہیں چلا سکتے ۔تاہم جس نظام میں ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت برقرار ہو اس میں باوسیلہ اشخاص کے لیے اس امر کا اچھا خاصا موقع باقی رہتا ہے کہ خود اپنے آزاد صنعتی یا تجارتی یا زراعتی ادارے قائم کریں اور بے وسیلہ کارکنوں کے لیے بھی کم ازکم اپنی گنجائش تو ضروری ہی باقی رہ جاتی ہے کہ ایک شخص یا ادارے کی نوکری و مزدوری ان کے ضمیر پر بار ہو تو دوسرے دروازے پر جا کھٹرے ہو ں۔ مگر جہاں تمام یا بیشتر ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت بنا دیا جائے ،یا جہاں شخصی ملکیتوں کو باقی رکھا جائے ،مگر نازی وفاشی طریقے پر سارے معاشی کاروبار کو ریاست کے مکمل تسلط میں ایک ہمہ گیر منصوبہ بندی کے تحت چلایا جائے ،ایسی جگہ تو افراد کی معاشی آزادی کسی طرح بھی باقی رہ ہی نہیں سکتی اور اس کا خاتمہ کے ساتھ ذہینی ،معاشرتی اور سیاسی آزادی کا جنازہ آپ سے آپ نکل جاتا ہے ۔لہذا جو نظام زندگی انسان کی انفرادیت کو عزیز رکھتا ہو اور انسانی شخصیت کے ابھار کو مقصدی اہمیت دیتا ہو اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ اجتماعی فلاح کی ایسی تمام اسکیموں کو اصولی طور پر اور قطعی و حتمی طور پر رد کر دے جن میں یہ تجویز کیا گیا ہو کہ زمینوں اور کارخانوں اور تجارتوں کو قومی ملکیت بنا لیا جائے ،یا ان پر ریاست کا نازیانہ تسلط قائم کرکے ایک مرکزی منصوبہ بندی کے تحت ساری معیشت کی مشین گھمانی شروع کر دی جائے ۔ یہی پو زیشن اس معا ملہ میں اسلام نے اختیار کی ہے ۔وہ کمیو نزم کا تو ایک اور وجہ سے بھی مخالفت ہے ، اور وہ یہ ہے کہ کمیو نسٹ حضرات ذرائع پیداوار کو انفرادی ملکیت سے نکال کرقومی ملکیت بنانے کے لیے ماردھاڑ اور زبر دستی سے کام لیتے ہیں۔لیکن اگر اس اسکیم کو نافذ کرنے کے لیے یہ غا صبانہ ظلم وستم اور ظالمانہ سلب و نہب کا طریقہ نہ بھی اختیار کیا جائے،اور اس کے بجائے ارتقائی سوشلزم کے وہ طریقے استعمال کیے جائيں جن سے زمینوں اور صنعتوں اور تجارتو ں کو قوانین کے ذریعہ سے بتدریج قومی ملکیت میں تبدیل کیا جاتا ہے ،تب بھی اسلام کا مزاج اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ،کیونکہ اس طرح کا نظام اپنی عین فطرت ہی کے لحاظ سے انسانیت کش واقع ہو ا ہے ۔ علی ہذا القیاس نازی اور فا شی طرز کی ضابطہ بندیاں بھی اسلام کی طبعیت کے بالکل خلاف ہیں،اس لیے کہ ان کے اجتماعی فوائد خواہ کچھ بھی ہو ں، لیکن انسانی تشخص کے ظہو ر اور نشو و ار تقاء اور تکمیل میں وہ بہر حال مانع ہیں۔ اس معا ملہ کا ایک پہلو اور بھی ہے ۔اسلام جو ذہنیت اور اخلاقی نقطہ نظر انسان کے اندر پیدا کرتا ہے اس کا سنگ بنیاد ہے خدا کا خوف ،اور خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری کا احساس۔یہ دونوں اوصاف جس شخص یا گروہ میں موجود ہو ں اس پر اگر اجتماعی معاملات کی سربراہی کا بار ڈال دیا جائے تو وہ ایسا ایک نظام قائم کرنے اور چلانے کے لیے خود ہی تیار نہیں ہو سکتا جس میں اپنے ذاتی بو جھ کے ساتھ ساتھ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی انفرادی ذمہ داریوں کا بو جھ بھی وہ ان کے سر سے اتار کر خود اپنے سر پر لا دلے۔یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں ایک قحط کے موقع پر فر مائی تھی۔جب آپ سے عر ض کیا گیا کہ قیمتیں بہت چڑھ رہی ہیں،آپ سر کاری طور پر اشیاء کے نرخ مقرر فرما دیجیے تو آپ نے ایسا کرنے سے انکار فرما دیا اور عذر یہ بیان کیا کہ انی ارید ان القی اللّہ ولیس لا حد عندی مظلمتہ یطلبنی بھا__”میں اپنے خدا سے اس طرح ملنا چاہتا ہو ں کہ میرے خلاف کو ئی ایک شخص بھی ظلم کی شکایت کرنے والا نہ ہو ۔”[اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ نے گرانی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور اس کے علاج کی طرف تو جہ نہیں فرمائی۔دراصل جس چیز سے آۖپ نے انکار کیا تھا وہ یہ تھی کہ حکو مت اپنی مصنوعی مداخلت سے قیمتوں کے پیچیدہ نظام کو درہم برہم کرے ۔اس طریقہ کو چھوڑکر آپ نے اپنی پو ری قوت کا روباری لو گو ں کی اخلاقی اصلاح پر صرف فرمائی اور مسلسل تبلیغ سے یہ بات ان کے ذہن نشین کی کہ جان بو جھ کر قیمتیں چڑھانا ایک بہت بڑا گناہ ہے ۔یہ تبلیغ خوب کار گر ثابت ہو ئی اور کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ قیمتیں اعتدال پر آنی شروع ہو گئیں۔]
مزید برآں اسلام ہر معاملہ میں انسان کو فطری حالت سے قریب تر رکھنا چاہتا ہے اور زندگی کے کسی پہلو میں بھی مصنوعی پن کو پسند نہیں کرتا ۔انسانی معیشت کے لیے فطری حالت یہی ہے کہ خدا نے رزق کے جو ذرائع اس زمین پر پیدا کیے ہیں ان کو افراد اپنے قبضے میں لا ئیں،فرد فرد اور گروہ گروہ بن کر ان پر تصرف اور ان سے استفادہ کریں اور اپنے آپس میں اشیاء اور خدمات کا آزاد نہ لین دین کرتے رہیں ۔غیر معلوم مدت سے اسی طرز پر انسانی معیشت کا کارخانہ چلتا آرہا ہے اور ہی گنجائش کچھ اور فطری نظام ہی میں نکل سکتی ہے کہ ایک آدمی معاشرے کے اندر رہتے ہو ئے بھی اپنی معیشت میں آزاد اور اپنی زندگی میں مستقل ہو سکے ۔رہے وہ بے شمار چھوٹے بڑے “ازم” جو نیم پختہ ذہن کے لوگ آئے دن تصنیف کرتے رہتے ہیں،تو وہ سب ایک نہ ایک طرح کا مصنوعی نظام تجویز کرتے ہیں جس میں آدمی ایک مستقل ذی روح انسان ایک ذی شعور شخصیت اور ایک مقصدی اہمیت رکھنے والی ہستی کی بجائے محض اجتماعی مشین کا ایک پرزہ بن کر رہ جاتا ہے ۔
مصنوعی طریقوں کی طرح اسلام انقلابی طریقوں کو بھی پسند نہیں کرتا ۔زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کسب معاش کے بکثرت ایسے ذرائع استعمال کرتے تھے جن کو اسلام نے بعد میں آکر حرام اورسخت قابل نفرت ٹھیرایا۔مگر پہلے کی جو املاک چلی آرہی تھیں ان کے متعلق اسلام نے یہ جھگڑا نہیں اٹھایا کہ جن جن لوگو ں نے حرام خوری کے ذریعہ سے دولت کمائی تھی اب ان کی املاک ضبط ہو نی چاہییں۔حتی کہ سود خواروں اورقحبہ گری کا پیشہ کرنے والوں اور ڈاکے مارنے والوں تک کے پچھلے اعمال پر گرفت نہ کی گئی۔جس کے قبضے میں جو کچھ تھا،اسلام کے دیوانی قانون نے اس پر اس کے حقوق ملکیت تسلیم کر لیے ،آئندہ کے لیے حرام طریقوں کو بند کردیا۔اور سابقہ املاک کو اسلام کا قانون میراث بتدریج تحلیل کرتا چلا گيا۔