جمع کرنے کی بجائے اسلام خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔مگر خرچ کرنے سے اس کا مقصد یہ نہیں کہ آپ اپنے عیش و آرام اور گلچھرے اڑانے میں دولت لٹائیں۔بلکہ وہ خرچ کرنے کا حکم فی سبیل اللہ کی قید کے ساتھ دیتا ہے ،یعنی آپ کے پاس اپنی ضرورت سے جو کچھ بچ جائے اس کو جماعت کی بھلائی کے کا موں میں خرچ کر دیں کہ یہی سبیل اللہ ہے ۔
وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَا يُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ١ؕ (البقرہ۔219) “اور وہ تم سے پو چھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں۔کہو کہ جو ضرورتسے بچ رہے ۔”
وَّ بِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا وَّ بِذِي الْقُرْبٰى وَ الْيَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِيْنِ وَ الْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِيْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ١ؕ (النساء۔36)“اور نیک سلوک کرو اپنے ماں باپ کے ساتھ اور اپنے رشتہ داروںاور یتیموں اور مسکینوں اور قرابت دار پڑوسیوں اور اجنبی ہمسایوں اور اپنے ملنے والے دوستوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کےساتھ۔”
وَ فِيْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىِٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ ( الذاریات۔19)“اور ان کے مالوں میں سائل اور نادار کا حق ہے ۔”
یہا ں پہنچ کر اسلام کا نقطہ نظریہ سرمایہ داری کے نقظہ نظرسے با لکل مختلف ہو جاتا ہے ۔سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ خرچ کرنے سے مفلس ہو جاؤں گا اور جمع کرنے سے مالدار بنوں گا۔اسلام کہتاہے خرچ کرنے سے برکت ہو گی۔تیری دولت گھٹے گی نہیں بلکہ اور بڑھے گی۔
اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ يَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ١ۚ وَ اللّٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا١ؕ ( البقرہ۔268) “شیطان تم کو ناداری کا خوف دلاتا ہے اور (بخل جیسی ) شرمناک بات کا حکم دیتا ہے ،مگر اللہ تم سے بخشش اور مزید عطا کا وعدہ کرتا ہے ”
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ جو کچھ خرچ کر دیا وہ کھو یا گیا،اسلام کہتا ہے کہ نہیں کھویا نہیں گیا بلکہ اس کا بہتر فائدہ تمہاری طرف پھر پلٹ کر آئے گا۔
وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۰۰۲۷۲ (البقرہ۔272)
“اور تم نیک کاموں میں جو کچھ خرچ کرو گے وہ تم کو پورا پو را ملے گا اور تم پر ہر گز ظلم نہ ہو گا۔”
اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً يَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ اُجُوْرَهُمْ وَ يَزِيْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ١ؕ (فاطر۔29۔30) ” اور جن لو گو ں نے ہمارے بخشے ہو ئے رزق میں سے کھلے اور چھپے طریقہ سے خرچ کیا وہ ایک ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں
جس میں گھاٹا ہر گز نہیں ہے ۔اور اللہ ان کے بدلے ان کو پورے پو رے اجر دیگا بلکہ اپنے فضل سے کچھ زیادہ ہی عنایت کرے گا۔”
سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ دولت کو جمع کرکے اس کو سود پر چلانے سے دولت بڑھتی ہے ۔اسلام کہتا ہے کہ نہیں، سود سے تو دولت گھٹ جاتی ہے ۔دولت بڑھانے کا ذریعہ نیک کاموں میں اسے خرچ کرنا ہے ۔
يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ يُرْبِي الصَّدَقٰتِ١ؕ (البقرہ۔276) “اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے ۔”
وَ مَاۤ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَاۡ فِيْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَاۤ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ۰۰۳۹ ( الروم۔39)“اور یہ جو تم سود دیتے ہو تا کہ لو گو ں کے اموال میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک وہ ہرگز نہیں بڑ ھتا ۔بڑھوتری تو ان اموال کو نصیب ہو تی ہے جو تم اللہ کے لیے زکو ۃ میں دیتے ہو ۔”
