فا شی اور نازی حضرات اشترا کیوں کے اس خیال کو در کر دینے میں بالکل حق بجانب تھے کہ ایک معاشرے اور ایک قوم کے زمیندار وسرمایہ دار طبقات اور محنت پیشہ طبقات کے درمیان صحیح اور فطری تعلق صرف نفرت،عناد اور جنگ ہی کا تعلق ہے ۔ان کا یہ خیال بلکل صحیح تھا کہ اصل چیز طبقہ نہیں بلکہ معاشرہ اور قوم ہے جس کے مختلف اجزاء واعنصاء اپنے مجمویہ کے لیے مختلف خدمات انجام دیتے ہیں۔ان کے درمیان حقیقی تعلق دشمنی اور جنگ اور پیکار کا نہیں بلکہ موافقت اور تعاون اور تعابل کا ہے ۔ ان کا کام یہ ہے کہ سب مل کر سب کے لیے اشیائے ضرورت پیدا کریں اور اجتماعی پیداوار کو بڑھا کر قومی دولت اور طاقت میں اضافہ کر یں۔اس مو ا فقت اور تعاون میں اگر کوئی کمی یا خلل ہو تو اسے دور کرنا چاہیے ۔نزاع اور اختلاف ہو تو اسے رفع ہو نا چاہیے ۔نہ کہ وہ بڑھے اور ایک ہی معاشرے کے اجزاء ایک دوسرے کو فنا کر دینے پر تل جائیں۔
انھوں نے اشتراکیت کے اس نظر یہ کو بھی بجا طور پر رد کر دیا کہ اجتماعی مفاد کے لیے انفرادی ملکیت اور ذاتی نفع طلبی بجائے خود کو ئی نقصان دہ چیز ہے جسے ختم ہو جانا چاہیے ۔ان کا یہ خیال بالکل صحیح تھا کہ یہ دونوں چیزیں خود اجتماعی مفاد ہی کے لیے مفید اور ضروری ہیں۔بشرطیکہ یہ بے قید معیشت کی طرح غیر محدور نہ ہو ں بلکہ کچھ حدود کے ساتھ محدود کر دی جائیں۔انھوں نے کہا کہ افراد کو اپنے نفع کے لیے جدوجہد کرنے کا حق تو ضرور ہے مگر اس حق کا استعمال اجتماعی مفاد کے تحت اور اس کے مطابق ہو نا چاہیے نہ کہ اس کے خلاف ۔مرکزی مالیات ( high finance) معدنیات،جہاز سازی و جہاز رانی،سامان جنگ کی صنعت اور ایسے ہی دوسرے بڑے کاروبار(big business) انفرادی ملکیت میں نہ رہنے چاہییں ۔ ایسے اجاروں کو بھی ختم ہو نا چاہیے جن میں اجتماعی مفاد کو شخصی مفاد پر قربان کیا گیا ہو ۔تجارت میں سے سٹے کو قطعی بند ہو نا چاہیے ۔قرض و استقر اض کے نظام میں سے سود کو با لکل ساقط ہو جانا چاہیے ۔[ اگر چہ یہ لوگ سود کو عملا ًبند نہ کر سکے ،اور خود اسٹیٹ نے قرض لے کر اس پر سود ادا کیا،لیکن نازی اور فاشی دونوں سود کو برا جانتے تھے اور اسے بند کرنے کے قائل تھے ۔ کہ خواہ مخواہ اسے دشمن جما عت قرار دیا جائے ؟] اور کا روبار کو ایسے قواعد وضوابط کا پا بند ہونا چاہیے جو اس سے تعلق رکھنے والے لو گو ں کے مفاد سے مطابقت رکھتے ہوں نہ کہ صرف ایک گروہ کے مفاد سے ۔اس کے بعد اگر کارخانہ دار قیمتیں مناسب رکھتا ہے ، مال اچھا تیار کرتا ہے ، اپنے مزدوروں کو خوشحال اور خوشدل رکھتا ہے ،اپنی صنعت کو تر قی دینے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اپنی ان خدمات کے معا وضے میں جائز حدود کے اندر رہ کر منا فع لیتا ہے تو وہ آخر کس جر م کا مرتکب ہے
