یہ تھیں فا شیت اور نازیت کی برکات۔مگر ان برکات کے لیے اٹلی اور جرمنی کو کیا قیمت دینی پڑی؟
نازی اور فاشی حضرات نے طبقاتی منافرت کے افتراق انگیز اثرات کا مداوا قوم پرستی کی شراب سے نسلی فخر و غرور کے جنون سے ، دوسری قوموں کے خلاف نفرت اور غیظ و غضب کے اشتعال سے اور عالمگیری و جہاں کشائی کے جذبات سے کیا جس کا انجام کبھی کسی قوم کے حق میں بھی اچھا نہیں ہو ا ہے ۔ قوموں کا صحیح نشو ونما اور اٹھان اگر ہو سکتا ہے تو صرف تعمیری اخلا قیات اور ایک صالح نصب العین ہی کے بل پر ہو سکتا ہے ۔جو لیڈر اس طریقہ کو چھوڑ کر قومیت کے استحکام و ترمی کے لیے نفرت اور خطرے اور اشتعال ہی کو مستقل وسا ئل کے طور پر استعمال کرنے لگتے ہیں وہ اپنی قوم کا مزاج بگاڑ د یتے ہیں اور ایسے ذرائع ذرائع سے اٹھی ہو ئی قوم ایک نہ ایک دن بری طرح ٹھوکر کھا کر گرتی ہے ۔
انھوں نے اپنی قوم کی بھلائی کے لیے معاشی و تمدنی اصلاح کا جو پروگرام بنایا اس کو سیدھے سیدھے معقول طریقے سے نافذ کرنے کے بجائے ایک نہایت لغو اجتماعی وسیاسی فلسفہ گھڑا جو بے شمار مبالغہ آفر ینیوں اور علمی حماقتوں کا مرکب تھا۔انھوں نے پہلے یہ مقدمہ قائم کیا کہ” فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں”۔ پھر اس پر یہ ردا چڑھایا کہ ربط ملت میں جو فرد شامل نہیں ہو تا یا اس ربط کے قیام میں مانع ہو تا ہے اسے واقعی کچھ نہ رہنا چا ہیے ۔اس کے بعد استدلال کی عمارت یو ں کھڑی کی کہ ربط ملت کا اصل مظہر ہے قومی ریاست۔اور قومی ریا ست کے ضبط و استحکام کا انحصار ہے اس پارٹی پر جو قومی وحدت اور ترقی کا یہ پروگرام لے کر اٹھی ہے لہذا “جرمن ہے تو نازی پارٹی میں آ” اور “اٹالین ہے تو فاشست ہو جا۔” اس طرح قوم اور ریاست اور حکومت اور حکمران پارٹی کو ایک ہی چیز بنا ڈالا گیا۔ہر اس شخص کو قوم اور قومی ریاست کا دشمن قرار دے دیا گیا جس نے بر سر اقتدار پارٹی سے کسی معاملہ میں اختلاف کی جرات کی۔تنقید اور بحث اور آزادی رائے کو ایک خطرناک چیز بنا دیا گیا۔ایک پا رٹی کے سوا ملک میں کو ئی دوسری پا رٹی زندہ نہ رہنے دی گئی۔انتخابات محض ایک کھیل بن کے رہ گئے۔قوم کے دماغ پر ہر طرف سے مکمل احاطہ کرنے کے لیے پر یس ، ریڈیو، درسگاہ ،آرٹ ،لیٹر یچر اور تھیٹر کو بالکل حکمران پارٹی کے قبضہ میں لے لیا گیا تا کہ قوم کے کا نوں میں ایک آواز کے سواکوئی دوسری آواز پہنچنے نہ پائے ۔یہی نہیں بلکہ ایسی تدبیریں اختیار کی گئیں کہ اول تو غا لب پارٹی کی رائے کے سوا کو ئی رائے دماغوںمیں پیدا ہی نہ ہو ، اور اگر کچھ نا لا ئق دماغ ایسے نکل آئیں جو خدا وند ان ملت کے خیالات سے مختلف خیالا ت رکھتے ہو ں تو یا تو ان کے خیالات ان کے دماغ ہی میں دفن رہیں یا پھر ان کے دماغ زمین میں دفن ہو جائیں۔