یہ ایک نیا نظریہ ہے جو سرمایہ داری کے نظر یہ کی بالکل ضد ہے ۔ خرچ کرنے سے دولت کا بڑھنا اور خرچ کیے ہو ئے مال کا ضائع نہ ہو نا بلکہ اس کا پو را پو رابدل کچھ زائد فائدے کے ساتھ واپس آنا،سود سے دولت میں اضافہ ہونے کے بجائے الٹا گھاٹا آنا ،زکوۃوصدقات سے دولت میں کمی واقع ہو نے کے بجائے اضافہ ہو نا،یہ ایسے نظریات ہیں جو بظاہر عجیب معلوم ہو تے ہیں۔ سننے والا سمجھتا ہے کہ شاید ان سب باتو ں کا تعلق محض ثواب آخرت سے ہو گا۔ اس میں شک نہیں کہ ان باتوں کا تعلق ثواب آخرت سے بھی ہے ،اور اسلام کی نگاہ میں اصلی اہمیت اسی کی ہے ،لیکن اگر غو ر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دنیامیں بھی معاشی حیثیت سے یہ نظریات ایک نہایت مضبوط بنیاد پر قائم ہیں۔دولت کو جمع کرنے اور اس کو سود پر چلانے کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ دولت سمٹ سمٹ کر چند افراد کے پا س اکھٹی ہو جائے ۔جمہو ر کی قوت خرید purchasing power)) روز بروزگھٹتی چلی جائے ۔صنعت اور تجارت اور زراعت میں کسادبازاری رونما ہو ، قوم کی معاشی زندگی تباہی کے سرے پرجاپہنچے،اور آخر کار خود سرمایہ دار افراد کے لیے بھی اپنی جمع شدہ دولت کو افزائش دولت کے کا موں میں لگانے کا کو ئی موقع باقی نہ رہے ۔[ اس بات کی طرف اشارہ ہے اس حدیث میں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ۔ص سود اگر چہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر انجام کا ر وہ کمی کی طرف پلٹتا ہے ۔”]
بخلاف اس کے خرچ کرنے اور زکوۃ وصدقات دینے کا مآل یہ ہے کہ قوم کے تمام افراد تک دولت پھیل جائے ،ہر شخص کو کافی قوت خرید حاصل ہو ، صنعتیں پرورش پائیں،کھیتیاں سرسبز ہو ں،تجارت کو خوب فروغ ہو ، اور چاہیے کو ئی لکھ پتی اور کڑور پتی نہ ہو ،مگر سب خوشحال وفارغ البال ہو ں۔اس مآل اندیشانہ معاشی نظریہ کی صداقت اگر دیکھنی ہو تو سرمایہ داری نظام کے تحت دنیا کے موجو دہ معاشی حالات کو دیکھتے کہ جہاں سود ہی کی وجہ سے تقسیم ثروت کا تو ازن بگڑ گیا ہے۔اور صنعت وتجارت کی کسادبازاری نے عوام کی معاشی زندگی کو تباہی کے سرے پر پہنچا دیا ہے ۔اس کے مقابلہ میں ابتدائے عہد اسلامی کی حالت کو دیکھے کہ جب ا س معاشی نظریہ کو پو ری شان کے ساتھ عملی جامہ پہنا یا گیا تو چند سال کے اندر عوام کی خوشحالی اس مرتبہ کو پہنچ گئی یہ لوگ زکوۃ کے مستحقین کو ڈ ھو نڈتے پھرتے تھے اور مشکل ہی سے کو ئی ایسا شخص ملتا تھا جو خود صاحب نصاب نہ ہو ۔ان دونوں حالتو ں کا موازنہ کرنے سے معلوم ہو جائے گا کہ اللہ کس طرح سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو نشوو نما دیتا ہے ۔
پھر اسلام جو ذہنیت پیدا کرتا ہے وہ بھی سرمایہ دارانہ ذ ہنیت سے با لکل مختلف ہے ۔سرمایہ دار کے ذہن میں کسی طرح یہ تصور سما ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص اپنا روپیہ دوسرے کو سود کے بغیر کیسے دے سکتا ہے ۔ وہ قرض پر نہ صرف سود لیتا ہے بلکہ اپنے راس المال اور سودکی با زیافت کے لیے قرضدار کے کپڑے اور گھر کے برتن تک قرق کرا لیتا ہے ،مگر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ حاجتمند کو صرف قرض ہی نہ دو بلکہ اگر وہ تنگ دست ہو تو اس پر تقاضے میں سختی بھی نہ کرو،حتی کہ اگر اس میں دینے کی استطاعت نہ ہو تو معاف کر دو۔
وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيْسَرَةٍ١ؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۰۰۲۸۰ (البقرہ۔028) “اگر قرضدار تنگ دست ہو تو اس کی حا لت درست ہو نے تک اسے مہلت دے دو،اور اگرمعاف کرودتو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اس کا فائدہ تم سمجھ سکتے ہو اگر کچھ علم رکھتے ہو ۔”