انھوں نے اپنی وسیع المشربی کے اس نظریہ کو بھی بالکل بجا طور پر رد کر دیا کہ حکومت صرف پو لیس اور عدالت کے فر ا ئض انجام دے اور معاشی زندگی کے کا روبا ر سے کچھ غرض نہ رکھے ۔ انھوں نے کہا قومی معیشت کے مختلف عناصر کے درمیان ہم آہنگی اور توافق اور تعاون پیدا کرنا اور نزاع و کشمکش کے اسباب کو دور کرنا قومی ریاست کے فرائض میں سے ہے ۔انھوں نے ایک طرف ہڑتال کو اور دوسری طرف کا رخانے بند کرنے کو ازروئے قانون ممنوع ٹھیرایا۔ اجیروں اور مستاجروں کی مشترک کو نسلیں بنائیں۔ان کے درمیان حقوق و فرائض انصاف کے ساتھ مقرر کرنے کی کوشش کی اور ان کے جھگڑوں کو چکانے کے لیے با ہمی گفت و شنید،پھر پنچا یت اور با لآخر عدالتی فیصلہ کا ایک با قاعدہ نظام مقرر کر دیا۔
انھوں نے سرمایہ داری نظام کی اس خرابی کو دور کرنے کی کوشش کی کہ جو لوگ بیکار ہو تے ہیں یا ناکارہ ہو جاتے ہیں کن کی خبر گیری کا کو ئی ذمہ دار نہیں ہو تا۔اس طرح بے وسیلہ لو گوں کو بے سہارا چھوڑ دینے کے جو نقصانا ت ہو سکتے ہیں،نا زیوں اور فاشیوں نے ان کو محسوس کیا اور بہت وسیع پیمانےپر سوشل انشو رنس کا اہتمام کیا جس کے ذریعہ سے بیماری،بڑھاپے ،بیکاری اور حادثات کی صورت میں کا رکنوں کو مدد دی جاتی تھی۔ نیز انھوں نے ماؤں اور بچوں کی نگہداشت ،فلاح اطفال،اپاہجوں اور معذوروں کی خبر گیری،جنگ میں نا کا رہ ہو جا نے والوں کی امداد ،لا وارث بوڑھوں کی دیکھ بھال اور ایسے ہی دوسرے امور خیر یہ کے لیے عظیم الشان ادارے قائم کیے ۔ جنگ سے پہلے جرمنی میں اس طرح کا جو ادارہ قائم تھا اس نے تقریبا 50لاکھ افراد کو سنبھال رکھا تھا۔
انھوں نے بے قید معیشت کے اس عیب کو دور کرنے کی طرف بھی توجہ کی کہ سارا معاشی کا روبار بغیر کسی نقشے اور منصوبے اور ہم آہنگی کے چلتا رہتا ہے اور اس کی وجہ سے معاشی وسائل پو ری طرح سے استعمال نہیں ہو تے اور جتنے کچھ استعمال ہو تے ہیں ان میں تو ازن نہیں ہو تا۔اس خرابی کو دور کرنے کے لیے انھوں نے قومی معیشت کی رہنمائی اور تنظیم وتو فیق (co-ordination)کا کام ریاست کے ہاتھ میں لے لیا،معاشی زندگی کے تمام شعبوں کی کو نسلیں بنائیں،اور ایک مضبوط اور منظم طریقے سے پیداوار کے وسائل اورقوتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی ۔اس طرح انھوں نے بے روزگاری کا خاتمہ کر دیا ۔[1933ءمیں جب نازی پارٹی برسر اقتدار آئی تھی تو جرمنی میں تقریبا80لاکھ آدمی بے کا ر تھے مگر چند سال بعد یہ نوبت آگئی کہ کہ جرمنی کو کا رکنوں کی کمی کا شکوہ تھا۔] پیداوار میں حیرت انگیز اضا فہ کیا اور مختلف شعبوں میں ہموار ترقی کی۔