انھوں نے بظاہر یہ بڑا ہی معقول سا نظریہ اختیار کیا کہ اجتماعی زندگی میں کو ئی مرکزی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ انتشار،بد نظمی اور با ہمی کشمکش بھی پیدا ہو تی ہے اور مجموعی طور پر طا قت اور ذرائع کا ضیاع بھی بہت بڑے پیمانے پر ہو تا ہے ۔ لہذا پو ری قومی زندگی کو منظم ہو نا چاہیے ۔اور ایک مرکزی حکم کے تحت ایک مرکزی طاقت کے مقرر کیے ہو ئے نقشے پر تمام افراد کو بالکل ایک مشین کے پرزوں کی طرح با قاعدہ کا م کرنا چا ہیے ۔انھوں نے خیال کیا کہ پیداوار اور ترقی اور خوشحالی کو تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھانے کی یہی صورت ہے ۔چنانچہ اس نظریہ کے مطابق انھوں نے سارے ملک کی زندگی کو اس کے تمام معاشی ،تمدنی،مذہبی۔تہذیبی اور سیاسی پہلوؤں سمیت ایک ضا بطے میں کس ڈالا اور ایک لگے بندھے منصوبے پر چلا نا شروع کر دیا۔ان کے نظام زندگی میں سب کچھ مقرر تھا۔ہر شخص اور ہر ادارے کا کام مقرر، اجرتیں مقرر،قیمتیں مقرر،حقوق اور فرائض مقرر۔قوتوں اور قابلیتوں کے استعمال کی صو رتیں مقرر۔سرمائے اور وسائل وذرائع کے مصرف مقرر ، حتی کہ فکر و خیال اور جذبات و رجحانات کی راہیں تک مقرر۔اور ان سب کے لیے کئی کئی سال کے پروگرام مقرر۔اب یہ ظاہر ہے کہ جن لو گوں نے محض قوم کی خاطر اتنی تکلیفیں اٹھا کر اور مغزز نی کرکے پو ری قومی زندگی کے اتنے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کی ہو ۔ وہ بھلا کیسے برداشت کر لیتے کہ ایک شخص اٹھے اور ان پر تنقید کر کے دماغوں میں انتشار پھیلائے ، جن کارکنوں کو کام میں منہمک ہو نا چاہیے انہیں بحث میں الجھا دے ، اور اتنی محنت سے بنائے ہو ئے منصوبے پر سے عوام الناس کا اطمینان اور اعتماد ختم کر دے ۔پس یہ” منصوبہ بند”زندگی کی اندرونی منطق ہی کا تقاضا تھا جس کی بنا پر وہ تنقید اور رائے زنی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے اور اس بات پر مصر تھے کہ جس کو بولنا ہو وہ ہمارے پروگرام کی موافقت میں بو لے ورنہ اپنا منہ بند رکھے ۔
منصوبہ بندی ہو گی تو زبان بندی اور خیال بندی بھی ضرور ہو گی۔اختلاف رائے بند ،بحث بند ،تنقید بند،مواخذہ اور احتساب بند ،بلکہ چند خاص دماغوں کے سوا ساری قوم کے دماغوں کا سوچنا بھی بند۔
یہاں پھر وہی سوال پیدا ہو تا ہے کہ نازی اور فاشی مسلک جو کچھ دیتے ہیں کیا وہ اس قیمت پر لینے کے قابل ہے ؟ ساری قوم میں چند انسان تو ہو ں انسان،اورباقی سب بن کر رہیں مویشی، بلکہ ایک مشین کے بے جان پرزے ۔اس قیمت پر یہ اطمینان ہو تا ہے کہ سب کو چارہ برابر ملتا رہے گا!