سرمایہ داری میں امداد باہمی کے معنی یہ ہیں کہ آپ انجمن امداد باہمی کو پہلے روپیہ دے کر اس کے رکن بنیے،پھر اگر کو ئی ضرورت آپ کو پیش آئے گی تو انجمن آپ کو عام بازاری شرح سود سے کچھ کم پر قرض دے دیگی۔اگر آپ کے پاس روپیہ نہیں ہے تو ” امداد باہمی” سے آپ کچھ بھی امداد حاصل نہیں کر سکتے ۔برعکس اس کے اسلام کے ذہن میں امداد باہمی کا تصور یہ ہے کہ لو گ ذی استطاعت ہو ں وہ ضرورت کے وقت اپنے کم استطاعت بھائیوں کو نہ صرف قرض دیں بلکہ قرض ادا کرنے میں بھی حسبتہ للہ ان کی مدد کر یں ،چنا نچہ زکوۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف والغارمین بھی ہے یعنی قرضداروں کے قرض ادا کرنا ،
سرمایہ دار اگر نیک کاموں میں خرچ کرتا ہے تو محض نمائش کے لیے ،کیونکہ اس کم نطر کے نزدیک اس خرچ کا کم سے کم یہ معاوضہ تو اس کو حاصل ہو نا ہی چاہیے کہ اس کا نام ہو جائے ۔اس کو مقبولیت عام حاصل ہو ،اس کی دھاک اور ساکھ بیٹھ جائے ۔مگر اسلام کہتا ہے کہ خرچ کرنے میں نمائش ہرگز نہ ہو نی چاہیے ۔خفیہ یا علانیہ جو کچھ بھی خرچ کرو،اس میں یہ مقصد پیش نظر ہی نہ رکھو کہ فورا اس کا بدل تم کو کسی نہ کسی شکل میں مل جائے بلکہ مآل کار پر نگاہ رکھو۔اس دنیاسے لے کر آخرت تک جتنی دور تمہاری نظر جائے گی تم کو ہی خرچ پھلتا پھولتا اور منافع پر منافع پیدا کرتا ہی دکھائی دے گا۔
“جو شخص اپنے مال کو نمائش کے لیے خرچ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان پر مٹی پڑی تھی،اس نے اس مٹی پر بیج بو یا،مگر پانی کا ایک ریلہ آیا اور مٹی کو بہا لے گیا۔اور جو شخص اپنی نیت کو درست رکھ کر اللہ کی خو شنودی کے لیے خرچ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے اس نے ایک عمدہ زمین میں باغ لگایا،اگر بارش ہو گئی تو دوگنا پھل لایااور آگر بارش نہ ہو ئی تو محض ہلکی سی پھوار اس کے لیے کافی ہے ۔”(سورۃ البقرہ۔264۔265)
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِيَ١ۚ وَ اِنْ تُخْفُوْهَا وَ تُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ١ؕ ( البقرہ۔271) “اگر صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے ،لیکن اگر چھپا کر دو اور غریب لو گوں تک پہنچاؤتو یہ زیادہ بہتر ہے ۔”
سرمایہ دار اگر نیک کام میں کچھ صرف بھی کرتا ہے تو با دل نا خواستہ بد تر سے بد تر مال دیتا ہے اور پھر جس کو دیتا ہے اس کی آدھی جان اپنی زبان کے نشتروں سے نکال لیتا ہے ۔اسلام اس کے بالکل بر عکس یہ سکھاتا ہے کہ اچھا مال خرچ کرو ،اور خرچ کرکے احسان نہ جتاؤ،بلکہ اس کی خواہش بھی نہ رکھو کہ کو ئی تمہارے سامنے احسان مندی کا اظہار کرے ۔
اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ وَ لَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ (البقرہ۔267)“تم نے جو کچھ کمایا ہے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالاہے اس میں سےعمدہ اموال کو راہ خدا میں صرف کرو نہ یہ کہ بد تر مال چھانٹ کر اس میں سے دینے لگو۔”
لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰى١ۙ (البقرہ۔264) “اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور اذیت پہنچا کر ملیا میٹ نہ کردو۔”
وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا۰۰۸ اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا۰۰۹ (الدھر۔8۔9)
“اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ کے لیے تم کو کھلاتے ہیں۔ہم تم سے کسی جزا اور شکریہ کے خواہش مند نہیں ہیں۔”
چھوڑ ئیے اس سوال کو کہ اخلاقی نقطہ نظر سے ان دونوں ذہنیتوں میں کتنا عظیم تفاوت ہے۔ہم کہتے ہیں کہ خالص معاشی نقطہ نظر ہی سے دیکھ لیجیے کہ فائد ے اور نقصان کے ان دونوں نظریوں میں سے کو نسا نظریہ زیادہ محکم اور دور رس نتائج کے اعتبارسے زیادہ صحیح ہے ۔ پھر جب کہ منفعت ومضرت کے باب میں اسلام کا نظریہ وہ ہے جوآپ دیکھ چکے ہیں تو کیو نکر ممکن ہے کہ اسلام کسی شکل میں بھی سودی کاروبار کو جائز رکھے ؟